وہ چلتا جا رہا تھا۔ سفر کہاں سے شروع ہوا، اسے یاد تھا کہاں ختم ہوگا وہ نہیں جانتا تھا۔
بچپن کی کچھ دھندلی یادیں تھیں۔ باپ کا سخت گیر رویہ اور منہ پر دوپٹہ رکھ کر سسکتی ہوئی ماں جواسے جب الماریاں الٹا کر پیسے نکالتے دیکھتی تو چیل کی طرح جھپٹ پڑتی، واسطے دیتی، بچوں کے نام کی دہائی دیتی، مگر وہ اسے دھکا دے کر نکل جاتا۔
وہ دیکھتا ہی رہ جاتاتھا۔ تینوں بہن بھائی سہمی ہوئی نظروں سے یہ سارا منظر دیکھتے، مگر اسے اپنے پورے وجود میں کچھ کھولتا ہوا محسوس ہوتا۔ شدید بے بسی کا احساس اس کھولن میں اضافہ کر دیتا تھا۔
ایک دن اس کا باپ لاپتہ ہو گیا۔ تب وہ صرف سولہ برس کا تھا۔ سننے میں یہی آیا تھا، کہ کچھ لوگوں سے بڑی رقم لے کر وہ جوئے میں ہار گیا ہے اور اب وہ لوگ اس کی جان کے درپے ہیں۔ رقیہ نے یہ خبر سن کر دل پر ہاتھ رکھ لیا۔ تب عثمان نے آگے بڑھ کر خبر لانے والے سے کہا تھا۔
’’اب اس سے ملوگے، تو کہنا وہ ہمارے لئے اور ہم اس کے لئے مر گئے، اب واپس آنے کی ضرورت نہیں!‘‘
رقیہ یہ سن کر تڑپ کر آگے آئی تھی یہ کیا کہہ رہا ہے تو عامی ؟
بس امی! بہت ہو گیا، اب اور نہیں ! کب تک آپ شوہر کے ہوتے ہوئے بیوگی کی اور ہم باپ کے ہوتے ہوئے یتیمی کی زندگی گزارتے رہیں گے؟
تب رقیہ نے اسے غور سے دیکھا تو احساس ہوا کہ اس کا بیٹا اب جوان ہو گیا ہے۔
اسی رات وہ چپکے سے اس کے کمرے میں آئی تھی۔ اس کے بستر کے پاس کھڑی اسے دیکھتی رہی، پھر پائینتی کی طرف بیٹھ گئی۔ ایک خاموش سا آنسو عامی کے پیروں پر گرا تھا۔ جس کی نمی اس کو اپنی آنکھوں میں محسوس ہوئی تھی۔ اس نے ماں کا بھرم رکھاتھا اور ظاہر نہیں ہونے دیاکہ وہ جاگ رہا ہے تھوڑی دیر بعد رقیہ اٹھی اس کی چادر ٹھیک کی سر پر ہاتھ پھیرا اور کمرے سے چلی گئی۔ ایک آنسو ٹوٹ کر تکیے میں جذب ہوا تو اسے حیرت ہوئی تھی وہ اپنی ہوش میں پہلی بار رویا تھا وہ تو باپ سے سخت ترین مار کھا کر بھی کبھی نہیں رویا تھا۔
یہ ایک آنسو اس کی زندگی کو کس طوفان سے دوچار کرنے والا تھا، وہ نہیں جانتا تھا۔
زندگی امتحانی پرچہ ہاتھ میں تھامے اس کے سامنے کھڑی تھی اور وہ سوالوں پر نظریں ڈال رہا تھا۔ ماں کے وجود کی ویرانی اور آنکھوں میں سوال اب کیا ہوگا؟ کیسے ہوگا؟بہنوں کی شادی بھائی کی تعلیم، خود اس کی کم عمری اور ناتجربہ کاری بھی اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں سرفہرست تھیں۔۔۔
کیسے ہوگا سب؟ کیا کریں گے؟ نظروں سے پوچھے گئے سوال آخر ایک دن زبان پر آ ہی گئے۔
امی میں ہوں نا سب کر لوں گا۔
اس دن سے اس نے چلنا شروع کیا تھا۔
امتحانی پرچے کو ترتیب سے رکھا پہلے کون سے سوال حل کرنے ہیں کیا آسان ترین ہے اور کس ترتیب سے کرنا ہوگا۔
مگر چلنے سے وہ کہیں نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس نے بھاگنا شروع کر دیا۔
اپنی تعلیم، بھائی بہنوں کی تعلیم اور بڑی بہنوں کی شادیاں، گھریلو ذمہ داریاں سب کچھ تو اس کے سامنے تھا۔ ماں کے نام نانا کا مکان تھا جسے فروخت کر کے وہ کرائے کے گھر میں آ گئے تھے۔ کچھ اس سے ملنے والی رقم کا آسرا ہوا تھا تو کچھ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ ایک دو جگہ ٹیوشن اور رات کی نوکری کرکے گھر کا خرچ کسی نہ کسی طرح چلا رہا تھا۔
کبھی کبھی اسے لگتا وہ تھکنے لگا ہے لیکن پھر یہ سوچ کر وہ خود ہی اپنی ہمت بندھا لیتا کہ سفر کے آغاز میں ہی وہ تھکن کا متحمل نہیں ہو سکتا ابھی تو بہت سفر باقی ہے۔ ماں کی آنکھوں سے جھلکتی حسرت اور بےبسی اسے دنیا کی ہر مشکل سے لڑ جانے پر اکساتے تھے۔ اس رات اپنے پاؤں پر گرے اس ایک آنسو کی قیمت وہ اپنی جان دے کر بھی چکانے کو تیار تھا*
یونیورسٹی میں اس کی ملاقات اسماء سے ہوئی۔ وہ امیر ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی اس کے لیے زندگی بہت سہل تھی۔ اپنے لیے کسی مشکل راستے کا انتخاب اس کے لیے کسی مہم کی طرح ہی دلچسپ تھا۔
ہم کیوں زندہ ہیں؟ بھرے پیٹ کے لوگ یہ بات نہیں سوچتے ان کو اس کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور ہم جیسے لوگ کیوں زندہ ہیں؟ ہم زندہ رہنے کی جدو جہد میں ہی تو زندہ رہتے ہیں۔ تم جس زندگی کی عادی ہو اس کے تو میں خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ عامی اس کی نظروں کے سوال پڑھتا مگر اپنی کم مائیگی کا احساس اسے ان سوالوں کے جواب اثبات میں دینے سے روکے رکھتا ۔تو اس سے کہتا۔ وہ اپنے بارے میں اسے سب کچھ بتا چکا تھا۔
میرے لئے زندگی کبھی سوالنامہ ہاتھ میں تھامے تو نہیں کھڑی رہی، مگر اندر کی تنہائی تپتی دھوپ میں صحرا کے سفر جیسی ہوتی ہے۔ سب کچھ ہونا بھی، کبھی کبھی کچھ نہ ہونے کی کمی کا شکار کر دیتا ہے۔ زندگی میں کوئی مقصد کوئی جدوجہد نظر نہ آ رہی ہو تو میں یہ ضرور سوچتی ہوں کہ میں کیوں زندہ ہوں میرے جینے کا مقصد کیا ہے؟ کاش میرے بس میں ہو تو میں سب کچھ دے کر تمہارے سارے خواب خرید لوں
اسماء کو اس کی اداس آنکھوں میں جانے کون سے خواب نظر آئے تھے کہ وہ سب دے کر انہیں خریدنے پر تل گئی تھی۔
تمہارے ساتھ رہنے کے لیے خوابوں کا یہ سودا کچھ مہنگا تو نہیں ہوگا!
یہ سپنوں کے سودے اچھے نہیں ہوتے اسماء ان سپنوں کے سوداگروں سے بچ کر رہنا چاہیئے یہ خواب بیچتے بیچتے آنکھیں لوٹ لیتے ہیں عامی کسی طرح بھی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کر نا چاہتا تھا۔
مجھے دیکھنے دو خواب تم جانتے ہو؟ وہ آنکھیں جو خواب نہیں دیکھتیں اس بنجر زمین کی طرح ہوتی ہیں جن پر کبھی کوئی پھول نہیں کھلتا۔ اس کے لہجے کی حسرت عامی کا راستہ روک لیتی۔
یہ پھول نہیں کانچ کے ٹکڑے ہوتے ہیں شیشہ ٹوٹ کے باہر گرتا ہے مگر خواب جب ٹوٹتے ہیں تو اندر کی طرف گرتے ہیں۔ دل گھائل، جگر چھلنی، روح زخمی کر دیتے ہیں۔‘‘ وہ اسے سمجھاتا۔
مگر مجھے ان خوابوں کی ضرورت ہے میں نے زندگی کی اتنی حقیقتیں چکھی ہیں کہ یہ خود فریبی میرے لیے آب حیات ہوگی یہ ٹوٹ بھی جائیں گے تو میں ان ٹکڑوں کو سمیٹ کر اپنے سینے سے لگا کر رکھوں گی کہ میری آنکھوں میں بھی کچھ خواب سجے تھے وہ کسی طرح سمجھنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
میرے لیے بھی زندگی ایک سفر کی طرح ہے جو کبھی دھوپ میں اور کبھی چھاؤں میں طے ہو رہا ہے اور تم جیسے کسی پڑاؤ پر ایک شجر سایہ دار کی طرح ملے ہو۔
دیکھو اسماء میں نے تم پر سب کچھ واضح کر دیا ہے یہ بھی کہ میری زندگی کوئی سایہ دار شجر کی مانند نہیں میں تو ایک آوارہ بادل کا ٹکڑا ہوں جواپنی منزل کی تلاش میں بھٹک رہا ہے تم پر کچھ دیر سایہ کر بھی دوں مگر مجھے سفر درپیش ہے کتنا طویل؟ میں نہیں کہہ سکتا۔
میں زندگی کا نہیں ہاتھوں کی لکیروں کا مسافر ہوں یہ ٹیڑھی میڑھی لکیریں مجھے کہاں لے جائیں میں نہیں جانتا یہ کہیں سے کٹ رہی ہیں کہیں بٹ رہی ہیں اور مجھے ان کے ساتھ ساتھ کٹنا ہے! بٹنا ہے! چلتے رہنا ہے جانے کب تک جانے کب تک ؟وہ کہتا اور لہجے میں جیسے تھکن اتر آتی تھی۔
میں تمہارے ساتھ چلوں گی۔ اسماء کے الفاظ تپتی دھوپ میں پھوار کی طرح تھے۔ مگر اندر سے کوئی آواز تھی جو کہہ رہی تھی یہ بارشیں اس کے نصیب کی نہیں۔
اور پھر وہی ہوا۔ جس کا اسے ڈر تھا۔ یا شاید وہ جانتا تھا یہ عارضی پڑاؤ ہے۔ کسی بھی طرح سے وہ دونوں بہنوں کی شادی کر کے ماں کی نظروں میں سرخرو ہو چکا تھا۔ مگر اپنی چھت کے چھن جانے کا غم ماں کی آنکھوں میں مستقل حسرت کی صورت جھلکتا رہتا۔ وہ اپنے باپ کی نشانی واپس پا لینے کے لیے بے چین ہوتی۔ اس نے بھی تو مکان بیچتے ہوئے عہد کیا تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ اسے واپس ضرور خریدےگا۔ اس نے خود سے عہد باندھا اور اسماء کو پیچھے چھوڑ کر آگے چل دیا۔
اس کے قدموں کی زنجیروں کو اسماء کے آنسو نہیں پگھلا پائے تھے۔ وہ اپنی یکطرفہ محبت کی لاش کندھے پر اٹھائے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیاں سمیٹتی برسوں کی دھول میں کھو گئی۔
اپنے گھر کا خواب آنکھوں میں سجائے اس نے دن کا سکون اور راتوں کی نیند خود۔ پر حرام کر لی تھی اور کیسی خوشی تھی جب اس نے ماں کے ہاتھ پر اس گھر کی چابی رکھی تھی۔ زندگی جیسے اپنی منزل پا چکی تھی۔
*
ایسے میں ماہا کا ساتھ صبح کی پہلی کرن جیسا امید افزاء تھا۔ وہ جب سے اسے ملی تھی اسے محسوس ہوتا جیسے اب وہ بھی زندگی جی رہا ہے صرف بسر نہیں کر رہا۔
وہ کبھی ہفتے دو ہفتے میں ایک بار ملتے، لیکن فون پر روزانہ رات کو بات کرتے تھے۔ عثمان ہمیشہ اسے فون ملاتا تھا۔ لیکن کبھی بند نہیں کرتا تھا یہ کام ہمیشہ ماہا کو کرنا پڑتا۔ وہ کبھی کبھی چڑ جاتی تو کہتی، کتنا مشکل ہوتا ہے کال کٹ کرنا اور تم کبھی یہ نہیں کرتے۔
اگر کبھی میں نے تم پر کال بند کی تو پھر شاید وہ آخری بار ہوگی! اس کے لہجے سے ماہا جھرجھری لے کر رہ گئی تھی اس کے بعد اس نے اسے کبھی نہیں کہا کہ وہ بھی کبھی فون بند کرے۔
زندگی ایک ہموار ڈگر پر رواں دواں تھی۔ کتنی سہل محسوس ہو رہی تھی۔ اسی طرح سے کٹ جائے تو اچھا ہے وہ سوچتا۔
مگر اس کے اندر جیسے کوئی پکار رہا تھا کہ ابھی سفر طے نہیں ہوا ابھی اسے بہت چلنا ہے۔
آس اور یاس کی اس کیفیت کااظہار اس نے ماہا پر کیا تھا۔
یوں لگتا ہے جیسے میں ایک مسافر ہوں، چلتے رہنا ہی میری قسمت ہے۔
اور تمہاری منزل؟
منزل! منزل کہاں ہے؟ کیا پتہ؟
*
عثمان میں تمہارے ساتھ قدم بہ قدم چلنا چاہتی ہوں ہم سفر پیارا ہو تو راستوں کی مرضی، جہاں بھی لے جائیں۔
راستے کیا اور ان کی مرضی کیسے؟ راستے تو قدموں کے محتاج ہیں جہاں قدم اٹھتے ہیں راستے بنتے ہیں۔
راستے طے ہوتے ہیں اور منزلوں تک پہنچاتے ہیں۔ ان کی کی کوئی مرضی نہیں ہوتی۔ یہ صرف پیروں تلے روندے جانے کے لئے ہوتے ہیں۔
تم کہتے ہو راستوں کی کوئی مرضی نہیں ہوتی کبھی کسی دوراہے پرکھڑے ہو کر یہ بات سوچی ہے؟ دونوں میں سے ایک راستہ تمہیں چننا ہو اور ایک چھوڑنا ہو مگر دونوں ہی سے تمہاری زندگی وابستہ ہو تو کیا کرو گے؟‘‘
میں جس کا انتخاب کروں گا وہ میری مرضی ہوگی، راستے کی نہیں۔
اور جسے چھوڑوگے؟ کیا وہ بھی اپنی مرضی سے چھوڑوگے؟
خاموشی کا وقفہ کچھ طویل محسوس ہوا تو وہ بولی۔
میں دعا کرتی ہوں تمہیں کبھی دوراہے کی مشکل کا سامنا نہ ہو۔
*
مگر وہ پھر دوراہے پر آ کھڑا ہوا تھا۔ بڑی آپا کے میاں کی اچانک وفات ہو گئی تھی۔ ابھی اس نے گھر میں ماہا کا ذکر ہی کیا تھا۔ ابھی بات چلانی تھی۔ کہ اس حادثے نے ان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
آپا دو بچیوں کے ساتھ واپس ماں کے در پر آ بیٹھی تھی کہ سسرال میں رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں بچا تھا ایک نیا امتحان درپیش تھا۔
ایسے میں ماں کی نظروں میں ایک اور سوال جو ایک دن گلے کی صورت زبان پر آ ہی گیا تھا۔
میں جانتی ہوں میرے بعد میری بیٹی لاوارث ہو جائےگی اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا، تم دونوں بھائی تو اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہو جاؤگے۔ عثمان نے کچھ عرصہ بعد ماں سے ماہا کے گھر والوں سے بات
کرنے کا کہا تو وہ اپنے دل میں پلتے ہوئے خدشات کا اظہار کر بیٹھی۔
جب کھیل کے میدان میں کھلاڑی دوڑتا ہے تو اس کی نظریں گول پر جمی ہوتی ہیں وہ دوڑ میں جیتے یا ہارے مگر اس اختتام پر پہنچ جانے کا سکون اسے ضرور ملتا ہے لیکن میں مجھے نقطہ اختتام پر پہنچ کر پتہ چلا ہے کہ یہاں سے ایک نئی دوڑ کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس نے ہمت جمع کر کے ماہا سے صاف بات کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ مگر اس میں اس کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی اس لیے اس نے فون پر ہی بات کرنے کو ترجیح دی تھی۔
تم نے کہا تھا کہ مجھے کبھی دوراہے کی مشکل کاسامنا نہ کرنا پڑے اور میں راستوں کو اپنے قدموں کا محتاج کہتا تھا لیکن نہیں یہ میری غلط فہمی تھی راستوں کی مرضی ہے وہ طے کریں گے میں جس دوراہے پر کھڑا ہوں وہ دونوں راستے میری زندگی کے ہیں مگر مجھے ایک کا انتخاب کرنا ہے اور ایک کو چھوڑنا ہوگا۔
میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ہم قدم سے قدم۔ ملا کر چلیں گے تو سفر آسان ہو جائےگا، منزل آسانی سے مل جائےگی۔
ماہا میں وہ نہیں جو قدم اٹھائیں تو منزلیں ان کے قدم چوم لیں ۔میرے پیروں میں زنجیریں ہیں، منزلیں نہیں میری منزل بہت دور ہے بہت دور یا شاید میری کوئی منزل ہی نہیں صرف راستہ ہے اور صرف زنجیریں پیروں سے لپٹی ہوئی زنجیریں جو میرے قدموں کو بوجھل کر دیتی ہیں اب مجھے اس پر حیرت نہیں ہوتی کہ سفر تمام کیوں نہیں ہوا، میرے قدموں سے آگے ہمیشہ میری منزل چلی ہے۔ میں مسافر ہوں ماہا مجھے جانا ہی ہوگا۔ کیسی تھکن تھی اس کے لہجے میں!
اور میں؟ میں کہاں ہوں؟ میں کیا کروں گی؟ وہ سسکی تھی۔
مگر دوسری طرف خاموشی چھا چکی تھی
گہری خاموشی !
اور وہ جان گئی تھی یہ خاموشی اب کبھی نہیں ٹوٹےگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.