کہانی کی کہانی
افسانہ ایک بیمار شخص کی روداد ہے جس کا جسم بخار کی وجہ سے جل رہا ہے۔ گھر والے اس کے آرام کے خیال سے سرگوشیوں میں باتیں کرتے ہیں لیکن ان سرگوشیوں میں کچھ آوازیں ایسی ہیں جنہیں سن کر وہ اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے کیونکہ ان میں بیمار کی فکر سے زیادہ ان کی اپنی پریشانیاں اور جھنجھلاہٹیں ہیں۔ دوا سے افاقہ نہ ہونے پر جھاڑ پھونک شروع ہوتی ہے، آگ میں مرچیں ڈالی جاتی ہیں، گوشت کے ٹکڑے سے نظر اتار کر اور سر پر روٹیوں کا تھال باندھ کر چیلوں کو کھلایا جاتا ہے۔ یہ تمام تر عوامل بیمار شخص کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ آخر یہ چیلیں کب تک جھپٹا مارتی رہیں گی، منڈلانا کب شروع کریں گی۔
شام کا وقت بخار کا وقت تھا۔ اب یہ بچوں والی بات ہوکر رہ گئی تھی کہ شامیں وہ شامیں نہ رہی تھیں۔ ان کا سہانا پن رخصت ہو چکا تھا۔ یہ نہیں کہ چڑیوں کا بھرا مارکر اڑنا، پیڑ میں جمع ہو کر شور مچانا اور ٹھنڈی خنک چھاؤں کا پیڑ سے لپٹ کر زمین پر پھیلنا ختم ہو چکا تھا۔ یہ سب بھی تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ہر شام میں ایک سہم سوار تھا اور بیمار جسم کی گرمی۔ دروازے کے سامنے رکھے ہوئے پلنگ پر لیٹے لیٹے میں یہ سب جان گیا تھا کہ دیوار سے ڈھلتی ہوئی دھوپ کی ملگجاہٹ میں زردی کھنڈ جاتی ہے۔ میں اس رنگت کو بھی جانتا تھا۔ پرانے بیمار کے چہرے کا رنگ اور گرم زمین جو چھونے سے اندر دبے ہوئے بخار کا پتہ دیتی تھی، اس کی تپش بڑھ کر کھولتی ہوئی، بھاری چادر کی طرح میرے گرد لپٹ جاتی اور مجھے بھینچنے لگتی۔
میرا سانس تیز ہو جاتا۔ آنکھیں جلنے لگتیں، پاؤں کے تلووں سے جیسے آگ نکل رہی ہوتی۔ بخار چڑھی ہوئی شام کا نپنے، ہلہلانے لگتی۔ اس کی ہری بھری فصیلیں کھردری ہوکر آنکھوں کے پیچھے کہیں چبھنے لگتیں۔ میں اس اذیت سے گھبرا کر آنکھیں میچ لیتا۔ تکیے میں منہ چھپا لیتا۔ لیکن اس روگی شام سے کہیں پناہ نہ تھی۔ ہر چیز سرخ ہو کر سیاہ پڑنے لگتی۔ میں نڈھال ہوکر پڑ رہتا اور مجھے بعد میں بتایا گیا کہ بے حواس سا ہو جاتا یہاں تک کہ مجھ پر غشی طاری ہو جاتی۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ پھر شام ڈھلے، رات گئے کہیں میں ٹھکانے سے اپنے آپے میں آتا۔
اس پیڑ نے بڑھنا بھی ایک ایسی ہی شام میں شروع کیا تھا۔ دروازہ پیڑ کے سامنے کھلتا تھا۔ دروازے کی سیدھ میں پلنگ تھا۔ ہوا کا جھونکا تیز ہوتا تو پیڑ کی ڈالیاں دروازے میں سے جھانکتیں، ٹھٹکتیں اور یہ دیکھ کر کہ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں، سائے کی طرح دبے پاؤں پلنگ کی سمت بڑھنے لگتیں۔ میں نے پلنگ پر دم سادھے پڑے پڑے دیکھنا سیکھ لیا تھا۔ میری ہمت نہیں پڑتی تھی کہ کسی کو پکار سکوں۔ میری ذرا سی بھی جنبش پر بھی وہ چوکنا ہو جاتیں اور آگے بڑھ کر میرا گلا گھونٹ سکتی تھیں، تاکہ ان کا راز محفوظ رہے۔ ان کے آگے بڑھنے کے خیال سے ہی مجھ پر کپکپی طاری ہو جاتی۔ اس شام بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ امی نے مجھے کانپتے، لرزتے ہوئے دیکھ لیا۔
’’اس کا بخار پھر بڑھ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے ابا کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ وہ کچھ کہے سنے بغیر اپنی کرسی سے اٹھ گئے ہوں گے اور چمڑے میں برف بھر کر اسے کوٹنے لگے ہوں گے، اس لیے کہ اس کا اگلا احساس جو میرے حافظے میں موجود ہے وہ یخ بستہ گیلے پن کا ہے۔ روتی اور رینگتی ہوئی ڈالیوں کی سرسراہٹ، میرے جلتے ہوئے پپوٹے، کنپٹی پر تیز دھمک سی ہوتی ہوئی اور پھر جیسے جلتے توے پر چھن سے پانی کی بوند پڑ جائے۔ امی برف میں بھگو کر میرے ماتھے پر پٹیاں رکھ رہی تھیں۔ امی میں نے قیاس سے کہا ہے۔ اس لیے کہ بخار میں پھنکتی ہوئی آنکھوں سے دیکھنا ممکن نہیں تھا کہ کون کیا ہے اور کہاں ہے، سوائے ان جھکتی، ٹھٹکتی اور پھر رہ رہ کر بڑھتی ہوئی ڈالیوں کے، جن کے گرد اب تپتا ہوا اور گہرا، گہرا اندھیرا لمبا لمبا لیٹنے لگا تھا۔
میں بس یہ پہچان سکتا تھا کہ ایک ہاتھ میری طرف اٹھتا ہے، پھر جلتے ہوئے ماتھے پر ایک ٹھنڈا یخ چھناکا بچھنے لگتا ہے، جس سے سارے بدن میں ایسی جھرجھری دوڑ جاتی ہے جو بخار سے بھی زیادہ تکلیف دہ معلوم ہوتی ہے اور کچھ دیر وہاں جمی رہتی ہے، کسی جانور کی زبان کی طرح مجھے چاٹتی ہوئی۔ کھردری، ٹھنڈی، گیلی، گندی۔ میں پھر کپکپانے لگتا۔ ذرا ذرا دیر کے بعد یہ لرزنا کانپنا مجھے اس قدر بے حال کر دیتا کہ پھر میں بار بار اچٹ جانے والی کچی نیند میں ڈھیر ہو جاتا۔ جلتے ہوئے پپوٹے پوری طرح بند نہ ہونے پاتے، ان سے نکلتی ہوئی گرمی ابخرات کی طرح ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔ ساری آوازیں اس پیڑ کی ڈالی ڈالی پر بیٹھی ہوئی بہت سی چیلوں کی طرح کبھی پاس کبھی دور، کبھی دور کبھی پاس ہوتی رہتیں۔ جلتی انگارہ آنکھوں سے کبھی سفید حدت، کبھی سیاہ کوئلہ نظر آتا۔
جو بھی چیز نظر میں آتی، دھواں دیتی ہوئے، کگروں کناروں سے جلتی ہوئی۔ سوائے آوازوں کے، جن کے کرارے پن میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ ایک آواز ابو تھی ایک آواز امی۔ ان کے علاوہ بہت ساری پیچھے کہیں دبکی ہوئی آوازیں، پیڑ کی بڑھتی ہوئی ڈالیوں کی طرح اگتی ہوئی۔ وہ ہوا کے ساتھ حرکت کرتیں تو ہوا ان کی باتیں مجھ تک لے آتی۔ میں بیماری کے عالم میں بھی پہچان سکتا تھا کہ وہ میرے بارے میں باتیں کر رہی تھیں، وہ سرگوشیاں میرے بارے میں تھیں۔ مجھے ان کو نہیں سننا چاہیے تھا۔ میری آنکھوں کی جلن اور بڑھ گئی۔ میں چور نیند میں سنی، ان سنی کرنے لگا۔ ان آوازوں میں وہ تھپکنے والی نرمی نہیں تھی جس سے میں مانوس تھا۔ ان آوازوں نے اپنے آپ کو اس طرح ڈھالا ہوا تھا کہ میں ان سے اجنبی رہوں۔ یہ آوازیں میری پسینے سے بھیگی ہوئی جلتی ہتھیلیوں کی پہنچ سے ذرا ہی دور تھیں۔ اسی پلنگ پر۔
’’اوں ہوں۔۔۔‘‘
’’شش، وہ جاگ جائےگا۔‘‘
’’تفم افس کخا تفو خفے یفال کفر فو۔ وفوہ بفیمفار ہفے۔‘‘
’’وفوہ دفیکھ نفئیں سفکتفا۔‘‘
آوازیں کبھی دور ہو جاتیں، کبھی پاس۔ مگر اب ان کے نام بھی تھے اور چہرے بھی۔ بخار سے جلتی ہوئی آنکھوں میں وہ کچھ کے کچھ اور سے اور ہوتے جا رہے تھے۔ ابو پتلے ہو رہے تھے اور لمبے اور بجلی کی طرح ہنس رہے تھے۔ امی گول ہو رہی تھیں اور موٹی اور بادل کی طرح گرج رہی تھیں۔ ابو ایک بےباک ہوتا ہوا قہقہہ تھے۔ امی جھنجھلاتی ہوئی بے زاری تھیں۔ باقی سب کچھ خاموشی جو میرے حلق میں کانٹوں کی طرح چبھ رہی تھی۔ میں چیخنا چاہتا تھا کہ بخار کا پیڑ مجھے بھینچنے کے لیے بڑھا آ رہا ہے، مگر اس خیال سے گونگا ہو گیا تھا کہ اگر ان کو پتہ چل گیا کہ میں جاگ رہا تھا تو۔۔۔
میرے پھنکتے ہوئے بدن پر کسی نے تمام برف کی پٹی مل دی۔ سر سے لے کر پیر تک جھرجھری دوڑ گئی۔ میں اپنے ہاتھ پاؤں کو کانپ اٹھنے سے نہیں روک سکا۔ میرا بخار بجائے کم ہونے کے یک دم کئی درجے اوپر ہو گیا۔ ہتھیلیاں جو پسینے میں بھیگ رہی تھیں، ٹھنڈی پڑ گئیں۔ آنکھوں کے پیچھے سیسہ بھرا ہوا تھا اور وہ کھولتا جا رہا تھا۔ ماتھا جل رہا تھا۔ کن پٹیوں میں دھمک ہو رہی تھی۔ میں نے آنکھیں اور زور سے میچ لیں۔ ان کی سوزش برداشت سے باہر تھی۔ آنکھوں میں جتنے رنگ تھے، سب جل کر راکھ ہو گئے۔ بخار اچانک پھر زور کرنے لگا۔ امی گھبرا کر ماتھے پر برف کی پٹیاں رکھنے لگیں۔ ابو گیلے کپڑے سے تلوے رگڑنے لگے۔ میں ہذیان بھری نیند میں بےسدھ ہو گیا۔
جب میری آنکھیں بغیر جلے ہوئے جسموں کو الگ الگ شناخت کرنے کے قابل ہوئیں تو اس وقت بھی ایک مریضانہ ملگجاہٹ طاری تھی۔ مگر اب میں فیصلہ کر سکتا تھا کہ یہ آنکھوں کا رنگ نہیں، شام کا رنگ تھا۔ آسمان پر بدرنگ جھٹ پٹا ہو رہا تھا۔ پیڑ کی ڈالیوں میں چڑیاں اکٹھا ہو رہی تھیں۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ امی دونوں ہاتھوں میں کچا گوشت لیے کھڑی تھیں۔
’’دونوں وقت مل رہے ہیں، اب تو سنبھل جاؤ۔‘‘ ان کی آواز میں التجا تھی۔ یہ آواز میرے لیے ہوتے ہوئے بھی میرے لیے نہ تھی۔ چار ہاتھ تھے جنہوں نے مجھے اٹھایا۔ بہت باریک کپڑے کا کرتا میرے بدن پر ڈال دیا گیا جس میں سے ہوا گزر کر میرے جلتے ہوئے جسم کی گرمی کو اور بڑھا دیتی۔ پھر مجھے چادر میں لپیٹ کر مکان کی چھت پر لے جایا گیا جہاں عام دنوں میں کوئی نہیں جاتا تھا۔ وہاں لکڑی کے تختے پڑے ہوئے تھے جو اس خیال سے ادھر ڈال دیے گئے تھے کہ کبھی ان سے کوئی چیز بنوائی جائے گی اور اس کی نوبت نہ آنے پائی، ان جانوروں کے ڈربے جنہیں پالا نہیں گیا اور مکان کے باقی حصے کو تعمیر کرنے کےارادے سے خریدی ہوئی ریت کی بوریاں جو بارش سے سخت ہو گئی تھیں۔
چھت کی منڈیر پر ایک چیل بیٹھی ہوئی تھی۔ امی کے پاؤں کی آہٹ پا کر وہ اڑ گئی۔ اس کے پروں کا رنگ میل خورا تھا۔ میں نے منڈیر کو تھام لیا۔ ورنہ گرپڑتا۔ امی وہاں نہیں تھیں۔ چھجے پر سے ان کی آواز آ رہی تھی۔ وہ کسی سے کہہ رہی تھیں، ’’ڈاکٹر علاج تو بہتیرا کر دیکھا۔ موافق آیا نہیں۔ بچہ ہے کہ بخار سے گھلتا جا رہا ہے۔‘‘ کوئی ان سے کہہ رہا تھا، ’’اصل میں یہ بچہ مومنا چومنا بہت ہے۔ اس کو نظر ہو جاتی ہے۔ اس کی نظر اترواؤ تبھی روز شام کو یہ بخار کا چکر پیچھا چھوڑےگا۔‘‘ اس مرتبہ آواز میں سرگوشی نہیں تھی۔ میں نے آنکھیں پھر بھی میچ لیں کہ نہیں معلوم مجھے یہ سننا بھی چاہیے تھا۔ آنکھیں بند کر لیں تو ایک دندک بھری کال کوٹھری تھی جس کی دیواریں بخار کی گرمی سے تپ رہی تھیں۔ میں نے سنبھلنا چاہا تو تپش نے مجھے دھکیل دیا۔ میں گرنے لگا۔
آنکھیں میں نے اس وقت کھولیں جب امی نے سہارا دے کر کھڑا کیا۔ وہ گوشت کو دبائے ہوئے مٹھی سے میرا کھڑا قد ناپنے لگیں۔ وہ مٹھی میرے سر تک لے کر آتیں، پھر پیرں تک لے جاتیں۔ زیر لب وہ پڑھتی جا رہی تھیں۔ میرے سارے بدن سے ٹھنڈا پسینہ پھوٹ رہا تھا۔ میں اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو پا رہا تھا۔ میرے کندھوں پر پڑا ہوا باریک کرتا ہوا سے ہل رہا تھا۔ مٹھی میں دبانے سے کچا گوشت خون چھوڑنے لگا تھا اور بے خون ہو کر انگلیوں کی گرفت میں سفید ہو رہا تھا۔ میری پیشانی اور قدموں سے مس کرنے کے بعد امی نے وہ گوشت ایک طرف کو اچھال دیا۔ منڈیر پر چیل دوبارہ آ گئی تھی۔
’’یہ گوشت چیلوں کے لیے ہے؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا تھا۔ امی کھانے کی چیزیں یوں تو کبھی نہیں پھینکتی تھیں۔
’’تمہاری بیماری کی بلا ان کو لگ جائے۔‘‘ امی نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے چپ کرایا، پھر ادھر ادھر دیکھ کر کہا، ’’نام نہیں لیتے ان کا۔ اوپر والی کہتے ہیں۔ شیطان کے کان بہرے۔ کہیں سن نہ لیں۔‘‘ انہوں نے مجھے چادر میں ڈھانپ لیا اور گود میں اٹھا کر نیچے لے گئیں۔ اب کی بار میں فوراً نہیں سویا۔ میں آنکھیں کھولے جاگ رہا تھا جب امی چولہے میں لال مرچوں کی پڑیا جلا رہی تھیں جسے مجھ سے چھوایا گیا تھا۔
’’دیکھو، نظر ہی تھی جو مرچیں جل رہی ہیں اور دھانس تک نہیں اٹھ رہی۔‘‘ وہ ابو کو بتا رہی تھیں۔ ابو کی نظریں چولہے میں جلتی ہوئی مرچوں پر تھیں۔ ’’ورنہ آگ پر ذرا سی مرچ پڑ جائے تو وہ دھسک اٹھتی ہے کہ سارے گھر کے گلے میں خراش پڑنے لگتی ہے۔‘‘ ان کی آواز اب مانوس تھی، اتنی مانوس کہ میرا گلا رندھ گیا۔ میں نے آنکھ اٹھائی تو چولہے کی آنچ تیز ہوکر اوپر اٹھ رہی تھی۔ وہاں سے ایسی سرخ بھبھوکا گرمی کی لپٹیں نکل رہی تھیں جیسے بخار میں پھنکتا ہوا بدن۔ میں اس سے زیادہ نہیں دیکھ پایا۔ پھر اسی ہذیان بھری غشی نے مجھے آ لیا۔
اب کی بار کھلی جو آنکھ تو مجھے خوب اچھی طرح یاد رہ گیا کہ میں نے کیا دیکھا۔ میرے سر پر روٹیوں کا تھال بندھا ہوا ہے اور چیلیں اسے نوچ نوچ کر کھا رہی ہیں۔ روٹی پر جھپٹا مارتی ہوئی چیل کا ملگجا، کھردرا، پردار بازو میرے چہرے سے ٹکرایا تو میں سوچ میں پڑ گیا کہ جن کو اوپر والیاں کہتے ہیں یہ کب تک تاک لگائے رہیں گی، سر پر منڈلانا کب شروع کریں گی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.