ذہن زاد
”بیٹے قرطاس تم رو کیوں رہے ہو؟رونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم خود کو تنہا نہ سمجھو۔ اگر تمہیں یہ لگتا ہے کہ تمہارا وجود فرضی ہے تو میں تم سے کہہ دینا چاہتا ہوں کہ وجود میرا کون سا حقیقی ہے۔ تم تو ان ڈھائی تین کروڑ سے کہیں بہتر ہو۔ ہاں۔۔۔! ڈھائی تین کروڑ ہی تو ہوتے ہیں زندگی سے چمٹ جانے کی جہد میں۔۔۔ لیکن زندگی ان میں سے صرف ایک ہی کے حصے میں آتی ہے باقی سب فنا کی گلیوں سے ہوتے ہوئے وادیئ خموشاں میں دفن ہو جاتے ہیں۔ تم ان سے بہتر اس لیے ہو کہ تم ان میں سے نہیں ہو۔ تم نے اپنا وجود منوانے کے لیے اپنے کسی بھائی بہن کو کچلا نہیں۔
قرطاس اپنے ابّو سے منہ پھیر کر ستون سے ٹِک جاتا ہے اور اپنے معصوم سے چہرے کو آنسوؤں سے بھگونے لگتا ہے۔ اب وہ خوب رو نوجوان ہو چکا ہے لیکن چہرے پر وہی بھولا پن، وہی معصومیت اور وہی آنکھیں جو بچپن سے اپنی ماں کے لیے بے قرار۔ اس نے ستون کی اوٹ سے ذرا اونچی آواز میں پوچھا۔۔۔
”ابّو! آپ بتاتے کیوں نہیں میری ماں کہاں ہیں؟“ اتنا کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
”تم اپنی ماں کی طرح ضد بھی کرتے ہو“ قرطاس کے ابّوپیار سے مسکراتے ہوئے دھیرے سے اپنا ہاتھ اس کے شانے پر رکھ دیتے ہیں۔
”بیٹی تالیف تم دور کیوں کھڑی ہو؟ میرے قریب آؤ۔ اپنے ابّو کے پاس۔“ تالیف آکر اپنے ابّو کے دائیں شانے سے لگ گئی۔ بھرا بھرا سا جسم، درمیانہ قد، گول چہرہ اور لب خموش۔
”بیٹی تم اتنی اداس کیوں ہو؟تمہیں نہیں جاننا ہے اپنی ماں کے بارے میں؟“
تالیف نے اپنا سر مثبت انداز میں ہلایا۔
اپنے دونوں بچوں کو بانہوں میں سمیٹ کر انھیں بہت سکون ملا۔ ”میرے بچوں مجھے معاف کرنا۔ میں تمہاری ماں کے متعلق اب کچھ نہیں جانتا ہوں بلکہ مجھے تو اب تمہاری ماں کی شبیہ بھی ٹھیک سے یاد نہیں رہ گئی۔ قریب رہتے ہوئے بھی میں نے اسے دیکھا ہی کتنے بار تھا۔۔۔ بس پہلی اور آخری بار۔ یہ الگ بات ہے کہ اُس ایک دیدار میں ہی اس کے نقش و نگار میرے ذہن میں لمبے وقت تک تازہ رہے۔“
”ابّو! ایک بات پوچھوں۔۔۔؟“ تالیف نے نرم لہجے میں کہا۔
”ہاں ہاں بیٹی۔۔۔ پوچھو“ اس کے ابّو نے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
”آپ کو ماں سے اور ماں کو آپ سے ذرابھی محبت نہیں تھی۔۔۔؟“ تالیف نے بڑی معصومیت سے کہا۔
یہ سوال سن کر انھوں نے سرد آہ بھری ایسا لگا کہ ان کے منھ سے’سیئئء۔۔۔‘ کی آواز نکلی ہوجیسے کسی نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ چہرے کا رنگ بدلا۔ خون کی گردش میں لمحہ بھر کے لیے تبدیلی ہوئی اور رونگٹے کھڑے ہوتے ہوتے رہ گئے۔ کچھ توقف کے بعد وہ دیوار پر ٹنگی ٹارنیڈو(Tornado) کی پینٹنگ کوغور سے دیکھنے لگے اور دھیرے دھیرے پر سکون ہو گئے۔ تالیف اپنے ابّو کی حالت دیکھ کر سہم گئی اسے لگا کہ اس نے غلط سوال پوچھ لیا ہے۔
تالیف کا پوچھا ہوا سوال جو دو حصوں میں تھا۔ پہلے حصے کا جواب انھوں نے نہیں دیا اور دوسرے حصے کا جواب دھیمی آواز میں دینا شروع کیا۔۔۔
”ہاں وہ مجھے چاہتی تھی۔۔۔ بہت چاہتی تھی لیکن مجھ سے بھی زیادہ تم دونوں کو چاہتی تھی۔ تمہاری ماں کی وجہ سے مجھے بھی تم دونوں سے اِتنی محبت ہو گئی کہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی میں تم دونوں کو بھلا نہ سکا۔“ اتنا کہہ کر وہ کھانسنے لگے۔ ان دونوں خوبصورت بچوں نے سہارا دے کر انھیں سوفے پر بٹھایا اور خود بھی ایک ایک کنارے پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں ادھیڑ عمر سے ذرا زیادہ عمر کی عورت نیلے رنگ کا ایک کافی مگ لائی اور میز پر رکھتے ہوئے مسکرا کر کہا، ”آپ کی پسند کی بنائی ہے، اسٹرانگ والی۔ ٹھنڈی ہونے سے پہلے پی لیجیے گا۔ میں نیلوفر کے گھر سے ہو کر آتی ہوں۔“ اتنا کہہ کر وہ عورت چلی گئی۔ اس نے قرطاس اور تالیف کی طرف دیکھا تک نہیں۔ قرطاس جو ابھی بھی اپنے ابّو سے ناراض نظر آ رہا تھا لیکن تالیف کی آنکھوں میں مدھم سی چمک پیدا ہوئی اور اس نے پوچھا۔۔۔
”ابّو! کیا یہی ہیں میری ماں؟“
”نہیں میری بچی۔ تمہاری ماں اس وقت دنیا کے کس حصے میں ہے میں نہیں جانتا۔ یہ تو میری بیوی ہے۔ یہ تمہاری ماں نہیں ہے۔ تمہاری ماں سے علیحدگی کے بعد ہم دونوں نے کبھی کسی کی خبر نہیں لی۔ میں عمر کے اِس پڑاؤ پر آ چکا ہوں کہ پتا نہیں کب اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں اس لیے آج تم دونوں کو یاد کیا تاکہ جی بھر کر تمہاری ماں کے بارے میں باتیں کر وں اور اپنا دل ہلکا کر لوں۔“
کچھ دیر کھڑکی کے اُس پار اڑتے پرندوں کو گھورنے کے بعد وہ پھر گویا ہوئے۔۔۔
”تمہاری ماں نے اپنی جوان زندگی کا کم و بیش ایک دہا جس شہر میں گزاراوہیں میری اس سے ملاقات ہوئی تھی لیکن افسوس میں اخیر میں پہنچا اور شاید تمہاری ماں سے آدھے وقت ہی وہاں رہ سکا۔ اس مدت میں ہم ایک دوسرے کو سمجھتے رہے اور شاید کبھی سمجھ ہی نہ سکے البتہ ہم دونوں میں نزدیکیاں بھی غضب کی اُستوار ہوئی تھیں۔ دودھ اور شہد کی ندیاں ہم نے ساتھ میں اُسی شہر میں دیکھی تھیں۔ ایک دوسرے کی فکر کرنا، خیال رکھنا اور ملنا جلنا ہوتا رہتا تھا۔ ہم بہت قریب سے ملے لیکن ایک پردہ دونوں کے درمیان حائل رہا جو کہ مذہب، تہذیب، ثقافت، لحاظ، حیا، ادب اور اعتبار کے دبیز دھاگوں سے بنا ہوا تھا۔“
لمبی سانس لے کر چھوڑتے ہوئے۔۔۔ ”میرے بچوں تم دونوں کی پیاری صورت تمہاری ماں اور مجھ سے بہت ملتی ہے۔ پتا ہے قرطاس! تمہاری پیشانی میرے جیسی ہے اور آنکھیں اپنی ماں کی طرح، ہونٹ میرے جیسے اور گال اپنی ماں جیسے۔“
”اور تالیف تم تو زیادہ تر اپنی ماں جیسی ہی لگتی ہو۔ پیشانی، آنکھیں، ہونٹ، ناک اور سب کچھ تو ویسا ہی ہے بس ذقن میری طرح ہے۔“ کہتے ہوئے وہ مسکرائے۔
دونوں بھائی بہن ایک دوسرے کو غور سے دیکھنے لگے۔ ایسا لگ رہا تھا آج وہ پہلی بار ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں اور ساتھ ہی ایک دوسرے کے چہرے سے اجزا اکٹھے کر کے اپنی ماں کی تصویر بھی مکمل کر لیں گے لیکن کچھ ہی دیرمیں وہ دونوں اپنے ابّو کی طرف نا امیدی کی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
وہ پھر گویا ہوئے۔۔۔ ”تمہاری ماں کو عکس ریزی کا بہت شوق تھا اس نے میری کئی تصویریں لیں تھیں۔ جو آگے چل کر صرف میرے لیے یاد گار رہ گئیں۔ اس نے تو میری تصویروں کو ضائع کر دیا ہوگا۔ تمہاری ماں کو بچوں سے بہت لگاؤ تھا۔ اسی لیے میلے میں اس نے میرے ساتھ ایک جہازی ساخت کی کتاب خریدی تھی جس میں قرطاس بالکل تمہاری بچپن جیسی تصویر چھپی تھی۔ تمہیں یقین نہیں ہو رہا ہے نہ۔۔۔ میں دکھاتا ہوں تمہیں۔ میرے پاس ابھی بھی ہے وہ کتاب۔ کتاب کی اُس تصویر کو دیکھ کر تمہاری ماں زیادہ خوش ہو گئی تھی۔ اس کی آنکھوں کی چمک دو گنی ہو گئی تھی۔ کتاب خریدنے کے بعد ہم نے اسی میلے میں ویسے ہی ایک بچے کو بھی دیکھا تھا جیسی کتاب میں تصویر تھی۔ اسے دیکھ کر تو تمہاری ماں لاچار سی نظر آنے لگی اور مجھ سے کہنے لگی تھی کہ مجھے یہی بچہ چاہئے۔ اُس وقت بڑی مشکل سے تمہاری ماں کو سمجھایا تھا کہ ہمارا بچہ بھی ایسا ہی ہوگا۔“ کہتے ہوئے وہ الماری میں چنی ہوئی کتابوں میں سے اس کتاب کو ڈھونڈنے لگے۔ قرطاس اور تالیف بھی الماری کی کتابوں پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد انھوں نے ایک پارینہ کتاب نکال کر میز پر رکھ دی۔ جب اسے کھولا تو اس کے اوراق پیلے اور تصویروں کے رنگ بھدے ہو چکے تھے۔ دو ہی ورق پلٹنے پر بڑی سی تصویر نظر آئی جو قرطاس کے بچپن کی صورت کو پیش کر رہی تھی۔ اسے دیکھ کر قرطاس کا ہاتھ اپنے گال پر بے ساختہ چلا گیا اور اس نے حیرت سے کہا۔۔۔
”کیا میں بچپن میں اتنا موٹا تھا اور میرے گال بھی۔۔۔؟“
”ہاں بیٹا۔۔۔! تم ایسے ہی تھے گول مٹول۔ تمہاری ماں کو تم ایسے ہی پسند تھے اسی لیے وہ تمہیں ’گپّو‘ کہا کرتی تھی۔“
اپنے ابّو کی بات سن کر تالیف دھیمے دھیمے مسکرا رہی تھی۔
”ابّو ہمیں ماں کے متعلق بتائیے وہ کہاں ہیں انھوں نے ہمیں کیوں نہیں اپنایا؟“ قرطاس کا لہجہ پہلے سے زیادہ سخت تھا۔
قرطاس کے ابّو ابھی کچھ بول پاتے کہ تالیف بھی کہنے لگی۔۔۔
”ابّو جان مجھے بھی ماں کے پاس جانا ہے۔ آپ ہمیشہ ٹالتے رہے لیکن اب اور نہیں۔۔۔ ۔ اب میں بڑی ہو گئی ہوں اور آپ کا کوئی بہانہ نہیں سنوں گی۔“
اتنا سننے کے بعدوہ ہکا بکا اپنے بچوں کے منہ تکتے رہ گئے۔ انھیں اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ بچوں کو سمجھانا اب ان کے بس میں نہیں رہا۔ پھر انھیں بھی غصہ آ گیا۔ آج ان بچوں کی اتنی ہمت بڑھ گئی کہ مجھ سے اونچی آواز میں بات کرنے لگے ہیں۔
انھوں نے بھی تند لہجے میں کہا۔۔۔ ”تمہاری ماں نے مجھ سے شادی ہی نہیں کی تھی۔ بس وہ تو تم دونوں کو مجھ میں پیدا کر کے چھوڑ گئی۔ تمہیں کیا لگتا ہے میں نے تمہاری ماں کو قبول نہیں کیا؟میں نے ہر ممکن کوشش کی تھی۔ بے شک وہ تم دونوں کے بارے میں سوچ کر ممتا کی عمیق گہرائیوں میں اتر جاتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بلا کی چمک آ جاتی تھی لیکن اس نے تمہیں کبھی عملی طور پر پیدا کرنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ وہ تمہیں میرے سہارے اور مجھ میں چھوڑ گئی۔ اس لیے تم مجھ سے ہو۔ اگر میں نہیں تو تم دونوں بھی نہیں سمجھے۔۔۔!“ وہ دلخراش آواز میں چیخے۔ اِسی کے ساتھ اُنھیں سینے میں شدید درد محسوس ہوا۔ ان کا ایک ہاتھ سینے پر اور دوسرا اپنے بچوں کی طرف تھا، گویا کہ ان سے مدد کی گہار لگا رہے ہوں۔ درد کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور دونوں بچے ایک دوسرے کو حیران و پریشان دیکھ رہے تھے۔ دھیرے دھیرے ان کے دونوں بچے مندمل ہو کر فضا میں تحلیل ہو گئے اور وہ خود میز پر لڑھک گئے۔ گھر میں بالکل سناٹا تھا۔ تاہم کتاب پارینہ اب بھی میز پر کھلی ہوئی تھی جس میں وہی خوبصورت بچہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر تھا۔ نیلے مگ میں کافی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ کھڑکی سے آنے والے ہوا کے ٹھنڈے جھونکے سے کتاب پارینہ کے اوراق پھڑ پھڑائے اور بچے کی تصویر اُن کے سر کے بالوں سے کھیلنے لگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.