Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اسطوخودوس

شاہد جمیل احمد

اسطوخودوس

شاہد جمیل احمد

MORE BYشاہد جمیل احمد

    چلو تہذیب چلو، ہری اپ، جلدی سے سامان باندھو۔ ہمارے تبادلے کے احکامات آچکے ہیں۔ ہمارے سے مراد میرے ٹرانسفر آرڈر آئے ہیں۔ چاکری تو دراصل میں ہی کرتا ہوں، تم تو حکم چلانے کے لیے بنی ہو۔ پھر مصیبت! میں تو تنگ آ گئی ہوں گول گلوب گُھوم گھوم کے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تہذیب تمدن کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے تمدن کے چہرے کو مظبوطی سے تھاما اور شوخی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگی! اچھا یہ بتاؤ اس بار جانا کہاں ہے۔

    آج بھی وہ شرمائے بغیر نہ رہ سکا اور زبردستی اپنا چہرہ ایک طرف گھماتے ہوئے اور اپنی لمبی پلکیں جھکاتے ہوے بولا! اس دفعہ تو کالے پانی کی سزا ہوئی ہے۔ اب تو خیر تم مجھ سے کافی تگڑی ہو گئی ہو لیکن شروع شروع میں تو بُہت ہی شرمیلی ہوا کرتی تھی۔

    یاد ہے جب تین ہزار سال قبل مسیح تم پتھر، کانسی، تانبے اور لوہے کے ادوار سے گزرتی ہوئی، ہانپتی کانپتی بلاد الرافدین میں دجلہ و فرات کے کناروں پر اگی ہری ہری نرم گھاس پر اوندھی لیٹی سورج دیوتا کی گرمی سے محظوظ ہو رہی تھی اور میں نے ایک عکادی کے روپ میں تمہارے سرین پر چمڑے کی چابک کی ہلکی ضرب سے تمہں بیدار کیا۔

    یہ وہ پہلا کام تھا جو میں نے مہذب طریقے سے سرانجام دیا۔ اس سے پہلے تو ہم لوگ بولنے کی جگہ چنگھاڑتے تھے۔ مذاق کے لئے ایک دوسرے پر پتھروں کا مہینہ برساتے اور پھر لہو لہان ہو کر ایک دوسرے کے سروں، چہروں اور ماتھوں سے انگلیاں بھر بھر کر خون چاٹتے۔ ہمارے بانس کے بھولوں کو دور سے دیکھ کر درندے بھاگ جایا کرتے تھے۔ ہم لوگ تب خون سمیت گوشت کھایا کرتے۔ سب سے مزیدار گوشت مانس کا ہوتا، بس کوئی بخت مارا، شکم نہارا پھنسا نہیں کہ ہم نے اسے دھریک کی گیلی کی طرح کلہاڑوں سے بیچوں بیچ چیرا نہیں۔

    ہاں! یاد ہے تمدن، سب یاد ہے۔ تم لوگ کتنے عجیب ہوا کرتے تھے، بلکہ تم لوگ تو اب بھی اتنے ہی عجیب ہو۔ کھیل کھیل میں ایک دو ماڑے دبڑے کو پھڑکاکر بھوننے کیلئے بھیج دیتے اور دوبارہ گتگا کھیلنے لگتے۔ یاد ہے تم پرجا کس کس چیز کا گوشت کھاتے تھے! اری ماں! تم عوام ہر چیز کا گوشت کھاتے تھے، اپنا بھی!

    تم لوگ گائے بھینسوں کی جگہ اپنی عورتوں کو ہل میں جوتتے جیسے آج کل ٹی بی زدہ اور دمے کی مریضوں سے روڑی کٹواتے ہو، چھی چھی چھی! میرے آنے سے ددھیا علاقوں میں تھوڑی بہت کایا کلپ ہوئی بیچاروں کی۔ کر دیا ناں چالاک ہوشیار میں نے اِن کو، بنا دیا ناں معاشرے کی پردھان، باپ رے! چشم آسماں نے وہ دن بھی دیکھے جب آج کی یہ کمزور مخلوق مردوں پر ڈونگرے برسایا کرتی۔ سارا کام سنبھال لیا تھا انہوں نے۔ بھئی ہل یہ چلاتیں، ساری کھیتی باڑی کرتیں، اناج سنبھالتیں جبکہ تم لوگ صرف اک کے چولہے گرم کرنے کیلئے تھے۔ صحیح معنوں میں فلاح کا کام یہ کرتیں تھیں۔

    تمدن نے اپنی بانہیں اس کی کمر میں حمائل کرتے ہوئے عین اس کے ساتھ اور بالکل اسی کے سائز کی مخالف سمت میں دھکیلتی سانس لی اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا، نہیں یار! فلاح و بہبود کے الفاظ کا یہ مطلب نہیں ہوتا۔

    اِدھر تو آمیرے مدھو مکھے! اس نے اِتنے جوش سے اسے بھینچا کہ اس کے سامنے کے دانت اپس میں کڑ کڑا گئے۔ فلاح کا لفظی مطلب ہوتا ہے پھاڑنا، زمین کے سینے کو ہل سے پھاڑ کر فصلیں اگانے اور خوشحالی لانے کو فلاح کہتے تھے۔ اور اب جو لوگ کچھ نہیں کرتے یعنی اپنے ہاتھ سے کچھ نہیں کرتے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فلاح کا کام کرتے ہیں! آہا! وقت نے ساتھ الفاظ کے معنی بھی کس قدر بدل جاتے ہیں۔ دراصل انسان نے الفاظ کے معنی کو لفظی اور اصطلاحی کے خانوں میں تقسیم ہی اس لئے کیا ہے کہ وہ انہیں اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق استعمال کر سکے۔

    میں نے پھر کروٹ بدلی، جب میں کروٹ بدلتی ہوں تو انقلاب آتے ہیں! بول آتے ہیں ناں! شاما کیوں گیا! میں بھی ہیجان کی بات کر رہی ہوں۔ خیر چھوڑ! سیریس بات کو سیریس ہو کر سن۔ جو لوگ شام کے وقت اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ رکھ کر دور سے آنے والی اپنی کچھ لگتیوں کے راہ دیکھا کرتے تھے، اب علی الصبح فصلوں کا کاشت و برداشت کے لئے خود گھر سے نکلنے لگے۔ ان کے گھروں سے نکلنے کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ ایک دن ایک اڑیل بیل کو غصہ آ گیا، اس نے پہلے تو چھڑ مار کر بیچاری کی لات توڑی، پھر پیٹ میں زور کا سینگ ٹکایا، اتنے زور کا کہ بیچاری کا ڈھول ہی پھٹ گیا۔ اس دن جاگی تھی سورماؤں کی غیرت۔

    میں نے ہی نکالا تھا ان بزدلوں کو اِن کی بلوں سے۔ گھا مڑ کہیں کے، چھپے رہتے تھے اپنی عورتوں کے مٹکوں کے پیچھے۔ مٹکوں سے مجھے یاد آیا، مٹی کے برتن بنانا بھی سکھایا تھا میں نے ان کو۔ اینٹیں بنانا، سکھانا اور پکانا بھی اور بھی چیزیں بنانا سکھائی تھیں میں نے تمہارے لوگوں کو۔ لکڑی، دھات اور ہڈی کے ہتھیار، چمڑے، لوہے اور پتھر کی ڈھالیں۔ اب سوچتی ہوں کیوں سکھایا تھا میں نے یہ سب کچھ۔ سکھایا تو اس لئے تھا کہ تم ان چیزوں کو بروئے کار لا کر ضرر رساں مخلوقات کے حملوں سے محفوظ رہ سکو مگر تم لوگوں نے تو ایک دوسرے پر ہی اپنے ہتھیار تان لئے، تان کیا لئے! برسا دیے بابا، گھمسان کا رَن ڈال دیا اپنی ہی صفوں کے بیچ۔

    دِل کے پھپولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

    اِس گھر کو آگ لگ گئی۔۔۔۔

    میں دراصل تم لوگوں کو تمام جانوروں میں اچھے جانور تصور کرتی ہوئی تمہارے بیچ آئی تھی۔ شاید تمہاری ستواں شکلوں کی وجہ سے، یا پھر عقل کی وجہ سے یا تمہارے بول چال کی وجہ سے مگر تمہارے!! تمہارے نہیں! میرے انسانوں نے اپنے اچھے ہونے کی کچھ بھی لاج نہیں رکھی۔ انسانوں کے ساتھ میرے کا لاحقہ اس لئے استعمال کیا ہے کہ میں بھی تو ان کی نصف سے بہتر ہوں یا شاید اس بھی زیادہ۔ کتنا اچھا ہوتا جو تم لوگ اپنے اچھے ہونے کی لاج رکھ پاتے۔

    خیر! مجھے کچھ فرق نہیں پڑتا ان باتوں سے۔ میری ایک کروٹ کی مار ہیں ساری چیزیں۔ بڑوں بڑوں کو جھر جھری آ جاتی ہے میری ایک انگڑائی اور میر ی ایک پنہائی سے۔ ہاتھ لگا لگا کر دیکھتے ہیں لُہو ہے کہ پانی ہے۔ دیکھا تھا ناں تم نے فرانس میں، روس میں۔ پڑھا تھاناں تم نے۔

    A TALE OF TWO CITIES میں! کہا ناں! میری ایک کروٹ کی مار ہے سب کچھ! جس طرف میرا چہرہ ہوتا ہے وہ تو خوش ہوتے ہی ہیں لیکن جِس طرف میری پیٹھ ہوتی ہے وہ بھی بہت خوش ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو پس پشت لوگ زیادہ عرصہ خوش رہ جاتے ہیں۔ جس طرح تم لوگ اپنے نام کے لئے جان دیتے ہو اور بسا اوقات اچھی خاصی زندگی کو از خود جہنم بنا لیتے ہو اسی طرح میں بھی اپنے ذکر سے خوش ہوتی ہوں۔ مزے کی بات بتاؤں! دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں مگر میرا نام دونوں کے ساتھ عزت کے طور پر آتا ہے یعنی تہذیب یافتہ لوگ اور غیرتہذیب یافتہ لوگ، ایک وہ جو مجھ سے ہیں اور دوسرے وہ جنہیں مجھ سے ہونا چاہیے۔

    اچھا بابا! میں تیرا تمدن ہاتھ جوڑ کر تجھ سے استدعا کرتا ہوں کہ تو جیتی اور میں ہارا۔ باپ رے، تیری یاداشت تو ملینیم کے بعد بھی ویسی کی ویسی ہے۔ کس دھات سے بنوائی ہے گوریے۔ تم نے یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ جہاں جا رہے ہیں وہاں کی زبان کیسی ہے۔ وہاں کی زبان ہے الفسادوالفساد، النفاق و النفاق۔

    میں نے جان بوجھ کر تم سے یہ سوال نہیں کیا تھا، مجھے علم تھا کہ تم مجھے پوری زبان نہیں بتاؤگے۔ وہاں کی زبان یہ بھی تو ہے!

    کِس موڑ سے آتے ہیں، کچھ سست قدم ر ستے۔۔۔

    اور پھر!

    باغوں میں پڑے جھولے، تم بھول گئے ہم کو۔۔۔

    اور!

    اللہ ھو تونبہ کہندا اے۔۔۔

    اے چپ! شی! آواز نہ آئے! تمدن نے ادھر ادھر چوکنے ہو کر دیکھا جیسے اسے یقین ہو کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ رندھی ہوئی زبان میں کہنے لگا، یہ زبان حرام ہے! وہاں! وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ اس کی آواز گلے کی دیواروں سے پھسل کر پیٹ کے کنوئیں میں گر گئی۔

    گوریا یعنی تہذیب پھر بولی! اچھا یہ بتاؤ کہ مجھے تمہارے ساتھ جانا ہے کہ نہیں اور وہاں! وہاں کا نقشہ بھی لائے ہو کہ نہیں! نقشہ بھی لایا ہوں اور تمہیں ساتھ بھی چلنا ہے۔ بڑی ضرورت ہے وہاں تمہاری! ویسے بھی تم تو سمیریا، سماٹرا، یروشلم، عرب، اسرائیل، کوفہ و بغداد اور نہ جانے کہاں کہاں سے گزر چکی ہو، تمہیں کیا ڈر! وہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی! لاؤ نقشہ کہاں ہے۔ یہ ہے جناب نقشہ اور آج تاریخ ہے چودہ جنوری دو ہزار گیارہ اور یہ نقشہ ہے پُورے تریسٹھ سال اور پانچ ماہ پرانا۔ اچھا اچھا! سمجھ گئی! ٹھیک ہے، چلتے ہیں، جو ہوگا دیکھا جائےگا۔ موسم بھی ٹھیک ہے وہاں کا! عام طور پر تو چاروں ہی موسم پڑتے ہیں۔

    تمدن نے خوشی سے دونوں آنکھیں مٹکائیں اور کہنے لگا! یہ تم نے جو بچوں کی پیدائش پر روک لگا رکھی ہے، ہو سکتا ہے تم وہاں جا کر اپنا ارادہ بدل لو۔ یہاں تو تمہیں ڈر ہے کہ کہیں کوئی ہمارے بچوں کو ہل میں نہ جوت دے اس لئے تم بچے پیدا ہی نہیں کرنا چاہتی۔ تہذیب نے غصے سے اُسے دیکھا جیسے وہ سب جانتی ہو۔ کہنے لگی! وہاں بچوں کی ٹولیوں میں پھلجھڑیوں کی طرح بم پھوٹتے ہیں، کس بھول میں ہے!

    روئی کی طرح اڑتے ہیں چیتھڑے بیچاروں کے۔ تمدن ایک دم جھنجھلا گیا! تم نے تو وقتی مزا بھی کِر کرا کر دیا۔ تہذیب نے اسے نظروں سے دیکھا او ر بولی! چو چو چو! کوئی بات نہیں! وقتی مزا تو خیر آ ہی جائےگا۔ ابھی طعام کھولتی ہوں تمہارے اور تمہارے سگے سو درے کیلئے۔ سوچتی ہوں کیا مزا اس عارضی، مختصر اور رینٹڈ مزے کا۔

    کچھ ہی دنوں بعد وہ دونوں اپنے دائیں بائیں ہاتھوں کی انگلیوں کی ککلی ڈالے، اپنے پاؤں تلے بے انت سوکھے پتے چر مراتے گراسی لان کے بیچوں بیچ سیمنٹ کی راہداری سے پختہ عمارت میں داخل ہو رہے تھے۔ تمدن نے مین گیٹ کھولتے ہوئے تہذیب کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگا، یہ ہے جناب ڈاک بنگلہ۔ تہذیب جو بنگلے کو چاروں طرف گِرے درختوں کے پتوں، شاخوں اور گلے سڑے پھلوں سے اٹا دیکھ چکی تھی، کہنے لگی یہ ڈاک بنگلہ ہے یا بھوت تو تم سے ویسے ہی ڈرتے ہیں، جنگلوں میں بھاگ جاتے ہیں تُم سے ڈر کر۔ تہذیب نے لمبی سانس لی اور کہنے لگی! مجھے بہرحال انسانوں سے ڈر ہے۔

    لونگ روم میں پہنچ کر وہ کچھ دیر کیلئے رک گئے اور پریشان دکھائی دیے۔ یوں لگتا تھا جیسے جنم جنم سے نہ یہاں کوئی آیا اور نہ اس گھر کی دیکھ بھال کیلئے کسی کو بھیجا گیا۔ وہ کہنے لگی! مجھے تو شدید بدبو آ رہی ہے۔ تُم ٹھیک کہتی ہو! یہاں کسی زمانے میں انگریز رہا کرتے تھے۔ خُدا کا نام لو تمدن! بدبو کسی رنگ، نسل، قوم، مذہب یا خطے سے مخصوص نہیں بلکہ بدبو تو ہمیشہ گندے لوگوں سے آتی ہے۔ سوری سوری! بھول گیا تھا! پہلا ہی سبق بھول گیا تھا۔

    تہذیب کہنے لگی! اگر لِونگ روم کا یہ حال ہے تو پھر باورچی خانے اور بیڈ روم کا تو کوئی حال نہ ہوگا۔ مجھ سے اتنی صفائی نہیں ہوتی۔

    چھوٹی چھوٹی غلاظت ہو تو انسان صاف بھی کر لے اور اگر ہر طرف گند ہی گند ہو تو کہاں سے اٹھائے اور کہاں گرائے۔ آخر ان دونوں نے لا شعوری طور پر فیصلہ کیا کہ صرف لونگ روم کو صاف کر لیا جائے۔ ان کے دلوں کے بیچوں بیچ یہ بات چُھپی ہوئی تھی کہ لِونگ رُوم دراصل کسی گھر کا دماغ ہوتا ہے۔ یہیں پر ساری گفت و شنید ہوتی ہے اور یہیں منصوبے بنائے اور گرائے جاتے ہیں۔ اگر دماغ کو صاف کر لیا جائے تو ماحول خود بخود صاف اور موزوں ہو جاتا ہے۔

    اس وقت وہ دونوں ایک ہی طرح کی سوچ میں غرق تھے، وہ گھر کے دل، دماغ، ہاتھ اور پیر بنا رہے تھے۔ ٹیلی پیتھی کے ذریعے تہذیب نے تمدن سے پوچھا! بتاؤ گھر کا دِل کہاں ہوتا ہے! اس نے جواب دیا بیڈ روم، گھر کے ہاتھ کہاں ہوتے ہیں! کہنے لگا کچن، گھر کے پیر کہاں ہوتے ہیں! بولاباہر والے دروازے کا صحن ۔ پوچھتی جاؤ، سب بتا سکتا ہوں، آنتیں، اوجھڑی، گردے۔۔۔ بس کرو! پلیز!

    تہذیب چلو صفائی شروع کریں۔ اچھا یہ بتاؤ میں تمہیں بنگلے کی صفائی کیلئے کیا لا کروں؟ تم مجھے اسطو خود وس لاکر دو! ہیں! کیا کہا؟ یہ کیا ہے؟ میں کہاں سے لاؤں! اسطخ۔۔۔ وہ ایک دم پزل ہو گیا۔ تہذیب اُس کی سٹپٹائی ہوئی حالت دیکھ کر ہنسنے لگی اور بولی، کوئی بات نہیں! میں جہاں جاتی ہوں اپنے نسخے ساتھ لے کر جاتی ہوں۔اُس نے اپنے نیفے سے ایک سنہری کا غذ نکالا اور پڑھنے لگی۔

    ازل تا ابد خیر و شر کی جنگ کے میان کام آنے والے لہو کی لکیر اور تتیر کو خراج کہ وہ ہمیں سیاہ رات کے اندھیرے سے افق کے اس پار لانے میں کامیاب ہوئی جہاں سے ہم فکر نو کے سورج کو طلوع ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم اپنے روایتی گیان، دھیان، وجدان، ادیان، بیان اور نسیان کو اکتاہٹ کے سائے سائے چلیں۔ اس کے لئے انسان کو اندر سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ ایک مکمل طور پر اندر سے بدلا ہوا انسان ہی دیگر انسانوں کے لئے بے ضرر ہو سکتا ہے۔

    تہذیب نے ابھی چند سطریں پڑھی تھیں کہ لِونگ روم کا ایک کونہ چمچمانے لگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے