Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وفا

MORE BYمحمد علیم اسماعیل

    باپ بیٹے میں آج پھر توتو میں میں ہو گئی تھی۔ بیٹے نے کہا ’’آپ ہماری زندگی کو اور جہنم کیوں بنا رہے ہیں۔ آپ ہم کو اکیلا چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔‘‘ باپ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ،اور بھررائی آواز میں کہا ’’جب سب کی پریشانی کی وجہ میں ہوں تو میں اس گھر میں کر کیا رہا ہوں؟ بیٹا۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ تم ہمیشہ خوش رہو۔۔۔ تم جیو اپنی زندگی۔۔۔ میں چلا اس گھر سے۔۔۔ یہ کہہ کر باپ جانے لگا تو بیٹے نے روک لیا اور کہا’’ آپ یوں ہی چلے جائیں گے تو اس میں ہماری بدنامی ہوگی، لوگ ہم کو برا کہیں گے۔ میں آپ کو آشرم چھوڑ دوں گا، آپ اپنی تیاری کر لیں۔

    وقت شام کو بیٹا اپنے بوڑھے باپ کو آشرم چھوڑنے جا رہا تھا۔ ‘‘دونوں باپ بیٹے خاموش گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے راستے پر چلتے جا رہے تھے۔ خیالات کا ہجوم دونوں کے دماغ میں برابر امڈ رہا تھا۔ باپ سوچنے لگا’’ جو روز مجھ سے کہانی سنے بنا نہیں سوتا تھا آج وہ میری کوئی بات نہیں سنتا۔ ‘‘یہ وہی بیٹا تھا جس کو نوکری ملنے پر باپ نے پورے محلے میں مٹھائی بانٹی تھی۔ اسی باپ نے اپنے بیٹے کا رشتہ بہت بڑے گھر میں کر کے بہت خوشی منائی تھی اور ہم غریب ہیں، گھر چھوٹا، آنے والی بہو بڑے گھر کی یہ سوچ کر گھر کو عالیشان بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ جب بہو گھر آئی خوشیاں ساتھ لائی لیکن ان خو شیوں کی عمر زیادہ لمبی نہ ہوئی۔ بہونے جلد اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا اور کچھ ہی دنوں میں گھر کا منظر ہی بدل گیا۔‘‘

    بیٹا اپنے بوڑھے باپ کو آشرم میں چھوڑ کر بس سے گھر واپس جا رہا تھا۔ راستے میں اس نے دیکھا کہ پل پر کھڑے ایک شخص نے اپنی گود میں کھیل رہی بلی کو ندی میں پھینک دیا۔ بلی بار بار اپنے آپ کو پانی سے اوپر لانے کی کوشش کرتی اور پھر ندی کی گہرائی میں چلی جاتی۔

    اسی بس میں اس کی ملاقات ایک شخص سے ہوئی۔ وہ شخص اس کے والد کا بہت پرانا دوست تھا۔ اس شخص نے اسے پہچان لیا اور کہا ’’دیکھو۔۔۔ بیٹا یہ تمہارے بچپن کی تصویر ہے جس میں تمہارے والد تم اور میں بھی ہوں۔ اس نے تصویر ہاتھوں میں لی اور پوچھا’’ یہ تصویر کہا کی ہے؟ ‘‘اس شخص نے کہا ’’یہ فوٹو شہر کے مشہور کالج کے گراؤنڈ کی ہے۔ یہ کالج کی زمین تمہارے والد کی تھی۔ تمہاری بیماری میں بہت پیسہ خرچ ہو گیا تھا۔ علاج کے لیے مزید پیسوں کی ضرورت تھی اور کہیں سے بھی انتظام نہیں ہو رہا تھا اس لیے تمہارے والد نے تمہارے علاج کے لیے یہ زمین فروخت کر دی۔

    وہ بڑے خوش قسمت ہے کہ انھیں تم جیسا خدمت گزار بیٹا ملاہے۔ بیٹا۔۔۔ یہ سب اچھی پرورش کا نتیجہ ہے۔ میں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر کبھی دھیان ہی نہیں دیا۔ ‘‘یہ سنتے ہی اسے ایک جھٹکا لگا اور محسوس ہوا کہ بلی کی طرح اسے ندی کی گہرائی میں پھینک دیا گیا ہے اور اس کا دم گھٹتا جا رہا ہے۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے