قلعہ نما عالی شان عمارت کے اندر داخل ہوتے ہی میرے قدم رک جاتے ہیں۔ میں اس منظر کی تاب نہیں لا سکتا اور آنکھیں بند کر لیتا ہوں مگر پھر آنکھیں کھولتا ہوں تو کچھ دکھائی اور سجھائی نہیں دیتا اور کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کون سا وقت اور مقام ہے۔
دن ہے نہ رات۔۔
اندھیرا ہے نہ اجالا۔۔
طلوع ہے نہ غروب۔۔
موت ہے نہ حیات۔
شاید اس کے بین بین کوئی کیفیت یا سمے ہے یا اس سے ماورا۔۔
کچھ اندازہ نہیں ہو رہا کہ کون سا زمانہ ہے یوں لگتا ہے جیسے آگے پیچھے دائیں بائیں پانی ہی پانی ہے۔
بےرنگ بےبو اور بےذائقہ پانی۔۔ جو گرم ہے نہ سرد اور جس کے حرکت کرنے یا رکے ہوئے ہونے کا بھی پتہ نہیں چل رہا مگر یقیناً وہ حرکت کر رہا ہوگا اور میں اس میں بہہ رہا ہوں گا۔ پانی کی سلطنت میں ڈوبنے یا بہنے کے سوا چارہ بھی کیا ہے۔ مگر میں نے تو کسی بھی مقام سے اس میں اپنی بے پتوار کشتی نہیں ڈالی پھر میں اس میں کب اور کیسے شامل ہو گیا اور اب پتہ نہیں کب تک بہتا چلا جاؤں۔ مسلسل بہتے چلے جانے کی ایک جیسی کیفیت کا تصور کر کے میں گھبرا جاتا ہوں اور پوچھتا ہوں۔
’’کنارا کب آئےگا؟‘‘
’’یہاں کنارا نہیں ہوتا۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے بہت وسیع سمندر ہے اور کنارے پر پہنچنے کے لیے ابھی بہت دیر لگےگی۔‘‘
’’یہاں تمہارے سارے الفاظ بہت وسیع، سمندر، کنارا، پہنچنا، ابھی، بہت، اور دیر بےمعنی ہیں۔‘‘
’’تو کیا ہمیں کہیں نہیں پہنچنا ہے؟‘‘
’’یہاں پہنچنا اور نہ پہنچنا برابر ہے۔‘‘
’’ اور اگر میں واپس جانا چاہوں ؟‘‘
’’یہاں آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں اوپر اور نیچے کا کوئی فرق نہیں۔ یہاں سمتیں ہیں اور نہ نشیب وفراز۔‘‘
’’پھر کیا ہے؟‘‘
’’ایک تسلسل، ایک دوام، ایک بے پایانی اور لا محدودیت۔‘‘
’’تو کیا ہم زمان و مکان سے ماورا کسی مقام پر ہیں ؟‘‘
’’مقامیت کا تصور یہاں عبث ہے۔‘‘
’’تو کیا میں ابدیت کے سمندر میں فنا ہو چکا؟‘‘
’’نہیں تم فنا نہیں ہوئے سمندر میں مل کر سمندر ہو گئے ہو۔‘‘
’’میں سمندر میں مل کر سمندر نہیں ہونا چاہتا۔ میں اپنی پہچان نہیں کھونا چاہتا۔‘‘
’’پہچان یہاں ایک بے معنی اصطلاح ہے اوس، بوند، جھاگ، لہر، موج، حباب اور قطرے کا الگ کوئی وجود نہیں ہوتا سب سمندر کی ہی مختلف صورتیں ہیں تم موج بھی ہو اور دریا بھی۔ قطرہ بھی ہو اور سمندر بھی۔‘‘
سمندر میں مل کر سمندر ہو جانے کے خیال سے مجھے وحشت ہونے لگتی ہے۔ میں چاروں طرف نگاہ دوڑاتا ہوں مگر حد نظر تک پھیلے پانی میں باہر کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔
مجھے اپنا سمندر یاد آتا ہے۔
مجھے وہ دن یاد آتے ہیں جب ہم اس کے اتھلے پانیوں میں بے سدھ پڑے دھوپ چوستے اور ہوا پھانکتے رہتے تھے کہ لاکھوں برس بعد ایک روز سانس لینے کی امنگ پیدا ہوئی اور ہم عدم سے وجود میں آئے تھے۔ مجھے وہ دن یاد آتے ہیں جب ہم سمندر کی کوکھ سے نکل کر رینگتے ہوئے خشکی کی طرف چلے جاتے تھے لیکن سورج کی تمازت اور بےپانی کی ہوا سے ہمارا دم گھٹنے لگتا اور ہم واپس اس آغوش میں پناہ لیتے تھے۔ پھر ایک روز ہم باہر آئے تو ہمیں واپسی کا راستہ نہ ملا۔ شاید سمندر ہمیں چھوڑ کر پیچھے ہٹ گیا تھا۔ یا شوق مہم جوئی میں، جو ہماری گھٹی میں پڑا تھا۔ ہم اس سے دور نکل آئے تھے۔ پھر ہم دلدلوں اور جھاڑیوں میں رہنے لگے تھے۔ ہم جھیلوں، تالابوں اور دریاؤں سے دور نہ جاتے تھے اور آسمان بارش کی صورت میں سمندر انڈیلتا تو ہم خوشی سے ناچ اٹھتے تھے پھر نجانے ہم نے کیا کیا صورتیں بدلیں اور کیسی کیسی صعوبتیں اٹھائیں اور کہاں کہاں بھٹکتے پھرے۔ ہم اس سے دور چلے جاتے تھے لیکن اس نے ہمیں کبھی فراموش نہیں کیا۔ وہ ہر جگہ اپنی پانی سے لدی ہوائیں ہمارے لیے بھیجتا رہا۔ میدانوں، پہاڑوں، وادیوں اور صحراؤں میں ہم جہاں بھی گئے اس نے اپنے قیمتی تحفوں کا سلسلہ جاری رکھا اور ہماری سرپرستی کرتا رہا۔ ہمارے لیے زمین سے اناج اور سبزہ اگاتا اور درختوں کی پور پور میں نمی پہنچاتا رہا۔
مجھے یاد آتا ہے۔
میں جب کبھی اداس ہوتا اپنے اندر سے نکل کر اس کے کنارے جا بیٹھتا اور ساحل کی طرف آتی موجوں اور نظروں سے اوجھل ہوتی کشتیوں کو دیکھتا رہتا تھا۔پانی مجھے ہمیشہ مسحور کرتا رہا ہے اسے دیکھتے رہنے سے میری اداسی دھلنے لگتی تھی۔ اس کی عظمت اور وسعت کا تصور مجھے تقویت دیتا۔۔۔ وہ عظیم اور مہربان تھا۔ سینکڑوں دریا دن رات اس کے اندر منہ ڈالے اپنی طغیانیاں اگلتے رہتے تھے مگر وہ چھلکتا نہیں تھا۔ ہر خطے ہر رنگ اور ہر نسل کے پانی اس میں مل کر ایک ہو جاتے تھے۔ وہ تین چوتھائی زمین پر پھیلا ہوا تھا۔ اس کا آبی خون بادلوں، دریاؤں اور ندی نالوں کے ذریعے زمین کے سارے بدن میں گردش کرتا تھا۔ وہ ہر جگہ اور ہر مقام پر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا تھا۔ اور اپنے قوانین کی سختی سے پابندی کر کے ہمارے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کرتا تھا۔ ہم جہاں جاتے اس کی سطح سے بلندی کا حساب رکھتے اس کی قربت میں ڈھارس بندھتی اور نیا ولولہ پیدا ہوتا اور اس کے لمس سے مامتا کا احساس ہوتا تھا مگر یہ کیسا سمندر ہے؟
جس کا کوئی اور چھور نہیں۔
جس کا کوئی کنارا ہے نہ ساحل۔
جس کی کوئی سطح ہے نہ تہہ۔
بس ایک ہولناک خاموشی سے بہتا چلا جاتا ہے۔۔ اس کی بے پایانی دیکھ کر فنا کا خوف طاری ہو جاتا ہے۔ پتہ نہیں اس میں بہتے چلے جانے کی کیفیت کبھی ختم بھی ہوتی ہے یا نہیں۔۔۔ میں ہیبت کے پانیوں میں ڈوبے ڈوبے پوچھتا ہوں۔
’’ہم کب تک۔۔ کتنے سال، کتنی صدیاں یونہی بہتے رہیں گے؟‘‘
’’صدیاں سال، دن اور لمحے یہ سب الفاظ اضافی ہیں ۔۔ ہونا نہ ہونا یہاں ایک ہے۔‘‘
’’پھر اس کے بعد؟‘‘
’’یہاں پھر نہیں ہوتا اور نہ پہلے اور بعد میں کوئی فرق ہے۔‘‘
’’ اور میرا ماضی، میری تاریخ۔۔۔ میری تہذیب؟‘‘
’’یہاں ماضی ہے نہ حال اور نہ مستقبل۔۔۔ تاریخ و تہذیب کا تصور اس گرداب میں لایعنی ہے‘‘
’’ اور حسن اور خوشی اور جذبے اور زندگی؟‘‘
’’سب باطل‘‘
’’ اور حرکت، محنت، عمل، ترقی؟‘‘
’’لا حاصل۔‘‘
’’یہ بہت بڑا دھوکہ ہے۔ ایک سنگین مذاق ہے۔‘‘
’’یہی مقدر ہے۔‘‘
’’میں نہیں مانتا۔۔ میں اپنے پانیوں کو الگ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’تمہارے پانی؟‘‘
’’ہاں میرے پانی۔۔۔ میں انہیں پہچان سکتا ہوں۔‘‘
اور مجھے یاد آتا ہے
وہ ساحل کی ریت پر قلانچیں بھرتی پھرتی تھی۔ سمندر اسے ہمک ہمک کر اور میں سہم سہم کر سمندر کو دیکھتا تھا۔ میں سمندر دیکھنے آیا تھا مگر وہ مجھے دیکھنے نہیں دیتی تھی۔ بار بار سامنے آ جاتی اور اسے اپنی اوٹ میں چھپا دیتی تھی۔ وہ میرے ساتھ آئی تھی مگر سمندر کے کنارے پہنچتے ہی اتنی تبدیل ہو گئی تھی کہ لگتا تھا ابھی چھلک جائےگی
’’آؤ پانی میں اتریں۔‘‘ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر پانی کی طرف کھینچتے ہوئے کہا تھا۔ مجھے شرارت سوجھ رہی تھی
’’تم پانی میں نہ اترنا پلیز‘‘
’’کیوں کیا ہے مجھے؟‘‘
’’تمہیں تو کچھ نہیں اور نہ ہوگا سمندر میں طغیانی آ جائےگی۔‘‘
وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی اس کی جگمگاتی ہنسی کی آواز سمندر کے پانی پر دور تک دکھائی دیتی رہی، پھر نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی۔ ایک لہر آئی تھی اور ہمیں گدگدا کر واپس چلی گئی تھی۔ یقیناً وہ لہر کسی نہ کسی صورت میں کہیں نہ کہیں اب بھی موجود ہوگی
مجھے یاد آتا ہے۔
ہم سکوٹر پر سوار پہاڑ پر جا رہے تھے کہ ہمیں بارش نے آ لیا اور ہمیں بھگو کر نیچے ندی میں اتر گئی تھی۔ بارش میں بھیگ اور دھل کر وہ اور نکھر آئی تھی اور قوس قزح بن گئی تھی۔ قوس قزح سے آلودہ پانی بھی یقیناً یہیں کہیں ہوگا اور وہ پانی بھی جو ہماری موجودگی میں دیوداروں سے گھرے آبشار سے گرتا رہا تھا اور دریا کا وہ پانی بھی جس پر میں اسے کئی برس تک فراقیہ چٹھیاں لکھتا رہا تھا
’’مجھے میرے پانیوں کا حساب چاہیے‘‘
’’تم پھر بھول گئے یہ وہ سمندر نہیں ہے‘‘
’’تو پھر یہ کون سا سمندر ہے؟‘‘
’’اس کا کوئی نام نہیں لیکن اگر تم اپنی آسانی کے لیے سمندر کہنا چاہتے ہو تو سمندروں کا سمندر کہو۔ بحر بے کنار سمجھو۔‘‘
’’اور وہ سمندر؟‘‘
’’اس بحر عظیم میں وہ ایک قطرہ ہے‘‘
’’اور وہ قطرہ جو مجھے رخصت کرتے وقت ایک بار اس کی آنکھ سے ٹپکا تھا؟‘‘
وہ ہنستا ہے اور ہنستا ہی چلا جاتا ہے مجھے اس کی ہنسی یاد آ جاتی ہے
’’دند چنبے دی لڑی کہ ہنس موتی دانے نکلے حسن انار وچوں۔‘‘
مجھے یاد آتا ہے۔ اس نے کہا تھا جوگی تم جھوٹ کہتے ہو۔ گئے وقت کو کون واپس لا سکتا ہے اور بچھڑے ہوؤں کو ملا سکتا ہے اور وہ اس وقت تک نہیں جانتی تھی کہ وہ جوگی میں خود ہوں اور وقت کی طرح سنگدل نہیں ہوں۔
پھر مجھے یاد آتا ہے۔ جب میں عزت بیگ تھا اور چناب کے کنارے بیلے میں بھینسیں چراتا تھا۔ مجھے تیرنا اور غوطہ لگانا آتا تھا اور میں تند لہروں کے منہ سے اس کے لیے مچھلی چھین لاتا تھا مگر۔۔۔اس رات۔۔۔ اس نے منع کر دیا تھا اور حالانکہ وہ تیرنا نہیں جانتی تھی وہ طوفانی پانی میں اتر گئی تھی۔۔ اور کہتے تھے بہتا ہوا پانی اوپر اچھالتا اور رکا ہوا پانی نیچے دباتا ہے۔ لیکن اسے بہتا ہوا پانی بہا لے گیا تھا اور وقت نے مجھے ٹھہرے ہوئے پانی کا جوہڑ بنا دیا۔ جہاں سے بوند بوند بھاپ کی صورت نکل بھاگنے میں میرا پورا جنم صرف ہو گیا تھا۔
مجھے یاد آتا ہے ہزاروں لاکھوں برس پہلے ہم ایک ساتھ چلے تھے مگر ہر زمانے میں ہمیں ایک دوسرے کے قریب رہنے کے لئے طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا رہا تھا۔ روحانی اور جسمانی اذیتیں دی جاتی تھیں۔ زہر پھانکنے اور دریا میں کود جانے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ سانپوں سے ڈسوایا اور درندوں کے آگے پھینک دیا جاتا تھا۔ قبر میں زندہ گاڑ اور دیواروں میں چن دیا جاتا تھا اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ہمارے درمیان اجنبیت کی بلند دیوار اٹھا دی گئی تھی اور ہم ایک دوسرے کے قریب رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو جاننے اور پہچاننے سے قاصر تھے اور ہمیں ایک دوسرے کو جاننے اور پہچاننے کے لیے اپنی قیمتی اور مختصر زندگی کے بہت سے سال ضائع کرنے پڑے تھے۔
مجھے یاد ہے ہمارے گھر کے پچھواڑے میں جامن کا ایک پیڑ تھا۔ جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس پر آسیب رہتا ے جو خوبصورت اور نوخیز لوگوں کو چمٹ جاتا ہے۔ ہر سال پیڑ جامنوں سے لد جاتا تھا مگر کوئی اس کے قریب نہ جاتا تھا۔ جامنوں کے بوجھ سے نرم لچکیلی شاخیں جھکنے لگتیں۔ ٹہنیوں سے لگی لگی جامنیں سوکھنے اور سڑنے لگتیں مگر کوئی اتارنے نہ آتا اور میں پوری بستی میں پہلا شخص تھا جس نے فیصلہ کیا تھا کہ جامن کو آسیب کے قبضہ سے واگزار کرایا جائے مگر جب میں نے اس کا پھل چکھا تو جامن کا ایک پیڑ میرے اندر اگنے لگا اور برسات سے پہلے ہی ساری ٹہنیاں ہری اور لال جامنوں سے لد گئیں
مجھے یاد آتا ہے۔
ہر سال دریا بند توڑ کر گھروں، آنگنوں، کھیتوں اور گلیوں میں آ جاتا اور جاتے ہوئے بہت کچھ اپنے ساتھ بہا لے جاتا تھا۔ سامان، اناج، مویشی اور آدمی۔ اور جب پانی اترتا تھا تو بعض کھوئی ہوئی چیزیں اچھی یا بری حالت میں مل بھی جاتی تھیں۔ مگر ایک بار دریا بستی کی سب سے قیمتی چیز بہا کر لے گیا اور قیمتی چیزیں کون واپس کرتا ہے۔ پانی اترا تو اس کی ہر جگہ تلاش ہوئی مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ بستی کے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ کسی امدادی کشتی میں سوار ہو کر چلی گئی تھی مگر مجھے معلوم تھا وہ اپنے قدیم آبائی گھر چلی گئی تھی اور کسی دوسرے زمانے میں میرا انتظار کرتی تھی۔
اور موسم آتے جاتے رہے۔
جامنیں پکتی اور سڑتی رہیں۔
اور دبلی گائیں ساری فربہ گایوں کو اور سوکھے خوشے ہرے بھرے خوشوں کو کھا گئے۔
اور پھر کئی برسوں یا شاید صدیوں کے بعد جیسے کسی نے مجھے خنجر بھونک دیا۔ ’’وہ زندہ ہے۔‘‘
اور میرے اندر کوئی گردان کرنے لگا۔ ’’وہ زندہ ہے میں زندہ ہوں تو زندہ ہے ہم زندہ ہیں۔‘‘
اور میں تو یہ بتانا تو ہی بھول گیا کہ کھو جانے سے پہلے اس کے حسن کا دور دور تک شہرہ تھا اور اسے قدرت کا حسین شاہکار خیال کیا جاتا تھا۔ اگرچہ بستی میں اس کی موجودگی میں چراغ جلانے پر کوئی پابندی نہیں تھی اور اسے ہر صبح پھولوں سے تولا بھی نہیں جاتا تھا۔ مگر بستی میں ساری رونق، روشنی اور چہل پہل اسی کے دم سے تھی۔
مجھے یاد آتا ہے میں اسے دیکھ کر لرز گیا تھا۔
مجھے یقین نہیں آیا تھا کہ وہ سچ مچ وہی ہے۔
اسے دیکھ کر وقت کی سفاکی اور انسان کی بے مائیگی کا احساس شدید ہو گیا تھا۔ میں اسے اس حال میں دیکھوں گا۔ اس کا میں نے کبھی تصور تک نہیں کیا تھا۔ مجھے وہ لہلہاتے دن یاد آئے تھے جب وہ محض دیکھنے سے گلابی عنابی ہو جاتی اور چھو لینے سے اس کے جسم میں برقی رو دوڑ جاتی تھی۔ مگر اب لگتا تھا جیسے کسی نے پیچھے سے مین سوئچ بند کر دیا ہو۔
اور اس نابینا بڑھیا کی پکار سن کر یوسف گھوڑے سے اتر آیا اور اسے پہچان کر رو پڑا۔
یوسف پچھے دس زلیخا حسن کتھے اج تیرا
کہے زلیخا ہجر رڑھایا ہتھ نہ پہتا میرا
یوسف پچھے دس زلیخا کتھے لب دی لالی
کہے زلیخا جال سدھائی لاٹ فراقاں والی
یوسف پچھے دس زلیخاں زلفاں کدھر گیاں
کہے زلیخا۔۔
یوسف پچھے۔۔
وہ ایک قلعہ نما عالی شان عمارت تھی اور وہ وہیل چیئر میں پتھرائی پڑی تھی وہ بول سکتی تھی نہ سن سکتی تھی اور نہ اپنی جگہ سے حرکت کر سکتی تھی۔
اس کی ایک آنکھ خشک تھی اور دوسری میں آنسو بس امنڈنے ہی والا تھا۔ اور تب سے۔۔ جب سے میں نے اسے دیکھا ہے مجھے پتہ نہیں چل رہا کہ کون سا وقت اور مقام ہے۔ دن ہے نہ رات۔ اندھیرا ہے نہ اجالا۔ طلوع ہے نہ غروب۔ یوں لگتا ہے جیسے آگے پیچھے دائیں بائیں پانی ہی پانی ہے۔ بےرنگ، بےبو اور بےذائقہ پانی جو گرم ہے نہ سرد اور جس کے حرکت کرنے یا رکے ہوئے ہونے کا بھی پتہ نہیں چل رہا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.