aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

استاد شمو خاں

احمد علی

استاد شمو خاں

احمد علی

MORE BYاحمد علی

    کہانی کی کہانی

    یہ کہانی استاد شمو خاں کی ہے۔ کسی زمانے میں وہ پہلوان ہوا کرتا تھا۔ پہلوانی سے اس نے کافی شہرت پائی اور اب زندگی کے باقی دن کبوتر بازی کا شوق پورا کرکے گزار رہا ہے۔ پاس ہی رہنے والے شیخ جی بھی کبوتر بازی کا شوق رکھتے تھے۔ کبوتر بازی کے مشترکہ شوق میں دونوں کے درمیان کس کس طرح کے داوں پینچ ہوتے ہیں، جاننے کے لیے یہ کہانی پڑھیں۔

    (۱)

    استاد شمو خاں پہلوان کی اب تو خوب چین سے گزرتی تھی۔ کئی ایک اکھاڑے مار لینے سے مان ہو گیا تھا۔ کام بھی خوب چل رہا تھا۔ گھر میں بیوی سلمہ بتیت ہیں اور صرف دو بچے تھے۔ ورق کوٹنے سے یافت کافی ہو جاتی تھی۔ یار دوست تھے، فکر پاس نہ پھٹکتا تھا اور اس کے علاوہ بدھو، درگی چماری کی لڑکی، عیش کرنےکو اللہ میاں نے پھوکٹ میں دے رکھی تھی۔ وہ کم عمر اور خوبصورت تھی۔ اس کا سڈول اور بھرا ہوا جسم، اس کاگندمی رنگ جس میں ایک ہیرے کی سی دمک تھی، اس کی بڑی بڑی مست آنکھیں، غرض کہ اس کی ہر چیز موزوں اور لاجواب تھی۔ انسان اس سے زیادہ کیا چاہ سکتا ہے؟ تمول اور اوپر سے یہ مفت کا عیش۔ شموخاں روز ایک ہزار ڈنڈ بیٹھک نکالتے اور خوب گھی پی پی کر دنبے کی طرح موٹے اور چکنے ہو گیے۔

    لیکن ان کو ایک فکر برابر ستایا کرتا تھا۔ ان کے گھر کے سامنے ہی شیخ نورالہی کرخندار رہتے تھے۔ ان کو استاد شموخاں کی طرح کبوتروں کی بڑے دھت تھی اور استاد سےان کی صید بندھی ہوئی تھی۔ شیخ نورالہی شمو خاں کو بڑھتا دیکھ کر دل ہی دل میں بہت جلتے تھے اور یہ جلن اس لیے اور بھی بڑھ گئی کہ استاد شمو خاں نے نہایت عمدہ اور تگڑے پٹھے تیار کرنے شروع کر دیے۔ جو حالانکہ محض نفتے پلکے ہی ہوتے تھے۔ لیکن بازی میں ہمیشہ شیخ جی کی شیرازی اور چپ کبوتروں کے جھلڑ کو نیچا ہی دکھاتے اور ہر لڑائی میں شیخ جی کے ایک آدھ پٹھے کو ضرور کھیر چپیک لاتے۔ پہلے تو چونکہ شروع شروع کامعاملہ تھا۔ شمو خاں نے ایک آدھ بار شیخ جی کے کبوتر واپس کر دیے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو حد سے ہی گزرا جا رہا ہے تو دینے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اب چوک پر بکیں گے۔ یہ سن کر شیخ جی اور بھی آگ بگولہ ہوئے۔ جب تک یہ معاملہ آپس ہی میں تھا تو اتنی برائی کی بات نہ تھی۔ لیکن کبوتروں کا چوک پر جانا نہ صرف شیخ جی کی شان کے خلاف تھا بلکہ اس سے ان کے نام پر بٹہ آتا۔ انہوں نے شمو خاں کو روپیہ روپیہ دو دو روپیہ اپنے کبوتروں کے دینے کو کہا۔ لیکن شمو خاں بولے،

    ’’میاں مجاز تو درست ہیں؟ ہوش کی آو۔ اب تو قبوتر چوک سے ورے نہیں ملتے۔ لمبے بنو۔۔۔‘‘

    کبوتروں کی مار کھا کھا کے شیخ جی کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ کیا کریں، حالانکہ وہ قیمتی سے قیمتی اور اعلیٰ سے اعلیٰ پٹھے خرید کرلاتے۔ لیکن ان کو بھڑی دی نہیں کہ شموخاں نے جو اس تاک میں رہتے تھے، اپنے کبوتروں کو ششکارا۔ جو شکرے کی طرح بھاگ کر عین شیخ جی کے بیٹھتے بیٹھتے کبوتروں کے سروں پر اس زور سے جھپکی لیتے کہ ان کے ساڑھ جھلڑ کو پلٹیاں کھاتے ہوئے دور لے جاتے۔ شیخ جی بے چارے بہت باو باو کرتے لیکن شمو خاں کے کبوتر ان کو کہاں نکلنے دیتے تھے۔ جب شیخ جی کے کبوتر بالکل شل ہو جاتے تو شموخاں اپنے کبوتروں کو آواز دیتے۔ ادھر شیخ جی کا کلیجہ آؤ آؤ کر کے پھٹا جاتا، بے چارے اس قدر بد حواس ہو ہو کر چیختے کہ ہاتھ ہلا ہلا کر کر زمین سے گزوں اچھل اچھل جاتے اور بجائے پانی کے مٹھیاں بھر بھر کر باجرہ ہوا میں اچھال دیتے۔ لیکن شیخ جی کے ایک آدھ شموخاں کے ہاں گر جاتا۔ شیخ جی اپنے کبوتروں کو چھوڑ کر اچک اچک کر منڈیر پر سے دیکھتے کہ ان کا کیا حشر ہوا لیکن شموخاں کو چھپکا مارنے کی بھی نوبت نہ آتی اور شیخ جی کی ساری ٹکڑی پکڑی جاتی اور پھر بےچارے شیخ جی اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتے۔ شموخاں نے تو ان کے کبوتروں کا چھت پر سے اٹھنا ہی دوبھر کر دیا تھا۔

    جب شیخ جی نے دیکھا کہ ان کی کسی طرح نہیں چلتی اور شمو خاں سے اس بری طرح مار کھائی ہے تو وہ شمو خاں کو کسی نہ کسی طرح نیچا دکھانے کی فکر میں رہنے لگے۔ اکثر میر سعداللہ سے، جو پنشن لینے کے بعد دلی ہی میں واپس آکر رہنے لگے تھے اور میر محلہ کی حیثیت اختیار کر لی تھی، جا جاکر شکایتیں کیں، لیکن میر صاحب سمجھدار اور سنجیدہ آدمی تھے وہ اس معاملہ میں نہ پڑے۔

    (۲)

    ایک روز ایسا اتفاق ہوا کہ جھٹ پٹے کے وقت شیخ جی چاوڑی بازار میں چلے جا رہے تھے کہ پیچھے سے کسی نے آواز دی، ’’اے میاں شیخ جی، اے میاں شیخ جی، اجی ذرا ٹھیرو تو ہم بھی آ رہے ہیں۔‘‘ شیخ جی نے پلٹ کر دیکھا۔ ان کے دوست فاضل خاں تیز تیز قدم رکھتے ہوئے ان کی طرف آ رہے تھے۔

    ’’واہ میں باشا تم تو اللہ یانے سر پر پیر رکھے جا رہے تھے۔‘‘

    ’’ہاں میں تو مزے میں ہوں۔ تم سناؤں کیسے حریان نظر آ رہے ہو۔‘‘

    ’’میاں کیا پوچھتے ہو۔ ذری دیر ہوئی۔ ایک نیا خال پٹھا کھولا تھا کہ وس حرام زادے شمو خاں نے مار لیا۔ وسکی تلاش میں جا رہا ہوں۔‘‘

    ’’لو، اس پہ یاد آیا۔ میاں کچھ اور بھی تمہارے گوش گزارش ہوا؟ شمو خاں کی دس بدھو سے آشنائی ہے۔ شاید تم نے بھی وس لمڈیا کو دیکھا ہوگا۔ وہ چماری والی۔ میاں باشالمڈیا تو خوب زوروں پر آئی وی ہے۔ انار نارنگیاں۔۔۔‘‘

    ’’کیا میاں سچ مچ کے ریے ہو؟‘‘

    ’’اور نہیں تو کیا۔ میں نے خودون دونوں کو مخولیت کرتے دیکھا ہے۔‘‘

    ’’ملاویار قورمے کا ہاتھ! یہ تو اللہ نے خوب سنائی۔‘‘

    فاضل خاں اس اچانک تپاک سے ذرابد کے لیکن شیخ جی کا ہاتھ بڑھا ہوا دیکھ کر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ دے دیا اور قہقہہ مارنے لگے۔

    ’’ارے یار باشا بات کیا ہے؟ میں تو اللہ یانے گھبرا گیا۔‘‘

    شیخ جی کے مرجھائے ہوئے چہرے پر رونق آ گئی تھی۔ انھوں نے ادھر ادھر چاروں طرف نظر دوڑائی اور ایک کوٹھے کی طرف آنکھ مارتے ہوئے خوشی سے کچھ مسکراتے ہوئے کہا، ’’ارے یار میں نے کہا چاوڑی تو آج بڑی رونق پر ہے۔‘‘

    ’’لیکن یار تم نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ یہ اچانک ماجرا کیا ہو گیا۔‘‘

    ’’ارے یارو کچھ نہیں۔ تم نہیں جانتے ہو۔ میری وس حرام زادے شمو خاں سے چلی وی ہے۔ جب قبوتر کھولے نہیں کہ وس نے۔۔۔‘‘

    اتنے میں پیچھے سے ایک ٹریم آ گئی اور سامنے سے کچھ تانگے اور اوپر سےایک موٹر، فاضل خاں اور شیخ جی باتوں میں اس قدر محو تھے کہ قریب تھا کہ کچل جاتے۔ جب موٹر کی آواز زور سے ان کے بالکل سامنے سے آئی تو کود کر شیخ جی ایک پڑی پر بھاگے اور فاضل خاں دوسری پڑی پر اور ان کی بات ادھوری ہی رہ گئی۔

    چوک پر پہنچ کر شیخ جی ادھر ادھر پنجروں پہ نظر ڈالتے ہوئے بھیڑ بھڑکا میں کھو گیے۔ استاد شمو خاں کے پاس سے گزرتے وقت انھوں نے نگاہ ان کے پنجرے پر اپنے کبوتروں کو بھانپنے کے لیے ڈالی اور دوسری نگاہ میں غیض و غضب سے خود استاد کے چہرے کو حقارت اور غصہ سے دیکھا پھر اپنے دوست فاضل خاں کے الفاظ یاد کرکے مسکرا دیے۔ اتنے میں برابر سے حکیم نظیر آ نکلے۔

    ’’ارے میاں شیخ جی، آج تو تمہارے بہت سے کبوتر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کیا بات ہے؟ سب کے سب ہی گر گیے؟‘‘

    ’’حکیم صاحب کی پوچھتے ہیں آپ۔ ذری دیر ہوئی کہ نئے پٹھے کھولے تھے۔ ایک آدھ ہی بھڑی دی ہوگی کہ وس۔۔۔ شمو خاں۔۔۔‘‘

    ’’اوہو شیخ جی بڑا افسوس ہوا۔ آج تو استاد شمو خاں نے آپ کا دھڑ بٹھا دیا۔ میاں ذرا ہلدی کا گھسا دے کر چکنا وتو دو، پھر دیکھیں گے۔ کیسے گرتے ہیں۔‘‘

    برابر سے آکر بابو اکرام الدین نے شیخ جی کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور اظہار افسوس کرنے لگے۔ شیخ جی ان باتوں سے زمین میں گڑے جاتے تھے۔ غصہ سے سرخ ہو گئے، ’’اجی حکیم صاحب میں نے کیا یہ کس طریوں کی کبوتر بازی ہے؟ کوئی وخت بھی تو ایسا نہیں ہوتا کہ نئے پٹھوں کو بھی چکر دے سکیں۔ اجی یہ بھی کوئی بات چیت ہے، وس حرام زادے۔۔۔‘‘

    ’’ارے میاں شیخ جی ذری اس خالی پٹھے کا ملیائزا کرنا کیا پھڑکتا ہوا جناور ہے۔‘‘

    بھیڑ میں سے دھکاپیل کرتے ہوئے صدیق بہشتی نے آکر کبوتر والا ہاتھ شیخ جی کی طرف بڑھایا اور ذرا گردن ٹیڑھی کرکے شیخ جی کی آنکھوں کو دیکھنے لگا، جو کبوتر میں گڑی ہوئی تھیں۔ شیخ جی نے کبوتر کی گردن مروڑی، سینہ پکڑ کے اس کو پھڑپھڑایا، پرکھولے، ٹانگیں دیکھیں، چونچ کا معائنہ کیا اور حکیم صاحب کی طرف بڑھا دیا۔ انھوں نے بھی بے چارے کی اسی طرح درگت بنائی۔ پھر کبوتر بابو اکرام الدین کے ہاتھوں میں پہنچا۔ غرض کہ بڑی دیکھ بھال کے بعد کبوتر پھر شیخ جی کے پاس واپس آیا۔

    ’’بھئی پٹھا تو خوب ہے۔‘‘

    ’’ارے پارکس کا مارا؟‘‘ شیخ جی نے بڑے استعجاب سے پوچھا۔

    ’’اجی کیا پونچھوں ہو آپ۔‘‘ اور پھر شیخ جی کے منہ سے منہ لگاکر کہا، ’’استاد شمو خاں کا۔‘‘

    ’’اہا۔ اجی بابو جی آج تو بڑے موذی کا پالا مار لیا! اچھا یا رکن داموں کا ہے؟‘‘

    صدیق بہشتی بولا، ’’اجی شیخ جی کدھر ی آپ سے بھی کوئی نریالی بات ہو سکتی ہے۔ جو خوشی ہو لیکن ابھی ابھی کلن ایک دھیلی دے ریا تھا۔‘‘

    ’’اچھا یار اب تو ملاجی کے پنجرے میں چھوڑ دے۔ دام پھر دیکھے جائیں گے۔‘‘

    صدیق بہشتی بہت خوش خوش ملاجی کے پنجرے کی طرف چل دیا۔ ادھر سے اس کا دوست کلن آ نکلا اور بولا، ’’ارے یار باشا سودا تو خوب پٹایا۔‘‘ اور اس نے صدیقی کے کندھے پر ایک تھپڑ مارا۔

    ’’ارے یارو کیا پونچھ ریے ہو۔ شیخ جی کی آنکھوں میں دھول ڈال دی۔ پٹھاون ہی کا تھا۔ استاد شموخاں کی ٹکڑی میں سے کٹ کر بھٹک رہا تھا۔ میں نے جو اپنے قبوتروں کو پھڑکایا تو سالہ گولے کی طرح یوں گر پڑا اور اللہ یانے شمو خاں کا کہہ کہ ون ہی کے متھے دے پٹخا۔‘‘ یہ کہہ کر صدیق نے زور سے کلن کی پیٹھ پر ہاتھ مارا کہ وہ اچھل گیا۔ ’’واباشا خوب چونا لگایا۔‘‘ اور دونوں بڑے زور سے ہنستے ہوئے آگے بڑھ گیے۔

    (۳)

    محلہ میں پہنچ کر شیخ جی بجائے سیدھے گھر جانے کے شیخ محمد صادق کے ہاں پہنچے اور چھوٹتے ہی ان کو اپنی وہ گفتگو سنائی جو فاضل خاں سے استاد شمو خاں کے بارے میں ہوئی تھی۔ پھر کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرکے اپنے گھر واپس آ گیے۔ کچھ ہی روز کے عرصہ میں استاد شمو خاں اور بدھو کے بارے میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں لیکن لوگوں نے اس بات کی کوئی خاص پروا نہیں کی۔ استاد بہت ہردلعزیز تھے اور لوگ جو شموخاں کے سے موقعہ کی تلاش میں رہتے تھے، یہ سب باتیں سن خاموش ہو رہے۔

    مگر شیخ نورالدین الہی اسی تاک میں تھے کہ موقع پاکر استاد شمو خاں کو نیچا دکھائیں اور بھرے بازار میں ذلیل کریں۔ اس تگ و دو میں وہ اپنی صید کو بھی بھول گیے۔ اس خوشی اور امید میں کہ ایک نہ ایک روز وہ استاد شمو خاں سے بدلہ لے ہی لیں گے وہ ذرا اور اکڑ کر چلنے لگے۔ وہ اس خیال کو بھی نہیں بھولے تھے کہ میرسعد اللہ سے اس بات کا تذکرہ کر دینا ضروری ہے۔ ایک روز اس بات کا موقعہ بھی ہاتھ آ گیا چنانچہ رات کے کوئی نو بجے شیخ جی حیران و پریشان میر صاحب کی بیٹھک میں پہنچے۔

    ’’السلام علیکم۔‘‘

    ’’وعلیکم السلام شیخ جی۔ بہت دنوں سے تشریف لائے۔ مزاج تو اچھے ہیں۔‘‘

    ’’آپ کی مہربانی ہے۔ ذری کاروبار سے فرصت نہیں ہوئی۔‘‘

    کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد بولے، ’’اجی میر صاحب وس شمو خاں نے تو حریان کر رکھا ہے۔ آج شام کو میں ذری یادگار توڑی چلا گیا تھا کہ میرا ایک بھٹکاوا قبوتر آن نکلا۔ گھر میں سے نیک بخت نے قبوتر کھول دیے کہ وتے میں صاحب وس شمو خاں نے ایک پتھر میرے گھر میں پھینکا۔ اجی صاحب وہ تو بس بخیریت ہی ہو گئی نہیں تو وس قتل سے وس نیک بخت کا مغز ہی کھل گیا ہوتا۔ وہ بیچاری بک بول کر چپ کر گئی اور اس پر اور سنیے۔ اب تو ہماری بہو بیٹیوں کی آبرو کا بھی کچھ ٹھکانہ نہیں۔ آپ کے بھی شاید گوش گذار ہوا ہو کہ وس شمو خاں کی وس بدھو درگی چماری کی لڑکی سے آشنائی ہے۔ اب کہیے؟‘‘

    لیکن میر صاحب بولے، ’’شیخ صاحب اپنے فعل اپنے ساتھ ہیں۔ آپ کیوں کسی کو کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں؟ جو جیسا کرےگا ویسا بھرےگا۔ آپ شمو خاں سے واسطہ ہی نہ رکھیے۔‘‘ شیخ جی بولے، ’’اجی صاحب یہ تو جو کچھ بھی آپ عرض کرتے ہیں ٹھیک عرض کرتے ہیں۔ لیکن میں تو یہ فرماتا ہوں کہ وتی دور کیوں جائیے۔ یہیں سے لے لو۔ جیسے وہ مثل مشہور ہے جو آپ نے بھی سنی ہوگی۔ کہ ایک مچھلی سارے تلاو کو گندا کر دیتی ہے۔ تو بس یہ ہی بات چیت ہے اور وس حرام زادی لمڈیا کے ماں باپ بھی کچھ نہیں بولتے صاحب تو وہ سارے لمڈوں کو خراب کرویگی۔ وسکی تو چٹیا پکڑکر بارہ پتھر باہر پھنکوانا چاہیے۔‘‘

    اس گفتگو کے بعد شیخ جی کچھ میر صاحب سے برگشتہ خاطر ہو گیے اور خود ہی استاد شمو خاں کی تذلیل کے موقعہ کی تلاش میں رہے۔

    (۴)

    اپریل کا مہینہ تھا اور گرمی روزبروز زور پکڑی جاتی تھی۔ گرمیوں کی دوپہر میں ایک عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ ایک مستی اور نفسانیت، ایک گہرا نفسانی جذبہ انسان کے سارے جسم میں سرایت کر آتا ہے۔

    استاد شمو خاں اپنی دوکان میں بیٹھے ہوئے جوان کے گھر ہی کا ایک کمرہ تھا، ورق کوٹ رہے تھے۔ گلی کے نکڑ سے ایک ٹین والے کے ٹین پیٹنے کی آواز متواتر اور یکساں چلی آ رہی تھی۔ دور سڑک پر ٹریم کی ہموار اور کوفت دہ گھڑگھڑاہٹ بار بار ہوتی تھی۔ کچھ اور شور و شغب اور سودے والوں کی مسلسل آوازیں ایک یاس اور ناامیدی کا ساسماں پیدا کر رہی تھیں، ایک ایسی مسلسل ہمواری کا جو گرمیوں کے دنوں کی ایک خاص چیز ہوتی ہے جس کا منجمد سلسلہ صرف انسان کے نفسانی خیالات کو اور بڑھا دیتا ہے۔

    ایسے حامل وقت میں جب کہ ذرا سے اشارہ سے انسان کے خیالات آگ کی طرح بھڑک اٹھتے ہیں۔ بدھو کی جھلکتی استاد شمو خاں کے لیے وبا کا کام کر گئی۔ لپک کر استاد شمو خاں نے آدھے بند کواڑوں کو کھولا اور گردن باہر نکال کر جھانکنے لگے۔ جب انھوں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑاکے دیکھ لیا کہ کوئی نہیں ہے۔ تو اشارہ سے بدھو کو بلایا، چٹ بڑھ کر اپنے بیٹھنے کے گدے کے نیچے سے ایک اٹھنی نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھی اور اسے سامنے والے گودام کی طرف اشارہ کیا جو خالی پڑا ہوا تھا اور جس میں استاد شمو خاں صبح کو کسرت کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا گھر کا سلا ہوا بنیان پہنا اور اپنی تہبند کو سنبھالتے ہوئے دوکان میں سے نکلے اور کواڑ بند کرنے لگے۔

    اتفاق کو انسان کی زندگی میں بڑا دخل ہے اور اکثر اس کی تمام کوششوں اور تدبیروں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ اتفاق میں بڑے کمال کی بات یہ ہے کہ وہ ہر کسی شکل میں آموجود ہوتا ہے اور اس دوپہر کو جب بدھو سڑک کو پار کر رہی تھی اور استاد شمو خاں ایک ہاتھ اپنے تہبند پر رکھے ہوئے اپنی دوکان کے کواڑ بھیڑ رہے تھے تو شیخ نورالدین الٰہی اتفاق کی صورت اختیار کیے گلی کے نکڑ پر نمودار ہوئے۔ جیسے ہی انھوں نے اپنی نگاہ کے سامنے استاد شمو خاں اور بدھو دونوں کو دیکھا تو وہ ٹھٹکے اور ایک مکان کی آڑ میں ہوکر یہ دیکھنے لگے کہ اب یہ دونوں کیا کرتے ہیں۔

    جب انھوں نے دیکھ لیا کہ پہلے بدھو اور اس کے پیچھے پیچھے استاد شمو خاں خالی گودام میں داخل ہوئے تو بغیر کچھ اور دیکھے بھالے شیخ جی پنجوں کے بل بھاگتے ہوئے ایک اور گلی میں غائب ہو گئے۔ انھوں نے اپنے دوست شیخ محمد صادق کے کارخانہ میں دم لیا۔ جہاں اتفاق سے مرغوں کا کارخانہ گرمی پہ تھا۔ شیخ نورالٰہی کی سنسنی خیز خبر سن کے سب۔۔۔ شیخ جی کی رہبری میں مقام کا رزار کی طرف بولائے ہوئے روانہ ہو گیے۔ جلدی میں ایک صاحب کی بغل میں ایک اصیل مرغا دبا چلا آیا۔ وہ تھوڑی دور چلے تھے کہ مرغے نے زور سے ایک قیں کی۔ بس بےچارے مرغ کی آواز نکلنے ہی کی دیر تھی کہ شیخ جی فوراً پلٹ پڑے اور بہت نیلے پیلے ہوکر بولے،

    ’’میاں تمہاری عقل بھی درست ہے۔ ابھی سارا کھیل بگڑ گیا ہوتا آیا کہیں کا مرغ باز۔‘‘

    ’’ابے کیا کہا؟ آتوذری میدان میں!‘‘

    اور یہ کہہ کر شیخ جی نے آستینیں چڑھانی شروع کر دی۔۔۔ وہ تو خیرگزری کہ شیخ محمد صادق ان کے ساتھ تھے۔ انھوں نے دونوں کو ذرا ٹھنڈا کیا اور بیچ بچاؤ کرایا، نہیں تو سر پھٹول ہی کی نوبت آتی۔ اس کے بعد ساری ٹولی پنجوں کے بل خالی گودام کی طرف اس طرح بڑھی جیسے کوئی شکاری بڑی احتیاط سے اپنے شکار کی طرف بڑھتا ہے۔ وہ اتنے چپکے چپکے چل رہے تھے کہ ان کے دلوں کے دھڑکنے کی آواز دھائیں دھائیں سنائی دیتی تھی۔

    گودام کے نزدیک پہنچ کر سب نے کواڑوں پر کان لگاکے سننے کی کوشش کی۔ لیکن شیخ جی نے سب کو اپنے ہاتھوں سے پیچھے ہٹایا اور آنکھیں نکال کر انگلی کے اشارے سے سب کو چپ کرانے لگے۔ ادھر لوگ سننے کے اس قدر مشتاق تھے کہ سب کے سب کواڑوں کی طرف بڑھے آتے تھے۔ بڑی مشکل سے شیخ جی نے ان سب کو ایک کونے میں چپکاکر کے کھڑا کر دیا۔ لیکن ان کی بیتاب نگاہیں کواڑوں پر گڑی ہوئی تھیں۔ اب شیخ جی کان لگاکر سننے لگے۔ گلی کے نکڑ سے ٹین پٹنے کی آواز آ رہی تھی۔ دور سڑک پر ٹریم کی گھڑ گھڑ اور سودے والوں کی آوازیں چلی آ رہی تھیں، اندر ایک سر سر کی سی آواز کے علاوہ کچھ نہ سنائی دیتا تھا۔

    جب شیخ جی کو کوئی بات بھی صاف نہ سنائی دی تو اس قدر بیتاب ہوئے کہ انھوں نے گودام کے کواڑوں کو دھکا دے دیا۔ جو اتفاق سے استاد شموخاں اندر سے بند کرنا بھول گیے تھے۔ کواڑ چوپٹ کھل گیے اور سب کے سب ایک دم سے آگے بڑھے۔۔۔ سامنے استاد شموخاں سینہ نکالے کھڑے تھے۔ شیخ نورالدین الٰہی کا مسخ چہرہ خوشی سے سخت ہو گیا۔

    ’’کیا سالہ ایڈی پولو بنا کھڑاوا ہے!‘‘

    ’’لیکن وہ کہاں ہے، ڈھنڈو؟‘‘

    اور سب نے مایوسی اور غصہ سے شیخ جی کی طرف پلٹ کر دیکھا ایک آدھ نے گودام کے کونوں پر نظر ڈالی۔ لیکن بدھو کا نام نشان بھی نہ تھا۔ شیخ جی شرم اور غصہ سے جل کر کباب ہو گیے۔

    ’’حرام زادہ کسی طریوں بچ بھاگا۔ لیکن اگر توڑ نہ کیا ہو تو شیخ فضل الٰہی کا نہیں الو کا کہنا۔‘‘

    استاد شمو خان کے منہ سے ایک قہقہہ کی آواز بلند ہوئی۔ شیخ نورالہٰی کے پژمردہ چہرے سے ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ لیکن زندگی اپنی پرانی رفتار سے اسی طرح بہتی رہی۔ وہی گلی کے نکڑ سے ٹین والے کے ٹین پیٹنے کی آواز آ رہی تھی، وہی دور سڑک پر ٹریم کی گھڑ گھڑ اور وہی سودے والوں کی آوازیں ایک یاس اور ناامیدی کا سماں پیدا کر رہی تھیں۔

    مأخذ:

    شعلے (Pg. 17)

    • مصنف: احمد علی
      • ناشر: مکتبہ اردو، لاہور
      • سن اشاعت: 1938

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے