Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زرد چہرے

ابراہیم جلیس

زرد چہرے

ابراہیم جلیس

MORE BYابراہیم جلیس

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جس کے ساتھ کی سبھی لڑکیوں کی شادی ہو گئی ہے، لیکن وہ ابھی تک کنواری ہے۔ اس کا بھائی اپنی بہن کے زرد چہرے پر سرخی لانے کے لیے شب و روز محنت کرتا ہے اور اپنی ساری خواہشوں کو درگور کر دیتا ہے۔ آخرکار وہ اپنی بہن کی شادی کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس تگ و دو نے اس کے اپنے چہرے کی سرخی کو زردی میں تبدیل کر دیا ہے۔ تبھی اس کی زندگی میں مشنری میں کام کرنے والی ایک نن داخل ہوتی ہے۔ کافی دنوں بعد جب اسے پتہ چلتا ہے کہ اس نن کا اس کے بہنوئی کے ساتھ بھی چکر ہے تو وہ اپنی بہن کے چہرے کی سرخی کو برقرار رکھنے کے لیے اس نن کا قتل کر دیتا ہے۔‘‘

    آصف کی بہن جوان تھی اور پانچ سال سے اپنے دولہا کا انتظار کر رہی تھی۔ جانے اس کا دولہا کون تھا؟ کیسا تھا کہاں کا رہنے والا تھا اور کب آنے والا تھا۔ آصف کو کچھ ایسا محسوس ہوتا کہ جب تک اس کی بہن کے رخساروں پر گیندے کے پیلے پیلے پھول کھلے ہیں۔ اس کا دولہا کبھی نہ آئےگا۔ کیوں کہ دولہے گیندے کے پھولوں کو مطلق پسند نہیں کرتے۔ وہ تو گلاب کے سرخ سرخ پھولوں پر جان دیتے ہیں۔ اس کی سہیلیوں ہاجرہ، پروتما، زہرہ، شہلا اور سعیدہ کے گالوں میں کتنے بڑے بڑے سرخ گلاب تھے اور ان کے دولہے کتنی جلدی کتنے اضطراب اور کتنی بےتابی سے آ آکر ان سرخ سرخ پھولوں کو توڑ موڑ کر لے گئے۔ اب سارے محلے میں صرف ایک ہی پھول رہ گیا تھا۔ گیندے کا پیلا پیلا پھول۔ اس کی بہن جو پورے پانچ سال سے خوابوں میں، تصور میں، خلاؤں میں اپنے دولہا کو دیکھ رہی تھی ممکن ہے خوابوں میں اس کا دولہا دکھائی دیتا ہو۔ تصور میں چلا آتا ہو اور خلاؤں میں اس کی طرف بڑھتا ہو۔ لیکن وہ تو دھرتی پر رہتی تھی۔ خوابوں، خلاؤں اور تصور میں آنے والے دولہے دھرتی پر کیسے اتر سکتے ہیں۔ وہ تو خوابوں کی نرم نرم سطح پر ہی چل پھر سکتے ہیں۔ دھرتی تو ان کے لیے بڑی سخت کھردری اور پتھریلی ہوتی ہے۔

    سارے محلے میں مشہور تھا کہ اس کی بہن کو دق ہو گئی ہے۔ لیکن شہر کے بڑے بڑے ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ دق وق کچھ بھی نہیں۔ صرف ایک مرض ہے طویل کنوارا پن جو بہت ممکن ہے طویل ہوتے ہوتے دق کے گلے میں بھی بانہیں ڈال دے۔ جوں جوں اس کی بہن کا کنوارا پن لمبا ہوتا جاتا تھا وہ بھی اس کی فکر میں گھل گھل کر سوکھ سوکھ کر لمبا ہوتا جاتا تھا۔ ہڈیوں کا لمبا ڈھانچہ۔

    بہن کی مانگ میں افشاں چننے کے لیے اس نے کیا کچھ نہیں کیا۔ جب باپ بغیر کسی بیماری کے اچانک مر گیا تو اس نے قانون کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر تیس روپیہ ماہوار کی کلرکی جیسی ادنیٰ غلامی بھی چارو ناچار قبول کر لی۔ اگر اس کی بہن نہ ہوتی۔۔۔ یا جوان نہ ہوتی یا وہ مفلس نہ ہوتا، اپنے مشہور قوم پرست باپ کی طرح وکالت یا کوئی دوسرا پیشہ اختیار کرتا۔ اس کی طرح خود بھی حکومت سے ٹکریں لیتا رہتا۔ لیکن جس کا باپ مر گیا ہو جس کی آمدنی تیس روپیہ ماہوار ہو، جس کی بہن کنواری ہو اور جس کی بہن کے رخساروں پر گیندے کے زرد پھول کھلے ہوں وہ کیا حکومت سے ٹکر لے سکتا ہے۔ وہ کیا دفتر سے جیت سکتا ہے۔

    مگر اس کی بہن تو ابھی عورت بننے سے پہلے معمہ بن گئی تھی۔ وہ بیچارہ تو اس کے لیے صبح سے شام تک دفتر کی میز پر جھکا رہتا۔ صاحبوں کی پھٹکاریں سنتا اور مہینے کے مہینے تیس روپے اپنی بہن کی ہتھیلی میں رکھ دیتا اور اس کے باوجود اس کے ہونٹوں پر ایک مبہم سی مسکراہٹ تک نہ آئی۔ اس کے پیلے پیلے گالوں میں لہو کی ایک مدھم سی دھار ایک ہلکی سی شہابی رو تک نہ رینگتی۔ اس بات پر وہ جھلا اٹھتا اور بات بے بات اس کو جھڑکی دیتا لیکن جب پیلے پیلے پھولوں پرشبنم کی بوندیں رینگنے لگتیں تو وہ ان بھیگے ہوئے پھولوں کو اپنے میلے دبیز کو ٹ کے لمبے لمبے کالروں میں چھپا کر خود بھی رونے لگتا۔ کیونکہ شبنم کی بوندوں سے دھل کر ان پھولوں کی زردی خطرناک حد تک نکھر جاتی۔

    مگر وہ مایوس نہیں ہوا تھا۔ اس کو یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ اپنی بہن کے دولہا کو خوابوں، تصوورات اور خلاؤں سے گھسیٹ کر اس دھرتی پر لے آئےگا کیونکہ دولہے بڑے لالچی ہوتے ہیں۔ پھول خواہ کتنا ہی معمولی اور پیلا کیوں نہ ہو اگر اس کو سونے اور چاندی کے گلدان میں رکھ کر پیش کرو تو دولہے آنکھ بند کر کے وہ گلدان لے لیتے ہیں۔ اس لیے وہ کلرکی کے علاوہ اخباروں، رسالوں کے دفاتر میں بھی آدھی آدھی رات تک کام کرنے لگا۔ اس کی آمدنی بڑھنے لگی۔ پچاس روپیہ۔ ساٹھ روپیہ۔ ستر روپیہ۔

    صبح بالوں میں کنگھا کرتے وقت وہ آئینے میں اپنی صورت دیکھتا کہ آدھی آدھی رات تک کام کرنے سے اس کے اپنے گالوں کی سرخی مدھم پڑ رہی ہے۔ لیکن اب اس کو اس سرخی کی ضرورت ہی کیا تھی۔ وہ تو جانتا تھا کہ یہی سرخی اس کی بہن کے رخساروں میں داخل ہو جائے اور بس اور اگر یہ نہیں ہو سکتا تو وہ اپنی بہن کو سونے اور چاندی کے جگمگ جگمگ کرتے زیوروں سے ایسا سجائےگا کہ ہاجرہ، پروتما، زہرہ، شیلا اور سعیدہ کے دولہوں کی آنکھیں چندھیا جائیں گی۔ وہ اپنے بے مصرف فضول مسکرانے والے سرخ گلابوں سے متنفر ہو جائیں گے اور جب شہر کی سڑکوں پر سے دولہا اس کی بہن کے گلے میں پڑے ہوئے جڑاؤ ہار کو پکڑے اس کو باجوں ڈھولوں اور تاشوں کے شور اور گیس لیمپوں کی سپید چمکدار روشنی میں فاتحانہ انداز میں کھینچے لیے جائےگا تو وہ ہاتھ مل مل کر اپنی جلد بازی اپنی بیوقوفی اور اپنی حماقت پر پچھتاتے رہیں گے۔

    جس مہینے اس کی آمدنی پچاس روپے ہو گئی اس کے گالوں کی شفق بالکل ہی ڈوب گئی۔ اب اس کے چہرے کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کسی زرد رنگ کے شیشوں والی کھڑکی سے منعکس ہوتی ہوئی روشنی میں کھڑا ہے۔ اس کے دوست احباب جب اس کے پیلے مرجھائے ہوئے چہرے کو دیکھتے تو کڑوا کڑوا مذاق کرتے، علاج کراؤ اپنا۔ کوئی لڑکی تم سے شادی کرنا پسند نہ کرےگی۔ جوانی ساری عورت بغیر ہی گزر جائےگی۔ وہ مسکرا دیتا۔ اب اس کے ہونٹ بہت مسکرانے لگے تھے۔ بار بار مسکراتے تھے۔ ایک مہینے میں اس کو پچاس روپے ملتے تھے اور وہ پچاس دفعہ مسکراتا تھا۔ ’’ارے کوئی لڑکی شادی کرے نہ کرے اس کی بلا سے۔ جوانی صرف عورت کی آغوش میں گزار دینے کے لیے تو نہیں ہے جوانی حجلہ عروسی اور عورت کی خلوتوں میں بسر کرنے کے لیے تو عطا نہیں ہوئی۔ جوانی تو الف لیلیٰ کے سورماؤں کی طرح آتال پاتال چھاننے کے لیے ہے‘‘ اور پھر بقیہ جملے وہ اپنے دل ہی دل میں چپکے چپکے کہتا۔

    ’’جوانی زندگی سے لڑنے کے لیے ہے۔ اپنی جوان بہنوں کی مانگ میں سہاگ کی افشاں بھرنے کے لیے ہے۔ ان کے شرمیلے لالچی رنگ و بو پر جان دینے والے دولہوں کو آسمان سے دھرتی پر گھسیٹ لانے کے لیے ہے۔ میں جو اپنی بہن کا حجلہ عروسی بناؤں گا وہ تاج محل سے زیادہ شاندار ہوگا‘‘۔

    چند ہی مہینوں بعدوہ سوسو اور سوا سو روپے ایک ایک مہینے میں کمانے لگا۔ صحت دن بدن گرتی جارہی تھی۔ جان عزیز رونے بسورنے لگی تھی۔ لیکن وہ اندھا دھند دن کے اجالے اور رات کے اندھیرے میں روپوں کے پیچھے دوڑتا رہا۔ اپنی نیندیں اپنے تصور کے جزیرے اپنے سینے اور اپنی جوانی یعنی برجیس جہاں کو بھی بھول گیا۔ اس کی برجیس جہاں جس سے اس کو ایک دبی دبی ڈھکی ڈھکی اور چور محبت تھی۔ جس کی بڑی بڑی آنکھوں سے نکلے ہوئے تیروں نے اس کے ننھے سے دل میں بے شمار آنکھیں پیدا کر دی تھیں۔

    ایک دن وہ بہت تھکا ہوا گھر لوٹا اور چارپائی پر گر کر بری طرح کھانسنے لگا۔ اس کی بہن نے اس کے جوتے کے تسمے کھولے اس کا میلا دبیز کوٹ نکالا اور اس کے سرہانے بیٹھ کر نیلگری کے تیل سے اس کے سینے کی مالش کرنے لگی۔ اس نے مسکراتی ہوئی آنکھوں سے اپنی بے زبان مجبور بہن کے پیلے پیلے افسردگی سے کمہلائے ہوئے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا ’’میری اچھی گڑیا! باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو کیا ہوا میں اپنے سائے سے تیرے ہاتھوں کو ایسی لال لال ہاتھوں سے بھر دوں گا کہ تو۔۔۔ ہاں تو جا اسی بات پر میرے لیے اچھی سی چائے بنا لا‘‘۔ بہن ایک حزیں یاس بھری مسکراہٹ سے منہ چھپا کر چلی گئی۔ اپنے بھائی کی یہ حالت دیکھ کر اپنے ہاتھوں کو مہندی سے رنگا دیکھنے سے بالکل ہی مایوس ہو گئی تھی۔

    مسرت کے موقع پر عقل کہاں چلی جاتی ہے وہ اپنے سائے کا باپ کے سائے سے مقابلہ کر رہا تھا۔ اس کا باپ تو کھاتے پیتے پرانے ہندوستان کا ایک بھاری بھرکم انسان تھا۔ چھ فٹ لمبا، تین فٹ چوڑا اور اس کی آمدنی بیٹے کی آمدنی سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اس کے سائے میں اٹھارہ انسانوں کا ایک خاندان پل رہا تھا۔ کئی غریب رشتہ دار کی مانگوں میں سہاگ افشاں چنی گئی تھی۔ اب یہ ڈینگیں مارنے والا ہڈیوں کا لمبا ہی لمبا ڈھیر۔ میلا دبیز کوٹ اتار دینے پر اس کا سایہ ٹیلیفون کے کھمبے کی طرح اتنا پتلا اور منحنی تھا کہ ایک ہی دبلی پتلی نرم و نازک بہن جوانی میں دھوپ اور حدت سے نہیں بچتی تھی۔ وہ تو اس دھوپ میں جیسے جل رہی تھی۔ ابل رہی تھی۔ بالکل اس دیگچی کی طرح جس میں پکتے ہوئے چائے کے پانی میں ابال آ رہا ہو ہاں جب وہ روپوں سے پھولی ہوئی جیبوں والا دبیز کوٹ پہن لیتاتو اس کے بڑے بڑے کالروں میں منہ چھپا کر جوانی، حدت دھوپ سبھی کچھ بھول جاتی تھی۔ بھائی کی دن بہ دن گرتی ہوئی صحت اور سوکھتے ہوئے جسم کو دیکھ کر بہن نے آخر جی کڑا کرکے، شرم کی کینچلی اتار پھینکتے ہوئے ایک روز کہہ دیا۔ ’’بھیا! آپ کی زندگی میری زندگی ہے۔ آپ پر سے میری جیسی ہزار بہنیں وار کر پھینکی جا سکتی ہیں۔ آپ میرے لیے کیوں اپنی زندگی، اپنی جوانی اس طرح برباد کر رہے ہیں۔ مجھے آپ جیسے پیارے بھائی کے قدموں میں بڑی آرام اور چین کی زندگی حاصل ہے۔ میں کہیں اور جانا نہیں چاہتی۔ میں۔۔۔ میں شادی بھی نہیں کرنا چاہتی۔ ہاں آپ شادی کر لیجئے۔ گلاب کے پھول جیسی بھابی بیاہ لائیے۔ میں آپ دونوں کی خدمت میں ہنستے مسکراتے گزار دوں گی۔ آپ دونوں کے ہوتے مجھے شادی کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    اس نے اس کے آنسوؤں سے بھیگے ہوئے گالوں پر محبت اور لطافت سے گنگناتا ہوا ایک نرم طمانچہ لگاتے ہوئے کہا۔

    ’’پگلی! میں جانتا ہوں کہ تو اتنی پیلی ہے کہ تیرے جسم میں لہو کی بہت تھوڑی بوندیں ہیں۔ ان بوندوں میں کبھی تلاطم پیدا نہ ہوگا تو چاہے یا نہ چاہے۔ لیکن دنیا والوں کے لیے تیری شادی کرنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ اگر تو مصلیٰ پر بیٹھ کر قسم کھائے تو بھی کوئی تیری پاک دامنی کا یقین نہیں کرےگا‘‘۔

    اس نے بھی جی کڑا کرکے شرم کو بالائے طاق رکھ کر کہہ دیا۔ اس وقت اس کے جی میں آئی کہ یہ بھی کہہ دے ’’تو جھوٹی ہے۔ تجھے شادی کی ضرورت ہے۔ میں خود تیری چارپائی سے ابلتی ہوئی دبی دبی بھیانک آہیں سنتا ہوں۔ بے شمار کروٹوں سے چرچراتی ہوئی چارپائی سے تیری پیاسی جوانی کی چیخیں سنتا ہوں۔ مجھے دھوکہ دینے کی کوشش نہ کر۔ تو نے یہ صرف گھر کی چاردیواری دیکھی ہے مگر میں نے بہت بڑی دنیا دیکھی ہے۔ اٹھائیسویں برس میں سرمیں سفید بال، گردن میں جھکاؤ اور آنکھوں میں یاسیت کا دھندلکا، یہ کیا ہے؟ میں نے دینا دیکھی ہے تو تو صرف چوبیس برس کی ایک کنواری ہے۔۔۔‘‘

    پھر اس کی زندگی میں ایک بڑا ہی چمکیلا دن طلوع ہوا۔ اپنی بہن کو سر سے پاؤں تک سونے اور چاندی کے زیوارت سے جگمگا دیا۔ اس کی مانگ کو کہکشاں سے زیادہ چمکیلا بناکر سنوارا۔ اس کی ہتھیلیوں میں ایسی سرخ سرخ مہندی لگائی کہ شفق تک شرما کر پہاڑوں کے پیچھے چھپ گئی۔ سبز رنگ کی سلمیٰ ستارہ ٹنکی ہوئی بنارسی ساڑھی اور سونے کے پیلے پیلے چمکتے زیور، ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے سبز رنگ کے گلدان پر پرانے ہندوستان کے کسی مشہور نقاش نے بڑے فنکارانہ انداز سے منسبت نگاری کی ہو اور اس میں گیندے کا ایک پھول شرما رہا ہو۔ اس پھول کی پتیاں شبنم کی لاتعداد بوندوں سے بھیگ رہی تھیں وہ خود بھی روتا ہوا مصنوعی خوشی سے مسکراتے ہوئے اس کی پیٹھ پھپکتے ہوئے دلاسے دے رہا تھا ’’ارے! دلہنیں کہیں روتی ہیں، کہیں روتی ہیں۔۔۔ ہونہہ۔۔۔ اور تاشوں، نفیریوں، ڈھولوں کا شور فضاؤں میں بلند ہو ہو کر اس پر ٹھٹے لگا رہا تھا کہ دیکھو یہ آنسو پونچھنے والا خود بھی تو آنسو بہا رہا ہے۔ ہاہاہا۔۔۔ڈھم ڈھم۔۔۔پیں پیں پیں پیں۔ تررت تررترر۔۔۔‘‘

    بہن کے چلے جانے کے بعد اس کی زندگی، اس کا گھر سبھی سنسان پڑ گئے تھے۔ اس کی بہن کی چارپائی اب بالکل چپ چاپ اکیلی پڑی تھی۔ وہ اب آہیں نہیں بھرتی تھی اور نہ اس سے کسی پیاسی جوانی کی چر چراتی ہوئی چیخیں سنائی دیتی تھیں۔ وہ اب ہوٹلوں میں کھانا کھا رہا تھا۔ کسی دیگچی میں کھا ہی نہ آتا تھا۔ مگر ہاں اس کی گردن اب پھر سے اونچی ہو گئی تھی۔ کتنے سال سے اس کی بہن کی وزنی جوانی اس کے گلے میں بانہیں ڈالے جھول رہی تھی۔ اب تو بوجھ اتر گیا تھا۔ وہ فخر سے گردن اٹھا کر سڑکوں پر چلتا تھا۔ بات بات پر گردن پیچھے پھینک پھینک کر قہقہے لگاتا تھا۔ کتنے عرصہ سے اس کے قہقہے اس کے حلق میں رکے ہوئے تھے۔ محفوظ تھے۔ اب وہ شاذو نادر ہی زمین کی طرف دیکھتا۔ اب اس کو زمین کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ جتنا سونا چاندی اور روپیہ پیسہ اس کی بہن کی شادی کے لیے ضروری تھا اس نے زمین کے حلق میں انگلی ڈال کر سب اگلوا لیا تھا۔

    اب وہ دن میں ایک بار ضرور اپنی بہن کو دیکھنے اس کی سسرال چلاجاتا اور نہایت مسرور گھر لوٹتا کہ بہن کے گالوں میں گلاب کی سرخ سرخ کلیاں نمودار ہو رہی تھیں۔ آج کل یا پرسوں میں کلیاں کھل کر بڑے بڑے لا ل پھول بن جائیں گے اور اس کا دولہا ان پھولوں کے گرد مست مخمور اور مسرور بھنورے کی طرح منڈلایا کرےگا۔ اس مزیدار خیال سے خوش ہو کر سگریٹ کا ایک لمبا کش لیتے ہوئے وہ آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرا دیتا، جیسے وہ تنہا فاتح ہے جسے نہ آسمان شکست دے سکا اور نہ زندگی۔ البتہ اس کو ساری زندگی میں اگرچہ صرف ایک غم تھا کہ وہ برجیس جہاں کو اپنا نہ بنا سکا۔ اگرچہ کہ برجیس جہاں ابھی تک کنواری تھی لیکن اس کا کنوارہ پن ایک ٹروفی کی طرح تھا جس کو جیتنے کے لیے چند خاص خاص شرائط مقرر تھیں۔ آصف نے برجیس جہاں کے باپ کو اس کے بے تکلف دوستوں اور عزیزوں سے کہلوا بھیجا کہ وہ برجیس جہاں سے محبت کرتا ہے۔ برجیس کے باپ نے جواب دیا کہ شادی کے لیے محبت اتنی اہم نہیں۔ بیوی کے لیے اچھا مکان، اچھی غذا، اچھے کپڑے زیادہ ضروری ہیں۔ آصف کے رقیب نیلام کی بولی لگا رہے تھے۔

    ’’میرے تین مکانات ہیں وہ تینوں برجیس کے نام لکھ دوں گا‘‘۔

    ’’میری آمدنی چار سو روپے ماہانہ ہے‘‘۔

    ’’میر ی جواہرات کی دکان ہے برجیس ساری عمر جگمگاتی رہےگی‘‘۔

    ’’میری پنشن پندرہ سو روپے ماہانہ ہے۔ میں برجیس کو کشمیر کی جنت میں لے جاؤں گا‘‘۔

    آصف ہار گیا اس کے دفتر میں ہیڈ کلرک نے وہ ٹرافی جیت لی۔ آصف کی جان تمنا جیت لی۔

    محبوبہ کے چھن جانے کے بعد آصف کو کسی دوسری محبوبہ کی ضرورت نہیں تھی۔ البتہ اس کی جوانی کے خلاء میں اس کو اتنا سناٹا سکوت اور ڈر محسوس ہوتا تھا کہ اس کا جی چاہتا تھا۔۔۔ کہ اس مہیب سناٹے میں دفعتاً کانچ کی چوڑیاں بجنے لگیں پازیب کی میٹھی میٹھی جھنکار پیدا ہو۔ دوپٹے سرسرانے لگیں پھر پھر۔ پھر اب پھر محبوبہ نہ سہی کوئی عورت ہی سہی جو اس کی زندگی میں مہمان کی طرح ہی کیوں نہ آئے۔

    اور جلد ہی ایک عورت اسے مل گئی۔ شہر میں عیسائیت کی تبلیغ کرنے کے لیے ایک مشن آیا ہوا تھا۔ اس میں بہت سی لال پریاں تھیں۔ ان کے جسم جیسے سپید سپید شیشوں سے بنائے گئے تھے اور اندر گہرا سرخ رنگ بھر دیا گیا تھا۔ ہندوستان کے بھوکوں اور ننگوں کی جان میں جان آئی۔ وہ اپنے ویران راستوں جیسے مذاہب کو چھوڑ کر اس شاہراہ پر چلنے لگے۔ جہاں قدم قدم پر ہوٹلیں اور سرائیں لگی ہوئی تھیں۔ کھانا پینا، روپیہ پیسہ، عورتیں۔ آصف کو ان نعمتوں میں صرف ایک ہی نعمت چاہیے تھی۔ فاکس۔ واللہ کیا عورت تھی مس فاکس پہلی بار آصف نے اس کو امپیریل پوسٹ آفس سے نکلتے دیکھا تھا۔ بھرا بھرا جسم، لمباقد اور اس کے مصور نے اس کو رنگنے میں جیسے سارا گلابی رنگ صرف کر دیا تھا۔ اس کے گالوں پرمیٹھے سیبوں کے بجائے پارک شائر کے کسیلے ٹماٹر تھے۔ پوسٹ آفس سے نکل کر جب وہ اپنی سائیکل پر چڑھ رہی تھی تو اس کی پنڈلیوں کی تھرکتی ہوئی لال لال مچھلیوں کو دیکھ کر اس نے ایسا محسو س کیا جیسے وہ مر گیا ہے۔

    اس نے قومی نسلی تعصب کو دل ہی دل میں دھتکار بتائی اور ایک صاف دل سے اعتراف کرنے لگا کہ واقعی دنیا کے دوسرے ملکوں نے عورت کی اصلی قدر جانی پہچانی ہے۔ یہاں ہندوستان میں تو عورت کی مٹی پلید ہو گئی۔ اس مٹی کو تو صرف گیندے زعفران بنفشے اور سورج مکھی کے پھول ہی اکانے لگے ہیں۔ دوسرے تیسر ے دن اس نے مس فاکس سے راہ و رسم بڑھالی اور جوانی پھر لوٹ آئی۔ وہ اب اپنی بہن کو بھی بہت کم یاد کرنے لگا۔ گلاب کا پھول سامنے ہو تو گیندا کہاں یاد آتا ہے۔

    ایک دن مس فاکس آرکسٹرا پر المیہ فراقیہ گیت الاپ رہی تھی اور آصف اس شاعر کو جس نے ایسا گیت لکھا دل ہی دل میں کوستا ہوا چپ چاپ سن رہا تھا کہ اچانک اس کو گیندے کا پھول یاد آ گیا کیوں کے دروازے سے اس کی بہن کا لالچی شوہر داخل ہوا اور پھر آصف کو دیکھ کر ٹھٹکا رکا جھجکا لیکن جب مس فاکس مسکراتے ہوئے اس کو بلانے لگی تو آصف صوفہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ مس فاکس آصف کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر ہنس پڑی یعنی ’’وہ تو روز یہاں آتاہے‘‘۔ اس شام وہ اپنی بہن کے گھر گیا۔ اس نے اس سے ایک لفظ نہ پوچھا۔ سگریٹ پیتا رہا اور اس کے بھنچے ہوئے ہونٹ جو بار بار ہلکی ہلکی سی کپکپاہٹ سے کھل جاتے تھے۔ اس کی جھکی جھکی پلکیں اور پلکوں کی گھنیری چھالوں میں کانپتے ہوئے تارے دیکھے۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے انہیں گالوں پر اس نے سرخ سرخ لکیروں کا ایک جال بنتے دیکھا تھا آج وہ جال اور عورت کا رنگ بھی تغیر پذیر ہے۔ کیسا بےاعتبار، کیسا نا پائیدار اور کیسا عارضی ہوتا ہے۔

    جب وہ گھر پہنچا تو اس کا دماغ ایک دم ساکت ہو گیا تھا۔ اس کو اب کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا کہ وہ ہنس رہا ہے تو کیوں ہنس رہا ہے رورہاہے تو کیوں رو رہا ہے۔ اب شاید اس احساس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ زندگی نے اس کی ہڈیاں نکلے ہوئے سینے پر ایک ایسا گھونسا لگایا تھا کہ وہ تین دن تک چارپائی سے نہیں اٹھ سکا کھانستا رہا۔ بال نوچ نوچ کر روتا رہا۔ کبھی ہنستا رہا۔ کبھی گاتا رہا اور چوتھے دن جانے اس کے جی میں کیا آئی اپنا پرانا رفیق وہی میلا کوٹ پہنے باہر نکلا اس کی آنکھوں میں سرخ سرخ شعلے لپک رہے تھے جیسے کسی کو جھلس ہی دیں گے۔ چینی ریستوران کے چوراہے پر نکھری ہوئی شام اپنا سفید بھیگا ہوا دوپٹہ پھیلائے کھڑی تھی۔ وہ بس اسٹاپ کے ستون سے کندھا ٹیکے سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے بنا بناکر توڑ رہا تھا۔ ایک بھاری بھرکم پنجابی عورت کو اپنے دبلے پتلے منحنی پستہ قد شوہر کے ساتھ جھک جھک کر باتیں کرتا دیکھ کر تووہ بڑی زور سے ہنس پڑا۔ پنجابی عورت خشمگیں نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے اپنے شوہر کا غصہ رفع کرنے لگی۔

    ’’کوئی پاگل معلوم ہوتا ہے‘‘۔

    ’’ہوں!‘‘ وہ ان کے قریب جاکر کہے۔

    ’’نہیں نہیں۔ میں پاگل نہیں ہوں۔ پاگل تو گاندھی ہے۔ نہیں جناح پاگل ہے۔ نہیں فقیرا ہی پاگل ہے۔ وہ مزدوری کرتا ہے ہو ہو ہو۔۔۔‘‘

    پنجابی عورت چوراہے پر کھڑے پولیس مین کو دیکھنے لگی اور اسی اثنا میں سامنے سے مس فاکس سائیکل پر آتی دکھائی دی اور آصف ’’اے ڈارلنگ حسینہ تیرا انتظار کب سے تھا‘‘ کہتا ہوا اس کی طرف بڑھا۔ وہ بھی اس کو دیکھ کر مسکراتی ہوئی سائیکل پر سے اتر پڑی۔ پھر جانے کیا ہوا۔ چینی ریستوران کا سارا چوراہا غضبناک چیخوں سے گونج رہا تھا۔ مارڈالا۔ ہاں مار ڈالا۔ خون! دوڑو پکڑو۔ مارو۔ جب چیخیں مدھم ہو کر بھنبھنانے لگیں تو آسمان کے پہلے ستارے نے دیکھا کہ مس فاکس خون میں سمنٹ روڈ پر پڑی ہوئی تھی اور خون کی دھاریں اس کی مرمریں لمبی پتلی دلاویز گردن سے نکل نکل کر بہہ رہی تھیں۔ آصف کو دو سپاہیوں نے پکڑ رکھا تھا اور وہ اپنا خونی چھرا فضا میں اٹھا کر چیخ رہا تھا۔

    ’’دیکھو سارا چوسا ہوا خون بہہ رہا ہے۔ اب میری بہن کے رخساروں پر گیندے کے پھول کبھی نہ کھیلیں گے۔ ہاں اہل وطن۔ سارا چوسا ہوا خون۔ میں نے فاکس کو مار ڈالا ہے۔ اپنی جوانی کو مارڈالا ہے۔ ہاں اہل وطن‘‘۔

    پولیس انسپکٹر آصف کے گرد نیاں دے رہا تھا اور لوگوں کی چرچر۔ چرچر زبانیں چل رہی تھیں۔

    ’’واہ بڑا بہادر ہے۔ عورت کو مار ڈالا!!‘‘

    ’’پاگل معلوم ہوتا ہے کوئی‘‘۔

    ’’ہائے رقابت!!‘‘ شاید کوئی شاعر بولا۔

    ’’اجی کوئی انقلابی معلوم ہوتا ہے‘‘۔ شائد کوئی کلرک بولا۔

    ’’کمبخت ان نمک حرام انقلابیوں کی وجہ سے ہی دیش کو آزادی نہیں ملتی‘‘۔ شاید کوئی بنیا بولا۔

    پولیس انسپکٹر غصہ کے رعشہ سے کانپتی ہوئی آواز میں اسے گردنی دیتے ہوئے بول رہا تھا۔

    ’’بدمعاش! ذلیل!! کمینہ!!‘‘

    آصف چیخ رہا تھا ’’مارڈالا ہے اپنی جوانی کو مار ڈالا ہے۔ سارا چوسا ہوا خون مس فاکس کو مار ڈالا ہے‘‘۔

    سپاہی گردنیاں دے دے کر اس کو آکسفورڈ اسٹریٹ پر ڈھکیلتے لے جانے لگے۔

    ’’ہاں اہل وطن۔۔۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے