Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وہ دونوں

نجمہ نکہت

وہ دونوں

نجمہ نکہت

MORE BYنجمہ نکہت

    آج پھر میں نے ان دونوں کو بالکنی میں کھڑے دیکھا تھا۔ بادل گھر آئے تھے اور ہلکی پھوار میں وہ دونوں ریلنگ پر جھکے نیچے دیکھ رہے تھے جہاں سڑک پر اکا دکا آدمی چھا تا سروں پر کھولے آہستہ آہستہ آ جا رہے تھے کبھی آپس میں کسی بات پر دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کربڑی لگاوٹ سے مسکرا دیتے یا کسی بہت اچھے مذاق پر قہقہے بالکنی سے سیدھے میری کھڑکی کے اندر آ جاتے۔ میں لاپروائی سے ایک نظر ادھر ڈال لیتی۔

    میں پانچ برس سے کاغذ نگر کے اس مکا ن میں رہتی ہیں اور ہر دو تین ماہ بعد ان لوگوں کواسی طرح اکٹھے آتے جاتے اور ہنستے بولتے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ شاید وہ گہرے سانولے رنگ کی معمولی نقوش والی لڑکی اس والے مکان میں رہتا ہے ہے۔ اکیلا، خاموش اور اپنے سارے کام خود کرنے والا یہ مرد کبھی آرام سے بیٹھا دکھا ئی نہ دیا کبھی نل پر کپڑے دھو رہا ہے، کبھی کچن میں اپنے لئے آملیٹ بنا رہا ہے۔ ویسے شاید دہ میس میں کھانا کھاتا ہے کیوں کہ وہ کبھی دیر تک کچن میں کچھ نہیں پکا تا۔ صرف چند منٹ وہاں گذارتا ہے۔ میں بھی کام کرتے، چلتے پھر تے ادھر ایک نظر ڈال لیتی ہوں۔

    وہ ایک بار بھیگتا ہوا اپنے گھر میں داخل ہوا اور پھر ورانڈے کے سامنے والے کمرے میں دو دن تک یونہی پڑا رہا پھر تیسرے دن وہی سانولی لڑکی نظر آئی جو اس کو اٹھنے میں مدد دیتی۔ دودھ اپنے ہاتھ سے پلا تی اور گھر کے کام کاج کرتی نظر آتی غالباً اس کی تیز بخار تھا۔ پھر جیسے ہی ذرا اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھر نے کے قابل ہوا وہ لڑکی چلی گئی۔

    کبھی کبھی مجھے اس پر بہت غصہ آتا۔ لعنت ہے اس عشق و محبت پر، ایسی ہی ہمدردی و خلوص ہے تو شادی کیوں نہیں کر لیتے۔ شاید میں ان دونوں کو کوئی مشورہ بھی دیتی مگر مشکل یہ تھی کہ وہ کا لونی میں کسی سے بات نہ کرتے۔ شاید بدنامی کے خوف سے۔۔۔!

    بعض اوقات تو وہ دونوں اس قدرجذباتی ہو جاتے کہ میں کھٹا ک سے کھڑکی بند کر دیتی، کیسے بے شرم پڑوسیوں سے واسطہ پڑا ہے مگر حقیقت تو یہ تھی کہ کبھی پڑوسی سے کوئی واسطہ ہی نہ پڑا۔ سدا خاموشی ہی چھائی رہتی۔ ایک باراس نے ٹیرس پر دھوپ میں اپنے کپڑے وبستر پھیلا رکھے تھے اور پلنگ پر کھٹملوں سے بچنے کے لئے کوئی پاؤ ڈر چھڑک رہا تھا۔ سارا گھراس نے صاحب کیا، فرش دھویا اور کمروں میں لوبان عود کا دھواں دیتا رہا۔

    دوسرے دن وہ لڑکی آ گئی۔ گھر صاف ستھرا دیکھ کروہ بہت خوش تھی مگر اسی رات وہ واپس چلی گئی۔

    اس طرح اس کی زندگی کو میں کھلی کتاب سمجھتی تھی، جس کو جب چاہا، جہاں سے چاہا میں نے پڑھ لیا۔

    یہاں ایک بات سمجھ میں نہ آتی تھی کہ جب وہ لڑکی اس کو اتنا ہی چاہتی ہے تو شادی کر کے ساتھ ہی کیوں نہیں رہ جاتی۔۔۔؟

    ان دونوں کے طور طریقے مجھے ایک آنکھ نہ بھاتے۔ اچھا ہوا کہ میرے گھر کوئی جوان لڑکی نہیں ورنہ ان کی حرکتیں دیکھ دیکھ کے اس کے دل پر کیا گذرتی۔ میں نے دو ایک بار اپنے شوہر سے پوچھا بھی مگر وہ میری ہی طرح لا علم تھے ’’ایک گونگے پڑوسی کے متعلق بھلا میں کیا بتا سکتا ہوں؟’‘ انھوں نے کہا پھر میں نے کبھی اس کے متعلق ان سے کچھ نہ پو چھا۔ مجھے کیا پڑی ہے کہ میں خواہ اس کے متعلق کھوج کرتی پھروں۔۔۔؟

    مگر اس کے بارے میں جاننے کی خواہش ضرور تھی۔ کیا اس لڑکی کے سوا اس کا کوئی نہیں؟

    کبھی اس کو کپڑے دھوتے، پانی گرم کرتے یا گھر کی صفائی کرتے دیکھ کر میرا دل دکھتا یا ہلکے دکھ کا احساس دل میں کروٹ لیتا۔ کس قدر خود غرض و بیہودہ لڑکی ہے وہ۔۔۔

    پھر مجھے غصہ آ جاتا۔ اگر وہ ان باتوں کو نہیں سمجھتی تو یہ خود ہی صاف صاف کہہ دے کہ ’’مجھے بے وقوف بنانے کی ضرورت نہیں۔ تم میری نہیں بن سکتیں تو جہنم رسید۔۔۔‘‘

    مگر وہاں تو صبر وسکون، خاموشی و مصروفیت تھی۔ اونھ۔۔۔ مجھے ان لوگوں کے متعلق سوچنا ہی نہ چاہیئے۔ آخر کیا تعلق ہے ان سے۔۔۔؟

    میں اپنے ذہن سے ان خیالات کو جھٹک دیتی اور کچن میں چلی جاتی یاکسی کام میں جٹ جاتی۔

    رفتہ رفتہ پڑوس کے گھر پر نظر رکھنا میرا محبوب مشغلہ بن گیا۔ ذرا دیر نظر نہ ڈالتی توجیسے کوئی طاقت مجھے کھینچ کر کھڑکی تک لاتی یا ورانڈے کی گرل و کچن کی جال پر نظر گڑ جاتی۔ اس سے کوئی تعلق نہ ہوتے ہوئے بھی وقت گذاری کے لئے میں ادھر دیکھنا نہ بھولتی۔

    اس کو مصروف دیکھ کرجیسے بڑا اطمینان محسوس ہوتا کبھی وہ کمرے میں میز پر جھکا خط لکھ رہا ہوتا۔ کبھی اس کو نماز پڑھتے دیکھ کر اک زہر بھری مسکراہٹ جس میں طنز گھلا ہوتا، میرے ہونٹوں پر آ جاتی۔

    نوسو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی والا گھساپٹا محاورہ میرے لاشعور میں کلبلاتا۔ کبھی کبھی وہ دو تین دن کے لئے کہیں چلا جاتا اور بڑا سا تالا اس کے کمرے کے دروازے پر پڑ رہتا۔ ان دنوں اک عجیب سی بےچینی اور غالباً میرا جذبہ تجسس بڑے شدید کرب میں مبتلا رہتا۔ میرا کسی کام میں دل نہ لگتا کیونکہ پڑوس والے مکان پر نظر رکھنا آہستہ آہستہ میری زندگی کے روزمرہ کاموں کی طرح اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ پھر وہ دوسرے تیسرے دن لوٹ آتا۔ دروازہ کھولنے اور لائٹ جلانے سے اس کے گھر میں زندگی آ جاتی۔ ویرانی و بھیانک سناٹا نل کی آواز اور برتنوں کے چھنا کے میں بدل جاتا۔ پوری رفتار سے سیلنگ فیان چلتا اور پردہ اڑ کر دور تک در انڈے میں آتا رہتا۔ میں نے دن میں سینکڑوں بار ادھر دیکھا مگر اسے کبھی بھی ہمارے ورانڈے یا کھڑکی کی طرف دیکھتا نہ پایا۔ بس سرجھکائے لمبے لمبے قدم ڈالتا ہوا وہ اپنے کام میں مصروف رہتا۔ کبھی بہت موڈ میں ہوا تو باتھ روم سے ہلکے سروں میں گنگنانے کی آواز ہوا کے جھونکوں کے ساتھ آتی رہتی۔

    ادھر کئی دنوں سے وہ بیمار تھا۔ کھانسنے اور کراہنے کی آواز سن کر میں در انڈے میں آ جاتی۔ مفلر لپیٹے، سوئٹر پہنے وہ تکیہ پیٹھ کے پیچھے رکھے بیٹھا رہتا کبھی تھک کر لیٹ جاتا۔ رکشا میں بیٹھ کر .E.S.I ہوسپٹل جاتا ا ور واپس آ کر بستر پر پڑا رہتا۔ دودھ والا دودھ لا کر ہیٹر پر رکھ جاتا۔ وہ اٹھ کر پیالی میں انڈیل لیتا۔ پانی اس کے سرہانے ہی رکھا رہتا۔ ڈبل روٹی والا آکر دونوں وقت ڈبل روٹی پہونچا جاتا۔ اس کو شاید سگریٹ پینے کی عادت نہیں تھی کیوں کہ میں نے اسے کبھی سگریٹ پیتے نہ دیکھا۔ میرا جی چاہتا اس غریب کیلئے کچھ بنا کے بھیجوں پھر غیرضروری ہمدردی پر خود ہی شرمندہ ہو جاتی۔ اب آتی کیوں نہیں؟

    میرا منا چلنے لگا تھا، وہ بھی در انڈے کی گرل پکڑے دیر تک کھڑا رہتا اس کے قدم قدم پر گرنے کے ڈر سے میں پیچھے پیچھے لگی رہتی۔ اس طرح میں اور منا دونوں ہی دن کا زیادہ حصہ ور انڈے میں گذارتے۔ اس کی محبوب تین مہینے سے نہ آئی تھی۔ شاید اس نے بیوفائی کی ہو یا شاید اس آدمی نے جھڑک دیا ہو۔ بات ہی اتنی سنجیدہ تھی۔ اگر ایسا ہوا تو اس نے ٹھیک ہی کی اچھا ہی کیا۔ اس کے صبر وسکون کو اس لڑکی کے سلوک سے ٹھیس پہونچی اور پر سکون سطح کے نیچے ہلچل محسوس ہوئی۔ ورنہ مجھ کو تو یوں محسوس ہوتا جیسے وہ انسان احساسات سے خالی ہو صرف عمل آدمی۔ جو ہمیشہ مصروف رہنے کی کوشش کرتا ہے۔

    ابھی تک وہ سنبھلا نہ تھا۔ بخار شاید اب بھی آ رہا تھا۔ کھانستے کھانستے وہ بے دم ہو کر بستر پر گر پڑتا۔ رضائی اوڑھے ہر وقت سوتا رہتا۔

    ان دنوں پین گنگا کے کنارے پکنک منانے کی سوجھی تو دوستوں کے ساتھ ہم لوگ سرپور چلے گئے، گھنے جنگلوں میں، بانس کے جھنڈوں اور پین گنگا کے کنارے ہم نے خوب تفریح کی۔ پروگرام کی فہرست خوب لمبی تھی۔ سرپور کاغذ نگر سے چودہ پندرہ میل دور ہے اور بسیں بھی انسانوں سے لدی ہوئی چلتی ہیں۔ صبح بس کیلئے جائیے تو کہیں دو پہر میں کسی بس میں جگہ ملےگی فاصلہ زیادہ نہ ہوتے ہوئے بھی ہر قسم کی رکاوٹیں اور بس کا بےوقت ملنا اور کبھی کبھی بالکل نہ ملنا فاصلے کو طویل بنا دیتا ہے۔

    ایک دن منا کھانسنے لگا اور شام تک اس کو ہلکا بخار ہو گیا۔ میں اس کو سر پور کے ایک پرائیوٹ ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ مریضوں کے ساتھ بنچ پر وہ گہری سانولی لڑکی بھی نظر آئی۔ اس کی گود میں بچہ تھا اور وہ سمٹی سمٹائی بیٹھی تھی۔

    تو کیا یہ بچہ۔؟ میرے ذہن میں ایک بر ا خیال سر اٹھانے لگا تب ہی تو رانی جی اس بیماری کے زمانہ میں بھی نہ آئیں۔

    ’’آپ کے بچہ کی طبیعت خراب ہے؟‘‘ میں نے اس سے بات شروع کرنے کیلئے پوچھا۔

    ’’جی ہاں سینہ بھرا ہوا ہے اور کھانسی بھی بہت ہے۔’‘ وہ بچہ کا سینہ سہلانے لگی۔

    ’’میرے بچے کو بھی کھانسی ہو گئی ہے۔ کل تک بھلا چنگا تھا۔ میں اسے منے کے متعلق بتانے لگی۔‘‘

    ’’آج کل ہر طرف فلو پھیلا ہوا ہے۔ اس کے بابا بھی فلو کا شکار ہو گئے ہیں۔ میں وہاں جانا چاہتی ہوں مگر مجبور ہوں۔ ایک تو بچہ بیمار ہے۔ دوسرے میں یہاں اسکول میں پڑھاتی ہوں۔ تقریباً پانچ سال ہو گئے۔ نہ میرا کاغذ نگر پر ٹرانسفر ہوتا ہے۔ نہ سرسلک ملز اپنی جگہ چھوڑ سکتی ہے۔ بس عجیب کشمکش ہے، ہر طرح کوشش کر کے ہار گئے ہم۔ دلی بے چینی کے آثار اس کے چہرے پر پیدا ہو گئے تھے۔ اور میں ہڑ بڑا کے کھڑی ہو گئی تھی۔ میں نے حیران ہو کے سوچا۔‘‘

    تو وہ دونوں میاں بیوی ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے