یوزلیس
جب منیر اور وہ لڑکی جلال کے دفتر کی سیڑھیاں چڑھ کر، جلال کے کمرے میں آ کر کھڑے ہوئے تو جلال نے پہلے لڑکی کوبغور دیکھا اور پھر منیر سے نظر ملائی۔ پھر بڑی دھیمی آواز میں اس کے منہ سے عادتاً ’’یُوزلیس‘‘ نکل گیا۔ اس پر جو منیر کا ردعمل ہوا وہ حیران کن تھا۔ اس نے جلال کی آنکھوں میں دُور، بہت دُور پرے تک دیکھا، اور بے حد اعتماد سے بولا ’’سر جی! مَیں’یُوزلیس‘ نہیں ہوں‘‘ جلال نے محسوس کیا کہ منیر کی آنکھوں میں وحشت، خشونت اور بے حد خفگی تھی۔ جلال اس وحشت کو سمجھ نہ سکا، بل کہ گھبرا گیا، اور جلدی سے بولا، ’’اچھا!، اچھا! تم لوگ گھر چلو، مَیں امی کو فون کیے دیتا ہوں‘‘۔ منیر نے بڑے اعتماد سے لڑکی کے دائیں کندھے پر ہاتھ رکھا، گویا اسے تحفظ فراہم کر رہا ہو۔ جلال نے یہ سب بہت دلچسپی سے دیکھا ،اور حیرت سے مسکرایا۔۔۔
جلال اپنے دفتر میں حسب معمول کام میں مشغول تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے فون اٹھایا۔ دوسری جانب سے آواز آئی ’’جناب مَیں ڈی ایس پی، گلبرگ سرکل سے بول رہا ہوں۔ یہاں ہمارے پاس ایک لڑکا عمر اٹھارہ انیس سال، اور ایک نو عمر لڑکی بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں پارک میں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں ڈیوٹی پر موجود سپاہی نے ان دونوں کو کچھ بد حواس سا پایا اور مشکوک سمجھ کر تھانا نصیر آباد میں لے آیا ہے۔ اس وقت یہ ہمارے پاس ہیں، اور بہت پریشان ہیں۔ لڑکے کا نام منیر ہے، اس نے آپ کا حوالہ اور فون نمبر دیا ہے۔ بتائیے ہم کیا کریں؟
جلال نے ڈی۔ ایس۔ پی سے کہا، ’’آپ کی بہت مہربانی، جوآپ نے مجھ سے رابطہ کر لیا ہے۔آپ دونوں کو میری ضمانت پر چھوڑ دیں۔ یہ لڑکا ہمارے ہاں کام کرتا ہے، اور ایک لمبے عرصے سے ہمارے ساتھ ہے۔ ایسا ویسا نہیں ہے۔ اس لڑکی کے ساتھ اس کا نکاح ہو چکا ہے۔ ’’سر! چوں کہ ہم آپ کو جانتے ہیں، اس لیے اعتبار کرتے ہوئے چھوڑ رہے ہیں ۔ ڈی۔ ایس ۔ پی نے بڑی شائستگی سے اپنی بات ختم کردی۔
جلال کی بہن اور بہنوئی دونوں کام کرتے تھے اور انھیں ایک ملازم کی تلاش تھی، جو ان کی عدم موجودگی میں کچن والی اور صفائی کرنے والی عورتوں کے کام کی دیکھ بھال کرے، اور بجاے اس کے کہ دونوں میاں بیوی گھر کو تالا لگا کر جائیں، گھر کھلا رہے۔ یہ دونوں میاں بیوی کی سوچ تھی کہ گھر کو تالا نہیں لگنا چاہیے، بل کہ گھر آباد، آباد سا لگنا چاہیے۔ ان کی شادی کو تھوڑی ہی مدت ہوئی تھی اور ابھی کوئی بچہ بھی نہیں تھا۔۔۔
منیر کیسے دستیاب ہوا۔۔۔ بس ایک روز صفائی والی نے منیر کولاکر کھڑا کر دیا کہ بی بی جی یہ منیر ہے، اور چڑڑ پنڈ میں اپنے کسی رشتہ دار کے ہاں رہ رہا ہے۔ اسے کام چاہیے تھا اور آپ کو بھی ضرورت تھی، سو مَیں لے آئی ہوں۔ مرضی ہے رکھیں، مرضی ہو نہ رکھیں، ضمانت اس کی کوئی نہیں ہے۔ چناں چہ اب جلال، اس کے امی، ابواپنی بیٹی عائشہ کے گھر جاتے تو ایک لڑکا عمر تقریباً 16-15 سال، گھٹا گھٹا سا خاموش، چہرے پر جہالت، بے اعتمادی اور ہونق پن کی چھاپ، ہاتھ میں ایک کپڑا لیے سایے کی طرح سارے گھر میں گھومتا پھرتا نظر آتا تھا۔ عائشہ نے اس کے ساتھ خوب مغز کھپائی کر کے کہ پانی کیسے پلاتے ہیں، اورمہمانوں کے لیے چاے کیسے لائی جاتی ہے، اور اگر مہمانوں میں خواتین بھی ہوں تو چاے یا پانی پہلے خواتین کو پیش کیا جاتا ہے۔ سر پر ٹوپی رکھو، چپلیں دو جوڑے ہونے چاہییں۔ ایک چپل باہر کے لیے اورایک چپل اندر کمروں میں کام کرنے کے لیے، وغیرہ وغیرہ۔ عائشہ بہت نستعلیق تھی، اور وہ ہر چیز کی نوک پلک سنوار کررکھنے کے مرض میں مبتلا تھی۔ اب منیر کو جہاں یہ سب کچھ سکھایا جارہا تھا، وہاں پر انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر اس کی تنہائیوں کا مداوا یوں کیا گیا کہ اسے یہ اجازت دے دی گئی کہ تم ٹی۔وی دیکھ سکتے ہو۔۔۔ لیکن اپنے فرائض سے فارغ ہو کر وہاں ، کونے میں بیٹھ کر۔
منیر اپنی عمر کے اس دور میں تھا، جب ماحول اپنی تمام تر اچھائی اور برائی کے ساتھ دل و دماغ کا جزو بنتا چلا جاتا ہے۔ لہٰذا ہر انسان اپنے مزاج کی بنیاد اور روش کے مطابق کچھ چیزوں کو اپنے اندر گہرا سموتا چلا جاتا ہے، اور کچھ کو وہ لاشعوری طور پر رد کرتا چلا جاتا ہے۔ نہیں معلوم کہ منیر اپنے پیچھے کتنا بنیادی ماحول چھوڑ کر آیا تھا۔ بہرحال عائشہ اور عامر کی بے جا ہمدردیوں اور شفقت سے منیر نے اپنی عمر کے اس دور کی، اپنے اندر کی ابھرنے والی پیچیدگیوں سے ناواقفیت کی وجہ سے اپنے لیے ٹی۔ وی، وی۔ سی۔ آر، ڈش اورگھر میں کام کے لیے آنے والی خواتین میں دلچسپی کے مواقع پیدا کر لیے۔ کچن کے کام والی کی بیٹی ’’وجے‘‘ اپنی تمام اداؤں اور الہڑ پن کے ساتھ اس جاہل اور ہونق دیہاتی لڑکے کے دل و دماغ پر سوار ہو گئی۔ وجے ایک شہری اور ہوشیار لڑکی تھی، اور پھر نہ معلوم وہ کب سے اور کتنے گھروں میں اپنی ماں کے ساتھ کام کے لیے جا رہی تھی، بہرحال منیر کی غالباً یہ پہلی محبت تھی اور اس محبت کی پذیرائی وہ کچن کے ذریعے کرتا، ہر اچھی کھانے والی چیز وہ وجے کے لیے سنبھال رکھتا۔ طعام کی یہ دعوت وہ کچن کی کھڑکی کے ذریعے ٹیرس پر کھڑی وجے تک پہنچاتا۔
وجے کی عمر کا وہ حصہ تھا کہ جب لڑکیاں روپو روپ ہو جاتی ہیں۔ منیر کا انہماک دیکھ کر وہ ہر روز ایک نیا کلپ اور ایک نیا پراندہ لہراتی اور چوڑیاں کھنکھناتی آتی، اور کام کرتے کرتے کن اکھیوں سے منیر کو تکتی جاتی۔ منیر بے چارہ بوکھلایا بوکھلایا ڈسٹنگ کرتا رہتا۔ پھر آہستہ آہستہ دونوں میں سُربنا، اور منیر وجے کی خاطر مدارت میں خود کوہلکان کرتا رہتا۔۔۔ عائشہ اور عامر کو بھی اس تعلق کی خبر تھی، لیکن ان کا خیال تھا، چوں کہ منیر کا Exposure نہیں ہے، اس لیے ایسا ہو رہا ہے۔ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گا۔ شاید وہ خود غرض ہو گئے تھے، کیوں کہ منیر ایک بے زبان اور ہانک پر چلنے والا کارندہ ثابت ہو رہا تھا۔ وہ صبح کے آٹھ بجے بھی اسی رفتار سے چلتا اور رات کے بارہ بجے تک بھی، اس کے چہرے پر تھکاوٹ کاکوئی نشان نہ ملتا۔ جلدی یا دیر سویر کا تصور اس کے ذہن میں کہیں نہیں تھا۔ وقت کے مفہوم سے وہ نابلد تھا، اس کی ان خصوصیات کی وجہ سے عائشہ کا اعتماد اور انحصار منیر پر بڑھتا چلا گیا۔ جب عائشہ اور عامر صبح گھر سے نکل جاتے تو منیر کی آزادی اور من مستی کا وقت شروع ہو جاتا ۔ پہلے ٹی وی اور وی سی آر تک اس کی دسترس تھی۔ پھر ڈش کا چرچا عام ہوا تو اس گھر میں ڈش بھی لگ گئی۔ ڈش نے منیر کے تن من کو مست کر دیا، اور اب ہر نئی آنے والی ملازمہ منیر کے لیے وجے کے روپ میں پری پیکر تھی، اور وہ خود گلفام۔
عائشہ کی جاب اس قسم کی تھی کہ اسے ہر پندرہ دن بعد مختلف شہروں میں دورے پر جانا پڑتا تھا۔ ان دوروں میں کبھی کبھار اسے ایک دو دن بھی لگ جاتے تھے۔ عائشہ دورے پر تھی جب عامر کوبھی بینک کے کام سے شیخوپورہ جانا پڑ گیا۔ عامر نے منیر کو سمجھایا کہ مَیں دفتر سے فارغ ہو کر اُدھر سے ہی شیخو پورہ نکل جاؤں گا۔ مَیں اور باجی شام کو آجائیں گے۔ منیر نے بند ہونٹوں اور بِٹ بِٹ کرتی آنکھوں سے تمام ہدایات سنیں، اور گاڑی روانہ ہونے کے بعد گیٹ بند کر لیا۔
دوپہر کے تقریباً ساڑھے بارہ بجے کے قریب عامر جب اپنے کولیگ کے ساتھ شیخوپورہ کے لیے نکلنے لگا، تو اسے یاد آیا کہ کلائنٹ کی فائل رات گھر لے گیا تھا، اور صبح ساتھ لانا بھول گیا ہے۔ سخت کوفت ہوئی کہ اب چکر بازی میں بہت وقت برباد ہو گا۔ لیکن گھر جائے بغیر چارہ نہ تھا۔ عامر اپنے کولیگ کے ساتھ گھر پہنچا۔ ہارن بجائے، کوئی پانچ منٹ بعد ایک لڑکے نے گیٹ کھولا۔ عامر نے حیران ہو کر پوچھا کہ تم کون ہو؟ اور منیر کدھر ہے؟ لڑکے نے جواب دیا کہ وہ جی اوپر ڈانس کررہا ہے‘‘۔ ’’ڈانس!! منیر!! عامر سیڑھیاں الانگتا ہوا اوپر گیا تو وہاں رقص و سرودکی محفل جمی ہوئی تھی۔آٹھ دس جواں سال لڑکوں کا ہجوم تھا۔ وی سی آر آن تھا اور منیر، جینز، بڑے بڑے پھولوں والی ٹی شرٹ، پیروں میں جاگرز اور گلے میں بھڑکیلا سکارف باندھے اندھا دھند ڈانس کرنے میں مصروف تھا۔ عامر کو گنگ اور ہکا بکا کرنے کے لیے یہ سب کافی تھا، اس اثنا میں تمام لڑکے تتر بتر ہو گئے۔ جب میوزک ختم ہوا تو منیر کے قدم بھی تھم گئے۔ منیر نے آنکھ اٹھائی تو سامنے عامر کو کھڑا پایا، لیکن قطعاً کسی غیر معمولی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ فقط اپنی سپاٹ، دھلی دھلی آنکھوں کی ٹکٹکی ، عامر کے چہرے پر لگا دی۔ عامر نے بے حد ضبط کا مظاہرہ کیا۔ وی ۔ سی ۔آر وغیرہ آف کیے۔ گھر کے دروازے بند کیے۔ منیر کا ہاتھ پکڑ کرتقریباً اسے گھسیٹتا ہوا نیچے لایا، اور اسے گیٹ سے باہر پلی پر بٹھا دیا۔ پھر اس نے اپنے سر کو جھٹکا۔ تھرماس میں سے پانی پیا اور ایک لفظ بولے بغیر گاڑی شہر کی جانب موڑ لی۔
سات آٹھ بجے کے قریب عامر شیخوپورہ سے واپس آیا، عائشہ بھی گھر آ چکی تھی، جونہی عامرلاؤنج میں داخل ہوا۔ عائشہ نے بہت غصّے سے عامر کی جانب دیکھا۔ جواب میں عامر نے ہنستے ہوئے کہا، ’’کیا ہے بھئی؟ کیا ہوا‘‘؟ ’’یہ آپ نے منیر کے ساتھ کیا کِیا؟‘‘ عائشہ اور عامر تقریباً ہم عمر تھے، دونوں کی آپس میں خوب تو تڑاک چلتی تھی، لیکن ناراضی اور غصّے میں ایک دوسرے کو ’’آپ‘‘ کہتے تھے، اسی سے دونوں سمجھ جاتے کہ معاملہ نازک ہے۔ عائشہ نے اپنے گیلے بالوں میں انگلیاں پھریں اور دوبارہ بولی، ’’کمال ہے، یعنی آپ کو احساس ہی نہیں ہے‘‘، ’’تم نے اس سے پوچھا کہ اس نے کیا حرکت کی ہے؟ تم دیکھتیں کہ گھر کیسے لفنگوں سے بھرا ہوا تھا، تو یقیناًشوٹ کر دیتیں۔‘‘
عائشہ کو معلوم تھا کہ عامر ایک کھلے ذہن اور فیاض دل کا مالک ہے، پھر بھی اس نے کہا، ’’عامر! منیر اس وقت ٹین ایج Ten Age میں ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ اس دوران میں کیا کیا ذہنی پرابلمز ہوتی ہیں۔ ہم سب بھی تو اس دور سے گزرے ہیں، ہمیں کتنا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہم بہت کچھ کر گزرتے ہیں۔ہے نا؟۔۔۔ اس سارے واقعے کے دوران منیر نے اپنی نشست میں ایک انچ کا بھی ردوبدل نہیں کیا۔ اس کی نگاہ لحظہ بھر کو بھی ٹی۔ وی سے نہ ہٹ سکی۔ وہ اس ساری گفتگو سے قطعی لاتعلق تھا۔۔۔
منیر مزاجاً ایک سست رو انسان تھا۔ لہٰذا جھاڑ پونچھ کے دوران کوئی چیز اس سے ٹوٹتی نہیں تھی، اور عائشہ کے لیے منیر میں یہ ایک بڑی خوبی تھی۔ غرض کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منیر باوجود اپنی نااہلی کے، محض، اپنی خاموش مزاجی اور فرماں برداری کی وجہ سے عامر اور عائشہ کے ہاؤس ہولڈ کی ضرورت بنتا چلا گیا۔ کھانا، کھانا اور خوب کھانا، اسے وہ اپنا حق سمجھتا تھا اور ٹی وی سے اسے سچی محبت تھی، لیکن عائشہ یہ سب برداشت کرتی تھی کہ وہ گستاخ اور جھوٹا نہیں تھا۔
عامر کا تبادلہ کراچی کا ہوا تو عائشہ نے بھی اپنی ٹرانسفر کراچی کروا لی۔ ظاہر تھا کہ منیر بھی ہمسفر تھا۔ ان دونوں میاں بیوی نے کراچی میں منیر کے دل بہلاوے کے سارے سامان مہیا کیے۔ نئی جینز، جوگرز، بھڑکیلے پھولوں والی شرٹیں۔ شوخ رنگوں کے سکارف اور کیمرا اور سمندر کی سیریں۔ منیر یہ تمام مراعات قبول کرتا چلا گیا۔۔۔ لیکن یہاں اس کے دل کی بستی ویران تھی کہ یہاں اس کے لیے کوئی ’’وجے‘‘ نہیں تھی۔ جو بھی خاتون اس کی موجودگی میں کام کے لیے آتی، وہ آپا ، باجی قسم کی ہوتی۔ ایک دن اس نے دبے دبے لفظوں میں لاہور واپسی کے ارادے کا اظہار کر ہی دیا۔ عائشہ اور عامر بھی سمجھ گئے تھے کہ یہ پرندہ، کراچی کی فضا میں نہیں اڑ سکے گا۔ دونوں نے اسے بخوشی اجازت دی، اور لاہور والی گاڑی میں بٹھا دیا۔
طویل مدت تک اس کا کچھ اتا پتا نہ ملا۔ لیکن عائشہ اور عامر کو منیر سے کچھ انس ہو چکا تھا، وہ اکثر ذکر کرتے، اور فکر مند ہوتے کہ نہ معلوم اس کو کوئی کام ملا بھی ہے کہ نہیں، بیچ میں پتا چلا کہ وہ ہوائی اڈے پر کام کر رہا ہے، دونوں میاں بیوی مطمئن ہو گئے۔
جلال کی چھوٹی بہن فائزہ کا میاں امریکا گیا ہوا تھا۔ اور وہ اپنے چار سالہ بچے کے ساتھ میکے میں رہ رہی تھی۔ ایک روز اپنی سہیلی کے گھر ڈیفنس سے واپس آئی تو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا منیر بھی گاڑی سے برآمد ہوا۔ فائزہ نے اسے اشارے سے باہر ہی رکنے کو کہا، اور اندر آ کر اپنی ماں سے سرگوشی میں بولی، ’’اماں! پلیزآپ ناراض نہ ہونا، وہ منیر ہے نا، وہ مجھے سڑک پرکھڑا ملا ہے، تو مَیں اسے ساتھ لے آئی ہوں۔ پلیز! اماں اسے ڈانٹنا نہیں ہم اسے رکھ لیتے ہیں۔ وہ بہت برے حالوں میں ہے، ہم اسے رکھ لیتے ہیں۔ آگے ہمیں ایک اور ملازم کی ضرورت بھی تو پڑ سکتی ہے نا؟ فائزہ نے اپنے آنے والے بچے کا حوالہ دیا۔ جلال کی اماں بیٹی کی سفارش اور منت سماجت پر بے دلی سے آمادہ ہو گئیں اور بولیں! ’’بلاؤ! مَیں دیکھتی ہوں! فائزہ قدرے نروس تھی کہ نہ معلوم اماں اسے کیا کہہ دیں، اس نے گلا صاف کیا اور منیر کو اندر آنے کے لیے کہا۔ منیر بھیگی بلی بنا اندر آیا۔ ’’سلاماں لیکم، بیگم صاحب جی‘‘ اس نے مریل سی آواز نکالی۔ اماں نے منیر کی جانب دیکھے بنا ذرا رُکھائی سے سلام کا جواب دیا، جس پر فائزہ نے تنبیہی نظروں سے ماں کی جانب دیکھا۔ تب اماں نے ایک نظر میں منیر کو سر سے پانو تک دیکھا۔ اس کا حلیہ در در خاک چھاننے کی گواہی دے رہا تھا۔ اماں پسیج گئیں، اور اسے بڑی اپنائیت کے لہجے میں نہانے کے لیے کہا، اور فائزہ سے کہا کہ جلال کے کپڑوں میں سے کچھ نکال دو، تاکہ صاف ہو سکے۔۔۔ سو عائشہ اور عامر کے گھر سے منیر جلال کے گھر میں منتقل ہوا۔
جلال کے گھر میں بھی منیر کو اوپر کے کام پر لگا دیا گیا کہ سب کو خبر تھی کہ منیر سواے میز لگانے، موٹا موٹا پیاز ٹماٹر کاٹ کر سلاد بنانے اور کچی پکی موٹی موٹی روٹیاں بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ لیکن اس نکمے پن کے باوجود اس کے وجودکی موجودگی میں اپنائیت اور وابستگی سی محسوس ہوتی تھی، وہ کمروں میں گھومتا پھرتا ہوا، جھاڑ پونچھ کرتا ہوا اوپرا نہیں لگتا تھا۔ خواتین میں سے کسی کو بھی دوپٹا سنبھالنے یا سنبھل کر بیٹھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ وہ تمام دن بہت رضا مندی اور تابعداری سے گھر کے ہر فرد کی آواز پر لبیک کہتا، اور ’’آیا جی‘‘ کہتا ہوا قریب آ جاتا۔ پھر پتا چلا کہ منیر تو بھئی بہت ذہین ہے کہ اسے ٹی وی، وی سی آر، ڈش ہینڈل کرنے آتے ہیں۔ سو گھر والوں کوایک اورسہولت میسر آ گئی۔ فلم لگانی ہوتی تو منیر لگائے، ٹی وی پر چلتی ہوئی فلم کا نام پوچھنا ہو تو منیر یقیناًجانتا ہے۔ کون سی فلم اچھی ہے، کون سی بری۔ شاہ رخ کی تازہ فلم کون سی ہے۔ کاجل کے ساتھ نیا ہیرو کون ہے۔ گویا منیر ایک فلمی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اس کے علاوہ منیربچے کو بھی بہلا رہا ہے۔ ڈرائیور غائب ہے تو منیر گاڑی نیوٹرل کر کے سڑک پر لا کر دھو رہا ہے، صفائی والی نہیں آئی تو منیر اپنے آپ صفائی شروع کردیتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر فائزہ بہت خوش ہوتی، اور ماں سے کہتی ’’اماں! ہی از اے گڈ سول ہے نا!؟‘‘ اماں سوچتیں، کہ ’’کہیں یہ ہم سب کو اپاہج بنانے کے لیے تو نہیں آیا؟‘‘ لیکن ان تمام کاموں میں منیر کی طبعی سست روی بہرحال موجود تھی۔ اس لیے جلال جب اسے سستی و کاہلی سے کام کرتے دیکھتا تو اسے یوز لیس کہتا، اور منیر جواب میں بڑے دوستانہ انداز سے مسکراتا۔ یوز لیس کا لفظ دن میں دو چار مرتبہ استعمال ہو ہی جاتا۔
ایک دوپہر فائزہ کا بڑا بیٹا اٹین شن کھڑا دونوں ہاتھ سینے پر رکھے، خود ہی کوئی کھیل کھیل رہا تھا،اور یہ الفاظ دہرا رہا تھا:
کیدے اعظم (قائدِ اعظم) نے فرمایا،
’’ناں میری پھپھی ناں میرا تایا
مَیں کلّے نیں پاکستان بنایا‘‘
فائزہ کی اماں نے حسین سے پوچھا کہ یہ آپ کو کس نے بتایا ہے۔ حسین نے بڑے فخر سے کہا، ’’منیر بھائی نے‘‘۔ منیر سے پوچھا تو اس نے بڑی سنجیدگی سے بتایا۔ ’’جی یہ میرے سکول کے ماسٹر نے سکھایا تھا۔‘‘
ایک دن نسرین اُوپر سے کام کر کے جو نیچے آئی تو کچھ بکھری بکھری سی تھی۔ اماں نے محسوس کیا، تو پوچھا ’’کیا کسی نے ڈانٹا ہے، بھوک لگ رہی ہے؟ کچھ ٹوٹ گیا ہے؟‘‘ نسرین کچھ بھی جواب نہیں دے پا رہی تھی۔ آخر ماں نے نسرین کا بازو پکڑا اور کچن سے باہر لے آئیں، اور کہا کہ ’’کیا بات ہے؟ گھر میں کچھ پیسوں کی ضرورت ہے؟‘‘ آخر اماں نے جھنجھلا کر، ڈپٹ کر پوچھا تو نسرین نے ایک دھاڑ ماری، اور بولی ’’بیگم صاحب! منیر مجھے کہتا ہے کہ مَیں تم سے پیار کرتا ہوں، تُم بھی مجھ سے پیار کرو۔ مَیں شاہ رخ سے اچھا ڈانس کر سکتا ہوں‘‘ جلال کی اماں سناٹے میں آ گئیں۔ لیکن نسرین نے کہا، ’’بیگم صاحب میری ماں کو مت بتائیں، کام چھوٹ جائے گا تو ہم کھائیں گے کہاں سے‘‘۔ ساتھ ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ اماں نے لڑکی کو پیار کیا۔ پانی وانی پلایا، اور اسے کسی بات سے ڈرنے اور فکر نہ کرنے کی ہدایت کی۔ انھوں نے گھر میں بھی کسی سے ذکر نہ کیا۔ منیر دن بھر اماں سے چھپتا پھرا۔ اماں بھی اس کا سامنا نہیں کرنا چاہ رہی تھیں۔ وہ منیر سے نظر ملا کر بات نہیں کرسکتی تھیں۔ انھوں نے سوچا کہ اسے نکال دیں، پھر خیال آیا کہ یہ بد نصیب کہاں جائے گا۔۔۔ لیکن کچھ دنوں بعد منیر نے معاملہ یقیناًسلجھا، بل کہ سنبھال لیا، کیوں کہ اب نسرین کے چہرے پر شادابی تھی، وہ پراندہ لہراتی کوارٹر سے صفائی کا سامان لینے جاتی اور جھاڑو اچھالتی، مسکراتی ہوئی اندر کام کرنے آ جاتی۔
گھر کے سب افراد اس رنگین واردات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔۔۔ کچھ دن یہ سلسلہ چلا، وہ الگ بات کہ نسرین کی ماں کی تجربہ کار آنکھوں نے بھی معاملہ بھانپ لیا، اور ایک روز دوسری ملازمہ سے لڑائی کا بہانہ بنا کر اس نے نسرین کا ہاتھ پکڑا اور کام چھوڑ کر چلتی بنی۔ کچھ روز منیر کے چہرے پر ہوائیاں اڑیں۔ اس کا وجود اور کام غیر متوازن ہوا۔ لیکن جلد ہی وہ نارمل ہو گیا، یقیناًکسی اور ’’وجے‘‘ کے انتظار میں۔
کچھ مدت امن رہا۔ سب نے خیال کیا کہ اب منیر سنبھل گیا ہے۔۔۔ لیکن کچھ دنوں بعد اچانک گھر کے ماحول میں پراسرایت سرسرانے لگی۔ منیر جھاڑ پونچھ کے لیے اوپر جاتا تو فائزہ کے نومولود بچے کی آیا بھی غائب ہوتی۔ آواز دینے پر پتا چلتا کہ وہ بھی اوپر جھاڑ پونچھ کر رہی ہے، جب کہ یہ اس کا کام نہیں تھا۔ اماں نے فائزہ سے پوچھا کہ ’’تم کچھ جانتی ہو کہ کیا قصہ ہے؟ مَیں بہت ڈسٹرب ہو رہی ہوں۔‘‘ اماں کی اس ذہنی تفتیش سے فائزہ چڑ گئی۔ اماں آپ ہر وقت اس غریب کے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔ پلیز آپ اسے سدھارنے، اس کی تربیت کرنے سے دستبردار ہو جائیں۔ تہذیب و تربیت اپنانے کے لیے ایک مضبوط بیک گراؤنڈ چاہیے ہوتی ہے، کھلا اور گھلا ملا ماحول، بہن بھائی اور ماں باپ چاہیے ہوتے ہیں۔ کیا منیر کے پاس یہ سب کچھ ہے؟ ہو سکتا ہے کہ منیر کے لاشعور میں کسی ایسے وجود کی یا پیار کی تلاش ہو جو اسے اپنے گھر میں نہیں مل سکا۔ جلال ٹھیک کہتا ہے کہ اماں کو صوفیوں کی سی صفات رکھنے والا مددگار چاہیے۔ یہ کہتے کہتے فائزہ ہنس دی۔۔۔ اماں! اس رات کا واقعہ کیا تھا؟ آپ کو یاد ہے نا؟ جب ریموٹ کنٹرول کاایک ایسا بٹن آپ کی انگلی سے دب گیا تھا جس سے Bay Watch سامنے آ گیا، اس چینل پر وہ سب کچھ تھا، جسے آپ اپنے نواسے سے چھپانا چاہتی تھیں۔ آپ نے فوراً چینل بدل دیا تھا۔ آپ کے چار سالہ نواسے نے آپ سے پوچھا کہ نانی یہ کیا تھا؟ آپ نے آہستگی سے اسے ٹالتے ہوئے کہا تھا ’’کچھ نہیں، بیہودہ عورتیں تھیں‘‘۔ اس جواب پر آپ کا نواساچیخا اور رویاتھاکہ ’’بیہودہ عورتیں لگاؤ، بیہودہ عورتیں لگاؤ‘‘ ہم سب ہنسے بھی تھے، کھسیانے اور فکر مند بھی ہوئے تھے۔ ہوئے تھے نا؟ تو اماں منیر کو بھی ایسی ہی فکر مند ہونے والی نانی اورکھسیانی ہونے والی ماں چاہیے تھی، جو کہ ظاہر ہے، نہیں تھی۔ منیر کی ماں نے اسے اپنی روٹی آپ کمانے کے لیے گھر سے باہر کر دیا ہے اور گھر سے باہر ’’جو کچھ‘‘ ہو سکتاہے ’’وہ کچھ‘‘ وہ کر رہا ہے۔ وہ جو کچھ کرتا ہے یا جو کچھ اس سے ہو جاتا ہے، وہ اس کی جستجو ہے، اور کچھ بشری تقاضے۔ ویسے یہ گوف (goof) آج کل پیغام رسانی پر لگا ہواہے، اور یہ پیغام رسانی آیا اور آپ کے دوسرے طرار سے ملازم کے مابین ہے۔ مَیں صبح، اچھی طرح سے اس کی خبر لے چکی ہوں۔ اس انکشاف نے اماں کو مزید پریشان کر دیا؟
بہرحال یہ ایکٹویٹی چھپی نہ رہی، اور بچے کی آیا اور ملازم مرد دونوں اماں اور ابا کے سامنے پیش ہوئے۔ دونوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کی، اور بظاہر معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ لیکن وابستگی کی کچھ نشانیاںآپ ہی آپ ظاہر ہو جاتیں۔ اماں اب لاپروا ہو گئی تھیں۔ ان کا خیال تھا، خود ہی بھگتیں گے۔ البتہ لڑکی کی ماں سے کہہ دیا کہ گھر میں مرد ملازم بھی ہیں۔ اپنی بیٹی کو سمجھا دو، ہم کسی بات کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔
پھر ایک سہ پہر ایسے ہوا، سب اکٹھے بیٹھے چاے پی رہے ہیں۔ ابا نے دیکھا کہ اماں خوشگوار موڈ میں ہیں، تو بڑے سرسری سے انداز میں کہا ’’یہ منیر! کچھ کہہ رہا ہے۔ ساتھ ہی منیر کو بڑی ہوشیاری سے آواز دے دی کہ آؤ اندر آ کر بیگم صاحب سے بات کر لو۔ منیر دبے پانو لاؤنج میں آیا۔ گھٹنوں کے بل بیٹھا۔ بازوؤں کو گھٹنوں پر جمایا اور نظریں نیچی کیے بولا، ’’بیگم صاحب جی! میری۔۔۔ میری جی شادی ہے جی‘‘! اماں اپنی جگہ پر کسمسائیں، گلا صاف کیا اور تیکھے سے لہجے میں پوچھا! ’’کب ہو رہی ہے‘‘؟ ’’یہ جی نویں مہینے کی اٹھارہ تاریخ کو جی، پیسے بھی چاہیے ہیں جی۔‘‘ اماں خاموش تھیں، ابا نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور جلدی سے بولے، ’’یہ اپنی بیوی کو یہاں کوارٹر میں لانا چاہتا ہے، وہ بھی ہمارے ساتھ ہی رہے گی‘‘ یہ سنناتھا کہ اماں نے تڑپ کر سوفے پر اِس قدر بے چینی اور اضطراب سے پہلو بدلا کہ جیسے انھیں کسی بچھو نے کاٹ لیاہو۔ فوراً بولیں؛ یہ کیسے مُمکن ہے۔ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اس نے تو خرگوش کی طرح بچے پیدا کرنے شروع کر دینے ہیں ۔ یاد ہے نا، وہ نذراں اور فرید ایک بیٹی لے کر آئے تھے۔ پونے دو سال بعد تین بیٹیاں لے کر رخصت ہوئے ۔ ان لوگوں کو کون سمجھا سکتا ہے۔ یہ سب جملے اماں چند سیکنڈ میں بول گئیں۔ منیر کو نہ معلوم اماں کی گفتگو سمجھ آئی کہ نہیں، وہ اپنی مخصوص نشست میں بیٹھا، سب کی جانب بٹ بٹ دیکھ رہا تھا، گویا کوئی فیصلہ سننے کا منتظر ہو۔ تھوڑی دیر ماحول پر خاموشی رہی۔ اس نے دوبارہ اپنا کیس پیش کیا۔ فخر سے بولا، ’’بیگم صاحب جی! ریشماں پڑھی ہوئی ہے۔ مجھ سے زیادہ باتیں جانتی ہے۔میرے ماموں کی بیٹی ہے جی‘‘۔۔۔ لیکن اماں کی خاموشی سے وہ سمجھ گیا کہ بات نہیں بن سکتی۔ دوسرے ہی لمحے اس نے سب کچھ نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا، ’’مَیں جی آپ کے گھر میں شادی کی پالٹی(پارٹی) تو کرسکتا ہوں؟ اماں چونکیں۔۔۔ پارٹی۔۔۔ ہاں پارٹی وہ تم ضرور کر سکتے ہو۔ اپنے دوستوں کو بلا لینا۔ پارٹی کے لیے سب پیسے مَیں دوں گی۔ اماں کو اپنے سخت رویے کا احساس ہو چکا تھا، وہ جھینپ رہی تھیں، انھیں احساس ہو رہا تھا کہ انھوں نے سب کے سامنے کھلی ڈلھی گفتگو کر ڈالی ہے۔ بہت معذرت سے سب کو دیکھا اور وہاں سے اٹھ گئیں۔ دوبارہ آئیں تو انھوں نے منیر کو بہت سارے پیسے بھی دیے، اور بیس روز کی چُھٹی بھی، اور پیسوں کے بارے میں کہا کہ رقم واپس کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن پھر بھی گھر کے لوگ کچھ اداس تھے۔
اور آج تھوڑی دیر پہلے جلال کے دفتر میں یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ اس اثنا میں جلال کا دوست اور ورک پارٹنر حسیب دفتر آ چکا تھا۔ جلال نے تھوڑی دیر پہلے گزرے واقعہ کے بارے میں حسیب کو بتایا۔ حسیب کا جلال کے گھر آنا جانا تھا، اور وہ منیر اور اس کی شخصیت کو جانتا تھا۔ جلال نے یوزلیس کے لفظ پر منیر کے شدید ردعمل کا بھی ذکر کیا، اور حسیب سے پوچھا کہ یار آج اسے یہ لفظ کیوں برا لگا۔ حسیب کچھ لمحے خاموش رہا۔ پھر اچانک اس نے پوچھا، ’’لڑکی کیسی تھی؟‘‘ ’’لڑکی، بس عام سی لڑکی، لیکن دیکھنے میں منیر سے میچور، بہاولپوری، ملتانی سٹائل سے ملتی جلتی، بھونرا آنکھیں، جامنی ہونٹ، لیکن اس سارے واقعے میں لڑکی کی تو کوئی اہمیت نہیں، یار! لڑکی کا تو کوئی رول ہی نہیں ہے۔ بس وہ تو اس کے ساتھ تھی‘‘، جلال نے جواب دیا۔
’’ لڑکی کا ہی تو سارا عذاب ہے۔‘‘حسیب نے میز پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا، جلال نے کچھ دیر سوچا، اور اپنے آپ میں چونکتے ہوئے بڑبڑایا۔ اوہ !!’’He felt my remark that way‘‘۔ ’’یس(Yes)۔۔۔‘‘ حسیب نے یس پر زور دیا۔ ’’ہی ٹک یور ریمارک دیٹ وے۔‘‘
جلال نے سگریٹ کو ایش ٹرے میں مسلا اور اپنے ہاتھ کی لمبی انگلیوں کو ہوا میں لہراتا ’’یوزلیس‘‘ بڑبڑاتا ہوا دفتر کی سیڑھیاں اتر گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.