’’تم کیسی باتیں کر رہے ہو؟‘‘ اس نے کسی قدر حیرت سے کہا۔ ایک ناقابل یقین قسم کا تاثر اس کے چہرے سے عیاں تھا۔ میں نے کہا، ’’تم خود ہی دیکھ لو، ہم وہیں جارہے ہیں۔‘‘
اس نے اپنی گردن کو دو ایک مرتبہ نفی میں دائیں بائیں حرکت دی، گویا میری بات پر اسے اعتبار نہ آیا ہو۔
میں نے ہوٹل کا نام ٹیکسی ڈرائیور کو جوں ہی بتایا، اس نے مسکراکر میٹر گرایا اور انجن اسٹارٹ کردیا۔ ہم ابھی ابھی ایئرپورٹ سے ٹیکسی میں سوار ہوئے تھے، کچھ ہی دیر بعد ہم شہر کے ہائی وے پر چلے جارہے تھے۔ ہائی وے پر ٹریفک بہت تھا مگر گاڑیاں تیز رفتار سے چل رہی تھیں۔ ہوا میں خوش گوار خنکی تھی۔ صبح کا وقت تھا، لوگ اپنے اپنے مقصد کے حصول کی خاطر محو سفر تھے۔
میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا، ’’بھائی صاحب! یہ بتائیے کہ جیسے ہی میں نے ہوٹل کانام آپ کو بتایا، آپ مسکرادیے! آخر کیوں؟‘‘ اس نے کہا، ’’کیا بتائیں صاحب، اس ہوٹل کی خصوصیت ہی کچھ ایسی ہے کہ ہنسی آگئی۔‘‘
میں نے کہا ’’وہ مجسمہ؟‘‘
اس نے کہا، ’’ہاں آپ کو تو معلوم ہی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ زور سے ہنسا۔
میں نے زینییہ(Zeniya)کی طرف دیکھا، ۔ وہ مجھے خفگی سے دیکھ رہی تھی، گویا احتجاجاً کہہ رہی ہو کہ اس موضوع پر ٹیکسی ڈرائیور سے بات کرنے کی کیا تک تھی۔
میں نے دبی زبان میں کہا، ’’اب یقین آیا؟‘‘
ہوٹل سینتور (Centaur) کے ریسپشن کاؤنٹر پر پیش کیے گئے جہازی سائز کے رجسٹر پر میں نے ہوٹل پہنچنے کا وقت درج کرتے ہوئے گھڑی دیکھی۔ اس وقت سوا دس بج رہے تھے۔
بیل بوائے نے ساتویں منزل پر ۷۱۰ میں ہمارا سامان لاکر رکھ دیا۔ آدھے گھنٹے بعد ہم نہا دھوکر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ زینییہ نے کہا، ’’میں نے تمام تیاریاں گھر ہی پر مکمل کر لی تھیں، صرف ساڑی کو پریس کرانا ہے، تم چاہو تو اپنا سوٹ بھی پریس کروالو۔ سوٹ کیس میں رکھے رہنے سے اس پر شکنیں پڑگئی ہوں۔‘‘
اس نے اپنی ساڑی اور میں نے اپنا سوٹ بیل بوائے کو بلواکر پریس کرنے کے لیے بھیج دیا۔ زینییہ ہیئر ڈرائر سے اپنے بال خشک کر رہی تھی۔ اس کے ڈھیلے گاؤن میں سے بغل کے مہین مہین بال جو زیادہ دن نہ ہوئے تراشے گئے تھے، نظر آرہے تھے۔ اس نے اپنا گداز سینہ قیمتی ریشمی چولی میں کس کر باندھ رکھا تھا۔ اس نے آئینے میں میرا عکس دیکھ کر کہا، ’’کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’دیکھ رہا ہوں کہ تم چالیس کے دہے میں بھی ہری بھری ہو!‘‘
زینییہ نے کہا، ’’کیا تم جانتے ہو کہ مجھے اپنے باغ کی دیکھ بھال میں کتنا وقت صرف کرنا پڑتا ہے؟‘‘
میں نے جواباً کہا، ’’تب ہی پرندے اس کی بھری بھری شاخوں کو دیکھ کر اور اس میں کھلے ہوئے پھولوں کی خوشبو سے بیتاب ہوکر میٹھے میٹھے نغمے الاپا کرتے ہیں۔‘‘
’’اس کے باجود مالک اپنے باغ کی طرف توجہ ہی نہیں کرتا۔ کیا تم بتاسکتے ہو کہ پچھلی بار کب ساتھ سوئے تھے؟‘‘
’’شاید سال بھر پہلے۔‘‘
’’ثمیر! مجھے وہ دن بھی یاد ہے اور تاریخ بھی۔‘‘
’’اچھا!‘‘ میں نے حیرت کا اظہار کیا۔
’’اس روز روینہ کی شادی تھی اور ہم میسور سے بنگلور لوٹ رہے تھے۔ دسمبر کامہینہ تھا اور سنیچر کادن، او رتاریخ تھی اٹھارہ۔ پھوار پڑ رہی تھی، وائپر کام نہیں کر رہاتھا۔ تمہیں وائپر کو بار بار حرکت دے کر ونڈ اسکرین پر پڑے ٹھنڈے قطروں کو پونچھنا پڑتا تھا۔ تم نے میسور کی حدود سے نکلتے ہی روینہ کے سی تھرو(see through) لباس اور لوکٹ(Low-cut) گریبان سے جھانکتے ہوئے ماہتابوں کا ذکر کرنا شروع کردیاتھا اور میری ننگی کمر پر کار ڈرائیو کرتے ہوئے چٹکیا ں لے رہے تھے۔‘‘
’’مگر ڈارلنگ! تم نے بھی تو ناف کے نیچے طاوسی رنگ کی ساڑی اور بلاؤز اس قدر مختصر پہنا تھا کہ سمجھ ہی میں نہ آتا تھا کہ وہ چولی ہے یا بلاؤز!‘‘
’’یو ناٹی فیلو! تم نے پوچھا اس وقت کیا بج رہا ہے؟ میں نے کہا ساڑھے گیارہ، یہ سنتے ہی تم نے کار روک دی۔ وقفے وقفے سے کوئی گاڑی یا ٹرک اس راستے سے آجارہے تھے۔ تم نے مجھے باہر نکل آنے کو کہا اور ماروتی زین کے اگلے سرے پر بٹھادیا۔ ساڑی اونچی کی، میری انڈرویر کھینچ کر نکالی اور اسے ہوا میں اچھال دیا۔ وہ جاکر آم کی شاخوں میں الجھ گئی۔ تم روینہ روینہ کرتے رہے اور میں سسکیوں بھرے ہچکولے کھاتی رہی۔‘‘
اگلے دن زینییہ نے ہیری ٹیج کلب کے سوئمنگ پول میں ایک گھنٹہ گزارا اور بڑی دیر تک پول کے اطراف بچھی ایک میز پر بیٹھی مختلف پھلوں کے جوس کی چسکیاں لیتی رہی۔ بار بار اس کاذہن بھٹک کر کل رات کے واقعے کی طرف چلا جاتا تھا۔ اس نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ مرد یا عورت چاہیں تو اپنی پھیکی اور بے رنگ اور دلکشی سے عاری زندگی میں غیر عورت یا مرد کے ساتھ اختلاط کا تصور کریں تو اس صورت میں انہیں بے پناہ لذت اور مسرت کااحساس ہوسکتا ہے۔ لیکن زینییہ نے شادی کے بعد ثمیر کے علاوہ خواب گاہ میں کسی اور مرد کاتصور ہی نہیں کیا تھا۔
ازدواجی زندگی کے پندرہ برسوں میں گوکہ ان دونوں نے متعدد ایسی فلمیں دیکھی تھیں جن میں اختلاط کے مناظر دکھائے گئے تھے۔ کبھی پینٹ ہاؤس یا پلے بوائے میگزین بھی گھر پر لے آتے تھے، جنہیں دیکھ کر زینییہ کے جسم کے حساس علاقوں میں بجلی کی گنگناتی ہوئی لہر دوڑ جاتی اور ایک حصے میں زیتون کے تیل کی سی چکناہٹ بھی محسوس ہوتی۔ اس کی بغل سے لے کر ناف کے زیریں حصے تک اگر سسمو گراف لگادیا جاتا تو اس کے جسم میں پیدا ہونے والے ارتعاشات کی شدت بڑی آسانی سے محسوس کی جاسکتی تھی۔
اس کی نظر پول کے سامنے والے حصے پر پڑی، وہاں پر ایک عورت اور مرد بیٹھے اپنے بچوں کو پول میں پیلے رنگ کی بڑی سی گیند سے کھیلتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ اسے عرشی اور احمد یاد آئے۔ دونوں علی گڑھ میں زیر تعلیم تھے اور سال میں ایک مرتبہ گرمیوں کی چھٹی میں بنگلور آجایا کرتے تھے۔ ان کے تصور نے زینییہ کو افسردہ کردیا۔ وہ ان کے ساتھ کھیلتی کھیلتی بہت دور نکل گئی۔
لنچ انہوں نے سات بنگلے پر واقع ’دہلی دربار‘ ریستوراں میں کیا۔ ثمیر اور زینییہ کو بنگلور میں سکونت اختیار کیے گیارہ برس ہوچکے تھے۔ اس سے پہلے وہ شہر ممبئی ہی میں رہتے تھے جو ان کی جائے پیدائش تھی۔ اس لیے وہ شہر کے مرکزی حصے اور مشرقی مغربی مضافات سے بخوبی واقف تھے۔ ڈائننگ ہال میں ائرکنڈیشن کی خنکی تسکین پہنچا رہی تھی۔ مرغ قورمہ، سیخ کباب، مکھنی روٹیاں کھانے کے بعد جب گرما گرم مٹن بریانی کے ڈونگے ان کے سامنے رکھے گئے تو ثمیر نے ایک سسکاری سی ماری اور کہا، ’’جانتی ہو نایہ مرغن غذائیں مغلوں کے دسترخوان کا خاصہ تھیں۔‘‘
زینییہ نے ٹشو سے اپنے ہونٹوں پر لگا روغن پونچھتے ہوئے کہا، ’’بہت اچھی طرح۔۔۔‘‘
ثمیر نے زینییہ کے جملے کی نشتریت کو ٹھیک دل کے مرکز پر محسوس کیا۔ جانے ایسا کیا ہواتھا کہ وہ اب زینییہ میں چقماق کی سی رگڑ نہیں پا رہا تھا۔ گزشتہ سال چھ مہینوں سے وہ الگ الگ بیڈ پر سونے لگ گئے تھے۔ پہلے وہ بلاتکلف ایک دوسرے کے سامنے کپڑے تبدیل کرلیا کرتے تھے، لیکن اب سترپوشی کا خیال رکھنے لگے تھے۔ کبھی ساتھ ساتھ شاور کے نیچے غسل کرنے اور ایک دوسرے کی پیٹھ ملنے کاعمل ان کے لیے تفریح بخش ہوا کرتا تھا لیکن اب تو مدت ہوچکی تھی، ان دونوں نے ایک ساتھ غسل نہیں کیا تھا۔
’’ہاں تو تم کیا کہہ رہے تھے اس مجسمے کے بارے میں؟‘‘
زینییہ نے ٹیکسی میں ثمیر سے پوچھا۔ ٹیکسی اس وقت و رسوا سے ولے پارلے کی جانب تیز رفتار سے چلی جارہی تھی۔ مارچ کا مہینہ تھا، دھوپ میں تمازت زیادہ نہ تھی۔ البتہ فضا میں ہلکی سی سمندر کے کنارے سکھائی جانے والی مچھلیوں کی بوکا احساس شامل تھا۔
ثمیر نے دبی آواز بلکہ سرگوشیوں میں کہا، ’’میں نے سن رکھا ہے کہ اس مجسمے کو اگر کوئی مرد دیکھ لے تو وہ مجسمہ اسے برہنہ ’کام دیوی‘ کی صورت میں نظر آئے اور ایسی دیوی جو اپنا وجود دیکھنے والے کے سپرد کرنے پر آمادہ ہو اور جس کا ’کاماسوتر‘ میں پدمنی کی صفات کے ذیل میں ذکر ہو۔‘‘
’’اور اگر عورت دیکھ لے تو؟‘‘ زینییہ نے پوچھا۔
ثمیر نے بتایا، ’’اور اگر عورت دیکھ لے تو اسے وہ مجسمہ ’کام دیو‘ نظر آئے۔ بالکل بے لباس اور ہاتھ میں نیزہ تھامے آمادۂ پیکار!‘‘
’’اومائی گاڈ! یہ کیسی تخلیق ہے!‘‘ زینییہ کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
ثمیر نے کہا، ’’اجنتا کے غاروں میں رہنے والے کسی بھکشو کی تخلیق۔ ایک وجود میں دو کو شامل کردیا۔ یہ کوئی فریب نظر بھی نہیں، نہ ہی شعبدہ بازی کے ذریعے دھوکہ دینے کا عمل ہے۔ بہت سی عورتیں اس کے نیزے کو چھوکر بھی دیکھتی ہیں۔‘‘
زینییہ خفگی سے بولی، ’’کیا تم خاموش نہیں رہ سکتے۔ تمام تفصیل بتانے کی آخر کیا ضرورت؟ میں دیکھ لوں گی۔‘‘
ثمیر نے دیکھا کہ زینییہ کے لبوں کے اطراف اور پیشانی پر ننھی ننھی پسینے کی بوندیں نمودار ہوگئی تھیں۔ وہ مسکرایا اور بولا، ’’کہیں ایسا تو نہیں کہ تم ابھی سے مشتعل ہوئی جا رہی ہو؟‘‘
زینییہ نے ساڑی کے پلو سے اپنے سینے کے نشیب میں گردن سے بہہ کر آنے والے پسینے کے قطرے پونچھے اور بولی، ’’تم تو یوں کہہ رہے ہو گویا ان تمام باتوں کا تم پر کوئی اثر نہیں۔ غور تو کرو کہ تم تقریباً ایک سال سے مجھ سے کس قدر دور رہے ہو۔ کبھی تم نے قریب آکر میرے اندرونی گوشوں سے اٹھتی ہوئی خوشبوؤں کو محسوس کرنے کی کوشش کی؟ نہیں کی۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ مجسمہ اگر تمہارے کام آجائے تو میں اپنے جسم میں جی اٹھوں۔‘‘
ہوٹل سینتور پہنچ کر ثمیر نے زینییہ سے پوچھا، ’’ابھی دیکھ لیا جائے یا رات شادی کی تقریب سے لوٹ کر؟‘‘
زینییہ نے پل بھر سوچ کر جواب دیا، ’’رات کو دیکھیں گے۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہ شرما گئی۔
ثمیر نے ریسپشن کاؤنٹر سے کمرے کی چابی لی، پھر وہ دونوں بذریعہ لفٹ ساتویں منزلے پر پہنچ گئے۔ کاریڈور سے گزر کر کمرے کے سامنے آکر رکے۔ زینییہ نے اِدھر اُدھر دیکھا، کاریڈور سنسان پڑا تھا۔ اس نے ثمیر کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور اس کے لبوں سے اپنے لب ملادیے، اسے لفٹ کے کھلنے کی آواز آئی، تب اس نے اپنے لب ثمیر کے لبوں سے الگ کیے۔
کمرے میں داخل ہوکر اس نے ساڑی اتاردی۔ سینڈل اتارتے ہوئے اپنے پیٹی کوٹ کے گھٹنوں تک اوپر اٹھ آنے کی پرواہ نہ کی۔ اس کی پنڈلیاں سڈول اور رانیں سیکسی تھیں۔ ثمیر نے دیکھا او رکہا، ’’ڈارلنگ! بڑی سیکسی لگ رہی ہو۔ تم دیکھنا کہ آج کی رات ہماری سہاگ رات کی سی ہوگی۔‘‘
شادی میں ان دونوں کی پرانے دوستوں اور قریبی عزیزوں، رشتے داروں سے ملاقات ہوئی۔ سبھوں نے عمدہ کپڑے پہن رکھے تھے۔ زیورات اور خوشبوؤں سے اپنے آپ کو بسائے رکھاتھا۔ متنوع قسم کے کھانے، متعدد قسم کے مشروبات سے میزیں سجادی گئی تھیں۔ ثمیر زینییہ کے ساتھ ایک کونے کی میز پر بیٹھا اپنے دوست ڈاکٹر عزیز اور اس کی بیوی شمع سے باتیں کر رہاتھا۔ ڈاکٹر کہہ رہاتھا، ’’ایک عمر کو پہنچ کر آدمی کی جنسی خواہش ماند پڑجاتی ہے۔ اگر کوئی ذریعہ اختیار کرکے اسے مہمیز لگاسکیں تو کیا کہنے۔‘‘
ثمیرنے کہا، ’’بس یہ سمجھیے کہ ہم دونو ں ہوٹل سینتور میں اسی لیے ٹھہرے ہوئے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر ثمیر نے زور سے ڈاکٹر عزیز کے ہاتھ پر تالی ماری۔ دونوں قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔ زینییہ اور شمع دونوں بغلیں جھانکنے لگیں۔
شمع نے کہا، ’’ہماری شادی کو دس برس ہونے کو آئے ہیں لیکن اس عرصے میں میری سمجھ میں آج تک نہیں آیا کہ ڈاکٹر پیشہ ورانہ گفتگو کب کرنے لگتے ہیں اور سماجی گفتگو کس وقت؟ اب تم ہی دیکھو زینییہ یہ کوئی موقع تھا، ان کے اس موضوع پر گفتگو کرنے کا۔۔۔‘‘ اب دونوں سرگوشی کے انداز میں باتیں کر رہی تھیں، ’’ویسے تم دونوں کے درمیان جنسی تعلق کا موسم کیسا ہے؟‘‘
زینییہ نے کسی قدر افسردہ ہوکر کہا، ’’ایک سال سے ہم ایک دوسرے کے ان معنوں میں قریب نہ آسکے۔ پہلے ہر ہفتے ہماری قربتوں کے پھول مہکا کرتے تھے اور تمہارا کیا معاملہ ہے؟‘‘
شمع نے کسی قدر ڈھٹائی سے کہا، ’’کلنڈر کی ہر دسویں تاریخ کو ماہتابی بنادیتے ہیں اور ہم چاندنی میں نہا جاتے ہیں۔‘‘
زینییہ نے سوچا کہ وہ شمع سے پوچھے کہ کہیں ڈاکٹر کوئی طبی نسخہ تو نہیں استعمال کرتے مگر نہ پوچھ سکی۔ ایک دم سے شرم آڑے آگئی۔
ٹیکسی سے جب وہ ہوٹل سینتور پہنچے، رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ ریسپشن سے انہوں نے چابی لی اور چلے اس گوشے کی طرف کہ جہاں پر وہ مجسمہ ایستادہ تھا۔ اس وقت ایک حریری کپڑے سے وہ ڈھکا ہوا تھا۔ ثمیر نے اسے اتارا تو دم بخود رہ گیا۔ اس نے آج تک ایسی شہوانی اور پرکشش عورت نہیں دیکھی تھی۔
تقریباً یہی حال زینییہ کا تھا۔ وہ کام دیو کی مورت اسے دیکھ رہی تھی۔
وہ دونوں زیادہ دیر تک اس مجسمے کو دیکھ نہ پائے۔ بے تابی سے کمرے کی طرف دوڑے اور پٹاخ سے دروازے کی چٹخنی اوپر چڑھادی۔
خاصا وقفہ گزرنے کے بعد وہ دونوں بے لباسی کی حالت میں کمرے کی بالکونی میں کھڑے تھے۔ ثمیر کہہ رہاتھا، ’’اگر ہم اس مجسمے کو اپنے گھر لے جاسکیں تو؟‘‘
زینییہ نے کہا، ’’بغیر چرائے تو یہ ناممکن ہے۔‘‘
دونوں کھلکھلاکر ہنس دیے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.