Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وارن ہسٹنگز کی ٹوپی

مشرف عالم ذوقی

وارن ہسٹنگز کی ٹوپی

مشرف عالم ذوقی

MORE BYمشرف عالم ذوقی

    ٹوپی کی قسمت ایسے بھی کھل سکتی ہے، محمد علی بھائی نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ چھوٹی بڑی، ترچھی، دو پلی، فیروزآبا دی، حیدرآبادی، لکھنوی، ملتانی، مولانا ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر اسٹائل ٹوپیوں کی اتنی بڑی کوئی ’’ڈیل‘‘ بھی ہو سکتی ہے، محمد علی بھائی کے لئے ایسا سوچنا عرش پر اڑنے کے برابر تھا۔ وہ تو صبح سے شام تک رنگین، ریشمی، مخملی، ملائم، چکور، گول اور ولایت علی خاں والی ٹوپیوں کا مول تول کرتے گزار دیتے تھے۔۔۔ دور کہاں، یہیں اپنے دلّی کے نظام الدین میں۔۔۔ بستی حضرت نظام الدین۔ سنا ہے پڑوس میں کوئی بہت بڑے شاعر بھی تھے۔ غالب نام تھا۔ ارے وہی غالب اکیڈمی والے غالب۔ جہاں ٹھیلا لگاتے ہیں، وہی تو ان کا گھر ہے۔۔۔ گھر نہیں دکان۔۔۔ یا جو بھی ہو، محمد علی بھائی صبح سے شام اس لئے بھی پریشان رہتے ہیں کہ ہر آنے والا نیا مسافر بس اسی کے ٹھیلے کے پاس آ کر پوچھتا ہے۔۔۔

    ’’غالب اکیڈمی جانتے ہو؟‘‘

    اب کیا۔۔۔ وہ چیخیں یا چلائیں کہ بھیا، جہاں کھڑے ہو وہی تو ہے ان کی دکان۔ پتہ نہیں اس دکان مکان میں یا جو بھی کہہ لیں، صبح سے کیا کیا ہوتا ہے کہ لوگ بس جوق در جوق چلے ہی آتے ہیں۔ جیسے اور کوئی کام ہی نہیں۔ کتنے ہی لوگ اس کی دکان پر آکر دریافت کرنے کے بعد، جیسے اُسے پریشان کرنے پر آمادہ ہو جاتے۔۔۔

    نہیں جانتے؟

    نہیں۔

    غالب کو نہیں جانتے؟

    نہیں۔

    ہو گا کوئی ایسا جو کہ غالب کو نہ جانے؟

    میں نہیں جانتا، بس۔

    پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہیں؟

    تم ہی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

    یعنی کوئی مسلمان غالب کو نہیں جانے

    ’’اے بھائی اِس کو مسلمان مت کہئے ۔۔۔‘‘ بتانے والوں نے محمد علی بھائی کو بتایا تھا۔۔۔ نہیں جانتے کیا۔ شاعر تھا۔۔۔ کوٹھے پر جاتا تھا۔۔۔ شراب پیتا تھا۔

    ’’توبہ توبہ توبہ۔۔۔‘‘

    محمد علی بھائی کی آنکھوں میں غالب، ان کے خاندان، بلکہ خاندان در خاندان کے لئے ڈھیر ساری نفرت جمع ہو جاتی۔

    روزے نہیں رکھتا تھا

    اچھا

    نماز بھی نہیں پڑھتا تھا

    اچھا

    پھر تو ٹوپی بھی نہیں پہنتا ہوگا؟

    نہیں۔۔۔ یہی تو۔۔۔ غزلوں کی طرح اس کی ٹوپی بھی مشہور ہے۔ غالب کی بڑی سی ٹوپی۔۔۔ بابل کے ٹیڑھے مینار کی طرح دور تک جانے کے بعد ذرا سی جھک گئی۔۔۔ ٹوپی کے اوپر کے حصہ میں پیوند لگی ہوئی۔۔۔ کپڑے کا بالشت بھر حصہ۔ مخملی ٹوپی۔۔۔ کچھ لوگ اس کے ٹھیلے کے پاس آکر پوچھتے بھی تھے۔۔۔

    غالب ٹوپی ہے؟

    نہیں

    ’’کمال ہے، غالب اکیڈمی کے پاس ٹوپی بیچتے ہو اور غالب ٹوپی نہیں رکھتے۔ بھائی کمال ہے۔‘‘

    کمال تو بس پوچھنے والے کی نظر میں ہوتا۔۔۔ یعنی، ہوگا کوئی ایسا جو کہ غالب کو نہ جانے۔ محمد علی بھائی بدلی ہوئی سیاست کی فارسی نہیں جانتے تھے۔ مگر غالب کو مسلمان کہنے کے نام پر ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔۔۔ شرابی اور مسلمان۔ ہو نہ۔ سنا ہے ڈومنی کے کوٹھے پر جاتا تھا۔ فرنگیوں کے لئے شاعری کرتا تھا۔ ان ہی گلیوں میں گھومتا ہوگا کل۔ نہیں۔ کسی نے بتایا۔۔۔ وہ تو گلی قاسم جان میں رہتے تھے۔۔۔ یہاں سے کیا واسطہ۔۔۔ پھر یہاں کا ہے کو آ گئے۔۔۔؟ دکان کھلوا دی اور وہ مزار تو دیکھئے۔۔۔ یہاں مزار بھی بنوا لیا۔۔۔ لیکن کیا ہوا بھائی اتنا بڑا مزار اتنی جگہ گھیر لی۔ مگر باہر سے تالہ بند۔ دروازے پر کتے لوٹتے ہیں یا صاحب جان فقیر دو چار کتوں کو کسی محبوب کی طرح اپنے سینے سے چمٹائے 24 گھنٹہ سوتا رہتا ہے۔

    ’’یہی ہوتا ہے مذہب سے پھرنے کا انجام۔ ارے انہی مسلمانوں نے تو۔۔۔ اور شراب پئیں۔‘‘

    محمد علی بھائی کو غالب کا ذکر گوارا نہ تھا۔ کچھ پیارا تھا، تو اپنے محبوب کا تذکرہ۔۔۔ محبوبِ اولیا یعنی درگاہ حضرت نظام الدین۔ ایک قطار سے پھول والے۔۔۔ چھوٹی چھوٹی اِن تنگ گلیوں میں محبوب اولیاء کی برکت ہے۔ چھوٹے چھوٹے ہوٹل تو دیکھ لیجئے۔ ہزاروں کی تعداد میں بھوکے، لاچار، غریب، فقیر۔ پانچ پانچ روپے میں کھانا کھلائیے۔ باہر سے آنے والا آدمی محمد علی بھائی کی دکان پر بھی رکتا ہے۔ ٹوپی کی قیمت پوچھتا ہے۔

    ’’کتنے کی ہے؟‘‘

    ’’توبہ توبہ۔۔۔‘‘ سرمے، والی آنکھیں اور زیادہ ندی جتنی گہری ہو جاتیں۔۔۔ ’’کیا بولتے آپ۔ ٹوپی کی قیمت نہیں ہوتی۔۔۔ ہدیہ ہوتا ہے۔ ہدیہ۔۔۔

    ’’جو مرضی ہدیہ دے دیں۔‘‘

    محمد علی بھائی جانتے تھے، ہدیہ کے نام پر دینے والا دو چار پیسے زیادہ ہی دے جائےگا۔ کبھی کم نہیں دےگا۔۔۔ اب بھلا قرآن پاک، تسبیح اور ٹوپی جیسی پاک چیزوں کی خرید پر مول تول کرنے کی ہمت کون کرے گا۔۔۔ اﷲ کا کلام۔ اﷲ کے گھر میں با ادب جانے کے لئے ایک ٹوپی ہی تو احترام کا واحد ذریعہ ہے۔ بچپن میں ابا بھی کہتے تھے۔۔۔ مسجد میں سرڈھک کر جانا چاہئے۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’فرشتے ہوتے ہیں۔ مقدس گھر ہے اس لئے۔‘‘

    ’’نہیں پہنی تو؟‘‘

    ’’شیطان سر پر تھپڑ مارتے ہیں۔‘‘

    ہوss ہو ss محمد علی بھائی کو ہنسی آتی ہے۔ ایک وہ دن اور ایک یہ۔۔۔ ٹوپی کی عزت اور دبدبہ جو دل میں قائم ہوا، سو آج تک ہے۔۔۔

    ٹوپی کو آنکھوں سے چومتے ہیں۔ ریشمی، دو پلّی، ترچھی، بچوں کی، روئی جیسی ملائم ٹوپیاں ہاں۔۔۔ تو۔ ذکر چلا تھا، ڈومنی کے کوٹھے پر جانے والے غالب کا۔ شراب پینے والے غالب کا اور تقدیر تو دیکھئے۔ جگہ ملی تو کہاں۔ یہاں محبوب اولیاء کے آستانہ کے قریب۔۔۔ عرس کے دنوں میں یہاں ٹھیلا لگانا بھی مشکل ہو جاتا۔ جو ق در جوق آدمی ہی آدمی۔۔۔ محبوب اولیاء کے آستانہ پر قوال اپنے اپنے راگ الاپ رہے ہیں۔

    ’’بھر دے جھولی مری یا محمد

    لوٹ کر پھر میں جاؤ ں نہ خالی۔۔۔‘‘

    وہ ٹھیلے کو غالب کے مزار والی گلی کے کنارے لگا کر، کپڑے سے برابر کر، محبوب اولیاء کے در پر دستک دینے پہنچ جاتا۔ کسی نے بتایا تھا۔ یہیں علامہ اقبال کی دعاء بھی قبول ہوئی تھی۔ کہتے ہیں اقبال نے سات برسوں تک کچھ بھی نہیں لکھا۔ آستانے میں حاضری دی اور یہ شعر پڑھا۔۔۔

    فرشتے پڑھتے ہیں جس کو، وہ نام ہے تیرا

    مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا

    ’’اب دیکھئے اقبال کہاں ہیں۔۔۔ شاعر مشرق کہا جاتا ہے۔۔۔ کسی نے بتایا تھا، علامہ کا مزار تو لاہور میں ہے۔۔۔ یہی تو غلط ہے۔ علامہ کو یہاں ہونا چاہئے تھا۔ یہاں تو بیکار غالب کو بھیج دیا۔ شرابی کہیں کا۔‘‘

    محمد علی بھائی کو اقبال پسند تھے۔۔۔ پسند ہی نہیں تھے، بہت پسند تھے۔ وہ کہتے بھی تھے۔۔۔ ارے غالب کی کا بات کرتے ہو۔ شاعر تھے تو اقبال۔ ایک کیا۔ دس سنادوں اشعار۔ ابھی اِسی وقت۔ مسلمانوں کے تھے۔ اپنے تھے اور یہ غالب۔ لیکن دقّت یہی تھی۔ کبھی کبھی لوگ غالب ٹوپی تو پوچھنے چلے آیا کرتے، اقبال ٹوپی پوچھنے کوئی نہیں آتا تھا۔

    یہ پوری بستی ہی محمد علی بھائی کو اﷲ کی سوغات لگتی تھی۔ نور سے جھلمل۔۔۔ چاروں طرف جیسے نور ہی نور پھیلا ہو۔ ایک قطار سے پھول والوں کی سیر۔۔۔ اور ٹھیک ان سے چار قدم، آنکھوں کے فاصلے پر تبلیغی جماعت والوں کا دفتر۔۔۔ دفتر کیا تھا، مسجد کہئے۔ مسجد کیا، سب کے لئے ایک آشیانہ۔۔۔ دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔ سوڈانی، چینی، افریقی، امریکی اور پتا نہیں کہاں کہاں سے۔۔۔ چہرے الگ، رنگ الگ، زبان الگ۔ لیکن کام ایک۔ مشن ایک۔ اسلام کی تبلیغ۔

    تب اس نے شروع شروع یہاں ٹھیلا لگانا شروع کیا تھا۔ ٹوپی خریدنے آئے بہت سے لوگوں کو تو وہ پہچان بھی نہیں پاتا تھا۔۔۔ کہ کیا، یہ بھی مسلمان۔۔۔ کمال ہے۔ یہ بھی۔۔۔ یہ کالا بھچنگ۔۔۔ یہ بھی۔ یہ افریقی بھی۔ یہ چینی بھیّا بھی۔۔۔ سب کو ٹوپیاں دیتے دیتے ایک دن وہ مسجد میں چلا گیا۔ اُف۔ چاروں طرف نور کی بارش۔ اُس سے کہا گیا۔۔

    ’’وہ چلّا میں چلے۔ چالیس دنوں تک۔ نہیں تو چوبیس دن۔ نہیں تو اپنے شہر میں ہی تین دن کا وقت نکالے۔ آزاد اپارٹمنٹ سے تاج اپارٹمنٹ۔ گھر گھر گھومنا ہے۔ نماز پڑھنے کی تبلیغ کرنی ہے۔‘‘

    ’’سبحان اﷲ۔۔۔ سبحان اﷲ‘‘

    محمد علی بھائی ہر بات پر سبحان اﷲ کہتے ہیں۔ تبھی سے یہ عادت پڑی ہے۔ چلّا میں جانے لگے تو جیسے گھر والوں کو بھولنے لگے۔ ابا تو جاہی چکے تھے۔ مرشد آباد میں انتقال ہوا۔۔۔ اور وہ اپنے بھائی مشتاق کے ساتھ یہاں خوریجی، دہلی میں آکر بس گئے۔۔۔ زیادہ دنوں تک غائب رہنے لگے تو بیوی نے طوفان اُٹھا دیا۔۔۔

    ’’گھر کی سوچو۔ دو دو بچے ہیں۔‘‘

    ’’تو۔۔۔‘‘

    ’’بچہ مدرسہ جانے لگا ہے۔‘‘

    ’’اچھی بات ہے۔‘‘ سرمہ لگی آنکھوں میں ’’خاندانی جنون‘‘ پیدا ہوا۔۔۔ ’’عیاشی میں جاتا ہوں کیا۔ مذہب کے کام سے جاتا ہوں۔‘‘

    ’’اور گھر؟‘‘

    ’’بتایا تھا نا۔ پہلے خلیفہ نے کیا کیا تھا۔ پیارے نبیؐ کے لئے گھر میں کچھ بھی نہیں چھوڑا۔‘‘ محمد علی بھائی کو، جاہل بیوی کو پیٹنے کی خواہش ہوئی۔ مذہب کے کام پر بندش لگاتی ہے۔ مگر کیا کرتے۔ جب آس پاس والوں کے ’’مشورے‘‘ بڑھے کہ بھائی اولاد والے ہو، اور پھر بزنس بھی ٹھپ۔۔۔ پڑ رہا ہے۔۔۔ تو ذرا سی آنکھ کھلی اور ’’چلّے‘‘ میں جانا کم کر دیا۔ بند نہیں کیا۔ بڑا بھائی مشتاق ان دنوں ’’ڈرائیوری‘‘ کرنے لگا تھا۔ دو ایک بار شیخ اور ایک ’’عرب‘‘ کی صحبت میں دوسرے ملک جا چکا تھا۔ اس لئے محمد علی بھائی بھی ڈرائیونگ کرنا سیکھ چکے تھے۔‘‘ اس درمیان سعودی عرب سے تبلیغ میں آئے شیخ یاسر سے ان کا سامنا ہوا تھا۔ تبلیغ کے لئے حیدرآباد گئے۔ وہاں سترہ سال کی ایک دلہن پسند آ گئی۔ غریب باپ کو بیٹی کی قیمت چکائی۔۔۔ واپسی میں بستی نظام الدین آئے۔ محمد علی بھائی سے ملے تو دل کی بات ہونٹوں پر آ گئی۔

    ’’ہمارے ساتھ چلو گے؟‘‘

    ’’کیوں نہیں؟‘‘

    ’’ویزا بنا ہوا ہے‘‘

    ’’بالکل ہے۔‘‘

    ڈرتے ڈرتے محمد علی بھائی نے پوچھا۔ ’’عمرہ (آدھا حج) تو کرسکوں گا نا؟

    ’’عمرہ کیوں۔ حج کیوں نہیں۔۔۔؟‘‘

    محمد علی بھائی لا جواب ہو گئے۔ مکہ مدینہ کے پُر نور نظارے آنکھوں میں گشت کرنے لگے۔۔۔ بیوی بچوں کو، پیسے کے لئے تسلی دی۔۔۔ اور خود نکل گئے، اﷲ میاں کی نگریا۔۔۔ خانہ کعبہ۔ اﷲ میاں کا گھر ہی تو ہے۔۔۔ عمرہ کیا۔ حج بھی کر آئے اور دوسال میں ہی شیخ کی نوکری بھی چھوڑ کر آ گئے۔

    محمد علی بھائی لوٹ تو آئے لیکن تجارت اور بزنس کے ’’دو اور دو‘‘ دو سو‘‘ کے پہاڑے سیکھ چکے تھے۔۔۔ آنکھیں کھل گئی تھیں۔۔۔ لے دے کر وہی ایک ٹھیلا۔۔۔ وہ اپنی اِس ’’تجارت‘‘ کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے فراق میں تھے۔۔۔ شاید اس لئے بھی کہ مشتاق نے سلیم پور میں گھر لے لیا تھا اور وہ اب تک خوریجی کے دو کمروں والے کرائے کے فلیٹ میں دہلی کی گرمی برداشت کر رہے تھے۔ لیکن امید تھی۔ اﷲ کی لاٹھی میں دیر ہے اندھیر نہیں۔۔۔ ایک دن معجزہ ہو گا۔ جھولی پھیلائیں گے، اور محبوب اولیاء اتنا دے دیں گے کہ قارون کا خزانہ بھی کم پڑ جائے گا۔

    قارئین،

    برسوں پہلے ایک جادوگرنی نے پوچھا تھا۔ آپ جادو پر یقین رکھتے ہیں۔۔۔ اور یقیناً، اس سوال کو پوچھتے ہوئے جادوگرنی طنز سے مسکرائی تھی۔۔۔ یعنی اس عہد میں، اس ترقی یافتہ عہد میں بھی۔۔۔؟ ممکن ہے، آپ کسی جادو یا معجزے پر یقین نہ رکھتے ہوں مگر ہمارے محمد علی بھائی کے ساتھ، آگے جو واقعہ پیش آیا، وہاں یقین کرنا ہی پڑےگا۔ کیونکہ یکایک، جیسے طلسم ہوشربا کی داستانوں سے اٹھ کر کوئی کردار، زندہ ہو کر ان کے سامنے متعلق کھڑا ہو گیا ہو۔ یہ آنکھوں کا دھوکہ نہیں تھا۔ پھر بھی ہمارے محمد علی بھائی نے آنکھیں ملیں۔ بستی حضرت نظام الدین کے فٹ پاتھ کنارے رکھے، اپنے ٹھیلے کا جائزہ لیا۔۔۔ نظر اٹھا کر دیکھا۔۔۔ سامنے ایک فرنگی تھا اور ایک تھے اپنے صادق بھائی۔۔۔ جو کتنی ہی بار تبلیغی جماعت کی مسجد میں دکھائی دیئے تھے۔

    دونوں یکایک اس کے ٹھیلے کے پاس آکر کھرے ہو گئے۔ اس طرح، جیسے لیوتالستائے کی ایک کہانی میں، کسی بھوکے پیاسے کے گھر خود بھگوان چل کر آ گئے ہوں۔

    ’’جی۔ صادق بھائی۔ السلام علیکم۔۔۔‘‘

    محمد علی بھائی غور سے صادق بھائی کا چہرہ پڑھ رہے تھے۔۔۔

    ’’سلام مجھے نہیں، انہیں کیجئے۔۔۔‘‘

    ’’اخواہ۔ مسلمان ہیں؟ سبحان اﷲ۔‘‘ محمد علی بھائی نے تپاک سے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔۔

    ’’نہیں۔ مسلمان نہیں۔‘‘

    محمد علی بھائی نے فوراً ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔۔۔ ’’کیا کہتے ہیں صادق بھائی۔ کافر کو سلام کرنا منع ہے۔‘‘

    ’’ہو گا۔۔۔‘‘

    ’’آپ تو نماز روزہ سب کرتے ہیں۔ پھر ایسی بات۔۔۔‘‘ محمد علی بھائی کہتے کہتے رک گئے۔۔۔ فرنگی، انگریزی میں دھیرے دھیرے صادق بھائی سے کچھ کہہ رہا تھا اور صادق بھائی انگریزی میں اس کا جواب دے رہے تھے۔۔۔ ٹیل ہم۔ ٹیل ہم پلیز۔۔۔ ٹیل ہم دیٹ آئی ایم ویری مچ پلیز ٹو لُک وہاٹ ہی سیڈ۔ تم سے مل کر بہت خوش ہیں۔‘‘

    ’’کیا کہتے ہیں صادق بھائی۔۔۔‘‘

    صادق بھائی نے اس کا ہاتھ پکڑا۔ دھیرے سے کان میں کہا۔۔۔ ’’محمد علی بھائی، تیری تو چل پڑی۔۔۔‘‘

    ’’مطلب‘‘

    ’’اِن سے ملو۔۔۔ یہ ہیں۔۔۔ ایرک ہیسٹٹنگز۔۔۔‘‘

    ’’ای۔۔۔ رے۔۔۔ ک۔۔۔‘‘ محمد علی بھائی نام لیتے لیتے ٹھہر گئے۔۔۔ کیا۔۔۔ ایریک۔۔۔؟

    ’’ہیسٹٹنگز۔ وارن ہیسٹٹنگز کے خاندان کا۔۔۔‘‘

    ’’تو میں کیا کروں۔‘‘

    ’’کرنا تمہیں ہی ہے محمد علی بھائی۔۔۔‘‘ صادق بھائی ہنس رہے تھے۔ ’’کیونکہ بزنس کا معاملہ ہے۔‘‘

    ’’بزنس اور مجھ سے؟‘‘

    محمد علی بھائی کی پیشانی پر شکن پڑ گئی تھی۔۔۔ اب سامنے والا آدمی انہیں اچھا لگنے لگا تھا۔۔۔

    ایریک ہیسٹٹنگز نے، صادق بھائی سے کہا۔۔۔ Come to the point convey to him, what I mean.‘‘

    صادق بھائی نے ترجمہ کیا۔۔۔ محمد علی بھائی، اِن کی باتیں غور سے سنو۔‘‘

    ’’اوہ۔ یس۔۔۔ یس۔‘‘ محمد علی بھائی جوش سے بولے۔ اتنی انگریزی تو وہ جانتے ہی تھے۔

    اٹیس اے لانگ لانگ اسٹوری، اِمباورنگ مومنٹس آف آلموسٹ تھری سنچوریز’’ لمبی کہانی ہے۔ ڈھائی سو سال کے عرصے میں پھیلی ہوئی۔۔۔‘‘

    صادق نے ترجمہ کیا کیا، جیسے تھوک نگلا ہو۔۔۔

    پوچھتے پوچھتے وہ ٹھہرے۔۔۔ آر یو اے ڈسنڈنٹ آف سراج الدولاز فیملی؟

    ’’آپ نواب سراج الدولہ کے خاندان کے ہیں نا؟ یعنی یہ بات بالکل سولہ آنے سچ ہے، نا‘‘؟

    محمد علی بھائی ایک لمحہ کو جیسے ننگے ہو گئے۔ گہرا سناٹا چھا گیا۔

    ’’غربت‘‘ کے اِس باب کو بھولے ہوئے ایک زمانہ ہو گیا۔ کہاں سراج الدولہ، کہاں وہ۔۔۔ لیکن سنتے تھے۔۔۔، اُن کے بھائیوں میں سے ایک لیاقت الدولہ کے خاندان سے ان کا ’’شجرۂ نسب جا کر مل جاتا ہے۔

    تب اٹھارہویں صدی کا مرشد آباد اور تھا۔ کہتے ہیں لندن، پیرس اور روم کی چمک بھی اس کے سامنے ماند تھی اور اس بات کا اعتراف تو رابرٹ کلائیو تک نے کیا تھا۔۔۔ ریشمی کپڑے اور ہاتھی کے دانت سے بنی خوبصورت چیزوں کی وجہ سے بھی مرشد آباد کی شہرت دور دور تک تھی۔

    ’’ان دنوں۔۔۔‘‘ ایریک ہیسٹٹنگز ایک لمحہ کو ٹھہرا۔۔۔ صادق بھائی کا ترجمہ جاری تھا۔۔۔ مرشد آباد بھاگیرتھی اور اب کے ہگلی ندی کے دونوں طرف بسا ہوا تھا۔ کہتے ہیں یہیں، یہیں بھاگیرتھی کے کنارے، پہلی بار تمہارے آباء و اجداد میں سے ایک، اور ہمارے وارن ہیسٹٹنگز کی ملاقات ہوئی تھی۔۔۔ ایک بڑی ڈیل کے لئے۔۔۔

    ’’ڈیل؟‘‘

    محمد علی بھائی بچوں کی طرح کانپ گئے۔۔۔ جیسے تیز ہوا چلی ہو اور تیز طوفانی ہوا میں ان کا جسم مثل بید تھرّانے لگا ہو۔۔

    ’’ڈیل۔۔۔ بزنس ڈیل۔۔۔‘‘

    محمد علی بھائی کے لئے وہ فرنگی ایک ’’گورا‘‘ آدمی تھا اور یہ گورا آدمی اِس وقت مسکرا رہا تھا۔۔۔

    یکایک سر میں جیسے تیز تیز بجلی کڑکنے لگی۔۔۔

    ’’لیکن اتنے برسوں بعد۔۔۔ یعنی دو سال نہیں دس سال نہیں، سو سال نہیں۔۔۔ بلکہ ڈھائی سو سال۔۔۔؟‘‘

    محمد علی بھائی کو حیرانی تھی۔۔۔ اتنے برس میں تو قبرستان کی تاریخ بھی بدل جاتی ہے۔۔۔ دنیا کی کون کہے؟ ڈھائی سوسال پرانے مردے تو پتہ نہیں کہاں سے کہاں نکل جاتے ہوں گے ssہو ہو ss۔

    ’’ہنسو مت۔۔۔‘‘ صادق بھائی کی آواز میں ناراضگی تھی۔۔۔ یہی تو کمی ہے۔ ہم ہندوستانیوں میں۔ تاریخ بھول جاتے ہیں۔ نہیں بھولتے تو یہاں رہتے کیا؟ ان کی طرح چاند پر چلے گئے ہوتے۔۔۔ یہی تو فرق ہے۔ ان کے لئے سب کچھ تاریخ ہے۔۔۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ ایریک بھائی بھی تاریخ ہیں۔۔۔ اِن کا حال اور ماضی بھی تاریخ ہے۔۔۔‘‘

    ’’یس۔۔۔‘‘ ایریک ہسٹینگز نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا۔

    صادق بھائی اس کی طرف گھومے۔۔۔ ’’پتہ ہے۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔ تمہیں تلاش کرنے میں ساری زندگی لگ گئی۔۔۔ وارن ہسٹنگز کے مرنے کے بعد ڈیل کی یہ تاریخ کچھ پشتوں تک تو چلتی رہی مگر کسی کو بھی ہندوستان آنے میں کامیابی نہیں ملی۔۔۔ دراصل وارن ہیسٹنگز کے گھر والے، ان پر زندگی کے آخری لمحوں میں لگنے والے الزام اور الزامات اور مقدموں سے بالکل خوش نہیں تھے۔۔۔ پھر لگاتار کورٹ کچہری، گواہیاں، اس سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طاقت کم ہو رہی تھی۔ کمپنی کے افسراعلیٰ بھی کمزور پڑنے لگے تھے۔ لیکن تاریخ ان ڈھائی سو برسوں میں آنے والی نسل کو اس ڈیل کی کہانی سناتی رہی اور ہیسٹنگز خاندان کا ہر آدمی سوچتا تھا۔۔۔ وہ ہندوستان جائے گا۔۔۔ لیاقت الدولہ کے خاندان والو ں کو پکڑےگا۔۔۔ اور اس تاریخی ڈیل کے بارے میں بتائےگا۔۔۔‘‘

    معاذ اﷲ! محمد علی بھائی صدیوں پرانی تاریخ کی اس محبت سے بے حد متاثر تھے۔۔۔ مگر میرا گھر۔ میرے بارے میں۔۔۔‘‘

    صادق بھائی نے اس کا ہاتھ تھاما۔۔۔ جو تاریخ کی حفاظت کرتے ہیں، وہ تاریخ میں شامل لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں۔

    ’’مگر۔۔۔‘‘

    صادق بھائی، محمد علی بھائی کے ہاتھوں کو تھامے رہے۔۔۔ ’’DNA جانتے ہو یا نہیں؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ محمد علی بھائی کو اپنے نالج پر فخر کا احساس ہوا۔۔۔

    ’’اسپیل برگ نے کھدائی میں ملے ڈائنا سور کے انڈے سے پورا جوراسک پارک تیار کر لیا۔ ’’کب، کیسے، کیا‘‘ جیسی چیزیں تاریخ میں نہیں آتیں۔۔۔ صرف جانو، دیکھو اور سنتے رہو۔۔۔‘‘

    ’’یس۔۔۔ یوآر رائٹ۔۔۔‘‘

    محمد علی بھائی کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔ سب سمجھ گیا۔۔۔ سمجھ گیا صادق بھائی۔

    لیکن کیا اور کتنا سمجھا تھا، محمد علی بھائی نے۔۔۔ لیاقت الدولہ اور سراج الدولہ کے خاندان کی ’’رام کہانی‘‘ تو کب کے نوابوں کے قبرستان میں دفن ہو چکی تھی۔

    مرشد آباد چھوڑے بھی ایک زمانہ ہو گیا۔۔۔ پھر کبھی وہ لوٹ کر تاریخ کی سنہری ’’گپھا‘‘ میں نہیں گئے۔ وہاں تھا ہی کیا۔ سوائے ناامیدی اور ایک دکھ بھری کہانی کے۔ وہ تو، اﷲ اﷲ خیر صلی جمنا پار، خوریجی میں دو چھوٹے کمروں والا ایک اصطبل مل گیا اور مل گئی بستی حضرت نظام۔۔۔ مل گیا ٹوپیوں والا ایک ٹھیلہ۔۔۔ اور مل گئے، انہی بستیوں میں اپنے صادق بھائی۔۔۔ جن سے کسی اُجاڑ دُکھ بھرے لمحے محمد علی بھائی نے ذکر کیا تھا، کہ وہ کس کے خاندان سے ہیں اور اب کیا ہو گئے۔

    ’’نہیں اِس بات کو آپ ایسے نہیں سمجھیں گے۔۔۔‘‘ اریک ہیسٹنگز کا چہرہ چمک رہا تھا۔۔۔ ’’دراصل اس وقت ہمارے سائنسداں زمین اور کرۂ باد کو لے کر ایک تجزیاتی رپورٹ لائے تھے۔ زمین کا کرۂ باد پانچ پرتوں کا بنا ہوا ہے۔

    ’’ٹراپوس فیئر، اسٹریٹوس فیئر، میسوس فیئر، تھرموس فیئر اور ایکسوس فیئر۔۔۔‘‘

    ’’تو۔۔۔‘‘ محمد علی بھائی کے چہرے پر گھبراہٹ تھی۔۔۔ اتنے سارے فیئر۔۔۔ اس گھبراہٹ میں وہ ایریک ہسیٹنگز کا چہرہ دیکھنا بھول گئے۔۔۔ جس کی دائیں آنکھ کے پاس کے کالے تل سے، روشنی کی چنگاریاں نکل رہی تھیں۔۔۔ ٹھیک ایسے، جیسے پرندے اُڑتے اُڑتے ’’بجوکا‘‘ کو دیکھتے ہوں۔۔۔ ٹھہرتے ہوں۔۔۔ لوٹ جاتے ہوں۔ نہیں، یہ تمثیل ٹھیک نہیں۔۔۔ ہاں، یاد آیا، مولوی صاحب، مدرسے میں اپنی جگہ باہر جاتے ہوئے ’’گؤ تکیہ‘‘ کو رکھ دیتے تھے، پھر اشارے سے کہتے تھے۔۔۔ ’’یہ میں ہوں، جانا مت۔‘‘ ان کے جانے کے بعد بھی گؤ تکیہ عجب عجب طرح سے مولوی صاحب کی شکلیں لیتا رہتا تھا۔ اس وقت کچھ ایسا ہی تھا۔ وہ ڈر بھی رہا تھا۔ سمجھنا بھی مشکل تھا۔ اُس پر اِس گورے بھائی کا چہرہ۔۔۔ بڑا ڈیل۔۔۔ لیکن یہ ڈیل کے درمیان میں کرّۂ باد کہاں سے آ گیا۔

    ’’ڈیل کے درمیان میں کرۂ باد؟‘‘ محمد علی بھائی خود کو روک نہیں سکے۔

    ترجمہ کرنے والے صادق بھائی دل کھول کر ہنسے۔۔۔ گورے آدمی کی چھوٹی آنکھیں سکڑ گئیں۔۔۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اُن میں چمک پیدا ہو گئی۔۔۔ صادق بھائی نے اس کے لفظوں کا ترجمہ کیا۔۔۔ دس فول از سے اِنگ۔۔۔

    اوہ نوssنوss اریک ہیسٹنگز ہنس رہا تھا۔۔۔ پھر اس نے کچھ کہا۔ اب اُس کی انگریزی اور ترجمہ ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔۔

    ’’جیسے جیسے ہم اوپر بڑھتے جاتے ہیں، ہوا پتلی ہوتی جاتی ہے۔۔۔‘‘

    ’’تو۔۔۔‘‘

    ’’یہ سب سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ ہندستان میں ولایتی مال کی کھپت کے سلسلے میں ڈیل ہوئی تھی۔ ہری دوار، ایودھیا، بنارس اور ایسے ہی کچھ مذہبی مقاموں پر گیروا ریشمی کپڑے تھوک میں بھجوانے کی بات ہوئی تھی۔۔۔ لارڈ ویلزلی نے خود ہی بہترین مال کے لئے ہندوستان کے ان بڑے ہندو بازاروں کی اسٹیڈی کی تھی۔ مگر صادق دھیرے سے پھسپھسایا۔۔۔ محمد علی بھائی جتنا کہا جائے، اتنا ہی سمجھو۔ زیادہ آگے پیچھے مت دیکھو۔۔۔ آگے پیچھے دیکھو گے تو یہ ڈیل ہاتھ سے نکل جائےگی۔ فائدہ تمہیں ہو گا تو کمیشن مجھے بھی تو ملےگا۔ سمجھے کہ نہیں۔ اب کیا ہے کہ یہ لاٹری تمہارے نام کھل گئی بس۔۔۔ اب ایسے سمجھو۔۔۔ کہاں یہ۔۔۔ کہاں ہم۔۔۔ ای کتنا پڑھے لکھے ہیں اور ہم۔۔۔ کیا مقابلہ ہے۔۔۔ کوئی مقابلہ ہوتا تو دوسو سال سے زیادہ کیا یہ ہم پر حکومت کرتے۔۔۔؟ ایک دن سب کی قسمت بدلتی ہے۔ سمجھو تمہارے دن بھی۔۔۔

    درمیان میں اریک ہیسٹنگز نے ناگواری سے اس کی پھسپھساہٹ کے بارے پوچھا۔

    صادق بھائی نے ترجمہ کیا۔۔۔ دس فول از سے اِنگ۔۔۔

    ’’اوہ۔۔۔ یس۔۔۔‘‘ اریک ہیسٹنگز کے چہرے کی سلوٹیں ختم ہوئی تھیں۔۔۔ لیکن اب یہی سلوٹیں محمد علی بھائی کے چہرے پر’’ اچھل‘‘ کر چھا گئی تھیں۔۔۔

    ’’معاملہ الجھا ہوا ہے۔۔۔‘‘

    ’’نہیں الجھا ہوا نہیں۔۔۔‘‘ صادق بھائی سمجھا رہے تھے۔۔۔ بس تمہارے سمجھنے کا پھیر ہے۔ آخر نواب سراج الدولہ کے خاندان سے ہو۔۔۔ ایک بڑے آدمی کی دوسرے بڑے آدمی سے ڈیل ہوئی تھی۔ ڈیل ناکام ہوئی۔۔۔ ڈھائی سو برس سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا۔۔۔ اور اِس کے بعد۔۔۔‘‘

    ’’ڈھائی سو۔۔۔ کیا یہ کچھ زیادہ۔۔۔ زیادہ آپ کو نہیں لگتا؟‘‘

    ’’لگتا ہے تو کیا کریں؟‘‘ صادق بھائی کے چہرے پر ناراضگی تھی۔۔۔ یقین بھی ایک چیز ہوتا ہے۔۔۔ اور محمد علی بھائی۔ یہ تو ایک موقع ہے۔ سنہرا موقع۔۔۔ تمہارے لئے۔ اِدھر اُدھر مت دیکھو۔ ذرا سوچو۔ ڈھائی سو سال پہلے جو ڈیل ہوئی تھی۔۔۔ وہ اجودھیا، ہری دوار اور ہندوؤں کو لے کر۔۔۔ اور اب کی ڈیل مسلمانوں کے ساتھ۔۔۔ تمہارے ساتھ۔ امریکہ، انگلینڈ سب تمہارے ساتھ ہیں۔۔۔‘‘

    ’’کہاں ساتھ ہیں؟‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    اسامہ کیا پہلے ہمارے آدمی تھے۔ ان کے تھے۔ ایک ڈیل تو ان کی بھی ہوئی تھی۔ کیا ہوا اور بغداد میں عراق میں، ہم کیا اردو اخبار بھی نہیں پڑھتے ہیں۔

    محمد علی بھائی کی سرمہ لگی آنکھوں میں، ’’ذہانت‘‘ کے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے۔

    سب کرۂ باد کی وجہ سے۔ اس وقت زمین کا کرۂ باد بدل گیا تھا۔ ریشمی کپڑے پہننے والوں کو پھپھولے نکل جاتے تھے۔ بڑے بڑے دانے چیچک جیسے۔ انگلینڈ میں اس کو لے کر میٹنگ ہوئی۔ وارن ہیسٹنگز بھی شامل ہوئے اور کہا گیا اس وقت ہندوستان سے درآمد کئے ہوئے ریشم سے انگلینڈ میں تیار کیا گیروا یا بھگوا کپڑا ہندوستان بھیجنا مشکل ہے۔ یہ ہندو ذات کو نا صرف پریشانی میں ڈالنے جیسا۔۔۔ بلکہ اس سے انگلینڈ کے راجاؤں کے لئے ان میں یقین میں بھی کمی آئے گی اور یہ ڈیل ہوئی تھی۔۔۔ تمہارے پُروجوں میں سے ایک لیاقت الدولہ سے، جن کی لکھنؤ سے مٹیامحل اور کلکتہ کے مٹیا برج تک طوطی بولتی تھی۔

    قارئین

    یہ قصّہ بھی ڈھائی سو سال پہلے کا ہے اور اس کہانی میں تاریخ اتنا ہی ہے، جنتا دال میں نمک اور سچی بات یہ ہے کہ ہماری اس کہانی میں ’’سانڈ‘‘ کا کوئی تذکرہ نہیں ہے اور جو تذکرہ ہے، وہ ٹوپی کا ہے۔ اس میں ڈھائی سو سال پہلے کی تاریخ آ تو گئی ہے۔ مگر اتفاق سے۔

    اور اتفاق ہی کہنا چاہئے کہ حال فی الحال شروع ہوئے اس قصّے کی بنیاد تب پڑی، جب ہندوستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے سہارے ہندوستان کو اٹھاتے۔ سرکار کا چراغ بجھ گیا اور بام پنتھیوں کے سہارے بنی نئی سرکار نے غیرملکی سرمایہ کاری پر اپنی ہری جھنڈی تو سنا دی۔ لیکن بحث میں بھی گھر گئے۔ معاشی پالیسیوں اور بجٹ پیش کرنے کے شور شرابے کے دوران ہی وارن ہیسٹنگز کے خاندان کے لوگ نے، سراج الدولہ کے خاندان سے مل کر اپنی نئی ڈیل کی منشا ظاہر کر دی تھی اور جیسا میں نے بتایا، اس میں نمک برابر اتہاس کا دخل تو رہےگا۔ پلاسی کی جنگ، ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت اور ہندوستان کا غیرملکی حکومت کا غلام بن جانا۔۔۔ یہ واقعہ، (اتفاق ہی ہے ) اس کہانی سے جڑی ہے۔ اورنگ زیب کی موت کے بعد اس کی اولادوں کی خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ سارے صوبوں میں بدامنی پھیلنے لگی۔ مغلیہ حکومت کے دو اہم صوبے دکن اور بنگال، خود مختار بن گئے۔ بنگال میں علی وردی خاں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دائرے کو بڑھنے سے روک رکھا تھا۔

    1756 میں علی وردی خاں کی وفات ہوئی اور اُن کی وصیت کے مطابق سراج الدولہ کو بنگال کا نواب تسلیم کر لیا گیا۔ دہلی حکومت اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ اس سے فرمان حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ سراج الدولہ کو بنگال کا نواب تسلیم کر لیا گیا۔ دہلی حکومت اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ اس سے فرمان حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ دہلی حکومت اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ اس سے فرمان حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ سراج الدولہ کے مقابلہ ایسٹ انڈیا کمپنی، سرمایہ داری کی تیزی سے ابھرنے والی سب سے بڑی طاقت تھی۔ اس کا مرکزی دفتر لندن میں تھا۔ لیکن شاخیں بمبئی، مدراس اور کلکتہ میں تھے اور جو ایک دوسرے میں سے آزاد تجارت کرتی تھی۔ لیکن وہ آپس میں تعلقات بنائے رکھتی تھیں۔ اٹھارہویں صدی میں مرکزی حکومت کی کمزوری کی وجہ سے ایسٹ انڈیا کی شاخوں نے مقامی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ مدراس کلکتہ میں کمپنی کے چالاک افیسربھیجے گئے تاکہ ہندوستان کی بڑی منڈی پر دھاوا بولا جاسکے۔ ایسے افسران میں وارن ہیسٹنگزبھی تھا جو 1772 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا گورنر بنا۔

    اس وقت ہندوستان کی آبا دی کا ایک بڑا حصہ انیسویں صدی کے پہلے دہائی تک متفرق صنعتوں میں لگے تھے۔ بُنکاری، عوام کا قومی روزگار تھا۔ لاکھوں عورتیں کتائی سے اپنے پریوار کے لئے کمائی کرتی تھیں۔ انگریزی چمڑے کا کام سے لاکھوں کو روزگار ملتا تھا۔ وارن ہیسٹنگز نے طے کیا، کچے ریشم کی پیداوار کو بڑھاوا دیا جائے۔ ہدایت نامہ جاری ہوا۔ ریشم کے کاریگر، کمپنی کے کارخانوں میں کام کریں اور جو نہیں کریں گے، سزا کے حقدار ہوں گے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان میں ریشم اور سوتی کپڑوں کا بننا کم ہو گیا۔ جن لوگوں نے پچھلی صدیوں میں یوروپ اور ایشیا کے بازاروں میں یہ مال غیرممالک سے بھیجے تھے، وہ ہی ان مالوں کو بڑھتے ہوئے مقدار میں باہر سے منگانے لگے۔

    کمپنی کا اختیار نامہ 1813 میں رینول ہوا۔ تلاش کی گئی۔ گواہیاں ہوئیں۔ وارن ہیسٹنگز، ٹامس منٹو، سرجان میلکم وغیرہ گواہوں کی گواہیاں لی گئیں۔

    وارن ہیسٹنگز کا بیان نپا تُلا تھا۔ ہندوستانی پیداوار کے بارے میں وہ اتنا بھر جاننے کے بارے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ برٹش مال کس طرح یہاں اپنی جگہ بنا سکتا ہے اور ہندوستانی صنعت کی قیمت پر کس طرح برٹش صنعت پنپ سکتے ہیں۔

    وارن ہیسٹنگز سے پوچھا گیا۔ کیا ہندوستانی عوام، اپنے استعمال کے لئے یوروپ کے مال کی مانگ کر سکتی ہے۔

    وارن ہیسٹنگز نے جواب دیا تھا۔۔۔ ہندوستان کے غریبوں کو کسی کمی کا احساس نہیں ہے۔ انہیں چاہئے تھوڑا تھوڑا، روٹی کپڑا اور مکان۔ یہ ساری چیزیں وہ اپنی دھرتی سے پا سکتے ہیں۔

    سرجان میلکم کا ماننا تھا، ہندو با ہمت، اداس اور بھلے مانس ہیں وہ سچے اور کھرے ہیں۔ وہ ولایتی مال نہیں کھپاسکتے۔ کیونکہ ان میں خریدنے کی شکتی نہیں ہے۔ وہ آسان اور سادہ زندگی ہی گزارا کرتے ہیں۔

    ’’لیکن انہیں یہی آسان اور سادہ زندگی غیر ممالک سے مہیا کرائی جائیں تو؟‘‘

    وارن ہیسٹنگز کا جواب تھا، شاید اسی دن کے لئے وہ یہاں بھیجے گئے ہیں۔

    یہی وقت تھا، جب کمپنی کے کارخانوں کی وکالت کرنے والے سراج الدولہ کے بھائی لوگوں میں سے ایک لیاقت الدولہ وارن ہیسٹنگز کے رجوع میں آئے تھے اور ان سے ہیسٹنگز کے مکالمے کچھ اس قسم کے رہے۔

    ’’ساتھ دو گے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’بڑی ڈیل بڑا پیسہ۔‘‘

    ’’آپ حاکم۔‘‘

    ’’ریشم کے کپڑے بنگال تک محدود ہیں۔ تم مرشدآباد کے۔‘‘

    ’’جو حکم حاکم۔‘‘

    ہمارے پاس بارہ ریزیڈینسیاں اور کئی کارخانے ہیں۔ کچھ جگہ پٹنی ریشم، مہین ریشم کے مال بنتے ہیں۔ ہمیں اچھے مہین ریشم چاہئے۔ ہندوؤں کو وہی کپڑے دو، جو وہ پہنیں، وہی کھانے کو دیں، جو وہ کھائیں اور وہی رہنے کو دو جو۔۔۔ ان سے سستے میں ریشم لو۔ مال ولایت بھی بھیجا جائےگا۔ انہیں بھگوا ریشم کی دھوتی، ریشم کے کرتے اور ریشم کی جنیؤ دو۔ لیاقت الدولہ لاکھوں میں کھیلوگے تم۔

    لیکن لیاقت الدولہ کے لاکھوں میں کھیلنے کا سپنا پورا نہیں ہوا۔ ہندوستانی آزاد پیدا کار کے لئے، کمپنی کا قدم سیدھے سیدھے اُنہیں اور غلام کرنا تھا۔ اختیار نامہ کے رینول کی بات ہوئی۔ شور شرابا ہوا اور لیاقت الدولہ سے ہونے والی بڑی ڈیل انگریزوں کی دھوکہ بازی کی بھینٹ چڑھ گئی۔

    اِس المیہ کو وارن ہیسٹنگز نے اپنی ڈائری میں یوں لکھا،

    ’’جو کچھ ہوا، اس سے ہمارے برٹش کے کام کرنے والوں کو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے ہندوستان کے کام کرنے والے، انگلینڈ کے کام کرنے والوں سے، پہلے اِس صنعت میں ہیں۔ ان کے اپنے حدود ہیں۔ پانی اور کھانا کم ملتا ہے پھر بھی اُن میں محنت کی لگن غضب کی ہے ہم یعنی برٹش کام کرنے والوں سے، پہلے سے اِس صنعت میں ہیں۔ ان کے اپنے حدود ہیں۔ پانی اور کھانا کم ملتا ہے پھر بھی ان میں محنت کی لگن غضب کی ہے ہم یعنی برٹش کام کرنے والوں سے زیادہ ہم ہندوؤں کو نہیں لبھا پائے، لیکن ایک دن۔۔۔ آنے والے دنوں میں سے کسی ایک دن ہندوستانیوں کے ساتھ مل کر ہمیں اس آنے والے دنوں میں سے کسی ایک دن ہندستانیوں کے ساتھ مل کر ہمیں اِس طرح غیرملکی سرمایہ کاری کو بڑھاوا دینا پڑےگا۔ ہندوستان انوکھی صلاحیت والا، انوکھا ملک ہے اور یہ یاد رکھنے کی بات ہے وہاں مذہب ہی ’’اعلیٰ‘‘ ہے۔ مستقبل میں ہندوستان ہی سب سے بڑا بازار سے بننے کی گنجائش بھی رکھتا ہے۔

    قارئین

    قصّہ کوتاہ، یہ وہی پُرزہ تھا، جسے چاندی کے ورق میں جیسی صندوقچی میں رکھ کر، انتہائی حفاظت سے اریک ہیسٹنگزنے نکال کر اس کے سامنے رکھا تھا۔۔۔ لو، دیکھو۔۔۔

    محمد علی بھائی کے ہاتھ بڑھانے بھر سے وہ تھرتھرانے لگا تھا۔

    صادق بھائی نے ترجمہ کیا۔۔۔ ’’چھونا مت، صرف دیکھنے کی چیز۔۔۔‘‘

    ’’لیکن۔۔۔‘‘

    ’’لیکن کیا؟‘‘

    ’’دیکھوں تو سہی کیا لکھا ہے۔‘‘

    ’’تاریخ، اتہاس، اتہاس کو چھو سکتے ہو تم۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘‘

    ’’دیکھ تو سکتے ہو۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’وہی جو حال کا اتہاس ہے۔‘‘

    ’’حال کا اتہاس۔۔۔؟‘‘

    ’’یس۔ جو تم نے بنایا۔۔۔ تم نے۔‘‘

    اجلے آدمی کا چہرہ خوشی سے جگمگا رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر کچھ کہہ رہا تھا اور اُس کا ترجمہ ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔

    پہلی ڈیل اجودھیا، ہری دوار، لیکن اب تمہاری پہلی ہندوؤں کی اور جب تمہاری یعنی مسلمانوں کی۔ اجودھیا کی ڈیل وہیں ہو سکی۔ وہ کمزور تھے۔ سچے اور بھولے بھالے۔ اور تم سے تو ڈر لگتا ہے۔ تم تو ورلڈ ٹریڈ ٹاور بھی گرا دیتے ہو۔ ایک دم ورلڈ ٹریڈ سے زیرو آور تمہارے اُسامہ تمہارے صدام۔۔۔ سمجھ رہے ہو نا تم نے، تم نے ایک ہو کر سرکار گرا دی۔ ’’ہندتو‘‘ کی سرکار کس نے گرائی۔ تم نے کیونکہ پہلی دفعہ ایک تھے تم اور بابری مسجد، ورلڈ ٹریڈ ٹاور منہدم کئے جانے سے گجرات تک تم زیادہ سے زیادہ مسجدوں میں پہنچ رہے ہو۔ لُک۔۔۔ زیادہ سے زیادہ، تمہیں زیادہ سے زیادہ ٹوپیاں چاہئیں۔ ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں۔ پہلے والی جو ڈیل نہیں ہوئی تھی، ہم اس کی قیمت چکا دینے گے۔

    ’’کیا چکائیں گے؟‘‘

    محمد علی بھائی کا جسم، اچانک چلنے والی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے لرز رہا تھا۔۔۔

    ’’جو مانگو کے ملےگا۔‘‘

    ’’مانگ۔ مانگ نا۔۔۔‘‘ صادق بھائی کی بری بڑی آنکھیں ایسی ہو گئی تھیں، جیسے انہوں نے تندور میں ’’سینکے‘‘ جانے والے تندوری چکن کو تاڑ لیا ہو۔

    ’’چلو ہم ہی دیتے ہیں۔‘‘ اریک ہیسٹنگز لٹانے پر آ گئے تھے۔

    ’’دہلی تم کو دیا۔‘‘

    ’’دہلی۔۔۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ معنی دہلی مارکیٹ۔‘‘ صادق بھی ہنسے۔

    محمد علی بھائی کی آنکھیں جیسے پتھر تھیں۔ ایسے دہلی کیسے دے دیا۔ دہلی تو کبھی مغلوں کی، کبھی انگریز کبھی باجپائیوں کی اور کبھی سونیا کی ہے۔

    ’’چلو لکھنؤ لے جاؤ، اودھ دے دیا۔‘‘

    ’’اودھ؟‘‘

    ’’معنی پورے اودھ کا مارکیٹ۔‘‘ صادق بھائی کھلکھلا کر ہنس رہے تھے۔۔۔ ’’دیکھتے کیا ہو۔ مصافحہ کرو۔ مصافحہ اتنی بڑی ڈیل۔‘‘

    ’’ارے ہاتھ بڑھاؤ۔‘‘

    اُس نے ہاتھ بڑھایا۔ یعنی محمد علی بھائی نے ہاتھ بڑھایا مصافحہ یعنی ہاتھ ملانے کے لئے اور ٹھیک اسی لمحہ وہ اپنی دنیا، بستی حضرت نظام الدین اور ٹھیلے کی دنیا میں واپس آ گئے۔ اریک ہیسٹنگز تھوڑا سا محمد علی بھائی کے کالے مٹ میلے، کھُردرے ہاتھوں کو بڑھا دیکھ کر تھوڑا ٹھٹھکا تھا۔ ٹھیک ایسے ہی اُسے کرنٹ لگا تھا، ایک بار جب دو سال کی ڈیوٹی پر ’’شیخ‘‘ کی جنت، کار چلانے وہ سعودی گیا تھا۔ فائدہ اتنا ہوا کہ دو سال میں ’’عمرہ‘‘ بھی کر آیا اور حج بھی ہو گئے۔ وہاں رہتے، سہتے، کار چلاتے ہوئے محمد علی بھائی کی آنکھوں میں اتنی روشنی بڑھی تھی، جتنا اِس ڈیل کا سن کر بھی نہیں بڑھی۔ بس، وہ تو ایک دن، شیخ کے حساب کتاب کو لے کر دکھی محمد علی بھائی نے سلام ٹھونک دیا۔۔۔

    ’’سلام شیخ۔ اپنا ٹھیلا پیارا۔ اپنی بستی حضرت نظام الدین پیاری۔ تبلیغی جماعت کا دفتر پیارا اور اپنی پلّی دو پلّی ٹوپیاں پیاری۔ میں تو چلا۔۔۔‘‘

    ’’کیا سوچنے لگے؟‘‘ صادق بھائی نے جھٹکا دیا تو اُسے خیال آیا۔ اریک ہسیٹنگز نے مصافحے کے لئے اپنا ہاتھ پینٹ کی جیب سے باہر نہیں نکالا ہے۔

    ’’مجھے سوچنے کا ٹائم چاہئے۔‘‘

    ’’ٹائم؟‘‘

    ’’آخر ڈیل ہے۔ مذاق ہے۔‘‘

    اریک ہیسٹنگز کے پوچھنے پر صادق نے ترجمہ کیا۔۔۔ ہی ٹولڈ۔۔۔

    ’’اوہ یس۔ یس۔۔۔‘‘

    صادق بھائی نے بتایا۔۔۔ ’’ہم پھر آئیں گے۔ سوچنے کے لئے دو دن کی مہلت ہے۔ اس کے پاس اور ہاں۔ کل یہ تمہارے ساتھ لنچ بھی کریں گے۔ یہیں کریم میں اور۔۔۔ تمہارے کارخانے سے ملیں گے، جہاں تمہاری ٹوپیاں بنتی ہیں۔ ہے ss ای۔ مسٹر محمد علی ٹھیک؟‘‘

    صادق بھائی، محمد علی بھائی کی سرمہ لگی آنکھوں میں جھانک رہے تھے۔ جاتے جاتے تپاک سے ہاتھ ملایا۔ اریک بھائی کی مرسڈیز باہر تھانے کے پاس لگی تھی۔ بستی حضرت نظام الدین سے باہر نکلتے ہی تھانہ ہے۔ وہاں عام طور پر بستی یا فاتحہ پڑھنے آنے والے لوگ گاڑیاں لگا دیا کرتے ہیں اور ان گاڑیوں کے لئے یہیں کے رہنے والے پانچ دس روپے لے کر گاڑی کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے، تھانے بھی کچھ پیسے پہنچ جاتے ہوں۔ مگر یہ بات یقین سے اس لئے بھی نہیں کی جاسکتی، یہاں سارا علاقہ۔۔۔‘‘ مطلب نیکی کا۔ جو بھی کام کرو گے، محبوب الٰہی خوش ہوں گے۔

    ’’کریم میں کھانا کھائیں گے؟‘‘

    اتنی بہت ساری باتوں میں جو بات محمد علی بھائی کو یاد رہی، وہ یہ تھی کہ کریم میں کھانا کھائیں گے۔ کریم مطلب اسٹیٹس سمبل۔ یہاں، ٹھیلا لگانے سے پہلے سے ہی وہ کریم کے بارے میں کتنی کہانیاں سنتا رہا۔ جب کہ کریم ہے ہی کتنی دور۔ ٹھیلے سے دس قدم ناپ لو۔ دروازہ پر با وردی چوکیدار آتے ہی سلام داغتا ہے۔

    کریم میں کھانے کی ’’ہمت‘‘ اپنی جگہ تھی۔ مگر۔۔۔ یہ بات بھی بار بار پریشان کرتی تھی کہ وہ اریک بھائی کو جواب کیا دیں۔ اچھا ہے، کریم کی دھیمی دھیمی روشنی میں برسوں کا خواب پورا کریں اور اربک بھائی کو جواب دیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں۔

    ایک بات اور تھی۔۔۔ اربک بھائی نے کہا تھا۔۔۔ جہاں ٹوپیاں بنتی ہیں، وہ اس کارخانے کو بھی دیکھنا چاہئیں گے۔ آخر کو لمبی ڈیل کا سوال ہے۔ جتنا مال یا آرڈر چاہئے، اس حساب سے اربک بھائی اس ٹوپی مارکیٹ کی ’’ٹوہ‘‘ لینا چاہتے تھے۔۔

    بےحد اشتعال میں ڈوبی رات کیسی ہوتی ہے، یہ پہلی بار محمد علی بھائی نے جانا۔ رات بھر رہ رہ کر کروٹیں بدلتے رہے۔ کبھی بچوں کو چھوتے۔ کبھی اٹھ کر بیوی کے ہونے کا احساس کرتے۔ کیا سچ مچ اُن کی ڈیل ہوگی۔ کیا اِس ڈیل سے ان کی دنیا بدل جائےگی۔

    صبح چھ بجے ہی صادق بھائی گاڑی لے کر گھر آ گیا۔ اریک بھائی بستی حضرت نظام الدین، درگاہ پر پہنچ چکے تھے اور اندر آستانے میں گورے چٹّے مجاوروں کو دنادن سو دو سو کی رسید اور صندوقچہ لئے بیٹھے ’’تاجروں‘‘ نے اریک بھائی کو محاصرہ میں لے لیا تھا۔ یہ کوئی بہت اچھا منظر نہیں تھا، محمد علی بھائی کے لئے۔ ایک لمحہ کو رات والا سپنا ’’فر۔۔۔ ر‘‘ ہو گیا۔ اریک بھائی نے اُسے دیکھ کر خوشی ظاہر کی مگر محمد علی بھائی کے چہرے پر ’’سرد مہری‘‘ پسری رہی۔

    ’’تو چلیں۔‘‘ صادق بھائی نے پوچھا۔۔۔

    ’’صفیہ کی ڈیری۔۔۔‘‘ یہی وہ جگہ تھی، جہاں محمد علی بھائی کی ٹوپیاں بنا کرتی تھیں۔ تین بڑے بڑے ہال تھے، زیادہ تر عورتیں تھیں، جو یہ کام کیا کرتی تھیں۔ بستی حضرت نظام الدین کے اندر گلیوں میں یہ ’’ڈیری‘‘ تھی۔ ایک ’’ہال‘‘ صرف مشینوں کے نام تھا۔ جہاں پاؤں سے چلنے والی مشینوں پر عورتیں ٹوپی کو آخری شکل دیا کرتی تھیں۔ سوت، ریشم، جھالے سے لے کر مشین ایک ایک چیز کو اریک بھائی دیکھتے رہے۔ تب ایک سورج کافی سرچڑھ آیا تھا۔ اب منزل تھی کریم کی۔ صادق بھائی کا خوف یہ تھا کہ بات بن جائے اور ان کا کمیشن نہ جائے۔

    جبکہ محمد علی بھائی کی پیشانی پر اگنے والی تیسری آنکھ اب تھوڑی تھوڑی کُھلی تھی۔ وہ نہ زیادہ جوش میں تھے، نا حوصلہ افزا، وہ ٹھیک ایسے ہی ہندوستانی تھے، جیسے ’’ہندوستانی ہندو‘‘ کے لئے وارن ہیسٹنگز نے اس ڈیل کے بارے میں غور کیا تھا۔۔۔ ’’یعنی سب کچھ تھوڑے تھوڑے میں مطمئن رہنے کا نظریہ اور یہ نظریہ کسی بھی مارکیٹ اسٹریٹجی کو منہدم کر سکتا تھا۔

    ’’لسٹین۔۔۔‘‘ صادق بھائی اس کی طرف مڑے۔۔۔ تب ہندوستان میں تین قسم کے شہتوت تھے۔ یوروپ میں اگایا ہوا سفید شہتوت، چین میں اگایا ہوا کالا بیگنی اور ہندوستانی شہتوت۔ تین قسم کے کیڑے تھے۔ دیسی، اٹلی اور چین کے کیڑے۔

    اریک بھائی نے ایک جھوٹی سی ڈائری کھولی۔۔۔ کمپنی کے پاس 12-13 ریشم گھر تھے۔ کمپنی پیشگی دیتی تھی۔ لیکن کمپنی پر پہلا الزام تو یہی لگا کہ ہندوستانی سیاست آزادی کے ساتھ ساتھ معاشی اور صنعتی آزادی بھی کھوتی جا رہی ہیں۔

    ’’وہ گواہوں‘‘ مقدمہ، مزاحمت سے تھوڑے اُداس سے تھے۔ وہ تو سطح تجارت بڑھانا چاہتے تھے۔ شاید اِسی لئے ’’بھاگی رتھی‘‘ کے پاس وہ ایک بار پھر لیاقت الدولہ سے ملے۔ ملنا طے ہوا۔ رات 7 اور 8 کے درمیان۔ وارن ہیسٹنگز اپنی گھوڑا گاڑی میں تھے۔ لیاقت الدولہ کو گھر نہ بلانے کے پیچھے بھی کئی وجہیں تھیں، جیسے مقدمہ سے پہلے کچھ تیار کردہ ریشمی گیروا کپڑوں کے کچھ تھان ہری دوار، بنارس اور برندا بن جیسے بازاروں میں پہنچائے گئے تھے۔۔۔ ’’پہلی بار۔ لو شروع کرو۔۔۔‘‘

    اریک ہیسٹنگز اس کی طرف مڑے۔ کریم کی میز پر خوشبو دیتا کھانا رکھ دیا گیا تھا۔ لذیذ پکوان باوردی ویٹر۔ سرجوڑے کھڑا تھا۔ اس نے دیکھا، صادق بھائی قورمے کا گوشت اپنی پلیٹ میں ڈال رہے ہیں۔

    اور یہ کہانی کا ڈراپ سین ہے۔ مقدمہ یا ناش اِسی بات پر تھا۔ پتہ نہیں کس نے منڈی میں افواہ اڑا دی کہ ریشم کے مال میں گائے اور سور کی چربی ملی ہوئی ہے۔ اِٹس ٹوٹل نانسینس اینڈ انڈائجسٹیبل الگ الگ علاقوں سے دنگے پھیلنے کی خبر آ چکی تھی۔ اور۔۔۔

    اریک ہیسٹنگز نے گوشت کا نوالہ توڑا۔۔۔ ٹھیک اسی وقت وارن ہیسٹنگز کی گھوڑا گاڑی ’’بھاگی رتھی‘‘ کی طرف بڑھ رہی تھی کہ راستے میں ہی انہیں دیوانی کا ایک آدمی گھوڑا بھگاتا اُن کے پاس آیا اور بولا۔۔۔ آگے نہ جائیں۔ لیاقت الدولہ مار ڈالا جا چکا ہے۔ کمپنی کی فوج الرٹ ہے۔ کچھ پاگل ہندوستانی ہیں، جنہیں سمجھنا ضروری ہے۔ بہتر ہے کہ۔۔۔؟‘‘

    وارن ہیسٹنگز پر لگنے والے اِس ایمپیمنٹ کے مقدمے میں خلاصہ کیا گیا۔۔۔

    ’’ہندوستانیوں کو ہندوستانیوں کے انداز میں ہی سمجھاجائے۔ ان کے مذہب کو چھیڑے بغیر۔ وہ مذہب کے معاملے میں شہد کی مکھی کے چھتوں کی طرح ہیں۔ جس سے ان پر حکومت کرنا آسان نہیں رہ جائےگا۔‘‘

    قارئین!

    قصہ کو تاہ۔ شام ڈھل گئی تھی۔ بستی حضرت نظام الدین اندھیرے میں ڈوب گئی تھی۔ کریم میں کھانے کے بعد تھوڑا سیر سپاٹا ہوا۔ پھر وہ ہمایوں کے مقبرے کی طرف نکل گئے۔ واپس لوٹنے تک چراغ روشن ہو چکے تھے۔ گاڑیوں کا شور تھم گیا تھا۔ آسمان پر تارے ٹمٹما آئے تھے۔ اریک آہستہ سے بولا۔۔۔ ڈھائی سو برس اتہاس، اتہاس بدلنے کے لئے کافی ہوتے ہیں، نہیں؟

    ’’یس۔۔۔‘‘ صادق بھائی بتا رہا تھا۔۔۔ ’’سر! جنون تو وہی ہے۔ اجودھیا سے گودھرا اور گجرات تک۔‘‘

    ’’اب ہندو دھوتی کم پہنتے ہیں۔‘‘ اریک بھائی آہستہ سے ہنسا۔۔۔ لیکن مسلمان ٹوپی ضرور پہنتے ہیں۔ اور پوری دنیا میں بستی حضرت نظام الدین سے نِکارگوا اور چین سے جاپان تک۔ پچھلی ڈیل ناکام ہو گئی تھی لیکن۔۔۔

    مرسیڈیز دور کھڑی تھی۔ چاند کی روشنی میں، اندھیری سڑک پر تین بھوتوں کے سائے زمین پر نشان بناتے چل رہے تھے۔۔۔

    اریک بھائی انگریزی میں بولے۔۔۔

    صادق بھائی نے ترجمہ کیا۔۔۔ ’’تم ساتھ دو۔ اِس بار ٹوپی ہم پہنائیں گے۔ مسلمانوں کو۔‘‘

    آخری دو لفاظ وہ اتنے آہستے سے بولے کہ سامنے سے آتی گاڑی کے ہارن کے درمیان یہ الفاظ دب کر رہ گئے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے