Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ذات کا محاسبہ

بانو قدسیہ

ذات کا محاسبہ

بانو قدسیہ

MORE BYبانو قدسیہ

    کہانی کی کہانی

    عہد حاضر کی بھاگ دوڑ والی زندگی نے انسان کو اس قدر کثیر المقاصد اور مصروف بنا دیا ہے کہ اسے کبھی خود کو دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ ذات کا محاسبہ ایک ایسے ہی کردار ذیشان کی کہانی ہے جس کی زندگی اس قدر مشینی ہو گئی ہے کہ وہ آرا کی محبت کے جذبوں کی تپش بھی محسوس نہیں کر سکتا اور اپنے روشن مستقبل کے لیے بیرون ملک چلا جاتا ہے۔ اخیر میں جب ایک دن ائرپورٹ پر ذیشان اور آراء کی ملاقات ہوتی ہے تو آراء کو مطمئن اور پرسکون دیکھ کر ذیشان کو جھٹکا لگتا ہے، وہ اپنا محاسبہ کرتا ہے تو سوائے خسارہ کے اسے کچھ نظر نہیں آتا۔

    کھلی گٹھری کی طرح وہ بکھرا رہتا تھا۔ اس نےکئی راتیں ہمسائے کے چھنارے درخت کو کھڑکی میں سے دیکھ کر گزاری تھیں۔ ذی شان کواس درخت کے پتے ڈالیاں چاندنی راتوں میں خاموش چمک کے ساتھ بہت پراسرار وحدت لگتی تھیں۔ وہ سوچتا کہ اتنے سارے پتوں کے باوجود درخت کی اکائی کیسے قائم رہتی ہے۔ اگر یہ پتے ڈالیوں سے علیحدہ ہو جائیں تو ان بکھرے پتوں کو کیسے سمیٹا جا سکتا ہے۔

    تب تک اسے معلوم نہیں تھاکہ پتے درخت کے اپنے وجود سے پیدا ہونے والے تھے اور وہ جن خواہشات کی وجہ سے بکھرا تھا وہ سب اس کے بیرون سے آئی تھیں۔ کبھی کبھی کار چلاتے ہوئے اسے احساس ہوتا کہ جس طرح جاپانی خودکشی کرتے ہیں اور ہار اکیری کرتے وقت اپنی کھوکھری کے ساتھ تمام انتڑیاں اور پیٹ کے عضلات نکال پھینکتے ہیں، ایسے ہی اس کے بھی کسی عمل سےاس کا انتڑ پٹیا بکھر گیا اور اب وہ جلد اور پٹھوں کی مضبوط ڈھال نہیں تھی جس میں اس کے بکھرے ہوئے وجود کو منڈھا جاتا۔ اس بات کا ایک بار اسے ہلکا سا خیال ان چھ ماہ کی چھٹیوں میں آیا تھا، جب اس نے ایف اے کا امتحان دے کر بی اے کے داخلے سے پہلے اپنے لیے بہت لمبے چوڑے پلان بنائے تھے۔ صبح سوئمنگ پھر ورزش پھر گٹار کے سبق، شام کو فرنچ کی کلاسیں، رائڈنگ وغیرہ تمام دوستوں کے ساتھ فرداً فرداً سچ کا رشتہ، ماں باپ کی عزت، بہن بھائیوں سے محبت، رشتہ داروں کا پاس۔

    ایف۔ اے۔ کے امتحانوں سے پہلے اسے نہ دوسروں سے اتنی توقعات تھیں نہ ہی وہ اپنے وجود کو اس قدر گانٹھ کر رکھتا تھا لیکن امتحانوں کےدنوں میں اس نے بڑی محنت کی۔ پرچے اچھے ہوئے اور پہلی بار اسے احساس ہوا کہ وہ اپنی ذات کا محاسبہ اور مواخذہ کیے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ محاسبہ چاہے کسی غیر کا ہو یا اپنا ہو ہمیشہ کڑا ہوتا ہے۔ اس میں چونی دونی کی چھوٹ نہیں ملتی۔ اس محاسبے تلے وہ بہت جلد کثیر المقاصد ہوتا چلا گیا لیکن ایف اے پاس تھا اس لیے اسےعلم نہ ہو سکا کہ فوارے کی طرح وہ بہت سے چھیدوں سے نکل کر پھوار تو بن سکتا ہے آبشار کی صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ جب تمام تجارتوں کا گیدڑ بننے کی خاطر اسے اپنا سونا، کھانا پینا، آرام، گپ بازی ترک کرنا پڑتی تو اندر عاجز آ جانے کا خیال ابھرتا۔ اسے لگتا جیسے وہ کسی مبہم سے عارضےمیں مبتلا ہے لیکن اس نے اپنے آپ سے ایسی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں کہ اپنےبنائے ہوئے ضابطے سے باہر نکلنا اس کے بس کی بات بھی نہ تھی۔

    ایک روز وہ الکٹرونک کی ہابی میں مشغول اپنے اردگرد بہت سے سرکٹوں کے کاغذ چیسیں تاریں گتے کا دیا پھیلائے بیٹھا تھا کہ ماموں آ گئے۔ ماموں خوش زبان، متوسط طبقے کے کچھ بےفکرے کچھ ذمے دار آدمی تھے۔ انہوں نے اپنی کائنات اس قدرنہیں پھیلا رکھی تھی کہ اس کے نیچے انہیں خوف آنے لگے۔

    ’’مچھلی کا شکار کھیلنے جا رہے ہیں، چلوگے؟‘‘

    ’’کہاں ماموں۔۔۔میں یہ چھوٹا سا سرکٹ مکمل کر لوں۔‘‘

    ماموں آرام سے کرسی میں بیٹھ گئے۔

    ’’ذی شان!‘‘

    ’’جی ماموں!‘‘

    ’’تم بہت اچھے آدمی ہو۔‘‘

    ’’تھینک یو ماموں۔‘‘

    ’’باوجود کہ تمہارے ابو امی نے تم پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ تم میں ایک اچھے انسان بننے کی تمام خوبیاں اور خرابیاں موجود ہیں۔‘‘

    ’’تھینک یو ماموں۔‘‘

    ’’بات یہ ہے بیٹا Activity بہت اچھی چیز ہے لیکن کثیر المقاصد انسان اتنا ہی پراگندہ ہو جاتا ہے جس قدر سست الوجود کام سے نفرت کرنے والا پوستی۔۔۔اپنے آپ کو کہیں دھجیوں میں نہ بانٹ دینا۔۔۔سالم رہنا۔۔۔سالم۔‘‘ وہ ماموں کی بات بالکل نہ سمجھتا تھا پھر بھی اس نے سوال کیا، ’’وہ کیسے ماموں آج کی زندگی میں سالم کیسے رہا جا سکتا ہے۔‘‘

    ’’بس خواہشات کا جنگل نہ پالو۔۔۔آرزو کا ایک پودا ہو تو آدمی منزل تک بھی پہنچتا ہے اور بکھرتا بھی نہیں۔‘‘

    ذی شان چونکہ گوشت پوست کا بنا ہوا انسان تھا اور انسان جو بھی سیکھتا ہے یا تو ذاتی لگن سے سیکھتا ہے یا اپنے تجربے کی روشنی میں خوف سے سیکھتا ہے۔ اس لیے تجربے کی کمی کے باعث ذی شان کو ماموں کی باتیں کتابی لگتیں۔ پھر یہ بات بھی تھی کہ ماموں متوسط طبقے کاآدمی تھا۔ اس کی قمیض کے کالر پر ہلکی سی میل ہوتی۔ ماموں کارہن سہن معمولی تھا۔ ایسے لوگوں کی باتیں سنی تو جا سکتی ہیں لیکن ان کی سچائی پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔

    ذی شان کے لیے زندگی ایک دوڑ کی شکل اختیار کرتی گئی۔ ایسی دوڑ جو سیدھی نہیں تھی۔ کئی راستوں، کئی پگڈنڈیوں، کئی سرنگوں میں سے ہو کر نکلتی تھی۔ اپنی دستار بندی میں وہ اتنا مشغول تھا کہ اسے علم نہ ہو سکا کہ کب اس نے اکنامکس کا ایم اے کر لیا۔ کس وقت وہ اعلیٰ قسم کا ڈبیٹر بھی ہو گیا۔ اسے ڈراموں میں بھی ٹرافیاں مل گئیں فوٹوگرافی کے مقابلوں میں بھی اس کی تصویروں کو انعام ملنے لگا۔ کھیلوں میں بھی اس کا نام بولنے لگا۔ مختلف رسالوں میں اس کی غزلیں بھی چھپ چھپاکر قابل ذکر کہلانے لگیں۔ دو ایک اخباروں میں خصوصی نمایندہ بنے رہنے کی وجہ سے اس کی جنرل نالج شہری واقعات کے متعلق بہت بھرپور ہو گئی۔

    اس کے ساتھ ساتھ ان چار سالوں میں اس نے تین چار ادھورے پورے عشق بھی کیے۔ ان محبتوں کا اس کی ذات پر گمبھیر اثر نہ ہو سکا کیونکہ جن لڑکیوں سے اس نے محبت کی تھی ان کے بھی عشق کے علاوہ کئی مشاغل تھے۔ وہ بھی کثیر المقاصد تھیں اور پرانے زمانے کی محبوباؤں کی طرح نہ تو ہار سنگار ہی کو اپنا شعار سمجھتی تھیں نہ ہی اٹوانٹی کھٹوانٹی لے کر پڑی رہتی تھیں۔۔۔انہیں بھی کالج جانا ہوتا۔ شاپنگ کے لیے وقت نکالنا پڑتا۔ بیوٹی پارلر سے فیشن کرانے ہوتے۔ سہیلیوں مرجانیوں کا دل رکھنے کے لیے لمبے لمبے فون کرنے ہوتے۔ پھر سوشل لائف تھی۔ کچھ ان کے والدین کی کچھ ان کی اپنی۔۔۔کچھ خواب تھے شادی کے، کچھ خواب تھے Career کے۔۔۔

    ان لڑکیوں کے ساتھ جو معاشقے ہوئے ان میں زیادہ وقت فون پر گزرا، یا پھر اچھے ہوٹلوں میں جہاں زبان کے لطف کےساتھ ساتھ اچھی خوشبوؤں، خوبصورت لباسوں کی چمک کے اردگرد روشنیوں میں ایک دوسرے کے ٹیسٹ پر اعتراضات کے ساتھ ساتھ لڑائیاں بھی ہوئیں۔۔۔اچھی پیاری پیاری باتیں بھی کی گئیں۔۔۔اور آخر میں دوستوں کی طرح ایک دوسرے کو الوداع بھی کہا گیا۔

    یہ شکم سیر قسم کے عشق نہیں تھے جو دکھ یا سکھ کی آخری سرحدوں کو چھوا کرتے ہیں۔ یہ نورا کشتی سے مشابہ تھے کہ خوب دھپ دھپیا کے بعد اکھاڑے سے بریف میں پسینے میں شرابر نقلی زخموں سے چور نکلے اور اپنے اپنے راستے پر یوں چل دیے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ انہی دنوں جب اس کی شادی کی باتیں کامن ٹاپک تھیں۔ رشتے بھی آ رہے تھے اور افیئرز بھی چل رہے تھے، اس کی پھوپھی زاد بہن کا رشتہ بھی آیا۔ پھوپھی عرصہ سے غیر تھیں۔ وہ اپنے سسرال میں رچ بس گئیں تھیں لیکن ذی شان کی لیاقتوں کے شہرے سن کر وہ بھی امیدوار تھیں کہ ان کی آراء کا کچھ جوڑ توڑ ذی شان سے ہو جائے۔ نام تو پھوپھی زاد کا پتہ نہیں، نسرین آراء یا شمیم آراء یا جہاں آراء تھا لیکن بلاتے سبھی اسے آراء تھے۔ ذی شان کو یہ دھان پان سی لڑکی شروع سے ہی لکڑی چیر نے والا آرا ہی لگی۔

    آراء بالکل ماڈرن تھی۔ سطحی طور پر دلچسپ اور اندر سے ٹھس سی لڑکی۔ وہ میک اپ، کپڑے، بی اے کی ڈگری، بیوٹی پارلر، وی سی آر پر دیکھی ہوئی فلموں کا ملغوبہ تھی۔۔ دوچار ملاقاتوں کے بعد کھلتا کہ اس کی پسند ناپسند کچھ ذاتی نہ تھی بلکہ فلم ایکٹرسوں، شاعروں ادیبوں اور کرکٹروں کے انٹرویو پڑھ پڑھ کر مرتب کی گئی تھی۔ ایسے ہی اس کے کچھ نظریات تھے جو ہر گز کسی ذاتی کاوش یا تدبر کانتیجہ نہ تھے بلکہ بڑوں کی محفلوں میں بیٹھ بیٹھ کر اخذ کیے گئے تھے۔۔۔وہ دیکھنے، سننے اور چاہنے میں بڑی جاذب تھی لیکن کچھ ملاقاتوں کے بعد اس روغنی ہانڈی کا اصلی پن ظاہر ہونے لگتا اور لوگ اسے پریشر ککر کے زمانے میں بالکل ویسے ہی بھولتے جیسے وہ روغنی ہانڈی کو بھولتے ہیں۔

    ذی شان کو آراء میں واقعی کوئی دلچسپی نہ تھی لیکن کچھ ملاقاتیں دلچسپ رہیں اور پھر بخار ٹوٹ گیا۔ ان ہی دنوں وہ دوچار نوکریوں کے لیے بھی کوشش کر رہا تھا۔ اباجی کی وہ زمین جو واہگے کے قریب تھی، اس کی د یکھ بھال بھی اس کی ذمہ داری تھی۔ پھر دو لڑکیاں اور بھی تھیں جن کو کبھی کبھی ڈرائیو پر لے جانا، ہوٹل میں ٹریٹ دینا اس کا سردرد تھا۔ان مشاغل کے علاوہ اس کی امی کی صحت بھی گر رہی تھی اور انہیں جملہ ڈاکٹروں کو دکھانا، دوائیاں لانا، ٹسٹ ایکسرے کرانا، امی کی دلجوئی اور رشتہ دارخواتین کو بیماری کی تفصیلات مہیا کرنا، اس کے مشاغل تھے۔ ان مشاغل کے علاوہ اسے وی سی آر پر فلمیں دیکھنے کا بھی بہت شوق تھا۔ کرکٹ میچ اور ویڈیو فلموں کو دیکھنے کے لیے جب اسے وقت نکالنا پڑتا تو کبھی کبھی بڑی الجھن کا سامنا ہوتا۔

    ایسے ہی وقت میں جب وہ وی سی آر پر ایک دھماکے دار ماردھاڑ کی فلم دیکھ رہا تھا اور اس کی امی نے فون پر اپنی نند کو جواب دے دیا تھا تو آراء ان کے گھر آئی۔۔۔ذی شان کی تمام تر توجہ اس وقت فلم میں تھی لیکن آراء روٹھی ہوئی لگتی تھی۔ وہ اس کے پاس آکر صوفے پر بیٹھ گئی اور چپ چاپ مار دھاڑ کی فلم دیکھنے لگی۔ ذی شان کو معلوم نہیں تھا کہ اس کی امی اس رشتے کے لیے انکار کر چکی ہیں۔ اگر اسے معلوم بھی ہوتا تو بھی کچھ اتنی زیادہ حسرت اس کے دل میں جگہ نہ پاتی۔ وہ کبھی کبھی تکلف کے ساتھ آراء کو مسکرا کر دیکھ لیتا اور پھر فلم دیکھنے میں مشغول ہو جاتا۔ آراء کی حالت اس سے مختلف تھی۔ وہ اندر ہی اندر کچھ جملے بنا سنوار رہی تھی۔ کچھ پوچھنا چاہ رہی تھی۔ کچھ بتانے پر آمادہ تھی۔ جب فلم میں وقفے کے بعد چند اشتہار آنے شروع ہو گئے تو ذی شان نے فراخدلی سے پوچھا،

    ’’کیا حال ہیں؟‘‘

    ’’آپ کو معلوم ہوگا، کیا حال ہو سکتے ہیں۔‘‘

    ’’کیوں خیر تو ہے، بڑی مایوس سی لگتی ہو۔‘‘

    آراء کی جانب سے بڑا لمبا خاموشی کا وقفہ آ گیا جس وقفے میں ذی شان نے اپنے اندر ہی اندر آنے والے چار گھنٹوں کا پروگرام مرتب کیا اور وہ روٹ بنایا جس پر کار لے جانے سے اسے دوہرے تہرے پھیرے پڑنے کا احتمال نہ ہو۔

    ’’مامی جی نے تو انکار کر دیا ہے آج صبح۔‘‘ وہ چند لمحے سمجھ نہ سکا کہ کس لیے کس کو اور کس بات سے مامی جی نے انکار کر دیا ہے۔

    ’’آپ کو تو شاید کچھ فرق نہ پڑے۔‘‘ اب بات کچھ کچھ اس کی سمجھ میں آنےلگی۔

    ’’آراء۔۔۔دیکھو میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔۔۔یہ بہتر ہے کہ اب میں تمہیں چھوٹا سازخم دوں بہ نسبت اس کے کہ بعد میں تمہیں ساری عمر تکلیف دیتا رہوں۔۔۔ابھی میں Settle ہونا نہیں چاہتا۔ میں ابھی طے نہیں کر سکا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں۔ کدھر اور کس کےساتھ جانا چاہتا ہوں۔‘‘ آراء یقیناً ایک ماڈرن لڑکی تھی لیکن ماڈرن لڑکیوں کے بھی کئی گریڈ ہوتے ہیں اور اس کا گریڈ چپراسیوں کا سا تھا جو انکار سن کر زیادہ اصرار نہیں کر سکتے۔ وہ اٹھی۔۔۔اور دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔ پھر اس نے دو قدم ذی شان کی جانب بڑھائے اور کہا، ’’ذی شان تمہاری Activities زیادہ ہیں۔ اتنے مشاغل ہوں تو آدمی بٹا رہتا ہے۔ کبھی کبھی خالی بیٹھ کر اپنے ساتھ بھی وقت گزارا کرو۔۔۔کافی دھند چھٹ جاتی ہے اور دور تک نظر آنے لگتا ہے۔۔۔پھر فیصلے اپنے بھی ہوتے ہیں اور آسان بھی۔۔۔‘‘

    ذی شان نے آراء کی بات پر کوئی توجہ نہ دی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ آراء زیادہ تر باتیں نامور ادیبوں کے اقتباسات یاد کر کے کرتی ہے۔ آراء اس کی زندگی سے نکل گئی۔ غالباً وہ کبھی آئی ہی نہ تھی۔ اس کے بعد اس کی شادی ہو گئی اور شادی کے بعد مشاغل میں اور اضافہ ہو گیا۔ اس کی بیوی ایک کھاتے پیتے گھرانے کی خود ساختہ لاڈلی تھی۔ وہ بھی ایک متمول خاندان کا پڑھا لکھا خوبصورت فرد تھا۔ کبھی سسر کی گاڑی، کبھی باپ کی کار، کبھی اپنی کبھی بیوی عاتکہ کی گاڑی میں کئی جگہوں پر جانا پڑتا۔ کہیں کام، کہیں تفریح۔۔۔لیکن مل جل آناجانا سمیٹنا پھیلانا اس قدر تھاکہ فرصت کے لمحات سکڑتے گئے اور وہ اپنے آپ سے کبھی نہ مل سکا۔

    ایک بات طے پا گئی کی پاکستان میں رہ کر خاطر خواہ ترقی نہیں ہو سکتی۔ یہاں وسائل اور مواقع کی بہت کمی ہے۔ یہ نہیں کہ ذی شان کو مالی طور پر کسی ترقی کی ضرورت تھی لیکن زندگی جمود کا نام بھی تو نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں ذی شان اور عاتکہ کی زندگی ایک روٹین کا شکار ہو چکی تھی اور اتنے سارے مشاغل کی پیروی نے انہیں چڑچڑی بلی کی طرح ہرکھمبے کو نوچنا سکھا دیا تھا۔ جب بھی انہیں فرصت کا کچھ وقت ملتا، وہ ایک دوسرے سے کسی نہ کسی طور کی شکایت ہی کرتے۔ کبھی تمام الجھنوں کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں ٹریفک ٹھیک نہیں۔ یہاں کا تعلیمی نظام پسماندہ ہے۔ تمام سسٹم کام نہیں کرتے۔ وقت بہت ضائع ہوتا ہے۔ پھر خاندان والے بے جا مداخلت کرتے ہیں۔ شخصی آزادی کا نام و نشان کہیں نہیں۔ دوست ریاکارمنافق ہیں۔۔۔اصلی رشتوں کی پہچان گم ہو گئی ہے۔ نقلی رشتے بہت زیادہ ہیں۔۔۔!

    دفتروں میں گپ بازی اور فائل سسٹم بہت زیادہ ہے۔ بیوروکریٹ کی سرداری ہے۔ ماں باپ مشفق کم ہیں، مطالباتی زیادہ ہیں۔ بہن بھائیوں کی اپنی اپنی دلچسپیاں ہیں۔ وہ اپنے اپنے مدار پر ہیں۔ غرض یہ کہ جب ذی شان اور عاتکہ کو پاکستان سے اور پاکستان میں بسنے والوں سے اتنی شکایات ہوگئیں کہ انہیں ان شکایات کا کوئی حل نہ مل سکا تو انہوں نے اپنی بے قراری کاحل صرف یہی سوچا کہ وہ لندن چلے جائیں اور وہاں قسمت آزمائیں۔ لندن جانے سے پہلے ایک روز پھوپھی جان سے ملن ےگیا۔ آراء ایک کند قینچی سے گلاب کا پھول کاٹ کر اپنی ٹوکری میں ڈال رہی تھی۔ وہ ذی شان سے ایسے ملی جیسے ان دونوں کے درمیان کبھی کچھ تھا ہی نہیں لیکن جب ذی شان چلنے لگا تو آراء کچھ چپ سی ہو گئی۔

    ’’واپس کب آؤگے؟‘‘

    ’’بس آتا جاتا رہوں گا۔‘‘

    ’’اچھا؟‘‘ آراء نے سوالیہ نظروں کے ساتھ پوچھا۔

    ’’بھئی آتا جاتا رہوں گا۔ یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔ امی ابو سے تو ملنے آؤں گا ہی۔‘‘

    ’’کبھی کبھی اپنے آپ سے بھی مل لینا ذی شان۔۔۔تنہائی میں۔۔۔جو شخص اپنے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ کسی کے ساتھ بھی نہیں رہ سکتا۔‘‘

    ذی شان نے آراء کی طرف دیکھا۔ وہ جانتا تھا کہ آراء ایسی باتیں اقتباسات سے اخذ کرکے بولا کرتی تھی اس لیے اس نےجب آراء کو خدا حافظ کہا تو ساتھ ہی اس کی بات کو بھی بھلا دیا۔ اس کے بعد پورے بیس سال تک اس کی ملاقات اپنے آپ سے نہ ہو سکی۔ لندن کی زندگی میں مشاغل او ربھی گوناگوں ہو گئے۔ پاکستان میں مالی، باورچی، دھوبی، جمعدارنی ایسے بہت سے وافر لوگ موجود تھے جو اس کی گھریلو زندگی کو سہل بناتے تھے۔ لندن میں یہ گھریلو کام بھی ان دونوں پر آپڑے۔ عاتکہ اور وہ دونوں کام کرتے تھے۔ دونوں مل کر کھانا پکاتے تھے۔ دونوں مل کر صفائی کرتے تھے۔ دونوں مل کر بچے پالتے تھے۔ دونوں تمام چھٹیاں یورپ میں گزارتےتھے۔ چھٹیوں کا پروگرام بنانا۔۔۔سستے ٹکٹوں کی تلاش۔۔۔سستے ہوٹلوں کا سراغ۔۔۔ان گنت مصروفیات تھیں۔ گھر سے کام۔۔۔کام سے گھر۔۔۔پھر گھر پر گھریلو کام!

    اس کی زندگی مکمل طور پر اپنی ضروریات، اپنے پیشےکی ضروریات، اپنے خاندان کی کفالت کی نذر ہو گئی اور بیس سال بعد اسے پتہ چلا کہ وہ اندر سےبکھر چکا ہے۔۔۔تب اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے دونوں بیٹوں کو لے کر واپس پاکستان چلا جائےگا۔

    عاتکہ اس تبدیلی پر رضامند نہ تھی۔ وہ ایک کھاتے پیتے گھرانے کی لڑکی تھی۔ پاکستان میں اسے اپنے ہاتھ سے اپنے ذاتی کام کرنے کی بھی عادت نہ تھی۔ مغرب میں رہنا اس نے اس لیے پسند کیا تھا کہ یہاں ذی شان اس کا گھریلو ملازم تھا۔ وہی Groceries لاتا، کار چلاتا، تمام بل ادا کرتا، چونکہ ان کے فلیٹ میں لفٹ عموماً خراب رہتی تھی اس لیے تیسری منزل پر تمام بھاری سامان اٹھاکر لے جانا بھی ذی شان کی شاندار ڈیوٹی تھی۔ مغرب میں کھاتے پیتے گھرانوں کے ایسے لڑکوں کے لیے مشکل زندگی تھی جو عیاش نہ تھے۔ پاکستان میں کوٹھی، کار، ملازم تمام چیزیں مہیا تھیں اور ان کے لیے کوئی جدوجہد یا تگ و دو کرنا نہ پڑتی تھی۔

    ذی شان کے لیے مغرب کی زندگی ایک بڑی بیکار جدوجہد کانام تھا۔ لمبی روٹین جس میں چھٹیاں بھی معمولات کے تحت آتیں لیکن عاتکہ پاکستان واپس نہ جانا چاہتی تھی۔ وہ مغربی طرزمعاشرت میں اپنے لیے ایک چھوٹی سی آزادی، ایک چھوٹا سا مقام حاصل کر چکی تھی۔ اس مقام اور آزادی کے لیے اسے بہت محنت کرنا پڑی تھی لیکن وہ واپس جانا نہیں چاہتی تھی۔ جب ذی شان نے فیصلہ کر لیا کہ وہ پاکستان واپس جا کر بزنس کے امکانات دیکھے گا تو عاتکہ اور بچے پیچھے رہ گئے اور اس سفر کے دوران اسے دوبئی ایئرپورٹ پر آراء ملی۔۔۔وہ ان بیس سالوں میں بھاری ہوگئی تھی لیکن اس کے چہرے پر بڑی شانتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں کسی قسم کے گلے یا شکایتیں نہ تھیں۔ وہ دونوں ڈیوٹی فری شاپ پر سینٹ دیکھ رہے تھے جب اچانک ان کی نظریں ملیں۔

    ’’ارے تم آراء!‘‘

    ’’ہائے ذی شان تم تو موٹے ہو رہے ہو اور بال بھی گرے کر لیے ہیں۔‘‘

    بڑی مدت کے بعد ملنے سے جو تپاک کی فضا پیدا ہوئی، اس کے تحت وہ دونوں لاؤنچ میں ان ڈور پلانٹر میں گھری ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔

    ’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘

    ’’امریکہ۔۔۔اور تم ذی شان؟‘‘

    ’’میں وطن۔۔۔پاکستان۔‘‘

    ’’امریکہ میں رہتی ہو؟‘‘ بڑی لمبی خاموشی کے بعد ذی شان نےسوال کیا۔۔۔اسے کچھ دھندلا سا یاد تھاکہ آراء کاشوہر شکاگو میں کیش اینڈ کیری کا بزنس کرتا ہے۔

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’خوش ہو؟ امریکہ میں۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔جس قدر خوشی ممکن ہے۔‘‘ آراء نے آہستہ سے کہا اور پھر چند ثانیے رک کر بولی، ’’اور تم۔۔۔تم خوش ہو لندن میں؟‘‘

    ’’پتہ نہیں۔۔۔میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔۔۔مجھے لگتا ہے جیسے میری زندگی روٹین کی نذر ہوگئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی دھجیوں میں بکھر گئی ہے۔۔۔اچھا کھانا، صاف ستھرے گھر میں رہنا، اچھے بازاروں میں گھومنا۔۔۔ہروقت صفائی کا خیال رکھنا۔۔۔زندگی کیا یہی کچھ ہے؟ اس کے کیا یہی معنی ہیں؟‘‘ آراء مسکراتی رہی۔ ’’عاتکہ بھی کام ہی کرتی رہی ہے۔ میں بھی الجھا ہی رہا ہوں کاموں میں، حالانکہ اپنے وطن میں ہمیں سب کچھ میسر تھا۔۔۔اور اس کے بدلے میں مجھے کیا ملا ہے؟ اونچا معیار زندگی۔۔۔لیکن معیار زندگی ہے کیا چیز؟ اور جو کچھ مجھے ملا ہے، اس کے عوض میں اندر سے اس قدر کیوں بکھر گیا ہوں آراء۔۔۔ تم نے بھی تو ساری عمر امریکہ میں گزاری ہے کیا تم بھی اپنی زندگی کو اتنا بے معنی سمجھتی ہو۔۔۔ کیا تم بھی بکھری ہو اندر سے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’پر میں۔۔۔میں کیوں اتنا کھوکھلا ہو گیا ہوں؟‘‘

    ’’اس لیے کہ تم کثیر المقاصد تھے ذی شان۔۔۔ایک وقت میں کئی آرزوئیں پال کر جینے والا ٹوٹے گانہیں تو اور کیا ہوگا؟‘‘

    ’’اور تم۔۔۔تم بھی تو اس بے ہودہ دور کی پیداوار ہو، جب آرزوئیں ہر صبح ککرمتے کے کھیت کی طرح اگتی ہیں، تم نے اپنے آپ کو کیسے بچایا؟‘‘

    ’’اندر والے کو تو اندر ہی سے بچایا جا سکتا ہے ذی شان۔‘‘

    ’’پر کیسے۔۔۔؟ کیسے؟‘‘

    ’’میں نےساری عمر ایک ارمان پالا۔۔۔اور اندر صرف اس کو سینچا۔ اس کی خاطر جیتی رہی۔۔۔باقی ساری Activity تو فروعی تھی۔۔۔جب خواہش ایک ہو اور اس کی سمت دیکھتے رہیں تو باقی بھاگ دوڑ اندر اثر نہیں کرتی۔‘‘

    ’’وہ ارمان۔۔۔پورا ہو گیا تمہارا؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔لیکن خواہش پوری ہو نہ ہو۔ یہ ضروری نہیں ہے۔ خواہش ایک ہی رہے۔۔۔ایک وقت میں تو انتشار پیدا نہیں ہوتا۔۔۔توڑ پھوڑ نہیں ہوتی۔‘‘

    ذی شان نے تعجب سےآراء کو دیکھا اور پھر ڈرتے ڈرتے سوال کیا، ’’اور وہ خواہش۔۔۔ وہ ارمان کیا تھا۔۔۔؟ کیا میں پوچھ سکتا ہوں۔‘‘ آراء نےچند ثانیے ذی شان کو دیکھا جیسے بیس سال پیچھے لوٹ گئی ہو۔ ہلکا سا مسکرائی اور ڈیوٹی فری شاپ کی طرف بڑھتے ہوئے بولی، ’’ذی شان! اگر تمہیں بھی معلوم نہیں تو بتانے سےفائدہ۔۔۔اور پھر میں سوچتی ہوں، ارمان تو سینٹ کی بند شیشی کی طرح ہوتا ہے۔ اظہار ہو جائے تو خوشبو اڑ جاتی ہے۔ خواہش باقی نہیں رہتی۔‘‘

    آراء ڈیوٹی فری شاپ میں اس طرح داخل ہو گئی جیسے جھومتی جھامتی ہتھنی سندر بن میں غائب ہو جائے۔ ذی شان سوچتا رہا کہ اس آخری عمر میں۔۔۔اتنےانتشار کے باوجود وہ کس اکلوتی خواہش کے دھاگے میں اپنی تسبیح کے دانے پرو سکتا ہے؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے