Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وادیوں کی دھوپ

انور سجاد

وادیوں کی دھوپ

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    جب تک سورج ایک خاص زاویے پر نہیں آتا، وادیاں تاریک رہتی ہیں۔ سورج آنکھ کی ایک جھپکی میں اس زاویے کے کونے میں غروب ہو جاتا ہے اور وادیوں میں پھر بند آنکھ کی تاریکیاں چھا جاتی ہیں۔

    اس وقت سورج اسی خاص زاویے پر ہے اور ابھی پلکوں کی چلمنیں نہیں گریں اور دور نیلاہٹ مائل سبز چوٹیوں پر جمی ہوئی دھوپ پگھل کر وادیوں میں بہہ رہی ہے۔ کئی ٹھٹھری ہوئی کرنیں گھروندوں کے روزنوں سے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ چولہوں کی آگ سے خود کو گرما سکیں۔

    وہ یہ سب کچھ اَروما، ریستوران میں بیٹھا ہوا وادیوں کی طرف کھلتی کھڑکیوں سے دیکھ رہا ہے جن میں آئینے لگے ہیں اور جن میں دھوپ کا سونا پگھل کر اس کے دل کو ابال رہا ہے۔ آج وہ ڈاکٹر کے انتظار میں نہیں بلکہ اس لیے یہاں خاص طور پر بیٹھا ہے کہ آج کے روز یہیں کرنوں کو دوام حاصل ہوا تھا۔ (آج انہیں کرنوں کی برسی بھی ہے) اس کے سینے میں کھڑکھڑاتے برانکائٹس کا کوئی علاج نہیں کیونکہ وہ سینے کے اس سنگیت کو پر نہیں دینا چاہتا کہ اڑ جائے۔ ڈاکٹر کا انتظار محض بہانہ ہے (ریستوران میں بھی کوئی ڈاکٹر کا انتظار کرتا ہے اور دراصل تو پروں والے ڈاکٹر کا انتظار اسے گزشتہ پچیس برس سے ہے) اور اس عرصے میں ہر شیشہ، آئینہ بنا ہے اور ہر آئینے میں ہر سال محض پل بھر کے لیے سورج خاص زاویے پر آیا ہے اور پرانے کیلنڈر پھڑپھڑائے ہیں۔ آئینے کی اس سرد دیوار میں کوئی روزن نہیں ہے کوئی دروازہ نہیں جس کے ذریعے سے داخل ہوکر وہ وادیوں کی دھوپ کو محفوظ کر سکے (جن چیزوں کو دوام حاصل ہو جائے ان کی برسی نہیں منائی جاتی۔ کرنوں کو دوام اس کی جذباتیت نے دیا ہے کیونکہ ذہن کے کسی گوشے میں یہ خوف دھڑکتا رہتا ہے کہ کرنوں کا جھرنا سورج بھی ایک دن سرد ہو جائےگا۔)

    ان آئینوں میں لاتعداد آنکھیں اسے گھور رہی ہیں یہ موٹی موٹی سیاہ آنکھیں جن کا نور وادیوں میں بہہ رہا ہے، یہ گندھارا کے بتوں ایسی (سب کچھ دیکھتی ہوئی) سوئی سوئی آنکھیں (جو نابود بستیوں کی یادیں بن گئی تھیں) بالکل اس کی آنکھوں سے ملتی جلتی ہیں۔ اسے دکھ ہے کہ یہ سب کچھ اس کی اپنی آنکھیں دیکھتی رہی ہیں اور دیکھتی رہیں گی (اگر وہ آئینوں میں جڑی کھڑیوں کو نہ کھول سکا تو۔)

    وہ اب بھی اپنی آنکھوں کو اپنی آنکھوں میں جھانکتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ بتوں کی آنکھوں کی گندھارا کے ساتھ وفانے انہیں نیست و نابود بستیاں بنا دیا ہے اور ان وفادار آنکھوں پر اس کتے کی آنکھیں ابھر آئی ہیں جس کے بارے میں اس نے اخبار میں پڑھا تھا کہ اس اطالوی کتے کو اٹلی میں وفادار ترین کتا ہونے پر بہت بڑا انعام ملا ہے۔ نینوہر روز گاؤں کے بس سٹاپ پر اپنے مالک کا استقبال کرنے جایا کرتا تھا (نینو ہسپانوی زبان میں بچے کو کہتے ہیں۔) ایک روز اس کا آقا شہر میں کسی حادثے کی نذر ہو گیا اور واپس نہ آیا۔ لیکن نینو گزشتہ پندرہ سال سے اب بھی باقاعدہ اس بس کے آنے کے وقت پر سٹاپ پر جاتا ہے اور بس کے جانے کے بعد اپنی دم کو مایوسی میں لپیٹ کر واپس چلا آتا ہے۔ نئے دن کی کنواری کرنیں ہر رات کے خاتمے پر اس کی آنکھوں میں دلہن بنتی ہیں۔ نینو کو اطالیوں نے وفا کا سب سے بڑا انعام دیا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو نینو کی اداس نظروں سے بچاکر گندھارا بتوں میں قید کر لیا ہے۔ (میرا انعام کیا ہے؟ میں نینو نہیں؟ محبت دینے، محبت لینے کی خواہش میں ایڑیاں رگڑتا بچہ!)

    ’’صاحب! کیا پئیں گے؟‘‘

    شراب (یہی میرا نعام ہے۔ مگر یہ تو میں گزشتہ پچیس برس سے پی رہا ہوں)

    ’’جی؟‘‘

    وادیوں کی دھوپ۔ (میں الو کا پٹھا ہوں۔ کتے کا بچہ نہیں ہوں کہ مجھے انعام کا لالچ ہے۔ اس لیے کچلا ایک پلیٹ لانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ ڈاکٹر میرے مقدر میں نہیں رونہ چند ایک تشنج کے دورے پھر ڈاکٹر، ڈ پروں والا)

    ’’فرمائیے نا صاحب اوروں کی بھی سروس۔۔۔‘‘

    ’’یہ کھڑکی کھول دو۔‘‘

    ’’صاحب جی! بارشوں کی وجہ سے لکڑی پھول گئی ہے۔ نہیں کھلےگی۔‘‘

    شیشے کی دیواریں، آئینوں کی چاردیواری۔۔۔ اس نے میز پر پڑی ایش ٹرے اٹھاکر کھڑکی پر دے ماری ہے۔

    چھنن چھنن چھن

    کھنن کھنن کھن۔ ساتھ ہی سینے کا سنگیت بھی جاگ گیا ہے اور بیرا برانکائٹس زدہ قہقہہ سن کر پریشان ہو گیا ہے۔

    ’’آج جتنے آئینے ٹوٹیں گے ان کا بل بھی لیتے آنا۔‘‘

    مگر آئینوں کی چاردیواری کے آئینے ٹوٹے نہیں۔ دھوپ کرچی کرچی تو ہو گئی ہے، مری نہیں۔ کیونکہ سورج ابھی اپنے زاویے پر قائم ہے اور آج کی آنکھ کی جھپکی خدا کی آنکھ کی جھپکی ہے، ایک ہزار سال کا ایک پل۔ ابھی تو ایک ہی آئینہ ٹوٹا ہے (اس کے خیال کے مطابق) اور ابھی تو کئی پرانے کیلنڈروں کا صرف ایک صفحہ پھٹا ہے (تاریخ کے خیال کے مطابق، یعنی جغرافیے والی تاریخ۔)

    آئینے کی بند دیواروں سے سرد ہواؤں کے نحیف کاندھوں پر بادلوں کا جنازہ اروما، کے قبرستان میں اتر آیا ہے۔ اس نے اپنا گرم سکارف گردن سے اتار کر ساتھ والی خالی کرسی پر رکھ دیا ہے جس کے ساتھ ہی اس کی چھڑی پڑی ہے۔ (تجھے اپنا ذراخیال نہیں، پھر تو کھانستا ہے۔ جب تو کھانستا ہے نا تو میرا سانس رک جاتا ہے۔) جانے پھر گندھارا کے بتوں میں اطالوی کتے کے قہقہے کیوں گونجے ہیں۔۔۔ میں نے گزشتہ کئی صدیوں سے بس سٹاپ پر انتظار کیا ہے اور مجھے ہر جگہ باٹل گرین جرسی پر تمہارا دھوکا ہوا ہے۔ میں آوارہ ہو گیا ہوں (تاکہ جب تو دیکھے تو مجھے افسوس ہوا اور میرے پٹے پر آنکھوں کے موتی ٹانکتے ہوئے سوچے، چچ چچ چچ، نینو آوارہ ہو گیا ہے۔ دردر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔) آئینے کی ہر دیوار سے سر ٹکراتا ہے تاکہ دھوپ کی کومل گود میں آنکھیں موند کے دماغ پر جمتی برف کو بھول جائے۔ (لیکن ہر بار آئینہ ایک زخم دیتا ہے۔ پرانے زخم کس بے دردی سے ہنستے ہیں۔ روشنی اگلتے ہیں۔ یہ وادیوں کی دھوپ ہے اسے دوام نہیں) اور تو کیوں ہر دروازے پر دستک دیتا ہے۔ (اور وہ بھی غلط۔)

    پہلی دستک غلط دروازے پر نہیں تھی۔ تب ساری کائنات جوان تھی اور اروما کا بوب ہوپ مارکہ مالک زندہ تھا جس نے اپنی چوڑی نوکیلی ناک کی پھننگ کے نیچے اپنی معنی خیز مسکراہٹ کو پھیلاتے ہوئے پہلی مرتبہ اس کے کان میں انکشاف کیا تھا کہ اس کے ساتھ وادیوں کی دھوپ ہے۔ (شاید اس نے بھی اس کی طرح اپنے آپ سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ خنک ہواؤں میں پڑے لوہے کے ٹکڑے کو زنگ سے بچائےگا اور وہ اپنے وعدے پر قائم تھا)۔ کیونکہ اس بوب ہوپ نے دیکھ لیا تھا کہ سورج ایک خاص زاویے سے نیزے کی انی پر گھوم رہا ہے اور دن نے اپنی آنکھ نہیں جھپکی۔ پر تب کائنات جوان تھی اور فاختہ کی چونچ میں زیتون کی ڈالی تھی اور مدتوں دل سے برستے طوفان میں بے چین روح رات کی چوٹی پر اتر گئی اور اس نے فاختہ کے منہ سے زیتون کی ڈالی لے کر اپنے باغیچے میں لگا لی تھی جو کہ تب سے رفتہ رفتہ درخت بن رہی تھی۔ لیکن اروما کے باب ہوپ مارکہ مالک کی مسکراہٹ کی بازگشت نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ و۔۔۔ ا۔۔۔ د۔۔۔ ی۔۔۔ اوں۔۔۔ کی۔۔۔ د۔۔۔ ھو۔۔۔ پ

    نوکیلی ناک اور اس کے تلے پھیلی مسکراہٹ خاک میں مل کر خاک ہوگئی ہے۔ دھوپ فنا ہو گئی ہے۔ بازگشت کب مرےگی؟

    پہلا دروازہ غلط نہیں تھا اور دستک کا انداز غلط تھا یا شاید دستک کا انداز ٹھیک تھا اور وہ دروازہ نہیں تھا بلکہ زیتون کی جھاڑی تھی جسے اس کو خود اپنے ہاتھوں سے کاٹ لینا چاہیے تھا۔ خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار کے انسان کو ہنسی آتی ہے۔ (نینو کو نہیں) لیکن کسی دوسرے کلہاڑی مارنے والے کا گلہ کاٹ دینے کو جی چاہتا ہے (اور میں کچھ کچھ نینو ہوں۔ اس نے سوچا ہے۔ ہم سب چھوٹی چھوٹی کونپلیں ہیں جن کی بقا ایک دوسرے کی باس میں ہے) ہے نا!

    اب کیا فائدہ؟ اب کیا فائدہ! سکون صرف نینو کو حاصل ہے کیونکہ وہ انعام کا خواہش مند نہیں تھا۔ اس نے آئینے میں اپنی آنکھوں ے اپنی آنکھوں میں گھورتے ہوئے غور کیا ہے۔ میری نظر خراب ہو گئی ہے۔ مجھے ہر جگہ باٹل گرین جرسی نظر آتی ہے۔ میں ساون کا اندھا ہوں۔ (دراصل) چاروں طرف تاریک وادیاں ہیں اور دھوپ فانی ہے۔

    ہر جگہ کرنوں کے پھول تھے۔ پرانے کیلنڈروں میں چھپی ہوئی تاریخوں کی مرجھائی پتیوں کے ہار تھے۔ جنہیں نازک نازک پیرو ں کے ایک جوڑے نے روندا تھا۔ یہی اس کا تحفہ تھا جس کی دمک کو کرنوں کے پھول نگل گئے تھے۔ ہرسال آج دن یہ پھول ان مرجھائی پتیوں کو اگل دیتے ہیں اور وہ وعدہ کرتا ہے (اور اس پرقائم نہیں رہتا) کہ میں ہر جاننے والے والے کو کرنوں کے جال سے بچاؤں گا اور اسے گندھارا فن کے معبدوں میں لے جاؤں گا (کھنڈروں میں؟)

    وادیوں کی دھوپ ہے (ساری زندگی) اور کرنوں کی زنجیر کبھی نہیں ٹوٹےگی۔ پرنم ہواؤں سے لوہے کے ٹکڑے کو بچنا چاہیے۔ زنگ، زہر ہے۔ لیکن میں آج بھی اپنے گھر کو کسی کے انتظار میں کیوں صاف و شفاف رکھتا ہوں۔ اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئےگا۔ اب تو اپنے بے خواب کواڑوں کو بیشک مقفل کرلے اور اب تو دوسرے کے لان میں زیتون کو پھل بھی لگ چکا ہے اور میں کیوں اب بھی شیشے میں چمکتی ہوئی دھوپ کو آئینے میں محفوظ کر لینا چاہتا ہوں (اس نے ہمیشہ کی طرح ابھی ابھی سوچا ہے۔)

    بادلوں کا جنازہ قبر میں اتر گیا ہے اور فضا اس کو تیزی سے ٹپکتے آنسوؤں سے ڈھاپ رہی ہے۔ اس کی آنکھیں بالکل خشک ہیں۔ بالکل تاریک ہیں۔۔۔ مخصوص زاویے کے افق کی طرح، سوات وادیوں کے کھنڈر، ڈاکٹر اب نہیں آئے گا۔ پروں والا ڈاکٹر کب آئےگا؟

    ’’معاف کیجیےگا۔۔۔‘‘

    شیشے کی دیوار میں جڑا آئینہ تڑخ گیا ہے۔ اسے جوڑے میں سجے ڈیلیا کے پھول میں اپنا چہرہ نظر آیا ہے۔

    ’’باہر بے پناہ بارش ہو رہی ہے۔‘‘

    وہ جوڑے میں الجھا اپنے آپ کو ڈیلیا کی قید سے چھڑا رہا ہے۔ وہ ہنس کر کہتی ہے۔

    ’’دراصل پہاڑوں کی بارش کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔‘‘

    پہاڑوں کے سورج کی طرح۔

    ’’اگر آپ برانہ مانیں تو۔۔۔‘‘ اس کاساتھی کہتا ہے۔

    وہ صرف ان دونوں کو گھور رہا ہے۔ (بیٹے، میرے بیٹے۔ یہ وادیوں کی دھوپ ہے اور)

    ’’دیکھیے نا سارے ریستوران میں کوئی خالی جگہ نہیں۔۔۔‘‘

    جوڑے میں ڈیلیا مسکرا اٹھتا ہے۔

    میں نے (ہمیشہ کی طرح) ابھی ابھی اپنے آپ سے وعدہ کیا ہے اور میں یہ وعدہ پورا کروں گا کہ جوان دن کو جوان رات کی تاریکی سے بچاؤں گا۔ سٹین لیس سٹیل ر سٹین نہیں آنے دوں گا۔ میرے بیٹے تم صرف میرے پاس بیٹھ سکتے ہو مگر یہ۔۔۔

    یہ مسکرادی ہے اور اس مسکراہٹ کی نمی سے تمام کیلنڈر پھر گیلے ہو گئے ہیں۔ اس نے اشارے سے انہیں بیٹھنے کی اجازت دے دی ہے۔ ان دونوں کو تھینک یو کہے ہزار سال بیت گئے ہیں اور اس نے (ابھی ابھی) سوچا ہے، اوہو میں تو زیتون کاٹنے والا بن گیا ہوں، کیونکہ وہ دونوں بڑے اضطراب سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں اور اسے معلوم ہوتا ہے جیسے وہ سنسر بورڈ کا چیئرمین ہو۔

    اپنے آپ کو اپنے سامنے بیٹھا دیکھ کر وہ مسکرا دیا ہے۔ اس نے چوتھی خالی کرسی سے اپنا گلوبند اٹھا کر اپنے گلے میں ڈال لیا ہے۔ پرانے کیلنڈر سمیٹے ہیں اور ان دونوں کو بڑی حیرانی میں چھوڑ کر چھڑی اٹھاکر آہستہ آہستہ اپنی چھڑی کے سہارے تیز بارش میں اروما سے باہر آ گیا ہے۔

    اب اس کے سینے کا سنگیت عروج پرپہنچ گیا ہے۔ کیونکہ ملہار اس کے سینے کو سیراب کر رہی ہے۔ اس کے چہرے پر دوکانچ کی نیست و نابود بستیوں کے کھنڈروں میں وادیوں کی دھوپ امر ہو گئی ہے اور اس نے اپنے پٹے پر خود ہی اپنی آنکھوں سے ٹپکتے موتی ٹانکتے ہوئے سوچا ہے، میں آئندہ کبھی کوئی وعدہ نہیں کروں گا۔ کیونکہ میں ڈاکٹر کا شکر گزار ہوں کہ آخر اس طوفانی بارش میں اس نے مجھے اپنے سیاہ پردوں کی چھڑی مستعار دے ہی دی ہے۔ میرے آئینوں کے اہرام میں سورج کی ممی پھر سے بیدار ہو رہی ہے اور میں بالکل اطمینان سے سو جاؤں گا، کھو جاؤں گا۔ تب کوئی وعدہ نہیں ہوگا۔ (اس نے ہمیشہ کی طرح ابھی ابھی سوچا ہے۔)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے