Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زرد ہتھیلی

جیم عباسی

زرد ہتھیلی

جیم عباسی

MORE BYجیم عباسی

    جنوری کے ابتدائی دن تھے اور سردی اپنے زوروں پہ تھی۔ رات کے آخری پہر میں مدرسے کی عمارت اور چار دیواری میں گھرے صحن پر گھپ اندھیرا چھایاہوا تھا۔ صرف حفّاظ کا کمرہ روشن تھا جہاں بچوں کی کثیر تعداد، رحلوں پر پاک کتاب سامنے رکھے، ایک توازن کے ساتھ جسم کو آگے پیچھے جھلاتی، زور زور سے سبق دہرائے جارہی تھی۔ گیارہ سالہ اسداللہ اس روشن کمرے کے بند دروازے کے باہر کھڑا، خوف میں جکڑا، دروازے کی نچلی روزن سے پھوٹتی روشنی کی باریک لکیر کو بے دھیانی میں دیکھے جا رہا تھا جس سے صحن کے اندھیرپن میں ہلکی سی روشنی مٹی پر رینگ رہی تھی۔ آج صبح پانچ بجے عبدالحمید، جو حافظوں کے استاد قاری گل شیرقاری کا خلیفہ اور باقیوں کے لیے نائب استاد تھا، کمرے میں انھیں جگانے آیا تو اسداللہ کو اٹھتے ہوے پھر نیند نے گھیر لیا۔ پسلی پر لگنے والے ٹھڈّے نے اس کی بندآنکھیں کھول دیں اور وہ اپنی چیخ پر قابو نہ رکھ سکا۔

    ’’کنجر کی اولاد، تو پھر سوگیا! وہاں سبق تیرا باپ سنائے گا؟‘‘ خالی کمرے میں عبدالحمید اس کے اوپر کھڑا بھیڑیے کی طرح غرّا رہا تھا۔ وہ اٹھا اوررضائی کو ایک طرف پھینک کر وضو کرنے کے لیے بھاگا۔ ٹھنڈے پانی سے وضو کرکے قاری کے دروازے کے باہرآکھڑا ہوا تھا جہاں مار کے ڈر نے اس سے سخت سردی کا اثر بھلایا ہوا تھا۔ دروازہ کھولنے کا ارادہ کرتے ہوئے اسے ہول آرہا تھا مگر اسے یہ بھی معلوم تھا کہ جتنی زیادہ دیر ہوگی اسی قدر اسے مار کٹائی کی جائے گی۔ آنکھیں بند کرکے اس نے دروازے کو ہلکے سے دھکیلا۔ ’’چرّووں‘‘ کی آواز ابھری اور دروازے کا پٹ کھل گیا۔ اندر دو بلبوں کی زرد روشنی میں اکھڑی رنگت والی پیلی دیواروں کے ساتھ تین طرف قطار میں بیٹھے حافظ اپنی اپنی رحلوں پر جھکے ہوئے تھے۔ اسداﷲ کو دیکھتے ہی قاری گل شیر، جو قصاب کی عرفیت سے مشہور تھا، اٹھا اور اسداﷲ کے گریبان سے پکڑ کر اسے گال پر زور سے طمانچہ مارا۔ اسداﷲ کا دماغ گھوم گیا۔ جب دوسرا طمانچہ لگا تو وہ تیورا کر کھجور کی چٹائی پر جا پڑا۔

    ’’حرامزادے۔۔۔ بے غیرت! ہم تیرے نوکر ہیں کہ لاٹ صاحب کو اٹھانے کے لیے بار بار لڑکا بھیجیں!اگلی بار دیر کی تو تیری ٹانگیں توڑدوں گا۔‘‘ قاری گل شیر کی باچھوں سے جھاگ نکل رہا تھا۔ اسداﷲ ایک بھی آواز نکالے بغیر فرش سے اٹھا اور طاقچے میں پڑا اپنا قرآن اور رحل اٹھا کر پڑھنے میں لگ گیا۔ قاری کی مار میں درد اور اذیت سے چیخناسب سے بڑا جرم تھا۔ رونے کی ذرا سی آواز سن کر بھی قاری آپے سے باہرہو جاتا تھا۔

    ’’مکر کرتے ہو؟ میرے سامنے مکر کرتے ہو؟ یہ مکر جاکر اپنی ماں کو دکھایا کرو!‘‘ کہتے ہوئے قاری لکڑی کے بید کے ساتھ رونے والے پر شروع ہوجاتا اور جب بید ٹوٹ جاتی تب ہی جاکرجان چھوٹتی۔ میانہ قد، تیل میں چپڑے پٹے دار بال اور سیاہی مائل سانولی رنگت والے حافظ گل شیر سے پورا مدرسہ لرزتا تھا۔ حافظ تو حافظ، درس نظامی کے طلبا بلکہ مدرسہ کے باقی اساتذہ بھی اس سے خوف کھاتے تھے۔ سب کہتے تھے کہ قاری گل شیرکے جسم میں خون کی جگہ سیاہ سانپ کا زہر گردش کرتا ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر اذیت ناک سزائیں دینا اس کا معمول تھا۔ پڑھائی پر غیر حاضر رہنے یا دیر سے آنے والوں کو لٹا کر ان کے ہاتھ پاؤں کو چار شاگردوں سے جکڑواتا اور پھر بید سے پا ؤں کے تلوے مار مار کر سرخ کردیتا۔ سبق یا دَور کچا ہونے پر وہ شاگرد کو اپنے سامنے پڑی فرشی ڈیسک پر الٹا لٹاتا اور قمیص اوپر کرکے چوتڑوں پر اتنے ڈنڈے برساتا کہ بچے سے پورا دن بیٹھا نہ جاتا۔ معمولی سی غلطیوں پر بھی کبھی وہ بچے پر رحل آزمانے لگ جاتا تو کبھی کسی کو دھوبی پاٹ سے پٹخ رہا ہوتا۔

    الغرض اذیت ناک سزائیں دینا قاری کا پیشہ تھا، مگر اس کے باوجود وہ صدر مدرّس کا چہیتا تھا اور کسی کو اسے ایک حرف کہنے کی اجازت تک نہ تھی۔ صدر مدرّس ہر جگہ اس کی تعریفیں کرتے نہ تھکتا کہ حافظ گل شیر کے شاگردوں کا پورے علاقے میں شہرہ تھا۔ قرات میں یکتا حافظ گل شیر کے تیار کیے ہوے شاگردوں کا آس پاس کے کسی بھی مدرسے میں ثانی نہ تھا۔ دور دور سے لوگ قاری گل شیر کے پاس اپنے بچے حفظ کے لیے چھوڑنے آتے تھے۔ اسداﷲ کو بھی اس کا والد پچاس میل دور گا ؤں سے یہاں پڑھنے کے لیے چھوڑ گیا تھا۔ اسداﷲ دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھا اور اپنا سبق دوہرانے لگا۔ پانچ شاگردوں کے بعد اس کے سبق سنانے کی باری تھی۔ اسداللہ کو سبق دوہراتے پھر نیند گھیرنے لگی۔ اگرچہ قاری کے طمانچوں کا اثر باقی تھا مگر اسداللہ نیند کی وجہ سے اکثر قاری کی مار کا شکار بنا رہتا تھا۔ اسے نیند بے بس کردیتی تھی۔ اٹھتے وقت آنکھیں کھلنے سے انکاری ہوجاتی تھیں۔ وہ باربار پیشاب کا بہانہ لگا کر آنکھوں کو ٹھنڈے پانی سے دھوتا اور پوری کوشش کرتا کہ اندر پتلیوں میں پانی چلاجائے، اور یوں کچھ دیر کے لیے اس کی نیند بھاگ جاتی مگر پڑھائی پر بیٹھنے کے بعد پھر اس کی آنکھیں آپے آپ بند ہونے لگتیں۔ اس کے سر نے نیند سے مجبور ہوکر ایک جھکولا کھایا تو قاری کی تیز نظر اس پر پڑگئی۔ قاری نے ڈیسک پر رکھے ہوے اپنی چابیوں کے گچھے کو اٹھا کر زور سے اسداﷲ کے منھ پر پھینک مارا۔ گچھا اسداﷲ کے منھ سے جا ٹکرایا۔ الماری کی بڑی چابی کا دندانہ لگنے سے آنکھ کے نیچے سے خون کی بوند رس آئی۔ مضروب گال والے اسداﷲ کو اب چابی واپس ڈیسک پر جاکر رکھنی تھی۔ اس نے اپنے میلے اجرک کے پلو سے رِستا ہوا خون صاف کیا اور لرزتا ہوا چابی واپس رکھنے کے لیے اٹھا۔ اس کے جسم کی حالت اس نازک تنے والی جھاڑی کی طرح تھی جو وسیع پتھریلے میدان میں سخت تیز ہوا کا سامنا کرتی ہے۔ چابیوں کا گچھا رکھ کر واپس پلٹا تو قاری نے ایک زوردار بید اس کے چوتڑوں پر رسید کیا۔ چوٹ کی تکلیف سے وہ بے اختیار چند قدم دوڑتا چلاگیا۔ اسداﷲ کی آنکھوں سے آنسوڈھلک گئے۔ اس نے سوچا کہ وہ دروازہ کھول کر یہاں سے بھاگ جائے، مگر اسے یاد آیا کہ پچھلے ماہ یہاں سے بھاگ جانے پر اس کا کیا حشرہوا تھا۔

    پچھلے ماہ کی دوسری جمعرات کو اسداﷲ نے گھر جاکر روٹی اور سالن جمع کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مدرسے میں سب شاگردوں کی باریاں مقرر تھیں۔ تین ٹولیوں میں دو دو طالب دونوں وقت سر پر بڑا تھال رکھ کرگلیوں میں نکل جاتے اورہر گھر سے دوروٹیاں اور سالن جمع کرکے مدرسے لے آتے۔ یوں مدرسے کے طالبوں کا دو وقت کھانا ہوجاتا۔ اسداﷲ جب سرپر تھال اٹھا کر گلیوں میں کھانا جمع کرنے نکلتا تو اسے یوں لگتا جیسے دنیا کھڑی ہوکر اس کی ذلت کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ وہ آنکھیں زمین میں گاڑے دوسرے طالب کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے چلتارہتا۔ گھر میں اکثر عورتیں ہوتی تھیں جو انھیں بغیر پوچھے دو روٹیاں اورتھوڑا سالن دے دیتیں۔ یہاں تک تو وہ برداشت کر ہی لیتا تھا مگرچاچا الیاس کے دوکان کے سامنے سے گزرتے جب چاچا بلند آواز میں کہنے لگتا، ’’تمھیں شرم نہیں آتی، بھک منگوں کی طرح دردر پر جاکر مانگتے ہو! نہ تمھیں حیاہے نہ تمھارے ماں باپ کو۔‘‘ تب اسداﷲکا جی چاہتا کہ وہ خود کو کسی ٹرک کے نیچے دے دے۔ تنگ آکر اس نے روٹی مانگنے کو جانے سے حمید سومرو کو جواب دے دیا۔ حمید نے بغیر کسی دیر کے قاری کو اسداﷲ کی بغاوت کی اطلاع کردی۔ قاری یہ سنتے ہی آپے سے نکل گیا اور اسد اﷲ کو بلا کر بے دریغ مارا۔ لکڑی کے تین ڈنڈے توڑنے کے بعد جب اس نے اسداﷲ کی جان چھوڑی تب اس کا جسم پھوڑے کی طرح درد کر رہا تھا۔ اس دن ظہر کے بعد اسداﷲ گاؤں جانے والی بس پر بیٹھ کر فرار ہوگیا۔ روتا کراہتا گھر میں داخل ہوااور ماں کی نظر اسداﷲکے پھول جیسے جسم پر لگی چھڑیوں کے خون آلود نشانوں پر پڑی تو وہ غش کھاکر گرگئی۔ بیٹے کے زخموں کی مرہم ٹکور کرتے ہوئے اس نے پکا عہد کرلیا کہ اب کی بار وہ اسداﷲ کو مدرسے جانے نہیں دے گی، چاہے منظور احمد اسے مار ڈالے۔ منظور احمد جوں ہی گھر آیا تو زہرا بتول نے اسے بیٹے کا حال سنایا۔ منظور احمد بیٹے پر ہونے والے ظلم پر پسیجنے کے بجاے آگ بگولا ہو گیا۔

    ’’تُومدرسہ چھوڑ آیا ہے، خبیث؟‘‘ آتے ہی اس نے بیٹے پر ہاتھ اٹھادیا۔ اسداﷲتھپڑ کھا کر مزید سہم گیا۔

    ’’میاں، تم اس کی حالت نہیں دیکھ رہے؟‘‘ ماں لپک کر آگے آئی۔ ’’دیکھو تو سہی، ظالم نے اس کا کیا حال کیا ہے؟‘‘ زہرہ اسداﷲ کے پیٹھ سے قمیص اٹھا کر منظور احمد کو دکھاتے ہوے روپڑی۔

    ’’یہ تمھارے ہی بدخون کا اثر ہے جو یہ مدرسہ چھوڑ آیا ہے۔ میرا بیٹا ہوتا تو کبھی ایسا نہ کرتا۔ اور تم اسے ہدایت کرنے کے بجاے اس کا دماغ خراب کر رہی ہو؟‘‘ منظور احمد کا لہجہ سدا کی طرح زہریلا اور ذلت آمیز تھا۔

    ’’میاں، تم کچھ بھی کہو، میں اب کی بار اسے مدرسے جانے نہیں دوں گی۔‘‘ مضبوط لہجے میں بولتی زہرہ کا جملہ جوں ہی منظور تک پہنچا، اس نے اس کے غصے کو آسمان پر چڑھا دیا۔

    ’’لگتا ہے تمھارا ٹوٹا بازو جڑ گیاجو زیادہ بھونک رہی ہو۔‘‘

    زہرہ کو اپنی ٹوٹی کلائی یاد آئی اور اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی۔ اس کا بیٹے کو مدرسے نہ بھیجنے والا مضبوط عزم کمزور پڑنے لگا۔

    ’’میاں جی، تم دیکھو تو سہی۔ کوئی بچے کو اس بے رحمی سے مارتا بھی ہے؟

    او جاہل عورت! اپنا منھ بند رکھ۔ استاد کی مار بچے کے لیے ماں باپ کے پیار سے بڑھ کر ہے۔ اسی مار سے ہی بچہ بنتا ہے۔ جہاں جہاں استاد کی لاٹھی لگتی ہے وہاں بچے کو دوزخ کی آگ حرام ہے۔ میں کل اسداﷲ کو چھوڑآ ؤں گا۔‘‘ وہ رات اسداﷲ اور زہرہ کے لیے بہت بھاری تھی۔ ماں سے لپٹ کرسویا ہوا اسداﷲ وقفے وقفے سے رو پڑتا۔

    ’’ماں، مجھے بچالو۔ قاری مجھے مار دے گا۔‘‘ ماں کی سسکیاں نکل جاتیں اور اس کا دل دھڑکنا بند کر دیتا مگر وہ اتنی بے بس تھی جتنی عورت پیدائش سے لے کر مرنے تک ہوتی ہے۔ صبح کو جب منظور احمد اسداﷲ کو گھسیٹ کر لے جانے لگا تو اسداﷲ کا رونا ماں تک پہنچ کر اس کا سانس بند کیے جارہا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے کلیجے پر کانٹے گھسیٹے جارہے ہوں۔ زہرہ نے دوڑ کر اپنا دوپٹہ منظور احمد کے پاؤں میں رکھ دیا مگر منظور احمد دوپٹے کو روندتا ہوا گزر گیا۔ اس نے چاہا کہ اپنے بیٹے کو پکڑلے اور اسے جانے نہ دے، مگر پچھلے تجربے کی دھمک اس کے دماغ میں گونج رہی تھی۔

    اسداﷲ نے جیسے ہی پانچویں پاس کی تو اس کے باپ نے اسے مدرسے میں داخل کرنے کا ارادہ کرلیا۔ زہرہ کو پتا چلا تو دھک سے رہ گئی۔ مڈل پاس زہرہ نے اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھا ہوا تھا۔ اس کو دو بیٹیوں کے ساتھ صرف ایک ہی بیٹا تھا۔ بیٹے کو ڈاکٹر بنانے کے لیے وہ پہلی بار شوہر کے سامنے کھڑی ہوگئی۔

    ’’منظور احمد، میں نے آج تک شکایت نہیں کی، کچھ نہیں کہا۔ مگر میں اپنے بیٹے کو مدرسے داخل نہیں کرواؤں گی۔ اسے میں پڑھا ؤں گی، ڈاکٹر بنا ؤں گی۔‘‘

    راج مستری منظور احمد بیوی کی زبان کھلتے دیکھ کر سکتے میں آگیا۔

    ’’بے حیا، بے غیرت! شوہر کے سامنے زبان کھولتی ہے؟ یہ تیرے منھ میں کس نے زبان پیدا کی ہے؟اور یہ تو نے کب سے سمجھ لیا کہ اسد تیرا بیٹا ہے؟کبھی عورت کی نسل چلتی دیکھی تو نے؟نسل مرد کی ہوتی ہے، مرد کی!‘‘ منظور احمد گرجنے لگا۔

    ’’منظور احمد، تو بھی سن لے! میں نے اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانا ہے۔ میں اسے مدرسے میں داخل کرنے نہیں دوں گی۔‘‘

    منظور احمد زہرا کی بات سن کر تیلی کر طرح بھڑک اٹھا۔

    ’’تو مجھے روکے گی؟‘‘ منظور غصے میں بھرا آگے آیا۔ ’’تو مجھے روکے گی؟‘‘

    ’’ہاں، میں تجھے روکوں گی۔‘‘

    منظور نے زہرہ کی چوٹی پکڑلی۔

    ’’مجھے روک کر دکھا!‘‘ یہ کہتے ہوے اس نے زہرہ کی چوٹی کھینچ کر دوہرا کرتے ہوے اس کی گدی پر زوردار ہاتھ مارا۔ ’’تو مجھے روک کر دکھا!‘‘ اس نے زہرا کو لات ماری۔ منظور کا بوٹ زہرا کے گھٹنے پر لگا۔ زہرا کو شدت کا درد ابھر آیا۔ ابھی تک اس کی چوٹی منظور کے ہاتھ میں تھی ورنہ وہ زمین پر بیٹھ جاتی۔

    ’’اس کا سامان تیار کر! میں اسے کل لے جا ؤں گا۔ اوراگر اب تو نے ایک حرف بھی زبان سے نکالا تو تجھے زندہ گاڑ دوں گا۔‘‘ منظور احمد نے زمین پر تھوکا اور گھر سے باہر نکل گیا۔

    باپ کے جاتے ہی اسداﷲ اور اس کی بہنیں عابدہ اور ماجدہ ماں کے ساتھ آ لپٹے جو زمین پر بیٹھی آنسو بہارہی تھی۔ سہمے ہوئے بچے جیسے ہی ماں کے قریب آئے تو اس نے اسداﷲکو دونوں بانہوں میں بھر لیا۔ اس کے دل نے چاہا، کاش وہ اپنے بیٹے کو دوبارہ اپنی کوکھ میں چھپاسکے۔ اس رات چارپائی پر بیٹھے منظور احمد کے سامنے اس نے روٹی رکھی اور خود پائینتی کی طرف ہاتھ میں پانی سے بھرا گلاس پکڑے بیٹھ گئی۔ یہ روزانہ کا معمول تھا۔ منظور احمد کھانے کے دوران اور آخر میں پانی کے دو گلاس پیتا تھا۔ زہرہ، ہاتھ میں گلاس تھامے، منظور احمد کے ہنکارے کی منتظر رہتی۔ جیسے ہی منظوراحمد ہنکارا بھرتا، جھٹ سے گلاس آگے بڑھا دیتی۔ منظور احمد نے کھانا ختم کرکے انگوچھے سے ہاتھ پونچھے اور ہنکارا بھرا۔ زہرہ نے پانی کا دوسرا گلاس اس کے ہاتھ میں تھمادیا۔

    ’’منظور احمد، میں نے عمر بھر تم سے کچھ نہیں مانگا۔ میں ہاتھ جوڑتی ہوں، میرے بیٹے کو مجھ سے دور نہ کرو۔ میں اسے اسکول پڑھا ؤں گی۔‘‘

    منظور احمد کا منھ ابھی پانی کے پہلے گھونٹ سے بھرا تھا۔ اس نے منھ میں بھرے پانی کو کلی کیا اور گلاس کا باقی پانی زہرہ کے منھ پر پھینک دیا۔ زہرہ کا منھ، گریبان اور دوپٹہ بھیگ گیا۔ وہ اٹھی اور چارپائی سے دور کھڑی ہوگئی۔

    ’’میں آخری بار کہتا ہوں کہ یہ بات دوبارہ تیرے منھ سے نہ نکلے، ورنہ تو مجھے جانتی ہے!‘‘ انگلی اٹھا کر دانت بھینچتا منظور احمد غصے سے ابل پڑااور وہ چپ کی چپ رہ گئی۔ بھلا منظور احمد کواس سے زیادہ کون جانتا ہوگا! وہ اکثر اس کے ہاتھوں مار سہتی رہتی اور اس کے ڈرمیں مبتلا رہتی۔ صبح سویرے جب منظور سرپر سامان کی جستی پیٹی رکھے اور ہاتھ میں اسداللہ کو پکڑ کر جانے لگا تو زہرہ بے اختیار اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔ اس کی ساری دنیا اس سے چھینی جارہی تھی۔

    ’’منظور احمد، تجھے تیر ی مری ہوئی ماں کا واسطہ، میرے بیٹے کو نہ لے جا!‘‘

    منظور احمد نے اپنی ٹانگیں چھڑائیں اور صحن کے کونے میں بنے چولھے کے قریب رکھی ہوئی پھنکنی اٹھالی۔ پھنکنی کے تین چار وار زہرہ کی کمر پر پڑے۔ درد کی شدت نہ سہتے ہوے زہرہ نے اگلے وار سے بچنے کے لیے اپنے دونوں ہاتھ آگے کیے، تب لوہے کے پائپ سے بنی پھنکنی کا زوردار وار اس کی کلائی پر پڑا اور ہڈی پر ضرب کی آواز شیشے کی بنی چوڑیوں کے ٹوٹنے کے ساتھ ابھری۔ ’’ہائے میں مر گئی!‘‘ کہتے زہرہ اپنی ٹوٹی کلائی کو دوسرے ہاتھ سے پکڑ کر بے دم ہوگئی۔ اگر اس کے اندر عورت کی مرد سے زیادہ تکلیف برداشت کرنے کی فطری صلاحیت نہ ہوتی تو وہ بے ہوش ہوجاتی۔ آج بھی اسداللہ کو گھسٹتے دیکھ کر منظور کو روکنے کے لیے بے اختیار ہوئی جارہی تھی مگر کلائی ٹوٹنے کے درد نے اس کو زنجیریں ڈال دی تھیں۔

    اسداللہ کو قاری کے حوالے کرتے منظور احمد نے ’’قاری جی، گوشت آپ کا اور ہڈیاں ہماری‘‘ کہا اور واپس روانہ ہوگیا۔ قاری گل شیر، جو منظور احمد کو دیکھ کر اس کے رد عمل کا سوچ کر پریشان ہوگیا تھا، یہ بات سن کر مطمئن ہوگیا۔ جیسے ہی منظور احمد نے مدرسے کے گیٹ سے پا ؤں باہر رکھا، قاری نے مدرسے کے احاطے میں لگے شرینھ کے درخت سے اسداﷲ کو سرتا پا ؤں رسیوں میں جکڑا اوربجلی کی پی وی سی وائر لے کر اس پر شروع ہوگیا۔ کل کی مار کھایا ہوا اسداﷲ، جس کے جسم پر لگے زخم ابھی سوجے ہوئے تھے، تڑپنے سے معذور حالت میں چیخنے لگا۔ صحن میں پھرتے اور کمروں کے دروازوں پر کھڑے سب طالب سہم کر اپنے اپنے کمروں میں غائب ہوگئے۔ جمعہ نماز کی تیاری کرتے ہوئے مدرسے کے صدر مدرّس مولاناعبدالوحید نے آکر جب قاری گل شیر کو روکا تب تک اسداﷲ نیم بے ہوش ہوچکا تھا۔ قاری گل شیر کو لے جاتے ہوے مولانا عبدالوحید نے دورۂ حدیث کے دو طالبوں کو اسداﷲ کے کھولنے کو کہا۔ تین دن تک اسداﷲ سے بیٹھا یا سویا نہ جاتا تھا۔ وہ گھٹنوں میں سر دیے رات کا اکثر وقت روتے گزاردیتا۔ ماں بہت شدت سے یاد آتی مگر گا ؤں جانے کی سوچ ہی اس کے قریب نہ آتی تھی۔

    اس دن کے بعداسداﷲنے بولنا کم کردیا۔ پڑھائی کے بعد کمرے یا مسجد میں چپ بیٹھا خلا میں تکتا رہتا۔ عصر نماز کے بعد جب مغرب تک طالب کھیلتے رہتے، وہ مسجد کے ایک کونے میں ستون سے ٹیک لگائے چپ بیٹھا رہتا۔ دن گزرتے گئے۔ اسداﷲ حفظ کرتا رہا۔ مار سے خوف زدہ اسداﷲ حفظ کرنے میں سب سے آگے تھا۔ اس کی اعراب یا مخرج کی ایک غلطی بھی نہیں نکلتی تھی۔ قاری گل شیر کی مار اور شاگردوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ مدرسے بھر میں حافظوں کے کمرے کو جہنم کے ٹکڑے سے پکارا جاتا اور حافظوں کے علاوہ باقی طالب اس کے قریب گزرنے سے بھی پرہیز کرتے۔ سارے حافظ دن بھر خوف کے قیدیوں کی طرح جھولتے اور پڑھتے رہتے۔ انھیں صرف جمعرات کی آمد زندہ رہنے میں مدد دیتی۔ در اصل قاری کا معمول تھا کہ وہ ہر جمعرات اپنے گاؤں چلا جاتا اور جمعے کی شام واپس ہوتا۔ جمعرات کی دوپہر ہونے لگتی تو حافظ اس تانگے والے کا انتظار کرنے لگتے جو قاری کو اس کے گاؤں لے جاتا تھا۔ جیسے ہی قاری گل شیرکو لے جانے والا تانگہ نظروں سے اوجھل ہوتا، حفاظ خوشی سے بے قابو ہوجاتے۔ مدرسے کے صحن اور اور کمروں میں دوڑیں لگ جاتیں اورحافظوں کو روکنا دشوار ہوجاتا۔ جمعرات کی شام اور جمعے کی صبح مدرسے کے درودیوار میں خوشی اور شوخی لہراتی رہتی۔ حافظ تو حافظ، درسِ نظامی والے بھی مدرسے کے احاطے میں شور وغوغا اور کھیل کود میں جٹے رہتے۔ جیسے ہی جمعے کی شام کا وقت آنے لگتا، خوف اور سناٹا ایک بار پھر مدرسے کو اپنے گھیرے میں لینا شروع کردیتا۔ قاری گل شیر کی آمد کا وقت قریب ہوتے ہوتے حافظوں کے سہمے ہوے دل مسوستے جاتے۔ عصر کے بعد سب حافظ مدرسے کے باہر قطار میں بیٹھے اس راستے کو تکتے رہتے جہاں سے قاری گل شیر کا تانگا آتا تھا۔ جیسے ہی موڑ مڑتے ہوئے تانگا قاری گل شیر کو لیے ظاہر ہوتا، وہ سب کے سب اٹھ کر کمروں میں دوڑ جاتے۔ اسداﷲ بھی اپنے بستر میں منھ دے کر رونا شروع کردیتااور دل ہی دل میں خدا سے شکوے شروع کردیتا۔ اسداللہ ہر جمعرات اور جمعہ، دونوں دن بس یہی دعا مانگتا رہتا کہ قاری گل شیر کا تانگا الٹ جائے اوراس کی ٹانگ ٹوٹ جائے تاکہ کچھ دن اسے نجات مل سکے، مگر اس کی یہ دعا کبھی قبول نہ ہوئی۔ ہر ہفتے وہ خدا کے سامنے رورو کر التجائیں کرتا اور آس باندھتا رہتا مگر عصر کے بعد جب تانگا نمودار ہوتا تب پھر اسے اپنی دعا سے اعتبار اٹھ جاتا۔ وہ ٹوٹا دل لے کے چھ دن کے لیے پھر سے پڑھائی میں جٹ جاتا۔ قاری گل شیر آتے ہی حمید سومرو کو طلب کرکے رپورٹ لیتا۔ رپورٹ سننے کے بعد مجرموں کو سزائیں دی جاتیں۔

    رمضان آیا تب تک دس ماہ میں اسداللہ تیرہ پارے حفظ کر چکا تھا۔ ستائیس رمضان کو قاری گل شیر کے ختم شریف پورے کرنے کے بعد حافظوں کو عید کی دس دن چھٹی دی گئی۔ باقی سارے طالب پندرہ شعبان کو ہی گھر جاچکے تھے۔ اسداﷲ بھی تین ماہ کے بعد گھر جا پہنچا۔ مدرسے میں داخلے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب اسے اکٹھے اتنے دن گھر رہنے کو ملا تھا ورنہ ہر دوسرے تیسرے ماہ صرف دو دن گھر آنے کی اجازت ملتی۔ اسداﷲ کے گھر پہنچنے کی اس سے زیادہ اس کی ماں زہرہ بتول کو خوشی تھی۔ وہ اس کی بلائیں لیتی نہ تھکتی تھی۔ باربار اسداﷲ کوبھینچ بھینچ کر کلیجے سے لگاتی مگر اس کا جی نہ بھرتا تھا۔ اس نے اسد اللہ کی پسند کے گڑ والے چاول بنائے اور دوسرے دن مرغ ذبح کروایا اور چاولوں کی روٹی بنائی۔ وہ بیٹے کو گود میں بٹھائے اپنے ہاتھوں سے نوالے بنابنا کر کھلاتی جاتی۔ اسداللہ کے ذہن پر چھایا قاری گل شیر کا خوف ہوا ہوچکا تھا اور وہ گلیوں کھیتوں میں دوستوں کے ساتھ کھیلتا اُڑتا پھرتا تھا۔ عید کی رات جب اس کی ماں عابدہ اور ماجدہ کو مہندی لگانے لگی تو اس نے بھی ضد کردی۔ ماں نے ان دونوں کو چھوڑ کر اس کی ہتھیلیوں کے بیچ میں لال مہندی سے پورا گول دائرہ بنادیا۔ صبح جب وہ بیدار ہوا تو اس کی کومل ہتھیلیوں کے بیچ لال سورج دہک رہے تھے۔ عید کے تیسرے دن جب وہ شام کے جھٹپٹے میں اپنی بہنوں کے ساتھ کھیلتے ہوے صحن میں دوڑیں بھر رہا تھا تب اس نے اپنے باپ کی آواز سنی،

    ’’اسداﷲ کا سامان ٹھیک کردو۔ میں کل صبح اسے مدرسے چھوڑنے جا ؤں گا۔‘‘

    اسداﷲ کو وہیں بریک لگ گئی۔ اس سے اگلا قدم اٹھایا نہ گیا۔ ذہن کے پردے پر قاری گل شیر کی خونخوار صورت اور مدرسے کے بے حس ماحول کے نقوش ابھر آئے۔ دوسرے دن جب وہ اپنے باپ کے ساتھ مدرسے پہنچا، ابھی زیادہ طالب واپس نہ آئے تھے اور قاری گل شیر بھی غائب تھا۔ کمرے میں جاتے ہی وہ بستر میں لیٹ کر رونے لگا۔ ماں بہت یاد آرہی تھی۔ آنکھوں میں ابھی تک گھر کے دروازے سے نکلنے کا منظر موجود تھا جب اس کی ماں دونوں بہنوں کو لپٹائے کھڑی تھی اور تینوں کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔ دل میں بے چینی اور بے قرار ی انتہا کی تھی۔ بہتے آنسو بھی اس کی مدد سے معذور تھے۔ شام تک روتے ہوئے وقت گزرا۔ مدرسے کے باقی کمروں میں بھی طالبوں کی یہی کیفیت تھی۔ پورا ماحول اداسی اور یاسیت سے بھرا ہوا تھا۔ قاری گل شیر حسبِ معمول عصر کے بعد پہنچا اور پڑھائی شروع ہوگئی۔ قاری گل شیر کو آج انتہا کا غصہ چڑھا تھا۔ اس نے کسی حافظ کو قرآن ٹیڑھا رکھنے، کسی کا غلاف زمین کو چھوتے دیکھ کر بہت مارا۔ سب حافظ اپناایک گھٹنا اوپر اٹھائے مشینی انداز میں جھولتے ہوئے پڑھے جارہے تھے۔ کسی سے سر تو کیا، آنکھیں بھی اٹھائی نہیں جارہی تھیں۔

    دوسرے دن صبح چار بجے اٹھ کر اسداﷲ نے وضو کیا اور سبق دوہرانے لگا۔ آج سبق سنانے والوں میں اس کا نمبر تیسراتھا۔ دوسرے نمبر پر سبق سناتے ہوئے عزیز الرحمٰن ایک جگہ اٹکا۔ قاری گل شیر کے کرارے تھپڑ نے اسے اُلٹ کر رکھ دیا۔ سبق سنانے کے منتظراسداﷲ کے جھولنے میں مزید تیزی آگئی۔ عزیزالرحمٰن کے اٹھتے ہی وہ رحل پر قرآن رکھے قاری گل شیر کی ڈیسک کے قریب آ بیٹھا۔ سبق کی جگہ کھول کر اس نے قرآن پاک قاری گل شیر کی ڈیسک پر رکھا اور ڈیسک کی سائیڈ میں خالی رحل رکھ کر سبق سنانے لگا۔ حسبِ معمول اس نے بغیر غلطی کے سبق سنا کر ختم کیا اور ڈیسک سے قرآن پاک اٹھانے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔ تب بڑھی ہوئی ہتھیلی پر قاری گل شیر نے مہندی کی لالی دیکھ لی۔

    ’’حرامزادے! مہندی لگاتا ہے؟ تجھے پتا نہیں شریعت میں مرد کو ہاتھ پیر پر مہندی لگانا ناجائز ہے؟‘‘ قاری گل شیر نے یہ کہتے ہوئے اسداﷲکا رکھا ہوا خالی رحل اٹھایا اور اسداﷲ کے کندھے پر وار کیا۔ ’’اماں جی!‘‘ کی آواز کے ساتھ چیخ بلند کرتے ہوئے اسداﷲ کو لگا جیسے اس کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو۔ درد کی تاب نہ پاکر وہ اٹھا اور جان بچانے کے لیے دوڑا۔ اسداﷲ کو بھاگتے دیکھ کر قاری گل شیرنے اچھل کر اسداﷲ کے کالر میں ہاتھ ڈالا اورہاتھ میں اٹھائے ہوئے رحل سے اس کے سرپر زورداروار کیا۔ رحل کا کونااسداﷲ کے سر پر پچھلے حصے میں جا لگا اور وہ کھڑے کھڑے گر گیا۔ چٹائی پر اس کے سر کے نیچے خون جمع ہونے لگا۔

    ’’ماما! اس کا خون بہہ رہا ہے،‘‘ قاری گل شیر کا بھانجا زاہد دہشت زدہ ہوکر چلّایا۔ تب تک قاری گل شیر اس کے جسم پر دوتین اوروار کرچکا تھا۔

    ’’اٹھ حمید، چھورے کو دیکھ!‘‘ کہتے ہوئے قاری نے رحل پھینکا اور اپنی نشست گاہ پر جابیٹھا۔ حمید سومرو چٹائی پر پڑے اسداﷲ کے پاس آیا اور اسے اٹھاتے ہوے خوف زدہ ہوگیا۔

    سائیں، یہ مرگیا ہے۔‘‘

    ’’کوئی نہیں مرتا۔ ایسے ہی مکر کر رہا ہے۔ لے جا اسے اور پٹی باندھ دے۔‘‘ حمید نے اسے کندھے سے پکڑا اور اٹھانے لگا۔ اسداﷲ کی بے جان گردن جھولنے لگی۔

    ’’نہیں سائیں، یہ مرگیا ہے!‘‘ ڈر کر کہتے ہوے حمید دو تین قدم پیچھے ہٹ گیا۔ قاری گل شیر اٹھ کر آیاتواسداﷲ کا بے جان جسم کھلی آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں پھریری دوڑ گئی۔ صدر مدرس مولانا عبدالوحید کو جب تک نیند سے اٹھا کر لایا گیاتب تک اسداﷲ کی نعش کو دوسرے کمرے میں منتقل کیا جاچکا تھا۔ حافظوں کے کمرے سے رونے کی آوازیں مدرسے کے نیم اندھیرے صحن کوماتم کدہ بنا رہی تھیں۔ مولاناعبدالوحید کے پہنچتے ہی سب معاملات سنبھال لیے گئے۔ قاری گل شیر اور مولانا عبدالوحید نے سب طالبوں کو ایک بھی حرف کسی کو بتانے کی صورت میں زبان کاٹنے کی دھمکی دے کر کمرے میں بند کردیا۔ اسداﷲ کے والد کو خبر دی گئی کہ اس کا بیٹا وضو کرتے ہوے گر کر سرمیں ٹونٹی لگنے کی وجہ سے شہید ہوگیاہے۔ منظور احمد جب اسداﷲ کی لاش اٹھواکر گھر پہنچا تو بے ہوش ہونے سے پہلے ماں نے دیکھا کہ اس کے بیٹے کی مہندی لگی بے جان ہتھیلی زرد ہو گئی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے