زوال پسند عورت
آج مکھی کے گھر ماتم ہو گیا۔
سوگواروں کا ہجوم چلا آتا ہے۔ کسی نے کہیں سے خبر پائی، کسی نےکسی مقام پہ سنا اور کھنچا چلا آیا۔ اب ایک نقطہ ہے اور اس کے گرد ایک سیاہ ہجوم۔ ایک دائرہ ایک حصار کیا ہوا۔ کس طرح ہوا۔ اچھا اسی طرح ہونا تھا۔ ایک مسلسل بھن بھن بھن۔ وہ ایک جانب، ساکت بیٹھی دیکھتی ہے۔ تبسم بہ لب، بیٹھی دیکھتی ہے اور نہیں جانتی کہ ان ثانیوں میں کسی کے لیے ماہ و سال گزر چکے ہیں۔ وہ جو اس کے چند پل، ثانئے اور گھنٹے ہیں کسی اور کی پوری عمر عزیز۔ طویل شب و روز ہیں۔ مگر وہ تبسم بلب بیٹھی ہے اور لیمپ کی روشنی آڑی ترچھی اس سیاہ ماتمی ہجوم پر پڑ رہی ہے، کچھ نوحے، مرثیے کچھ آہ و بکا۔ اسے یکدم زور کی ہنسی آ جاتی ہے۔
ذرا سی چیز ہے اس پہ غرور کیا کہنا! لفظ دھیرے دھیرے کہیں کانوں سے ٹکراتے ہیں۔ بھولے بسرے لفظ۔ ایک چیز دوسری چیز کے حوالے سے کتنی بے بضاعت، کیسی حقیر ٹھہرتی ہے اور چیز خود اپنے ہی وجود میں برقرار نہیں رہ سکتی، اسے ایک وجود بننے کے لیے اپنے سے الگ کوئی امکان چاہیے اور اس امکان کی وسعت میں وہ بےبضاعت ہو جاتی ہے۔
اس نے لیمپ کا شیڈ ذرا ترچھا کیا۔ روشنی کی چھوٹ ایسے رخ سے پڑی کہ ماتمی ہجوم ایک بڑھتی، پھیلتی صورت اختیار کر گیا۔ کیوں ہوا۔ کیسے ہوا۔ کب ہوا۔ وہ دل ہی دل میں ہنستی رہی۔ اتنا قریب ہوکر بھی وہ مخلوق نہ جان سکتی تھی اور نہ ہی وہ انہیں بتا سکتی تھی کہ دونوں وجود کی الگ الگ سطح پر تھے۔ جب کہ وہ ہر بات سے واقف تھی کہ وہ شاہد بھی تھی اور مشہود بھی۔
اس نے اپنا قلم اٹھایا۔ فی الحال۔ ایک عورت۔ ادھیڑ عمر، قد پانچ فٹ چار انچ۔ بےکار۔ سوچ (منفی۔ زوال پسند) لفظ اوڑھنا۔ بچھونا۔ لفظوں میں ایک لفظ، ہاں شکل و صورت بھی کچھ ایسی کہ گویا کوئی لفظ لکھتے لکھتے رہ جائے۔ ناتمام۔ اس نے یاد کرنا چاہا۔ (کب سے ہوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں۔) کب سے یہ قلم ہاتھ میں ہے۔ اس نے انگلیاں کھولیں۔ ان پر قلم کے دباؤ سے گھٹے پڑ چکے تھے اور کاغذوں کے انبار۔ پشتے کے پشتے جن پر ایک لفظ بھی مکمل نہ تھا۔ تمام لفظ ادھورے۔ غلط۔ بے معنی۔ شاید وہ ’ف‘ تھا جس نے مجھے بھٹکایا۔ اس راستہ پر ڈال دیا۔ نہیں مگر ’ج‘ بھی تو اس کے ساتھ ساتھ ہی تھا، جب ’ف‘ نہ ہوتا تو ’ج‘ اس کے کان میں سحر پھونکتا۔ ہاں یہی تمہارا راستہ ہے۔ اس کو دونوں کی صورتیں یاد آتے آتے رہ گئیں۔
شاید وہ دونوں بھی اب کسی جگہ، وجود کی کسی اور سطح پر بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ تبسم بہ لب اور سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس کو بتا نہیں سکتے۔ کیونکہ وہ سن نہیں سکتی کہ وہ کس راستے پر ہے۔ اسی اثنا میں ’س‘ داخل ہوتا ہے۔ اب منظر ایسا ہے۔ ایک عورت، معمولی۔ قد پانچ فٹ چار انچ، افادیت۔ صحت مند افزائش نسل۔ متوازن بجٹ۔ مگر یہ سب پر ولوگ اس مقام پر آکر ختم ہو جاتا ہے۔ اصل کہانی شروع ہوتی ہے۔ (کیونکہ ’’اک نکتے وچ گل مکدی اے۔‘‘)
دنوں، ہفتوں، مہینوں یا شاید سالوں وہ قلم اٹھائے اٹھائے پھرتی ہے۔ جب بھی کاغذ پر قلم کی نوک لگتی، کچھ ہو جاتا ہے۔ کوئی مفید کام بیچ میں آن اٹکتا ہے۔ قلم کی روشنائی سوکھ جاتی ہے۔ نب کر کرانے لگتی ہے۔ وہ اسے رواں کرنے کی خاطر غور سے دیکھتی ہے اور غور سے دیکھنا ہی قیامت ہے۔ چیزیں فوراً اپنی صورت بدل لیتی ہیں۔ وہ کرکرانے اور اٹک جانے والی اور زنگ خوردہ، رنگ شکستہ نب تو کچھ اور ہی بن جاتی ہے۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھتی ہے اور پہچان جاتی ہے۔ ہم کس صورت میں اپنے آپ کو یاد رکھتے ہیں؟ ہر کوئی اپنے ہی انداز میں اپنے آپ کو یاد رکھتا ہے۔ بشرطیکہ وہ اپنے آپ میں ہو۔ اس کے ساتھ عذاب یہ تھا کہ وہ کبھی اپنے میں نہ رہی تھی۔ ہمیشہ دوسروں میں بستی رہی۔ چپکے سے اپنی جگہ سے اٹھتی اور دوسرے میں حلول کر جاتی۔ میں سے تم۔۔۔ تم سے وہ، وہ سے ورے۔ کچھ اور بن جاتی۔ اس نے نب کو گھورا۔ وہ رنگ شکستہ، پر بریدہ، اب لکھنے کے قابل کہاں رہی تھی۔ ایک اتھاہ ہوک، اژدہے کے زہریلے سانس ایسی اسے اپنے اندر کھینچنے لگی۔ آج تو لکھنا بےحد ضروری تھا۔ اس کی وجہ اب بیان ہوتی ہے۔
آج صبح، سب سے پہلی نگاہ جو باہر کھلے آسمان پر پڑی تو وہ بے حد مانوس نظر آیا۔ یہ شاید وہی پرانا آسمان تھا جو صبح سویرے ابا کی کھڑکی سے جھانکا کرتا تھا۔ سامنے بجلی کے تار پر تین چڑیاں ساتھ ساتھ سہیلیوں کی طرح جڑی بیٹھی تھیں۔ تب حسب معمول اس نے منت مانی تھی۔ وہ ایسے ہی ناقابل اعتبار شگون بناتی اور منتیں مانتی تھی۔ اگر اس کے د یکھتے دیکھتے ایک چڑیا اڑ گئی تو وہ ہر صورت میں لکھےگی اور واقعی دوسرے ہی پل بیچ کی چڑیا اڑ گئی۔ چنانچہ اب لکھنا طے تھا کہ منت پوری نہ کرنے کے عذاب سے وہ ہر دم لرزاں تھی۔ چنانچہ اس دم اس قلم کا چلنا بے حد ضروری تھا۔
تب، عین اس وقت یہ واقعہ رونما ہوا۔ جس کی وہ شاہد بھی تھی اور مشہود بھی۔ ایک مکھی کہیں سے اڑتی اڑتی آئی۔ نہ معلوم کتنا لمبا سفر طے کرکے۔ شاید وہ حسب معمول کام پر نکلی تھی۔ کسب معاش کرتی تھی۔ پہلے لیمپ کا طواف کیا اور پھر کاغذ پر عین اس طرح سے کچھ اوپر آن بیٹھی جہاں اس کا قلم چل رہا تھا۔ اس نے قلم روک کر اس کے بارے میں غور کیا۔ اسے خود ہی اڑ جانا چاہیے تھا مگر وہ نہیں اڑی۔ تب اس نے کاغذ ہلایا۔ وہ لپک کر اس کے ہاتھ پر آن بیٹھی۔ ابھی بھی وہ مقرر لمحہ نہ آیا تھا۔ اس نے ہاتھ کو جھٹکا دیا۔ وہ اڑان لے کر کان کی لو پر جھولنے لگی۔ وہاں سے دھپ کھا کر لیمپ کے نیچے رکھی کتاب پر سیدھی سیدھی جا بیٹھی۔ وہ غور سے اس کو دیکھنے لگی۔ شاید مکھی نے بھی اس کو غور سے دیکھا۔ مگر مکھی کے وژن میں وہ ایک دم سے پوری کی پوری کس طرح آ سکتی تھی۔ اس نے قلم روک کر غور کرنا شروع کیا اور پھر اسے اس فکر نے آن گھیرا کہ میں مکھی کو کیسی نظر آتی ہوں۔ شاید مکھی نے بھی اس کی بات سن لی۔ وہ اڑ کے پھر کاغذ پر بیٹھ کر مسلسل پر پھڑپھڑانے لگی۔ اس نے قلم ہاتھ سے رکھ دیا اور اس کی انگلیوں میں جنبش ہوئی۔ پاس ہی رکھے اخبار کی تہہ لگا کر اس نے نشانہ لگایا۔
وہ مقررہ لمحہ اس کے ہاتھ کی جنبش میں مقید تھا اور اس کا ہاتھ، اس کے ارادے کا پابند۔۔۔ اور اس کا ارادہ اس سے ورے نہ معلوم کس کا پابند اور پابندی کا سلسلہ پھیلتا چلا گیا یہاں تک کہ پوری کائنات اس میں جکڑی گئی۔ میرا ارادہ بدل بھی تو سکتا تھا! اس نے اس وقت سوچا جب کہ فرش پر گری اس مکھی پر نوحہ گر ہم جنسوں کا ہجوم ہوا۔ نہیں میرا ارادہ نہیں بدل سکتا تھا۔ ایک عورت، معمولی۔ قد پانچ فٹ چار انچ، لفظ اوڑھنا بچھونا۔ تمام ہرج مرج کھینچتی اس مقام پر آن پہنچی جہاں تمام ہرج مرج کھینچتی ایک مکھی آن پہنچی اور دو مختلف سمتوں سے آنے والے خطوط ایک نقطہ پر آن ملے اور ایک واقعہ، ایک نکتہ رونما ہوا۔
اس نے ماتمی ہجوم کو دیکھا کہ یہاں کا ایک دن، دو دن، ان کے لیے بےشمار برسوں کے برابر تھے اور جو واقعہ اتنا صاف، سیدھا سادا، تمام کا تمام اس کے روبرو تھا، اس ماتمی ہجوم کے لیے ایک معمہ، سرحد ادراک سے پرے، ناقابل فہم۔۔۔ اس نے اپنے مقام سے اس بے بضاعت جنس اور اس کے سانحہ کو دیکھا اور ہنس دی۔ مگر اس کی ہنسی میں پروں کی پھڑپھڑاہٹ تھی۔ اس نے اپنے اوپر نظر کی اور پلٹ کر پھر نگاہ کی۔ اپنے گردوپیش دیکھا۔ کہیں ہوا میں۔ کسی طرف۔ کسی انجانے ہاتھ کی جنبش لہر در لہر چلی آ رہی تھی۔ وہ اس کے حصار میں تھی۔ وہ کہ جس کے سیکڑوں برس کسی اور کا ایک لمحہ تھا۔
عین اس وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ سرکاری ہرکارہ اس کی گرفتاری کا پروانہ لیے کھڑا تھا۔ فقیہہ شہر نے فرد جرم تیار کی تھی۔ ’’ایک زوال پسندعورت کے نام کہ جو اس قومی بحران میں بھی ایک ’مکھی‘ کے بارے میں سوچتی ہے!‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.