وقت کی زبان رفتہ رفتہ ایسے چاٹ رہی ہے کہ نہ ہمیں احساس زیاں ہے اور نہ اس کے پیٹ کا دوزخ بھرتا ہے۔ اگر امریکہ میں مقیم دیسی مردوں کی اوسط عمر پچھتر فرض کی جائے تو اس اعتبار سے عمرِ عزیز کی تیسری اور آخری تہائی شروع ہو چکی ہے۔ اس تہائی میں ایسے فضول سوالات سر اٹھاتے ہیں جنہیں اس سے پہلے کہیں تھپک کر سلا رکھا ہوتا ہے۔ ہماری تخلیق کا مقصد کیا تھا؟ ہم سرسری اس جہان سے گزر رہے ہیں یا اس مقصد کی کسی حد تک بجا آوری کی ہے۔ تخلیق کا مقصد اکثر عبادت بتایا جاتا ہے۔ تو جب وہ لاکھوں نوری جو ہر وقت تسبیح میں مشغول ہیں اس قادر مطلق کو مطمئن نہ کر سکے تو یہ ناری جو عید کے عید ہی زحمت کرتا ہے کیسے مقصود ہو سکتا ہے۔ نہیں سبب کوئی اور ہے۔ پھر یہ کہ اسے اپنی پہچان منظور تھی۔ یہ بات بھی حلق سے نہیں اترتی، کہ اس کے لئے فقط سامنے آ کر مسکرا دیتا کہ دیکھ لو یہ ہوں میں، اتنا گورکھ دھندا پھیلانے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر یہ کہ پہلا پروٹو ٹائپ بنا کر ہی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کچھ manufacturing defect رہ گیا ہے۔ میرے خیال میں اس ناچیز کی تخلیق کا سبب یہ تھا کہ اپنے قاری کو افسانوں سے بور کرے تو جناب یہ مقصد پورا کرنے میں، میں نے کسی تساہل سے کام نہیں لیا۔ شکر کیجئے ابھی نوکری کی عمر باقی ہے، ورنہ اکثر مصنف ریٹائرمنٹ کے بعد یا تو قضائے عمری پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں یا افسانے، کہانیاں تحریر کرنے میں۔ اس میں بے چارے قاری پر کیا گزرتی ہے، یہ جانتا اگر تو لکھا نہ کرتا میں۔
ہماری تخلیق کا کیا مقصد ہے، علم کے اس خلا کو پر کرنے میں مذاہب نے اہم کردار ادا کیا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب بحث وہیں رک گئی ہے، کہیں پندرہ سو برس پہلے۔ سفر کی دھول کو غور سے دیکھا تو وہی مانوس چہرے نظر آئے۔ وہی شرافت کی ارزانی، طبقوں کی جد و جہد، عدم برداشت اور تحقیرِ نسواں۔ اکیسویں صدی شاید کئی ہزار برسوں کے بعد ترقی کے اس سفر میں بہت اہم صدی ہوگی۔ کمپیوٹر اور اس سے پیدا ہونے والے امکانات نے رہن سہن، سماج، تعلیم، تجارت، کھیل، سیاست ہر چیز کو بدل دیا ہے۔ طب میں ہونے والی تحقیقات انسان کے لئے ایسے معاشرتی سوالات کو جنم دے رہی ہے جس کے لئے پھر ارسطو، افلاطون اور گلیلو کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم وہیں اٹکے ہوئے ہیں کہ موسیقی جائز ہے یا ناجائز، تصویر اتاری جا سکتی ہے یا نہیں۔ ہمارے ہاں اب بھی وہی سورج نکل رہا ہے، پھیکا، دھندلا۔ زمین اب بھی سورج کے گرد چکراتی پھر رہی ہے اور چندا ماموں ہمیں ویسے ہی بےوقوف بنا رہے ہیں۔ پندرہ سو سال سے کیوں، کب اور کیسے کے بارے میں ہماری معلومات میں ذرہ بھر اضافہ نہ ہوا اور ہوتا بھی کیسے ہم تو اب ہر ارسطو، افلاطون اور گلیلو کو مار دیتے ہیں۔ اگر سب سوالات کے جوابات پندرہ سو سال پہلے طے ہو گئے ہوتے، تو کائنات کا مقصد پورا ہو جاتا اور وہ یہ بساط لپیٹ لیٹا۔ کیوں کہ ایسا نہیں ہوا، لہذا ثابت ہوا کہ جستجو اور تحقیق کا سفر جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ خواتین و حضرات، امکانات کو بغیر سوچے اور سمجھے رد نہ کیجئے۔ لیکن سوچئے اور سمجھئے تو، سوال تو کیجئے۔ ورنہ ہم اپنے توہمات اور اعتقادات کے جس غار میں مقید ہیں وہی رہ جائیں گے اور پہلی دنیا ایسے ہی ہم پر حکمران رہےگی۔ اس میں دوش ان کا نہیں، وہ تو وہی کر رہے ہیں جو ہر طاقتور کرتا ہے، قصور شکار کا ہے اسے اپنے بچاؤ کا خود انتظام کرنا ہوتا ہے۔
پچھلے چند سالوں سے حلقہ اربابِ ذوق نیویارک سے اتنی قریبی وابستگی رہی کہ میری نصف بہتر گرفتار حسد رہی۔ اپنی زمین چھوڑ کر ویسے ہی اپنی شناخت تک گم ہو جاتی ہے۔ امریکی ہمیں بدیسی کہتے ہیں، بدیسی حلقوں میں ہمیں دیسی کہتے ہیں اور ہم خود وہاں ہیں جہاں سے ہم کو اپنی خبر نہیں آتی۔ ایسے میں حلقہ اربابِ ذوق نے روح کی سیرابی اور حرف کی شادابی کے اسباب مہیا کئے تو اس دیار غیر میں دل کچھ اٹک گیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے بہت سے سنجیدہ ادب کے قاری خاموشی سے یہاں زبان کے فروغ کی اتنی ہی یکسوئی سے خدمت کر رہے ہیں جتنی کراچی، لاہور، دہلی یا لکھنو میں۔ نصرت انور، حمیرا رحمن، شہلا نقوی، محمد عمر میمن، عبداللہ جاوید، رضیہ فصیح احمد، طاہرہ نقوی، احمد مشتاق، شوکت فہمی، صبیحہ صبا، عشرت آفرین، مامون ایمن، احمد مبارک، مقسط ندیم، نسیم سید، رئیس وارثی، شکیلہ رفیق، تقی عابدی، رفیع الدین راز، اکرام بریلوی، نم دانش وغیرہ وغیرہ ایسے ستارے آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں۔ باہمی رقابتوں، پیشہ ورانہ چپقلشوں اور آسمان کو پہلے چھو لینے کی مقابلہ بازی میں ناراضگیاں بھی ہوتی ہیں، ادبی مخاصمتیں بھی، مگر سب حتی المقدور اردو کی اور خدمت میں مصروف ہیں۔ اب اس میں کہیں کہیں اپنی بھی اشک شوئی ہو جائے تو یہ ناشکرے تو بہر حال نہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.