Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یمبرزل

ترنم ریاض

یمبرزل

ترنم ریاض

MORE BYترنم ریاض

    اس انجام کا خدشہ سب کو تھا مگر اس کی توقع کسی کو نہیں تھی۔ ماں اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھی۔ باپ اسے قبول نہیں کرپا رہا تھا۔ یاور ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اور انیقہ۔۔۔

    ’’نِکی باجی۔۔۔ یہ الجیبرا مجھے ضرور فیل کرےگا۔۔۔‘‘ یوسف نے پھرن کے اندر سے آگ بھری کانگڑی باہر نکال کر سبز گل بوٹوں والے سرخ قالین کے عین درمیان رکھ دی۔

    ’’ہم سے تو یہ نہ ہوگا۔۔۔ نہ ہم پاس ہوں گے۔‘‘ وہ لانبی لانبی انگلیوں سے آڑھی مانگ کے دونوں اطراف کنگھا کرنے لگا اور گردن اچکا کر دیوار میں لگے بڑے سے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے گنگنانے لگا۔

    ’’چوپ۔۔۔ چوپ۔۔۔‘‘ نِکی کی خاص کوشش کے بعد بھاری بنائی ہوئی آواز گونجی۔

    ’’چپ چاپ بیٹھے رہو۔۔۔ کانگڑی اٹھا کر کنارے نہیں رکھ سکتے تم یوسف، کسی کی ٹھوکر لگ گئی۔۔۔ تو۔۔۔؟‘‘

    ’’نکی باجی۔ یوسف بھائی تو خوامخواہ کانگڑی گود میں اٹھائے پھرتے ہیں۔۔۔ اب ایسی سردی تو ہے نہیں۔ ابو نے اس کمرے میں اسی لیے بخاری نہیں لگائی کہ ہم سب چست رہیں گے اور پڑھنے میں مصروف رہیں گے۔۔۔ خوب سارے کپڑے پہن کر کہاں لگتی ہے سردی۔۔۔ کانگڑی پھرن کے اندر ٹھونس کر جمائیاں لیتے رہتے ہیں۔۔۔ جب دیکھو۔۔۔ خاک پڑھیں گے۔۔۔؟‘‘

    یاور نے کتاب پر جھکا سر اٹھا کر نکی کے چہرے پر اپنی طرف سے بڑی اہم بات کہہ کر ردعمل جانچنے کی کوشش کی اور ایک نظر آئینے میں یوسف کے عکس کو دیکھ کر نتھنے سکیڑے پھر ابرَو اوپر کو کھینچے اور دانت نکوس کر بغیر آواز ہنسا اور کتاب پر ایسی عجلت سے جھکا جیسے بہت ضروری سبق ادھورا چھوڑنا پڑا ہو۔

    ’’آپ سے کِس نے رائے مانگی تھی۔۔۔‘‘ نکی نے آواز میں بھرا ہوا رعب ذرا کم کر کے کہا۔

    ’’آپ اپنا کام کیجئے۔۔۔‘‘ وہ بولی۔

    ’’ادھر لاؤ کتاب یوسف۔۔۔ ابھی تو سمجھایا تھا یہ سوال تم کو۔۔۔‘‘

    نکی نے لمبا سا رجسٹر اور کتاب اپنی طرف سرکائے تو یوسف فرش پر کہنیوں کے بل لیٹ گیا اور رجسٹر پر نظریں گاڑھ دیں۔

    ’’اوپر اٹھو یوسف۔۔۔ سونے کی تیاری مت کرو نا۔۔۔ میرا بھی کل پیپر ہے۔۔۔ پلیز۔۔۔‘‘

    نکی فوراً دبلی پتلی سی باریک آواز والی لڑکی بن گئی۔ اور یوسف جیسے کہ ہوش میں آ گیا۔

    ’’اوہ۔۔۔ Sorry نِکی باجی۔۔۔ ایک بار اور کوشش کرتا ہوں۔۔۔‘‘

    یوسف نے رجسٹر اور کتاب اپنی طرف سرکائے۔ کچھ لمحے نکی کی طرف دیکھتا رہا۔ گلابی جلد والا کتابی چہرہ۔ لمبی سی آنکھوں پر چھوٹا سا بغیر فریم کا چشمہ۔ رخسار پر کان کے پیچھے سے آنے والے بالوں کی ایک پتلی سی لٹ اور کان میں چھوٹی سی سنہری بالی۔ دوسری بالی اس زاوئیے سے نظر نہیں آتی تھی۔ باقی بال سرکے پیچھے کی طرف موٹے سے سیاہ ہیربینڈ میں پھنسے تھے۔ دودھ ایسی سفید گردن پر دو ایک لاجوردی نسیں۔ اور گردن کے ساتھ لگا سیاہ رنگ کے سویڈ کے موٹے سے کپڑے پر بغیر کڑھائی کے کالر والے پھرن کا بند زپ۔ کلائی تک آتی ہوئی آستین میں سے جھانکتے نازک ہاتھ میں قلم۔ سامنے کئی کتابیں اور کاپیاں بکھری ہوئیں۔

    ’’کیا سوچ رہے ہو اب۔۔۔ تم۔‘‘ نکی نے اسے کچھ پل لگاتار دیکھ کر پوچھا۔

    ’’نہیں۔۔۔ کچھ نہیں نکی باجی۔۔۔‘‘ وہ جلدی سے بولا اور کتاب پر جھک گیا۔ نکی نے دیوار سے ٹیک لگا دی اور تلوے فرش پر رکھ کر موڑے ہوئے گھٹنوں پر کتاب پھیلا دی۔

    تینوں سر کتابوں پر جھک گئے۔

    نکی یاور کی بڑی خالہ تبسم بیگم کی اکلوتی اولاد تھی۔ یاور کی ماں تنویر بیگم کی لاڈلی بھانجی، جو کچھ دن اپنی خالہ کے یہاں رہنے آئی تھی۔ بلکہ اس کی موجودگی میں اس کا خالہ زاد بھائی یاور بھی پڑھنے کے معاملے میں ذرا سنجیدہ ہو جایا کرتا تھا۔ وہ جماعت ششم کا طالب علم تھا۔ نکی گیارہویں درجے کی طالبہ تھی۔ کچھ مہینوں پہلے تنویر بیگم اپنے جیٹھ کے بیٹے یوسف کو بھی اپنے یہاں لے آئی تھیں کہ وہ کچھ شرارتی واقع ہوا تھا اور تنویر چچی سے بہ نسبت اپنے والدین کے زیادہ مانوس تھا۔

    ’’نکی باجی آپ خود تو پڑ ھ نہیں رہیں۔۔۔‘‘ یوسف نے سر ذرا اونچا کر کے نکی کی نوٹ بُک دیکھنے کی کوشش کی۔

    ’’شاعری کر رہی ہوں گی نکی باجی۔‘‘ یاور نے بغیر سر اٹھائے کہا۔

    ’’تم لوگ میرے استاد ہویا میں تمہاری۔ چپ چاپ اپنا کام کرو۔۔۔ ورنہ ایک ایک تھپڑ۔۔۔‘‘

    ’’آج تو آپ یوسف بھائی کے ایک تھپڑ جڑ۔۔۔‘‘

    ’’چپ بے ایک تھپڑ کے بچے۔۔۔ نکی باجی صرف دھمکاتی ہیں۔۔۔ ماریں گی تھوڑے ہی۔۔۔‘‘

    ’’اب جس نے بات کی نا۔۔۔ تو ساری دھمکیاں سچ ہو جائیں گی۔ سمجھے تم لوگ۔۔۔ اتنا اچھا شعر ہوا ہے۔۔۔ مگر تم لوگ سوچنے کی مہلت دو تو نا۔۔۔‘‘

    ’’تو سنا دیجئے نا نکی باجی۔۔۔ پلیز۔۔۔ ورنہ یوسف بھائی بڑے خالو سے کہہ دیں گے۔۔۔‘‘

    یاور اپنا چھوٹا سا گورا ہاتھ ہونٹوں پہ رکھ کر ہنسا۔ نکی نے اس کی طرف نتھنے پھُلا کر اور آنکھیں سکیڑ کر دیکھا پھر دانت بھنچے۔ شہادت کی انگلی ناک پر رکھی اور آواز بھاری کر کے کھنکھارا کی۔

    ’’خاموش۔۔۔‘‘ اس نے سر جھٹک کر کہا اور تینوں کھِلکھلا کر ہنس پڑے۔

    نکی نے تازہ ترین شعر سنایا اور یاور نے ہاتھ لہرا لہرا کر داد دی:

    چھوڑ جانے سے پہلے، تصور ترا

    ہے مجھے بھی بتانا کہاں چھوڑنا

    ’’واہ نکی باجی۔ یہ اسی غزل کا شعر ہے نا۔۔۔ جو آپ نے کل سنائی تھی۔۔۔‘‘

    ’’ہاں اسی کا۔۔۔ اور سنائی نہیں پڑھی، کہا جاتا ہے۔‘‘ نکی نے یاور کو سمجھایا۔ یوسف نے نکی کی آنکھوں میں دیکھا۔

    ’’ہاں۔۔۔

    اس سے پہلے، پڑے یہ جہاں چھوڑنا

    وقت کی ریت پر کچھ نشاں چھوڑنا‘‘

    اور ترنم سے شعر پڑھا۔

    ’’تم سمجھدار ہو۔۔۔ ورنہ لوگ تو شعر کا تماشا بنا دیتے ہیں۔‘‘

    نکی نے ترچھی نظر سے یوسف کو دیکھا اور یاور کا گال تھپتھپا کر کہا۔

    ’’اللہ۔۔۔ اتنی سنجیدگی سے داد دی۔۔۔‘‘ یوسف نے چہرے پر خفگی کے آثار طاری کرنے کی کوشش کی۔

    یاور اور یوسف دونوں چچا زاد بھائی تھے ا س لیے صورتوں میں مشابہت ممکن تھی مگر ان دونوں کے چہرے کافی حد تک ایک سے تھے۔ سیاہ گھنگھریالے بال، سرخ و سفید رنگت، متناسب دانت اور نیلی نیلی پتلیاں۔ دو چیزیں البتہ الگ تھیں کہ یوسف کا قد یاور سے کوئی دو فٹ زیادہ تھا بلکہ وہ تو نکی سے بھی فٹ بھر لمبا تھا اور دوسرے اُس کی مونچھیں اگ آئی تھیں اور کہیں کہیں داڑھی بھی۔

    اس دن شہر کے سب سے بڑے چوک میں بم پھٹا تھا۔ کچھ فوجی جوان زخمی ہوئے تھے۔ کچھ عمارتیں جلی تھیں۔ ہر روز اسی طرح کا کچھ نہ کچھ ہوا کرتا تھا۔ سکون کی لے پر بہتے وقت میں کچھ ایسا انتشار اُٹھا کہ آٹھوں پہر اتھل پتھل ہو گئے۔

    یوسف نکی کو گھر چھوڑنے جا رہا تھا۔ اس کے گھر کو مُڑنے والے موڑ پر دھواں اڑتا دکھائی دیا۔ لوگ بے تحاشا ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ چوڑی سڑک کی دوسری جانب بستی تھی اور اس طرف قبرستان۔ دور سے بکتر بند گاڑیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ لوگ تیزی سے سڑک پر سے غائب ہو رہے تھے۔ گولیوں کی آوازیں ان کا تعاقب کر رہی تھیں۔

    بھاگتے ہوئے لوگوں میں سے ایک معلوم نہیں کیسے گر گیا۔ اس کے پیچھے سے آ رہی فوجی گاڑی میں سے فائرنگ ہو رہی تھی۔ یوسف نے ایک لمحے کے کسی حصے میں دیکھا کہ گرے ہوئے آدمی کے بالکل قریب کوندا سا لپکا تھا اور گولی چلنے کی آواز آئی تھی۔ پھر سڑک پر گرا آدمی کوئی فٹ بھر اُچھلا اور دوبارہ سڑک پر آ رہا۔ یوسف سڑک کے کنارے کی طرف بھاگا۔

    اس نے مضبوطی سے نکی کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔

    یہ سب نکی نے بھی دیکھا تھا۔

    سڑک کا کنارہ ختم ہوتے ہی ڈھلان شروع ہو جاتی تھی۔ وہ دونوں چند قدم اور نیچے کو بھاگے اور منڈیر کے ساتھ لگ گئے۔ نکی نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا تھا۔ ہچکیاں اس کے سینے میں گھٹ رہی تھیں۔ وہ چیخنا چاہتی تھی۔ یوسف نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اُسے اپنے ساتھ زمین پر بٹھا دیا۔

    کئی منٹوں تک وہ دونوں ہانپتے رہے۔ پھر ماحول پر سکوت طاری ہو گیا۔

    نکی نے آنکھیں بند کر لیں اور سر پیچھے کو ٹکا دیا۔ رفتہ رفتہ ان کی سانسیں معمول پر آ گئیں۔ یوسف نے دیکھا کہ سامنے وسیع و عریض قبرستان کے احاطے میں کچھ قبریں ہیں اور بےشمار نرگس کے پھول کھلے ہیں۔

    ’’نکی باجی۔۔۔ آپ کی رنگت بالکل یمبرزل جیسی ہے۔ یمبرزل کے پھولوں جیسی ہے۔ اگر آپ کا نام یمبرزل ہوتا تو بہت اچھا لگتا۔ جسے یہ لفظ سمجھ میں نہ آتا وہ آپ کو نرگس بلا سکتا تھا۔۔۔ ہے نا۔۔۔؟‘‘ یوسف ساکت بیٹھا سامنے دیکھتے ہوئے سرگوشی میں بولا۔ نکی نے فوراً آنکھیں کھول دیں اور بائیں جانب گردن موڑ کر اسے حیرت اور اداسی سے دیکھا۔

    ’’تمھیں موت کے سنّاٹے میں زندگی کی باتیں کیسے سوجھتی ہیں یوسف؟‘‘ وہ بےبس سی ہو کر بولی۔

    ’’کتنے قریب تو ہیں دونوں۔۔۔ زندگی اور موت۔۔۔ دیکھا نہیں آپ نے۔۔۔‘‘

    اس نے آہستہ سے کہا۔ منڈیر کی اس طرف سڑک پر کوئی آہٹ ہوئی تو یوسف نے سر ذرا سا اوپر اچکا کر دیکھا۔۔۔ سڑک پر گرا آدمی اٹھ گیا تھا اور لنگڑاتا ہوا دوسری طرف جا رہا تھا۔ اس نے ایک ہاتھ سے دوسرا کندھا تھام رکھا تھا۔

    ’’وہ دیکھئے۔۔۔ وہ دیکھئے نکی باجی۔۔۔ میں نے سچ کہا تھا نا۔۔۔‘‘ یوسف بولا تو نکی نے جھانک کر دیکھا۔

    ’’اللہ۔۔۔ تیرا شکر۔۔۔ تو پھر وہ۔۔۔ یہ۔۔۔ وہ گولی؟‘‘ وہ اپنے گلے کے قریب ہاتھ رکھ کر بولی۔

    ’’اس کے بازو میں لگی ہو گی۔۔۔ شانے میں۔۔۔‘‘ وہ بولا۔

    دونوں منڈیر سے لگے بیٹھے رہے۔

    ’’نکی باجی۔۔۔ ایسا نہیں لگتا جیسے موت کا سکون سے کوئی گہرا رشتہ ہو۔ جیسے موت ہی سکون کا دوسرا نام ہو۔۔۔ زندگی، موت اور سکون۔۔۔ سب کا مفہوم ایک ہو گیا ہو۔۔۔ اس وقت ایسا نہیں لگ رہا۔‘‘ اس نے نکی کی طرف گردن موڑ کر کہا۔

    ’’ہاں۔۔۔ شاید۔۔۔‘‘ نکی نے کچھ توقف سے کہا اور سامنے دیکھتی رہی۔

    ’’نکی باجی۔۔۔‘‘ اس نے کہیں دور سے پکارا حالانکہ وہ دونوں ساتھ لگے بیٹھے تھے۔

    ’’ہوں۔۔۔‘‘ وہ بغیر لب وا کیے بولی۔

    ’’اگر اس وقت کوئی ہم پر بندوق تان دے تو۔۔۔؟‘‘

    ’’تو۔۔۔؟ کیا؟‘‘ اس نے گردن موڑ کر یوسف کے چہرے کو دیکھا۔

    ’’تو ہمیں جان بچانے کے لیے بھاگنا چاہئے کیا۔؟‘‘ یوسف نے پرسکون لہجے میں کہا۔

    کئی لمحے خاموشی میں گزر گئے۔

    ’’نہیں۔۔۔‘‘ کچھ دیر بعد نکی نے اسی لہجے میں جواب دیا اور کچھ اور پل اس کے چہرے کو دیکھتی رہی۔ پھر ایک لمبی سانس بھر کر سر پیچھے ٹکا دیا۔ دونوں کے ہونٹوں پر ایک ابدی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

    جب آگے پیچھے نتیجہ آیا تو نِکی چوری چھپے شعر کہنے کے باوجود بہت اچھے نمبر لائی۔ یاور کے بھی اچھے نمبر تھے۔ یوسف بس پاس ہو گیا۔

    ’’اچھی طرح تو حل کر لیتے تھے تم سارے سوالات پھر حساب میں کم Marks کیوں آئے۔۔۔ اسی لیے ڈویژن اچھی نہیں آئی۔ اب تمھیں تمہاری پسند کے مضامین نہیں ملیں گے۔ اب پڑھنا۔۔۔ سمجھے۔‘‘ نکی نے اس کا کان دھیرے سے پکڑا اور چھوڑ دیا۔ مطالعے کا کمرہ دوبارہ آباد ہو گیا تھا۔

    ’’Maths کے پرچے کے دوران آپ کی بہت یاد آئی نِکی باجی۔۔۔ وہ آخری پرچہ تھا نا۔۔۔ آپ اس سے پچھلی شام کو گھر جاچکی تھیں تو میں۔۔۔ میں۔۔۔‘‘ اس نے سر جھکا لیا۔ الٹے ہاتھ پر ٹپ سے ایک آنسو گرا۔

    تین چار سال سے لگاتار چلتا آ رہا تناؤ۔ اس سال بھی زوروں پرتھا۔ ہر خطۂ زمیں کی طرح اس وادی نے بھی اپنے حصے کے اتار چڑھاؤ جھیلے تھے۔

    چاہے ہزاروں برس راج کرنے والے ہندو راجاؤں کے دور میں یا طلوع اسلام کے بعد ایک ہی خاندان کے سلاطین کشمیر کی سینکڑوں برس کی حکومت میں، یا پھر سلطان زین العابدین کے بعد خانہ جنگیوں سے نجات دلانے والے چک بادشاہوں کے دور میں، ہر بدلتے منظر نامے نے تاریخ کے پنوں پر سرخ حاشیے کھینچے۔ مگر اس بار ایک عجیب سی بےچینی تھی جو کسی طرح قرار نہیں پا رہی تھی۔۔۔ اور زندگی پھر بھی رواں تھی۔

    ’’اس بار سب محنت کریں گے۔۔۔ خود میرا بارہویں کا Exam ہے۔۔۔ اور وہ بھی سائنس۔۔۔ ماماں سنتی ہی نہیں میری بات۔۔۔ مجھے بھی محنت کرنا ہے بہت۔۔۔‘‘

    نکی نے ناک سکیڑ کر گردن ٹیڑھی کر کے کہا۔

    ’’آپ ڈاکٹر بنیں گی۔۔۔ نکی باجی۔۔۔؟یوسف دھیمی آواز میں بولا۔

    ’’اور کیا۔۔۔ سب ہی پیچھے پڑے ہیں میرے۔۔۔ میں تو آرٹس پڑھنا چاہتی ہوں۔۔۔ چاہتی تھی۔۔۔‘‘

    ’’اور؟ میں۔۔۔ کیا کروں گا نِکی باجی۔۔۔؟‘‘ اُس کی آواز میں افسردگی سی تھی۔

    اس نے بال پوائنٹ کا پچھلا حصّہ دانتوں میں دبا رکھا تھا اور جھکے ہوئے سر اور اٹھی ہوئی نظروں سے نکی کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔

    ’’تم کچھ اچھے مارکس لاتے تو تمھارا ایڈمیشن کامرس میں تو ہو ہی جاتا۔۔۔ اب بھی اگر تم محنت کرو اور اگلے سال بارہویں میں اچھے نمبرات لے آؤ تو کالج میں تم کامرس لے سکتے ہو۔ پھر MBA وغیرہ کر کے تمھارا کریئر۔۔۔‘‘

    ’’میں ویسے بھی ابو کا سارا کاروبار سنبھالنے والا ہوں۔۔۔‘‘ وہ جیسے بے خیالی میں بولا۔

    ’’مگر Qualified ہو کر سنبھالو گے تو پڑھے لکھے کہلاؤ گے۔۔۔ سب کی نظروں میں۔۔۔ تم محنت کرنا نا۔۔۔‘‘

    نکی اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر قلم اس کے منھ سے نکال کر اس کے ہاتھ میں دے دیا۔

    ’’ورنہ پھر۔۔۔ جانے نکی باجی کہاں ہوں۔۔۔ اور آپ کہاں ہوں۔‘‘

    یاور نے پریشان سے لہجے میں دونوں کو باری باری دیکھ کر کہا۔۔۔ دونوں اسے خاموش دیکھتے رہ گئے۔ وہ دوبارہ اپنی نوٹ بُک پر جھک گیا تو ان دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ کچھ سیکنڈ یا کچھ منٹ یوں ہی گزر گئے۔ پھر نکی سر جھکا کر اپنی کتاب کو دیکھنے لگی۔

    ’’میں محنت کروں گا۔۔۔ نکی باجی۔۔۔‘‘

    یوسف نے خالی خالی سی آواز میں کہا۔

    ’’یوسف بھائی بول تو ایسے رہے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں میں محنت کیسے کروں نکی باجی۔۔۔ میرے پاس اچھے کاموں کے لیے وقت ہی کہاں ہے۔‘‘

    باہر شور مچاتی ہوئی ہوا چلنے لگی۔ برآمدے کی طرف کھلنے والے بھورے رنگ کے دروازے پر ٹیپسِٹری کا سفید اور بھوری بیلوں والا پردہ پھو ل کر کپا ہو گیا۔

    ’’کیوں نہیں کریں گے۔۔۔ محنت۔۔۔‘‘ وہ کھوئے ہوئے لہجے میں بولی۔

    ’’اور کیا۔ جانے ہر وقت کیا سوچتے رہتے ہیں۔۔۔ جانتی ہیں نکی باجی۔۔۔ پچھلے سال Exam کے دنوں میں بغیر پڑھے پاس ہوئے ہیں یہ۔۔۔ آپ تو سونے چلی جاتی تھیں۔۔۔ یہ میرے ساتھ یہیں پڑھتے تھے نا۔ پڑھتے کیا تھے بس۔۔۔ یوں ہی۔۔۔ ایک دن آدھی رات تک آپ کا Side Pose بنانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔۔۔ نہیں بنا پائے تو کاغذ پھاڑ کر تھوڑا سا روئے۔ اس کے بعد کتاب ہاتھ میں لی۔ اسے غور سے دیکھنا شروع ہی کیا تھا کہ۔۔۔ سو گئے۔۔۔ ہاہا۔۔۔ ہی ہی ہی۔۔۔‘‘

    اس دوران نکی چپ چاپ نوٹ بک کی ورق پلٹتی رہی۔ اس نے دفعتاً بالکنی کی طرف دیکھا۔

    ’’آج برف گرےگی۔۔۔ یاور۔۔۔ یہ دونوں تکیے دروازے کے ساتھ لگا دو۔۔۔ اف کتنی زوروں کی ہوا چل رہی ہے۔‘‘

    ’’پردہ پھولتا ہے تو الٰہ دین کا جن لگتا ہے۔ ہے نا۔۔۔ یوسف بھائی۔‘‘

    اس رات جھیل ڈل میں واقع دو جزیروں میں سے ایک جزیرے کے بیچ ایستادہ چار چناروں کے درمیان دیودار کی لکڑی کے خوبصورت ریستوراں میں کسی نے آگ لگا دی تھی۔ سڑک کے اس پار سرکاری مڈل سکول کی عمارت بھی جل رہی تھی۔

    ’’کرفیو لگا رہا تو کہیں ہمارے Exams اب Postpone ہی نہ ہو جائیں۔‘‘ یوسف نے کتاب کو دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’یوسف بھائی، آپ کی آواز سے کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ آپ کو تشویش ہو رہی ہے یا آپ امید کر رہے ہیں۔۔۔‘‘ یاور نے بغیر سر اوپر کیے کہا۔ یوسف ہلکے سے مسکرا دیا تھا اور نکی کچھ اونچی آواز میں ہنسی تو اس کی یوسف کے زاویئے سے نظر آنے والے کان کی بالی جھِل مِل کرتی ہلنے لگی۔ پھر اس نے سر جھکا لیا۔

    ’’ایسے تو وقت ضائع ہوگا۔۔۔‘‘ نکی نے کہا اور کچھ فکرمند سی نظر آنے لگی۔

    ’’کچھ دن اور پڑھ لیں گے نا۔۔۔‘‘ یوسف نے آہستہ سے کہا۔

    باہر ایک زور کا دھماکہ ہوا اور اوپر ٹین کی چھت کے نیچے، پتے ہوئے فرش پر مشرق کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے دو شیشے چھناک سے ٹوٹ کر گرے۔ نیچے کمرے میں تینوں طالب علموں نے بیک وقت اوپر سیلنگ کی طرف دیکھا۔ لکڑی کے یکساں جسامت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے جوڑ کر بنائے گئے بے شمار دائروں والی ہشت پہلو ختم بند سیلنگ پر بھورے رنگ کا وارنش ہلکا سا چمک رہا تھا۔

    ’’چھت پر شیشہ ٹوٹا ہے کوئی۔۔۔‘‘ یاور سیلنگ کی طرف دیکھتا رہا۔

    ’’کسی نے کھڑکی کھلی رکھ چھوڑی ہوگی۔۔۔‘‘ اس نے یوسف کی طرف دیکھا۔

    ’’بتا دوں کیا۔۔۔ یوسف بھائی۔۔۔ نکی باجی کو۔۔۔‘‘ یاور نے کہا تو یوسف کے چہرے کا رنگ پل بھر کو بدلا۔ اور پھر اس نے واپس اپنے چہرے پر نارمل سے تاثرات لاتے ہوئے کھڑکی کے شیشے سے باہر نظر جما دیں۔ جہاں سفیدے کے درختوں کی چوٹیاں نظر آ رہی تھیں، جنہوں نے ہریالی جھٹک کر برف اوڑھ لی تھی۔

    ’’درخت ایسے نہیں نظر آ رہے جیسے مردے کفن اوڑھ کر کھڑے ہو گئے ہوں۔‘‘ یوسف نے قہقہہ لگایا۔

    ’’بات کیوں ٹال رہے ہیں یوسف بھائی۔۔۔ چھت کی پچھلی کھڑکی کے پاس ابھی بھی کرسی پڑی ہے۔۔۔ جس پر بیٹھ کر جناب چاند کو دیکھ دیکھ کر۔۔۔ سگریٹ۔۔۔‘‘ یاور نے نکی کی طرف دیکھا۔

    ’’سگریٹ۔۔۔‘‘ نکی کانپ سی گئی۔ یوسف نے مجرموں کی طرح سر جھکا لیا اور ہاتھ میں پین لیے کتاب کے چھپے ہوئے حصے کے اطراف سکیچ بناتا رہا۔ کناروں کے قریب ابھی کافی جگہ بچی ہوئی تھی جہاں وہ مزید کچھ چیزیں بنا سکتا تھا۔

    ’’پرابلم کیا ہے تمہاری۔۔۔ یوسف۔۔۔؟‘‘ نکی نے ماتھے پر بل ڈال کر کہا۔ اس کے لہجے میں غصے سے زیادہ حیرت اور بیچارگی عیاں تھی۔

    ’’اگر آپ مجھ سے چھوٹی ہوتیں نکی باجی تو کیا ڈانٹتیں مجھ کو۔۔۔؟یہ بھی تو ایک پرابلم ہے۔ میں اگر آپ سے بڑا ہوتا تو میرا Future پہلے طے ہو جاتا۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘ یوسف کی بات ادھوری رہ گئی کہ نئے آئے ملازم نے ہتھیلی سے زور زور سے کواڑ کھٹکھٹایا۔

    ’’بی بی جی کھانے کے لیے بلاتا۔۔۔‘‘ وہ بڑی بشاشت سے ٹوٹی پھوٹی اردو بولا۔

    ’’تو کیا ہوتا مستقبل کا پتہ چل جانے سے۔۔۔‘‘ نکی نے گردن خم کی۔

    ’’اصل میں نکی باجی، ان کو لگ رہا ہے کہ آپ آگے آگے بھاگ رہی ہیں اور یہ پیچھے بھاگتے ہوئے گِر گِر کر اٹھ رہے ہیں۔۔۔ آپ Distinction لا رہی ہیں اور یہ بمشکل پاس ہو پاتے ہیں۔۔۔ خدانخواستہ کہیں فیل ہو گئے۔۔۔ تو۔۔۔ پھر۔۔۔‘‘

    ’’تو پھر۔۔۔ اور چھوٹا ہو جاؤں گا آپ سے۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔ میرا دل۔۔۔ ہی نہیں لگتا۔۔۔ پڑھنے میں۔۔۔‘‘

    ’’اب زیادہ فلسفہ مت جھاڑو۔۔۔ پچھلے سال 10th تک تو اوّل آتے تھے۔۔۔ اصل میں مجھے ہی پڑھانا نہیں آتا۔۔۔ میں اب تم لوگوں کو۔۔۔ آج کے بعد۔۔۔‘‘ یاور نے جھٹ سے کتاب بند کی۔

    ’’ نہیں نہیں نکی باجی۔۔۔ یوسف بھائی کی غلطی کی سزا مجھے کیوں۔۔۔ میں تو نہایت شریف آدمی ہوں۔۔۔ محنتی بچہ ہوں۔۔۔ اچھا بچہ۔۔۔‘‘

    ’’بالکل، بالکل اس میں کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں۔‘‘ یوسف نے ہاتھ بڑھا کہ اس کا پہلو گدگدایا تو انگڑائی کے لیے اٹھی ہوئی باہیں گِرا کر وہ زور سے ہنسا۔

    امتحان ختم ہوئے تو نِکی نے بے شمار صفحے سیاہ کر دیئے۔

    کالی کالی یہ تقدیر نیلی نیلی وہ آنکھیں

    یا

    خواب میرے ہیں کتنے ہر جائی

    تیری آنکھوں میں جا کے رہنے لگے

    وغیرہ قسم کے۔۔۔ اور نہ جانے اور کیا کیا۔

    اس دن سورج کی کرنیں چمکیلے آسمان سے ہوتی ہوئی باغیچے میں گر رہی تھیں۔ ٹین کی، ڈھلوان ساخت کی چھت سے برف پگھل پگھل کر بوندیں بن ٹپکتی رہی۔ ہوا کچھ تیز چلنے لگتی تو یہ بوندیں زمین پر گرنے سے پہلے جم جم جاتیں اور فقط کوئی مہین سا قطرہ گرتا، باقی پانی کی مخروطی نلیوں کی صورت رہ جاتیں۔

    اونچی دیوا رکے باہر سرکاری مکانوں کی قطاروں کے درمیان بنے چھوٹے سے راستے پر بچے سائیکل چلا رہے تھے۔ آج کرفیو نہیں تھا۔ نکی دھوپ میں بیٹھی اخبار دیکھ رہی تھی۔ اس کی ماں تبسم بیگم بھی آئی ہوئی تھیں اور تنویر خالہ کے ساتھ بیٹھی ساگ چن رہی تھیں۔ گیٹ پر گاڑی رکنے کی آواز آئی۔

    ’’ڈرائیور آ گیا۔۔۔ بازار ہو آئیں ذرا۔۔۔ ابھی تین گھنٹے کرفیو نہیں لگےگا۔‘‘

    تنویر بیگم گیٹ کی طرف پلٹ کر بولیں۔ جہاں ڈرائیور نہیں یوسف ہاتھ میں چابی لیے اندر داخل ہوا۔

    ’’ارے۔۔۔ میرے بچے۔۔۔ اٹھارہ کاتو ہو جا پہلے۔۔۔‘‘ تنویر بیگم کے چہرے پر پریشانی تھی۔

    ’’اتنی اچھی تو چلاتا ہوں چچّی۔۔۔ پھر میں نے تو کالونی کے اندر ہی ڈرائیو کیا نا۔۔۔‘‘ وہ مؤدبانہ بولا۔

    ’’اللہ اپنی حفاظت میں رکھے۔۔۔ تمھیں۔۔۔‘‘ وہ دوبارہ ساگ چننے لگیں۔

    ’’پھر میں اٹھارہ سے کم لگتا ہوں کیا۔۔۔‘‘ اس نے نکی کے قریب جا کر اخبار اٹھاتے ہوئے تنویر بیگم کے پاس بیٹھ کر کہا۔

    ’’نہیں۔۔۔ ماشاء اللہ وہ بات نہیں بیٹا۔۔۔ مگر پھر بھی تمھیں۔۔۔‘‘ تنویر بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

    ’’جو بات غلط ہے۔۔۔ وہ غلط ہے۔ ٹھیک کہتی ہیں تنویر۔۔۔‘‘ نکی کی ماں نے ساگ کے بڑے سے ہرے ہرے پتے پر سے ہرے رنگ کا چھوٹا سا رینگنے والا کیڑا اٹھا کر باغیچے کی سوکھی گھاس والی بھیگی زمین پر پھینکا۔ دیوار پر سے ایک مینا نیچے اڑ آئی اور کیڑے کو چُگ کر پھر اوپر کی طرف اڑ گئی۔

    ’’اوئی۔۔۔ ماماں۔۔۔‘‘ نکی نے جھرجھری سی لے کر ماں کا چہرہ دیکھا۔

    ’’مطلب۔۔۔؟‘‘ تبسم بیگم کی تیوری چڑھ گئی۔

    ’’ڈرتی ہو۔۔۔؟ کیڑوں سے۔۔۔؟‘‘ تبسم بیگم نے حیرت، حقارت اور تشویش کو نہایت کمال سے اپنے لہجے میں شامل کر لیا تھا۔ ان کے نتھنے پھول گئے تھے۔

    ’’تم Frog کو Dissect کرتی ہو Lab میں۔۔۔؟‘‘ انھوں نے آنکھیں پھیلا کر منھ ادھ کھلا چھوڑ دیا۔

    ’’کل کو Human Body کو کیسے Dissect کروگی تم۔۔۔ بولو۔۔۔؟‘‘

    انہوں نے سر پکڑ لیا۔

    ’’میری امیدوں پر پانی پھیر دو گی۔۔۔ میرا ادھورا خواب پورا نہیں کرے گی یہ لڑکی۔۔۔ یہ ڈرپوک لڑکی۔۔۔ مجھے پہلے ہی خدشہ تھا اس کی طرف سے۔۔۔‘‘ انھوں نے تنویر بیگم کی طرف دیکھ کر آواز میں دکھ بھر کر کہا اور جلدی جلدی پلکیں جھپکنا شروع کیں، گویا آنسو پی رہی ہوں۔ پھر سر کو مزید جھکا کر ساگ بیننے لگیں۔ سب انہیں خاموش دیکھتے رہے۔

    ’’نہیں۔۔۔ ماماں۔۔۔ جو آپ کہیں گی۔۔۔ میں وہی کروں گی۔‘‘ نکی روہانسی ہو کر بولی۔ یوسف نے اخبار کا صفحہ پلٹا۔

    اگلے برس جس دن برفانی طوفان نے بہت سے درختوں اور کئی مکانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اُس دن تک اور بہت سی تبدیلیاں ہو چکی تھیں۔

    امتحانوں کے نتائج آ چکے تھے۔ یاور اچھے نمبروں سے پاس ہو کر نئی جماعت میں آدھا برس گذار چکا تھا۔ یوسف فیل ہو گیا تھا اور اس کے گھر والے اس سے نالاں تھے۔ نکی ماماں کی نگرانی میں Entrance کی تیاریوں میں مصروف تھی۔

    پڑھنے کے کمرے میں یوسف اور یاور رہ گئے تھے۔

    ’’نکی باجی کو یہاں بیٹھ کر کتنا اچھا لگتا ہوگا۔‘‘ یاور نکی کی جگہ تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔

    ’’تم اپنی جگہ بیٹھو نا۔۔۔ بڑوں کی جگہ نہیں بیٹھتے۔۔۔ اگر اس وقت نکی باجی آ گئیں تو کیا سوچیں گی کہ میری جگہ بیٹھ گیا ہے یاور۔۔۔ شاید نہیں چاہتا کہ میں کبھی آکر پھر اس جگہ بیٹھوں۔‘‘ یوسف نے اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھتے ہوئے آہستہ سے کہا تو یاور اچھل کر اپنی نشست پر پہنچ گیا جیسے اس کی نکی باجی آ ہی گئی ہوں۔

    ’’ارے باپ رے۔۔۔ Sorry یوسف بھائی۔۔۔‘‘

    یوسف لمبے سے رجسٹر پر جھک گیا۔

    نکی کے بائیں کان کی بالی جھل مل کرنے لگی۔

    بالوں کی لٹ نے آدھا رخسار چھپا لیا۔

    نکی دانتوں میں قلم دبائے، پھولوں والے ہیئر بینڈ میں بال سمیٹ رہی ہے۔

    رجسٹر کے تین صفحوں پر حساب کا ایک ہی سوال حل کیا گیا ہے۔ ایک سیاہ روشنائی سے۔۔۔ نکی کے ہاتھوں۔ دوسرے دو صفحوں پریہ ہی سوال یوسف نے حل کرنے کی کوشش کی ہے جس پر نکی نے سرخ قلم سے تصحیح کی ہے۔ صفحے کے کنارے پہ دو آنکھیں بنی ہیں۔ ابھی ابھی یوسف نے پنسل سے بنائی ہیں۔ کالی کالی پتلیوں والی دو آنکھیں۔

    نیلی آنکھوں میں پانی تیر رہا ہے۔۔۔ اگر پلک جھپک دی گئی تو۔۔۔ آنسو چہرے پر اگی چھوٹی چھوٹی داڑھی میں سے ہوتا ہوا گردن پر بہہ نکلےگا۔۔۔ اور کہیں یاور دیکھ لے تو۔۔۔ اس کا دل اُداس ہو جائےگا۔

    لیکن یاور نے یوسف بھائی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ لیے تھے۔

    مختصر سی غلام گردش میں یاور کی باتوں کی آواز گونجی تو زینے پر نکی کے تیز تیز اٹھتے ہوئے قدمو ں کی آواز اور کپڑوں کی سرسراہٹ سنائی دی۔ وہ باورچی خانے سے نکل کر آتی ہوئی ماں سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔

    ’’Sorry Maama‘‘

    ’’ابھی چوٹ لگ جاتی تو؟ کل آخری پرچے کے دن تم۔۔۔‘‘

    ’’تو Rest کر لیتی ماماں۔۔۔ میری ساری Preparation تو ہو چکی ہے آج تو میں کئی گھنٹے کی نیند بھی Afford کر سکتی ہوں۔۔۔ یہ جناب کدھر سے راستہ بھول گئے۔۔۔‘‘ وہ مسکراتی ہوئی بولتی چلی گئی۔

    ’’اللہ نے میری سن لی۔۔۔ خالہ۔۔۔‘‘ یاور نے تبسم بیگم کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ نکی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ ابروؤں کے درمیان ایک لکیر کھنچی تھی۔ تبسم بیگم اس کی طرف پلٹیں تو وہ نکی باجی کو دیکھنے لگا۔

    ’’اسلام و علیکم نکی باجی۔۔۔ آنکھوں کے گرد کے گڈّھے بتا رہے ہیں کہ خوب پڑھائیاں ہو رہی ہیں۔۔۔ بلکہ ہو چکی ہیں۔۔۔ کچھ اپنا یہ چھوٹا سا بھائی بھی یاد ہے۔۔۔ کل میرا Maths کا Exam ہے۔۔۔‘‘ وہ فکرمند نظر آنے لگا۔

    ’’صرف ایک گھنٹہ چاہئے آپ کا نکی باجی۔۔۔ آپ اپنی books لے چلئے۔۔۔ وہیں Revise کر لیجئےگا۔۔۔‘‘ وہ تبسم بیگم کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔

    ’’خالہ آج نکی باجی کو بھیج دیں میرے ساتھ۔۔۔ قسم سے بالکل کچھ نہیں آتا مجھے۔۔۔ فیل ہو جاؤں گا خالہ۔۔۔ رہی سہی عزت خاک میں مل جائےگی۔‘‘

    ’’چپ۔۔۔ بدمعاش کہیں کا۔۔۔ تو تو ماشاء اللہ خود قابل لڑکا ہے۔ ا س کا تو بیٹا Last۔۔۔‘‘

    ’’خالہ آپ یقین کریں یہ آٹھویں درجے کا Maths اس قدر مشکل ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا اور پھر نکی باجی بے چاری جیسے قید با مشقت کاٹ رہی ہیں۔ ان کی بھی کچھ Outing ہو جائےگی۔۔۔ امّی نے تاکید کی تھی خالہ۔۔۔ کہ نکی باجی کو کچھ روز کے لیے ساتھ لے آؤں۔۔۔ امی نے انھیں خواب میں دیکھا تھا۔۔۔ یاد کر کے تڑپ رہیں تھیں۔۔۔ آپ کو میرے سر کی قسم خالہ۔۔۔‘‘

    یاور نے تبسم بیگم کا ہاتھ جھٹ اپنے سر پر رکھ لیا۔

    تنویر بیگم نے نکی کو گلے سے لگایا تو وہ ان کی باہوں میں جیسے غائب سی ہو گئی۔

    ’’میری بچی۔۔۔ میری جان۔۔۔ یہ کیا مصیبت ہے یہ Entrance۔ اف ننھی سی جان۔۔۔‘‘

    نکی ان کے سینے سے لگی رہی۔ تنویر خالہ کے پیچھے کوئی چھ قدم کے فاصلے پر ادھ کھلے دروازے کی دہلیز میں کھڑے یوسف کے چہرے پر مبہم سی مسکراہٹ تھی۔ خالہ کے کندھے کے اوپر سے ہو کر نکی کی نگاہیں جب اس سے ملیں تو وہ کمرے کے اندر چلا گیا۔ پھر دبیز سرخ قالین پر دو قلابازیاں کھائیں اور نکی کی نشست کے تکیے کا غلاف درست کرنے لگا۔

    اس رات ساتویں کے چاند کی پھیکی چاندنی میں ٹین کی چھت والا مکان ہلکی ہلکی چمک بکھیرتا پرسکون سو رہا تھا۔

    صرف پڑھنے کا کمرہ روشن تھا۔

    یاور پڑھتے پڑھتے حساب کی کاپی پر رخسار رکھ کر سو گیا۔

    ’’صرف دس منٹ تک آرام کر سکتے ہو۔۔۔ تم؟نکی نے اس کا سر سہلاتے ہوئے کہا۔ اس نے دھیرے سے آنکھیں نیم وا کیں اور پھر موند لیں۔

    ’’پھر دو آخری سوال۔۔۔ اور چھٹی۔۔۔ تمہاری تیاری مکمل ہے۔۔۔‘‘ وہ بولی۔ یاور نیند کے جھونکوں کے درمیان ایک پل کو ہلکے سے مسکرایا اور دوسرے پل کمرے میں اُس کے چھوٹے چھوٹے خراٹے گونجنے لگے۔

    وہ دونوں اسے چپ چاپ دیکھتے رہے ان کے چہروں پر بھی ایک پرسکون سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔

    ’’اب۔۔۔ کیا کرو گے۔۔۔ یوسف۔۔۔‘‘ نکی کا چہرہ اداس ہو گیا۔

    ’’اب کیا ہوگا۔۔۔ نکی باجی۔۔۔ اب کیا ہو سکتا ہے۔۔۔ آپ۔۔۔ آپ۔۔۔‘‘ دور کہیں مشین گن نے لگاتار کئی گولیاں برسائیں۔

    باغیچے میں ایستادہ سفیدے کے درختوں میں کوّے یہاں وہاں اُڑ کر کائیں کائیں کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد ماحول پر دوبارہ سکوت چھا گیا۔

    ’’میں اور پیچھے رہ گیا نکی باجی۔۔۔ ہم ساتھ نہیں چل سکیں گے نا۔۔۔ اب۔۔۔ اور کوئی راستہ نہیں نا۔۔۔ اب اور کچھ نہیں ہو سکتا نا۔۔۔ ہے نا۔۔۔ نکی باجی۔۔۔‘‘

    یوسف کی آواز کا کرب واضح ہو گیا تھا۔ نکی نے سر بہت زیادہ جھکا لیا تھا۔ وہ سوئے ہوئے یاور کے بالوں میں انگلیاں پروتی رہی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ بہہ کر اس کے حلق کے قریب دوپٹے میں جذب ہوتے گئے۔

    ’’آپ کچھ نہ بولیں گی نکی باجی۔۔۔ میں جانتا ہوں۔۔۔‘‘ اس کی تھکی ہوئی آواز میں شکوہ ہی شکوہ تھا۔

    ’’مگر میں بھی۔۔۔ نہیں رہوں گا۔۔۔ نکی باجی۔۔۔‘‘ اُس کی آواز یکایک تیز ہو گئی۔

    ’’چلا جاؤں گا۔۔۔ میں۔۔۔‘‘ آواز پھر مدھم ہو گئی تھی۔ نکی نے سر اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ پریشان پریشان سے چہرے پر ویران ویران سی آنکھیں۔ چھوٹی چھوٹی مونچھیں۔ داڑھی کچھ گھنی ہو گئی تھی۔ اتنی کہ سرخ و سفید چہرے پر ایک سیاہ حاشیہ بنا کر اسے مزید خوش شکل بنا رہی تھی۔

    آنسو بہہ نکلے تھے۔

    ’’چلا جاؤں گا۔۔۔ دور۔۔۔ آپ سے۔۔۔ اتنا دور کہ۔۔۔ کہ۔۔۔‘‘ اس نے دبی دبی سی ہچکی لی۔ نکی نے بے اختیار اپنے گلے پر ہاتھ رکھ دیا۔ جیسے اس کا دم گھٹنے لگا ہو۔

    ’’نہیں۔‘‘ وہ آواز کی لرزش پر قابو پانے کی کوشش کرتی رہی۔

    ’’نکی باجی میں۔۔۔ ملِٹنٹ بن جاؤں گا۔۔۔ دنیا چھوڑ دوں گا۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ پاگل ہو گئے ہو کیا۔۔۔ یہ سب کیا کہہ رہے ہو۔‘‘ نکی تڑپ کر بولی اور اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی۔

    ’’تم تنویر خالہ سے۔۔۔ اگر بات کرو۔۔۔ تو۔۔۔ وہ ہم دونوں کو کتنا عزیز رکھتی ہیں۔‘‘ نکی نے دوپٹے سے آنکھیں خشک کیں۔ اور ٹھہر ٹھہر کر کہا۔

    ’’ماماں کو سمجھا سکتی ہیں۔۔۔ ہیں نا؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ شاید۔۔۔ شاید۔۔۔‘‘ بجھی بجھی آنکھوں میں امید کی قندیل سی روشن ہوئی۔

    جس دن نکی کی ماں نکی کی کامیابی کی خوشیاں منا رہی تھی۔ اُس دن نکی پتھر کی طرح خاموش ہو گئی تھی۔

    اسی دن یوسف نے تنویر خالہ سے با ت کی تھی۔ اور تنویر خالہ کچھ لمحوں تک کچھ بھی نہ بولی تھیں۔ یوسف کے چہرے کو دیکھتی رہ گئی تھیں کہ کہیں وہ مذاق تو نہیں کر رہا۔ مگر اس کے چہرے پر ایسی سنجیدگی تھی کہ تنویر بیگم خود کو بے بس سا محسوس کرنے لگیں۔ لیکن پھر اس کے سرپر ہاتھ پھیر کر مسکرائیں۔

    ’’وہ تو تمہاری بڑی بہن ہے بیٹا۔۔۔ مذاق کرتے ہو اپنی چچی سے۔؟وہ بھی ایک بےجوڑ سی بات کے لیے۔ اس کی ماں۔ میری زبان سے کہیں ایسا سن لے۔ تو مجھے زندگی بھر معاف نہ کرے۔ جانتے ہو تم ان کا مزاج۔۔۔‘‘ انھوں نے چولہے پر چڑھی نمک والی چائے سے بھرے تانبے کے گول پیندے والے پتیلے میں ذرا سا جھانکا۔ اور چائے کا رنگ جانچنے کے لیے تانبے کے لمبے دستے والا کفگیر، پتیلے میں گھمانے کے بعد اس میں چائے بھر بھر کر واپس ڈالتی رہیں۔ جالی والے دستے کے اندر پڑی کنکریاں، اوپر نیچے ہونے سے چھن چھن بجنے لگیں۔ کفگیر پتیلی کے کناروں پر ٹکا کر تبسم بیگم ریفریجریٹر کی طرف دودھ لینے کو بڑھیں۔ اس دوران انھوں نے یوسف کی طرف نظر نہیں اٹھائی۔

    ’’جانتی ہوں میرا بیٹا مجھے ایسے امتحان میں کبھی نہیں ڈالےگا۔‘‘ انھوں نے دودھ کے ساتھ چائے کی پیالیوں میں ڈالنے کے لیے بالائی کی کٹوری نکالی اور یوسف کی طرف نگاہ ڈالی۔ وہ دیوار سے لگا انھیں ہی دیکھ رہا تھا۔

    ’’بیٹھو میں چائے لا رہی ہوں۔۔۔‘‘ انھوں نے مسکرا کر کہا۔ اور ملازم کو دسترخوان بچھانے کے لیے آواز لگائی جو گھر کے پچھواڑے باڑی میں پتہ گوبھی کے لمبے پتے توڑ توڑ کر رات کے کھانے میں بننے والے کسی سالن کے لیے بید کی ٹوکری میں جمع کر رہا تھا۔

    تنویر بیگم جب ملازم کو آواز لگاکر کھڑکی سے پلٹیں تو دیکھا کہ یوسف جا چکا ہے۔

    کہتے ہیں وہ رات قیامت کی رات تھی۔ اندرونِ شہر، ہر گھر میں چھاپے پڑے تھے۔

    خطاوار دھماکے کر کے غائب ہو گئے تھے اور بے گناہوں کو غالباً غلط مخبری کی وجہ سے دھڑادھڑ پکڑ کر کسی نامعلوم منزل کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔

    ہوسٹل سے چھٹیوں میں گھر لوٹے دو بھائیوں کو ان کے والدین کے سامنے دہشت گردی کے الزام میں گولیاں ماردی گئی تھیں۔ غصے یا غلط فہمی یا کسی اور انجانی وجہ سے۔

    رہ رہ کر انسانی چیخیں کانوں میں پڑتیں تھیں۔ اس رات شہر میں شاید ہی کوئی سویا تھا کہ موت کے آنے کے ڈر کے ساتھ ساتھ عزت کے جانے کا خوف بھی تھا۔

    تنویر بیگم کے وہاں سے نکل کر یوسف اسی سڑک پر چل رہا تھا جہاں چوراہے کا ایک راستہ جھیل کی طرف جاتا تھا۔ ایک پہاڑی کی طرف۔ ایک شہر کے اندر والے علاقے کی طرف اور ایک نکی کے گھر کی طرف۔

    اس سڑک سے گزرتے ہوئے اس کی رفتار غیر ارادی طور پر دھیمی ہو گئی۔

    بےاختیار نگاہیں داہنی جانب ڈھلان کی طرف اٹھ گئیں۔ بغیر گونجے ایک آواز سماعت تک آ گئی۔

    تمھیں موت کے سناٹے میں زندگی کی باتیں کیسے سوجھتی ہیں یوسف۔

    آج سے زندگی کی بات نہیں کروں گا نکی باجی۔۔۔

    کاش اس دن کوئی بندوق تان دیتا۔۔۔ ہم پر۔۔۔ کتنی پرسکون۔۔۔ کتنی حیات بخش موت ہوتی۔۔۔ میں یوں۔۔۔ زندگی سے بھاگ۔۔۔ نہ رہا ہوتا۔۔۔ مگر اب مجھے بھاگنا چاہیے یہاں سے۔۔۔ مجھے۔۔۔ بھاگنا۔۔۔ چاہیے۔۔۔ نِکی باجی۔۔۔ میں دور جا رہا ہوں آپ سے۔۔۔ بہت دور نکی باجی۔۔۔ بہت دور۔۔۔

    اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔۔۔ ڈھلان کے اس طرف کنارے پر اُگی گھاس سوکھ کر بےرنگ ہو گئی تھی۔

    وہ بھاری بھاری قدم اٹھاتا ہوا طویل سڑک پر چلا جا رہا تھا۔ راستے میں کہیں کہیں دوکانیں تھیں جو بند ہو رہی تھی۔

    ابھی تو اندھیرا بھی نہیں ہوا۔۔۔ تو پھر۔۔۔ دکانیں کیوں بند۔۔۔

    ہوا کریں۔ اسے کسی سے کوئی مطلب نہیں۔ اس نے کچھ اور قدم آگے بڑھائے ہی تھے کہ سائرن کی تیز آواز کانوں سے ٹکرائی۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا بس یوں ہی بےخیالی میں شاید۔ سڑک ویران تھی اور تمام دکانیں بند ہو چکی تھیں۔ سائرن کے بعد لاؤڈ سپیکر پر کوئی اعلان ہوا۔ آواز دور سے آ رہی تھی۔ وہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ سڑک ایک موڑ پر مڑ گئی۔ کچھ فاصلے سے بکتر بند گاڑیاں آتی دکھائی دیں۔ وہ ویسے ہی چلا جا رہا تھا۔

    میں۔۔۔ جا رہا۔۔۔ ہوں۔۔۔ نکی باجی۔۔۔ میں۔

    دفعتاً موڑ پر بائیں جانب کو بستی کے اندر جاتی ہوئی کچی سڑک پر کسی نے اس کا بازو پکڑ کر اسے اندر گلی میں کھینچ لیا۔

    ’’کہاں جا رہے ہو۔۔۔ کرفیو میں۔۔۔ پاگل ہو کیا۔۔۔؟‘‘ ایک داڑھی والا نوجوان تھا۔ اُس کے ساتھ تقریباً یوسف کی عمر کا ایک لڑکا تھا جس نے دونوں ہاتھوں میں گیندیں سی تھام رکھی تھیں۔ داڑھی والے نوجوان کے پا س ایک تھیلا تھا۔ جس میں کچھ سامان تھا۔ اس نے وہ تھیلا اُسی زینے پر رکھا تھا جہاں اس نے یوسف کو کھینچ کر بٹھا دیا تھا۔ زینہ کسی مکان کے پچھواڑے سے ملحقہ تھا جو ایک تنگ گلی میں کھلتا تھا۔ اس سے پہلے کہ یوسف کچھ کہنے کے لیے زبان کھولتا، اس نے دیکھا کہ موڑ کے قریب پہنچنے سے بہت پہلے، اس کا ہم عمر لڑکا گاڑیوں کی طرف دوڑا اور دو گاڑیوں کو اپنی گیندوں کا نشانہ بنا کر ایک اور گلی کی طرف بھاگا۔۔۔ داڑھی والے نوجوان نے کانوں پر ہاتھ دھر لیے۔ فلک شگاف دھماکہ ہوا۔

    ’’اِنا للّٰہ و اِنا الیہ راجعون۔‘‘ نوجوان زیر لب بولا۔

    ’’کک۔۔۔ کک۔۔۔ کیا ہوا؟‘‘ یوسف بری طرح گھبرا گیا تھا۔

    ’’شاہباز شہید ہو گیا۔۔۔ وطن پر۔۔۔ قربان ہوا۔۔۔ دین پر قربان ہوا۔۔۔‘‘

    نوجوان نے با رعب سی آواز میں کہا۔ اور آسماں کی طرف اڑ رہے سیاہ دبیز دھوئیں کو دیکھنے لگا۔

    ’’آقا۔‘‘ شاہباز اسی لمحہ گلی میں نمودار ہوا تھا۔

    ’’تم۔۔۔ تم۔۔۔ شہید نہیں ہوئے۔۔۔؟‘‘ وہ تعجب اور تاسف سے بولا۔

    ’’نہیں۔۔۔ آقا۔۔۔‘‘ شاہباز نے سر جھکا دیا۔

    ’’کیوں بدنصیب۔۔۔‘‘ اس نے داہنا ہاتھ ہوا میں اوپر سے نیچے کو لہرایا۔

    ’’باقی کی Convoy بہت دور تھی۔۔۔ میں کس پر کودتا۔۔۔‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔

    ’’آہ بدبخت۔۔۔ کیا اسی دن کے لیے ہم نے تمھیں شاہ باز کا خطاب دیا تھا۔ جب تک گاڑیاں سامنے آتیں خود دوڑ کر قریب چلے جاتے۔۔۔ اسی لیے ہم نے کہا تھا کہ فدا ہونے کے لیے دستی بم ایسے با اثر نہ ہوں گے۔ دوسرے ہوتے تو ہم خود ریموٹ سے کنٹرول کرتے۔۔۔ اور اب تک تم جنّت میں ہوتے اور ان کا کام تمام ہو گیا ہوتا۔ تمہارے بعد جب تمہارے والدین انتقال کرتے تو وہ بھی جنت میں جاتے۔ کم سے کم اتنا تو سوچتے۔ وہیں ڈٹ جاتے گاڑیاں تو آ ہی جاتیں۔ دیکھو اس کے بعد کانوائی نے رخ موڑ دیا۔‘‘ نوجوان نے ٹھنڈی آہ بھری۔

    ’’اگر کوئی شہید ہوتا ہے تو کیا اس کے والدین جنت میں جاتے ہیں؟‘‘ یوسف نے نوجوان کو خاموش ہوتے دیکھ کر فوراً سوال کیا۔

    ’’ہاں۔۔۔ بالکل۔۔۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔‘‘ نوجوان نے نہایت سنجیدگی سے کہا۔

    ’’مگر میں نے تو ایسا کہیں نہیں پڑھا۔ حافظ کی ماں جنت میں جاتی ہے۔ وہ بھی اگر اُس نے خود اپنی اولاد کو حفظِ کلام اللہ کرایا ہو۔۔۔ ورنہ میں نے کسی حدیث میں یہ نہیں پڑھا کہ۔۔۔‘‘ یوسف نے تجسس سے کہا۔

    ’’نادان ہو تم۔۔۔ جہاد کے راستے میں۔۔۔‘‘ و ہ ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر خاصی گھمبیر آواز میں کچھ کہتے کہتے رُکا۔

    ’’یہاں کریک ڈاؤن ہو گا۔ بھاگو۔ جلدی۔۔۔‘‘ اُس کی آواز دفعتاً خوف سے بھر گئی۔ شاہباز پھرن کے اندر پہنی ہوئی واسکٹ کی جیبوں میں بھرے بم نکال نکال کر زینے پر رکھے تھیلے میں ڈال رہا تھا۔

    ’’رہنے دو۔۔۔ بعد میں نکال لینا۔۔۔ پکڑے جائیں گے ورنہ۔۔۔‘‘ نوجوان جلدی سے اٹھتے ہوئے بولا۔

    ’’راستے میں۔۔۔ کہیں پھٹ گیا آقا۔۔۔ تو؟‘‘

    ’’تم اتنے خوش نصیب کہاں ہو۔۔۔‘‘ نوجوان نے اسے نظر بھرکر دیکھا۔

    ’’آقا میرا۔۔۔ میرا مطلب تھا اگر غلط جگہ کہیں پھٹ گیا۔۔۔ تو۔۔۔ تو۔۔۔ خدانخواستہ آپ کو۔۔۔ کہیں آپ۔‘‘ و ہ ہکلایا۔

    ’’اگر آپ اجازت دیں تو۔۔۔ تھیلا میں سنبھال لوں۔‘‘ یوسف نے مضبوط لہجے میں کہا۔

    نوجوان مسکرا دیا۔

    ’’مبارک۔ صد مبارک۔‘‘ اس نے یوسف کو بغور دیکھا اور گلی کے اندر مڑ گیا۔

    کہتے ہیں وہ رات قیامت کی رات تھی۔

    وادی کے حالات ابتر ہوتے گئے۔ کس نے اس سکون پر شب خوں مارا۔ کوئی اپنے گھر میں تو ایسا نہیں کرتا۔ کوئی باہر کا ہوگا۔ مگر باہر کے بھی سب لوگ تو ایسی سوچ نہیں رکھ سکتے۔ کچھ منفی سوچ والے افراد نادانی، غرور اور غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہوں گے کہ صدیوں سے ایسا ہوتا آیا ہے اور کبھی بھی، کہیں بھی ہو سکتا ہے۔

    اس خطے کے ساتھ سولہویں صدی سے ہی یہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ چندر گپت موریہ اور پھر اشوک کے مہان ہندوستان کو افغانستان اور نیپال کی آخری سرحدوں تک وسیع کرنے والی عظیم الشان سلطنتِ مغلیہ کے شہنشاہوں نے بھی ایسا ہی کیا، جب شاعرۂ معروف و مقبول اور ہر دل عزیز ملکۂ کشمیر زون، یعنی چودھویں کا چاند ّملقب ّحبہ خاتون کے شاعر بادشاہ یوسف شاہِ چک کو اکبر اعظم نے دھوکے سے قید کر لیا تھا۔ شاہ غریب الوطنی میں اپنی ملکہ سے دور انتقال کر گیا۔ وطن کی مٹی بھی اسے نصیب نہ ہوئی۔۔۔ اور ملکہ روتے روتے دیوانی ہو گئی۔ ہجر کے نغموں سے بیاضیں سیاہ کر دیں اور آخرکار اپنے یوسف کو پکارتے پکارتے حبہ خاتون نے بھی اس دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔ وادی میں اس کے نغمے گونجتے رہے۔

    ’نادلائے، میانہِ یُوسُوفو ولو‘

    (پکارتی ہوں میں تجھ کو مرے یوسف آ جا)

    اور گونجتے رہیں گے۔

    پھر افغانستان سے افغان آئے۔

    شامتِ اعمال سے افغان حاکم ہو گئے

    آئے وہ اور طالع بیدار اپنے سو گئے

    کسی شاعر نے احتجاجاً شعر کہا تھا۔ پھر پنجاب سے سکھ، کیا کیا ٹیکس لگائے گئے تھے۔ ان کے دور میں۔ اور پھر سات سمندر پار سے انگریزوں نے آ کر وادی جموں کے ڈوگروں کو فروخت کر دی۔ ایک 'native' کو دوسرے 'native'کا آقا بنا دیا۔ وہ بھی ایک تکلیف دہ دور تھا۔ کشمیریوں کو تو مطلق العنان مہاراجہ سے آزادی چاہئے تھی۔۔۔ سب نے جی بھر کے ظلم ڈھائے۔۔۔

    نکی نے کتابوں میں یہ سب پڑھا تھا۔

    کشمیری۔۔۔ محکوم ہی رہے۔۔۔ صدیوں۔۔۔

    اب کہیں آدھی صدی بھر پہلے جمہوریت آئی۔۔۔ تو۔۔۔ کچھ سکون کے بعد پھر یہ بے سکون شب و روز۔ کیوں ہو رہا ہے یہ سب۔ کیوں۔۔۔

    جانے کیوں آج اسے بالکل ہی نیند نہیں آ رہی تھی۔ جانے کیا کیا سوچ رہی تھی وہ آج۔ کبھی کبھی اچانک گھبرا اٹھتی تھی۔ نہیں اچانک نہیں۔ جب کہیں سے کسی دھماکے کی آواز آتی۔ اور آواز تھی کہ بار بار آ جاتی۔

    ادھر رات تھی کہ طویل ہوئی جاتی تھی۔ اگر صبح ہو جاتی تو وہ تنویر خالہ کے وہاں فون کر کے خیریت معلوم کرتی ان کی۔۔۔ سب کی۔۔۔ سب کی خیریت۔ اسے رہ رہ کر جانے کیسی محرومی کا احساس ہو رہا تھا۔ ایک عجیب سے خالی پن کا۔ ایک جان لیوا سی فکر کا۔ کون سی فکر تھی یہ۔ اسے ٹھیک سے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ یاور سے بات کرنا چاہ رہی تھی۔ یا شاید۔۔۔ اگر یوسف سے کوئی بات۔۔۔ کوئی بات ہو پاتی۔۔۔ اگر۔۔۔ یاور سے بھی کوئی رابطہ نہ ہوا تھا کل سے۔۔۔ شاید یوسف نے تنویر خالہ سے کوئی بات کی ہو۔ کوئی پر امید بات ہوتی تو اب تک۔۔۔

    صبح تنویر بیگم کو معلوم ہوا کہ یوسف کل رات اپنے گھر نہیں گیا تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ انہوں نے دو ایک جگہ اور فون کرنے کے بعد نکی کے یہاں فون کیا تھا کہ شاید کسی کو معلوم ہو۔۔۔ تو نکی کا سر زور سے چکرایا تھا۔۔۔

    چلا جاؤں گا نکی باجی۔۔۔ دور چلا جاؤں گا۔۔۔ اتنا دور ہو جاؤں گا کہ۔۔۔ آپ۔۔۔ یوسف نے دبی دبی ہچکی لی تھی۔

    نکی بے ہوش ہو چکی تھی۔

    کئی روز ہو گئے تھے۔ یوسف کی کوئی خبر نہ تھی۔ اس کے والد کو دل کا دورہ پڑ چکا تھا۔ اس کی فربہ اندام ماں کا وزن آدھا ہو گیا تھا۔ اور اس کی تنویر چچی اپنی بھابی سے نظر نہ ملاتی تھی۔ اور یوسف کی سلامتی کی دعائیں مانگا کرتی۔

    نکی پتھر کی مورت سی طبی کالج جایا کرتی۔

    جب دن مہینوں میں بدلے اور تین مہینے ہو گئے تب ایک دن یاور کو اپنے سکول کے باہر یوسف کھڑا نظر آیا۔ وہ دوڑ کر اس سے لپٹ گیا۔

    ’’کہاں چلے گئے تھے یوسف بھائی۔۔۔‘‘ وہ رو پڑا۔ یوسف کی آنکھیں بھر آئیں۔

    ’’کیوں چلے گئے تھے یوسف بھائی۔۔۔ اب تو نہیں جائیں گے نا۔ سب کو دُکھی کر دیا آپ نے۔۔۔ ہم سب مر جائیں گے آپ کے بغیر۔ مت جائے گا اب کبھی بھی۔‘‘

    وہ یوسف کی درمیانی پسلی تک آتا تھا۔ اس کے سینے کے ساتھ سر ٹکائے کمر میں باہیں ڈالے بولتا رہا۔ اور یوسف جو اُسے جانے کیا کیا کہنے آیا تھا، ایک ہاتھ سے اسے لپٹائے اور دوسرے سے اس کا سر سہلاتا رہا۔

    ’’میں گھر سے ہی آ رہا ہوں۔ صبح آیا تھا۔۔۔ سب خیریت ہے نا۔۔۔ ادھر۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ ادھر۔۔۔ بڑی خالہ کے وہاں نا؟‘‘ اس نے یوسف کی آنکھوں سے مشابہ آنسوؤں سے لبریز آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا، تو یوسف نے اثبات میں سر ہلایا۔

    ’’نکی باجی بالکل ادھ موئی سی ہو گئی ہیں۔ ان کا Face پیلا ہو گیا ہے۔۔۔ وہ تو کسی سے بات ہی نہیں کرتیں اب تو۔۔۔‘‘

    مسہری پر اوندھی، اپنی بیاض پر جھکی نکی کو خبر ہی نہ ہوئی کہ کب یاور آ کر اس کے پلنگ کے قریب قالین پر بیٹھ گیا۔

    رستہ بھول گئیں خوشیاں ڈھونڈوں جا کر کس رستے

    یاور نے ایک صفحے پر نظر ڈالی۔ بےچاری نکی باجی۔۔۔

    تیری دو آنکھوں کی راحت جو گئی

    زندگی میری مصیبت ہو گئی

    ’’نکی باجی۔۔۔‘‘

    نیلی نیلی دو آنکھیں پلنگ کے بان پر ناک ٹکائے اسے دیکھ رہی تھیں۔

    ’’کیسی ہیں نکی باجی؟‘‘ یاور نے چہرہ اوپر کیا۔

    پل بھر کو نکی کا دل جیسے حلق میں اچھل آیا تھا۔ سال بھر پہلے تک یوسف ایسا ہی لگا کرتا تھا۔ اس نے گلے کے قریب ہاتھ رکھ کر گویا زخمی طائر سے پھڑکتے دل کو سنبھالا۔

    ’’کیسا ہے میرا پیارا سا چھوٹا سا دوست۔ میرا بھیا؟‘‘ اس نے خوش دلی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی اور یاور کے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔

    ’’بہت خوش ہوں نکی باجی۔۔۔ میں۔۔۔‘‘ خوشی اُس کی معصوم سی آواز سے چھلکی پڑتی تھی۔ نکی بیقرار آنکھوں سے اس کے چہرے کے تاثرات میں اپنے سوالات کا جواب مانگنے لگی تو اس نے کتابوں کے بیگ میں رکھے پینسل باکس میں سے ایک پرچی نکال کر نکی کے حوالے کی۔

    وہ دونوں پہاڑی کے دامن میں کئی بارہ دریوں پر مشتمل باغ کے بالائی باغیچے کے کونے میں بیٹھے تھے۔ صدیوں پہلے مغل شہزادے دارا شکوہ نے ستاروں کی گردش جاننے کے لیے جھیل ڈل کے کنارے کوہِ زَبرون پر یہ مشاہدہ گاہ بنوائی تھی کہ اُسے علم نجوم سے خاصا شغف تھا۔ باغ کا نام پری محل رکھا گیا تھا۔

    بےشمار پھولوں سے سجے ان باغیچوں سے جھیل کا منظر نہایت دل فریب معلوم ہوتا تھا۔ جھیل کے کنارے واقع مغل باغات کی سیر کرنے والوں کی تعداد شام کو بڑھ جایا کرتی تھی، لیکن ادھر اب ایسا شاذونادر ہی ہوا کرتا۔ نیچے کنارے پر رنگ برنگی چھوٹی کشتیوں کی قطاریں سونی تھیں۔ یہ کشتیاں شکارے کہلاتی تھیں اور وادی کے اچھے دنوں میں سیاحت کی مصروف ترین آماجگاہ ہوتیں۔ بڑے بڑے گل بوٹوں والی نشست گاہوں اور خوش رنگ ریشمی پردوں والی ان کشتیوں کو کنارے باندھ، نا خدا جانے کہاں چلے گئے تھے۔ حالانکہ بہار شباب پر تھی۔ دور بیچ جھیل کے ایک چھوٹی سی بغیر چھت کی کشتی جس کی لکڑی کا سارا رنگ پانی نے پی لیا تھا، دوسرے کنارے کی طرف آہستہ خرامی سے رواں تھی۔

    ’’کہاں تھے۔۔۔ تم؟‘‘ نکی نے اسے کئی لمحوں تک بغور دیکھا۔ وہ ایک دم بدلا بدلا لگ رہا تھا۔ اس نے داڑھی بڑھا رکھی تھی۔ گھٹنوں سے نیچے تک لمبے کرتے کے اوپری کھلے بٹن میں سے سینے میں اُگے سیاہ بال جھانک رہے تھے۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے تھے اور گھنگھریالے بال پہلے کی ہی طرح داہنے ابرو تک آتے تھے، جن کے پیچھے نیلی نیلی آنکھیں جیسے دو جہاں کی فکر میں غلطاں تھیں۔

    ’’تم میرے ساتھ چلو گی انیقہ۔۔۔؟‘‘ یوسف کی آنکھیں یکایک جیسے باغی ہو گئیں تھیں۔ اس کے طرزِ تخاطب پر نکی چونکی نہیں تھی۔

    ’’کہاں۔۔۔؟‘‘ چھوٹے سے پھاٹک کے قریب لگے سونف کے پودے ہوا کے جھونکے سے لہرائے۔ ایک دلربا سی مہک پھیل گئی۔

    ’’یہ ہی ایک راستہ ہے۔۔۔ ورنہ۔۔۔ کوئی آپ کو کیوں مجھے سونپےگا۔۔۔ ہاں نہیں کریں گی نکی باجی تو۔۔۔ تو خدا کی قسم۔۔۔ خدا کی قسم۔۔۔‘‘

    وہ پل بھر میں پہلے کی طرح اداس اور مجبور سا ہو گیا۔ آنسو بھر آئے۔

    ’’نہیں یوسف۔۔۔ نہیں۔۔۔‘‘ اس کی ایک آنکھ سے آنسو ٹپکا۔ نکی اسے دیکھتی رہی۔

    ’’ایسا مت کرو۔۔۔ ایسا نہ کہو۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہوگا۔۔۔ یہ کیونکر ہوگا۔۔۔؟‘‘

    ’’کیوں نہیں ہوگا نکی باجی۔۔۔‘‘ اس نے نکی کا ہاتھ پکڑ کر چھوڑ دیا۔

    لمبی سفید دم والی ایک سیاہ چڑیا سامنے زرد گلابوں کی کیاری پر آ بیٹھی اور منقار آسمان کی جانب اٹھا کر زور سے چہچہائی۔ یوسف نے نظر دوڑا کر چڑیا کی طرف دیکھا۔ نکی نے بھی چونک کر اُدھر دیکھا تھا۔ دونوں مسکرا دیئے۔

    ’’ہم ایسے ہی ہمیشہ ساتھ ہنس سکتے ہیں نکی باجی۔۔۔ مان جائیے نا۔۔۔ میں آپ کی تعلیم ضایع نہیں ہونے دوں گا۔ خود بھی کوئی اچھا کام کروں گا۔۔۔ اب بھی وقت ہے نکی باجی۔۔۔ میرے دوستوں نے سب انتظام کر رکھا ہے۔۔۔ ہم نکاح کر لیں گے۔ پھر کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکےگا۔۔۔ ورنہ بعد میں کبھی ایسا موقع نہیں آئےگا۔۔۔ ابھی بھی ہاں کر دیجئے نکی باجی۔۔۔‘‘

    نکی اپنے گھٹنوں کو باہوں کے حلقے میں لیے بیٹھی اپنے پاؤں دیکھتی رہی۔

    ’’میں تمھیں دنیا کی ہر خوشی دوں گا۔ اپنا سب کچھ تمہارے قدموں میں رکھ دوں گا۔۔۔ ہمارا چھوٹا سا۔۔۔ گھر ہو گا۔۔۔ تم ہمیشہ مسکراتی رہوگی۔۔۔ کوئی تمہاری ماں کی طرح تم پر بندشیں نہیں ڈالےگا۔۔۔‘‘

    وہ خاموش ہو گیا۔ اور سر جھکا کر نکی کے پیروں کو دیکھتا رہا۔ پرندے چہچہاتے رہے۔ سونف کی خوشبو ہواؤں میں گھلتی رہی۔ نکی چپکے چپکے روتی رہی۔ دو ایک آنسو اس کے پاؤں پر گرے۔ یوسف نے انھیں ہاتھ سے پونچھ لیا۔

    ’’کیا ہوا۔۔۔ نکی باجی۔۔۔‘‘ وہ تھکی ہوئی سی آواز میں بولا۔

    ’’میں۔۔۔ جانتا تھا۔۔۔ آپ میرا ساتھ۔۔۔ میرا ساتھ۔۔۔ نہیں دیں گی۔۔۔‘‘ اس کی آواز بھرا گئی تھی۔ وہ آواز کی لرزش قابو میں رکھ کر بولتا ہوا موٹر سائیکل تک آگیا۔

    سامنے جھیل میں سورج نے غوطہ لگایا اور ڈوب گیا۔ آسمان کا وہ کنا رہ اُس وقت تک دہکتے انگارے سا سرخ رہا جب تک موٹر سائیکل نیچے سڑک کے موڑ تک آ گئی کہ یوسف سامنے دیکھ رہا تھا اور نکی کی نظروں کے سامنے سڑک ختم ہونے تک آسمان ویسا ہی سلگتا سلگتا سا رہا۔ کبھی کبھی منظر دھندلا جاتا مگر آنسو ٹپک جاتے تو سب صاف نظر آنے لگتا۔

    نکی کے گھر کو مڑنے والی گلی کے موڑ پر یوسف نے لبِ سڑک موٹر سائیکل روک دی اور دونوں پاؤں زمین پر ٹکائے موٹر سائیکل پرہی بیٹھا رہا۔

    ’’آنکھوں سے۔۔۔ اوجھل مت ہونا۔۔۔ یوسف۔۔۔‘‘ نکی کی آواز کانپتی رہی۔ ہچکیاں گھٹتی رہیں۔

    ’’اپنے فیصلے پر آپ تمام عمر پچھتائیں گی نکی باجی۔‘‘ اس کی آنکھوں میں موت کی سی سرد مہری تھی۔ اُس نے موٹر سائیکل سٹارٹ کر دی۔ نکی نے ہنڈل پکڑے ہوئے اُس کے ہاتھ پر دونوں ہاتھ رکھ دیئے۔ اس کی آنکھوں کو خوفزدہ سی نظرو ں سے دیکھتے ہوئے اُس نے اپنے ہاتھوں کی گرفت اس کے ہاتھ پر مضبوط کر دی۔

    ’’ایسا مت کرنا۔‘‘

    وہ سراپا التجا بن گئی۔

    یوسف اسے کچھ لمحوں تک چپ چاپ دیکھتا رہا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک رنجیدہ سی مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔ اور موٹر سائیکل آگے بڑھ گئی۔ نکی موڑ پر پتھر کی مورت سی کھڑی اسے دور ہوتا دیکھتی رہی۔

    ’’پکارتی ہوں میں تجھ کو مرے یوسف آ جا‘‘

    رخساروں پر دو تازہ آنسو ڈھلک آئے۔ دو آنکھیں سڑک کے موڑ پر رکھ کر وہ گھر کی جانب مڑ گئی۔

    ان دنو ں حالات اور بکھر گئے تھے۔ وادی اور اداس ہو گئی تھی۔ گھروں میں افراد کم ہو گئے تھے۔ دل رنجیدہ رہا کرتے تھے۔ گھروں سے کام کی خاطر نکلنے والوں کے شام کو لوٹنے تک گھر میں رہنے والے وسوسوں میں گھِرے رہتے۔

    سال بھر ہونے کو آیا تھا۔ یوسف کی کوئی خبر نہ تھی۔ اس کی ماں کا دل کبھی اداس ہو جاتا اور کبھی پُر اُمید۔ یہ دل اُسے دن میں کئی کئی بار مارتا اور زندہ کرتا تھا۔

    اُس کے باپ کو دل کا دوسرا دورہ پڑ چکا تھا۔

    جس دن پڑوس کے کسی لڑکے کی پہچان کے ایک آدمی نے بتایا کہ یوسف زندہ ہے مگر دور سرحد کے اس پار۔۔۔ اس دن اس کی ماں سارا دن صرف روتی رہی تھی۔

    ’’میرا بیٹا زندہ ہے۔۔۔ مگر موت کی ٹریننگ لے رہا ہے۔‘‘

    جانے کتنی دفع اس نے یہ جملہ اپنے آپ سے دہرایا تھا۔ مگر دل کے مریض شوہر کے سامنے صرف آہیں بھر کر رہ جاتی۔

    ’ہم سے دور ہی سہی۔۔۔ زندہ توہے۔۔۔ کبھی نہ کبھی لوٹ آئےگا ہمارے پاس۔۔۔ آخر ہمارا ّبچہ ہے۔۔۔ ہمارا خون ہے۔۔۔‘‘ وہ شوہر کو تسلی دیا کرتی۔

    خزاں کی آمد نے چناروں میں آگ لگا رکھی تھی۔

    نکی کے گھر کے پچھواڑے باہری دیوار کے اس پار کنجڑوں کی کھیتیاں تھیں جن میں کئی طرح کی سبزیاں لہلہایا کرتی تھیں، مگر ان دنوں وہاں صرف کڑم کا لمبی ڈنڈیوں والا ساگ اُگا ہوا تھا جس کے بڑے بڑے پتے چنار کے درخت کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے اکتوبر کے چاند کی بھیگی ہوئی چاندنی میں نکھرے نکھرے سے نظر آ رہے تھے۔

    چاندنی کو اپنی مسہری کے کنارے تک آتا دیکھ نکی اٹھ کر کھڑکی تک چلی آئی۔ کچھ لمحے وہاں کھڑی رہ کر واپس بستر پر لیٹ گئی۔ وہ آج بھی سو نہیں پا رہی تھی۔ رات کا پچھلا پہر تھا۔ وہ تاریکی میں آنکھیں کھولے چھت کو ٹکٹکی باندھ دیکھتی رہی۔ آنسو اس کے کانوں میں جمع ہوتے رہے۔ اس کی اکثر راتیں آدھی سے بھی زیادہ بے خواب گزر جاتیں۔

    پاس کی تپائی پر پڑے فون کی گھنٹی بجی۔ لمبی دوری سے بجنے والی لمبی گھنٹی۔ نکی نے لپک کر ریسور اٹھایا کہ گھر میں کسی کی نیند نہ خراب ہو۔

    کون ہوگا اتنی رات گئے۔۔۔

    ’’نکی باجی۔۔۔‘‘ اس کی باریک سی ہیلو کے جواب میں آواز آئی۔ دل سینے میں ایسے دھڑکا جیسے مردہ بدن میں کسی نے اسی لمحے روح پھونک دی ہو۔۔۔ اس کا ہاتھ بے اختیار حلق پر چلا گیا۔

    ’’یوسف۔۔۔‘‘ اس کی آواز کانپی۔‘‘ کہاں ہو یوسف؟‘‘ وہ رو پڑی۔

    ’’مجھے جیتے جی مار کر تم۔۔۔ تم کہاں چھپ گئے یوسف۔۔۔ کب آؤگے۔۔۔ کہاں سے بول۔۔۔‘‘ وہ ہچکیاں لینے لگی۔

    ’’میں مرا نہیں نکی باجی۔۔۔ زخمی ہو کر نامراد پڑا رہا۔۔۔ مرنا چاہتا ہوں۔۔۔ اس وقت سمندر پار ہوں۔۔۔‘‘

    ’’تم آ جاؤ یوسف۔۔۔ میں بھی نیم مردہ ہوں۔۔۔ ساتھ مریں گے دونوں۔‘‘

    ’’میرا وہاں آنا۔۔۔ ناممکن ہے۔۔۔ میرے پاس پاسپورٹ کہاں ہے وہاں کا۔ جہاں کے پاسپورٹ سے یہاں آیا ہوں۔۔۔ وہ بھی مجھے کہاں چھوڑیں گے۔۔۔‘‘

    ’’کیوں کیا تم نے ایسا یوسف۔۔۔ تم مجھے کس قصور کی سزا دے رہے ہو۔۔۔ اپنے والدین کو کیوں دکھ دے رہے ہو۔۔۔ لوٹ آؤ یوسف۔۔۔‘‘

    ’’نہیں نکی باجی۔۔۔ برف باری کے وقت آنے میں پکڑا نہ گیا تو روپوش تو رہنا پڑےگا۔۔۔ سب کی زندگی خطرے میں کیسے ڈال دوں۔۔۔ یہ ممکن ہی نہیں ہوگا۔‘‘

    ’’آ کر Surrender کر لو یوسف۔۔۔ یہ غلط راستہ کیوں کر چن لیا تم۔۔۔‘‘

    ’’چپ۔۔۔ یہ لفظ دوبارہ کبھی مت دہرائیےگا۔۔۔ یہیں پر ختم کر دیا جاؤں گا۔۔۔ شہادت کا موقع نہیں ملےگا مجھے۔۔۔ آپ نہیں جانتیں۔۔۔‘‘

    ’’یہ کوئی شہادت ہے یوسف۔۔۔ تم تو اتنے ذہین تھے۔۔۔ اتنے سمجھدار تھے۔۔۔ یہ تمھیں کیا ہو گیا۔۔۔ ہے۔۔۔ تم۔۔۔‘‘

    ’’بس کیجئے نکی باجی۔۔۔ ہمیشہ آپ مجھے اپنے Student کی طرح اپنی مرضی کی باتیں سمجھاتی آ رہی ہیں۔۔۔ اب میں۔۔۔‘‘

    ’’میری مرضی۔۔۔ میری۔۔۔ مرضی۔۔۔ میری کون سی مرضی رہی ہے۔۔۔ کیسی مرضی۔۔۔‘‘ آنکھوں میں نئے نئے آنسو بھر آنے سے اُس کی ناک بند سی ہو گئی تو آواز بھیگ گئی۔

    ’’sorry نکی باجی۔۔۔ دل نہیں دُکھانا چاہتا تھا آپ کا۔۔۔ معاف کر دیجئے مجھے۔۔۔ معاف کر دیجئے۔۔۔‘‘ اس کی آواز بھی رندھ گئی۔ اور فون بند ہو گیا۔

    نکی نے فون کان سے ہٹا کر رخسار سے لگا لیا۔

    کتنے عرصے کے بعد اس نے یوسف کی آواز سنی تھی۔

    فون رکھ کر وہ کھڑکی کے قریب آ گئی چوکھٹ پر ہاتھ دھر کر چاند کو دیکھتی رہی اور پھر کہیں کہیں دور دور نظر آتے تاروں کو۔

    شاید فون کٹ گیا ہو۔۔۔ اور پھر گھنٹی بج جائے۔۔۔ اس انتظار میں وہ رات بھر نہیں سوئی۔ سحر تک بھی نہیں۔

    کچھ مہینے اور گزر گئے۔ نکی اس کے فون کا انتظار کرتی رہی۔ گھر کے راستے میں آنے والے قبرستان میں نرگس کے پودے کئی بار زمیں سے اونچے ہوئے، پھولے اور مرجھائے۔ فون نہیں آیا۔ راتوں کو برہا کے گیت لکھ لکھ کر اُس نے بیاضیں بھر دیں۔

    ہر روز کالج سے لوٹتے وقت قبرستان کے قریب سے گزرتے ہوئے اُس کی رفتار سست ہو جایا کرتی۔ نظریں اس طرف اٹھ جاتیں۔

    ایک دن اس نے دیکھا کہ قبرستان کی دیوا رکے چھوٹے سے دروازے کی جگہ بڑا سا پھاٹک لگایا گیا ہے۔

    ’’اِنا للّٰہ وانا الیہ راجعون‘‘

    پھاٹک کی ہری محراب پر سیاہ رنگ کی عبارت نے اس کی نظریں جکڑ لیں۔ کچھ لمحے وہ عبارت کو دیکھتی رہی۔ پھر اس کے قدم پھاٹک کے درمیان لگے چھوٹے سے کواڑ کی طرف اُٹھ گئے۔ وہ ڈھلان اتر کر منڈیر سے جا لگی۔ سامنے دور تک پھیلے ہوئے قبرستان میں بے شمار قبروں کا اضافہ ہو گیا تھا۔ جگہ جگہ نئے کتبے کھڑے تھے۔ اُس کا دل زور زور سے دھڑک اٹھا۔ وہ زمین پر بیٹھ گئی اور آنکھیں زور سے بھینچ لیں۔

    اگر اس وقت۔۔۔ کوئی ہم پر بندوق تان دے۔۔۔ تو کیا ہمیں بھاگنا چاہیے نکی باجی۔۔۔

    کسی نے دھیرے سے کہا۔

    بند آنکھوں سے نکل کر آنسو نکی کے رخساروں پر پھِسل گئے۔

    نہیں۔۔۔ نہیں یوسف۔۔۔ تم مجھ سے دور بھاگ گئے۔۔۔ میں۔۔۔ میں کہاں بھاگ سکتی ہوں۔۔۔ میں کہاں جا سکتی ہو۔۔۔ میں کہاں جاؤں۔۔۔ یوسف۔۔۔

    نکی چپکے چپکے سسکنے لگی۔ خوب رو لینے کے بعد جب جی کچھ ہلکا ہوا تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔ نرگس کے پھولوں میں ایستادہ کتبوں پر نام اور تاریخِ پیدائش کے ساتھ تاریخِ انتقال درج تھے۔

    نصیر احمد ملک: تاریخِ پیدائش: ۹ ستمبر ۱۹۷۰ء

    وفات: ۶ فروری ۱۹۹۲ء

    محمد راشد میر: تاریخ پیدائش: ۵ جون ۱۹۷۲ء

    وفات: یکم جولائی ۱۹۹۳ء

    وہ دہشت زدہ سی منڈیر سے لگی بیٹھی دور دیوار تک پھیلے کتبے پڑھتی رہی۔ اس کے چہرے پر کرب اتر آیا۔ ہونٹ دانتوں میں بھینچے سسکیاں لیتے ہوئے اس نے منھ دوسری جانب موڑا تو ایک بالکل تازہ تربت پر سیاہ سنگ مرمر سے تراشی لوحِ مزار نئی نئی بہا رکی نکھری ہوئی ٹھنڈی دھوپ میں چمک رہی تھی۔ قبرستان کے کناروں پر لگے بید کے درخت اُس پر بار بار سایہ کیے دیتے تھے۔

    یوسف احمد خان پیدائش: ۱۱ مارچ ۱۹۷۳ء

    وفات: ۲ جون۱۹۹۳ء

    ’’نہیں۔۔۔‘‘ اس کا ہاتھ بےاختیار اس کے ہونٹوں پر چلا گیا۔ دوسرا ہاتھ اس نے اپنے حلق پر رکھ دیا۔۔۔ دبی دبی سی چیخ اس کے سینے میں گھٹ کر رہ گئی۔ ہچکیاں لے لے کر روتے ہوے اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اُس کا بدن تھر تھر کانپ رہا تھا۔ گلے کو اُس نے انگلیوں سے ایسے تھام رکھا تھا جیسے اُس کی جان اُسی راستے نکل بھاگنے والی ہو۔

    یہ نہیں ہوگا۔۔۔ میرے ساتھ۔۔۔ میرے اللہ۔۔۔ یہ نہیں ہوگا۔۔۔ اس نے تڑپ کر آسمان کی جانب نگاہیں اٹھائیں اور سر پیچھے منڈیر پر اگی ہری ہری نم گھاس سے ٹکا دیا۔ نیلا نیلا آسمان بے داغ نظر آ رہا تھا۔ آنسو اُس کی آنکھوں سے بہہ بہہ کر چہرہ بھگوتے رہے۔ دیوار سے ملحقہ مسجد میں بجلی نہ ہونے کے باعث بغیر لاؤڈ سپیکر کی پر درد سی اذان گونجا کی۔

    بید کی ٹہنیوں میں لوٹ آنے والی چڑیوں نے جب چہک چہک کر آسمان سر پر اٹھا لیا تو نکی نے اپنی سرخ سرخ آنکھوں پر دوپٹہ رکھ کر تھکے ہوئے پپوٹوں سے لگے آنسو جذب کر لیے۔ اور کھڑا ہونے سے پہلے ایک نظر پھر بائیں جانب دیکھا۔ ایک بار پھر اس کا ہاتھ اس کے گلے کے قریب چلا گیا۔

    وہاں کوئی تازہ قبر تھی نہ کتبہ۔

    اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اور اُسے سخت پیاس لگ رہی تھی۔

    پھر۔۔۔ مہینے سالوں میں بدلنے لگے ایک دن کسی نے یوسف کی والدہ کو فون کر کے بتایا کہ آج شب کے ایک بجے یوسف ان سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ رابطہ قائم کرےگا۔

    ’’ہمارا بیٹا زندہ ہے سلامت ہے۔۔۔‘‘ اس کی ماں نے یہ خوش خبری گھر میں سب کو فرداً فرداً سنائی۔ اس دن وہ سارا وقت لوریاں گاتی رہی، اور رہ رہ کر اس کی آنکھیں بھیگتی رہیں۔

    کمپیوٹر کے مانیٹر پر اس کے بیٹے کی تصویر ابھری تو وہ پہچان ہی نہ پائی۔ اس نے سر منڈوا رکھا تھا۔ داڑھی گریبان تک بڑھی ہوئی تھی۔ آنکھیں نیم وا سی تھیں اور جب اس نے والدین کو مخاطب کیا تو اس کی آواز بھی تھکی تھکی سی معلوم ہوتی تھی۔

    ’’آ جاؤ۔۔۔ چاند۔۔۔ گھر آ جاؤ۔۔۔‘‘ ماں نے مانیٹر پر نظر آ رہے اُس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور رو پڑی۔

    ’’تمہاری ماں۔۔۔ مر جائے گی بیٹا۔۔۔‘‘ باپ کی آواز کانپ رہی تھی۔

    ’’ابو امی بیمار ہیں یوسف۔۔۔ تمہارے بغیر گھر بالکل تباہ ہو گیا ہے۔۔۔ تمہارے بغیر کسی کا جی نہیں لگتا۔۔۔‘‘ بہن سسکیاں لینے لگی۔

    ’’اس طرح کی باتوں سے میرا ایمان کمزور کرنے کی کوشش نہ کریں آپ لوگ۔۔۔ بس دعا کریں کہ میں جام شہادت نوش کروں۔۔۔ اور آپ سب کے لیے جنت کے دروازے وا کروں۔۔۔‘‘

    اس کی آواز میں عزم جھلک رہا تھا مگر چہرے پر غم کے سائے سے لہرا جاتے۔

    ’’کسی طرح کچھ دن کے لیے آ جاؤ۔۔۔ یہ سب صحیح نہیں میرے لعل۔۔۔ میں تمھیں سمجھا دوں گی۔ کچھ دن کے لیے آ جاؤ۔۔۔ تمھیں سینے سے لگانے کے لیے میرا۔۔۔ میرا کلیجہ پھٹا جا رہا ہے۔۔۔‘‘ ماں روتی رہی۔

    ’’میرے جنازے کو کندھا دینے۔۔۔ کندھا دینے ہی آ جا۔۔۔ میرے بچے۔۔۔‘‘ باپ بے بسی سے بولا۔

    ’’اب جنت میں ملاقات ہونے کی دعا مانگئے ابو۔۔۔ امّی بزدلوں والی باتیں مت کیجئے۔۔۔‘‘ یوسف کی آواز میں یاسیت شامل ہو گئی۔

    ’’یہ کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ کس نے بھٹکا دیا تم کو۔۔۔ میرے بیٹے۔۔۔ ہمارے پاس کبھی جی بھر کے بیٹھتے۔۔۔ بات کرتے ہمارے ساتھ۔۔۔ تو ہم تمھیں سمجھاتے تو۔‘‘

    ’’اف ابو۔۔۔ پھر وہی نصیحتیں۔۔۔ پھر آپ۔۔۔ میری بات کبھی سمجھیں گے۔ کبھی آپ ابو۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔ اچھا کچھ دن بعد پھر Contactکروں گا میں۔۔۔‘‘ اس کے چہرے پر کرب اتر آیا تھا۔ مانٹیر کا Screen کورا ہو گیا۔

    کاش وہ ایک جھلک دیکھ پاتی۔ یاور سے ویڈیو کانفرنسنگ کی بات سن کر نِکی کے دل میں حسرت جاگی اور سو گئی۔

    کچھ دن بعد یہ بات بھی پرانی ہو گئی اور ہوتی چلی گئی۔ یوسف کی کوئی خبر نہ آئی۔ ایک برس اور بیت گیا۔

    یاور نے آ کر نکی کو بتایا کہ یوسف کے والد اب زیادہ بیمار رہنے لگے ہیں۔ اور کچھ بہتر ہوتے ہی یوسف کی ماں انھیں حج پر لے جائےگی۔

    یوسف کے والدین فریضۂ حج ادا کرنے کے بعد کسی دوسرے شہر چلے گئے اور کوئی دو ماہ بعد لوٹے۔

    انھیں دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے وہ برسوں کی عمر جی کر لوٹے ہوں۔ نہایت ضعیف اور۔۔۔ بیمار۔۔۔ اور دوسرے ہی دن، دل کا تیسرا دورہ پڑنے سے یوسف کے والد انتقال کر گئے۔

    یوسف کی ماں کے آنسو نہیں بہے تھے۔

    وہ اب اکثر اپنے کمرے میں پڑی رہتی۔

    اس کا چہرہ بالکل سپاٹ ہو گیا تھا۔

    اب وہ ٹیلیفون کی گھنٹی پر چونکتی بھی نہیں تھی۔

    بہت پہلے جب یوسف زخمی ہوا تھا تو اس کی ناک سے کئی دن خون بہتا رہا تھا۔ وجہ سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ کسی دھماکے کے دوران کہیں سے کوئی چیز اس کے ابرو پر آ لگی تھی۔ جب سے ہی اس کے سر میں شدید درد رہتا تھا۔ ساتھی اس کے سرپر کس کے گمچھا باندھ دیتے۔ درد دور کرنے کی گولیاں بے شمار کھانا پڑتیں۔ پہلے پہل درد اٹھنے کے درمیانی وقفے طویل ہوا کرتے جو رفتہ رفتہ مختصر ہونے لگے اور اب یہ عالم تھا کہ آدھ پون گھنٹے کے وقفے سے درد اٹھتا اور چھ، آٹھ گھنٹے رہا کرتا۔

    حج کے دوران یوسف نے اپنے والدین سے رابطہ قائم کیا تھا۔

    دوسرے شہر میں ملاقات طے ہوئی اور برسوں بعد انھوں نے اپنے بیٹے کو دیکھا تھا جو بیحد کمزور لگ رہا تھا۔ مگر والدین کو دیکھ کر مسلسل مسکرائے جا رہا تھا۔

    دوسرے دن سمندر کے اوپر بہت سے بادل ادھر سے ادھر اڑتے پھر رہے تھے۔ جیسے بادلوں کا پہاڑ راستہ بھٹک گیا ہو۔ جزیرے پر تعمیر ہوٹل کی کثیر منزلہ عمارت کے کسی اوپری سویٹ کی بالکنی میں وہ تینوں بیٹھے تھے۔ یوسف کو ہفتے بھر بعد ٹھکانے پر لوٹ جانا تھا۔ والدین کا ویزا بھی ختم ہونے والا تھا۔

    اس دن یوسف کے والد بے حد پرسکون لگ رہے تھے۔ ان کی نظریں بیٹے کے چہرے سے ہٹتی نہیں تھیں۔ انھیں یقین ہو چلا تھا کہ بیٹا ان کی بات مان لےگا اور وہ اسے واپس لے آنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیں گے کیونکہ اس نے ماں باپ کی کسی بات کے جواب میں کوئی ضد نہیں کی تھی۔ خاموش سنتا رہا تھا۔

    یہ باتیں یوسف کی بہن نے یاور کو بتائیں تھیں۔۔۔ مگر بہت دن بعد۔

    جب خود اسے اس کی ماں نے بتایا تھا۔۔۔

    بہت دن بعد۔ جب اُس کی ماں کے سپاٹ چہرے پر کچھ تاثرات ابھرنے لگے تھے۔۔۔

    بہت دن بعد۔ جب اس کی ماں رونے اور بات کرنے لگی تھی۔

    اس دن ماں کی گود میں سر رکھے بادلوں کو دیکھتے ہوئے اس کے سر میں درد اٹھا تھا۔ جو کسی طرح کم ہونے میں نہ آیا اور پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہوتا چلا گیا۔

    ایکسرے سے نظر آیا کہ اس کے دماغ کی باہری جانب کے سیّال مادے میں بائیں آنکھ کے بالکل سیدھ میں کوئی انچ بھر لمبی اور آدھ انچ نصف قطر کی کوئی چیز پڑی ہے۔ .M. R. I سے پتہ چلا کہ وہ ایک گولی ہے جو بہت پہلے آنکھ کے اندرونی کونے سے گھس کر نہ جانے کس طرح بغیر آنکھ کی پتلی سے لگے، سر میں بیٹھ گئی تھی۔ اب سرجری کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔

    آپریشن کر کے گولی نکال دی گئی۔۔۔ مگر یوسف کو ہوش نہ آیا۔

    کچھ دن ’کوما‘ میں رہ کر یوسف موت سے ہم آغوش ہو گیا۔

    دیارِ غیر میں اسے سپردِ خاک کر کے اس کے والدین لوٹ آئے تھے۔

    نکی کے گھر کے راستے میں پڑنے والے قبرستان میں کسی نئی میّت کے لیے اب کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔ اس کی دیواریں خستہ ہو کر کئی جگہ سے ٹوٹ گئی ہیں۔۔۔ یہاں تک کہ بہار کی آمد پر سڑک پر چلتے وقت بغیر منڈیر تک جائے۔ نرگس کے پھول آسانی سے نظر آ جاتے ہیں۔۔۔

    وہاں سے گزرتے وقت نکی کی رفتار خودبخود دھیمی پڑ جاتی ہے۔ اس کی نظریں بید کے درختوں سے ہوتی ہوئی قبرستان کے سارے احاطے میں بھٹکتی رہتی ہیں۔ گو کہ یوسف کی تربت ادھر نہیں ہے۔۔۔ پھر بھی۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے