پندرہ سال کی طویل مدت کے بعد جیل کے آہنی پھاٹک کی کھڑکی سے ایک بوڑھے نے نکل کر باہر کی فضا کو اس طرح اجنبی نگاہوں سے دیکھا جیسے کسی دیہاتی کو لال قلعہ کے دیوانِ عام میں چھوڑ دیا گیا ہو۔ بوڑھے کی ضعیف آنکھوں کے گرد سیاہی نمودار تھی۔ چہرے پر سیاہ اور سفید بالوں کی داڑھی بُھٹے میں لگے الجھے ہوئے ریشوں کی طرح لگ رہی تھی۔ اس کے لاغر جسم پر جھولتے ہوئے کپڑے ایسے معلوم ہو رہے تھے جیسے کسان نے بانسوں کے بنے ہوئے آدمی کو کپڑے پہنا کر کھیت میں کھڑا کر دیا ہو۔ اس کے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے قدموں سے دنیا کی نہیں بلکہ چاند کی زمین کا احساس ہو رہا تھا۔ اسے خوش آمدید کہنے کے لیے دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ اور وطن سے اتنی دور ہوتا بھی کون؟ اس کے خاندان والوں کو تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کس جیل میں ہے۔ کئی دن تک وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ اپنے بھوکے پیٹ کو لیے اسی شہر میں ادھر اُدھر مورطاس کی طرح چکر کاٹتا رہا۔ بالآخر اس کی ضعیف لڑکھڑاتی ٹانگوں نے اپنے گاؤ ں کے راستے پر چلنا شروع کر دیا۔ اس کی نظروں میں اپنے گاؤں کی پندرہ برس پرانی تصویر اب بھی موجود تھی۔ لیکن گاؤں ترقی کی کئی منزلیں طے کر چکا تھا۔ اپنے ہی گاؤں میں وہ ٹاؤن ایریا کے بنوائے ہوئے کھرنجے پر چلنے لگا۔ راستے کے دونوں طرف اچھی خاصی پختہ دکانیں اور مکانات تعمیر ہو چکے تھے۔ سڑک کے ایک طرف پختہ گودام کی عمارت گاؤں کی ابھرتی ہوئی عظمت کی نشاندہی کر رہی تھی۔ گودام کے اردگرد بہت سارے مزدور کام میں لگے ہوئے تھے۔ ایک اونچے چبوترے پر گاؤ تکیے کا سہارا لیے ایک بھاری جسم کا آدمی بیٹھا ہوا ادھر ادھر نگاہیں دوڑا رہا تھا۔ چبوترے کے نیچے ایک مزدور لالا کے سامنے منتیں کر رہا تھا۔
’’مالک! بس دوا کے لیے پیسے دے دو۔ میری بچیّ تڑپ رہی ہے۔ زندگی بھر آپ کی غلامی کروں گا۔‘‘
’’چل چل کام کر پہلے، غلامی نہ کرےگا تو کھا ئےگا کیا۔‘‘ لالا نے جھڑک دیا۔ بوڑھے کو اس جوان مزدور کی یہ حالت دیکھ کر ترس آ گیا جس کے گورے لیکن میلے چہرے پر بڑھی ہوئی داڑھی اور کپڑوں میں لگے ہوئے پیوند اس کی کہانی بیان کر رہے تھے۔ بوڑھا ترس کھانے کے سوائے کر بھی کیا سکتا تھا ۔ وہ قریب ہی ایک ہوٹل کی بنچ پر بیٹھ گیا اور پاس بیٹھے ہوئے ایک سن رسیدہ آدمی سے پوچھنے لگا۔
’’یہ لالاجی کون ہے؟‘‘
اس آدمی نے حیرت سے بوڑھے کو دیکھا۔
’’ارے بھائی ! لالا رام دین کو نہیں جانتے؟‘‘
’’بابا میں یہاں کا رہنے والا نہیں۔ کیا یہ لالاجی اس گاؤں کے رہنے والے ہیں؟‘‘
بوڑھے نے اپنے ہی وطن میں خود کو اجنبی ظاہر کیا۔
’’ان کے تو باپ دادا بھی اسی گاؤں کی مٹی سے پیدا ہوئے ۔شاید تم نے سنا ہو چودھری ریاست علی کا نام؟‘‘
’’ہاں۔ ہاں۔ پھر؟‘‘ بوڑھا کچھ بے چین سا ہو گیا ۔
’’ان کے یہاں دین دیال نام کا ایک آدمی مختارِ عام تھا۔ مختارِ عام تو ایک طرح سے مالک ہوتا تھا۔ زمیندار ی کا زمانہ تھا۔ چودھری صاحب بڑے دل والے آدمی تھے۔
ذرا ذرا اسی بات پر ہزاروں لٹا دیتے تھے۔ کبھی روپے پیسے کی پرواہ نہ کی۔ اسی لاپرواہی سے فائدہ اٹھا کر دین دیال نے چودھری کی آدھی کے قریب جائیداد اپنے نام کرا لی۔ لیکن جب چودھری کو یہ بات معلوم ہوئی تو غصہ میں آکر اس کے گولی ماردی۔ بھیّا زمینداری تو ختم ہو چکی تھی، گرفتار ہو گئے۔ لمبی سزا ہو گئی۔ خدا جانے ان کا کیا حال ہوا۔ یہ لالا جو ہے ، اسی دین دیال کا بیٹا ہے۔‘‘
’’کیوں بابا ریاست علی کے بچوّں کا کیا ہوا؟‘‘ بوڑھے کے چہرے پر کچھ کرب کے آثار نمایاں ہوئے۔
’’بڑی بُری حالت ہوئی ہے بھیّا۔ زمینداری کیا ختم ہوئی زمینداروں کی تو مٹی پلید ہو گئی۔ خدا کسی کی ایسی حالت نہ کرے۔ بیگم صاحبہ تو ان کے جیل جانے کے کچھ ہی دن بعد ﷲ کو پیاری ہو گئی تھیں۔ چھوٹے دو بچےّ تھے جنہیں چودھری کے ایک خدمتگار پھول چند نے پالا اور پالتا بھی کون۔؟ جو کچھ بھائی بند تھے وہ ملک تقسیم ہونے کے بعد اپنی زمینیں اونے پونے داموں بیچ کر پاکستان چلے گئے تھے۔ پھول چند کے مرنے کے بعد بے چارے بے سہارا ہو گئے۔ نوکروں میں جس کے ہاتھ جو لگا، لے کر بھاگ گیا۔ زمینیں موروثی ہو گئیں۔ مکان بھی سب نکل گئے۔
’’ریاست علی کے بچےّ اب کہاں رہتے ہیں؟‘‘ بوڑھے کے لہجے میں اب بہت بےقراری تھی۔
’’ادھر ہی پیپل والی گلی میں، آخری نکڑ پر ایک ٹوٹا سا مکان ہے، اسی میں ہیں‘‘۔
اتنا کہہ کر وہ آدمی اٹھ کر جانے لگا۔ بوڑھے نے ایک بار پھر لالا رام دین کو دیکھا۔ مزدور جاچکا تھا۔ لالا ٹانگیں پھیلائے بیٹھا تھا۔ بوڑھا بھی اُٹھ کر تیز تیز قدموں سے پیپل والی گلی کی طرف بڑھنے لگا …
…بیچ بازار میں جب چودھری ریاست علی کا گھوڑا روک کر ان کے ہاتھوں میں ایک نئے آئے ہوئے تھانے دار نے ہتھکڑیاں پہنائیں تو انہیں ایسا لگا جیسے مہترانی نے اپنا بھرا ٹوکرا ان کے اوپر لوٹ دیا ہو۔ ان کی نگاہیں اس طرح جھک گئیں،جیسے کسی پاکباز، زاہد و عابد کے سامنے کوئی ننگی عورت آ گئی ہو۔ ان کے ارد گرد ایک سہما ہوا مجمع اکٹھّا ہو گیا تھا۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ان سے نگاہ ملا سکے۔ یہ وہی چودھری ریاست علی تھے جن کے حکم کے بغیر علاقے کا کوئی آدمی تو کیا کوئی جانور بھی پانی نہیں پیتا تھا۔ ان کے یہاں سینکڑوں بھوکے اپنا خالی پیٹ بھرتے تھے۔ نہ جانے کتنی یتیم لڑکیوں کی ڈولیاں ان کی دہلیز سے اُٹھ کر سسرال چلی گئی تھیں۔ ریاست علی کی فراخ دلی کے چرچے دور دور تک ہوتے تھے۔
تھانیدار چلنے لگا۔ اس کے پیچھے چودھری ریاست علی اس طرح چل رہے تھے،جیسے کوئی باپ اپنے جوان بیٹے کی موت پر اس کی میّت کو اپنے کندھوں پر اٹھائے قبرستان لے جارہا ہو۔ ان کے پیچھے بوڑھا پھول چند گھوڑے کی راس پکڑے ان کی رہائی کے منصوبے بناتا چل رہا تھا۔ پورے گاؤں پر موت کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ گاؤں کی عورتیں جھونپڑوں سے نکل نکل کر ریاست علی کو دیکھتیں اور ان کی مہربانیوں کو یاد کرکے آنچل سے آنکھیں صاف کرتی جاتی تھیں۔
ریاست علی کی زندہ لاش کا جنازہ تھانیدار کے کاندھوں پر رکھا ہوا جب حویلی پر پہنچا تو کسی نے اندر کہہ دیا کہ میاں گرفتار ہوکر تھانے جارہے ہیں۔ حویلی کی چوڑی دیواروں کے اندر رہنے والی بیگم یہ خبر سن کر ننگے سر، برہنہ پا، باہر کو بھاگیں۔ میاں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں دیکھیں، ہمیشہ اونچے رہنے والے سر کو جھکا دیکھا، نظریں چار ہوئیں، بے ہوش ہو کر ایسی گریں کہ پھر خدا نے ہی اٹھایا۔ چھ سال کا چھمن ابوّ! ابوّ چلاّ رہا تھا۔ ریاست علی کے اشارے پر پھول چند اسے گود میں اٹھا کر قریب لے آیا۔ جانے کیوں! انہیں احساس ہو گیا تھا کہ اس بار ان کی دولت بھی انہیں رہا نہ کرا سکےگی۔ ریاست علی نے پھول چند سے صرف اتنا کہا۔ ’’پھول چند ان کا خیال رکھنا۔‘‘ تھانے دار نے چلنے کا اشارہ کیا۔ چودھری ریاست علی نے تھانیدار کو غور سے دیکھا۔ تھوڑی دیر کے لیے وہ بوکھلا گیا ۔ آج سے پہلے کتنے ہی تھانے دار ان کی حویلی میں پڑے ٹکڑے توڑتے رہتے تھے۔ ہر نیا داروغہ سب سے پہلے انہیں سلام کرنے آیا کرتا تھا۔
ریاست علی خود ہی پاس کھڑی ہوئی جیپ میں بیٹھ گئے۔ جیپ میں بیٹھنے سے قبل انہوں نے ایک حسرت بھری نگاہ حویلی پر ڈالی۔ حویلی کسی بیوہ کی طرح بال بکھیرے ہوئے اپنے دیوتا کی زندہ میت کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ ریاست علی نے حویلی کی طرف سے اس طرح نگاہیں ہٹا لیں جیسے وہ حویلی کو جوئے میں ہار کر کسی اور کے حوالے کر رہے ہوں۔ جیپ گرد اُڑاتی ہوئی تیزی سے آگے بڑھ گئی اور حویلی اس اُڑتی ہوئی گرد میں پانی میں ڈوبتے ہوئے پتھّر کی طرح گم ہو گئی…
…چودھری ریاست علی ریکھم پور جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ پھول چند بندوق کی نال صاف کرنے میں لگا ہوا تھا۔
’’پھول چند گھوڑا تیار ہو گیا؟‘‘ ریاست علی نے پستول پیٹی میں لگاتے ہوئے کہا۔
’’جی سرکار‘‘
’’ٹھیک ہے، جلدی کرو۔ ہم ابھی آتے ہیں۔‘‘ ریاست علی اندر چلے گئے لیکن جلد ہی واپس آ گئے۔ پھول چند نے پیٹی میں کارتوس لگاتے ہوئے ریاست علی سے معلوم کیا۔
’’سرکار ہم کا یہ بتائیو کہ اب کے بڑے باگ (باغ) کی پھسل کا کیتا روپیہ آئیو ہے۔‘‘
’’کیوں؟ یہی کوئی چار سو روپے۔‘‘ ریاست علی نے بڑی لاپرواہی سے کہا لیکن پھول چند چونک پڑا۔
’’صرف چار سو روپے۔ سرکار پھسل تو ایک ہجار میں بکی ہیں؟‘‘
’’نہیں بھئی۔ دین دیال نے ہمیں خود آکر روپے دیئے ہیں اور بتایا کہ چار سو روپے میں بِکی ہے۔‘‘
’’ناہیں سرکار۔ ہمارے سامنے بات بھئی تھی۔ رسید کھاں سے۔ پورے ایک ہجار (۱۰۰۰) ہیں۔‘‘
’’ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم نے تو اس سے کبھی حساب نہیں لیا۔ اس نے جیسا بتایا ہم نے مان لیا۔‘‘
’’ہم نے تو بتائے دیا سرکار، ہم کا ہے کو جھوٹ بولن لاگے۔‘‘
’اچھا‘، ریاست علی کو پہلی بار دین دیال کی دیانت داری پر شک ہوا۔ انھوں نے اُسی وقت مجید خاں سے دین دیال کو بلوایا۔
’’اس سال بڑے باغ کی فصل کتنے میں فروخت ہوئی تھی؟‘‘ ریاست علی کا پہلا سوال یہی تھا۔
دین دیال نے ایک بار چاروں طرف اپنی بوڑھی اور تجربہ کار نظریں دوڑائیں۔ وہ سمجھ گیا کہ کسی نے بھر دیا ہے۔
’’اس کا حساب تو آپ تک پہنچ گیا۔ لیکن بات کیا ہے سرکار۔؟ آج تک آپ نے اس طرح سے کبھی نہیں پوچھا۔؟‘‘
’’یہی تو مجھے افسوس ہے کہ آج تک میں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ میری بات کا جواب دو!‘‘
’’یہ ایک ہزار میں۔‘‘ دین دیال کی صاف گوئی پر ریاست علی برہم ہو گئے۔
’’لیکن ہمیں چار سو روپیہ کیوں بتایا؟‘‘
’’اس لیے کہ وہ باغ میرے نام ہے۔‘‘
دین دیال کو یہ معلوم تھا کہ زمینداری ختم ہو گئی ہے۔ ریاست علی کے جیسے بچھّو نے ڈنک مار دیا۔ وہ چیخ پڑے۔
’’دین دیال!‘‘
’’ جی سرکار‘‘
دین دیال کے اس طنزیہ انداز پر ریاست علی تلملا گئے لیکن دین دیال پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوا۔ اس نے اپنی جیب سے کچھ کاغذات نکالے۔
’’میں تو خود آپ کے پاس آنے والا تھا۔ میں اب آپ کی نوکری سے الگ ہونا چاہتا ہوں اور اپنی زمین پر قبضہ — یہ دیکھئے۔ بڑا باغ اور شیرپور والا چک میرے نام ہے۔ دیکھ لیجئے۔ آپ ہی کے دستخط ہیں۔‘‘
ریاست علی اُس بھوکے شیر کی طرح بپھر گئے جس کے منہ سے شکار کیا ہوا ہرن چھین لیا گیا ہو۔
’’ہماری لاپرواہی سے تم نے یہ فائدہ اٹھایا، ہم تمہیں نوکری سے الگ کریں گے۔‘‘
زمیندار کا خون جوش کھا چکا تھا۔ پیٹی میں لگا ہوا پستول ہاتھ میں آ گیا۔ اور دوسرے ہی لمحے اس کے اندر کی گولیاں دین دیال کے سینے میں اُتر گئیں—
… پیپل والی گلی کے آخری مکان تک پہنچتے پہنچتے بوڑھے کی سانس پھول گئی۔ کمزور ہاتھ سے زنجیر کھٹکھٹائی۔ دروازہ کھلا۔ بوڑھے نے دیکھا کہ یہ وہی مزدور ہے جو کچھ دیر پہلے لالا رام دین کے سامنے منّت کررہا تھا۔
’’کیا اس مکان میں چھمّن میاں رہتے ہیں؟‘‘
’’چھمّن۔ میاں‘‘۔ مزدور کو چھمّن اور میاں کا میل کچھ عجیب سا لگا۔ اس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ ’’۔جی ہاں۔‘‘
’’مزدور کا اتنا جواب سنتے ہی بوڑھا اندر گھستا چلا گیا، مزدور حیرت سے دیکھ رہا تھا۔وہ اسے روک بھی نہ سکا۔ اس نے قریب آکر معلوم کیا۔
’’آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟‘‘
بوڑھے نے پہلے تو اُسے غور سے دیکھا اور دھیرے سے بولا۔
’’جیل سے‘‘
جیل کا نام سُنتے ہی مزدور بوڑھے سے لپٹ گیا ۔ ’’ابّو‘‘
’’بیٹے …… میرے بیٹے…… یہ کیا ہو گیا تجھے۔‘‘ بوڑھا اس نوجوان کو آغوش میں لے کر بیٹھتا چلا گیا۔
’’بیٹے …… کسی سے یہ نہ کہنا کہ ……کہ یہ…… چودھری ریاست علی کا جنازہ ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر چودھری ریاست علی آف رحمت گڑھ کی گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.