اب انھوں نے یہی طریقہ اپنا رکھا تھا۔ دامن پسار کر ہاتھوں کو یوں پھیلا دیتیں جیسے نیچے کوئی چراغ دھرا ہو اور وہ آنچل کو فانوس بناکر اس کی حفاظت کر رہی ہوں۔ پچھلے تین ماہ سے یہی کر رہی تھیں۔ نماز پوری کرکے اسی طرح ہاتھ اوپر کرتیں آنچل کا فانوس بناتیں اور گڑگڑانے لگتیں۔ آج بھی عشا کی نماز کے بعد اسی طرح دعائیں مانگ رہی تھیں۔
لو تو کب کی جا چکی تھی۔ فتیلے پر بس ایک چھوٹی سی چنگاری ٹکی ہوئی تھی۔ دعاؤں کی ہلکی ہلکی پھونک سے وہ اس چنگاری کو پھر سے لَو میں تبدیل کر دینا چاہتی تھیں۔
جسم لرز رہا تھا۔ ہونٹ تھرتھرا رہے تھے۔ کمرے کا سناٹا چپی سادھے ایک کونے میں دبک گیا تھا۔ رکت آمیز فریاد اب شدید سے شدیدتر ہو گئی تھی، ‘’اے اللہ، اے رب الکریم، اپنے حبیب کے صدقے، مجھ بےسہارے پر رحم فرما۔ اس خاندان کا چراغ مت بجھا۔۔۔ اے اللہ، اے رب الکریم، اپنے حبیب کے صدقے۔۔۔’’
دعا ؤں سے فارغ ہوکر وہ اسی طرح مصلے پر بیٹھی رہیں۔ جب دیوار پر ٹنگی گھڑی نے دس بجنے کا اشارہ کیا تو انھوں نے آنسو پونچھے، مصلیٰ تہہ کیا اور کرسی کی موٹھ تھام کر آہستہ آہستہ کھڑی ہوئیں۔ واش بیسن کا نل کھولا۔ منہ پر پانی کے دو چار چھینٹے مارے۔ فریج سے کھانا نکال کر مائیکرو یو میں گرم کر نے لگیں۔ آج کل وہ کھانا پکا کر فریج میں رکھ دیتی ہیں اور اوین میں گرم کر کر کے کئی دنوں تک کام چلاتی ہیں۔
مائیکرو اوین کے اندر رکابی دھیرے دھیرے گھوم رہی تھی۔ اسکرین پر ہندسے ایک ایک کرکے گھٹ رہے تھے۔ مقررہ وقت کا ابھی کچھ حصہ ہی گزرا تھا کہ ڈائننگ ٹیبل پر موبائیل کھڑ کھڑا اٹھا۔
انھوں نے آنکھوں پر عینک چڑھائی۔ نام دیکھتے ہی ماتھے پر بل پڑ گئے۔ ‘’ثمرہ کا فون اور اس وقت!’’ وہ بدبدائیں۔
مائیکرو ویو بند کر دیا اور’’اے اللہ رحم کر!’’ کہتی ہوئیں فون کان سے لگا لیا۔
اللہ میاں نے رحم ہی کیا تھا جبھی تو ان کی بجھی بجھی آنکھیں چمک اٹھیں، ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ان کی مصلحت پسندی کام آ گئی۔ مہینوں بعد ان کے چہرے پر ایسی چمک اور مسکراہٹ آئی تھی۔ مگر بستر پر لیٹتے ہی ذہن کے پردے پر عدیل نمودار ہوا اور رنج و الم نے انھیں پھر سے آ گھیرا۔
عدیل ان کے ساتھ ہی سویا کرتا تھا۔ سوتے وقت کہا کرتا، ‘’دادی، لوری سناؤ نا۔’’
دادی لوری گانا شروع کرتی، ‘’چندا ماما دور کے۔۔۔’’
‘’نہیں یہ والی نہیں۔ اڑن کھٹولے والی۔’’ وہ دادی کی گردن میں بانہیں ڈال کر اصرار کرتا۔
دادی ہنس کر اس کے گال تھپک دیتی۔ انھیں معلوم تھا، جب کبھی شام کو وہ نیند بھر سو لیتا ہے تو رات کو اسی لوری کی فرمائش کرتا ہے اور پھر لوری کی دھیمی میٹھی آواز کمرے میں مرتعش ہو جاتی،
‘’آ رے آ جا، نیندیا تو لے چل کہیں
اڑن کھٹولے میں۔۔۔’’
آج بھی وہ لیٹے لیٹے یہی لوری گا رہی تھیں،
‘’دور دور دور یہاں سے دور۔۔۔’’
(٢)
رات بھر آسمان صاف تھا۔ چاند پورے آب و تاب سے چمکتا رہا تھا۔ ہوا بھی فرحت بخش تھی۔ مگر صبح کو موسم کا رنگ یکسر بدل گیا۔ آسمان ابر آلود ہو گیا۔ سیاہ بادلوں نے سورج کو آ گھیرا اور رہ رہ کر بجلی بھی چمکنے لگی۔ مگر موسم کا یہ مزاج عمیرہ بانو کا قدم بھلا کیسے روک سکتا تھا۔ روز کی طرح آج بھی وہ وقت پر ہی نکل پڑیں۔
پہلے تو جالب اور ثمرہ کے لوٹنے کے بعد دوپہر کو نکلا کرتی تھیں، لیکن ان کے چلے جانے کے بعد اب وہ صبح کو ہی نکل پڑتی ہیں۔ بس سے اترتی ہیں۔ دس بارہ منٹ پیدل چلتی ہوئیں مین گیٹ میں داخل ہوتی ہیں۔ سامنے والے درخت کے نیچے بنچ پر بیٹھ کر کچھ دیر دم لیتی ہیں۔ پھر دھیرے دھیرے آئی سی یو وارڈ کی جانب چل دیتی ہیں۔
مگر ادھر کئی دنوں سے پہلے بچہ وارڈ کی طرف جاتی ہیں۔ اس کے بعد آئی سی یو وارڈ کی راہ لیتی ہیں۔ تیسری منزل پر پہنچ کر بائیں مڑتی ہے اور کمرے میں داخل ہو کر پوتے کو غور سے دیکھتی ہیں۔ پیشانی سہلاتی ہیں اور پھر بیگ سے موبائل نکال کر واٹس ایپ کھولتی ہیں۔ ثمرہ کے نام پر ویڈیو کال کا بٹن کلک کرتے ہی دوسری جانب سے آواز آتی ہے، ‘’ سلام علیکم، اماں! کیسی ہیں؟’’
‘’وعلیکم سلام، بیٹی۔ ٹھیک ہوں۔ تم لوگ کیسے ہو؟ جالب کیسا ہے؟’’
‘’اماں، ہم سب ٹھیک ہیں۔’’
اس کے بعد کیمرے کا رخ پوتے کی جانب موڑ کر کچھ دیر موبائل تھامے رہتی ہیں۔ کہتی ہیں، ‘’بیٹا، دیکھو، یہاں سب پہلے جیسا ہی ہے۔’’
اور پھر فون آف کر کے پائینتی بیٹھ جاتی ہیں۔ پوتے کے جاگنے کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ چہرہ دیکھتے ہوئے منہ بسور کر من ہی من کہتی ہیں، ‘’دنیا کے سارے بچے باہر کود پھاند رہے ہیں اور تو بستر پر پڑا ہے۔ اپنی زندگی کو پائپ اور مشینوں کے حوالے کیے۔ نہ کوئی ضد۔ نہ کوئی ہٹ۔ نہ رونا چلانا۔ دنیا و ما فیہا سے بے خبر، معلوم نہیں تو کیسی نیند سو رہا۔’’ اور جب آنسو چھلک آتے ہیں تو بیگ سے رومال نکال کر آنکھیں ملنے لگتی ہیں۔
آج بھی بس اسی جگہ آ ٹھہری تھی۔ وہ سنبھل کر دھیرے دھیرے اتریں۔ کنارے آ کر نظریں اوپر کیں۔ آسمان اور بھی ابر آلود ہو گیا تھا۔ سست رفتار مٹیالے بادلوں کے دبیز دبیز جتھوں نے سورج کے گرد ڈیرا ڈال رکھا تھا۔ چیلوں کا غول منڈلا رہا تھا۔ فضا میں عجب گھٹن تھی۔ سڑک کی دونوں جانب درختوں پر پرندوں کا شور بھی بڑھ گیا تھا۔
وہ تیز تیز چلنے لگیں۔ لیکن ضعف کے سبب ان کی رفتار ایک حد تک ہی تیز ہوپائی تھی۔ اسپتال کی جانب بڑھتی جا رہی تھیں کہ دفعتاً بجلی کی ایک کوند ان کے وجود کو لرزا گئی۔ تین ماہ قبل ایسی ہی ایک کوند گری تھی۔ زمین پر نہیں ان کے دل پر۔ پتا نہیں کیسے عدیل مکان کی چھت سے گر پڑا تھا۔ دھم کی آواز سن کر وہ بھی دوڑی تھیں۔ خون میں لت پت دیکھ کران کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تھا۔
جالب خان گرمیوں کی چھٹی میں گھر آیا ہوا تھا۔ بیٹے کی حالت دیکھ کر کانپ گیا۔ گود میں لیے نرسنگ ہوم کو دوڑ پڑا۔ بہت کوشش کی گئی مگر ہوش نہ آیا۔ آخرکار ایک بڑے اسپتال میں منتقل کر دینا پڑا۔
اچانک ہوا کے ایک جھوکے نے عمیرہ بانو کے قدم روک دیے۔ جسم موڑ کر چہرے کو ہتھیلی سے ڈھک کر تھوڑی دیر کھڑی رہیں۔ پھر آہستہ آہستہ کھسک کر ایک پیڑ کی اوٹ میں پناہ گزیں ہوئیں اور جب ہوا کا زور کم ہوا تو دوبارہ منزل کی طرف گامزن ہوئیں۔
کل ڈاکٹر سنگھ نے کہا تھا، آج صبح میڈیکل ٹیم کی میٹنگ بیٹھےگی۔ مگر انھیں اب اس میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ پچھلی میٹنگ میں ڈاکٹروں کی بس ایک ہی رٹ تھی، ‘’بچے کا لائف سپورٹ بند کر دیا جائے۔ سوئچ آف دی وینٹی لیٹر۔’’
ڈاکٹروں کی ٹیم میں چٹرجی ہی ایسے ڈاکٹر تھے جو نسبتاً نئے اور کم عمر ہو نے کے باوجود سینئروں کی رائے سے متفق نہ تھے۔ پہلی میٹنگ میں جالب اور ثمرہ کو بلایا گیا تھا۔ بیٹے کی حالت دیکھ اور ڈاکٹروں کی دلیلیں سن کران دونوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ مگر ڈاکٹر چٹرجی نے ہار نہیں مانی تھی۔ ڈٹے رہے۔ ان کے اس رویے نے ڈاکٹر سنگھ کو کہنے پر مجبور کر دیا تھا، ‘’ویل، ڈاکٹر چٹرجی کی بات بھی ہم نظرانداز نہیں کر سکتے۔ میڈیکل سائنس میں بہت کچھ نیا ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر چٹرجی کی یہ بات قابل غور ہے کہ پچھلے ستائیس دنوں سے مریض کی حالت اگر سدھری نہیں تو بگڑی بھی نہیں ہے۔ آرگن فیلور کی بھی کوئی رپورٹ نہیں۔ ویل، وی مے گیو ہیم اے چانس۔’’
اور اس طرح دوسری میٹنگ تک وینٹی لیٹر آن رکھنے کا فیصلہ لیا گیا۔ مریض کو پورے طور پر ڈاکٹر چٹرجی کی نگرانی میں دے دیا گیا۔
(٣)
جالب خان اب تھک چکا تھا۔ اتنے دنوں تک صبح شام، گھر اسپتال ایک کرتا رہا مگر امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی۔ اسے ڈاکٹر چٹرجی کی کم عمری پر بھروسہ نہ تھا۔ کالج کھلے تین ہفتے گزر چکے تھے۔ بلاوے پر بلاوا آ رہا تھا۔ بچوں کا بھی نقصان ہو رہا تھا۔ اب اور چھٹیاں مناسب نہیں۔
اور جب اس نے اپنے موقف کا اظہار کیا تو ثمرہ چونک پڑی۔ مگر اس نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ بس آنسو بہا کر رہ گئی۔
عمیرہ بانو چائے کا ٹرے لیے ڈرائینگ روم میں داخل ہوئیں تو بہو کے چہرے پر تناؤ محسوس کیا۔ اولاد کے دکھ کا احساس ان سے زیادہ بھلا اور کسے ہو سکتا تھا۔ ٹرے رکھا اور ثمرہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ‘’وہ ٹھیک کہہ رہا ہے، بیٹی۔ یہاں تو ایک بچہ ہے، وہاں اس کے سیکڑوں بچے ہیں۔ اسے مت روک۔’’
وہ جانتی تھیں، ایسی گھڑی میں جذبات و احساسات کا معمولی سا سائباں بھی ان کی اولاد اور خاندان کے مستقبل کے لیے سود مند نہیں۔ مہینے بھرسے وہ بیٹے کو تل تل مرتا دیکھ رہی تھیں۔ انھیں حال سے زیادہ مستقبل کی فکر تھی۔ چنانچہ ثمرہ کا ہاتھ پکڑ کر اندر کمرے میں لے آئیں۔ دھیمے لہجے میں بولیں۔ کہتے وقت ان کا لہجہ لڑکھڑایا بھی تھا مگر مصلحت دامن گیر رہی، ‘’میں کہتی ہوں، تو بھی ساتھ چلی جا۔ ایسی حالت میں اسے اکیلا چھوڑنا مناسب نہیں۔’’
‘’یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟’’ ثمرہ نے ان کی آنکھوں میں جھانکا۔
‘’ٹھیک کہہ رہی ہوں، بیٹی۔’’ انھوں نے سمجھایا۔
‘’مگر عدیل۔۔۔؟’’ ثمرہ تقریباً جھلا اٹھی تھی۔
‘’عدیل کی دیکھ بھال کے لیے نرس ہے اور ویسے بھی وہ بے سدھ پڑا رہتا ہے۔ اسے کیا خبر، کون آیا کون گیا۔ نرس اور ڈاکٹر دن رات اس کی نگرانی کرتے ہیں اور پھر میں ہوں نا۔۔۔’’ وہ اسے سمجھاتی رہیں۔
بہو کا لہجہ کمزور پڑتا گیا۔ وہ کہتی گئیں، ‘’میری بات مان، بیٹی۔ ساتھ چلی جا۔ میں اسے اس حال میں اکیلے نہیں چھوڑ سکتی۔ وہ اندر سے ٹوٹ چکا ہے۔ اب بس تو ہی اس کا سہارا ہے۔ عدیل کی فکر نہ کر۔ تو وہاں سے بھی اسے دیکھ سکے گی۔ تو جا۔ یہاں میں سب سنبھال لوں گی۔’’
اور تبھی سے انھوں نے یہاں سب کچھ سنبھال رکھا تھا۔ روز صبح دس بجے اسپتال آ جاتیں۔ ویڈیو کال کے ذریعہ ثمرہ کو پوتے کے حال سے باخبر کرتیں۔ چھٹی کے دنوں میں جالب بھی بیٹے کا دیدار کر لیتا تھا۔ اس طرح وہ دونوں مطمئن تھے۔ مگر وہ انھیں ہر بات بتانا ضروری نہیں سمجھتی تھیں۔ میڈیکل ٹیم کی میٹنگ اور فیصلوں کے بارے میں تو قطعی نہیں۔
(٤)
گزشتہ میٹنگ ایک ماہ قبل ہوئی تھی۔ گارجین کی حیثیت سے انھیں بھی شریک کیا گیا تھا۔ ممبروں کی رائے جان لینے کے بعد ڈاکٹر سنگھ نے ڈاکٹر چٹرجی کو ترچھی نگاہوں سے دیکھا تھا، کہا تھا، ‘’ویل، میں آپ سبھوں سے سہمت ہوں، ڈاکٹرز۔ اب کوئی مراکل نہیں ہونے والا۔ وینٹی لیٹر سوئچ آف کر دینا چاہیے۔’’
یہ سن کر وہ بپھر گئی تھیں، ‘’میرے پوتے کو مار دینا چاہتے ہیں؟ اس معصوم نے کیا بگاڑا ہے آپ لوگوں کا۔’’
ڈاکٹر سنگھ کی پیشانی پر سلوٹیں ابھر آئی تھیں۔ غصے پر قابو کرتے ہوئے کہا تھا، ‘’ماں جی، کسی مریض کو ہم ہمیشہ کے لیے تو وینٹی لیٹر پر نہیں رکھ سکتے۔ ایسی حالت میں۔۔۔’’
‘’کیوں نہیں رکھ سکتے؟ آپ کا اپنا بیٹا ہوتا تب بھی نہیں رکھتے۔۔۔؟’’ ان کا لہجہ ترش ہو گیا تھا۔
‘’ہاں تب بھی نہیں۔ میں اسے اس اذیت سے نجات دے دیتا۔ یہاں وینٹی لیٹر کم ہے اور مریض زیادہ۔۔۔’’ ڈاکٹر سنگھ جذباتی ہو گئے تھے۔
وہ بھی طیش میں آ گئیں۔ بولیں، ‘’اوو۔۔۔ میں تو بھول ہی گئی تھی کہ مریض کا نام محمد عدیل خان۔۔۔’’ انھوں نے محمد اور خان کو کچھ زیادہ ہی کھینچ دیا تھا۔ مگر دوسرے ہی لمحہ انھیں فوراً اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور انھوں نے اپنے باقی الفاظ نگل بھی لیے تھے، مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
ڈاکٹر سنگھ حواس باختہ ہو گئے۔ دوسرے ڈاکٹر بھی سوالیہ نگاہوں سے ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ پھر سبھوں نے حالات اور ماحول کے زیر اثر فیصلہ لیا۔ سر ہلاکر ایک دوسرے تک اس فیصلے کی ترسیل کی۔ ڈاکٹر سنگھ نے خاموشی توڑی، ‘’ویل، جنٹل مین، ایک بات تو مگر اب بھی اس کیس میں پوزٹیو ہے اور وہ یہ کہ مریض کے سبھی آرگن انٹیکٹ ہیں۔ تھوڑا وقت دیا جا سکتا ہے۔’’
ٹیم کے اس فیصلے سے وہ خوش تو ہو گئی تھیں مگر ذہنی طور پر تناؤ میں تھیں۔ تیسری منزل پر جانے کے بجائے نیچے اتر آئیں۔ باہر کھلے میں سانس لینا چاہا۔ بنچ پر بیٹھے آنکھیں موندے دم لے رہی تھیں کہ کسی نے آواز دی، ‘’توہار بچوا کا بھی ایڈمیشن نئے کھے لیت کا، مائی؟’’
آنکھیں کھلیں تو دیکھا، ایک عورت گود میں لاغر سا ایک بچہ لیے کھڑی ہے۔ آنکھیں بند ہیں اور گردن ایک طرف ڈھلکی ہوئی۔ عمیرہ بانو نے پوچھا، ‘’کیا ہوا اسے؟’’
‘’نمونیا ہو گیل با۔ ڈاکٹر لوگ بھرتی لکھ دے لے با، مگر آفس کا آدمی لوگ بولا تراسن، بیڈ خالی نئے کھے۔ ار واں جو پینٹ پہن کے کھڑا سگریٹ پی ات با، بولا تا کہ بھرتی کروا دی، مگر چار ہجار روپیہ لگی۔ ہم بہوت بولنی ہاں کہ ہمار پاس بس پندرہ سو روپیہ با، لے لے۔ مگر اوہم کے بھگا دے لسا۔’’ یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔
انھوں نے پہلے تو بچے کو غور سے دیکھا۔ پھر پیشانی پر ہتھیلی رکھ کر بولیں، ‘’ارے، اس کا بدن تو تپ رہا ہے۔’’
عورت بچے کی طرف دیکھ کر اور بھی زور زور سے رونے لگی۔’’ مائی، ہم بہوت دور سے آئیل بٹی۔۔۔’’
انھوں نے پتلون والے شخص کو ہانک لگائی۔ جب وہ قریب آیا تو کہا، بیٹا، غریب عورت ہے۔ بچے پر رحم کر، کچھ کم سم کر۔ اللہ ٰ تیرے بچوں پر رحم کرےگا۔ یہ سن کر وہ بولا، ‘’مائی، وہ سالے حرامی لوگ ہیں۔ میرے بس میں ہوتا تو میں بنا پیسے ہی اڈمیشن کرا دیتا، مگر وہ اس سے کم میں نہیں مانیں گے۔’’ اتنا کہہ کر اس نے سگریٹ کا ایک کش لیا اور پھر دھیرے سے بولا، ‘’اچھا، ایسا کر، دو سو روپے کم دے دینا۔’’
یہ سن کر انھوں نے عورت سے کہا، ‘’لا دے کتنے پیسے ہیں تیرے پاس۔’’ عورت نے آنچل کھول کر روپے کا پلندہ نکالا اور کہا، ‘’ہمار پاس ای ہے پندرہ سو با بس۔’’
انھوں نے روپے لے لیے۔ پرس سے دو ہزار کا ایک نوٹ نکالا۔ اس آدمی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ‘’لے بیٹا، یہ ساڑھے تین ہزار روپے رکھ۔ بے چاری غریب ہے۔ تو تو دیکھ ہی رہا اس کی حالت۔
‘’ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر اتنا بڑا نوٹ وہ لوگ لیں گے۔’’ اس نے دو ہزار کے نوٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ہو ئے کہا۔
‘’کیوں نہیں لیں گے؟ سرکاری نوٹ ہے۔’’
‘’وہ تو میں بھی جانتا ہوں، ماں جی۔ مگر اس کے چھٹے کہاں ملیں گے کہ آپس میں بھاگ بٹوا۔۔۔’’
دیکھ بیٹا، جلدی کر۔ اگر جلدی بھرتی نہیں کیا تو یہ معصوم مر جائے گا۔ جا کرا دے بھرتی، ایشور تیرے بچوں کا بھلا کرےگا۔’’
وہ دو ہزار کے نوٹ کو الٹتا پلٹتا، منہ بسورتا، چلا گیا۔
در اصل عمیرہ بانو کے دل میں ایک گمان در آیا تھا، ‘’اگر یہ بیمار بچہ صحت یاب ہو گیا تو میرا عدیل بھی صحت یاب ہو جائےگا۔’’
اور اب جب وہ اسپتال آتیں تو پہلے اس بچے کی عیادت کو چلی جاتیں۔ ڈاکٹروں کی تجویز کردہ دوائی لے آتیں۔ ہر ممکن مدد کرتیں۔
(٥)
ہوا کا زور کم ہو چکا تھا۔ مین گیٹ کے قریب آکر عمیرہ بانو نے کندھے سے بیگ اتارا۔ تھپکیاں لگا کر گرد جھاڑی۔ عینک اتار کر آنچل سے ہاتھ منہ پونچھے۔ پھر آگے بڑھ کر سندیش اور مسمی خریدے۔ بچوں کے وارڈ میں داخل ہوئیں تو دیکھا، بچہ رو رہا ہے۔ ماں سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہے مگر وہ پچھاڑیں کھا رہا ہے۔ لیکن ان پر نظر پڑتے ہی چپ ہو گیا۔ ماں سے لپٹ کر معنی خیز انداز میں مسکرایا۔
انھوں نے پوچھا، ‘’کیوں رے، دیوکی، کیا ہوا میرے نندو کو؟ کیوں رو رہا تھا؟’’
دیوکی نے کہا کہ آپ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ کہہ رہا تھا، دادی ابھی تک کیوں نہیں آئی۔ آپ کے آنے میں ذرا بھی دیر ہو جائے تو اسی طرح ہٹ کرنے لگتا ہے۔
‘’کیوں رے، بدمعاش! تو ہٹ بھی کرتا ہے؟’’ یہ کہتے ہوئے انھوں نے مسمی کا پیکٹ دیوکی کو تھمایا اور بانہیں پھیلا دیں، ‘’چل آ، میرے پاس۔ دیکھتا نہیں ہے، کتنی زور کی آندھی چل رہی ہے۔’’
وہ جب بھی نندو کو چھاتی سے لگاتی ہیں، ان کا من بھر آتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عدیل لمبی نیند سے جاگ کر ان کی چھاتی سے لپٹ گیا ہو۔
نندو رفتہ رفتہ صحت یاب ہوتا گیا، مگر عمیرہ بانو کا گمان گمان ہی رہا۔ عدیل ہنوز کوما میں پڑا رہا۔
انھوں نے نندو کی زلفوں میں انگلیاں پھیریں۔ ڈبہ کھول کر سندیش کھلایا اور دیوکی سے پوچھا، ‘’ڈاکٹر نے کیا کہا، چھٹی کب ہوگی؟’’
دیوکی نے بتایا کہ ڈاکٹر بابو شام کو آئیںگے۔ چھٹی کے بارے میں وہی بتائیں گے۔ اتنا کہہ کر وہ ان کا ہاتھ تھامے رونے لگی، ‘’مائی اگر تو نہ رہتی تو ہمار بیٹا۔۔۔’’
انھوں نے دھاڑس بندھاتے ہوئے کہا، ‘’بیٹا، سب اوپر والے کی مرضی ہے۔ کوئی کچھ نہیں کرتا۔ اگر میں کچھ کر سکتی تو میرا پوتا بستر پر پڑا اس طرح تکلیفیں نہ جھیلتا۔’’
دیوکی اداس نظروں سے انھیں تکنے لگی۔ کچھ دیر فضا میں خاموشی چھائی رہی۔ اس کے بعد انھوں نے عینک نکال کر آنچل سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، ‘’ تیرا یہ نندو، میرے لیے نندلال ثابت ہوا ہے۔ ایشور کو مجھ ابھاگن پر آخر دیا آ گئی۔ رات بہو کا فون آیا تھا۔ میرے گھر امید کی ایک کرن پھوٹی ہے۔’’
عمیرہ بانو کے چہرے پر مسرت کے ہلکے ہلکے آثار نمایا ں ہونے لگے تھے۔ انھوں نے ایک بار پھر نندو کو چھاتی سے بھینچ لیا۔
(٦)
وہ پچھلے تین ماہ سے پوتے کو اسی حال میں دیکھتی آ رہی تھیں۔ مگر آج ان کا دل بیٹھنے لگا تھا۔ کمرے میں داخل ہوئیں تو سانس حسب معمول پھول رہی تھی۔ سسٹر مانیٹر دیکھ رہی تھی۔ کاغذ پر کچھ نوٹ کر رہی تھی۔ اس نے انھیں کن انکھیوں سے دیکھا۔ تھوڑی دیر چپ چاپ اسی طرح نوٹ کرتی رہی۔ اس کے بعد کاغذ ایک طرف رکھا دیا۔ بستر کی چادر کھینچ تان کر برابر کرنے لگی۔ جب سانس پھولنے کا عمل قدرے ماند پڑ گیا تو نرس ان سے مخاطب ہوئی، ‘’ماسی ماں، آج میڈیکل ٹیم کی میٹنگ تھی۔ کیا ہوا؟’’
عمیرہ بانو نے ایک سرد آہ بھری۔ کہا، ‘’کیا معلوم، میں نہیں گئی۔ جا کر ہوتا بھی کیا؟ وہی پرانی بات! اب تو مجھے بھی لگنے لگا ہے، ہم اس ابھاگے پر ظلم کر رہے ہیں۔’’ یہ کہہ کر انھوں نے حسب معمول بیگ سے موبائل نکالا اور وٹس ایپ پر ‘’اس ابھاگے’’ کا وڈیو ثمرہ کو بھیجنے لگیں اور پھر سختی سے ہدایت کی، ‘’خبردار بھاری چیز نہ اٹھانا اور جتنی جلدی ہو سکے یہاں چلی آنا۔’’
سسٹر جا چکی تھی۔ وہ بستر کے پائینتی آنکھیں موند کر سر ٹیکے بیٹھ گئیں۔ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ نا چاہتے ہوئے بھی شاید آج کے فیصلے کے بارے میں ہی سوچ رہی تھیں اور جبھی تو ان کے کان میں ڈاکٹر سنگھ کے الفاظ گونجنے لگے تھے،
‘’ہاں۔۔۔، میں اسے اس اذیت سے نجات دے دیتا۔ یہاں وینٹی لیٹر کم ہے اور مریض زیادہ۔۔۔’’
انھوں نے غور سے پوتے کی طرف دیکھا۔ ناک منہ میں وہی پائپ! کلائیوں پنڈلیوں میں ویسے ہی چبھی ہوئیں سوئیاں! وہی گہری نیند!
مانیٹر پر نگاہیں ڈالیں۔ لہروں کی طرح اوپر نیچے کرتی ہوئیں وہی لکیریں دائیں سے بائیں جاتی ہوئیں۔
وہ ٹکٹکی باندھے ان مدھم مدھم لکیروں کو دیکھ رہی تھیں کہ کانوں میں آواز آئی، ‘’دادی لوری!’’
دادی لوری سنا رہی تھی،
‘’آ رے آ جا، نیندیا تو لے چل کہیں
اڑن کھٹولے میں۔۔۔’’
عمیرہ بانو ہولے سے اٹھیں۔ پوتے کا چہرہ ہتھیلیوں میں بھر کر پیشانی پر ہلکا سا بوسہ لیا۔
آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ لوری کی ہلکی میٹھی آواز کمرے میں مرتعش ہو رہی تھی،
‘’دور دور دور یہاں سے دور۔۔۔’’
اور اس کے ساتھ ہی وینٹی لیٹر کے سوئچ پر کپکپاتے ہوئے جسم کی ساری توانائی سمٹ آئی۔
(٧)
اب وہ تیز تیز قدموں سے سیڑھیاں اتر رہی تھیں۔ دوسری منزل پر ڈاکٹر سنگھ کا کیبن تھا۔ کیبن کی اور بڑھتی جارہی تھیں۔ ان سے آخری بار ملنا چاہتی تھیں۔ معافی مانگنا چاہتی تھیں۔ ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھیں۔
کیبن کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو سمیٹا۔ پھر دھیرے سے دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہو گئیں۔
ڈاکٹر سنگھ کرسی پر بیٹھے تھے۔ میز پر فائل کھلی پڑی تھی۔ بائیں جانب ڈاکٹر چٹرجی ادھ جھکے انداز میں کھڑے تھے۔ شاید وہ دونوں کسی نکتے پر غور و خوض کر رہے تھے۔
انھیں دیکھتے ہی ڈاکٹر سنگھ ہنستے ہوئے کھڑے ہو ئے۔ ڈاکٹر چٹرجی کے لبوں پربھی مسکراہٹ ابھر آئی۔ ڈاکٹر سنگھ نے پوچھا، ‘’آپ میٹنگ میں نہیں آئیں؟’’
وہ خاموش کھڑی رہیں۔ ڈاکٹر سنگھ نے ڈاکٹر چٹرجی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پرجوش انداز میں کہا، ‘’ماں جی، اس پٹھے نے کمال کر دیا۔ اس کا ایک دوست ساؤتھ کیرولینا میں رہتا ہے۔ امریکہ کے مشہور نیورلوجسٹ پروفیسر ڈگ والٹ کا اسسٹنٹ ہے۔ پچھلے ہفتے اس نے عدیل کی کیس فائیل اسے بھیجی تھی۔ پروفیسر والٹ کا کہنا ہے، اس طرح کے پیشنٹ کو کوما سے نکا لا جا سکتا ہے اور وہ نارمل زندگی بھی جی سکتا ہے۔ انھوں نے ایک نسخہ بھیجا ہے۔ آج میڈیکل ٹیم کی میٹنگ میں تمام ڈاکٹر علاج کے اس نسخے سے متفق ہو گئے ہیں۔ فکر نہ کریں، اب آپ کا پوتا۔۔۔’’
وہ ہونقوں کی طرح گھور رہی تھیں۔ ان کا سر چکرانے لگا تھا۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تھا۔۔۔
ڈاکٹر چٹرجی تیزی سے لپکے۔ ڈاکٹر سنگھ بھی ہڑبڑاکر کر سی سے اٹھے اور عمیرہ بانو کی طرف دوڑ پڑے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.