اترن
کہانی کی کہانی
نواب کے گھر میں پلی بڑھی ایک خادمہ کی بیٹی کی کہانی، جو ہمیشہ اس بات سے دکھی رہتی ہے کہ اسے مالک کی بیٹی کی اترن پہننی پڑتی ہے۔ حالانکہ دونوں لڑکیاں ساتھ ساتھ کھیلتی، پڑھتی ہوئی جوان ہوتی ہیں۔ مگر اس کے من سے اترن پہننے کی ٹیس کبھی نہیں جاتی۔ پھر وہ دن آتا ہے جب نواب کی بیٹی کی بارات آتی ہے اور خادمہ کی بیٹی حسد اور انتقام کے جذبے میں اس سے پہلے اس کے شوہر کے ساتھ سو جاتی ہے۔
’’نکو اللہ، میرے کو بہوت شرم لگتی۔‘‘
’’ایو اس میں شرم کی کیا بات ہے؟ میں نئیں اتاری کیا اپنے کپڑے؟‘‘
’’اوں۔۔۔ چمکی شرمائی۔‘‘
’’اب اتارتی کی بولوں انا بی کو؟‘‘ شہزادی پاشا جن کی رگ رگ میں حکم چلانے کی عادت رچی ہوئی تھی، چلا کر بولیں۔
چمکی نے کچھ ڈرتے ڈرتے، کچھ شرماتے شرماتے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے پہلے تو اپنا کرتا اتارا، پھر پاجامہ۔۔۔ پھر شہزادی پاشا کے حکم پر جھاگوں بھرے ٹب میں ان کے ساتھ کود پڑی۔
دونوں نہا چکیں تو شہزادی پاشا ایسی محبت سے جس میں غرور اور مالکن پن کی گہری چھاپ تھی، مسکرا کر بولیں، ’’ہور یہ تو بتا کہ اب تو کپڑے کون سے پین رئی؟‘‘
’’کپڑے۔؟‘‘ چمکی بے حد متانت سے بولی، ’’یہی اچ میرا نیلا کرتا پاجامہ۔‘‘
’’یہی اچ‘‘ شہزادی پاشا حیرت سے ناک سکوڑتے ہوئے بولیں۔
’’اتے گندے، بدبو والے کپڑے؟ پھر پانی سے نہانے کا فائدہ؟‘‘
چمکی نے جواب دینے کی بجائے الٹا ایک سوال جڑ دیا۔ ’’ہور آپ کیا پین رئے پاشا؟‘‘
’’میں؟‘‘ شہزادی پاشا بڑے اطمینان اور فخر سے بولیں۔
’’وہ میری بسم اللہ کے دخت چمک چمک کا جوڑا دادی ماں نے بنائے تھے، وئی اچ۔ مگر تو نے کائے کو پوچھی؟‘‘
چمکی ایک لمحے کو تو سوچ میں پڑ گئی، پھر ہنس کر بولی، ’’میں سوچ رئی تھی۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گئی۔
ایک دم ادھر سے انا بی کی چنگھاڑ سنائی دی۔
’’ہو پاشا، یہ میرے کو حمام میں بھگا لے کو تم اس اجاڑ مار چوٹی کے ساتھ کیا مٹاخے مار لیتے بیٹھیں؟ جلدی نکلو نئیں تو بی پاشا کو جاکو بولتیوں‘‘
اپنی سوچی ہوئی بات چمکی نے جلدی سے کہہ سنائی۔
’’پاشا میں سوچ رئی تھی کہ کبھی آپ ہور میں ’’اوڑھنی بدل‘‘ بہناں بن گئے تو آپ کے کپڑے میں بھی پہن لے سکتی نا؟‘‘
’’میرے کپڑے؟ تیرا مطلب ہے کہ وہ سارے کپڑے جو میرے صندوخاں بھر بھر کو رکھے پڑے ہیں؟‘‘
جواب میں چمکی نے ذرا ڈر کر سر ہلایا۔
شہزادی پاشا ہنستے ہنستے دہری ہو گئی۔ ’’ایو کتی بے خوف چھوکری ہے! اگے تو تو نوکرانی ہے۔ تو تو میری اترن پہنتی ہے، ہور عمر بھر اترن ہی پہنیں گی۔‘‘ پھر شہزادی نے بے حد محبت سے جس میں غرور اور فخر زیادہ اور خلوص کم تھا، اپنا ابھی ابھی کا، نہانے کے لئے اتارا ہوا جوڑا اٹھا کر چمکی کی طرف اچھال دیا۔
’’یہ لے اترن پہن لے۔ میرے پاس تو بہوت سے کپڑے ہئیں۔‘‘
چمکی کو غصہ آ گیا۔ ’’میں کائے پہنوں، آپ پہنو نا میرا یہ جوڑا۔‘‘ اس نے اپنے میلے جوڑے کی طرف اشارہ کیا۔
شہزادی پاشا غصے سے ہنکاری۔ ’’انا بی! انابی۔۔۔‘‘
انا بی نے زور سے دروازے کو بھڑ بھڑایا اور دروازہ جو صرف ہلکا سا بھڑا ہوا تھا، پاٹوں پاٹ کھل گیا۔
’’اچھا تو آپ صاحبان ابھی تک ننگے اچ کھڑے وے ہیں!‘‘ انا بی ناک پر انگلی رکھ کر بناوٹی غصے سے بولیں۔
شہزادی پاشا نے جھٹ اسٹینڈ پر ٹنگا ہوا نرم نرم گلابی تولیہ اٹھا کر اپنے جسم کے گرد لپیٹ لیا، چمکی یوں ہی کھڑی رہی۔
انا بی نے اپنی بیٹی کی طرف ذرا غور سے دیکھا، ’’ہور تو پاشا لوگاں کے حمام میں کائے کو پانی نہانے کو آن مری؟‘‘
’’یہ انوں شہزادی پاشا نے بولے کی تو بھی میرے ساتھ پانی نہا۔‘‘
انا بی ڈرتے ڈرتے ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی دیکھ نہ رہا ہو۔ پھر جلدی سے اسے حمام سے باہر کھینچ کر بولیں۔ چل، جلدی سے جاکر نوکر خانے میں کپڑے پین۔ نئیں تو سردی وردی لگ گئی تو مرےگی۔
’’اب یہ چکٹ گوند کپڑے نکوپین، وہ لال پیٹی میں شہزادی پاشا پرسوں اپنا کرتا پاجامہ دیئے تھے، وہ جاکو پین لے۔‘‘
وہیں ننگی کھڑی کھڑی وہ سات برس کی ننھی سی جان بڑی گہری سوچ کے ساتھ رک رک کر بولی، ’’امنی جب میں ہور شہزادی پاشی ایک برابر کے ہیں تو انوں میری اترن کیوں نئیں پہنتے؟‘‘
’’ٹھیر ذرا، میں مما کو جا کے بولتیوں کی چمکی میرے کو ایسا بولی۔‘‘
لیکن انا بی نے ڈر کر اسے گود میں اٹھا لیا۔ آگے پاشا انے تو چھنال پاگل ہولی ہو گئی ہے ایسے دیوانی کے باتاں کائے کو اپنے مما سے بولتے آپ؟ اس کے سنگات کھیلنا، نہ بات کرنا، چپ اس کے نام پوجو تو مار دیو آپ۔‘‘
شہزادی پاشا کو کپڑے پہنا کر، کنگھی چوٹی کر کے، کھانا وانا کھلا کر جب سارے کاموں سے نچنت ہو کر انا بی اپنے کمرے میں پہنچیں تو دیکھا کہ چمکی ابھی تک ننگا جھاڑ بنی کھڑی ہے۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ دیکھا آتے ہی انہوں نے اپنی بیٹی کو دھنکنا شروع کر دیا۔
’’جس کا کھاتی اسی سے لڑائیاں مول لیتی۔ چھنال گھوڑی۔ ابھی کبھی بڑے سرکار نکال باہر کر دیئے تو کدھر جائیں گے اتے نخرے؟‘‘
انا بی کے حسابوں تو یہ بڑی خوش نصیبی تھی کہ وہ شہزادی پاشا کو دودھ پلانے کے واسطے رکھی گئی تھیں۔ ان کے کھانے پینے کا معیار تو لازماً وہی تھا، جو بیگمات کا تھا کہ بھئی آخر وہ نواب صاحب کی اکلوتی بچی کو اپنا دودھ پلاتی تھیں۔ کپڑا لتا بھی بےحساب تھا کہ دودھ پلانے والی کے لئے صاف ستھرا رہنا لازمی تھا اور سب سے زیادہ مزے تو یہ تھے کہ ان کی اپنی بچی کو شہزادی پاشا کی بے حساب اترن ملتی تھی۔ کپڑے لتے ملنا تو ایک طے شدہ بات تھی، حد یہ کہ اکثر چاندی کے زیور اور کھلونے تک بھی اترن میں دے دیئے جاتے تھے۔
ادھر وہ حرافہ تھی کہ جب سے ذرا ہوش سنبھال رہی تھی، یہی ضد کئے جاتی تھی کہ میں بی پاشا کے اترن کیوں پہنوں؟ کبھی کبھار تو آئینہ دیکھ کر بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ کہتی’’امنی میں تو بی پاشا سے بھی زیادہ خوبصورت ہوں نا؟ پھر تو انوں میری اترن پہنا نا؟‘‘
انا بی ہر گھڑی ہولتی تھیں۔ بڑے لوگ تو بڑے لوگ ہی ٹر ہے۔ اگر کسی نے سن گن پالی کہ موئی انا نا اصل کی بیٹی ایسے ایسے بول بولتی ہے تو ناک چوٹی کاٹ کر نکال باہر نہ کر دیں گے؟ ویسے بھی دودھ پلانے کا زمانہ تو مدت ہوئی بیت گیا تھا۔ وہ تو ڈیوڑھی کی روایت کہئے کہ انا لوگوں کو مرے بعد ہی چھٹی کی جاتی تھی۔ لیکن قصور بھی معاف کئے جانے کے قابل ہو تو ہی معافی ملتی ہے ایسا بھی کیا؟ انا بی نے چمکی کے کان مروڑ کر اسے سمجھایا۔
’’آگے سے کچھ بولی تو یاد رکھ۔ تیرے کو عمر بھر بی پاشا کی اترن پہننا ہے سمجھی کی نئیں، گدھے کی اولیاد!‘‘
گدھے کی اولیاد نے اس وقت زبان سی لی لیکن ذہن میں لاوا پکتا ہی رہا۔
تیرہ برس کی ہوئیں تو شہزادی کی پہلی بار نماز قضا ہوئی۔ آٹھویں دن گل پوشی ہوئی تو ایسا زرتار، جھم جھماتا جوڑا مما نے سلوایا کہ آنکھ ٹھہرتی نہ تھی جگہ جگہ سونے کے گھنگھروؤں کی جوڑیاں ٹنکوائیں کہ جب بی پاشا چلتیں تو چھن چھن پازیبیں سی بجتیں۔ ڈیوڑھی کے دستور کے مطابق وہ حد سے سوا قیمتی جوڑا بھی اترن میں صدقہ دے دیا گیا۔ انا بی خوشی خوشی وہ سوغات لے کر پہنچیں تو چمکی جو اپنی عمر سے کہیں زیادہ سمجھ دار اور حساس ہو چکی تھی، دکھ سے بولی، ’’امنی مجبوری ناطے لینا ہور بات ہے مگر آپ ایسے چیزاں کو لے کو خوش مت ہوا کرو۔‘‘
’’اگے بیٹا۔‘‘ وہ راز داری سے بولیں۔ ’’یہ جوڑا اگر بکانے کو بھی بیٹھے تو دو سو کل دار روپے تو کہیں نئیں گئے۔ اپن لوگاں نصیبے والے ہیں کہ ایسی ڈیوڑھی میں پڑے۔‘‘
’’امنی۔‘‘ چمکی نے بڑی حسرت سے کہا۔ ’’میرا کیا جی بولتا کی میں بھی کبھی بی پاشا کو اپنی اترن دیوں؟‘‘
انا بی نے سر پیٹ لیا۔ ’’اگے تو بھی اب جوان ہو گئی گے ذرا علی پکڑ، ایسی ویسی باتاں کوئی سن لیا تو میں کیا کروں گی ماں۔ ذرا میرے بڈھے چونڈے پر رحم کر۔‘‘
چمکی ماں کو روتا دیکھ کر خاموش ہو گئی۔
مولوی صاحب نے دونوں کو ساتھ ساتھ ہی قرآن شریف اور اردو قاعدہ شروع کرایا تھا۔ بی پاشا نے کم اور چمکی نے زیادہ تیزی دکھائی۔ دونوں نے جب پہلی بار قرآن شریف کا دور ختم کیا تو بڑی پاشا نے از راہ عنایت چمکی کو بھی ایک ہلکے کپڑے کا نیا جوڑا سلوا دیا تھا۔ ہر چند کہ بعد میں اسے بی پاشا کا بھاری جوڑا بھی اترن میں مل گیا تھا لیکن اسے اپنا وہ جوڑا جان سے زیادہ عزیز تھا۔ اس جوڑے سے اسے کسی قسم کی ذلت محسوس نہ ہوتی تھی۔ ہلکے زعفرانی رنگ کا سوتی جوڑا۔ جو کتنے ہی سارے جگمگاتے، لس لس کرتے جوڑوں سے سوا تھا۔
اب جبکہ خیر سے شہزادی پاشا ضرورت بھر پڑھ لکھ بھی چکی تھیں، جوان بھی ہو چکی تھیں، ان کا گھر بسانے کی فکریں کی جا رہی تھیں۔ ڈیوڑھی، سناروں، درزیوں، بیوپاریوں کا مسکن بن چکی تھی۔ چمکی یہی سوچے جاتی کہ وہ تو شادی کے اتنے بڑے ہنگامے کے دن بھی اپنا وہی جوڑا پہنے گی جو کسی کی اترن نہیں تھا۔
بڑی پاشا، جو واقعی بڑی مہربان خاتون تھیں، ہمیشہ اپنے نوکروں کا اپنی اولاد کی طرح خیال رکھتی تھیں۔ اس لئے شہزادی کے ساتھ وہ چمکی کی شادی کے لئے بھی اتنی ہی فکرمند تھیں۔ آخر نواب صاحب سے کہہ کر انہوں نے ایک مناسب لڑکا چمکی کے لئے تلاش کر ہی لیا۔ سوچا کہ شہزادی پاشا کی شادی کے بعد اسی جھوڑ جھمکے میں چمکی کا بھی عقد پڑھا دیا جائے۔
اس دن جب شہزادی پاشا کے عقد کو صرف ایک دن رہ گیا تھااور ڈیوڑھی مہمانوں سے ٹھسا ٹھس بھری پڑی تھی اور لڑکیوں کا ٹڈی دل ڈیوڑھی کو سر پر اٹھائے ہوئے تھا، اپنی سہیلیوں کے جھرمٹ میں بیٹھی ہوئی شہزادی پاشا پیروں میں مہندی لگواتے ہوئے چمکی سے کہنے لگی، ’’تو سسرال جائے گی تو تیرے پیروں کو میں مہندی لگاؤں گی۔‘‘
’’ایو خدا نہ کرے !‘‘ انابی نے پیار سے کہا۔ ’’اس کے پانواں آپ کے دشمناں چھوئیں۔ آپ ایسا بولے سو بس ہے۔ بس اتی دعا کرنا پاشا کہ آپ کے دولہے میاں ویسا شریف دولہا اس کا نکل جائے۔‘‘
’’مگر اس کی شادی کب ہو رئی جی؟‘‘ کوئی چلبلی لڑکی پوچھ بیٹھی۔
شہزادی پاشا وہی بچپن والی غرور بھری ہنسی ہنس کر بولیں، ’’میری اتی ساری اترن نکلے گی تو اس کا جہیز تیار سمجھو۔۔۔‘‘
اترن۔ اترن۔ اترن۔۔۔ کئی ہزار سوئیوں کی باریک باریک نوکیں جیسے اس کے دل کو چھید گئیں۔ وہ آنسو پیتے ہوئے اپنے کمرے میں آ کر چپ چاپ پڑ گئی۔
سر شام ہی لڑکیوں نے پھر ڈھولک سنبھال لی۔ ایک سے ایک واہیات گانا گایا جا رہا تھا۔ پچھلی رات، رات جگا ہوا تھا۔ آج پھر ہونے والا تھا۔ پرلی طرف صحن میں ڈھیروں چولہے جلائے، باورچی لوگ انواع و اقسام کے کھانے تیار کرنے میں مشغول تھے۔ ڈیوڑھی پر رات ہی سے دن کا گمان ہو رہا تھا۔
چمکی کا روتا ہوا حسن نارنجی جوڑے میں اور کھل اٹھا۔ یہ جوڑا وہ جوڑا تھا، جو اسے احساس کمتری کے پاتال سے اٹھا کر عرش کی بلندیوں پر بٹھا دیتا تھا۔ یہ جوڑا کسی کی اترن نہیں تھا۔ نئے کپڑوں سے سلا ہوا جوڑا، جو اسے زندگی بھر ایک ہی بار نصیب ہوا تھا، ورنہ ساری عمر تو شہزادی پاشا کی اترن پہنتے ہی گزری تھی اور اب چونکہ جہیز بھی تمام تر ان کی اترن ہی پر مشتمل تھا اس لئے باقی کی ساری عمر بھی اسے اترن ہی استعمال کرنی ہوگی۔
’’لیکن بی پاشا! ایک سید زادی کہاں تک پہنچ سکتی ہے۔ وہ تم بھی دیکھ لینا۔ تمے ایک سے ایک پرانی چیز مجھے استعمال کرنے کو دیئے نا؟ اب تم دیکھنا۔۔۔‘‘
ملیدے کا تھال اٹھائے وہ دولہا والوں کی کوٹھی میں داخل ہوئی۔ ہر طرف چراغاں ہو رہا تھا۔ یہاں بھی وہی چہل پہل تھی، جو دلہن والوں کے محل میں تھیں، صبح ہی عقد خوانی جو تھی۔
اتنے ہنگامے اور اتنی بڑی کوٹھی میں کسی نے اس کا نوٹس بھی نہ لیا۔ پوچھتی پاچھتی وہ سیدھی دولہا میاں کے کمرے میں جا پہنچی۔ ہلدی مہندی کی ریتوں رسموں سے تھکے تھکائے دولہا میاں اپنی مسہری پر دراز تھے۔ پردہ ہلا تو وہ مڑے اور دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔
گھٹنوں تک لمبا زعفرانی کرتا۔ کسی کسی پنڈلیوں پر منڈھا ہوا تنگ پاجامہ، ہلکی ہلکی کامدانی کا کڑھا ہوا زعفرانی دوپٹہ۔ روئی روئی، بھیگی بھیگی گلابی آنکھیں۔ چھوٹی آستینوں والے کرتے میں سے جھانکتی گداز بانہیں، بالوں میں موتیا کے گجرے پروئے ہوئے۔ ہونٹوں پر ایک قاتل سی مسکراہٹ۔ یہ سب نیا نہیں تھا، لیکن ایک مرد جس کی پچھلی کئی راتیں کسی عورت کے تصور میں بیتی ہوں۔ شادی سے ایک رات پہلے بہت خطرناک ہو جاتا ہے۔ چاہے وہ کیسا ہی شریف ہو۔
رات جو دعوت گناہ ہوتی ہے۔
تنہائی جو گناہوں کی ہمت بڑھاتی ہے۔
چمکی نے انہیں یوں دیکھا کہ وہ جگہ جگہ سے ’’ٹوٹ‘‘ گئے۔ چمکی جان بوجھ کر مونہہ موڑ کر کھڑی ہو گئی۔ وہ تلملائے سے اپنی جگہ سے اٹھے اور ٹھیک اس کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ آنکھوں کے گوشوں سے چمکی نے انہیں یوں دیکھا کہ وہ ڈھیر ہو گئے۔
’’تمہارا نام؟‘‘ انہوں نے تھوک نگل کر کہا۔
’’چمکی!‘‘ اور ایک چمکیلی ہنسی نے اس کے پیارے پیارے چہرے کو چاند کر دیا۔
’’واقعی تم میں جو چمک ہے اس کا تخاضا یہی تھا کہ تمہارا نام چمکی ہوتا۔۔۔‘‘
انہوں نے ڈرتے ڈرتے اپنا ہاتھ اس کے شانے پر رکھا۔ خالص مردوں والے لہجے میں، جو کسی لڑکی کو پٹانے سے پہلے خواہ مخواہ کی ادھر ادھر کی ہانکتے ہیں لرزتے ہوئے اپنا ہاتھ شانے سے ہٹا کر اس کے ہاتھ کو پکڑتے ہوئے بولے ’’یہ تھال میں کیا ہے؟‘‘
چمکی نے قصداً ان کی ہمت بڑھائی۔ ’’آپ کے واسطے ملیدہ لائی ہوں، رت جگا تھانہ رات کو!‘‘ اور اس نے تلوار کے بغیر انہیں گھائل کر دیا۔ ’’مونہہ میٹھا کرنے کو۔‘‘ وہ مسکرائی۔
’’ہم ملیدے ولیدے سے منہ میٹھا کرنے کے خائل نہیں ہیں۔ ہم تو۔۔۔ ہاں۔۔۔‘‘ اور انہوں نے ہونٹوں کے شہد سے اپنا منہ میٹھا کرنے کو اپنے ہونٹ بڑھا دیئے اور چمکی ان کے بانہوں میں ڈھیر ہو گئی۔ ان کی پاکیزگی لوٹنے۔ خود لٹنے۔ اور انہیں لوٹنے کے لئے۔
وداع کے دوسرے دن ڈیوڑھی کے دستور کے مطابق جب شہزادی پاشا ان کی اترن اپنا سہاگ کا جوڑا اپنی انا اپنی کھلائی کی بٹیا کو دینے گئیں، تو چمکی نے مسکرا کر کہا،
’’پاشا! میں، میں۔۔۔ میں زندگی بھر آپ کی اترن استعمال کرتی آئی۔ مگر اب آپ بھی۔۔۔‘‘
اور وہ یوں دیوانوں کی طرح ہنسنے لگی۔ ’’میری استعمال کری ہوئی چیز اب زندگی بھر آپ بھی۔۔۔‘‘ اس کی ہنسی تھمتی ہی نہ تھی۔
سب لوگ یہی سمجھے کہ بچپن سے ساتھ کھیلی سہیلی کی جدائی کے غم نے عارضی طور سے چمکی کو پاگل کر دیا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.