وہی پھول وہی آگ
اتوار کا دن تھا۔ صبح سے ہی بادل چھائے ہوئے تھے۔ سردہوانے اندر بیٹھنے پر مجبور کردیا تھا۔ میں صوفے پر لیٹا سائکالوجی میں ایک دلچسپ مضمون ’’آپ اچھے باپ کیسے بن سکتے ہیں‘‘ پڑھ رہا تھا۔ سیما سامنے کرسی پر بیٹھی ہوئی میرا پُل اور ربن رہی تھی۔ اس کی گود میں ’’وومن اینڈ ہوم‘‘ کا تازہ پرچہ کھلا پڑا تھا۔ جس میں اس کی کسی سہیلی کا ’’گھر اور آپ‘‘ کے عنوان سے مضمون شائع ہوا تھا۔
میرے دونوں بچے آشا اور ونود سردیوں کی چھٹیوں میں شملہ سے آئے ہوئے تھے۔ وہ ایسے گھبرائے گھبرائے سے کمروں کے چکر کاٹ رہے تھے جیسے آزاد پنچھی پکڑ کر پنجرے میں ڈال دیے گئے ہوں۔ اس کمرے سے اس میں، وہاں سے برآمدے میں، پھر واپس اس چکر میں وہ اپنا دل بہلانے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہیں کمرے میں نہ پاکر سیما دریچے میں سے جھانک کر آواز دیتی۔۔۔ آشی بیٹا، باہر سردی ہے، اندر آجائو۔
وہ اندر آجاتے۔ چند منٹ بیٹھتے۔ پھر باہر دالان میں جا پہنچتے۔
نوکر نے دو پہر کا کھانا میز پر چُن کر گانگ بجائی۔ یہ گانگ سیما نے انگریزی ناولوں سے حاصل کی تھی۔ در اصل یہ چیز پٹیالے میں ہمارے گھر آئی تھی۔ وہاں فیکٹری کی طرف سے جو کوٹھی مجھے ملی تھی وہ جاگیرداری دَور کی یاد دلاتی تھی۔ کوٹھی سے ملحقہ تقریباً ایک ایکڑ کا باغ تھا جس میں انواع و اقسام کے پھل دار اور سایہ دار درخت تھے۔ اونچے گھنے ہرے ہرے درختوں میں چھپی ہوئی قلعہ نما کوٹھی کی عمارت دور سے بڑی پُر اسرار معلوم ہوتی تھی۔ بڑے بڑے اونچی چھتوں والے دس کمرے، لمبے لمبے بر آمدے اور غلام گردشیں، اونچے گول ستون، بڑی بڑی محرابیں۔۔۔ ساری کوٹھی پر ہمارا قبضہ تھا۔ مالک کلکتہ میں رہنے لگا تھا۔ کلکتہ سے اس نے مجھے اپنی نئی فیکٹری کا چیف انجینئر بناکر پٹیالے بھیج دیا تھا اور رہائش کے لیے اپنی کوٹھی دے دی تھی۔ چار مالی اپنے بال بچوں سمیت ملحقہ کوارٹروں میں رہ رہے تھے۔ باغ میں چار مور تھے جو برسات میں ماحول کو اپنی آواز اور رقص سے خوبصورت بنادیتے۔ ایک تالاب تھا جس میں بطخیں تیرتی رہتی تھیں۔ ایک اور چھوٹا سا تالاب تھا جس پر جالی تنی ہوئی تھی اور جس میں رنگ برنگی ننھی ننھی، خوبصورت مچھلیاں تھیں۔ بڑے سردار صاحب خاصے شوقین آدمی تھے اور یہ کوٹھی ان کی عیش گاہ تھی۔ ان کے بعد لڑکوں نے کارخانے وغیرہ لگالیے اور بزنس کے سلسلے میں کلکتہ، بمبئی، دہلی، مدراس اور لکھنؤ وغیرہ میں پھیل گئے۔
سیما تو وہ جگہ دیکھتے ہی خوش ہوگئی تھی۔ اس کا بس چلتا تو خرید لیتی۔ میرے دفتر جانے کے بعد وہ دن بھر باغ کی سیر کرتی رہتی۔ اس نے کئی ایسی جگہیں اور خوبصورت کنج تلاش کر لیے تھے جہاں اپنی سہیلیوں کو پِکنک کے لیے بلایا کرتی تھی۔ وہیں اسے گانگ کی بھی سوجھی۔ ہم ٹہلتے ٹہلتے دور نکل جاتے تو نوکر کو بھاگنا پڑتا۔ اس کی مدد کے لیے گانگ لائی گئی تھی۔
آشا اور ونود جب چھٹیوں میں پٹیالہ آئے تو بہت خوش ہوئے۔ سارا سارا دن وہ تتلیوں کے پیچھے بھاگتے پھرتے، پھول اکٹھے کرتے۔ یا بطخوں اور مچھلیوں کو آٹے کی گولیاں کھلایا کرتے۔ جب جاتے تو ان کی تتلیوں اور پھولوں کی البم خوب بھری ہوتی۔ یہاں آکر تو وہ خود کو جیل میں سمجھنے لگتے تھے۔
گھنٹی کی آواز سن کر وِنود بھاگتا ہوا آیا اور سیما سے ٹکرا گیا۔ پرچہ نیچے قالین پر جا گرا۔ سلائیاں اس نے سنبھال لیں۔
’’ونی، یہ کیا بد تمیزی ہے‘‘ اس نے انگریزی میں ڈانٹا۔
وہ بچوں کی تربیت میں ذراسی بات کا بھی خیال رکھتی ہے۔ اور ان سے ہمیشہ انگریزی میں گفتگو کرتی ہے۔ اسی لیے اس نے دونوں بچوں کو شملہ انگریزی اسکول میں داخل کرایا ہے۔ وہ انہیں اچھا، باوقار اور ذمہ دار شہری بنانا چاہتی ہے۔ ویسے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں بچے شملے میں رہ کر بہت کچھ سیکھ گئے ہیں۔
ونّی سنبھل گیا اور گردن لٹکا کر بولا۔ ’’سوری ممی!‘‘
میں سات سالہ وِنود کی طرف دیکھ کر مسکرادیا۔ کانوینٹ کی تعلیم نے اسے بھی یہ باتیں سکھادی ہیں۔ یہ سیما کی دوراندیشی کا نتیجہ ہے۔ گھر کی ساری ذمے داری اس پر ہے۔ ہر مہینے میں اٹھارہ سو روپے لاکر اس کے حوالے کردیتا ہوں۔ وہی گھر کا خرچ چلاتی ہے۔ یہاں تک کہ میرے لیے ٹائیاں اور جرابیں وغیرہ بھی وہی خریدتی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ بہت بے دردی سے خرچ کرتی ہے۔ ہر ماہ ایک کثیر رقم بینک میں الگ الگ حسابوں میں جمع کرادیتی ہے۔ انشورنس کی قسط بھی ادا کر دیتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سیما نے میرے گھر کو سورگ بنادیا ہے۔
آشا جوتاش کے پتوں سے گھر بنانے میں مصروف تھی۔ منہ بناکر بولی۔
’’ممی، اتّی سی تو کوٹھی ہے۔ ہم تو بور ہوگئے ہیں یہاں آکر۔‘‘
آشا نے بالکل درست کہا تھا۔ شملہ کی کھلی اور شگفتہ فضا سے نکل کر امرتسر کی گھٹن میں بور ہوجانا یقینی تھا۔ لے دے کے تین تو کمرے تھے۔ وہ بھی چھوٹے چھوٹے۔ اندر ایک چھوٹا سا صحن اور باہر برائے نام دلان اور آگے کچی سڑک جس پر دن بھر گرد اُڑاکرتی۔ نالیوں میں پانی کھڑا رہتا اور فضا میں سڑاند بھری رہتی۔ بائیں طرف کوٹھی کے ساتھ ایک خالی پلاٹ تھا جو اس علاقے کا کباڑ خانہ بن گیا تھا۔ یعنی جو گھر کی فضول اور کام نہ آنے والی چیز ہوتی، لوگ بغیر سوچے سمجھے اُدھر پھینک دیتے۔ ٹین کے زنگ خوردہ ڈبّے، چیتھڑے، گتّے کے مُڑے ہوئے ڈبّے۔ مٹی اور پلاسٹک وغیرہ کے ٹوٹے ہوئے کھلونے اور ردّی کاغذ، سبزیوں کے چھلکے، سوکھی روٹیاں۔ اس ڈھیر کو آپ ڈیپارٹمنٹل کباڑ خانہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ میں ایک گڑھا ہے جس میں اطراف کی کوٹھیوں والے اپنا گندہ پانی نکالا کرتے ہیں۔ اس سیاہ پانی کی جھیل جس میں مچھروں کے دل رہا کرتے ہیں، کے ذرا پرے ایک جھونپڑی سی ہے، اِدھر اُدھر سے اینٹیں اُٹھاکر وہیں زمین سے مٹی کھود کر گارے سے چنائی کرکے وہ کوٹھری بنائی گئی ہے۔ اسے دیکھ کر جغرافیہ کی کتابوں میں دیکھے ہوئے سکیموز کے گھر یاد آنے لگتے ہیں۔ کوٹھری کے دروازے کی جگہ ایک پرانا زنگ خوردہ ٹین لگا دیا گیا ہے جو ہر پانچ منٹ کے بعد چوں، چرر، چیں کے گیت گاتا ہے اور جب اس میں رہنے والوں کا کوئی بچہ روٹھ جاتا ہے تو غصّہ میں اسے بجانے لگتا ہے۔ یا ماں اپنے سب سے چھوٹے بچے کو بہلانے کے لیے سوکھی داتن سے ٹین کا طبلہ بجانے لگتی۔ دن ہو یا رات یہ ہنگامہ جاری رہتا۔ سیما تنگ آگئی تھی۔ حال تو میرا بھی بُرا تھا۔ لیکن کوئی ڈھنگ کی جگہ مل نہیں رہی تھی۔ اس کوٹھری میں کوئی بوٹا سنگھ لنگڑا مع ایک عدد سوکھی ہوئی، اونچے اونچے دانتوں والی بیوی اور چھ بچوں کے رہا کرتا تھا۔ وہ اس علاقے میں سبزی بیچا کرتا تھا اس کا خاندان دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا جیسے سماج نے اٹھاکر انہیں بھی اس کباڑ خانے میں پھینک دیا ہو۔ غیر ضروری اور ناکارہ سمجھ کر۔
ادھر گانگ بجی اُدھر ٹین بجایا گیا۔
’’اوہ نان سنس۔‘‘ سیما کھچ کر بولی۔۔۔ ’’میں تو پاگل ہوجائوں یہاں‘‘
’’پھرتو ممی بڑا مزہ آیا کرے گا تمہیں چھیڑ کر۔۔۔‘‘ونود بولا۔
سیما ہنس دی۔ بچوں کی وٹ (Wit)پروہ بہت لطف اندوز ہوتی ہے۔
’’اچھا‘‘ چلو کھانے کی گھنٹی ہوگئی ہے۔۔۔ ’’سیما نے اُون کے گولے اور سلائیاں باسکٹ میں رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ آئو بیٹے۔‘‘
آشا اور وِنود کھانے سے پیشتر واش بیسن پرجا کر ہاتھ دھو آئے کرسیوں پر بیٹھ کر۔
اتوار کا دن تھا صبح سے بادل چھائے ہوئے۔ دونوں نے۔۔۔ پر کنز بچھائے اور چمچے سے سوپ پینے لگے۔ سوپ کے بعد وِنود نے چھرُی بائیں ہاتھ میں پکڑی تو سیما نے جھٹ ٹوکا۔
وِنود کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اس نے چھڑی دائیں ہاتھ میں لے لی اور کانٹے سے کھانے لگا۔
’’ممی ہم انکل کے ہاں گئے تھے نا، ان کار میش چار یہ بڑی بڑی روٹیاں کھا گیا، اور سارے بازو اور منہ خراب کرلیا تھا جیسا میں نے کہا کہ اس طرح نہیں کھاتے تو ہنسنے لگا۔‘‘
’’ممی ان کی گڈی بڑی ڈرٹی تھی۔۔۔‘‘آشا بولی۔
میرے بچے انگریزی کے الفاظ ضرور استعمال کرتے ہیں۔ اور انہیں ٹوینکل ٹوینکل لٹل اسٹار، اور با، با، بلیک شیپ، زبانی یاد ہیں۔ انہیں یہ بھی پتا ہے کہ کرائسٹ کون تھا اور صلیب پر چڑھا دیا گیا تھا لیکن انہیں ارجن اور رام کے بارے میں کوئی خاص علم نہیں۔
کھانے سے فارغ ہوکر ہم آکر لیٹے ہی تھے کہ باہر ایک دم شور بلند ہوا۔
’’حرام زادی۔۔۔‘‘کرنیل سنگھ کی بھدی آواز سنائی دی۔
’’زبان کھینچ لوں گی جو پھر گالی دی۔۔۔‘‘اس کی بیوی کی تیکھی آواز اُبھری۔
ان کی لڑائی تو کوئی نئی بات نہیں تھی۔ لیکن آج انداز نرالا تھا۔ ہم سب باہر دالان میں چلے گئے۔
’’کیسے بیہودہ لوگ ہیں یہ۔۔۔‘‘سیما نے کہا۔
’’جاہل گنوار۔۔۔‘‘میں نے رائے دی۔
’’ممی یہ اپنے بچوں کو اسکول کیوں نہیں بھیجتے۔‘‘ وِنود نے کہا۔۔۔‘‘ایک دن میں نے اس سے پوچھا تھا اسکول کیوں نہیں جاتا۔ اکڑ کے بولا نہیں جاتا۔ ممی ان کو ذرا عقل نہیں۔‘‘
’’تم اس سے بات کیوں کرتے ہو؟۔۔۔‘‘سیما نے درشتی سے کہا۔
وِنود نے جواب دیا، اس دن کہنے لگا۔ تیرے کپڑے بڑے اچھے ہیں۔ میں نے کہا تو بھی پہنا کر۔ تو بولا۔۔۔ ہمارے پاس نہیں ہیں۔ ممی ان کے پاس کیوں نہیں ہیں؟‘‘
سیما نے وِنود کے سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔
’’اور ممی‘ اس کی بہن ہے نا۔ اپنی فراک سے ناک پونچھ رہی تھی۔ بڑی گندی ہے وہ ممی اس کے سر میں جوئیں پڑی ہیں۔ کل اس نے منہ بھی نہیں دھویاتھا۔ اور صبح صبح روٹی کھارہی تھی۔ ممی یہ بریک فاسٹ نہیں کرتے۔
’’ذرا تمیز نہیں کرنیل کے بچوں کو۔۔۔ کا سیما کہنے لگی۔ چیز مانگ کر کھالیتے ہیں۔ چوری کی بھی عادت ہے۔ کل سامنے والوں کے ہاں سے امرود اُٹھا لائی اس کی چھوٹی لڑکی۔‘‘
’’کمینے شخص ہیں۔۔۔‘‘میں نے کہا:
’’گولی ماردینی چاہیے انہیں تو۔۔۔‘‘سیما نے فیصلہ سنادیا۔
کرنیل سنگھ گالیاں دیتا ہوا دکان کی طرف چلا گیا۔ اس کی بیوی گالیاں بکتی ہوئی کوٹھری میں چلی گئی۔ بچے باہر رہ گئے۔ بڑا لڑکا اور لڑکی سڑک کی طرف بھاگ گئے۔ دوسرے بچے مٹی کے ڈھیر پر بیٹھ گئے۔ نہ جانے کس چیز پر ان کا آپس میں جھگڑا ہوگیا کہ ایک نے دوسرے کے بال پکڑ کر ڈھیر پرہی گرالیا۔ اور ایک دوسرے کو غلیظ گالیاں دینے لگے۔ ان میں سے ایک بھاگ کر دروازے کے نزدیک جا کھڑا ہوا۔
ماں نے باہر آکراُسی کے دوچار لگادیں۔ وہ کودتا ہوا سڑک پر چلا گیا۔ اس کی سب سے چھوٹی بچی رونے لگی۔ اسے بہلانے کے لیے اس نے سڑک پر پھینکی ہوئی داتن اٹھاکر ٹین بجانا شروع کردیا۔ اور بچی کو بہلانے لگی۔
اَں، آں۔ ار۔ ارر۔ را۔ آں۔‘‘
ہم لوگ اندر آگئے۔ بچے لوڈو کھیلنے لگے سیما پھر پل۔۔۔ بننے لگی۔ میں نے پرچہ اٹھالیا۔
سلائیاں رکھ سیما انگریزی میں بولی۔
’’برابر بچے پیدا کیے جاتے ہیں یہ لوگ۔۔۔ گھرمیں کھانے کو ہوتا نہیں، میں نے اس عورت سے کہا تھا بند کرو یہ سلسلہ بیوقوف بولی۔ سب واہگورو کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
بچے لوڈو چھوڑ کر کیرم اٹھالائے اور مجھے اور سیما کو بھی شامل کرلیا۔ دوسری گیم شروع کرنے سے پہلے آشا بولی۔ ’’اب کی آپ ہارے تو ہمیں فلم دکھائیں گے۔‘‘
’’منظور کرلیجئے ڈیڈی۔۔۔‘‘ونود بول اٹھا۔ وہ میرا پارٹنر تھا۔
’’ارے بھائی یہ دونوں عورتیں مل کر ہم دونوں کو ہرادیں گی۔‘‘
’’نہیں ڈیڈی، ہم انہیں ہرادیں گے۔‘‘ ونود جوش میں بولا:
’’ارے تمہارے ڈیڈی کیا جیتیں گے ہم سے۔۔۔‘‘سیما نے مسکراکر کہا۔
’’سچ فرمایا محترمہ۔۔۔‘‘میں نے کہا:
سیما کے رخسار گلابی ہوگئے۔ ’’اچھا، اچھا، آپ اسٹرائیک کیجئے۔‘‘
کھیل ہورہا تھا۔ باہر نوکر سے کسی کے باتیں کرنے کی آواز آئی۔ کوئی میرا نام لے کر پوچھ رہا تھا۔
’’وقت دے رکھا تھا کسی کو؟‘‘ سیما نے پوچھا۔
’’نہیں تو، نہ جانے کون آگیا ہے۔‘‘ میں نے کہا اور اٹھ کر باہر چلا گیا۔
باہر میرا کرن سدھیر مع بیوی بچوں کے کھڑا تھا۔ میں اسے اندر لے آیا۔
سدھیر میرا خالہ زاد بھائی ہے۔ دسویں پاس کرنے کے بعد ایک بینک میں کلرک ہوگیا تھا۔ آج بھی کلرک ہے۔ جب سے میں امرتسر آیا تھا۔ وہ سڑک پر دوچار مرتبہ مل چکا تھا۔ بڑے تپاک سے ہاتھ جوڑ کر نمستے کرتا اور اس طرح دھیرے دھیرے بات کرتا جیسے اپنے منیجر کے سامنے کھڑا ہے۔ اس کی باتوں سے مجھے علم ہوا کہ وہ اپنے منیجر سے کہہ چکا ہے کہ اس کا بڑا بھائی بہت بڑا انجینئر ہے اور اٹھارہ سو روپیہ تنخواہ لیتا ہے۔ وہ مجھے سیما اور بچوں کو لے کر گھر آنے کی دعوت بھی دے چکا تھا۔ سیما شہر کی گندی گلیوں سے گھبراتی ہے۔ اس کا وہاں دم گھٹنے لگتا ہے۔ میرے دونوں بچے بھی پسند نہیں کرتے۔ میں اس لیے ٹال جاتا۔ اخلاقی طور پر فرض سمجھتے ہوئے میں نے اسے یونہی آنے کے لیے کہہ دیا تھا۔ اور وہ سچ مچ آگیا ہے۔
اندر آکر میں نے سیما سے ان کا تعارف کرایا۔ جب میں نے بچوں سے کہا کہ یہ تمہارے انکل ہیں تو دونوں نے مسکراکر کہا۔ ’’گڈ آفٹرنون۔‘‘
سدھیر کے چاروں بچے حیران سے آشا اور ونود کی طرف دیکھنے لگے یہ ہمارے ہم عمر انگریزی بھی بول لیتے ہیں۔
سدھیر نے اپنے بچوں سے کہا۔۔۔ ’’نمستے کرو۔‘‘
وہ ہنس کر رہ گئے۔
’’شرمارہے ہیں۔۔۔ سدھیر کی بیوی نے پردہ ڈالا۔
جب ہم باتوں میں محو ہوئے تو سدھیر کے بچے خاصے بے تکلف ہوچکے تھے۔ ایک نے بڑھ کر سیما کے من پسند منی پلانٹ کی ایک ٹہنی جڑ سے اکھاڑ لی تھی اور ایسے پودے کو حیرت سے دیکھ رہا تھا جو پیتل کے گملے میں کمرے کے اندر ہی اُگ رہا تھا۔
دوسرا دروازے کے پردے سے منہ صاف کر آیا۔
تیسرااُٹھ کر کارنس پر رکھے تاج محل کا معائنہ کر رہا تھا جب وہاں سے ہٹا تو کوٹ کی آستیں سے الجھ کر چینی کا ایک گلدان فرش پر آرہا۔ اور باقی کبھی یہ ایک گلدان تھا، رہ گیا۔
’’موہن تو ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتا۔۔۔ سدھیر نے اسے ڈانٹا۔
’’کوئی بات نہیں۔ بچہ ہی تو ہے۔‘‘ سیما نے اخلاقاً نرمی دکھائی۔ اگر یہ حرکت وِنود یا آشا سے ہوئی ہوتی تو وہ کبھی معاف نہ کرسکتی۔ یہ دونوں گلدان اس کی ایک سہیلی نے لاہور سے بھیجے تھے۔ وہ انہیں دیکھ دیکھ کر کالج کے دن یاد کیا کرتی تھی۔ اور زہرہ کی شرارتیں بیان کیا کرتی تھی۔
’’آشی، بیٹا انہیں لے جاکر اپنے کھلونے دکھائو۔‘‘ میں نے کہا۔
آشا اور وِنود انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔
’’آپ تو بڑی صاف ستھری جگہ رہ رہی ہیں۔ سدھیر کی بیوی نے کہا۔‘‘ ہمیں تو گندی سی گلی میں ایک کمرہ اور ایک رسوئی ملی ہے۔‘‘
’’آپ گزارہ کیسے کرتی ہیں، اتنی کم جگہ میں۔‘‘
’’اس کے بھی بیس دیتے ہیں۔ زیادہ دے نہیں سکتے۔‘‘ سدھیر نے بڑی معصومیت سے کہا۔
’’بچوں کی تعلیم پر بھی بہت خرچ ہوجاتا ہے سیما نے کہا۔
’’وہ تو ابھی کمیٹی کے اسکول میں پڑھتے ہیں۔ ان کی ماں نے کہا:
’’کمیٹی کے!‘‘ سیما حیران سی اس کی طرف دیکھنے لگی۔ وہاں کیا پڑھائی ہوتی ہوگی۔ بھوکے ماسٹر پڑھائیں گے خاک۔‘‘
’’آپ نے بچوں کو کہاں داخل کرایا ہے۔‘‘ سدھیر کی بیوی نے پوچھا۔
شملے۔۔۔!‘‘ سیما نے ٹھاٹھ سے کہا۔
سدھیر اور اس کی بیوی بے حد مرعوب ہوئے اور کمرے کی چھت کی طرف دیکھنے لگے۔
’’بڑا خرچ ہوتا ہوگا؟‘‘ سدھیر کی بیوی نے پوچھا۔
’’چار سو روپیہ مہینہ دونوں کا۔‘‘
’’وہ میاں بیوی کھڑکی سے باہر دھوپ کا نظارہ کرنے لگے۔
ساتھ والے کمرے سے گالی کی آواز آئی۔
’’جی، یہ موہن بڑی گالیاں بکنے لگ گیا ہے۔‘‘ سدھیر کی بیوی نے کہا۔
وِنود روتا ہوا آیا۔ ’’ڈیڈی، رمیش نے میری لوڈو پھاڑ ڈالی ہے اور گالیاں بھی دے رہا ہے۔‘‘
’’جی اسے ادھر بلائیے۔۔۔‘‘ سدھیر کی بیوی نے کہا۔ پھر سیما سے مخاطب ہوتی۔ بہن جی۔ میں تو تنگ آگئی ہوں۔ ان بچوں سے۔‘‘
سدھیر آواز دینے ہی والا تھا کہ وہ خود آگئے۔ سب کے ہاتھ میں گلاب اور ڈیلیا کے پھول تھے۔
’’ممی انھوں نے سارے پھول توڑ لیے آشا نے شکایت کی۔‘‘ میں نے منع بھی کیا پر مانے نہیں۔‘‘
سیما نے پودے خود لگائے تھے چھوٹے سے صحن میں گنتی کے تو پودے تھے۔ انہیں خود سینچا تھا۔ ان کی حفاظت کی تھی اور وہ پھول جنہیں وہ مجھے بھی نہیں توڑنے دیتی تھی۔ ان بچوں نے توڑ لیے تھے میں نے دیکھا وہ جبر کیے بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے پر دکھ اور غصے کی پرچھائیاں تیر رہی تھیں۔
سدھیر نے بڑے لڑکے کو پکڑ کر زور سے چپت جڑدی۔
’’مارتے کیوں ہو۔‘‘ میں نے اسے سمجھایا۔ ’’چھوڑو، جانے دو۔‘‘
’’نہیں بھائی صاحب، ناک میں دم کردیا ہے ان بچوں نے ایک منٹ نہیں بیٹھتے آرام سے۔‘‘
رمیش ہاتھ چھڑا کر باہر چلا گیا اور لان میں جاکر سر میں دھول ڈالنے لگا۔
’’ممی، رمیش، اپنے کپڑے گندے کر رہا ہے۔۔۔‘‘ وِنود نے کھڑکی سے دیکھ کر بتایا۔
سدھیر کی بیوی خاوند سے پہلے باہر نکل گئی اور موہن کو اندر لے آئی۔
نوکر نے چائے کا وقت ہونے پر چائے لگادی۔ ہم سب چائے کی میز پر جا بیٹھے۔
’’موہن ہاتھ دھولو۔‘‘ وِنود نے کہا۔
موہن نے مٹھائی کی پلیٹ سے دونوں ہاتھوں میں مٹھائی بھرلی۔ پھر ایک ہاتھ کی مٹھائی جیب میں ڈال کر پلیٹ سے کیلا اٹھا لیا۔
’’ہم بھی لیں گے۔‘‘ دوسرے بچے ضد کرنے لگے۔
’’لے لو۔‘‘ میں نے کہا۔
وہ بھوکوں کی طرح پلیٹوں پر ٹوٹ پڑے۔ منٹوں میں دونوں پلیٹیں خالی ہوگئیں۔
’’موہن تمہارے ہونٹوں پر لڈو لگ گیا ہے۔‘‘ آشا نے بتایا۔
موہن نے کوٹ کی آستیں سے منہ صاف کرلیا۔
تمہارے پاس رومال نہیں ہے۔ آشا نے پوچھا
’’جا نہیں ہے تجھے کیا۔‘‘ موہن نے ڈانٹ دیا۔
آشا ماں کی طرف دیکھ کر چپ رہ گئی۔
’’ہماری سسٹر ایسی بات پر ناراض ہوتی ہے۔۔۔‘‘ وِنود بولا۔
’’سسٹر کیا ہوتی ہے۔‘‘ موہن نے پوچھا۔
’’جو پڑھاتی ہے اسکول میں۔‘‘ وِنود بولا:
’’ہمیں ماسٹر پڑھاتا ہے۔‘‘ موہن نے بتایا۔۔۔‘‘اسے پڑھانا ہی نہیں آتا۔ کرسی میں سویا رہتا ہے۔‘‘
اس بات پر سب ہنس دئیے۔
کچھ دیر بعد وہ لوگ چلے گئے۔ سیما نے جیسے سکھ کا سانس لیا۔ بولی۔
’’ایسے تھرڈ کلاس بچے میں نے آج تک نہیں دیکھے۔ اور ’وومن اینڈ ہوم‘ میں مضمون پڑھنے لگی۔
میں نے سائیکالوجی، کے ورق پلٹنے شروع کردیے۔ ایک جگہ لکھا تھا۔
آپ کے بچوں کو اچھا شہری بننے کے لیے اچھا ماحول چاہیے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.