Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اودھم پور کی رانی

رحمان مذنب

اودھم پور کی رانی

رحمان مذنب

MORE BYرحمان مذنب

    اگر ڈیرہ دارنی اور ٹکیائی کے درمیان میں کوئی چیز ہوسکتی تھی تو وہ سلطانہ تھی، جس نے ہوشیار پور میں پورا ہوش سنبھالا۔ وہیں پلی، بڑھی، جوان ہوئی۔ اس کی آواز اور بدن کے ساز دونوں میں سات سُر لگ گئے، پھر بھی وہ بے سری رہی۔ ٹھمریوں کے نگر میں رہتے ہوئے بھی ٹھمری نہ گاسکی اور گا بھی سکتی تو سننے کا یارا کسے تھا؟ ویسے وہ آپ بھی ٹھمری تھی۔ پیابن نا ہے آوت چین۔ بیکل، بیقرار رہنے والی ٹھمری۔

    بڑے بڑے خان صاحبان کی شاگرد بنی۔ یوں کہیے بڑے بڑے خان صاحبان نے اسے شاگرد بنایا، مغز کھپایا لیکن وہ ’’سارے گاما پادھانی‘‘ کی ترکیبیں حفظ نہ کرسکی۔ بدن کا گداز اس کی آواز کو لے ڈوبا۔ ہر صبح جب بازار میں ہارمونیم، سارنگی اور تانپورے کی سنگت میں عورتوں اور لڑکیوں کی تانیں ابھرتیں تو وہ لمبی تانے پڑی سوتی رہتی۔ سچ تو یہ ہے، اس کا اتنا قصور نہ تھا۔ سُرگیان روز بروز کم ہو رہا بلکہ ایکسپورٹ ہو رہا تھا۔ پاکستان کے بے مثال گویے بڑے غلام علی خاں بھارت جاچکے تھے۔ اِدھر ریڈیو اور فلم کی علمداری ہوئی تو کوٹھوں کے مجراخانوں کے برے دن آئے۔ خیال، ترانے، ٹھمریاں، دروازے کھنڈر ہوئے۔

    لوگ آواز کی بجائے اس کے بدن پر لپکتے۔ وہ شوخیوں اور شرارتوں سے اپنے بولتے ہوئے بدن کو چار چاند لگالیتی۔ پرانی قدریں غروب اور نئی قدریں طلوع ہوئیں۔ آواز کی بجائے جسم کی بکری بڑھی۔ اس کا مجراخانہ خالی رہنے لگا۔ استاد صاحبان کوٹھوں پر چلے گئے، جہاں اب بھی بدن کے ساتھ آواز بھی بک جاتی۔ اس کی لڑکیاں نادراں اور ثمینہ خالہ کے یہاں رہنے لگیں۔

    تماش بین آنے جانے لگے۔ شروع شروع میں متوسط طبقے کے لوگوں نے سرپرستی کی۔ پھر بڑے لوگ اس کے کوٹھے کا رخ کرنے لگے۔ اس کے بدن کی شہرت جنگل کی آگ بن کر پھیلی۔ اس کی آنچ اودھم پور کے شکاری کتوں تک بھی پہنچی۔ ان کی آمد و رفت ہوئی اور وہ اسے چھوٹے مرزا کی جاگیر پر جانے کے لیے ورغلانے لگے۔

    نواب مراد بخش کی موت کے بعد مرزا راحت بیگ کو گدی ملی کیونکہ وہ سب سے بڑا لڑکا تھا۔ نوا ب زادہ عزیز بیگ چھوٹا تھا اور جتنا چھوٹا تھا اتنا ہی کھوٹا تھا۔ دونوں سوتیلے بھائی تھے۔ اس کی وجہ سے سوتیلی ماؤں میں اعصابی جنگ رہتی۔ چھوٹی بیگم، چھوٹے مرزا کو نواب مرحوم کا جانشین بنانے کی فکر میں رہتی۔ ذہین عورت اودھم پور میں ہو یا بازار میں، اودھم ہی مچاتی ہے۔ شکاری کتوں نے یقین دلایا کہ انجام کار جاگیر چھوٹے مرزا کو ملے گی لیکن سلطانہ کو انجام مشکوک لگا۔ وہ حرافوں کی باتوں میں نہ آئی۔

    گرمیوں کی ا یک دوپہر کو جب چیل انڈا چھوڑ رہی تھی، مخلوقِ خدا گھروں میں منہ چھپا رہی تھی اور سڑکیں سنسنان پڑی تھیں، سلطانہ رئیس شہر راجہ غریب نواز کے پہلو میں بیٹھی اسے وہسکی پلارہی تھی۔ بلانوش راجہ، پوری بوتل پینے کے بعد بھی کہے جارہا تھا۔ سلطانہ نے ہاتھ کھینچ لیا اور قابل اعتراض حالت میں جانے کو تیار ہوئی۔ اتنے میں چوبارے تلے جیپ آکر رکی۔ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ملازم لپک کر آیا۔ اس نے بولٹ اتار کر تھوڑا سا دروازہ کھولا۔ شکاری کتوں نے دھکا دے کے ہٹایا۔ مکان میں داخل ہوئے۔ انہوں نے خالی فیر کیے اور سلطانہ کو راجہ کی گرفت میں سے نوچ کر لے گئے۔ بازار دیکھتا رہ گیا۔ یہی اس کی ریت تھی۔

    وہ اودھم پور میں چھوٹے مرزا کی رسوائے زمانہ محل سرا میں جاپہنچی جہاں کتنی ہی حرام زادیاں اور شریف زادیاں پہلے سے موجود تھیں۔ پتہ نہیں چلتا کہ بیگم کون، داشتہ کون اور کنیز کون ہے۔ ہر ایک کو اپنا مقام خود بنانا پڑتا۔ سلطانہ کو ماحول اچھالگا۔ اس نے بے مثال حسن و جمال اور کمال ہوش مندی کے باعث خاتون اوّل کا درجہ پالیا۔ ہر تقریب میں وہی پیش پیش ہوتی۔

    چھوٹے مرزا کو ماں کے لاڈ نے بگاڑا اور وہ باپ کی نقل مطابق اصل نکلا جس کے محل کی پچیس عورتوں میں سے آدھی سے زیادہ ہندوستان کے بازاروں سے لائی گئی تھیں۔ ان میں اِدھر اُدھر سے پکڑی دھکڑی ہوئی بیڑنیاں (پیرنیاں) بھی تھیں۔ نواب کی وفات نے نظام نسواں درہم برہم کیا۔ عورتیں کھسک گئیں۔ بیشتر چھوٹے جاگیرداروں سے چمٹ اور چپک گئیں۔ بڑی بیگم اور چھوٹی بیگم لڑنے کے لیے محل میں رہ گئیں۔ نواب مرحوم کے شکاری کتے چھوٹے مرزا کے پاس آگئے تھے۔ بازاروں کی پھیری لگانے اور ہیرا پھیری کرنے لگے۔

    سیانی کنیزوں نے سلطانہ کو از راہ ہمدردی اودھم پور کے محل کی روایت سے مطلع کیا کہ یہاں عورت ہنسنے کھیلنے، رونے پیٹنے اور کھنڈر ہونے کے بعد بصورت نعش باہر جاتی اور ٹھکانے لگتی ہے لیکن اس نے کہا، ’’میں ٹھکانے لگنے نہیں آئی، ہر ایک کو ٹھکانے لگانے آئی ہوں۔ خاتون اوّل ہوں۔‘‘

    اس دوران بھتیجے کی مصروفیات سے پریشان ہوکر چھوٹے مرزا کے چچا نے شکایتاً کہا، ’’چھوٹی بیگم! شہزادے کو سمجھاؤ، نواب مرحوم کے نقش قدم پر چل نکلا ہے۔ عورتوں میں اتنی دلچسپی لینا ٹھیک نہیں۔‘‘ چھوٹی بیگم بولی، ’’بھیا تم اپنی سی کرو، چھوٹے مرزا کو اس کے حال پر چھوڑدو۔ آخرنواب زادہ ہے، رئیس ہے۔ اس کے یہاں دل بہلانے کے کھلونے ہیں تو کیا مضائقہ ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ میرا لال غمزدہ رہے۔ ’’چچا اپنا سامنہ لے کر چلے گئے اور پھر انہوں نے بھتیجے کے بارے میں کبھی کچھ نہ کہا۔

    سلطانہ دبنگ عورت تھی۔ ٹھسّے سے رہتی اور کسی کو خاطر میں نہ لاتی۔ قدوقامت میں سب سے بلند و بالا تھی۔ ویسے بھی بالا خانے سے آئی تھی۔ اس نے چھوٹے مرزا کو مٹھی میں لے لیا۔ وہسکی پینے بیٹھتی تو چھوٹے مرزا کو پیچھے چھوڑ جاتی۔ سب شرکائے محفل ادھ موئے ہوجاتے تو اٹھ کر پائیں باغ میں ٹہلنے چلی جاتی۔ یہ سقراط کی ادا تھی جو رات بھر شرفائے شہر کے ساتھ شراب پیتا اور جب سب ہوش گنوابیٹھتے تو یہ آزاد مرد اٹھ کر حمام میں چلاجاتا۔

    سلطانہ نے پر پرزے نکالے اور محل سرا کی جغرافیائی حدود سے سواہوگئی۔ اسے اپنی ذات کو دریافت کرنے اور مخفی صلاحتیں جاننے کا موقعہ ملا۔ اسے پتا چلا کہ وہ کتنی اونچی ہے اور اپنا معیار کتنا اونچا کرسکتی ہے۔ اسے اپنے اختیار کا بھی علم ہوا۔ بادشاہ گر بن گئی۔ اس نے نعل بند دین محمد کو اصطبل کا داروغہ بنادیا اور اپنے لیے گھڑ سواری کی ترتیب پر مامور کرلیا۔ باورچی خانے کے مہتمم خاص نیاز خاں سے خاص تعلقات قائم کیے۔ عبدالحکیم کے عطار خانے کی سرپرستی کی۔ محل سرا کے لیے عرق، شربت، مربے، خمیرے وہیں سے آتے۔ طبیب خاص حسب الحکم معجونیں، جوارشیں، اطریفلیں، لعوق، رُب وہیں سے بنواتے۔ یہ سب لوگ ہوشیار پور سے آئے یا بلواے گئے تھے۔ سلطانہ ان پر بھروسہ کرسکتی تھی۔ سلطانہ سے سب عورتیں جلنے لگیں۔ انہوں نے ایک کنیز کو آگے کیا۔ کنیز چھوٹے مرزا کے حرم کی خاتون اول کے خلاف افسانے گھڑنے اور باتیں بنانے لگی۔ سلطانہ نے نیاز خان (مہتمم مطبخ) سے کہہ کر اسے زہر دلوادیا اور لاش کو کتوں کے آگے پھکوادی۔ بات چھوٹے مرزا تک پہنچی لیکن وہ کچھ نہ بولے۔ گدی کے مسئلے پر دونوں بھائیوں میں مقدمہ بازی چھڑی تھی اور سلطانہ انگریز جج کے بنگلے پر جاکر راتوں کشٹ کاٹتی تھی۔

    تناتنی بہت بڑھ گئی۔ چھوٹے مرزا نے نواب راحت بیگ کے تین آدمی ماردیے۔ عدالتی دوڑدھوپ انہی کے دم قدم سے تھی۔ نواب کے آدمیوں نے جو اب آں غزل کے طور پر حملہ کیا۔ دودربان، دوشکاری کتے، ایک کنیز اور ایک داشتہ جہنم رسید ہوئی۔ تناتنی اور بڑھی تو حفاظتی اقدامات بھی بڑھے۔ حفاظتی اقدامات میں وہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگی۔ بغاوت کے آثار نمودار ہوئے۔ چھوٹے مرزا کی پریشانیاں بڑھیں۔ عورتوں کے حوصلے بڑھے اور وہ من مانی کرنے لگیں۔ چھوٹے مرزا کو اصلاحِ احوال کی فرصت نہ تھی۔ ان کا وطیرہ دیکھ کر بس اتنا کہہ کر رہ جاتے، ’’عورت حرامن ہوجائے تو فرشتوں کو بھی بہکالے۔ اس کے آگے شرافت نہیں ٹھہرتی۔‘‘ اور محل سرا کی عورتوں نے تمام فرشتوں کو گمراہ کیا۔

    اور سلطانہ ان سب پر بازی لے گئی۔ مشہور کیا گیا کہ اس کے قبضے میں جن ہیں، جوآدھی رات کے بعد اس کے پاس پائیں باغ میں آتے ہیں۔ چھوٹے مرزا نے کہا، ’’مقدمہ جیت لینے دو۔ پھر اس کے سارے جن نکال دوں گا۔‘‘ لیکن مقدمہ جیتنے سے پہلے وہ ایک جن کے ساتھ بھاگ گئی۔ اسے اودھم پور میں جان کا خطرہ لاحق تھا۔ دشمن نے انگریز جج سے ملنے کا راز پالیا تھا۔

    محل سرا کی چار دن کی بادشاہت سے اس پر کچھ کچھ نواب زادیوں کا رنگ چڑھ گیا۔ لاہور آئی تو اس نے بڑے کڑے کا سب سے بڑا مکان لیا جو زیادہ کرایے یعنی مبلغ پچاس روپے ماہوار کے باعث اکثر خالی رہتا۔ اس نے ریاستی وضع اور وضعداری برقرار رکھی، تنگ پاجامہ تنگ فراک، نولکھا ہار، ہیرے جڑی انگوٹھیاں اور موتیوں والی جودھ پوری جوتی پہنتی۔ پان کھاتی مگر کلے صاف رکھتی۔ نادراں اور ثمینہ کو بھی بہن کے گھر سے پاس بلوالیا۔ بڑے کڑے میں خالص شرفاء کے پہلو بہ پہلو نوچیاں، خانگیاں، ٹکیائیاں اور لچی لفنگی عورتیں بھی رہتیں۔ یہ صورت گلی کے قرب کے سبب سے تھی۔ گلی کی عورتوں نے تھکن اتارنے اور ٹوٹے پھوٹے بدنوں کی مرمت کے لیے یہاں ٹوٹی پھوٹی کوٹھریاں لے رکھی تھیں۔ انہیں بمشکل چند گھنٹے ملتے جن میں اگلی بیٹھک کے لیے تھوڑی بہت توانائی اکٹھی کرلیتیں لیکن ہوتایوں کہ زیادہ توانائی زائل اور کم توانائی حاصل ہوتی۔ آخر بیچاریاں اللہ کی ماریاں گھس پس کر جوانی کے دن پورے کیے بغیر ہی بوڑھی ہوجاتیں۔

    ہمارا گھر بڑے کٹڑے کی آخری سراپا تھا۔ تاہم اس ملی جلی معیشت اور معاشرت سے قدرے محفوظ تھا۔

    سلطانہ بھرپور عورت تھی۔ تیس کے پٹیے میں ہوگی لیکن ابھی تک شوخ اور چنچل جوانی کی طنابیں تھامے ہوئے تھی۔ بدن کے خطوط، پیچ و خم اور زاویوں میں آغازِ شباب کی کشش تھی۔ بڑا کھچاؤ تناؤ تھا۔ انگ انگ میں لانبے لانبے بالوں کی سیاہی اندھی راتوں کے اندھیروں سے آنکھ مچولی کھیلتی۔ بھرے بھرے ہونٹوں سے شراب ٹپکتی۔ افرودائتی کا عریاں مجسمہ اس کے اعضا کی تراش خراش سے ہم آہنگ ہوگیا۔ مرمریں رانیں، مرمریں پنڈلیاں، مرمریں بانہیں۔ بولتی ہوئی مٹی کے گداز میں دیوی ڈھل گئی۔ چند ہی دن میں واضح ہوگیا کہ اس بھرپور عورت کو بے باکی سے جینا بھی آتا ہے اور آبرو سنبھالنا بھی۔ وہ شیرنی تھی جو اپنے جاہ و جلال کے بل پر اُن دولڑکیوں نادار اور ثمینہ کی حفاظت کرتی جو پرپرزے نکال رہی تھیں، ان کے بدن بولنے لگے تھے۔ ان میں سے چھوٹی والی تو ایڑیاں اٹھااٹھاکر دیوار کے اس پار دیکھنے بھی لگی تھی۔ یہ نادراں تھی۔

    دیوار سے دیوار ملی تھی۔ ذرا ذرا سی بات سن لو۔ اس کے گھر، برآمدے، آنگن میں میری تانک جھانک ایک قسم کا معمول تھی۔ اس میں شراور شرارت کا کوئی پہلو نہ تھا۔ اس تانک جھانک نے ایک دن مجھے شرمسار کیا۔ میرے اوپر پری آن گری۔ نئی نکور اور سُدھ تھی۔ گھر میں ڈھیروں لوٹی ہوئی پتنگیں تھیں لیکن اس دن پری بھلی لگی۔ اسے اڑانے ممٹی پر جاپہنچا۔ بلا ارادہ نیچے آنگن میں نظر پڑی جہاں کئی بار نادراں اور ثمینہ کے ساتھ ڈرنگے لگائے، پیڑ پر چڑھ چڑھ کر چھلانگیں لگائیں، آنکھ مچولی کھیلی لیکن آج جیسی کیفیت سے کبھی پالا نہ پڑا۔

    شیرنی نیم عریاں کھڑی بال سنوار رہی تھی اور اس کی آدھی شرافت الگنی پر لٹک رہی تھی۔ اس کا منہ دوسری طرف تھا۔ مجھ پر ایک دم شرم و حیا کا پردہ پڑا اور میرے اندر کی طاقت نے دھکا دے کر مجھے پرے پھینک دیا۔ منظر نظروں سے اوجھل ہوا لیکن پھر بھی بھرپور اعضا والا بدن آنکھوں میں تل گیا۔ خیال آیا یہ کیسی عورت ہے؟ دوبارہ منڈیر پر آیا تو وہ اندر جاچکی تھی۔ بیٹھ کر حسن کی لکیریں گننے لگا جنہیں وہ ہوا میں مچلنے کو چھوڑ گئی تھی۔ لڑکیاں آنگن میں آئیں تو ان کی نگاہیں مجھ پر پڑیں بلکہ ہوا یوں کہ ایڑیاں اٹھا اٹھاکر دیوار سے اس پار دیکھنے والی نے پہلے گردن اٹھاکر مجھے دیکھا اور پھر بہن کو دکھایا۔

    ’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ نادراں نے چیخ کر کہا۔ میں نے جواب میں اسے پری پتنگ دکھائی۔

    ’’کتنے بے شرم ہو تم!‘‘ کم گو ثمینہ نے جلال میں آکر کہا۔

    ’’ارے کسے بے شرم بنارہی ہے؟‘‘ سلطانہ اندر سے بولی اور باہر آگئی۔ اس نے ایک اٹنگا سا تولیہ لپیٹ رکھا تھا۔

    ’’دیکھو تو امی! یہ اوپر بیٹھا تکتا رہا اور تمہیں خبر بھی نہ ہوئی۔‘‘ نادراں نے کہا۔

    ’’برا کیا تو اس نے، عذاب کمایا تو اس نے، تم کیوں آپے سے باہر ہوئی جاتی ہو؟ شریفوں کے یہاں شور نہیں مچتا۔‘‘ سلطانہ نے لڑکیوں کو اندر ڈھکیلتے ہوئے کہا۔

    میں گھر سے نکلا تو شریفوں کی ڈیوڑھی سے چیخیں سنائی دیں۔ لپک کر اندر گیا تو علاؤالدین المعروف لاوانہایت شرافت سے شریفوں کے ہاتھ پٹ رہا تھا۔ شرافت کا ثبوت دینے کے لیے میں بھی اس پر پل پڑا۔ یہ پوچھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ پٹنے والے سے کیا گناہ سرزد ہوا۔ اس کی زبان سے فقط اتنا سنا، ’’بی بی جی! پھر کبھی نہیں کروں گا۔‘‘ اس واضح جملے میں مجھے اپنے جارحانہ اقدام کی وجہ جواز پنہاں ملی۔ میں نے حقِ ہمسائیگی ادا کیا اور بساط سے کچھ بڑھ کر ہی ادا کیا۔ نادراں اور ثمینہ نے بھی جو ہر دکھائے۔ جب وہ دھکے کھاکر باہر نکلا تو ماتھا پھوٹ رہا تھا اور اچھی طرح چل بھی نہ سکتا تھا۔ گناہ کے بوجھ تلے دبا جارہا تھا۔

    میں نے اپنی مقفی اور مسجع شرافت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’سالے! یہ شریفوں کا محلہ ہے۔ لچوں، لفنگوں کا اُدھر محلہ ہے۔ یہاں شریف بن کر رہے گا تو چین پائے گا ورنہ جوتے کھائے گا۔‘‘ اس نے جواب میں سڑک کے پتھر کو ٹھوکر ماری، سرجھٹکا، طنزیہ لہجے میں ’’ہونہہ‘‘ کہا اور چلا گیا۔ کھاٹ سے جالگا۔ تین دن بعد جب برف بیچنے بیٹھا اور سامنے چھجے پر نادراں آکر مسکرائی تو وہ بھی مسکرادیا۔

    سلطانہ سے پتا چلا کہ کمینے نے نادراں پر ہاتھ صاف کرنا چاہا تھا جس کے باعث ٹوٹ پھوٹ ضروری ہوئی۔ ایک دن باغ میں مولسریاں بٹورتا ملا۔ مولسریوں کے پیڑ چکنی روشوں پر سایہ ڈال رہے تھے اور ملگجے رنگ کی بھینی بھینی خوشبووالی مولسریاں ان کے نیچے بکھری پڑی تھیں۔

    ’’یہ کیا کیا تونے لاوے اس دن؟ آپے میں نہ رہ سکا؟‘‘ میں یوں مخاطب ہوا جیسے الف سے ے تک واقعے کی تفصیل جانتا تھا حالانکہ سلطانہ نے صرف اس کی ابجد سے آگاہ کیا تھا۔

    ’’میاں جی! میں نے کچھ نہیں کیا۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ وہ جو چھوٹی والی ہے نانادراں، آفت کی پرکالہ ہے۔ اسی نے تہمت باندھی ہے اسی نے یہ سب کچھ کیا۔‘‘

    ’’اچھا تو شرارت تیری نہیں اس کی تھی؟‘‘

    ’’اور کیا، گشتیوں نے جو کچھ بتایا وہ سارا جھوٹ ہے۔‘‘

    ’’ہوں تو یہ بات ہے۔‘‘

    ’’ہاں میاں جی، اس حرافہ نے چھجے میں آکر برف پکڑا جانے کو کہا۔ برف لے کر گیا تو سیڑھیوں میں آکر مجھے گھیر بیٹھی۔ قسم مولا کی میں نے کچھ نہیں کیا۔ وہی درندی بدن میں دانت گاڑتی رہی بس یہ سمجھ، آندھی تھی۔ جتنا اپنے آپ کو چھڑاتا آندھی اتنا ہی جکڑ لیتی اللہ جانے بڑی لچر نکلی۔ ادھر تنگ سیڑھیاں، ہاتھ میں برف اور ادھر یہ آفت۔ میرے تو ہوش ہی گم کردیے کتی نے۔ چھڑانے کی بڑی کوشش کی پر اس میں تو جی سے جن سمایا ہوا تھا، چھوڑنے کانام ہی نہ لیتی۔ ایک طرف ہٹا تو سر ٹھاہ کرکے دیوار سے جالگا۔ برف گرگئی۔ شیرنی سرپر آکر گرجی، ’’یہ کیا حرامی پن ہے؟‘‘

    ’’یہ مجھے چھوڑتا ہی نہیں۔‘‘ بدذات نادراں بولی۔ وہ ایک دم دھکا دے کر الگ ہوئی اور میری پٹائی ہونے لگی۔

    لاوے میں خاصا کس بل تھا۔ میں نے پوچھا، ’’تم چاہتے تو تینوں کو پچھاڑ پھینکتے، پٹ کیسے گئے؟‘‘

    ’’وہ زنانیاں تھیں زنانیوں سے کیسے مقابلہ کرنا؟‘‘

    ’’لیکن تو تو مجھ سے بھی پٹ گیا۔‘‘

    ’’میاں جی! اس وقت تو تم بھی مجھے زنانی لگے تھے۔‘‘

    ہم باتیں کرتے رہے۔ ایک بات میں نے اسے سمجھادی، ’’پگلے اودھم پور کی منہ چڑھی بیگم ہے۔ بچ کے رہنا۔ کپتان آتا ہے اس کے یہاں۔ یہ اونچا قد اور یہ بڑی بڑی مونچھیں ہیں اس کی۔ اسے کہہ کہیں گولی سے نہ مروادے۔‘‘

    ’’رہنے دو میاں جی! میں سب کچھ جان گیا ہوں۔ گلی کی جوٹھ ہے۔ گلی سے اٹھ کر گئی تھی اودھم پور۔ بڑی بنی پھرتی ہے رانی۔‘‘ اس کی باتوں میں خوف کا شائبہ تک نہ تھا۔ ویسے اس دن کوئی انوکھا واقعہ نہ ہوا تھا۔ ڈیوڑھیوں، سیڑھیوں اور غسل خانوں میں ایسی وارداتیں ہوتی رہتیں اور وہیں دم توڑ کر رہ جاتیں البتہ منشی الٰہی بخش کے کانوں میں بھنک پڑجاتی تو پھر کچھ نہ کچھ ہو رہتا۔ انہوں نے خود کو محتسب کے فرائض پر مامور کر رکھا تھا۔ ان کے سامنے کوئی گردن اٹھاکر سینہ تان کر نہ چل سکتا۔ انہوں نے لاوے کو اپنی کچہری میں طلب کیا۔ یہاں کے فیصلوں کا احترام کیا جاتا۔ ایک بار اسی کچہری کے فیصلے پر مرلی شاہ قلندر کو تھڑے پر بیٹھ کر بآواز بلند ’’لچھئے کنوار گندلے‘‘ گانے پر لاوے سے پٹوایا گیا تھا اور آج لاوا بطور ملزم اسی کچہری میں پیش ہوا تھا۔

    ’’سچ کہتا ہے تو بے خطا ہے؟‘‘ منشی الٰہی بخش نے کڑک کے کہا۔

    ’’منشی صاحب جی! میں خدا کو حاظر ناظر جان کر قبلہ منہ کہتا ہوں کہ میری کوئی خطا نہیں۔‘‘ اس نے قبلہ رُو ہوتے ہوئے کہا۔

    ’’قرآن اٹھالے گا۔‘‘

    ’’نہیں منشی صاحب جی! جان سے مارڈالو۔ دوجہانوں کے والی کو نہیں اٹھاؤں گا۔‘‘ خاصا پیچیدہ کیس تھا۔ پورے واقعے کاکوئی گواہ نہ تھا۔ میری گواہی ادھوری تھی۔ میں نے لاوے کے صرف یہ الفاظ دہرائے، ’’بی بی جی! پھر کبھی نہیں کروں گا۔‘‘ لیکن اس پر لاوے نے کہا، ’’مرتا کیا نہ کرتا؟ جان چھڑانے کے لیے کچھ تو کہنا ہی پڑتا تھا۔ بہرحال معاملہ طول نہ پکڑسکا۔

    منشی الٰہی بخش جس بات کو دبانا چاہتے وہ دب جاتی جس بات کو اٹھانا چاہتے وہ اٹھ جاتی۔ سلطانہ کی بات انہوں نے دبادی لیکن مائی پھر و جاں جوشوشہ چھوڑے بغیر نہ رہتی نچلی نہ بیٹھی۔ بڑی گھاگ عورت تھی۔ سات پردوں میں چھپے ہوئے راز نکال لاتی۔ کئی لڑکیوں کے پیٹ صاف کیے اس نے۔ کئی کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اسے دوسروں کے پیٹ میں گھسنا اور دادی نانی بن کر محفوظ ترین راز اگلوانا آتا تھا، ایک دم دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتی اور دل کی دھڑکنیں گن کر مرض کا پتالگالیتی۔ لاوے کی پٹائی کا سن کر اس کی تجسس والی رگ پھڑکی اور حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کے لیے بے قرار ہوئی۔ اس نے سلطانہ اور نادراں اسے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ان کی باتوں کو الٹایا پلٹایا، چھانا پھٹکا اور تقابلی مطالعہ کرکے اپنی پڑوسن سے کہہ ڈالا، ’’ماں کا شکار بیٹی کے ہتھے چڑھا۔ بھلا ماں کا ہوا نہ بیٹی کا۔ لاوے کی مفت ٹھکائی ہوئی۔‘‘

    ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی۔ بات پھیل گئی لیکن سلطانہ کی پیزار سے۔ اس نے اپنے معمولات میں سرِموفرق نہ آنے دیا۔ بلکہ الٹا پروپیگنڈا شروع کیا اور کہا، ’’حرامزادی آئی تھی، کیا میٹھی بن کے راز لے گئی۔ چڑیل ہے، نری چڑیل۔‘‘

    سلطانہ آندھی تھی تو حکیم عبدالحکیم ہوا کی نرم رَو لہر تھے جنہوں نے اپنی نام نہاد بیوی کے معاملوں میں کبھی دخل نہ دیا۔ وہ اپنے عہد کے آدھے سقراط تھے۔ سقراط کی بیوی سلطانہ کی طرح زور آور تھی۔ سقراط نے اسے برداشت نہ کیا اور چھوڑ د یا لیکن اودھم پور کے شاہی عطار حکیم عبدالحکیم نے اسے برداشت ہی نہیں کیا بلکہ اسے اپنے حال پر چھوڑ د یا۔ اودھم پور کی خاتون اول ٹپکے کا آم تھی جو خوش نصیبی سے اپنے آپ ان کی جھولی میں آگرا۔ وہ اس کے احسان مند تھے۔ طبعاً بھلے آدمی تھے۔ عطار خانے پر ہر عمر اور حسن و رعنائی کے اعتبار سے ہر قسم کے مجسمے آتے۔ سیدھی سادھی عورتیں جو بدن کا تیکھا پن موٹی موٹی تہوں میں ڈھانپ لیتی اور صیقل کی ہوئی کٹاریں ڈھیلی ڈھالی چادر میں رکھ لیتیں، حکیم عبدالحلیم کے سامنے آکر بیٹھ جاتیں۔

    وہ ہر عورت کو بغرض شناخت سرسری طور پر دیکھتے اور نظریں جھکاکر کام کرنے لگتے۔ وہ انہیں حکیم جی کہتیں حالانکہ وہ صرف عطار تھے اگرچہ ہوشیار اور تجربہ کار تھے۔ اودھم پور میں رہ کر انہوں نے کتنے ہی قرابادینی نسخے حفظ کیے تھے۔ لمحات فرصت میں کشمیری بازار کی شائع شدہ کارآمد اور غیر کارآمد کتابیں پڑھتے، سونابنانے کے تجربے بھی کرتے۔ عورتیں آکر چپ نہ بیٹھتیں لیکن وہ حتی الامکان چپ رہتے۔ کوئی شوخ چنچل زیادہ ہی ستاتی تو وہ آنکھیں جھکائے کہتے، ’’یہاں کچا ٹپکانے نہیں آئی جو یوں کلکل لگا رکھی ہے تونے، صبر کر۔‘‘

    ’’ہَوہائے۔‘‘ وہ شوخ چنچل چمک کر کہتی، ’’حکیم جی شرم نہیں آتی سب کے سامنے ایسی ننگی باتیں کرتے ہیں؟‘‘ وہ اسی طرح نظریں نیچی کیے کہتے، ’’شرم بھرم کچھ نہیں۔ چودہویں صدی ہے۔ یہ کٹڑی ہے۔ میری باتیں بری لگتی ہیں تو کسی دوسرے محلے میں جارہو۔ یہاں کی بولی تو ایسی ہی ہے۔‘‘

    واقعی چودہویں صدی تھی اور ایسی ہی تھی جیسی حکیم عبدالحکیم بیان کرتے اور کٹڑی کا تو چودھویں صدی سے بھی ز یادہ شہرہ تھا۔ شریف اور پرلے درجے کے لوگ یہاں رہتے تھے تو ایسی بے نکاحی عورتیں بھی آباد تھیں جو یاروں کے ساتھ بھاگ کر آئی تھیں۔ کٹڑی والیاں حکیم جی کی سرپرستی کرتیں۔ علاوہ ازیں ٹبی کی ٹکیائیاں اور بازار شیخو پوریاں کی ڈیرہ دارنیاں بھی انہیں کے یہاں سے شربت، مربے اور چٹنیاں منگواتیں۔ وہ بہتیرا کماتے۔ سب کچھ سلطانہ کو تھماتے۔ وہ ساٹن، زربفت، مخمل اور شنگھائیاں خریدتی۔ وَن سونے کپڑے سلواتی اور اودھم پوری شان دکھاتی۔

    عطار خانہ کامیابی سے چلتا رہتا لیکن پھر ہوا کا رخ بدلا۔ انہوں نے غلطی سے اپنا تیار کیا ہوا کشتۂ شنگرف کھالیا۔ یہ ٹھیک نہیں بناتھا۔ طرح طرح کے نسخے برتے لیکن موت پر کب کوئی نسخہ چلا ہے۔ مرحوم ہوئے اور عطار خانہ ان کے شاگردِعزیز مسمی عبدالخالق کی تحویل میں چلا گیا۔

    سلطانہ نے سوگ منایا۔ محلہ دارنیاں آتیں۔ ہر ایک کی زبان پر کم و بیش اسی مفہوم کے الفاظ آئے، ’’جو کچھ ہوا، اللہ کے حکم سے ہوا۔ تقدیر کا لکھا کون ٹالے؟‘‘ پھر محلے کی نیک نام بیواؤں کی طرح شرافت کی چادر اوڑھ کر خاموش زندگی گزارنے کا مشورہ د یا۔ تقریباً سب نے شریفن کا حوالہ ضرور د یا جو متفقہ طور پر محلے کی مثالی بیوہ تھی۔ شریفن اپنے مقام سے آگاہ تھی۔ وہ بڑی بن کے آئی اور بولی، ’’بہن!میاں مرے بیس سال ہوئے۔ قسم لے لو جو آج تک کسی کے آگے ہاتھ پھیلاہو۔ گھر گھر کام کرکے پیٹ پالتی ہوں۔ خدانے عزت سے اتنا گزار دیا۔ تھوڑا سارہ گیا ہے وہ بھی گزرجائے گا۔‘‘

    شریفن نے بیوگی کا کٹھن سفر طے کرنے کی آزمودہ ترکیب اس عورت کو سمجھائی جو اودھم پور میں فاتحانہ شان سے رہی۔ جو بدن کو سیدھا کھینچ کر بصدناز غلام گردشوں میں سے گزرتی تو اسے دیکھ کر کچھ عورتیں راستہ چھوڑ دیتیں اور کچھ جل کر راکھ ہوجاتیں۔ مائی پھر وجاں بھی اپنا پارٹ ادا کرنے سے نہ چوکی۔ اس نے آکر ایک ایک بیوہ کا بھانڈہ پھوڑا۔ صاف صاف بتایا کہ کس کس نے اس سے پیٹ صاف کروایا۔ کس کس کا پیٹ اس نے چھپایا۔ اس نے انکشاف کیا کہ نام نہاد مثالی بیوہ اندرونِ خانہ مولوی ظہور دین کی داشتہ ہے۔ وہ اس کے دوحرامی بچے ٹھکانے لگاچکی ہے۔ دیکھوتیسرے کی باری کب آئے۔

    سلطانہ نے سب کی بکواس سنی۔ سنجیدگی سے سوگ منایا اور شرافت کی چوکھی گاڑھی چادر اوڑھے رکھی۔ چالیس دن پورے ہوئے۔ چالیس دن کے بعد زچہ نئی نویلی ہوجاتی ہے۔ چالیس ہی دن میں مردہ ٹھکانے لگتا ہے۔ چالیس دن کے بعد اس نے شرافت کی چادر تہہ کرکے بڑے صندوق میں رکھ دی اور نئی نویلی ہوگئی۔ نئے ارادوں کی چھاؤنی میں ازسرنو صبح طلوع ہوئی۔ جوانی کی لکیریں جو چالیس دن تک دھندلاتی رہیں پھر نکھرآئیں۔

    نادراں بھی خوب تھی۔ ماں کے سارے گن اس میں موجود تھے۔ نفسیات دان تھی۔ ضرورت کے تحت نہیں بغرض تسخیر چھجے میں جلوہ گر ہوئی۔ لاوا چھجے کی طرف دیکھتا۔ موتیے کے پھولوں والی خوشبودار مسکراہٹ دیکھتے ہی تمام گاہکوں کو نظرانداز کردیتا اور کسی لڑکے کو برف کا ڈلا تھماکر بھیج دیتا۔ پٹائی کے بعد بدن کے زخم مندمل ہوئے تو دل میں زخم پڑگئے اور گدگدانے لگے۔ نادراں کی مسکراہٹوں سے کھیلنا چاہتا تھا لیکن راستے میں سلطانہ کھڑی تھی۔

    لاوے کی دکان اونچی تھی، وہ بلیک بھی کرنے لگا تھا لیکن سلطانہ کا معیار زراس سے بہت اونچا تھا۔ اودھم پور کی محل سرا میں جو چادرن گزارے، اس سے مزاج شاہانہ ہوگیا اور وہ صرف ان لوگوں کو خاطر میں لاتی جو دولت والے ہوتے یا دولت مند بننے کی صلاحیت رکھتے۔ لاوا ابھی اس کی منزل سے کوسوں دور تھا۔

    سلطانہ کا ترکش کبھی خالی نہ ہوا۔ اس کے پاس کئی تیر تھے۔ اس نے مستری دین محمد کو اپنے قرب کا شرف بخشا۔ اودھم پور کے بعد ایک بار پھر اس کی قیمت چمکی۔ چمکتی بگھی پر ریاستی شان سے سلطانہ آئینہ دیکھتی، بال سنوارتی، چست پاجامہ ٹھیک کرتی، فراک کھینچ کر سلوٹ نکالتی اور اودھم پور کی شہزادی بن کر دہلیز پر آن کھڑی ہوتی۔ بسم اللہ، ماشاء اللہ کہہ کہہ کر مسکراتی اور مستری دین محمد کے ہاتھ سے وہ ٹوکری لے لیتی جو کبھی کبھی مٹھائی اور کبھی پھل سے لدی پھندی ہوتی۔ گھٹے ہوئے جسم اور ادھیڑ عمر کا صحت مند آدمی تھا۔ کنپٹیاں چٹی تھیں۔ رنگت پختہ سانولی تھی۔ اس نے وہ پریشانی دور کردی جو ریاستی وظیفے کی بے قاعدگی اور حکیم عبدالحکیم کی موت سے سلطانہ کو لاحق ہوئی تھی۔ بلاکی خرچیلی عورت تھی۔ مستری دین محمد کی بھری جیبیں آسانی سے خالی کرلیتی اور ساری رقم اڑاکر ہتھیلی پھیلادیتی۔ وہ عطار خانے کی آمدنی بھی ٹھکانے لگادیتی۔

    سلطانہ کے لیے ہر جگہ اودھم پور تھی۔ ہر علاقہ اس کا مفتوحہ علاقہ تھا۔ اس نے بڑے کٹڑے میں تریا راج قائم کرلیا۔ مہرے مل گئے جنہیں وہ حسب منشا آگے پیچھے سرکانے لگی۔ لاوا اور عبدالخالق بھی مہرے تھے لیکن پیادے تھے۔ وزیر اور گھوڑے نہیں بنے تھے۔ دونوں برابر کا جوڑ تھے مل کر تکیے میں جاتے۔ ورزن کرتے، اکھاڑے میں اترجاتے، خوب پکڑیں ہوتیں۔ دونوں نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنا اپنا بدن کمایا، چمکایا، دمکایا۔ طبعاً دونوں مختلف تھے۔ عبدالخالق کی آنکھیں دن بھر عورتوں کے مکھڑوں سے سجی رہتیں لیکن میلی نہ ہوتیں۔ لاوے کی آنکھوں میں خوشبودار مسکراہٹیں تیرتی رہتیں اور جمالے کا چہرہ مچلتا رہتا۔

    اس وقت جمالے کا ٹہکا تھا۔ علاقے میں سب اسے کنگ کہتے۔ جوا خانہ کھول رکھاتھا۔ سینکڑوں روز کماتا، تھانے میں اس کا نام شہرۂ آفاق ہستیوں کی فہرست میں درج تھا۔ پھر بھی اس کی آرزو تھی کہ بستہ ب سے ترقی کرکے بستہ الف میں آجائے۔ اخباروں کی شہ سرخی بنے اور خطرناک غنڈہ کہلائے۔ شیخو پوریاں بازار کی عورتیں اس کے ترقیاتی منصوبوں اور اونچے عزائم سے مرعوب ہوکر اسے سلام کرتیں اور جھک جھک کر کورنش بجالاتیں۔ وہ جس کوٹھے پر چاہتا چلا جاتا، جس کھلونے سے چاہتا جی بہلاتا۔ بستہ الف میں آنے کے لیے ایک آنچ کی کسر تھی کہ لاوے کو خبر مل گئی۔ نادراں کو جمالا ایک آنکھ نہ بھاتا۔ ایک دن لونڈا برف لینے لاوے کے اڈے پر آیا۔ نادراں چھجے پر آئی۔ جمالا کھڑا تھا۔ نادراں کو دیکھ کر مسکرایا۔ پھر اس نے سگریٹ سلگایا اور کھانس کھنکار کر گلا صاف کیا اور لمبا کش لے کر اس کی طرف منہ کرکے دھواں چھوڑا۔ نادراں جوتی دکھاکر پیچھے ہٹ گئی۔ جمالا چلا گیا۔ لاوا موجود نہ تھا۔ آیا تو لڑکے نے سارا قصہ سنایا۔ اس کے دل پر بجلی گری۔ آگے چل کر بجلی پھر کڑکی، پھر گری۔

    جمالا جاناں کی کوٹھری میں بیٹھا شراب پی رہا تھا کہ برف ختم ہوگئی۔ جاناں نے لڑکا بھیجا کہ جمالے کا نام لے کر لاوے سے برف لے آئے۔ لڑکا آیا۔ لاوا برف دے دیتا لیکن چھجے میں سے نادراں کی مسکراہٹ بجلی بن کر گری تو اس نے لڑکے کو گالیاں دے کر بھگادیا۔ لڑکا منہ لٹکائے خالی ہاتھ آیا۔ پوچھا تو بولا، ’’لاوے نے ماں بہن کی گالیاں دی ہیں اور کہا ہے پچھلی پانچ سیر برف کے پیسے دیے نہیں، آگے سے برف لا نے کو بھیج دیا۔ نادراں کو چھجے میں دیکھ کر اور بھی پھیل گیا۔ ’’جاناں خفیف ہوئی اور بولی،‘‘ جمالے۔ یہ ماں کا یار! سلطانہ کی چھوکری کے یہاں تو پل پل برف بھیجتا ہے اور تیری یار کو نہیں دیتا۔ مار اس کے منہ پر پیسے۔ بدلحاظ کہیں کا!‘‘

    پیسے نکالنے اور لاوے کے منہ پر مارنے کی بجائے جمالے نے کڑکڑیاچاقو نکالا اور کھڑا ہوگیا۔ ’’گھڑی آگئی ہے۔ آج میں بستہ الف کا بدمعاش بن کے رہوں گا۔ اچھا ہوا جو لاوا آڑے آیا۔‘‘

    ’’اڑیا کچھ کرنہ بیٹھنا۔‘‘ جاناں نے چمکدار چاقو دیکھ کر کہا۔

    ’’ہٹ گشتی!‘‘ جمالا اسے دھکا دے کر بازار میں آگیا۔

    لاوا آنے والے طوفان سے بے خبر نہ تھا۔ طوفان زد پر آیا تو اس نے پوری قوت سے اینٹ اٹھاکے ماری جو طوفان کے لگی۔ آنکھ پھوٹی، سرزخمی ہوا۔ شراب کا نشہ، اینٹ کی چوٹ، طوفان چکراکر گرا۔ چاقو کام نہ آیا تو جمالے نے بڑی سبکی محسوس کی۔ چھجے میں بجلی جلوہ گر ہوئی۔ لاوے نے تیز نوکیلا سوا سنبھال لیا اور اپنے تھڑے پر بصد جاہ و جلال کھڑا رہا۔ بازار میں ہجوم ہوگیا اور وہ جوہر آن نئے ہیرو کی تلاش میں رہتے ایک دم نگاہیں پھیرگئے۔ کسی نے جمالے کو توجہ کے قابل نہ سمجھا۔ سب لاوے کے گرد جمع ہوگئے۔ انہوں نے تو جیسے نوشتہ دیوار پڑھ لیا تھا۔

    فیقے فراڈیے نے کہیں سے گلاب کا ہار پیدا کیا اور لاوے کے گلے میں ڈال دیا، پھر بولا، ’’جی خوش کردیا میرے یار! آج سے ٹکسالی دروازے میں تیرا سکہ چلے گا پیارے۔‘‘ وہی جو اسے گھاس نہ ڈالتے تھے اب اسے ہار پیش کرنے لگے۔ اب وہ علاقے کا نیا کنگ تھا۔ چھجے کی اپسرائیں کنگ کو دیکھ دیکھ کر مسکرائیں۔ ایک دن یہاں سے اس کے دل پر جو بجلی گری تھی، وہی اب جمالے کے سرپر اینٹ بن کر گری۔ جمالے کے شاگرد آئے اور اسے اٹھاکر اپنے ساتھ لے گئے۔ جاتے جاتے انہوں نے دبے دبے لفظوں میں کہا، ’’جمالو پہلوان ٹھیک ہوجائے پھر نمٹ لیں گے۔‘‘

    ’’پھر کیا؟ جس ماں کے یار کو نمٹنا ہے ابھی نمٹ لے۔ ’’لاوے نے للکار کر کہا۔ جمالو اور اس کے شاگرد بڑبڑاتے چلے گئے۔ جمالے کا خون تھم نہیں رہا تھا۔ نادراں خوش ہوئی کہ اس کے کھاتے میں صفِ اول کے ایک بدمعاش کا لہو شامل ہوا اور داستان کو رنگین کرگیا۔

    لاواپوزیشن مستحکم کرنے کی غرض سے گلی میں جانے لگا۔ مستند غنڈہ بننے کے لیے گلی کی تسخیر ضروری تھی۔ لاوا عورتوں کے منہ پر سگریٹ کا دھواں پھینکتا اور ان کے لب ورخسار کا میک اپ خراب کرتا، جس پر ان کی کاروباری زندگی کا دارومدار تھا۔ جس پر مہربان ہوتا اسے مضبوط بازوؤں میں اٹھاکر جھلاتا، گھماتا۔ ناٹے قدوالی پہاڑن کو ہوا میں اچھال کر کیچ کرتا۔

    لاوا چاقو نکال کر ہوا میں لہراتا اور علاقے کے نئے تاجدار کی حیثیت سے ان غنڈوں کو للکارتا جو گلی میں اسے د یکھتے ہی کھسکنے لگتے۔ جمالا اپنی یارجاناں کو لے کر نقل مکانی کرگیا۔ لاوا جدھر جاتا، فتح اس کے قدم چومتی بلکہ پاؤں پڑتی۔ ماسٹر اللہ رکھا پروپرائٹر آل انڈیا سوڈا واٹر فیکٹری، ادھار پٹے پر مال سپلائی کرنے لگا۔ لوگ بطور خوشامد اس کے برف لگے گولی والے ادھے پینے لگے۔

    وہ ترقیاتی منصوبے بنانے اور ایک ایک کرکے انہیں عملی جامہ پہنانے لگا۔ اس کے خفیف سے اشارے پر برابر والی دکان خالی ہوگئی اور اس نے اسے چائے خانہ بنالیا۔ چادر پھیلی تو نادراں نے بھی پاؤں پھیلائے۔ اب اس کے یہاں لیمن سوڈا، کیک، چائے، بالائی کی پیالیاں جانے لگیں۔ پھر جب چائے خانے کو ہوٹل بنایا تو اسپیشل کھانے بھی جا نے لگے۔ بیتے لمحے بیدار ہوکر لاوے کی سوچ میں چمکنے لگے۔ اسے وہ گھڑی رہ رہ کے یاد آتی جب نادراں نے اسے شرف قبولیت بخشنا چاہا اور پٹ کر آگیا۔

    نادراں چھجے میں آکر اس کے دل میں طوفان اٹھادیتی۔ نادراں لڑکی نہیں، جھکڑ تھی۔ رنگت سرخ سانولی تھی۔ آنکھیں نشیلی تھیں۔ لانبی لانبی پلکوں پر سنگینیوں کا پہرہ تھا۔ لانبے لانبے سنہری بال کمر پر جھولتے۔ دل ان میں اٹک کر رہ جاتا۔ جوں جوں اوپر چڑھتا گیا توں توں جذبے کے اظہار کی قیمت بڑھتی گئی۔

    سلطانہ نے اودھم پور سے آنے کے بعد سج دھج میں فرق نہ آنے د یا۔ اس کا گھر عجائب خانہ تھا۔ کمرے میں زینہ دار الماریاں تھیں، خوشنما اسٹینڈ تھے جن کی چمکتی دمکتی کھونٹیوں پر ہر فیشن کے کپڑے ٹنگے رہتے۔ قالین تھے، صوفے تھے۔ یہ انقلاب کا عمل تھا۔ ان دنوں اپنے آپ انقلاب چلا آرہا تھا لیکن یہ کوئی چین کا انقلاب نہ تھا۔ تھا یہ بھی انقلاب لیکن بڑا انوکھا تھا۔ جو کبھی دس کے نوٹ کو ترستے تھے وہ سو کے نوٹ پر کاہ کے برابر سمجھتے اور جگہ بے جگہ پھینکتے پھرتے۔ اس انقلاب نے خول بدل دیے اور ہرپیکر تصویر پر نوٹوں کے کاغذی پیرہن چڑھ گئے۔ شیطان کھونٹے سے کھیل گیا اور بڑکیں مارنے لگا۔

    سلطانہ کے یہاں مستری دین محمد اور مستری دین محمد کے یہاں ورکشاپ انقلاب لائی۔ سیانا تھا۔ مٹی سے سونا بنانے لگا لیکن پھر ایک موقع پر یہ مردِ انقلاب سلطانہ کے ہاتھوں سونے بنانے سے مٹی ہوا۔ یہ بھی کنگ ہی تھا اور سلطانہ کنگ سے کمتر درجے کے کسی آدمی کو گھاس نہ ڈالتی۔

    ایک روز سلطانہ اور ثمینہ شاپنگ کو نکلیں، نادراں گھر پر رہی۔ مستری دین محمد نے تنہائی سے فائدہ اٹھایا۔ سلطانہ آئی تو اس نے لڑکی کو بے طور پایا۔ بات گول کر گئی اور مستری دین محمد سے اور بھی زیادہ گھل مل گئی۔ اس نے مطالبات زر بڑھا دیے، اس حد تک بڑھا دیے کہ مستری کی حیثیت سے آگے نکل گئے۔ وہ مطالبات کے سیل کے آگے ٹھہر نہ سکا۔ بہرحال صنم کے روبرو سربسجود رہا۔ اس نے بلڈنگ بیچی، مشینیں بیچیں، ورکشاپ ٹھکانے لگائی اور کھکل ہوگیا۔ سلطانہ نے اسے پٹری سے اتاردیا۔

    لاوے کو نئی دنیا ملی۔ وہ پاگل ہوگیا اور اپنی سلطنت کی سرحدیں بڑھانے، پھیلانے میں لگ گیا۔ سلطانہ کا رسوخ کام آیا۔ اودھم پور سے رابطہ قائم ہوگیا اور چرس کا دھندا چل نکلا۔ ہر شے میں ملاوٹ ہونے اور ملاوٹی اشیا ہاتھوں ہاتھ بکنے لگیں تو وہ بھی ملاوٹی چرس بیچنے لگا۔ افیون اور کوکین کے بادشاہ کے مقابل چرس کا بادشاہ بننا چاہتا تھا۔ پٹھوں کا اڈہ خالی ہوا تو اس نے قبضہ جمالیا۔ کام اپنے آپ بڑھتا چلا گیا۔ اس نے اپنے بزنس کمپلیکس میں کئی کارندے شامل کرلیے اور جیپ لے لی۔ مال بھرتا اور ادھر سے اُدھر پہنچتا۔ بہار ہو کہ خزاں، دن ہو کہ رات، دوڑتا بھاگتا رہتا۔ وہ چلتی پھرتی ٹکسال بن گیا۔ بازار میں کم ہی آتا۔

    ایک دن گھڑی دوگھڑی کے لیے ہوٹل پر آیا۔ جیپ میں بیٹھے بیٹھے چائے پی کر ایک سودے کے لیے جانے کو تھا کہ نادراں چھجے میں آئی، اوپر آنے کا اشارا کرکے غائب ہوگئی۔ وہ کام تو کیا، سب کچھ بھول گیا۔ خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ یہ سودا سب سودوں سے بڑا تھا۔ نادراں سے ملنے گیا۔ سلطانہ سے مڈبھیڑ ہوئی جس نے پیٹی کوٹ پہن رکھا تھا۔ پنڈلیاں چمک رہی تھی۔ رانوں کے خط واضح تھے، شمیض میں سے جسم کا جلال چھن رہا تھا۔ انگلیاں ہیروں جڑی انگوٹھیوں سے دمک رہی تھیں۔ یہ اودھم پور کی نشانیاں تھیں۔ لاوا پھٹی پھٹی آنکھوں سے سلطانہ کا دھانسو پنڈا دیکھنے لگا۔ سلطانہ نے ہاتھ پکڑ کر اسے صوفے پر بٹھالیا اور وہ اپنے دل میں خاتون اول کے بدن کی ملائم ملائم، خوشبودار حرارت جذب کرنے لگا۔

    سلطانہ بولی، ’’اڑیا۔ وہ مستری ہے نا، دینا کمینہ! کنجر کو فقیر سے امیر میں نے کیا اور اب مجھی کو آنکھیں دکھارہا ہے۔ بھائی بن کے آتا ہے۔ خصم بن کے رہتا ہے۔ نری چام چِٹھ ہے۔ کمبل کی طرح چمٹ گیا ہے۔ گھر کی ایک ایک شے پلید کر رہا ہے۔ دھیلے کی مدد نہیں کرسکتا۔ الٹی دھونس جماتا ہے۔‘‘

    ’’حکم کر!اس کا پیٹ پھاڑدوں، گولی ماردوں!‘‘ لاوے نے یقین محکم سے کہا۔

    ’’نہیں وے۔‘‘ سلطانہ نے سختی سے ٹوک کر کہا، ’’اتنے بڑے قضیے کی ضرورت نہیں۔ ویسے ہی اسے ڈرا دھمکادے۔‘‘

    ’’ڈرانے دھمکانے سے بات نہ بنی پھر؟‘‘ لاوے نے جیب میں سے پستول نکال لیا۔

    ’’پھر جو چاہے کرنا۔‘‘

    لاوے کے آرڈر پر ہوٹل میں مرغ بھونے اور کباب بنائے گئے، نمکین لسی اور مینگو آئس کریم کا بندوبست ہوا۔ تاش کی بازی جمی اور لاوے کی ہار سے آغاز ہوا۔ سلطانہ کے ادھ ننگے پنڈے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پتوں کی بجائے اس کی نظریں سلطانہ کی ننگی بانہوں اور پتلی پتلی انگلیوں سے کھیل رہی تھیں جنہیں گلابی ہونٹوں کی مسکراہٹیں کمک پہنچارہی تھیں۔ لاوا دانستہ نو سوروپے ہارا۔ کنگ بننے کے بعد اس نے جتنے سودے کیے وہ جیت کے سودے تھے۔ یہ پہلا ہار کا سودا تھا۔

    کھیل اور کھانے کے بعد یہ لوگ قالین، صوفے اور پلنگ پر دراز ہوئے۔ قیلولے کے بعد نہادھوکر فالودے کے پیالوں پر ٹوٹ پڑے۔ مستری دین محمد آیا تو لاوے نے چلا کر کہا، ’’ماں کے یار، بہن بھگار۔ یہاں کیا لینے آیا ہے۔‘‘

    وہ ہکا بکا رہ گیا۔ اس اندازِ تخاطب سے اس کی ریاستی شان مٹی میں مل گئی۔ اس نے اپنی ہستی کھنڈر کرلی، جذبہ محبت برقرار رکھا لیکن نرا جذبہ محبت کس کام کا تھا؟ اس سے تو سلطانہ کے لیے ایک وقت کے میک اپ کا سامان بھی نہ آسکتا تھا۔ بے چارا حواس بھی درست نہ کرپایا تھا کہ لاوے نے اسے تابڑتوڑ مکوں سے نوازا اور پھر اٹھاکرز مین پر پٹخا۔ لوہے کی لٹھ تھا لیکن لوہا خاصا بھربھرا ہوچکا تھا اور پھر غیر نستعلیق آدمی سے پالا پڑا تھا۔ لاوے نے ادھ موا کردیا اور سیڑھیوں سے لڑھکاکر خط نسخ بنادیا۔ پھر جب لاوے نے کڑکڑیا چاقو کھولا تو نادراں نے اسے روک لیا۔ مستری دین محمد کراہتا چلا گیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فیڈ آؤٹ ہوگیا۔

    اُس نے اُدھر، لاوے نے اِدھر رخ کیا۔ لاوے کی خاطر سلطانہ نے ضرورتا ًریاستی انداز بدلا۔ بنارسی ساڑھی اور تنگ پاجامے کے ساتھ لاچا بھی پہننے لگی کیونکہ لاوا اس کے لیے کئی لاچے لایا تھا۔

    میں بھی آٹے میں نمک تھا اور نمک کی طرح پوری زندگی میں موجود تھا۔ اگرچہ وہ داخل خارج ہوکر بڑی حدتک اودھم پور کے دفتر بے معنی میں شامل مسل ہوچکی تھی پر وہاں کا تریا راج نہ بھولی تھی۔ چھوٹے مرزا کی محلسرا کھنڈر ہوئی۔ کوئی قابل ذکر عورت زینت محفل نہ رہی بلکہ محفل ہی نہ رہی پھر بھی اس کے دل سے بیتے دنوں کی کسک نہ گئی۔ حالات جاننے کے لیے مجھ سے خط لکھواتی اور آخر میں یہ تاکید لکھنے کو کہتی، ’’فرسٹ لیڈی آف اودھم پور۔‘‘

    مجھے اپنے خاندان میں شریک کرنے کی آرزومند تھی شریف اور خاندانی کہلانے کے لیے، کم از کم ایک شریف اور خاندانی لڑکا تو اس کے اہل خانہ میں ہونا ہی چاہیے تھا۔ ان پڑھ نادراں کو ٹھکانے لگانے کی غرض سے مجھ سے بیاہنا چاہتی تھی لیکن یہ مجھے ٹھکانے لگانے کی تدبیر تھی۔ میرے نزدیک اس سیاسی ملاپ کی افادیت مشکوک تھی۔ میں نے ’’ہدایت نامہ خاوند‘‘ تو نہیں پڑھا تھا لیکن گھر اور پڑوس میں اچھی بیبیاں دیکھی تھیں۔ نادراں میں ایسی کوئی بات نہ تھی جس سے اچھی بی بی کا تصور قائم ہوتا۔ وہ ہر دم اپنے جسم کے گرد گھومتی۔ ہردم جسم کو گھومانے کی فکر میں رہتی۔ رہی اس کی بہن ثمینہ۔ سو وہ نری گائے تھی۔ اسے کسی سے سروکار نہ تھا۔ بالکل کولڈ تھی ویسے کولڈ کریم تھی، ملائم اور چکنی۔ ایک بوڑھی مریل عورت ہاتھ بٹاتی اور وہ گھر بھر کا کام کرلیتی، محلے کے بیکار لونڈے اوپر کا کام کردیتے۔ نادراں گھر کا کوئی کام نہ کرتی، بس ہر وقت آئینے کے روبرو لہراتی بل کھاتی اور دلآویز زاویے بناتی رہتی، جیسے تسخیر عالم کی تیاری کر رہی ہو لیکن پھر ایک دم ساری ادائیں ہوا ہونے لگیں۔ مستری دین محمد کی کارگزاری دکھائی دینے لگی۔

    لاوا اوپر ہی اوپر گیا۔ اُدھر عبدالخالق بھی خوب ترقی کرگیا۔ سلطانہ کو چارے کی آمدنی ملنے لگی تو اس نے عطار خانے کا خیال بھلادیا اور عبدالخالق کو سیاہ و سفید کا مالک بنادیا۔ سب کے چہروں پر سرخی اور دلوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن محلے کے چھٹ بھیے جو خود کو اشرافِ دوراں اور جدی پشتی نجیبوں کی اعلیٰ نسل کے جانور سمجھتے، دل میں ان صورتوں سے پیار اور ظاہراً نفرت کا اظہار کرتے۔ مل بیٹھتے تو برابھلا کہتے اور موقعہ ملتا تو برا بھلا کرنے سے نہ چوکتے۔

    پہاڑی لڑکا سلطانہ کے لیے ہوٹل سے رپورٹیں لانے اور تازہ بتازہ خبریں سنانے پر مامور تھا۔ سلطانہ شکایت کرتی تو لاوا ٹال دیتا۔ دانا تھا۔ کہتا، ’’بی بی! چھوڑ ان کمینوں کو۔ یہ اصیل کتے دوٹکے کے ہیں۔ بھوکے مرتے اور اکڑتے ہیں۔ بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی تو میرے ہوٹل میں آبیٹھتے ہیں۔ پہاڑیے سے باتیں کرکے جی بہلاتے ہیں۔ دو دو گھنٹے بیٹھے رہتے ہیں ایک پیالی چائے لے کر۔‘‘

    لاوے کی بدولت روپوں کے اور پہاڑی لڑکے کی وساطت سے رپورٹوں کے ڈھیر لگتے گئے۔ اُدھر خوشی اور اِدھر غم کا پہاڑ کھڑا ہوا۔ سب لوگ مدھم سروں میں بات کرتے۔ منشی الٰہی بخش اونچے سروں میں بولتے۔ وہ تو موسم بے موسم کی راگنی تھے۔ محلے کے ہر لاوے کو تھپڑ مارسکتے۔ چوک میں آکر کہتے، ’’کیسا زمانہ آن لگا ہے؟ کیا ہوگیا ہے بیبیوں کو، کھلونا بن کے رہ گئی ہیں۔ گھر اور چکلہ ایک ہوگئے ہیں۔‘‘ پھر سلطانہ کے مکان کی طرف اشارہ کرکے کہتے، ’’بس چلے تو اس کی اینٹ سے اینٹ بجادوں۔ یہ عورت نہیں، خانگی ہے۔ شریفوں میں رہتی ہے اور نوچیوں والے کام کرتی ہے۔ اس کے کچے پکوں کا حساب ہی نہیں۔‘‘ ان کی آواز سنتے ہی سلطانہ چق کی اوٹ میں آبیٹھتی اور ان کے ملفوظات سنتی۔

    کس کی مجال تھی کہ زبان پکڑتا۔ شرافت کے دورِ زوال کی آخری یادگار تھے۔ بال سفید، چہرہ انگارہ، آواز میں کڑک، عمر سو سے اوپر تھی۔ گوسلطانہ کو گزند پہنچنے کا احتمال نہ تھا پھر بھی ان کی باتوں سے دل پردرّے لگتے۔ پیسے کی ارزانی سے اس میں روانی آگئی۔ پیسہ وجہ نشاط تو بنا، وجہ سکون نہ بنا۔ وہ اس دکھ سے نجات پانا چاہتی جو اس کی سوچ کو ڈنک مارتا رہتا۔ لاوے سے شکایت کی تو وہ کان پر ہاتھ دھر کر بولا، ’’نابابا! کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ میرے باپ کو تھپڑ مارتے تھے۔ اس کی ماں بہن ایک کردیتے تھے۔ بھلیے لوکے! میرا باپ ہنس دیتا تھا۔ جس کا اسے لحاظ تھا اس کا میں کیا بگاڑ سکتا ہوں؟ میں منشی الٰہی بخش کے سامنے زبان نہیں کھول سکتا۔ ڈروٹ۔ صبر کر۔!‘‘

    سلطانہ مایوس بھی ہوئی اور حیران بھی۔ علاقے کا جواں سال کنگ صد سالہ بڈھے کے سامنے زبان نہ کھول سکتا تھا۔ آخر مسئلہ حل ہو ہی گیا۔ نوابانہ ٹھاٹ کی ایک حویلی تھی۔ لاوے نے وہ سلطانہ کے لیے خریدلی۔ سلطانہ نے ترمیم و اصلاح کرواکے اسے اودھم پوری طرز کا کرلیا۔ پیشانی پر حسبِ معمول ہذامن فضل ربی کی لوح لگوائی۔ نام ’’راج‘‘ رکھا۔ خاتون اول بن کے رہنے لگی۔ آخر علاقے کے کنگ کی داشتہ تھی۔ ڈیوڑھی پر بلڈاگ باندھا۔ اس کے لیے جو ہٹا کٹا لڑکا رکھا وہ بھی بلڈاگ ہی تھا۔

    نادراں ہلکی پھلکی ہوکر خالہ کے یہاں سے آگئی۔ وہ پہلے کی طرح شاداب و تابدار تھی۔ بدن میں وہی پہلی سی چھنک تھی۔ سلطانہ اسے لاوے کے قریب بھی پھٹکنے نہ دیتی۔ وہ تو لاوے کو اپنے بدن کی لکیروں اور خیالوں کے تانوں بانوں میں الجھائے رہتی۔ بدن کی چمکتی دمکتی حرارت سے اس نے لوہے کو موم کرلیا۔

    لاوا ماردھاڑ کی مہم پر نکلتا تو سلطانہ کنگ بن جاتی۔ ہوٹل، برف کے اڈے اور پٹھوں کی دکان کا چارج سنبھالتی۔ لاوا اسمگلنگ کے فن میں طاق ہوگیا۔ کارندے منجھے ہوئے تھے۔ اس کی ہدایت پر فرنٹ لائن سنبھالتے۔ لاوا انہیں کور دیتا۔ سلطانہ تھرڈ لائن پر رہتی۔ ہر پھیرے میں ڈھیروں نوٹ لاکر سلطانہ کے سامنے پھینک د یتا، د یگیں چڑھتیں، کھانا بٹتا۔

    سلطانہ پہلے بھی کم تیکھی نہ تھی۔ حویلی کے سنہرے ماحول، پیسے کے اندھے نشے اور اونچے معیارِزندگی نے اور بھی تیکھا کردیا۔ وہ خود کو رانی سمجھنے لگی۔ اتنی اونچی ہوگئی کہ منشی الٰہی بخش مع اونچی آواز کے دب کر رہ گئے۔ وہ پہلے سے زیادہ جواں فکر ہوگئی۔ مال روڈ پر انگریزی سیلون میں بال بنوانے جاتی۔ بدن میں لچک تھی، کسے ہوئے طبلے کی کھنک تھی۔ تمام اعضاحسن کا جلی عنوان تھے لیکن ہونٹ شہ سرخی تھے۔ اس نے کمر کو مبالغہ آمیز حدتک پتلا کرلیا۔ جنت میں رہنے لگی۔ میں کبھی کبھی جاتا تو وہاں بدنوں کی جہنم سلگتی دیکھتا۔ میری سوچ میں گڑبڑ تھی۔ اس میں کوئی منشی الٰہی بخش چھپا بیٹھا تھا۔ ویسے میری بڑی آؤبھگت ہوتی۔ جس دن خط لکھوانا یا پڑھوانا ہوتا، اس دن لمبی نشست ہوتی۔ لاوا بڑا لحاظ کرتا، کیونکہ وہ میرے سامنے تھڑے سے اٹھ کر کنگ بناتھا۔ قالین صوفے اور فوم کے بچھونے روندنے لگا۔

    ایک روز گیا تو ٹھنڈے کمرے کو بند پاکر لڑکیوں کے کمرے کی جانب ہولیا، جدھر سے قہقہوں کا نقرئی شور آرہا تھا۔ لاوے نے درز میں سے دیکھ کربلالیا۔ کمرے میں گیا۔ بیئر کی بوتلیں کھلی تھیں۔

    ’’لڑکا قابو نہیں آتا۔‘‘ سلطانہ نے شکایتاً کہا۔

    ’’واہ اس کی، عزیز میاں کی کیا بات ہے۔ یہ تو اپنا گاڑھا یار ہے۔ اکٹھے کبڈی کھیلے، پل گولیاں کھیلیں، پتنگ ڈورلوٹی۔ فس کلاس ہے۔ بس ایک ہی نقص ہے۔ ذرا بھلا مانس ہے۔ میرے ساتھ مل جائے تو چھ مہینے کے اندر اندر سونے چاندی کے تول کا ہوجائے۔‘‘

    ’’سوچا تھا، نادراں سے چار کلمے پڑھوادو ں، پر یہ کسی تُل پر نہیں آتا۔‘‘

    پر میں کیسے آتا اس کے تول پر؟ میرے گھرانے کا نام مجھ سے بھی اونچا تھا۔ سلطانہ کی سطح پر پہنچنے کے لیے مجھے بہت کچھ غارت کرنا پڑتا۔ پھر ان لوگوں کی زندگی میں گہرائی اور سنجیدگی نہ تھی۔ کوئی حسین انجام بھی پیش نظر نہ تھا، جسم کی بازی گری کے سوا انہیں اور آتا بھی کیا تھا؟ ان کے جسمانی کرتبوں سے بدن میں سنسنی تو آجاتی لیکن سوچ ذبح ہوجاتی۔ ان کی سوچ اونچی نہ تھی۔ پھر نادراں پرابلم گرل تھی۔ اسے پل بھر کل نہ پڑتی۔ وہاں تو دھماچوکڑی ہی دھماچوکڑی تھی۔

    لاوے نے بیئر کا گلاس غٹاغٹ چڑھا کر منہ صاف کیا اور دوسری بوتل کھولتے کھولتے کہا، ’’میرا یار لکھا پڑھا ہے اور نادراں چٹی ان پڑھ ہے۔ جوڑٹھیک ہے۔ ’’اور اگر یہ چٹی ان پڑھ قاف سے بڑھ کر چٹی ہوتی تو بھی فرق نہ پڑتا۔ میرا عہد جاہلیت اتنا جاہلانہ نہیں تھا۔ میں نے ریفریجریٹر میں سے بوتل نکالی اور گلاس لے کر بیٹھ گیا۔ سلطانہ نے دوبوتلیں خالی کیں اور دوبار باتھ روم میں گئی۔ کچھ کچھ نشہ چڑھا۔ لاوے سے الجھنے لگی۔ میں اٹھنے لگا تو اس نے ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچا۔ لاوے نے اس کی چٹیا کھینچی اور ڈھیر ساری بازاری گالیاں سنائیں۔ پھر دونوں نان اسٹاپ ہوگئے۔ میں اٹھ کر لڑکیوں کے کمرے میں آگیا جہاں دھماچوکڑی ہو رہی تھی۔ لڑکیوں نے مجھے بھی اس میں ملایا۔ سانس پھولے تو دھماچوکڑی تھمی۔ ہم سب بے طور ہوکر قالین پر گرے۔

    سلطانہ کے کمرے کا بولٹ چڑھنے کی آواز آئی تو نادراں بولی، ’’ہوں، حق میرا تھا۔ ماں نے مارلیا۔‘‘ ثمینہ سیب چھیلنے لگی۔ نادراں ننگی تصویروں والے انگریزی رسالے دیکھنے لگی جن کے لیے ایک کباڑی سے باندھ لگی تھی۔ اتنے میں عطار خانے کے سیاہ و سفید کا مالک عبدالخالق بھی آگیا۔ وہ دو وقت فرض کے طور پر ڈنٹر پیلتا اور سپاٹے لگاتا۔ سیب اور گاجر کے مربے چاندی کے ورق میں لپیٹ لپیٹ کر کھاتا۔ گھر اور باہر منہ مارتا رہتا اور دودھ پینے کے مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔ اپنے آپ کو تیار رکھتا۔ غنڈوں کے بازار میں جینے کا یہی قرینہ تھا۔ وہ جان بناتا۔ سلطانہ پیٹھ ٹھونکتی۔ جوں جوں قدرآور ہوا، گھر میں اس کی آمدورفت بڑھی اور وہ دھماچوکڑی کارکن بن گیا۔ اگر چہ ثمینہ کم گو تھی اور اس میں چنچل پن بھی زیادہ نہیں تھا لیکن دھماچوکڑی میں وہی پہل کرتی۔ دھماچوکڑی کے تینوں چاروں رکن طبعاً الگ الگ تھے لیکن مل بیٹھتے تو نرتالہ چوتالہ لگتا۔ ٹھمریاں، دادرے ایک ہوجاتے۔

    ایک دن دھماچوکڑی زوروں پر تھی۔ ثمینہ کو جانے کیا سوجھی، اس نے عبدالخالق کو اس زور سے بازو میں کاٹا کہ وہ بلبلا اٹھا۔ خون نکل آیا۔ زخمی حالت میں سیدھا سلطانہ کے پاس گیا اور بولا، ’’بی بی! ثمینہ بول پڑی ہے۔ اس سے میرا بیاہ کردے!‘‘ سلطانہ نے کھینچ کر طمانچہ مارا اور کہا، ’’دور دفان، دلا کہیں کا۔ نوکر بن کے آیا اور گھر کا مالک بننے لگا۔‘‘ اس نے سلطانہ کے پیر پکڑلیے اور کہا، ’’مولا جانے! میں اب بھی نوکر ہوں۔ میں نے کڑکڑی والا چاقو لے لیا ہے۔ حکم کر!جس کی آنتیں نکال دوں۔‘‘

    سلطانہ نے بڑی دلچسپی سے اس کی باتیں سنیں۔ وہ اس کے آہنی بدن اور بازوؤں میں تیرتی پتھر کی مچھلیوں کو دیکھتی رہی۔ مچھلیوں کی شوقین تھی۔ شوق سے کھاتی۔ وہ بولا، ’’بی بی، تو دھن دولت والی ہے۔ تیرے سودشمن۔ لاوا اب دشمنوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔‘‘ اور سلطانہ کو واقعی عبدالخالق میں نیا، جی دار لاوانظر آیا۔ وہ پھر بولا، ’’تجھے تو پتا ہے۔ لاوانخالص چرس پیتا ہے۔ میں اسے اٹھا کر ہوا میں اچھال سکتا ہوں۔ اسمگلنگ کرتا ہے۔ کسی دن ناحق مارا جائے گا۔ پھر کون تیرا پہرہ دے گا بی بی! سوچ تو سہی! میں تیرا غلام، میں تیرا پہرہ دوں گا۔‘‘

    سلطانہ نے نئے لاوے کے بال پکڑکے زور زور سے جھنجھوڑا اور پتھر کی مچھلیوں پر تان کر گھونسے مارے۔ الٹا ہاتھ پکڑ کر رہ گئی۔ نیا لاوا ہاتھ دبانے لگا تو بولی، ’’دھیرے دھیرے دبا۔ پتا ہے تجھے جوانی چبھنے لگی ہے۔ گھبرا نہیں، تیرا بھی تیاپانچہ کردوں گی۔‘‘

    اودھم پور سے کارندے آتے۔ چرس اور خبریں لاتے رہتے۔ تازہ صورتِ حال یہ تھی۔ چھوٹے مرزا کی ماں نے جنگ چھیڑی اور چومکھی لڑنے لگی۔ بڑی کانٹا عورت تھی۔ جنگ خوب زوروں پر ہوئی۔ محل سرا کی رونق لٹ گئی۔ کچھ عورتیں بھاگ گئیں۔ کچھ بھاگنے کے لیے پرتولنے لگیں۔ بہرطور سلطانہ خود کو اودھم پور کی خاتون اول سمجھتی لیکن سردست جہنم میں جانے کے لیے تیار نہ تھی۔ اودھم پور کا ذکر اسے تڑپاتا۔ چاردن کی بادشاہت یاد آتی تو دل مچل مچل جاتا۔ اپنی فتوحات کا ذکر کرتی۔ اودھم پور کا نام بڑے جوش و خروش سے لیتی۔ اس کی زندگی میں جوش و خروش کے سوا اور رکھا ہی کیا تھا۔ وہ تو اپنے قرب کی آنچ سے ٹھنڈے پتھروں میں جوش و خروش بھردیتی۔

    نادراں بھی جوش و خروش کی زندگی بسر کرنے کے لیے بیتاب رہتی لیکن سلطانہ کی زیر درختی ہوکر رہ گئی۔ اس کی شکایت جوں کی توں رہتی۔ جب بھی سلطانہ بولٹ چڑھاتی، نادراں کے منہ سے بے اختیار یہ جملہ پھیل جاتا، ’’حق میرا تھا، ماں نے مار لیا۔‘‘ آخر اس جملے کی بھنک پہلے لاوے اور پھر سلطانہ کے کان میں پڑی۔ سلطانہ نے مجھ سے کہا، ’’عزیز اسے سمجھا۔ بک بک کرتی رہتی ہے۔ اس کے اندر کیوں آگ لگی ہے۔ ایسا ہی ہے تو اسے کہہ، کسی کے ساتھ بھاگ جائے۔‘‘

    یہی بات من وعن میں نے نادراں سے کہہ دی۔ اس نے پلٹ کر کہا، ’’چل تیرے ساتھ چلتی ہوں۔ کر جرأت۔‘‘ لیکن میں کیسے جرأت کرتا؟ اس کام کی تربیت ہی نہیں لی تھی۔ گھر کی تاریخ میں دور دور تک ایسے کسی واقعے کا سراغ نہ ملا جو اغوا کے لیے وجہ جواز بنتا اور پھر اغوا کی ضرورت ہی کیا تھی؟ سلطانہ تو اسے بصد مسرت میرے حوالے کرنے پر راضی تھی۔ جواب دینے کی بجائے میں نے دھماچوکڑی شروع کردی اور معاملہ گول ہوگیا۔ لیکن وہ جملہ ’’حق میرا تھا۔ ماں نے مارلیا۔‘‘ رنگ لایا۔ ایک دن کمرہ بند کرکے ماں نے بیٹی کو بری طرح پیٹا۔ بازاروالوں نے چیخیں سنیں لیکن کون بولتا، لاوے کے گھر کا معاملہ تھا۔ لاوا آیا تو بلڈاگ والے محافظ سے حال معلوم ہوا۔ سلطانہ سے پوچھا تو اس نے پردہ نہ ڈالا۔ اس دن لاوا آیا تو صرف دو گھنٹے گھر رہا اور یہ وقت بھی اس نے سوکر گزارا۔ اٹھ کر مہم پر چلا گیا۔ اس نے سلطانہ سے بات نہیں کی البتہ نادراں کا جملہ ’’حق میرا تھا ماں نے مارلیا‘‘ اس کے کانوں میں گونجتا رہا۔

    ادھر عبدالخالق کا جوش و خروش بڑھتا رہا۔ وہ جب بھی سلطانہ سے کہتا، ’’بی بی!ثمینہ سے میرا بیاہ کردے!‘‘ وہ اس کے بال نوچتی اور پتھر کی مچھلیوں پر مکے مارتی۔ ہاتھ درد کرنے لگتا۔ عبدالخالق ہاتھ دبانے لگتا۔ جب بہت تنگ آئی تو بولی، ’’کنجرا صبر کر۔ ثمینہ کو رہنے دے ابھی میرے پاس۔‘‘

    ’’بی بی! میں اسے کہاں لے جاؤں گا۔ وہ تیرے پاس ہی رہے گی۔‘‘

    ’’اچھا، بک بک بند کر۔‘‘ اس نے بک بک بند کردی۔ بات چیت کے کئی سیشن ہوئے۔ ہر بار بات چیت ناکام ہوئی۔

    مہم طول پکڑ گئی۔ لاوا آٹھ دن کے بعد لوٹا۔ مہم ناکام رہی۔ کسی نے مخبری کردی۔ بارڈر پولیس سے مقابلہ ہوگیا۔ اس کے دوجی دار کارندے مارے گئے۔ لاوا کسی نہ کسی طرح جان بچاکر آگیا۔ خاصامال ضائع گیا۔ ساتھیوں کی موت اور مہم کی ناکامی میں نادراں کا جملہ شامل ہوا تو دماغ پھٹنے لگا۔ اس نے آتے ہی بوتل کو منہ لگایا۔ سلطانہ کو منہ لگایا۔ پہلے ہی ہلے میں چوتھائی بوتل چڑھاگیا۔ موڈ پہلے ہی خراب تھا۔ اب اور بھی خراب ہوگیا۔ سلطانہ نے جب کہا، ’’نیٹ نہ پی لاویا۔‘‘ تو وہ غضبناک ہوکر بولا، ’’چپ رہ گشتیے۔‘‘ سلطانہ کے کلیجے میں تیرلگا۔ سمجھ گئی، ہوا کار خ پھر گیا ہے۔

    لاوا کمرے سے باہر آیا۔ سلطانہ بھی باہر آگئی تو چلاکر بولا، ’’نوچی خانگی! مال دُھر کرتی رہی، آپھر گئی ہے۔ خانہ خرابے۔ نادراں سے کاہے کا ساڑا تھا؟ اسے کیوں مارا تھا؟ اس نے حق کی بات کی تو مرچیں لگ گئیں۔ کنجریے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر چیردوں گا۔ دور ہوسامنے سے! تیرا اب مجھ سے کوئی واسطہ نہیں۔ چاقو کھول کر وہ لڑکیوں کے کمرے میں چلا گیا۔ سلطانہ سہم گئی اور برآمدے میں ستون سے لگ کر کھڑی ہوگئی۔ وہ نادراں کو کھینچ کر کمرے میں لے آیا۔ سلطانہ دھاڑیں مار مار کے رونے لگی اور رونے کی آواز میں بولٹ کی آواز کڑکی۔

    صدمہ کم نہ تھا لیکن ایک اور پہاڑ ٹوٹا۔ عبدالخالق نے دیکھا، سلطانہ مردہ لکڑی ہوکر رہ گئی ہے اور چوٹ نہیں لگاسکتی تو ثمینہ کو لے بھاگا۔ عطار خانہ بند ہوگیا۔ غم کی آگ پر آگ بھڑکی لیکن وہ اس میں جل مرنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ ایک دن میرے یہاں آئی کپڑوں میں اجلاہٹ تھی نہ اس میں بانکپن تھا۔ ایک وہ حال کہ میرے پاس سے گزرے تو خوشبوئیں بکھر جائیں اور ایک یہ حال کہ بدن باسی، چہرہ مرجھایا ہوا۔ ہنسی کی خفیف سی لہر ہونٹوں پر نہ ابھری۔ میں گھر میں اکیلا ہی تھا۔ سلطانہ آتے ہی دھڑام سے پلنگ پر گری اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، میں نے دلاسا دیا اور کہا، ’’بی بی۔ اپنی سوچ ٹھیک کرو۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے۔‘‘

    ’’عزیز! بس اتنا بتادے! وہ حرامی موت ثمنیاں کو لے کر کہاں چلا گیا ہے؟‘‘

    ’’سنا ہے۔ چوڑی کھوئی کے سامنے اس نے چوبارہ لیا ہے، وہیں ثمینہ کو لے گیا ہے۔‘‘

    ’’مجھے اس سے ملنا ہے۔‘‘

    ’’ضرور ملو لیکن جھگڑا مول نہ لینا۔ دوسرا لاوا بلکہ اس کا بھی باوا ہے۔ میٹھی بن کے رہو۔ آخر اس کی خوشدامن ہو۔ لاوے نے حرمزدگی کی ہے۔ اس نے حلال کیا ہے۔‘‘

    اس نے حکمت عملی سے کام لیا۔ نرمی سے پھسلاکر ثمینہ اور عبدالخالق کو اپنے یہاں لے آئی۔ فوری طور کشیدگی نہ بڑھی۔ سلطانہ بیشتر وقت مزاروں پر اور عبدالخالق کے پاس گزارتی۔ عبدالخالق سے ہمیشہ علیحدگی میں بات کرتی۔ عطار خانہ کھل گیا۔ عبدالخالق ساری کمائی سلطانہ کے حوالے کرنے لگا۔ لاوے کو عبدالخالق کھٹکتا۔ حویلی اس کی تھی اور اب وہ نادراں کے سوا سب کو غیر سمجھنے لگا تھا۔ وہ اسے اپنے یہاں برداشت کرنے کو تیار نہ تھا۔ ایک دن لاوا عطار خانے پر گیا۔ بولا، ’’خالقی! اپنا بندوبست کر۔ میری حویلی میں تیرا کوئی کام نہیں۔‘‘

    ’’کام تو ہے۔ بڑا کام ہے۔‘‘ لاوے کو یہ جواب پسند نہ آیا۔ اس نے سگریٹ کا لمبا کش لیا جیسے مورال اونچا اور خود اعتمادی کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح احساسِ برتری بھی ابھرا۔ سلطانہ آکر عطار خانے پر بیٹھ گئی۔

    ’’لے! تیری حمیتن بھی آگئی ہے۔‘‘ لاوے نے تحقیر کے انداز میں کہا۔

    ’’ہاں آگئی ہے۔ میری ماں ہے۔‘‘ عبدالخالق سنجیدگی سے بولا۔

    ’’تیری ماں کی۔‘‘ لاوے نے غلیظ گالی دی۔ پورے بازار نے سنی۔ گالی سنتے ہی عبدالخالق چھلانگ لگاکر تھڑے سے اترا اور لاوے سے گتھم گتھا ہوگیا۔ نادراں اور ثمینہ بالکونی میں آگئیں۔ سلطانہ نے لاوے پر گالیوں کی بوچھاڑ کردی۔ پھر چاقو کھول کر عبدالخالق کو تھمادیا۔

    ’’نکال دے کتے کی آنتیں باہر۔‘‘ اور اس نے کتے کی آنتیں باہر نکال دیں۔ پیٹ چاک ہوگیا اور لاوے نے انتڑیاں سمیٹ کر پیٹ میں رکھ لیں۔ لڑکھڑاکر گرگیا۔ لوگ تیزی سے دکانیں بند کرنے لگے۔ بازار سونا ہونے لگا۔ کنگ کے دن پورے ہوئے۔ سلطانہ اپنے تازہ کارنامے پر نازاں ہوئی۔ اس نے آج پھر انسانوں کی قیمت بنانے بگاڑنے کا ہنر آزمایا۔ مطمئن تھی کہ وہ جب چاہے، جسے چاہے، اپنی مرضی سے اوپر تلے کرسکتی ہے، وہ یقیناً بڑی عورت ہے۔ لہو کی ہولی کھیلنے میں طاق ہوچکی اور منات دیوی بن چکی تھی جس کی پیاس صرف لہو سے بجھتی تھی۔

    اودھم پور سے لمبی تڑنگی، چمکتی دمکتی کارآئی۔ سلطانہ لپک کر گئی۔ فراش خانے کے مہتمم خاص نے خوشخبری سنائی۔ چھوٹی بیگم نے نواب راحت بیگ اور بڑی بیگم کو زہر دے کر مروادیا ہے اور فاتحانہ شان سے چھوٹے مرزا کو گدی پر بٹھایا ہے۔ سب عورتیں محل سرا میں لوٹ آئی ہیں۔

    چھوٹی بیگم بھی جیسے سلطانہ تھی۔ اودھم پور کی خاندانی سلطانہ۔ کیا فرق تھا دونوں میں؟

    مہتمم خاص نے چلنے کی دعوت دی سلطانہ نے اپنے مفتوحہ علاقے پر مچلتی ہوئی نظر ڈالی۔ کنگ تڑپ تڑپ کر ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ سلطانہ کے لیے نئے مسائل پیدا ہوگئے تھے۔ نئے کنگ کو فاتحانہ شان سے گدی پر بٹھانا تھا۔ قانون سے الجھنا تھا۔ نیا سکہ چلانا تھا۔

    ’’چھوٹے مرزا کو مبارک دیجیے اور میرا بہت بہت سلام کہیے، میں جلد آؤں گی، بہت جلد آؤں گی۔ یہاں کے کام مکمل کرلوں۔‘‘

    ’’سچ؟‘‘

    ’’بالکل سچ۔ آخراودھم پور کی خاتون اول بننا ہے مجھے! گھبرائیں نہیں۔‘‘

    اپنی نئی ذمہ داریوں کے باعث وہ سردست باہر نہ جاسکتی تھی۔ اس نے بادل ناخواستہ اودھم پور کے ایلچیوں کو اپنی پرانی مفتوحہ سلطنت کی طرف روانہ کیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے