Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ضرورت

MORE BYنورالعین ساحرہ

    یخ بستہ سرد موسم میں مری سے لاہور جانے والی فلائنگ کوچ بل کھاتے پہاڑی راستوں میں دور کہیں نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ آفس کی استقبالیہ سیٹ پر بیٹھی ہوئی صابرہ نے بھی اپنی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر سکون کی سانس لی۔ ایک دو منٹ کے بعد دوبارہ اٹھی، بچی ہوئی ٹکٹوں کو سنبھال کر قریبی دراز میں رکھا اور اپنے پیر ہیٹر کے سامنے رکھ کر سینکنے لگی۔ یہ زندگی بخش حرارت اسے بہت بھلی محسوس ہو رہی تھی کہ اچانک تصور میں اپنے گھر کی ٹین والی ٹپکتی چھت، دو سہمے ہوئے معصوم بچے اور معذور شوہر سردی سے ٹھٹھرتے یاد آئے تو جھٹکے سے اپنی کرسی کھسکا کر ہیٹر سے یوں دور ہٹ گئی جیسے کوئی بڑا گناہ کرتے پکڑی گئی ہو۔

    اتنے مردوں کے درمیان بیٹھ کر کام کرنا ویسے بھی اسے گناہ ہی لگتا جب ان لوگوں کی نظریں اپنے جسم کے آر پار ہوتی محسوس ہوا کرتی تھیں۔ قصور اس کا بھی نہیں تھا کہ شوہر کی معذوری اور بڑھتے ہوئے فاقے اسے یہاں لے آئے تھے اور لوگوں کا بھی نہیں کہ اس زمانے میں ٹکٹ گھر میں کسی لڑکی کو بیٹھے دیکھنا ان کے تصور سے بعید تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جو بھی ٹکٹ لینے کھڑکی میں آتا تو پہلے ٹھٹھک کر اسے دیکھتا، کچھ لوگ ہکلانے لگتے اور کبھی تو ٹکٹ لینا ہی بھول جاتے اور اکثر کے ہاتھ سے پیسے ہی گر جاتے۔ وہ اس رویے کی عادی ہو چکی تھی اس لئے گھبرائے بغیر سر جھکائے اپنے کام میں مصروف رہتی۔ اس نے اپنی اڑی رنگت والی گھسی پٹی شال مضبوطی سے اپنے گرد لپیٹتے ہوئے ایک بار پھر شیشے کے پار دیکھا جہاں روپہلی کرنیں جگمگا رہی تھیں۔ وہ اس وقت مہنگے گرم کپڑوں میں ملبوس سیاحوں یا برف سے منعکس ہوتی سنہری کرنوں کا حسن محسوس کرنے سے قطعی قاصر تھی۔ اس کا ذہن برف کے نیچے چھپی مٹی کو سوچتے ہوئے طلب و رسد کے قانون پر غور کر رہا تھا ‘‘کاش مٹی کو گوندھ کر آرٹ کے نام پر ہزاروں روپے کے فضول ڈیکوریشن پیس اورآرائشی برتن بنانے کی بجائے اگر روٹی بنائی جا سکتی تو دنیا میں کوئی بھی ہماری طرح بھوکا نہ سوتا’‘۔

    اسے ایک بار پھر اپنی خودداری، قرضوں کے طومار، بلکتے بچے اور زخمی معذور شوہر یاد آیا تو آنکھیں چھلک پڑیں۔ جو چند روز پہلے اس کا زیور بیچ کر آٹا گھرلانے کی بجائے غنڈوں سے پٹ کر خالی ہاتھ اپنی لاش گھیسٹتا مشکل سے گھر پہنچا تھا۔ ان کے پاس علاج کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بیماری بڑھتی جا رہی تھی۔ ان ہی سوچوں میں غلطاں وہ جیسے من وسلوی کے انتظار میں اپنی دائیں ایڑی بار بار زمین پر مارتی جا رہی تھی مگراس صدی میں سکھ کا کوئی آب زم زم رواں ہوتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ اس کے لئے تو اب زندگی اور موت کے درمیان بھاگتے رہنےکی سعی بھی لاحاصل ہو چکی تھی۔ اسی اثناء میں بوسیدہ سا کوٹ پہنے ٹھٹھرتا اور کچھ جھجھکتا ہوا ایک اجنبی کھڑکی کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ کافی دیر تک تذبذب میں رہنے کے بعد اس نے پھٹے ہوئے دستانوں والے کانپتے سرد ہاتھوں سے مسلا ہوا کاغذ کا ایک ٹکڑا کھڑکی میں رکھا اور کہنے لگا۔

    ‘‘وہ۔۔۔ یہ۔۔۔ درخواست۔۔۔ علیم صاحب کو دینی ہے۔ ان کے کسی دور پار کے عزیز نے دی ہے۔۔۔اس کے آخر میں ان کا فون نمبر بھی لکھا ہے۔ میں بہت دور سےملازمت کی تلاش میں یہاں آیا ہوں اور صرف دو دن تک اس شہر میں رک سکوں گا۔ اگر اسی دوران ان کا فون نہ آیا تو پھر یہاں سے بھی مایوس ہی جانا ہوگا۔ اگر مجھے یہاں کوئی کام مل سکے تو بہت مہربانی ہوگی کہ مجبوری ہی ایسی آن پڑی ہے، کسی انجانی تکلیف کو سہتے سہتے جیسے اس کا گلا رندھ گیا۔ وہ اس کی ضرورت محسوس کر کے تڑپ سی گئی۔

    وہ مجھے یہاں کوئی نوکری دے سکیں گے؟ آنکھوں میں امید کے ہزاروں دیپ جلائے وہ جیسے صابرہ کی طرف سے کسی فوری خوشخبری کا منتظر پوچھنے لگا۔

    صابرہ کو یوں لگ رہا تھا جیسے آنے والا کوئی اور نہیں، خود اس کے اپنے شوہر اسلم کا ہمزاد ہو جو یونہی جگہ جگہ نوکری کے لئے چھوٹی موٹی سفارشی چٹھیاں دیتا پھرا کرتا تھا جس کے ایک کندھے پر مجبوری تو دوسرے پر مایوسی مستقل جمی رہتی اور بےبسی آکاس بیل کی طرح پورے وجود سے لپٹی رہا کرتی تھی۔ کہیں سے کبھی مثبت جواب نہ آتا تھا۔اب تو ان دونوں کو یقین ہو چکا تھا کہ ہر جگہ استقبالیہ کلرکوں کی لاپرواہی کے سبب اس کی درخواستیں کبھی کمپنی مالکان تک پہنچ ہی نہ پائی ہوں گی۔ اسی لئے صابرہ نے بہت فکر سے سامنے کھڑے شخص کی درخواست سنبھال کر اپنے پاس دراز میں رکھ لی تاکہ علیم صاحب کے آتے ہی ان کواحتیاط سے پکڑا دے۔

    ‘‘جی بھائی بالکل، آپ فکر نہ کریں۔ میں اپنے ہاتھوں سے یہ درخواست ان کو دوں گی اور ذاتی طور پر بھی سفارش کروں گی کہ آپ کو یہاں نوکری ضرور دیں’‘

    یہ سن کر اجنبی کی آنکھوں میں امید کی لو جاگی اور چہرے پر زندگی کی حرارت نمودار ہونے لگی۔ وہ آنکھوں میں اچھے دنوں کے سپنے لئے وآپس چلا گیا تو اسے بہت گہری طمانیت کا احساس ہوا۔ اس کے چلے جانے کے بعد بھی، کافی دیر تک اس کے درد اور ضرورت کو محسوس کر کے سوچتی رہی کہ اسے نوکری دلوانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔

    شام کو کمپنی کے مالک ایک اور نئی فلائنگ کوچ خریدنے کی خوشی میں مٹھائی کا ڈبہ لئے اندر داخل ہوئے۔ شیرے میں لتھڑے دو گلاب جامن ہاتھ میں اٹھا کر صابرہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ‘‘یہ لو تمھارا حصہ، منہ میٹھا کر لو’‘

    نعمت غیرمترقبہ۔۔۔ آہ۔۔۔ مٹھائی دیکھ کر وہ دل ہی دل میں خدا کا شکر بجا لائی اور تصور ہی تصور میں اسے بانٹنے لگی۔ ایک گلاب جامن ببلی کا اور دوسرا مٹھو کا، شکر ہے ان کو کھانے کو کچھ تو مل جائےگا۔ میں اور اسلم کل تنخواہ ملنے پر کچھ کھا لیں گے۔ ہمارا کیا ہے دو دن نہ بھی کھائیں تو کونسا مر جائیں گے ، یہی کم ہے کہ بچے تو آج بھوکے پیٹ نہیں سوئیں گے’‘ اسے معجزوں پر یقین آنے لگا۔

    ‘‘جلدی پکڑو نا صابرہ، شیرہ ٹپک رہا ہے، تم کن خیالوں میں کھو گئی ہو’‘

    یہ سن کر وہ گڑبڑا گئی اور جلدی سے ہاتھ مار کر ادھر ادھر کوئی چیز ڈھونڈنے لگی جس میں گلاب جامن رکھ کر اپنے گھر لے جا سکے۔ وہاں ایسا کچھ بھی موجود نہ تھا۔ اچانک اسے جیسے کچھ یاد آیا، کچھ دیر تذبذب کے عالم میں کھڑے رہنے کے بعد مڑی، تھوڑا سی جھجھکی اور پھر احتیاط سے سنبھال کر رکھی ہوئی اسی اجنبی کی نوکری والی درخواست نکال کر پلیٹ کی طرح اپنی ہتھیلی پر بچھا دی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے