Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹوٹتی جوانیاں

ریاض توحیدی

ٹوٹتی جوانیاں

ریاض توحیدی

MORE BYریاض توحیدی

    پبلک سروس کمیشن کی طرف سے سلیکشن لسٹ، جو ایک مقامی نیوز پیپر میں مشتہر ہو اتھا، میں اپنا نام دیکھ کر میں بے حد خوش ہوا۔ کچھ دنوں کے بعد میری پوسٹنگ شہر سے باہر وادی کے ایک دور افتادہ علاقے گلشن آباد کی گئی۔ ویسے تو میری خواہش شہر میں تھی لیکن میں پھر بھی مایوس نہیں ہوا۔ میں نے سوچا کہ ایک نسبت سے اچھا ہی ہوا۔ اس طرح اپنی اس گلپوش وادی کے پورے حسن سے محظوظ بھی ہونگے اور دور افتادہ علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے رہن سہن اور زندگی گزارنے کے طور طریقوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملےگا۔ دیہاتی لوگوں کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا۔ دیہات میں ایک دہائی گزارنے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ اگر سادگی، ہمدردی، بھائی چارہ، خلوص اور شرم و حیا کو اس کے فطری صورت میں دیکھنا ہو اور ان انسانی خصائل کا حقیقی مشاہدہ کرنا ہو تو دیہات میں جانا چاہیئے۔ ویسے تو شہر میں بھی یہ چیزیں ناپید نہیں ہیں لیکن گاؤں کے مقابلے میں شہر کی فضا ہی ایسی ہے کہ یہاں مصنوعیت اور مسابقت کا کچھ زیادہ ہی دور دورہ ہے۔

    میری پوسٹنگ گلشن آباد کے پوشہ پورہ گاؤں کے سرکاری اسپتال میں ہوئی۔ رات کے آٹھ بجے میں اسپتال پہنچا۔ میں چوکیدار سے چابی لے کر سیدھے کو ارٹر میں داخل ہوا۔ اپنا لو گیج وغیرہ کمرے میں رکھ کر پہلے میں نہایا، کچھ دیر کے بعد چوکیدار نے کھانا وغیرہ تیار کیا اور کھانا کھانے کے بعد سو گیا۔ صبح سویرے جاگنے کے بعد میں نے کمروں کی صفائی کروائی۔ قریباً دس بجے لوگوں کا ایک ہجوم اسپتال کے صحن میں نمودار ہوا۔ چوکیدار میرے کمرے میں حاضر ہوکر بولا ‘’صاحب! گاؤں کے لوگ آپ سے ملنے آئے ہیں۔‘‘ میں نے چوکیدار سے کہہ کر انہیں اسپتال کی پارک میں ٹھرایا۔ میں کپڑے تبدیل کر کے میڈیسن کا بیگ ہاتھ میں اٹھا کر پارک میں آ گیا۔ پارک میں داخل ہوتے ہی گاؤں کی عورتوں نے گلابی پھولوں سے میرا استقبال کیا۔ تمام لوگو ں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ سب سے پہلے میرے سامنے دودھ پیش کیا گیا۔ اس کے بعد ایک بڑا ٹوکر ا سامنے رکھا گیا۔ جس میں مختلف قسم کے پھل، سبزیاں، انڈے وغیرہ رکھے ہوئے تھے۔ مجھے اجنبیت کا قطعی احساس نہیں ہوا۔ میں نے اپنا تعارف کرنے کے بعد تمام گاؤں والوں کا شکریہ ادا کیا۔ گاؤں کے ایک بزرگ ماسٹر نے اپنا تعارف کرنے کے بعد تمام لوگوں کا تعارف کرایا۔

    دن گزرتے رہے۔ میں دن بھر اخبارات اور رسائل پڑھنے میں مشغول رہتا تھا۔ کبھی کبھا ر ہی کوئی مریض اسپتال میں آتا تھا۔ گاؤں کے لوگ کافی محنتی ہوتے ہیں۔ وہ دن بھر کھیتوں میں کام کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا جسم چست رہتا ہے۔ ان کی خوراک تازہ سبزی یاں، چاول اور پھل ہوتے ہیں اسی وجہ سے گاؤں میں رہنے والے لوگ کم ہی بیمار پڑتے ہیں۔ ایک صبح جب میں ابھی بستر پر ہی لیٹا ہوا تھا کہ باہر سے ہر طرف چیخ و پکار کی آواز یں آ رہی تھیں۔ میں جلدی بستر سے اٹھا اور کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔ اسپتا ل کے احاطے میں گاؤں کے تمام لوگ جمع تھے۔ میں نے بہت ساری لڑکیوں کو رسیوں سے باندھا پایا۔ لڑکیاں پاگلوں کی طرح اپنے کپڑے پھاڑنے کی کوشش کر رہی تھیں اور عجیب و غریب آواز میں ‘’دیکھو ہماروا یہ گلستان جس کی ہم ہیں کلیاں‘‘ گارہی تھیں۔ میں یہ وحشت ناک منظر دیکھ کر بدحواس سا ہو گیا اور دوڑتے ہوئے ان لوگوں کے پاس پہنچا ’’یہ سب کیا ہیں‘‘ میں نے طیش میں آکر ایک نوجوان کو تھپڑ مارتے ہوئے پوچھا۔ اسکول ماسٹر جلدی سے سامنے کھڑا ہوا اور تیز لہجے میں بولا۔

    ‘’ڈاکٹر صاحب! پہلے آپ ان سب لڑکیوں کو بےہوشی کا انجکشن لگائے۔ بعد میں ہم بتا دینگے ۔‘‘

    ان لڑکیوں کا علاج کرنے میں پورا دن گزر گیا۔ دن بھر میں سوچتا رہا کہ ان سیدھے سادھے اور ملنسار لوگوں کو کس آفت نے آج گھیر لیا اور یہ مصیبت ان پر کیوں ٹوٹ پڑی۔ دن ڈھلنے کے ساتھ ساتھ تقریباً تمام لڑکیاں اپنی اصلی حالت میں آ گئیں۔ میں کوارٹر میں چلا گیا۔ چائے وغیرہ پینے کے بعد میں بیڈ پر تھکان دور کرنے کے لئے لیٹنے ہی والا تھا کہ گاؤں کا بزرگ ماسٹر اپنی جوان سال بیٹی کو ساتھ لے کر کمرے میں داخل ہوا۔ میں اس دلدوز واقع کی وجوہات جاننے کے لئے ویسے ہی بےقرار تھا اس لئے میں ماسٹر سے جلد ہی پوچھ بیٹھا ‘’ماسٹرجی! یہ کیا ماجرا ہے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے۔ میں اس گاؤں میں ہمیشہ انسان دوستی، بھائی چارہ، امن و امان اور انسانیت ساز ماحول دیکھتا آیا۔۔۔ لیکن۔۔۔؟

    ماسٹر جی میری بات کاٹتے ہوئے روتے روتے کہنے لگا۔‘‘

    ’’یہ میری جوان بیٹی ہے۔ یہ لگ بھگ پنتیس برس کی ہے جن دوسری لڑکیوں کا علاج کرنے میں دن بھر آپ مصروف رہے۔ وہ چالیس لڑکیاں بھی تقریباً اسی عمر کی ہیں۔‘‘

    ‘’لیکن ان سب لڑکیوں کی یہ حالت آج ہی کے دن ایک ساتھ کیسے ہوئی؟‘‘ میں نے ماسٹرجی کو کرسی پر بٹھاتے ہوئے پوچھا۔

    میرے پوچھنے پر ماسٹر جی کی بیٹی زاد و قطار رونے لگی اور اپنے لوگوں کی درد بھری کہانی سنانے لگی۔

    ‘’ڈاکٹر صاحب آج’’ یوم فتح کی تاریخ ہے۔ آج ہی کے دن ہمارا عظیم گلستان غیروں کی غلامی سے آزاد ہوا ہے۔ اسی دن۔۔۔ ہاں۔۔۔ اسی یوم فتح کے دن۔۔۔ بیس سالہ پہلے، جب میری عمر سولہ برس تھی ہم لوگ یوم فتح کا جشن منا رہے تھے، اپنے والد صاحب کے ساتھ ایک مہینے تک میں گاؤں کی لڑکیوں کو یوم فتح کے دن پروگرام پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف رہی۔ یوم فتح کی تقریب منانے کے سلسلے میں تمام گاؤں والے اسپتال کے وسیع گراونڈ میں موجود تھے۔ گلستان کے پاسبان اسٹیج پر بیٹھے ہوئیے تھے۔ فتح کا پرچم لہرایا گیا۔ ہر طرف خوشی کا سماں تھا۔ میں گاؤں کی لڑکیوں کو فتح کے گیت پڑھا رہی تھی۔ لڑکیاں بھی ترنم کے ساتھ بلند آواز میں ‘’دیکھو ہمارا یہ گلستان جس کی ہم ہیں کلیاں‘‘ گا رہی تھیں کہ اچانک زور دار زلزلہ آیا۔ بہت سارے گاؤں والے اور کچھ پاسبان اس زلزلے میں مر گئے۔ چار سو سناٹا چھا گیا۔ ہم یوم فتح کا جشن منا رہے تھے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ زلزلہ کیسے ہوا۔ تمام پاسبان حواس باختہ ہو گئے۔ جو لوگ ابھی تک اسٹیج پر ہماری امن پرستی کی قسمیں کھا رہے تھے۔ اچانک انہیں ہم سب سے بڑے امن دشمن نظر آنے لگے۔ تمام بستی کھنڈرات میں تبدیل ہو گئی۔ گلستان کے پاسبانوں نے سرعام لوٹ مار اور بربریت کا ننگا ناچ کھیلا اور نازک کلیوں کو ظالم گلچیں نے مسَل کر رکھ دیا۔ ‘‘ماسٹر جی کی بیٹی اس انسانیت سوز سانحہ کا ذکر کرتے ہوئے بےہوش ہوئی اور فرش پر گر پڑی۔ ہم نے اسے بیڈ پر لیٹا دیا۔’’ ڈاکٹر صاحب! یہ ہے اس سانحہ کی روداد۔ ‘‘ماسٹر جی نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔’’ پچھلے بیس برسوں سے گاؤں میں کسی بھی لڑکی کی ڈولی نہیں اٹھی کیونکہ گلستان کے دلیر پاسبانوں نے ان کی عز ت لوٹ کر جو سیاہ دھبے ان کے پاک دامن پر لگا دئیے۔زمانے کی گردش نے ابھی تک وہ صاف نہیں کئے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے 20 برسوں سے ظلم کا شکار ہوئی ہماری لڑکیاں یوم فتح کے دن اپنے حواس کھو بیٹھتی ہیں اور ہمیں مجبوراً انہیں رسیوں سے جکڑنا پڑتا ہے۔ ‘‘ماسٹر جی کی بیٹی بےہوشی کے عالم میں‘’ دیکھ ہمارا گلستان جس کی ہم ہیں کلیاں ‘‘گا رہی تھیں۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ آج محبت سے نہیں بلکہ نفرت کی وجہ سے یہ پڑھ رہی ہے اور اسکے دل میں انتقام کا آتش فشاں پک رہا ہے؂‘‘

    کیا کہوں کس طرح سر بازار

    عصمتوں کے دیے بجھائے گئے

    (ناصر کاظمی)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے