زندہ انسانوں کا عجائب گھر
اخروٹ، بادام، خوبانی اور آلوچے کے پیڑوں تلے کافر لڑکیوں کے پرے تھے۔ رنگ برنگ گھیردار موتیوں جڑے فراکوں میں جیسے شوخ رنگ گلاب سجے ہوں، آبشاروں کے برف چور سے دھلے ہوے یونانی ایرانی تیکھے نقوش، جگ مگ رنگتیں جیسے عنابی آلوچوں پر سفید دھند لپٹی ہو۔ رس بھرے عنابی گودے سے سخت بدن جیسے موتیا رنگ خوبانیوں کے گلابی شیڈ، باداموں کی ساخت اوڑھے اخروٹ کے تیل سے مچ مچاتی سنہری موتی چور آنکھیں۔
’’تمہارے ساتھ ایک تصویر بنوانے کے ہزاروں ڈالر ہونے چاہئیں۔‘‘
رابرٹ نے فرزین کے گال کو شہادت کی پور اور انگوٹھے کے پیٹ میں بھر کر ہلکے سے چٹکی لی، جیسے پھول کی کٹوری کے زردانوں میں پوریں ڈوب گئیں، جیسے ریشم کے تار چھوگئے ہوں۔ گلاب کے پیالے میں بھری شعلہ رنگ حدت بھڑک گئی، جیسے سنہری روپہلی تتلیوں کے پروں کی ست رنگی افشاں جھڑگئی ہو۔ رابرٹ کا کیمرہ کھٹ کھٹ کئی رول بناگیا۔
جھاگیں اڑاتے نامعلوم سمتوں سے اترتے آبشاروں، جھرنوں کے برفیلے پانیوں میں منعکس کوئی جل پری۔ ہرے، لال، پیلے موتیوں جڑا گھیردار، ہرا، لال فراک لہراتی برفیلے پانیوں کی سڑک پر بھاگتی ہوئی سنڈریلا۔ خوبانی آلوچوں کے پیڑوں پر منڈلاتی سنہری پروں والی تتلی، بانس کی تیلیوں سے بنی لمبوتری ٹوکری پشت پر لگائے کھڑی کوئی دیومالائی دیوی، بادام کے سفید پھولوں کے گھر میں بسنے والی گل بکاؤلی۔
رابرٹ پروفیشنل فوٹو گرافر تھا۔ اسے یقین تھا یہ سب تصویریں ادھر یورپ کی آرٹ گیلریوں میں جب نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی تو کئی انٹرنیشنل جرنلز انہیں اپنے ٹائٹل کی زینت بنائیں گے۔ ایک ایک تصویر بھاری قیمت میں بک جائے گی، ڈالروں کی یہ حدت بھری چمک رابرٹ کی چندھی مندھی آنکھوں میں نشہ سا بھر جاتی۔
’’پھر تم بہت پیسے والے ہو جاؤگے کیا؟‘‘
ابلتے چشموں، میل ہا میل بلندیوں سے اترتی کھنکتی آبشاروں، سیاہ چٹانوں پر سے دہاڑتے چنگھاڑتے دریائے کیلاش کی فرسی جھاگ میں وہ جل مچھلی سی تیرنے لگتی۔ نیچی نیچی چھتوں پر پھل سے بوجھل جھکی شاخوں سے خوبانیاں توڑتی، بلند اخروٹوں کے پیڑوں کے گھنیرے سایوں تلے دنداسہ ملتی دنیا کے حسین ترین لینڈ اسکیپ میں سجی نفیس سجاوٹیں، جڑاؤ ٹوپی کی لمبی ٹیل لہراتی، پیلے باریک موتیوں کی اَن گنت لڑیاں پروئی مالاؤں سے پوری ڈھکی ہوئی لمبی گردن اتنا بوجھ یہی دھان پان سی عورتیں ہی سہار سکتی ہیں۔ کتنا وزنی، مشکل اور تکلیف دہ ہے یہ لباس لیکن انہیں اگر اس لباس سے الگ کردیا جائے تو شاید کیلاش کی رومانیت بھی رُوٹھ جائے اور دشوار گزار طویل مسافتیں طے کرکے آنے والے سیاحوں کی دلچسپی بھی جاتی رہے۔ اسی لیے تو دنیا بھر کی این جی اوز اور رفاہی ادارے یہاں ٹوٹ پڑے ہیں۔
رابرٹ جب یہاں پہنچا تھا تو برف کے شیشے سے ڈھکے بلند کہسار اور دریاؤں، آبشاروں پر پل بنے گلیشیرز ابھی پگھلے نہ تھے۔ باداموں کے پیڑ سفید فرسی پھولوں سے ڈھکے تھے۔ پوری وادی سپیدگی کی چادر اوڑھے ابھی سستاتی تھی، پھر دھوپ افشاں کترن کترن بکھرنے لگی اور چاندی کی گاگریں، پگھلتی برف کی بھر بھر کے انڈیلنے لگی۔ تب کتنے جھرنے، آبشار، ندی نالے بہہ نکلے۔ خوبانی اور آلوچے کے خشک پیڑ پھولوں سے بھر گئے۔ طویل برف بھرے موسموں کی ٹھٹھری ہوئی گنگ خاموشی کو توڑنے کیمرے اور دُوربین لٹکائے سیاح اس وادی میں اترنے لگے۔
رابرٹ برمودہ پہنے جدید کیمرہ گلے سے لٹکائے دن بھر وادیوں میں گھومتا، انہی کیلاشیوں کے ہمراہ کھاتا پیتا۔ خوبانی انگور سے بنی یہاں کی مخصوص خانہ ساز شراب کا ذائقہ اسے پسند آیا تھا جو برفیلے موسموں کے لیے ان پھلوں کی فصل پر مٹکوں بھر تیار کرکے محفوظ کرلی جاتی تھی۔ وہ پچھلے تین مہینوں سے یہاں تھا۔ جہاں جس سمت بھی نکلو ندی نالے ہمراہ ہوچلتے ہیں۔ آسمانوں کی بلندیوں سے اترتے آبشار، گھروں کے صحنوں میں ابلتے چشمے، جیسے یہ وادیٔ کیلاش برفیلے پگھلتے پانیوں میں تیرتا ہوا کوئی کنول، جس کی شہزادی فرزین تھی۔ رابرٹ نے شراب چھلکاتی ان آنکھوں کی کتنی تصویریں بنائی تھیں۔ آلوچوں کے رس بھرے ہونٹوں کے پیالے مقید کرنے کو کتنی میمریز خرچ کرڈالی تھیں لیکن فرزین تھی کہ کسی صورت بھی مقید نہ ہوپاتی تھی۔ ہر لمحے ہر زاویہ اک الگ جہانِ حسن۔ رابرٹ نے تازہ پھولوں سے کشید کیے شہد بھرے انگبیں لبوں کو ہلکی پور سے چھوا، پھر اپنی ہی پور چوم لی جیسے پھولوں کی مٹھاس، گلاب کا قلاقند، شہد کا قوام وہ چو ستا رہا۔
’’دنیا کے سارے کیمروں کی سبھی میموریز ختم ہوجائیں گی تو بھی اس حسن کا پاسنگ بھر خود میں سمونہ پائیں گی۔‘‘
فرزین کے گالوں پر آلوچوں کا رنگ اترآیا۔ وہ اٹھ کر بھاگی۔ چنٹ دار فراک کا گھیر، لمبی لہراتی موتیوں جڑی ٹیل، باریک مینڈھوں گندھی سیاہ لمبی دوچوٹیاں، برف کے موسموں کے لیے بنائے گئے نیچی چھت والے بند کمرے میں چھپ گئی، جس کے چاروں اطراف بنے چبوترے پر بچھی میل بھری دریوں پر روئی اگلتے کئی موسموں کے ان دھلے لحاف بکھرے تھے۔ درمیان میں آگ جلانے والا گڑھا ابھی بھی راکھ سے بھرا تھا۔ رابرٹ نے اس تنگ و تاریک بند کمرے میں ڈھیروں میموریز خرچ کرڈالیں۔
’’ان تصویروں کے تمہیں کتنے پیسے ملیں گے؟‘‘
فرزین نے گندم کی موٹی میٹھی روٹی کانسی کی پلیٹ میں رکھ کر چبوترے پر یوگا کاآسن لیے ہوئے رابرٹ کے سامنے بڑھائی۔ رابرٹ نے بڑے سے نوالے سے گال پھلالیا۔ عینک کے اندر چندھی آنکھیں مندھ گئیں۔ وہ جانتا تھا، فرزین یہ سوال بار بار کیوں دہراتی ہے۔ رابرٹ کہتا تھا فرزین کی ایک تصویر کے عوض پوری دنیا کا سودا کیا جاسکتا تھا۔ تصویر کا تو وہ نہیں جانتی تھی لیکن خود اس کا اپنا سودا چند ہزار میں ضرور ہوسکتا تھا۔ پچھلے برف کے موسم میں اس کی ہم شکل اس سے بھی چھوٹی بہن کو ادھر چترال کا کوئی پٹھان صرف پندرہ ہزار میں خرید کرلے گیا تھا۔ جب برف سارے مواصلاتی راستے یہاں منقطع کردیتی ہے اور خوراک نایاب اور انسان سستے ہوجاتے ہیں، تب ان کیلاشی لڑکیوں کی قیمتیں بہت گرجاتی ہیں جن کے حسن سے ڈر کر اس وادی کو کافرستان کہہ دیا گیا۔
پاکستان میں دہشت گردی کا ڈرامہ رچائے جانے سے پہلے یہ وادیٔ کافرستان جب سیاحوں سے بھری رہتی تھی اور اس نادر کلچر اور نایاب انسانوں کو دیکھنے کے لیے دنیا کھینچی چلی آتی تھی تب ایک ایک تصویر کھنچوانے کے کئی ڈالر گورے بخشش کر جاتے تھے۔ اب بھولے بھٹکے کالجوں کے طالب علم، پیشہ ور قلاش سیاح، ان کیلاشی لڑکیوں کے ساتھ تصویریں بھی مفت بنوانا چاہتے تھے۔ پھل بھی مفت ہی توڑ کر کھاتے تھے۔ آنگنوں میں کھڑے اور چھتوں پر جھکے پیڑوں سے جتنا چاہا توڑ کر کھایا، پھینکا اور لفافے بھر کر ساتھ لے گئے، جہاں جی چاہا بلااجازت گھسے چلے آئے۔ ان زندہ انسانوں کے میوزیم میں ان تاریخی شہکار تصویروں کی آرٹ گیلری میں کوئی ٹکٹ، کوئی داخلہ فیس مقرر نہیں ہے۔
دنیا سے کٹی ہوئی یہ درہ نما تنگ سی وادیٔ کیلاش جو بمبوریت، بریر اور ریمبورتین وادیوں پر مشتمل ہے، جس کے دونوں اطراف سنگلاخ پہاڑ لینڈ سلائیڈنگ کے پتھروں بھری خطرناک موڑ کاٹتی تنگ سڑک پر یوں جھکے کھڑے ہیں جیسے ٹھپے کھا کھا کر اچھلتی ہوئی جیپوں کو ابھی سینگ ٹکڑا کر ہزاروں فٹ نیچے بہتے زمردیں پانیوں والے پہاڑی دریا میں دھکیل دیں گے۔ دہشت گردی کی جنگ کے بعد سے دشوار گزار رستوں والی، چشموں، آبشاروں، دریاؤں، پھلوں بھری، اس حسین وادی کی رونقیں ماند پڑگئی ہیں۔ اس ملک کو خطرناک قرار دیے جانے کے بعد یہاں کے نظارے انسانی لہو کی وحشی بو میں لپٹے سوگوار ہیں۔
اگرچہ برف پگھل رہی ہے لیکن پھر بھی سیزن نہیں لگا ہے۔ اس حسین لینڈ اسکیپ کے شوکیسوں میں سجی یہ کیلاشی لڑکیاں مفلس اور اداس ہیں جنہیں سورج چڑھتے ہی گھروں سے نکال کر آلوؤں کے کھیتوں میں آلوچے، خوبانی، اخروٹ، بادام کے پیڑوں تلے پگھلتے گلیشیرز، جھرنوں اور چشموں کے عقب میں نوادرات کی طرح سجادیا جاتا ہے۔ ان دھڑکتے مسکراتے عجائبات حسن میں کوئی بھی آمیزش نہ چاہتا تھا۔ پوری دنیا کی این جی اوز انہیں بدلتی دنیا کی جدید ترقیوں سے محفوظ رکھنا چاہتی ہیں۔
رابرٹ نے ان رنگ برنگ پھولوں کی کیاریوں میں فرزین کے گلاب کو مہکتے ہوئے دیکھا اور سوچا اگر فرزین کا پھول توڑلیا جائے تو پھر ان کیاریوں کا حسن کتنا ماند پڑجائے گا اور اگر فرزین کو عام دنیا کا حصہ بنادیا جائے تو پھر وہ فرزین کہاں رہ جائے گی۔ کون بدبخت ہوگا جو اس کلچر کو روندڈالے جسے بچانے کو پوری دنیا یکمشت ہوچکی ہے۔ جسے مذہبی تبلیغیوں کی دست برد سے محفوظ کرنے کو ان کا داخلہ یہاں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ حکومتِ پاکستان کا ایک ایسا منافع بخش پروجیکٹ جس کی حفاظت کے لیے پوری دنیا پیسہ لگانے کو بے تاب ہے۔ اس قدیم تہذیب کو اسی شکل، اسی حالت میں جوں کا توں برقرار رکھنے کے لیے یہ آثار ِقدیمہ والے، این جی اوز، یہ ٹورسٹ گائیڈ اور سیاح سب کتنے متفق اور ہم خیال ہیں۔
ان کے بس میں ہوتا تو اس وادی کو دنیا کے عجائبات میں درج کروادیتے۔ ان زندہ دھڑکتے ہوئے عجوبوں کے سامنے اہرامِ مصر، تاج محل، دیوارِ چین، ابوالہول، کتنے مردہ اور بدشکل ہیں۔ یہ سولہ سترہ برس کی کیلاشی لڑکیاں ہیں کہ قیمتی انٹیکس ہیں۔ کتنی نادر و نایاب، کتنی قدیم تاریخی داستانی اساطیری، بنا کسی فاصلاتی بعد اور کھوٹ کے سچی اور حقیقی۔ ورنہ عجوبات میں تو کئی کئی مرمتیں، تاریخی جھوٹ اور آلودگیاں شامل ہوچکی ہوتی ہیں لیکن یہ واحد انٹیکس ہیں جو ہر دور میں نئے، تازہ، نوخیز، کلاسیک فضا میں سانس لیتے دھڑکتے ہوئے نوادرات۔
یہ یونان والے اسپین ا ور چین والے اس نادر کلچر کو محفوظ رکھنے کو کتنے پریشان ہیں۔ یہاں کسی جدید ایجاد کو گھسنے نہیں دیا گیا، نہ ٹیلی ویژن، نہ ٹیلی فون، نہ کالج، نہ یونیورسٹی۔ اگر یہ ڈھائی تین ہزار نفوس پر مشتمل قدیم کلچر جدید ترقیوں سے ہم آہنگ ہوگیا تو پھر اپنی نوعیت کے واحد جیتے جاگتے سانس لیتے، اس عجائب گھر کو دیکھنے کون آئے گا۔ ہر خطے، ہر قوم کی کبھی ایک قدیم تاریخ اور تہذیب تھی لیکن وہ سب تو وقت کی تبدیلیوں سے ہم آمیز ہوتی چلی گئیں لیکن اس تہذیب کو دنیا والے پتھر کے مٹھ میں قید رکھنا چاہتے ہیں، لیکن دہشت گردی کی جنگ نے اس وادی کے کلچر کو کتنا مفلس کردیا ہے۔ سیاحوں نے اب دلّی اور آگرہ کا رُخ کرلیا ہے۔ یہاں کے بچے انگریزی کے رٹے ہوئے جملے اب بھولنے لگے ہیں۔ ٹورسٹ گائیڈ وادی کے ویران داخلی دروازوں پر دریائے کنہار میں ڈوبتی ابھرتی سیاہ چٹانوں کی تنہائی میں سوگوار اونگھتے رہتے ہیں۔
انگریزی میں گھڑی گھڑائی وادی کی تاریخ پر گرد جمنے لگی ہے۔ این جی اوز اپنے دفتر سمیٹ رہی ہیں۔ اسپین اور یونان والوں کے ہیلتھ سنٹر اور اسکول ویران پڑے ہیں جو خود تو راکٹوں میں سوار ہوتے ہیں لیکن ان کیلاشوں کو اپنی قدیم نسل قرار دے کر ممیوں کی طرح پریزرو کرنا چاہتے ہیں، لیکن اب ان کی حکومتوں نے انہیں دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر واپس بلالیا ہے۔ اب بمبوریت کا یونانی طرز کا اسکول اور میوزیم بند پڑا ہے۔ کیلاشی لڑکیاں وزنی اور تکلیف دہ لباسوں کا بوجھ اٹھائے خاموش ویران رستوں میں سجی تو ہیں لیکن ڈالر نچھاور کرنے کو اب غیر ملکی سیاح نہیں آتے، بس کالجوں، یونیورسٹیوں کے ٹرپ اور اِکا دکا کنگلا سیاح بھولے بھٹکے چلا آتا ہے۔
آج بھی لاہور سے آنے والے کسی یونیورسٹی کے ٹرپ نے کیلاشی ڈانس دیکھنے کا اہتمام کروایا تھا جو ٹورسٹ گائیڈ سے تین ہزار میں طے پایا تھا۔ دوہزار ٹورسٹ گائیڈ کے ہزار روپیہ انتظام کروانے والی عورت کو ملا تھا اور ان بیسیوں ناچنے والی پر یوں کونجانے کیا ملا ہوگا جو ایک دوسری کے گلے میں بانہیں ڈالے پھولوں کی مالا بنی نیم دائرے میں گھنٹوں گھومتی رہی تھیں۔ رابرٹ کیمرہ پکڑے تہ درتہ سیڑھیاں پھلانگتا سب سے اوپر والی نشستوں پر جابیٹھاتھا، جہاں سے پورے منظر کو کیمرے میں محفوظ کیا جاسکتا تھا۔ بمبوریت کے اس یونانی طرز کے اوپن ایئرڈانسنگ ہال کی پتھریلی نشستو ں پر بیٹھے تماشائی تالیاں پیٹتے، ہیجان خیز آوازیں نکالتے اس متھ، رومانس اور ناسٹلجیا کے جزیرے میں گم ہوچکے تھے۔ کیلاشی لڑکے جین اور ماڈرن شرٹس میں ملبوس مجمع میں موجود پنجابی لڑکیوں کو کیمروں میں اُتار رہے تھے۔ شاید ان کے لیے یہ ایک منفرد کلچر تھا، جسے محفوظ کرلینا چاہیے تھا۔
گھروں کی کھڑکیوں سے کیلاشی بچے اور مرد ڈرے شرمائے جھانکتے تھے، جن کے زینوں اور چھتوں پر یونیورسٹی کے لڑکے لڑکیاں دندناتے پھرتے تھے جیسے یہ گھر نہ ہوں پبلک پراپرٹی ہوں۔ دھونکائے ہوئے مکانات، غلیظ چیتھڑوں اور روئی اگلتے لحافوں اور کالک زدہ برتنوں سے بھرے ہوئے۔ پتہ نہیں ان کی تصویریں کیوں نہیں یہ سیاح بناتے، رنگ برنگ بیٹز جڑی ٹوپیوں اور فراکوں میں کھلتی یہ یونانی نقوش والی حسین لڑکیاں جب رقص کا کوئی انداز تبدیل کرتیں تو تماشائی تالیوں کے رِدھم میں خود رقص میں شامل ہوجاتے۔ اس وقت کیلاشی لڑکے پنجابی لڑکیوں کو اپنے کیمروں میں اُتار رہے تھے اور پنجابی لڑکے کیلاشی لڑکیوں کے حسن سے پاگل ہو رہے تھے۔ ایک جیسے یورپی طرز کے لباسوں میں ملبوس پنجابی اور کیلاشی لڑکوں میں تمیز کرنا مشکل تھا۔
زری جو اُدھر اسلام آباد کے ایک کالج میں ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رہی تھی، وہ رقص کے دائرے سے نکل کر تہ درتہ پتھریلی نشستیں ٹاپتی زینے چڑھنے لگی۔ جڑاؤ ٹوپی کی لمبی ٹیل لہراتی گھیردار فراک میں ہوا بھرتی ہوئی غبارہ سا پھلاتی، پیلے موتیوں کی اَن گنت لڑیوں میں چھپی صراحی دار گردن کے اطراف باریک مینڈھیوں کو گوندھے لمبی سیاہ چوٹیاں، بے شمار کیمروں کے فلش ہر ہر قدم پر نچھاور ہوتے چلے گئے۔
رابرٹ ماہر فوٹو گرافر تھا۔ بے شمار رول بنتے چلے گئے۔
’’تم نے کتنی تصویریں بنالی ہوں گی اب تک۔۔۔‘‘
عام کیلاشی لڑکیوں کے برعکس جنہوں نے سیاحوں سے انگریزی کے چند جملے سیکھے تھے، زری پڑھی لکھی اور شستہ انگریزی بول سکتی تھی۔ رابرٹ کے چہرے پر مخصوص جاپانی مسکان آمیز خوش اخلاقی پھیل گئی۔
’’کم از کم سو۔‘‘
’’کتنے کی بک جائیں گی؟‘‘
سامنے دائرے میں ناچتی پریوں میں سے فرزین باہر نکل رہی تھی۔ رابرٹ نے اس سے ہاتھ ہلایا۔
’’پندرہ ہزار کی تو بک ہی جائیں گی نا۔‘‘
“Of course, sure”
رابرٹ فرزین کے مختلف پوزز فوکس کرنے کھڑا ہوگیا۔ چھتوں، زینوں پر بھرے پنجابی لڑکے بے تحاشا تالیاں پیٹنے لگے۔ اب فرزین زینے چڑھنے لگی تھی۔ ہر زینے پر تالیوں کی گونج کے ساتھ سیکڑوں فلش جل بجھ رہے تھے، جیسے مس یونیورس تاج پہنے اسٹیج پر کیٹ واک کرتی ہو اور ہزاروں کیمروں کی روشنیوں کا فوکس اسی پر ہو۔
’’یہ جو تمہاری طرف کھینچی چلی آرہی ہے، جس کی ہزاروں تصویریں تم بناچکے ہو، تم ساری سمولی کو اپنے ساتھ کیوں نہیں لے جاتے، پھر عمر بھر اس کی تصویریں بناتے اور بیچتے رہنا صرف پندرہ ہزار میں۔۔۔ پندرہ ہزار میں تو اس کی ایک ایک تصویر بک جائے گی ہے نا رابرٹ۔۔۔ تم چاہو تو میں کچھ کم بھی کرواسکتی ہوں۔‘‘
رابرٹ کی جاپانی آنکھیں مچ گئیں، جیسے فرزین کے مختلف پوز کے کئی رول اندر ہی اندر لپٹ گئے ہوں۔ ڈانسنگ اسٹیڈیم کے چہار اطراف پھیلے مکانات کی چھتوں پر کھڑے کیلاشی لڑکے پنجابی لڑکیوں کی تصویریں بنارہے تھے اور پنجابی لڑکے کیلاشی لڑکیوں کے ایک ایک پوز کو بااندازِ ہزار محفوظ کیے چلے جارہے تھے۔ نشیب میں اترتے زینوں سے ایک کیلاشی لڑکی کمر سے بانسوں کی تیلیوں سے بنی لمبوتری ٹوکری باندھے اُوپر چڑھی جس میں چند ماہ کا ایک بچہ بیٹھا تھا، جیسے تازہ سیب درخت سے توڑ کر نقش و نگار بنا ٹوکری میں سجادیا گیا ہو۔ پورے مجمع نے بھرپور تالیاں بجائیں جیسے کوئی کمال کا سین شوٹ ہوا ہو۔ کھڑکیوں میں کھڑی مینڈھیاں گندھاتی، خوبانی کے ڈھیر چھتوں پر سوکھنے کو بچھاتی، چارے کے گٹھر کمر پر لادے دنیا کی حسین ترین عورتیں۔ ہزاروں فلش چمک گئے۔
تماشائی اب بمبوریت کی اس بستی کے بازار میں خریداری کرنے لگے تھے جہاں چھوٹے چھوٹے کھوکھوں میں کیلاشی ٹوپیاں، فراک، جوتے، مالائیں، کنگن سجے تھے، جن کے مرد دکان دار جین شرٹس پہنے، گھڑیاں عینکیں لگائے بھاؤ تاؤ کر رہے تے۔ کیا کلچر سنبھالنے کی ساری ذمہ داری صرف عورتوں پر ہی آن پڑتی ہے۔ چند لڑکیاں ادھر پشاور اور اسلام آباد کے کالجوں میں پڑھ رہی ہیں۔ انہیں بھی گلیشیرز پگھلنے کے موسموں میں، جب سیاحوں کے قافلے یہاں اترتے ہیں، اس کلچرڈ پیلس پر واپس آنا ہوتا ہے۔ خوبصورت لینڈ اسکیپ کے شوکیسوں میں مورتیاں سی سجنا ہوتا ہے۔
کئی پڑھی لکھی کیلاشی لڑکیاں یہ سوال این جی اوز سے کیا کرتی ہیں۔ آخر ان کی کوئی پرائیویسی، ذاتی گھر کی حدبندی کیوں نہیں ہے، جہاں داخل ہونے سے پہلے اجازت طلب کی جائے، یہ وزیٹرز بنا کسی پیشگی اطلاع کے ان کے گھروں میں کیوں دھاوا بول دیتے ہیں۔ یہ کافر لڑکیاں جو اپنے نازک، نفیس جسموں پر کتنے ہی قدیم اور کلچرڈ لوازمات کا بوجھ اٹھائے آنے والوں کے رستوں میں سجی رہتی ہیں، یہ جو پیلے باریک موتیوں کی مالائیں صراحی دار گردن کی زینت ہیں، کبھی اس پھندے کو ہٹاکر دیکھیے تو کتنے زخم ہیں جو اس خوبصورت گلوبند کی دین ہیں، جن کی تیاری میں مہینوں خرچ ہوجاتے ہیں۔ یہ جو گز گز لمبی مینڈھیوں کو گوندھنے میں صبح شام میں تبدیل ہوجاتی ہے اور جب مہینوں بعد دھلنے کے لیے یہ کھلتی ہیں تو لڑکیوں کی چیخیں لہورنگ آلوچوں سے لپٹتی ہیں۔
رنگ برنگ موتیوں، شیشوں نلکیوں سے بوجھل بھاری فراکوں سے چھٹتی ہمک پانیوں میں گھری اس وادی میں جیسے رکی غلاظتیں رواں ہوجاتی ہیں۔ یہ ریمبور کی بستی جس کے دیودار کی لکڑی کے فریموں میں جڑے درودیوار، برسوں کی میل میں اَٹے ہیں، چونکہ یہ کسی عظیم کلچر کے نقوش ہیں۔ شاید انہیں اسی شکل میں محفوظ رکھنا ضروری ہے ان کی بوسیدگی، کہنگی اور گندگی کی حفاظت بھی لازم ہے۔ عجائب گھروں کی توجدید تراش خراش قدیمی نوادرات سنبھالے ہوئے ہے لیکن ان زندہ نوادرت کے شوکیس اور الماریاں اس قدر غلیظ کیوں ہیں۔ کتنے ڈانسنگ ہال اور شتاخان (معبدگاہ) بنائے گئے ہیں لیکن اُن گھروں کی غلاظت اور کہنگی شاید اس کلچر کی قدامت کی شہادت کے لیے برقرار رکھنی ضروری ہے۔
دریائے کیلاش پر جھولتے پل کے دونوں اطراف ریمبورکی وادی میں پھیلی ان غلیظ رہائش گاہوں کے عقب میں وہاں کے سردار کی ہواباز بیٹی الکشن بی بی کا محل کھڑا ہے، جو اس کلچر کے بچاؤ کے لیے دنیا بھر کے وزٹ کرچکی ہے۔ عالیشان محل کے اِردگرد پھیلی غلیظ چیتھڑوں اور بدبودار لحافوں بھری ان قبرنما کوٹھریوں کی حفاظت کا دنیا کو دورہ سا پڑا ہے۔ رابرٹ نے دور پہاڑیوں پر بنے عالی شان شتاخان اور ڈانسنگ ہال کو کئی زاویوں سے شوٹ کیا۔ وہ ہر روز اپنے کمرے میں آکر ان تصویروں کو لیپ ٹاپ پر محفوظ کرتا ہے۔ ہر ہر تصویر کو بیسیوں زاویوں سے پرکھتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے، اب اس کا کام یہاں پر مکمل ہوچکا ہے۔ اب اس سیاح کو کوئی دوسری سرزمین کھوجنی چاہیے لیکن پھر اگلے روز اس وادی کے کچھ ایسے نظارے سامنے آجاتے جو اس پر پہلے کھلے ہی نہ تھے اور فرزین اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پوچھتی ہے، ’’آج کے یہ فوٹو کتنے میں بک جائیں گے۔ پندرہ ہزار تو مل ہی جائیں گے نا؟‘‘
دونوں شانوں سے پشت تک جھولتی مینڈھیاں گندھی چوٹیوں کی ستار پر رابرٹ انگلیاں بجاتا ہے۔
’’پندرہ ہزار تو ان دو سانپوں کی ایک تصویر کی قیمت ہے ڈارلنگ۔۔۔‘‘ فرزین سمجھتی ہے کہ اس انگریزی لفظ کا مطلب ہے ’’پیاری۔‘‘ گویا وہ فرزین سے محبت کا اظہار کر رہا ہے۔
بمبوریت کے قبرستان میں تابوتوں میں کھلی پڑی پرانی ہڈیاں اور کھوپڑیاں بدبو چھوڑ رہی تھیں۔ نئے مردوں کو اب زمین میں دبانے کا رواج ہوچلا تھا کیونکہ جب یہ کیلاشی تین دن تک آخری رسومات کے بعد میت کو اس کی اشیاء کے ساتھ کھلے تابوت میں چھوڑ کر جاتے تو ادھر باہر سے یہ مسلمان آکر ان کے کپڑے، برتن، چارپائی، کھانا چراکر لے جاتے، سو اَب ہر شئے مردے کے ساتھ ہی دفن کردی جاتی ہے۔ سوائے اُن چند پرانی کھوپڑیوں اور ہڈیوں کے جو اب خاک بن رہی ہیں، اس کلچرڈ قبرستان سے سب کچھ چرالیا گیا ہے۔ رابرٹ نے کئی سنیپس لیے۔ قبرستان کے داخلی رستے پر ابلتے چشمے کے کنارے کیلاشی بچے بیٹھے تھے، جن کے آلوچوں جیسے گال پرانی میل سے اَٹے تھے۔ پانیوں میں ڈوبی اس وادی میں دھونے نہانے کا شعور ان این جی اوز نے شاید اسی لیے نہ دیا تھا کہ کہیں قدیم کلچر دھل نہ جائے۔
فرزین کا گھر چہار اطراف جھنکارسی گرتی آبشار میں کشتی کی طرح ڈولتا تھا۔ برف کے موسموں والی کوٹھری کے اطراف میں بنے چبوترے پر لیپ ٹاپ رکھے رابرٹ اسے سیکڑوں تصویریں دکھا رہاتھا۔ ہر منظر فرزین کے مرکز سے پھوٹتا تھا جیسے کیلاش کا سارا حسن، سارا اچنبھا، سارا رومان اسی سوتے سے رواں ہو۔ فرزین کو ان تصویروں کی کاریگری، قدروقیمت سے کیا آگاہی۔۔۔ لیکن رابرٹ جاپانی لہجہ انگریزی میں ان تصویروں کی تعریف کرتے ہوئے بچوں کی طرح کھلکھلاتا تھا، جیسے تصویرں میں سے سکوں کی جھنکار نکلتی ہو۔
فرزین نے باہر کی دنیا کبھی نہ دیکھی تھی۔ اردو بولنا بھی نہ جانتی تھی لیکن ان غیر ملکی سیاحوں سے انگریزی کے کئی جملے سیکھ گئی تھی۔ وہ انہی جملوں میں اس جاپانی فوٹو گرافر تک اپنا مافی الضمیر پہنچانے کی کوشش کرتی لیکن یا تو جملے بہت ادھورے تھے یا پھر جاپانی فوٹوگرافر بہت غبی تھا جو اسے ان تین مہینوں میں یہ نہ بتاسکا تھا کہ کیا یہ تصویریں پندرہ ہزار میں بک جائیں گی۔
گھر کے صحن میں خوبانیوں کے پیڑوں تلے جھلنگاسی چارپائی پر بوسیدہ لحاف بچھائے اس کی پھوپھی شلوار قمیص میں ملبوس بیٹھی تھی، جو سر کو سفید دوپٹے میں ڈھکے درود شریف کا وِرد کر رہی تھی۔ اتنی گوری جتنا سفید جھاگ اُڑاتا برف چور آبشار بغلی چٹانوں پر سے گر رہا تھا۔ پندرہ برس پہلے جہلم کا ایک ادھیڑ عمر مرد اسے پانچ ہزار کے عوض لے گیا تھا، کیونکہ پانچ بچوں کے باپ اس رنڈوے سے کوئی پنجابن عقد کرنے کو تیار نہ تھی لیکن اخروٹ کی اس کیلاشی کلی کو پسند یا خواہش کی کیا خبر تھی۔ یہ خوبانی کی اصلی شراب جس پیالے میں ڈلی، اس ساخت میں ڈھل گئی۔ فرزین اس انوکھی ساخت کے پیالے میں ڈوبتی اُبھرتی اِک نئی دنیا کو دیکھتی تھی۔ اُڑتا ہوا ہوائی جہاز، انگریز خواتین کا ساملبوس اور رابرٹ کے بیگ میں سیکڑوں تصویریں جو ہزاروں روپوں میں بکنی تھیں۔
رابرٹ نے اس حسین اور باوقار عورت کی تصویر بنائی اور پھر ڈلیٹ کردی۔ یہ تو کہیں بھی کوئی بھی ہوسکتی ہے جیسے انگریز عورتیں اسلام آباد کے بوتیکس سے پاکستانی لباس زیب تن کرلیتی ہیں۔ بالکل ویسی ہی گوری گوری نیلی آنکھوں والی، جیسے پشاور کی کوئی پٹھانی لمبی چوڑی تروتازہ بدن والی، جیسے لاہور کی کوئی بٹنی شاداب چہرے والی۔ اس میں کلچر کہاں ہے۔ کیلاش کہاں ہے۔
رابرٹ ے قریب بیٹھے خوبانی کا شربت پیتے اس مرد کو نفرت سے دیکھا۔
’’ظالم انسان!سنہری پری کے گل رنگ پروں کی افشاں کو خاکستر کرکے کتنا معمولی، عام اور بے وقعت کردیا ہے۔ خوش ہے کہ کافر کو مسلمان بنانے کے بدلے جنت میں گھر مل گیا۔ انتہا پسند دہشت گرد۔‘‘ رابرٹ نے اس کریہہ صفت انسان کی کئی تصویریں بنالیں۔ شیطان ڈیول کسی انگریزی اخبار کے لیے اس کی ٹاپ اسٹوری کا وِلن۔
جس روز یہ جاپانی فوٹوگرافر سیکڑوں تصویروں کا خزانہ سمیٹے اس کلچرڈ وادی سے رخصت ہوا، فرزین شتاخان میں گھٹنے ٹیک کر گھنٹوں دعا کرتی رہی کہ یہ تصویریں اتنی مہنگی بکیں کہ یہ جاپانی سیاح پندرہ ہزار روپیہ لے کر واپس اس وادی میں آئے اور پھر۔۔۔
اور یہ جاپانی سیاح جہاز کی آرام دہ نشست سے ٹیک لگائے کسی انگریزی اخبار کے لیے مضمون لکھ رہا تھا۔
’’وادیٔ کیلاش دُنیا کے حسین ترین لینڈاسکیپ پر واقع ایک قدیم قبیلے کی بہت ہی منفرد اور نایاب کلچر والی وادی ہے، جہاں فرزین جیسی حسین لڑکیاں اپنے روایتی گٹ اپ میں دُنیا سے کٹے ہوئے اس عجائب گھر کے بیش قیمت نوادرات ہیں، جنہیں اسی صورت میں یہیں قائم و دائم رکھنے کی ذمہ داری پوری دنیا پر عادی ہوتی ہے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.