کہانی کی کہانی
یہ کہانی انسانی فطرت اور اس کے اعمال کا نفسیاتی تجزیہ کرتی ہے۔ ایک دن وہ خود کو ایک اجڑے ہوئے ٹیلے پر پاتا ہے۔ اس کے پاس کوئی نہیں ہے۔ وہ تنہا ہے۔ پھر ایک گلہری آتی ہے اور وہ ببول کے کانٹے سے زخمی ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد پیڑ کی جڑ کی ایک درار سے ایک خوبصورت لڑکی نکلتی ہے۔ وہ اس کے لیے پانی لانے اور کھانے پکانے کے لیے کہتی ہے۔ اتنے میں ٹیلے کے گرد ایک بستی آباد ہو جاتی ہے۔ مگر جب کھانا بنتا ہے تو کچھ لوگ تو اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ کھانا لے لیتے ہیں جبکہ کچھ لوگ بھوکے ہی رہ جاتے ہیں۔ اس سے ان کے درمیان فساد ہوتا ہے اور وہ بستی پھر سے اجاڑ ٹیلہ بن جاتی ہے۔
اس اجڑے ہوئے ٹیلے پر میں بالکل اکیلا کھڑا ہوں۔ اس حد تک اکیلا کہ وہ جو کہتے ہیں نہ کہ ’’سایہ بھی ساتھ چھوڑ گیا‘‘ تو یہ کہاوت میرے اکیلے پن کے درد کو پوری طرح بیان کرنے سے قاصر ہے۔ سائے کا تو کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ وہ اگر ساتھ بھی رہے تو انسان کے کس کام آسکتا ہے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ ٹانگیں تھکاوٹ سے چور ہیں۔ یہی حال بازوؤں کا ہے۔ کمر میں اس قدر درد ہے کہ ببول کے جس پیڑ سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوں اس کی ایک گانٹھ میری ریڑھ کی ہڈی میں کانٹے کی طرح گڑرہی ہے لیکن میرے اندر اتنی سکت نہیں کہ ذرا سا سرک کر ادھر اُدھر ہو جاؤں۔ اور تو اور میری آنکھوں میں اس قدر تھکاوٹ بھری ہوئی ہے کہ میں پلکیں اٹھاکر ادھر اُدھر دیکھنے کی کوشش بھی نہیں کر رہا۔
اس سے زیادہ اکیلا پن اور کیا ہوگا کہ اپنےجسم کے انگ ہی ساتھ دینا چھوڑ دیں۔ ایک تو ٹیلا اجڑا ہوا۔ دوسرے ٹیلے پر پھیلا ہوا سناٹا۔ تیسرے اردگرد کاسونا پن۔ اس سونے پن میں کوئی مکھی بھنبھناتی ہے تو لگتا ہے سناٹا بول رہا ہے۔ وہ پنکھ پھڑپھڑاتی ہے تو لگتا ہے کہ ماحول کا سونا پن میرے اندر داخل ہونے کے لیے پنکھ تول رہا ہے۔
ایسے میں میرے اکیلے پن کااحساس اور بڑھ جاتا ہے۔ میں گھبراکر نقاہت کے مارے ہل نہ پارہی گردن کو تھوڑا بہت گھماکر ادھر ادھر دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ میرے اردگرد بکھرا سناٹا دھول کی صورت اڑ کر افق پر بھی اپنے پاؤں پھیلا رہا ہے اور میرا تھکا ہوا ذہن یہ فیصلہ نہیں کرپاتا کہ حقیقت کیا ہے۔ سناٹا افق سے اتر کر ٹیلے کی طرف آرہا ہے یا ٹیلے سے اڑ کر افق کی طرف جارہا ہے۔
اپنے اکیلے پن کے احساس کو مٹانے کے لیے میں نے سناٹے سے بات کرنا چاہی۔ وہ خاموش رہا۔ میں نے سونے پن کو آوازدی۔ وہ پٹ پٹ آنکھوں سے میری طرف دیکھتا رہا۔ میں نے چلتی ہوئی ہوا کو پل بھر کے لیے روکنا چاہا۔ وہ خود ٹیلے کے سونے پن سے گزرتے ہوئے پریشان سی تو تھی ہی ببول کے کانٹوں کی چبھن سے اس کے اندر سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ ایسے موقع پر آدمی ایک پل کے لیے رک جاتا ہے۔ لیکن ہوا سناٹے سے اس قدر سہمی ہوئی تھی کہ وہ درد کو سہتے ہوئے بھی نہ رکی اور سرسرکرتی جلدی جلدی آگے بڑھ گئی۔
اس ماحول میں میں کیا کروں۔ میری حالت تو اور بھی غیر ہو رہی تھی۔ تبھی میرے کانوں میں سیٹی کی سی آواز سنائی دی۔ شایدکوئی آس پاس ہے۔ یہ احساس ہی میرے لیے تنکے کے سہارے جیسا تھا۔ لیکن یہ احساس بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ بات دراصل یہ تھی کہ جب کبھی ہوا ٹیلے پر سے ہوتے ہوئے کسی بل یا درار کے اندر سے ہوکر گزرتی تھی تو سیٹی سی بج جاتی تھی۔ ’’نہیں یہ سیٹی کی آواز نہیں۔‘‘ میں نے سوچا ۔یہ ٹیلا ہی اپنے سونے پن سے گھبراکر کراہ رہا ہے۔ یہ ٹیلے کے درد کی ٹیسیں تھیں۔میں نے سوچا۔اگر یہ ٹیلہ کراہ رہا ہے تو کیا یہ زندہ ہے؟ اگر اس کے وجود سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی ہیں تو کیا اپنے اوپر چھائے سونے پن سے سہما ہوا ہے؟اس طرح کے کئی سوال میرے ذہن میں رینگ گئے۔
تبھی میری نظر ایک گلہری پر پڑی۔ جس طرف سے تھوڑی دیر پہلےمیں آیا تھا، اسی طرف سے گلہری اس ٹیلے کی ٹیسی پرپہنچی تھی۔ مجھے ببول سے ٹیک لگائے دیکھ کر وہ ٹھٹکی اور کتنی دیر تک زمین سے چپکی بٹر بٹر میری طرف ایک ٹک دیکھتی رہی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ ٹیلے کے اجڑے پن سے، اس کے سناٹے سے، اس کے سونے پن سے پہلے سے مانوس تھی اور ٹیلے پر زندگی کی اور کوئی نشانی دیکھنے کی عادی نہیں تھی۔ اسی لیے وہ حیران حیران سی میری طرف دیکھ رہی تھی۔
آخر اس نے اپنی حیرانی پر قابو پایا اور پھدکتی ہوئی پہلے تو پیڑ کے پیچھے کی طرف گئی۔ وہاں سے جست لگاکر پیڑ کے دوشاخے پر پہنچی اور دوسری جست میں اس سے اوپر والی شاخ پر پہنچنے کی کوشش میں ایک کانٹے دار ٹہنی سے الجھ گئی۔ وہاں اسے کانٹے جو چبھے تو وہیں سے چھلانگ لگاکر جس طرف سےوہ ٹیلے پر چڑھی تھی اسی ڈھلان سے نیچے اترگئی۔میں نے اسے نیچے جاتے ہوئے دیکھا تو پریشان ہوگیا، ٹیلے کے سناٹے نے ببول کے کانٹے چبھوکر اسے لہولہان کردیا تھا۔ اس کے جسم کی دھاریو ں پر کئی جگہ خون کے لال لال دھبے سےچمک رہے تھے۔
گلہری کو ٹیلے پر آتے ہی زخمی ہوتے دیکھا تو میں نےگھبراکر اپنے جسم کا جائزہ لیا۔ نہیں! میرے جسم پر ابھی کوئی کانٹا نہیں چبھا تھا۔ کہیں خون نہیں رس رہا تھا۔ ہاں تھکاوٹ اس طرح باقی تھی لگتا تھا جیسے میرے ہاتھ پاؤں، ٹانگیں میرے جسم کے ساتھ جڑے ہونے کے باوجود نہیں جڑے ہوئے تھے۔
ایک تو میں اپنے اکیلے پن سے پریشان تھا۔ اوپر سے گلہری کے زخمی ہونے پر میں اور دکھی ہوگیا۔ اس سےکچھ راحت پانے کے لیے میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا، اور سوچا کہ دماغ بھی کچھ دیر کے لیے کچھ نہ سوچے۔ لیکن ایسا ممن نہ ہوسکا۔ مجھے ایسے لگا کہ آنکھیں بند کرتے ہی میری آنکھوں میں بھرا ہوا سناٹا کانٹے بن کر چبھنے لگا۔ کہیں یہ کانٹے میری آنکھوں کو ہی زخمی نہ کردیں۔ میں نے گھبراکر جلدی سے آنکھیں کھولیں تو میری نظر میرےاردگرد بکھرے ببول کے پھولوں پر گئی۔ ان میں سے ایک پھول لال رنگ کا تھا۔
’’ببول کا پھول تو لال رنگ کا ہوتا نہیں۔ یہ عجوبہ کیسے ہوا؟‘‘ میں نے بازو بڑھاکر اس پھول کو اٹھایا تو تڑپ اٹھا۔ وہ پھول گلہری کے خون کے قطرے سے لال ہوگیا تھا، اور اب اس کی لالی میری انگلیوں کے پپوٹوں پر بکھر رہی تھی۔
مجھے سناٹا کاٹنے لگا۔
سونا پن اکھرنے لگا۔
اکیلا پن چبھنے لگا۔
میرے دل سے درد کی ٹیس اٹھی اور کراہ بن کر ٹیلے پر بکھر گئی۔
جس جگہ سے میں نے لہو سے داغدار پھول اٹھایا تھا، میری نظریں وہاں پر مرکوز ہوکر رہ گئیں۔ پتہ نہیں میں کتنی دیر تک اسی جگہ پر نظریں جمائے رہا۔پھر پتہ نہیں کیسے ہوا۔ کیونکر ہوا۔ میری تیکھی نظروں نے وہیں کی زمین کو چھید ڈالا تھا یا نیچے سے موٹی ہوتی ببول کی جڑ نے ٹیلے کی زمین میں درار بنادی تھی۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ میں نے دھیان سے اس درار کے اندر جھانکا تو مجھے کوئی گول سی چیز دکھائی دی۔ درار کو ذرا سا چوڑا کیا تو میرے ہاتھ میں ایک چوڑی آگئی۔ پتہ نہیں وہ چوڑی کب سے اس ٹیلے میں دفن تھی اور اب کھلی ہوا میں سانس لینے کے لیے درار کے راستے اوپر آگئی تھی۔
اس چوڑی کو ہتھیلی پر رکھ کر میں یہ سوچ ہی رہاتھا کہ ہو نہ ہو، اس ٹیلے کے نیچے پوری زندگی دفن ہے اور ممکن ہے اس کے اندر دبی زندگی سانس لے رہی ہو۔ سانس کی اس آواز کو سننے کے لیے میں نے اپنا کان ٹیلے کی مٹی سے لگادیا اور سننے کی کوشش کرنےلگا۔ کبھی لگتا کہ زندگی سانس لے رہی ہے۔کبھی لگتا کہ ٹیلا سانس لے رہاہے۔ کبھی لگتا کہ نہیں۔ کچھ نہیں ہے۔ ایسے ہی میرا وہم ہے۔ نہیں وہم نہیں ہوسکتا۔ اگر اس کے اندر دبی زندگی نہ ہو تو پھریہ چوڑی کس کی ہے۔
میں نے ایک دفعہ پھر ہتھیلی پر رکھی چوڑی کی طرف دیکھا اور اسی سے پوچھا، ’’تم کس کی ہو۔‘‘
’’یہ میری ہے۔‘‘ ایک حسینہ میرے اوپر جھکی ہوئی مند مند مسکراتی اپنی چوڑی مانگ رہی تھی۔ میں نے اسے دیکھنے کے لیے نظریں اٹھائی تو اس نے شرماکر چہرے کو گھونگھٹ میں چھپانے کی ایسی کوشش کی کہ وہ اپنا نورانی چہرہ چھپا بھی رہی تھی اور دکھا بھی رہی تھی۔
میں ہکا بکا اس کے حسن کا نظارہ کر رہاتھا۔ آنکھ ایسی کٹیلی کہ اس کی تیکھی نظروں کے بان سینے کو چھید کر دل میں دھنستے چلے جارہے تھے۔ آنکھیں ایسی ماہتابی کہ وہ جس طرف کو چہرہ گھمائے اسی طرف روشنی پھیلتی چلی جائے۔ ہونٹ ایسے کہ بنابولے ہی سب کچھ بول رہے تھے۔ میرے کچھ بولنے کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔ تبھی اس نے ایک لمبی سانس لی اور پھر اس نے جو سانس چھوڑی ہے تو، توے کی دھیمی آنچ پر سنکتی ہوئی روٹی کی جیسی سوندھی سوندھی خوشبو ہوتی ہے بس ویسی ہی خوشبو فضا میں بکھر گئی اور میرے بھوک دوگنی، چوگنی، سوگنی ہوگئی۔
اپنی آنکھوں میں ساری بھوک سمیٹ کر میں نے اس کی طرف بھرپور نظروں سے دیکھا تو اس نے مسکراکر میری طرف یوں دیکھا جیسے اس نے میرے ان کہے بولوں کو سن لیا ہو۔ اپنا ہاتھ بڑھاکر اس نے اپنی نازک سی انگلیوں سے میری ہتھیلی کو ذرا سا چھوتے ہوئے اپنی چوڑی اٹھائی تو اس کے چھونے سے جیسے میں جی اٹھا۔ تازہ دم ہوکر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ تبھی اس کے ہونٹ ہلے اور وہ بولی: ’’ڈھولا۔ بھوک لگی ہے تو تھوڑا صبر کرو۔ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ سامنے دریا سے پانی بھر کر لاتی ہوں۔ پھر آکر کھانا پکاؤں گی اور سوندھی سوندھی روٹیاں تمہیں کھلاؤں گی۔ جی بھر کر کھانا۔‘‘
میں دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کے پیچھے چار نہیں، پانچ نہیں، کتنی ہی لڑکیاں سرو ں پر گھٹرے اٹھائے دریا کی طرف جانے کے لیے تیار کھڑی تھیں۔وہ جدھر کو مڑیں۔ میں نے دیکھا ادھر ہی چھل چھل کر تا دریا بہہ رہاتھا۔ ارے یہ دریا کہاں سے آگیا۔ اس ٹیلے کے چاروں طرف تو چٹیل میدان تھا۔ اگر دریا پہلے سے تھا تو مجھے دکھائی کیوں نہیں دیا۔ابھی میں یہی سوچ رہا تھا کہ میرے کانوں میں اسی حسینہ کی آواز سنائی دی۔ وہ رک کر پیچھے کی طرف پلٹ کر کہہ رہی تھی کہ ’’میں گئی اور آئی۔ واپسی میں کنویں سے سبزیاں توڑ کر بھی لے آؤں گی۔تمہارے لیے نیچے والے کھیت سے میتھی ضرور لاؤں گی۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہیں میتھی کی سبزی بہت پسند ہے۔‘‘
وہ لڑکی یہ کہہ کر سہیلیوں کے ساتھ دریا کی طرف بڑھ گئی اور میں حیران ہوکر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ میں جدھر بھی دیکھتا تھا ادھر ہی ہری بھری فصلیں لہلہا رہی تھیں، کسان کھیتوں میں کام کر رہے تھے، کہیں رہٹ چل رہا تھا، کہیں ہل کے آگے جتے بیلوں کے گلے کی گھنٹیاں فضا میں رس گھول رہی تھیں اور کہیں دور کسی چرواہے کی بنسری کی دھیمی سی دھن میرے کانوں تک ایسے پہنچ رہی تھی جیسےپرانی صدیاں مجھے آواز دے رہی ہوں اور چرواہا کہہ رہا ہو کہ کھانا تیار ہوجائے تو مجھے آواز دےدینا۔ مجھے بھی بڑی بھوک لگی ہے۔ یہ میرا خیال ہی نہیں بلکہ حقیقت تھی۔ بھوک صرف چرواہے کو ہی نہیں لگتی تھی۔ صرف اسی نے بنسری کی دھن میں سمو کر یہ سندیسہ نہیں بھیجا تھا کہ اسے بھوک لگی ہے۔ بلکہ ہوا یوں کہ اس کی اس دھن کو سن کر سب کو پتہ چل گیا کہ بستی کی لڑکیاں گھڑے لے کر دریا کی طرف پانی لینے گئی ہیں۔ وہ پانی لینے گئی ہیں تو کھانا بنے گا ہی۔
اور اس کے ساتھ ہی کھیتوں میں کام کر رہے کسانوں کی بھوک جاگ گئی، ان کے ساتھ کام کرنے والے مزدوروں کی بھوک جاگ گئی۔ بستی کے تمام لوگوں کی بھوگ جاگ گئی۔ ہر ایک آوازیں دینے لگا۔
مجھے بھی بھوک لگی ہے۔
مجھے بھی بھوک لگی ہے۔
کھانا میں بھی کھاؤں گا۔
’’میں بھی۔۔۔ میں بھی۔۔۔‘‘
ان آوازوں کو سن کر لگتا تھا کہ ساری دنیا کی بھوک جاگ گئی ہے۔
اور تو اور چرواہوں کی بھیڑ بکریوں کی میں میں کی آوازیں، کسانوں کے بیلوں بچھڑوں ،ان کی گائے بھینسوں تک کی آوازیں مجھ تک پہنچ رہی تھیں جیسے کہہ رہے ہوں کہ چارہ ان کو بھی چاہیے، بھوک ان کو بھی لگی ہے۔یہ اتنے سارے لوگ کہاں سے آگئے۔ ابھی تو ٹیلے کے چاروں طرف بالکل سناٹا تھا۔ اتنے میں لڑکیاں پانی بھر کر لوٹ آئیں تو میرا دھیان ان کی طرف چلا گیا۔ انہوں نے چولہوں میں آگ جلائی، تندور گرم کیے اور جب کھانے کی خوشبو چاروں طرف پھیلی تو کھانے کے لیے پوری دنیا موجود تھی۔
ہاتھ آگے بڑھ رہے تھے۔
کھانے والےآتے جارہے تھے۔
ہاتھ دوسرے ہاتھوں کو ہٹا رہے تھے۔
کھانے والے ایک دوسرے کو دھکیل رہے تھے۔
کچھ لوگوں نے آج کے لیے کھانا لے لیا تھا۔
دوسرے کل کے لیے، آنے والے کل کے لیے، کسی دور کے کل کے لیے جمع کرنے کی فکرمیں تھے۔ بہت ایسے تھے جن کو اس وقت کے لیے بھی نہیں مل رہا تھا۔
باقی عورتیں کھانا پکا رہی تھیں۔ لیکن کٹیلی آنکھوں والی لڑکی اپنی چوڑی والی کلائی کو لہرا لہرا کر سب سے کہہ رہی تھی۔
دیکھو دریا پانی سے بھرا ہے۔
دیکھو کھیت اناج سے بھرے پڑے ہیں۔
یہ سب کی بھوک مٹاسکتے ہیں۔
کوئی بھوکا نہیں رہے گا۔
لیکن اس کی کون سنتا تھا۔ آپادھاپی تھی۔ گالی گلوج تھی۔ پھر نوبت سر پھٹول تک آگئی۔ نہ جانے کیسی کیسی بھوک تھی اور کتنی کہ وہ مرنے مارنے پر آمادہ ہوگئے۔ ہر سو لڑائی ہی لڑائی۔ ہرسو مہابھارت سی جنگ۔
نتیجہ یہ نکلا کہ دیکھتے ہی دیکھتے دریا سوکھ گیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے اناج سے بھرے کھیت اجڑ گئے۔
دیکھتے ہی دیکھتے چولہے اور تندور سرد پڑگئے۔
دیکھتے ہی دیکھتے آپس میں لڑتے لڑتے لوگ نیست و نابود ہوگئے۔
کٹیلی آنکھوں والی لڑکی بے بس سی ہوکر میرے پاس کھڑی ہوگئی۔ میں نے دیکھا۔ اس کی خوبصورت آنکھوں میں آنسو تھے۔
اس کے ماہتابی چہرے کی رنگت پیلی پڑگئی تھی۔
اس کے ہونٹوں سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔
بستی کی اینٹ سے اینٹ بج گئی تھی۔ وہ ایک اجڑا ہوا ٹیلا بن کر رہ گئی تھی۔ اور اس سانحے کا تمام درد کٹیلی آنکھوں والی لڑکی کے وجود میں سما رہا تھا۔
تبھی کیکر کے نیچے والی درار چوڑی ہوئی اور کاجنا بنانے والی تمام عورتیں آناً فاناً اس میں سما گئیں۔
کٹیلی آنکھوں والی لڑکی نے بھی میرے بازو کو تھاما اور درار کی طرف بڑھ گئی۔ چلتے ہوئے مجھے لگا کہ جیسے وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہو۔ مگر اس کے الفاظ ہونٹوں پر آکر رک رک جاتے تھے۔ وہ کچھ کہہ نہیں پارہی تھی۔آخر وہ مجھے ساتھ لے کر درار تک پہنچ گئی اور پھر ایک جگہ رک کر اس نے مجھے اپنے گلے سے لگایا، مسکراتے ہوئے میری آنکھوں میں جھانک کر دیکھااور بولی:
’’میں سبھی ٹیلے والوں کو ہزارمرتبہ کہتی ہوں کہ اپنی اپنی جگہ دفن پڑے رہو۔ ٹیلے کے اوپر جانے کی کوشش نہ کرو۔ لیکن میری کون سنتا ہے۔ لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ میں دوسروں کو کیا کہوں میں تو خود ہر مرتبہ اپنی چوڑی درار کے پاس چھوڑ آتی ہوں کہ کوئی مجھے تلاش کرتا کرتا مجھ تک پہنچ جائے۔ اور۔۔۔‘‘
وہ ایک پل کے لیے رکی۔ اپنی مسکراتی آنکھوں میں چھلک آئے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے بولی، ’’ہماری حالت تو اس گلہری جیسی ہو رہی ہے۔ ٹیلے پر اگے کیکر کے کانٹوں میں الجھ کر لہولہان ہوتی رہتی ہے مگر ٹیلے کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاتی۔‘‘
مجھے اس کی کلائی میں چوڑی نہیں دکھائی دے رہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.