زندگی چاند سی عورت کے سوا کچھ بھی نہیں
کہانی کی کہانی
دو دوستوں کی کہانی، جنہیں سڑک پر گھومتے ہوئے دو پارسی لڑکیاں مل جاتی ہیں۔ دونوں انہیں کار میں بٹھاکر یہاں وہاں گھوماتے ہیں۔ ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں، فلمیں دیکھتے ہیں۔ جب وہ ان کے ساتھ عشق کرنا شروع کرتے ہیں تب وہ انہیں جھڑک دیتی ہیں۔ لیکن جاتے وقت وہ ان سے پیسے ضرور مانگتی ہیں۔ شروع میں دونوں دوست سمجھتے ہیں کہ وہ شریف گھروں کی لڑکیاں ہیں۔ لیکن بعد میں انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ کسبیاں ہیں۔
اس نے نیا سوٹ پہنا اور قدآدم آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا جائزہ لیا۔ سر کے بال کچھ بکھرے ہوئے تھے اس نے برش سے بالوں کو اپنی جگہ جمایا۔۔۔ اور سر کو جھٹک کر پھر آئینے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔۔ اسے اپنی ناک کچھ لمبی سی دکھائی دی۔ کاش اس کی ناک اتنی لمبی نہ ہوتی تو اس کی زندگی خوش گوار ہو جاتی۔ سر پر فیلٹ رکھ کر اس نے ایک شعر گنگنانا شروع کیا۔ بیگ میں کچھ کاغذات رکھے اور نوکر کو چند ہدایات دینے کے بعد سیڑھیاں اترنے لگا۔
آج وہ خوش تھا۔ اس کے نوکر نے نہایت ہی لذیذ کھانا پکایا تھا اور اس نے پیٹ بھر کر کھایا تھا۔۔۔ وہ جلدی سیڑھیاں اتر گیا اور اپنی پرانی کار کے سامنے کھڑا ہو گیا گو کار پرانی تھی، لیکن آج کل کار سستے داموں میں کہاں ملتی ہے۔ بڑی کوششوں کے بعد اسے یہ کار ملی تھی۔ کار خرید نے کے بعد لوگوں میں اس کی عزّت اور توقیر بڑھ گئی تھی۔ کہاں تو دوست یار اسے انشورنس ایجنٹ کہہ کر ذلیل کرتے تھے، کہاں اب وہی دوست اس سے ملنا اپنی عزت سمجھتے ہیں۔
اور اس نے کار کادروازہ کھولا اور ہینڈل کو رومال سے صاف کرنے لگا۔ اس نے سوچا کہ وہ کدھر جائے، یونہی اسے خیال آیا کہ پہلے کار میں بیٹھ جائے پھر سوچے گا کہ اسے کدھر جانا ہے۔ کار میں بیٹھے ہوئے اسے چند سیکنڈ ہی گزرے تھے کہ اسے پسینہ آنے لگا، اس نے ہینڈل گُھمایا اور کار کو اسٹارٹ کر دیا اور ایک چھچھلتی ہوئی نگاہ ساتھ والے مکان پر ڈالی۔ یہاں اس کا دوست سریندر رہتا تھا، کیوں نہ اسے بلا لیں اور سیر کرنے چلیں، کمبخت سو رہا ہوگا یا کوئی کتاب پڑھ رہا ہوگا یا کوئی بیہودہ سی کہانی لکھ رہا ہوگا۔ کہتا ہے کہ میں افسانہ نگار ہوں، ایسے افسانہ نگار بہت دیکھے ہیں۔ اس کی زندگی اس فلیٹ میں گزر جائےگی۔ کسی سے ملتا تو بھی نہیں ترقی کیسے کرےگا، لعنت بھیجو اس پر، مرنے دو کمبخت کو، اسے اپنی اقتصادی حالت کو دوسروں سے بہتر دیکھ کر خوشی محسوس ہوئی، ہینڈل کو گھماتے ہوئے وہ کار کو آگے لے گیا۔ اب کار کا آہستہ آہستہ جا رہی تھی اور وہ سگریٹ کا دھواں کار میں بکھیر رہا تھا۔
آج وہ خوش تھا، بےحد خوش تھا، زندگی گزر رہی تھی، اچھی گزر رہی تھی، جب انسان کا پیٹ بھرا ہوا ہو اور بٹوے میں چاندی کے سکےہوں اور کار بھی ہو اور وہ دیکھ رہا ہو کہ اس کے بھائی پیدل چل رہے ہیں اور اس کی خراماں خراماں آگے بڑھ رہی ہے تو اس کی خوشی کی کیا انتہا ہو سکتی ہے۔ اس نے سوچا کہ وہ ان سے کئی درجے بہتر ہے، احساس برتری سے اس نے گردن کو اکڑا لیا اور سگریٹ کے دھویں کو زور سے چھوڑتے ہوئے کار کی رفتار کو تیز کر دیا، ہوا خوشی سے گاتی ہوئی اس کے قریب سے گزر گئی، اب وہ اور قریب آ رہا تھا اور قریب آرہا تھا، اب خدا داد سرکل آ گیا تھا، ایک لمحہ کے لئے اس نے بائیں طرف دیکھا دو خوبصورت آنکھیں اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ ’’مجھے‘‘ اس نے سوچا جیسے اسے ان آنکھوں پر یقین نہ آیا ہو اور وہ کار کو گھماکر آگے بڑھ گیا، وہ سوچ رہا تھا اور کار آگے بڑھ رہی تھی وہ کیا کرے۔
کیا واپس مڑ کر لڑکی کے قریب سے گزرے، شاید وہ مسکرائے، لیکن اسے خیال آیا کہ اس کی ناک لمبی ہے، کوئی لڑکی اسے دیکھ کر مسکرا نہیں سکتی، کئی بار وہ اس کار میں بیٹھ کر اس سرکل کے قریب سے گزرا ہے لیکن کسی لڑکی نے اس کی طرف مسکرا کر نہیں دیکھا تھا، لیکن اس وقت اس کا دل بار بار کہہ رہا تھا کہ میاں چلو ایک بار پھر اسی لڑکی کے قریب سے گزرو، اس نے ہینڈل کو گھمایا اور کار پھر واپس چلی، اب کے لڑکی پھر مسکرائی، اس نے کار روک لی اور پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول دیا، اس کی پریشانی کی حد نہ رہی، جب معلوم ہوا کہ ایک کے بجائے دو لڑکیاں پچھلی سیٹ پر آ گئی تھیں، اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا، اس نے نہایت پھرتی سے کار کا دروازہ بند کیا اور لڑکیوں پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالتے ہوئے کار اسٹارٹ کر دی۔
لڑکیاں پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھیں اور وہ اگلی سیٹ پر بیٹھا ہوا کار کو آہستہ آہستہ چلا رہا تھا ایک مرد اور عورتیں یہ ایک خطرناک مثلث تھی، وہ تو صرف ایک لڑکی چاہتا تھا، وہ کس طرح اور کیوں آ گئیں، وہ ان سے کیا کہے، بڑے سوچ بچار کے بعد اس نے’’ہیلو‘‘ کہا اور اس کی پیشانی پر پسینہ آ گیا اس نے مڑکر دیکھا دونوں لڑکیاں پھر مسکرا رہی تھیں وہ کچھ گھبرا سا گیا، ہینڈل ایک طرف کو مڑ گیا اور ساتھ ہی ایک چیخ سنائی دی، اس نے فوراً بریک لگا دیڈ ایک اینگلو انڈین لڑکی کار کے نیچے آتے آتے بچ گئی تھی، اینگلو انڈین لڑکی نہ قہر آلود نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔
’’یوفول۔۔۔ ‘‘
’’آئی۔ ایم۔ ساری۔‘‘ اس نے کہا۔۔ اور کار کو پوری رفتار سے چھوڑ دیا، دونوں لڑکیاں آپس میں باتیں کر رہی تھیں لیکن ان کی باتیں اس کی سمجھ سے باہر تھیں۔ اس نے کنکھیوں سے لڑکیوں کی طرف دیکھا، اب کے اس کے ہاتھوں نے بڑی مضبوطی سے ہینڈل پکڑ رکھا تھا، لڑکیاں اس کی طرف دیکھ رہی تھیں، مسکرا رہی تھیں۔ ایک لڑکی نے آنکھوں کو مٹکاتے ہوئے کہا، ’’ہیلو‘‘ یہ سنتے ہی وہ خوش ہو گیا اور اسے محسوس ہوا کہ آج اس کی ناک بالکل غائب ہو جائےگی، لیکن اس خطرناک مثلث کا کیا علاج ہوگا ایک مرد اور دو عورتیں وہ ان سے اکیلا کیا بات کرے، دونوں لڑکیاں پار سنیں تھیں، دونوں خوش شکل تھیں، خوبصورت تھیں، دونوں مسکرا رہی تھیں، دونوں کی ٹانگیں ننگی تھیں، سپید تھیں، آنکھوں میں شوخی تھی، شرارت تھی، لبوں پر لپ اسٹک تھی، سیاہ بالوں میں جوانی کی چمک تھی، آج تک کسی خوبصورت عورت نے اس سے بات تک نہ کی تھی، یوں تو فارس روڈ پر وہ کئی بار چکّر لگا چکا تھا، لیکن وہ پڑھی لکھی لڑکیوں خوش پوش پارسنوں اور خوبصورت لڑکیوں کی محبّت سےبلکل بےگانہ تھا، اگر ایک لڑکی ہوتی تو وہ اسے اپنے پاس بٹھا لیتا۔۔۔ یہ سوچتے سوچتے وہ اپنے گھر کے قریب آ گیا اور کار کو روک لیا۔
’’تمھارا نام۔۔۔؟‘‘
’’کٹی۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔
’’اور تمھارا۔۔۔؟‘‘
’’لمٹی۔۔۔‘‘
’’کٹی اور لمٹی۔ لمٹی اور کٹی۔۔۔‘‘وہ بڑا بڑایا۔۔۔ کٹی لمٹی سے زیادہ خوبصورت تھی۔ زیادہ چالاک تھی، اس کی آنکھوں سے شرارت چھلکتی تھی، اس نے زبان کو لبوں پر پھیرتے ہوئے کہا، ’’آؤ چلیں۔۔۔‘‘
’’کہاں۔۔۔؟‘‘
’’بس یونہی سیر کرنے۔‘‘
’’لیکن میں اکیلا ہوں۔‘‘ اس نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
’’تمھارا اور کوئی دوست نہیں۔۔۔؟‘‘ کٹی نے چمک کر کہا۔
اور اس کی جان میں جان آئی۔ اس نے سریندر کو آواز دی، سریندر آواز سن کر پہچان گیا۔
سالا ایجنٹ ہوگا اور اس کو ایجنٹ سے نفرت تھی لیکن وہ ایجنٹ کی کار سے محبت کرتا تھا۔
وہ انڈرو یرپہن کر فرش پر لیٹا تھا، جلدی سے اٹھ کر اس نے بالکونی سے نیچے دیکھا، گوپال اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا، اس نے وہیں کھڑے ہوکر کرخت لہجے میں پوچھا، ’’کیا بات ہے؟‘‘
ایک لڑکی نے سر نکالا اور اس کی طرف دیکھا۔
گوپال نے آنکھ ماری اور رعب دار لہجے میں کہا، ’’کپرے پہن کر فوراً آؤ۔‘‘
سریندر نے ایک نئی ہیٹ نکالی، بالوں میں تیل لگایا، مانگ نکالی اور سیڑھیوں سے نیچے اتر گیا۔۔۔
گوپال نے کٹی اور ملٹی سے تعارف کرایا، سریندر نے لڑکیوں کو دیکھا ہے اور اسے محسوس ہوا کہ ان لڑکیوں کو ضرور کہیں دیکھا ہے، شاید وارد سرکل کے قریب یہ ایک بار مسکراتی تھیں۔ اس نے ایک بار ان لڑکیوں کا تعاقب کیا تھا، لیکن وہ لڑکیوں سے بات نہ کر سکا تھا دونوں لڑکیاں اسے پسند تھیں، لیکن کٹی اسے زیادہ پسند تھی۔
کٹی اٹھ کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی اور وہ لمٹی کے ساتھ بیٹھ گیا، سریندر خوش شکل تھا شاید اسی لئے لڑکیاں اس کی طرف جلدی مخاطب ہوئیں، لڑکیاں باتیں کم کرتی تھیں، مسکراتی زیادہ تھیں اس نے اپنی فیلٹ لمٹی کے سر پر رکھ دی۔ لمٹی نے کہا، ’’تھینک یو۔۔۔‘‘ اور اس کی طرف دیکھ کر مسکرا نے لگی اور زبان لبوں پر پھیرنے لگی۔ کٹی نے گوپال کو ہلکی سی چپت لگائی اور کار کو اسٹارٹ کرنے کے لئے کہا، گوپال نے سریندر کو دیکھا۔۔۔ جیسے وہ پوچھ رہا ہو، کدھر چلیں۔
’’آپ کچھ کھائیں گی؟‘‘
دونوں نے سر ہلایا اور سریندر نے گوپال کو کسی نزدیک کے ایرانی ہوٹل میں چلنے کے لئے کہا گوپال نے کار اسٹارٹ کردی اور چند منٹوں میں وہ ایک ایرانی کے ہوٹل میں داخل ہوکر ایک فیملی روم میں بیرے کو بلا کر چائے اور آملیٹ کے لئے آرڈر دیا۔ اب کے سریندر لمٹی کے قریب بیٹھ گیا اور گوپال کٹی کے قریب، چاروں ایک دوسرے کے قریب بیٹھے ہوئے تھے اب چاروں خاموش تھے، چُپ چاپ تھے اور ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ یہ خاموشی عجیب سی خاموشی تھی، سریندر نے اس خاموشی کو توڑتے ہوئے لمٹی سے کہا۔ ’’آپ کے ہاتھ بہت ہی خوبصورت ہیں۔‘‘
’’آپ مجھ سے ایسی باتیں نہ کہئے۔‘‘ لمٹی نے جل کر کہا۔
گوپال کٹی کے بالوں سے کھیل رہا تھا، ایکایک اس کا ہاتھ کٹی کے گالوں سے چھوگیا۔ Learn-mannersکٹی نے گھورتے ہوئے گوپال سے کہا۔
گوپال کچھ کھسیانہ سا ہو گیا اتنے میں بیرے نے چائے اور آملیٹ میز پر رکھ دئیے اور وہ سب کھانے لگے۔
سریندر کا ہاتھ یکایک لمٹی کی سفید ٹانگوں سے جا لگا اور ملٹی نے سریندر کا ہاتھ زور سے جھٹک دیا اور پھر آملیٹ کھانے لگی۔ گوپال نے اپنی کرسی اور کٹی نے اپنی کرسی اور دور کر لی اور پھر مسکرانے لگی، گوپال نے کرسی قریب کرکے کٹی کے کمر میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی، کٹی نے اس کا ہاتھ زور سے جھٹک دیا۔ اس جھٹکے سے آملیٹ کی پلیٹ نیچے گر گئی۔ دونوں کی آنکھوں سے شعلے برسنے لگے۔
کٹی نے قہر آلود نگاہوں سے گوپال اور سریندر کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔ میں سمجھتی تھی کہ آپ شریف لوگ ہوں گے لیکن آپ تو بہت ہی بدتمیز ہیں۔
گوپال اور سریندر خاموش رہے۔
’’اگر آپ ہمیں اسی طرح تنگ کریں گے تو ہم ابھی چلے جائیں گے۔‘‘
اور وہ دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں، سریندر نے دونوں کی منت سماجت کی کہ اب دوبارہ کسی قسم کی حماقت نہ ہوگی، خدارا تم دونوں بیٹھ جاؤ۔ اس منت سماجت کا اثر ضرور ہوا اور وہ دونوں پھر چائے پینے لگیں۔ چائے پینے کے بعد وہ ریسٹورنٹ سے باہر نکلے۔
دونوں اپنے کئے پر نادم تھے لیکن جب چاروں سڑک پر آ گئے تو لوگ انھیں گھور گھور کر دیکھنے لگے۔ گوپال اور سریندر کو ایسا محسوس ہوا کہ سبھی لوگ انھیں خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ دو پارسی لڑکیاں ہیں اور وہ بھی کتنی خوبصورت، اس احساس سے ان کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وہ گزری ہوئی باتوں کو بھول کر کار میں بیٹھ گئے۔
اس بار لمٹی گوپال کے ساتھ بیٹھی اور کٹی سریندر کے ساتھ، دراصل سریندر خود کٹی کے ساتھ بیٹھنا چاہتا تھا کٹی کو وہ پسند کرتا تھا، وہ لمٹی سے زیادہ باتیں کرتی تھی، لمٹی سے زیادہ چالاک تھی، اس کی مسکراہٹ میں جاذبیت تھی اور جس انداز سے وہ ٹوٹے ہوئے دانتوں کے بیچ سے زبان نکالتی تھی وے اسے بےحد پسند تھا، دونوں کی شکلیں ایک دوسرے سے بہت ملتی جلتی تھیں، دونوں کے انداز سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ابھی نو عمر ہیں، ان کی شرارتیں، ہنسی دبی دبی مسکراہٹ اور کنکھیوں سے دیکھنا اکثر ان کی حرکتوں کو زیادہ جاذب نظر بناتا تھا، گوپال نے کار کو پوری رفتار سے چھوڑ دیا۔۔۔ اور سریندر کٹی کے قریب سرک گیا، اس کی ٹانگیں کٹی کی برہنہ ٹانگوں سے چھو رہی تھیں، وہ ایک حسین خوبصورت لڑکی کی موجودگی کے احساس سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور وہ لڑکی بھی اس کی جمالیاتی حسن پر پوری اترتی تھی، ہوا پھراّٹے بھرتی ہوئی گذر رہی تھی اور کٹی کے سیاہ بال ہوا میں لہرا رہے تھے، گوپال لمٹی سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا اور وہ ہنس ہنس کر باتیں کیوں نہ کرتا۔
اس کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا، جب اسے ایک خوبصورت لڑکی کا قرب حاصل ہوا تھا اور یہ لڑکیاں بھی کتنی فراخ دل تھیں، ان کے ساتھ ریسٹورنٹ میں گئی تھیں، انھوں نے خود سیر پر جانے کے لئے کہا تھا، گو وہ خود شہر کے شورو غُل سے دور جانا چاہتے تھے۔ اب وہ شہر سے دور جا رہے تھے، مکانات پیچھے چھوٹ گئے تھے اور اب ایک سرمئی سڑک نظر آ رہی تھی، جس کے ساتھ سمندر کا گہرا نیلا پانی ٹکرا رہا تھا، سڑک بلکل ویران دکھائی دیتی تھی، گوپال نے کار کی رفتار کو کم کر دیا، اب ایک چھوٹا سا میدان آ گیا جہاں پر ناریل کے درخت استادہ تھے، گوپال نے کار کو ناریل کے درخت کے قریب پارک کر دیا۔
قریب ہی جھونپڑی سے دو عورتیں نکلیں اور ان کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگیں، جیسے کہہ رہی ہوں، تم کتنے خوش قسمت ہو، تمھارے پاس ایک کار بھی ہے تمھارے چہرے سے صاف عیاں ہے کہ تم نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا ہے اور ادھر ہم ہیں کہ صرف ناریل کا پانی پیتے ہیں اور اَن گنت سمندر کی لہروں کو دیکھتے ہیں اور زندگی بےجان اور بےکیف ہوتی جا رہی ہے اور تم لوگ ہماری بالکل پرواہ نہیں کرتے۔
گوپال اور سریندر نے عورتوں کو نظر انداز کر دیا، کیوں کہ ان کے پہلو میں اتنی جاذب نظر چیزیں تھیں کہ وہ دوسری طرف دیکھنا گناہ سمجھتے تھے، سریندر نے کٹی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیااور کہنے لگا، ’’تمھاری قسمت بتاؤں؟۔‘‘
’’ہاں بتاؤ۔۔۔‘‘
’’تم زندگی میں کبھی شادی نہ کروگی۔‘‘
کٹی نے ایک قہقہہ لگایا اور کہنے لگی، ’’بس اور کچھ بھی نہیں۔‘‘
’’اور ہاں تمھارے دل کی لکیر یہ صاف بتاتی ہے کہ تم نہایت ہی اچھی لڑکی ہو لیکن۔۔۔‘‘
’’لیکن کیا۔۔۔؟‘‘
’’حالات کچھ ایسے ہیں کہ تمھیں اس قسم کی شرارتیں کرنی پڑتی ہیں۔‘‘
’’اچھا بتاؤ۔ کہ میرے کتنے بچے ہوں گے؟‘‘ کٹی نے دانتوں کے درمیان زبان ہلاتے ہوئے کہا۔
’’ایک بھی نہیں۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ ‘‘
’’جی۔‘‘
’’اور پھر تم ایک شخص سے محبت کروگی، جو تم سے انتہائی محبت کرےگا۔‘‘
کٹی نے ایک ہلکی سی چپت اس کے منہ پر لگائی۔۔ اور اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
اب سریندر نے لمٹی کا ہاتھ دیکھنا شروع کیا، دیکھو تمھارے ہاتھ سے صاف ظاہر ہے کہ تم باتیں کم کرتی ہو اور مسکراتی زیادہ ہو اور جو کچھ تمھارا دل کہتا ہے وہ تم نہیں کرتیں، بلکہ جو کچھ کٹی کہتی ہے وہ کرتی ہو، تم زندگی میں تین شادیاں کروگی اور تمھارے گیارہ بچے ہوں گے۔
یہ سن کر لمٹی ہنس پڑی۔ اور کہنے لگی، ’’شٹ اپ۔‘‘
گوپال نے لمٹی کو ستانا شروع کیا، لیکن لمٹی نے اس سے صاف کہہ دیا کہ وہ اس قسم کی حرکتیں نہ کرے، چند لمحوں تک ناریل کے درختوں کے قریب ٹہلتے رہے سورج ڈوب رہا تھا اور ان کی خونی کرنیں سمندر کو سرخ کر رہی تھیں، ناریل کے درخت آکاش کی طرف دیکھ رہے تھےاور ہوا خوشی سے جھومتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی اور سریندر کٹی کے قریب سے اپنے آپ کو محفوظ کر رہا تھا، زندگی کتنی دلکش ہے، اس نے سوچا اگر ایک حسین عورت پہلو میں ہوتو جی چاہتا ہے کہ زندگی اس کے پہلو میں بیٹھ کر گزار دی جائے، کچھ عرصے کے بعد کٹی اس کے قریب سے اٹھ کر گوپال کے پاس چلی گئی، سریندر سوچنے لگا کہ زندگی اتنی یاس انگیز نہیں، زندگی اتنی مصنوعی نہیں۔
اتنی بے کیف نہیں اور وہ لمٹی کی طرف حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھنے لگا، لمٹی کی آنکھوں میں معصومیت کی جھلک تھی، اس کے لبوں کے کانوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ ناچ رہی تھی، بلکل اسی طرح جس طرح سورج کی الوداعی کرنیں سمندر کی سطح پر ناچ رہی تھیں۔ اتنے میں گوپال نے سریندر سے پوچھا، ’’تمھارے پاس کچھ روپے ہیں؟‘‘
’’کون مانگتا ہے؟‘‘
’’کٹی۔‘‘
’’کتنے روپے۔‘‘
’’صرف دس روپے، وہ کہتی ہے کل واپس کر دوں گی۔‘‘
سریندر نے دس روپے دے دیے، اس کے پاس کل پندرہ روپے تھے خیر کوئی بات نہیں اس نے سوچا ابھی تک اس کی جیب میں پانچ روپے ہیں، اس کی نگاہوں میں لمحہ بھر کے لئے مایوسی چھا گئی اسے ایسا محسوس ہوا جیسے موسم بہار میں خزاں کا جھونکا آیا ہو، لیکن دوسرے لمحے میں کٹی اس کے قریب کھڑی ہو گئی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگی۔ کم بخت لڑکی کتنی حسین ہے اس نے سوچا۔
’’دیکھو جی، اب دیر ہو رہی ہے، ڈیڈی میرا انتظار کر رہا ہوگا۔‘‘
’’آج ماں ضرور پیٹےگی۔‘‘ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگیں اور چپکے سے کار میں بیٹھ گئیں۔ کٹی نےسریندر کی فیلٹ لے لی اور اپنے سر پر رکھ لی اور کہنے لگی، ’’میں کیسی دکھائی دیتی ہوں۔‘‘
’’بہت ہی خوبصورت۔‘‘ سریندر نے مسکرا کر کہا اور وہ خوشی سے جھومنے لگی اور گوپال نے کار کی رفتار تیز کردی۔ سریندر نے اپنا ہاتھ کٹی کے زانوں پر رکھا، ایک لمحہ ہاتھ وہاں رہا دوسرے لمحے میں کٹی نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور قہر آلود نگاہوں سے دیکھنے لگی وہ گھبراکر ایک طرف سرک گیا۔
اب اندھیرا آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا سڑک پر بجلی کے قمقمے روشن ہو چکے تھے، ہوا میں نمی اور ٹھنڈک زیادہ ہوتی جا رہی تھی اور فیکٹریوں کا دھواں گردوپیش چھایا ہوا تھا، وہ حیران تھا کہ کیا کرے، کیا کہے، نہ وہ آگے جا سکتا تھا نہ پیچھے ہٹ سکتا تھا یہ عجیب سی لڑکی ہے، اس نے سوچا، ہنستی ہے، مسکراتی ہے، دوسروں کے ساتھ اکیلی سیر کرنے جاتی ہے، ہوٹل میں کھانا کھاتی ہے لیکن جسم کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی اس کی نگاہوں میں شرارت ہے۔ آنکھوں میں خمار ہے چال میں نزاکت ہے، بالوں میں شباب کی خوشبو ہے، کتنی پیاری ہے یہ لڑکی کتنا دلفریب ہے، اس کا حسن، کتنی تازگی اور لذّت ہے اس کی آواز میں کتنی بےباکانہ ہے، اس کی باتیں اور وہ یہ سوچ رہا تھا کہ کار ایک جگہ پر آکر رک گئی۔ دونوں لڑکیاں کار سے اتریں۔
’’اب کب ملوگی؟‘‘
’’جب کہو۔‘‘ کٹی نے فوراً جواب دیا۔
’’کل تین بجے کوئی فلم دیکھیں گے، اسی جگہ پر آنا۔‘‘
دونوں نے سر ہلایا اور نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔
اس رات سریندر بالکل نہ سو سکا، وہ سونے کی کوشش کرتا لیکن کٹی کی دلکش تصویر اس کی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتی، کٹی کی ہنسی اس کی مسکراہٹ، اس کی باتیں بار بار اس کے کانوں سے ٹکراتیں، کٹی کے ملائم جسم کا لمس بار بار اس کے ذہن میں تھرکتا، وہ اکیلا سو رہا تھا، چاروں طرف اندھیرا تھا، لیکن اس اندھیرے میں زندگی تھی، شباب تھا، ایک عجیب قسم کی خوشی کا احساس تھا، ایک لڑکی کے قرب نے اس کی سوئی ہوئی زندگی میں حرکت پیدا کر دی تھی۔ لڑکی حسین نہ ہوتی تو شاید سریندر چپکے سے سو جاتا، لیکن لڑکی کی جسمانی دلکشی اور اس کا شوخ حسن اسے رہ رہ کر یاد کرتا۔
کٹی کی شرارتیں، اس کی مسکراہٹ، اس کی باتیں، اس کا مذاق، اس کی ہر حرکت اس کی آنکھوں کے سانے بار بار آرہی تھی اور وہ بستر پر اکیلا تھا، چاروں طرف اندھیرا تھا اور وہ سوچ رہا تھا، اگر وہ لڑکی اس کے پاس ہوتی تو آج وہ کتنا خوش ہوتا، اس سے زیادہ خوش ہوتا، وہ خوشی، وہ لذت، وہ انبساط، وہ راحت جس سے وہ آج تک محروم تھا، اسے ضرور ملتی وہ اس لڑکی کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا، یہ لڑکی اب اس کی ہوکر رہےگی، یہ لڑکی اب کسی اور کی نہیں ہو سکتی۔
اور اس کے ذہن میں بار بار یہ الفاظ گونجنے لگے، ’’یہ لڑکی میری ہے۔‘‘ اگر دن بھر کی واردات میں اسے کسی بات کا افسوس تھا تو صرف دس روپوں کا اگر وہ امیر ہوتا تو دس روپے کیا، سو روپے تک دے دیتا، لیکن سریندر کی آمدنی بہت قلیل تھی وہ جتنے روپے کماتا اس سے صرف اس کے کھانے پینے یا مکان کے کرائے کا انتظام ہو سکتا تھا، اکثر مہینے کے آخر میں اسے قرض لینا پڑتا تھا۔ یہ روپے جو اس کے پاس تھے اسے ہوٹل والے کو دینے تھے اور ہاں کٹی تو اس سے دس روپے مانگ کر لے گئی ہے، وہ ضرور دس روپے واپس کر دےگی، خیر وہ واپس نہ بھی کرے، تب بھی کوئی بات نہیں۔ دس روپوں کی حقیقت کیا ہے، وہ آج سے جی لگاکر محنت کرےگا، خوب روپے کمائےگا اور اگر کٹی نے اس سے روپے مانگتے تو ضرور اسے اور روپے دےگا، وہ کٹی کو کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑ سکتا، نہیں چھوڑ سکتا، یہ سوچتے سوچتے اسے نیند آ گئی۔
جب صبح ہوئی تو اس نے نئے بلیڈ سے حجامت کی، ایک نیا سوٹ نکالا اور پہن کر گوپال کے گھر گیا، گوپال اس کا انتظار کر رہا تھا۔
’’کیوں رات کیسی کٹی؟‘‘ گوپال نے پوچھا۔
’’بالکل نیند نہیں آئی۔‘‘
’’اور تم؟ ‘‘
’’سونے کی بہت کوشش کی مگر سو نہ سکا، لڑکیاں شریف گھرانے کی دکھائی دیتی ہیں۔‘‘
’’میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘
’’اب زندگی اچھی کٹ جائےگی۔‘‘
’’میاں لطف آ جائےگا، لیکن یہ تو بتاؤ کل کتنا خرچ ہوا؟ ‘‘
’’کل بیس روپے خرچ ہوئے۔‘‘
’’وہ کیسے؟ ‘‘
’’دس روپے کٹی کو دیے، دس روپے ہوٹل والے کو۔۔ اور دس روپے کا خرچ ہوا، لیکن سریندر مال خوب ہے، خدا کی قسم اس سے بہتر لڑکی ساری بمبئی میں نہیں مل سکتی۔‘‘
دیکھ لو جب خدا دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے، کٹی تمھاری ہے اور لمٹی میری، ٹھیک ہے؟‘‘
’’سولہ آنے درست۔۔۔‘‘
’’اور آج کا کیا پروگرام ہے؟‘‘
’’فلم دیکھیں گے۔‘‘
سریندر نے سر ہلایا۔
’’اور ہاں روپوں کا انتظام کر لینا۔۔۔‘‘
’’کتنے روپوں کا انتظام کروں؟‘‘
’’فلم دیکھیں گے ہوٹل میں کھانا کھائیں گے، خود ہی حساب لگا لو۔‘‘
’’دیکھو جی، اس میں شرم کی کوئی بات نہیں، آدھے پیسے تمھارے آدھے میرے۔‘‘
’’اب تو ایسا ہی کرنا پڑےگا۔‘‘
’’اچھا میں نہا لوں۔‘‘
اور اس طرح دوپہر ہو گئی، گوپال اور سریندر نے ہوٹل میں کھانا کھایا اور خدا داد سرکل پہنچ گئے۔
دونوں لڑکیاں وقت مقررہ پر پہنچ گئی تھیں، آج کٹی نے آسمانی رنگ کا فراق پہنا ہوا تھا اور کم بخت لمٹی نے سیاہ رنگ کا فراق، سیاہ رنگ کا فراق اس کے سفید رنگ جسم پر خوب جچتا تھا، کٹی نے سریندر کو دیکھا، سریندر نے کار میں بیٹھنے کا اشارہ کیا، دونوں چپکے سے کار میں بیٹھ گئیں۔
’’کہاں چلیں؟‘‘
’’جہاں تمھاری مرضی۔‘‘ کٹی نے کہا۔
’’پکچر دیکھوگی؟‘‘
کٹی نے مسکراکر سر ہلایا دیا اور وہ سب ایک پکچر ہاؤس میں پہنچ گئے چار ٹکٹ خرید لئے گئے پکچر شروع ہونے سے پہلے وہ کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
’’کوئی دیکھ نہ لے۔۔۔‘‘ کٹی نہ کہا۔
’’کیا دیکھ لےگا۔۔۔؟‘‘ سریندر نے کرخت لہجے میں کہا۔
’’ارے یہ پارسی۔‘‘
’’تو پھر کیا ہوگا؟‘‘
’’اگر انہوں نے ہمیں تمھارے ساتھ باتیں کرتے یا ہنستے ہنساتے دیکھ لیا تو ہمارا سوشل بائیکاٹ کریں گے۔ ہمیں اجازت نہیں ہے کہ کسی غیر پارسی کے ساتھ گلچھرے اڑائیں۔
یہ سنتے ہی سریندر کچھ خاموش سا ہو گیا، جیسے چھاتی پر ایک سل رکھ دی گئی ہو، یہ ہندو مسلم کی تفریق، پارسی غیر پارسی کی تفریق، یہ ہندو کریسچین کی تفریق، یہ کالے اور گورے کی تفریق، یہ یہودی غیر یہودی کی تفریق، کس طرح انسانیت کا خاتمہ کر رہی ہے، ہر نسل میں ایک زہر بھر رہی ہے اور انسانوں کی زندگیوں کو تلخ سے تلخ تر بنا رہی ہے، وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ پکچر شروع ہو گئی، دراصل وہ پکچر دیکھنے نہ آیا تھا وہ صرف کٹی سے باتیں کرنا چاہتا تھا، وہ چاہتا تھا کہ کٹی کو اپنی بانہوں میں بھینچ لے، اس کے جسم کو سر سے لے کر پاؤں تک چومے اس کی سپید سپید رانوں کو ہاتھ پھیرے، وقت گزر رہا تھا اور وہ سوچ رہا تھا۔ وہ ہچکچا رہا تھا کہ کیا کرے، کس طرح کہے، کہ وہ اسے چھونے کے لئے بےقرار ہو رہا ہے اس نے اپنا ہاتھ چپکے سے اس کی ننگی ران پر رکھ دیا۔
کٹی نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔۔۔ وہ ڈر گیا۔۔۔ کہیں کٹی اس سے ناراض نہ ہو جائے پھر وہ اس سے باتیں بھی نہ کر سکےگا۔ وہ خاموش ہو گیا، صرف ایک لمحے کے لئے ہاتھ پھر بڑھایا، کٹی نے اب ہاتھ پھر زور سے جھٹک دیا۔ وہ پھر خاموش ہو گیا۔
وقت گزر رہا تھا کہ پکچر جلد ہی ختم ہو جائےگی، یہ اندھیرا کب تک رہے۔۔۔ یہ میٹھا گداز، اندھیرا، وہ کیا کرے، وہ کس طرح اپنی سسکتی ہوئی روح کو تسکین دے، وہ کس طرح اس اندھی خواہش کی تکمیل کرے، وہ کس طرح اس جنونی کیفیت کو ٹھنڈا کرے، وہ سوچ رہا تھا لیکن اس کے ذہن میں کچھ نہ آتا تھا۔
یکایک اسے شرارت سوجھی۔
’’کٹی؟‘‘
کٹی نے اس کی طرف دیکھا۔
’’ذرا ادھر جھکو۔‘‘
وہ ذرا جھکی۔
’’ذرا اور۔۔۔ میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
کٹی نے اپنا سر اس کے قریب اور جھکایا، اب کٹی کا چہرہ اس کے بلکل قریب تھا، اس نے چپکے سےاپنے کانپتے ہوئے ہونٹ اس کے گالوں پر رکھ دیے۔
کٹی فوراً سرک گئی اور زور کی چپت اس کے منہ پر ماری۔
سریندر شرم سے پانی پانی ہو گیا، اسے اپنی بیہودہ حرکت پر بہت غصہ آیا، کٹی کوئی طوائف نہ تھی۔ اس نے اس قسم کی حرکت کیوں کی، وہ ایک شریف گھرانے کی لڑکی تھی، وہ اسے صرف ایک دوست سمجھ کر اس کے ساتھ آئی تھی، واقعی اسے بات کرنے کی تمیز نہ تھی، یہ کہاں کی شرافت تھی، یہ کہاں کی تہذیب ہے کہ ایک لڑکی کے ساتھ آپ سنیما دیکھنے کے لئے آئیں اور اس کی مرضی کے بغیر آپ اس کا منہ چوم لیں، یہ واقعی بیہودہ حرکت ہے، اسے اس قسم کی حرکت نہیں کرنی چاہیے تھی، وہ رنجیدہ سا ہو گیا اور ایک طرف کو سرک گیا۔
کٹی نے اس کی طرف کنکھیوں سے دیکھا۔
’’ناراض ہو گئے؟‘‘
وہ پھر خاموش ہو گیا۔
’’اچھا اپنا چہرہ اِدھر دکھاؤ۔‘‘
’’ذرا اور۔۔۔‘‘
اب کٹی کے گال اس کے بالکل قریب تھے، کٹی کا گرم سانس اس کے لبوں کو چوم رہا تھا، اس نے زور سے ایک پھونک ماری اور مسکرا پڑی اور کہنے لگی۔
’’آئی لو یو۔‘‘
’’کیا تم مجھ سے محبت کرتے ہو؟‘‘
اور سریندر نے سر ہلا دیا۔
’’تب تم مجھے چوم سکتے ہو۔‘‘
اور سریندر نے اپنے تپتے ہوئے ہونٹ کٹی کے نرم اور گرم گالوں پر رکھ دئیے، اس بوسے نے اس کے جسم میں ارتعاش پیدا کر دیا، اس کے جسم میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی، یکایک اس نے محسوس کیا کہ کٹی اچھی لڑکی ہے اور وہ اس سے محبت کرتی ہے، وہ واقعی اس سے محبت کرتی ہے، سریندر ہر شخص کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ یہ لڑکی اس سے محبت کرتی ہے، کٹی واقعی اچھی لڑکی ہے، وہ اس سے پیار کرتی ہے۔
اب وہ دونوں اکٹھے رہیں گے، اگر اکٹھے نہ رہیں گے تو کم از کم ہر روز ملا کریں گے، کٹی صرف اچھی ہی نہیں، اچھی تو بہت سی لڑکیاں ہوتی ہیں وہ خوبصورت بھی ہے حسین بھی ہے، وہ باتیں کر سکتی ہے اور جب وہ دو ٹوٹے ہوئے دانتوں کے بیچ سے زبان کی نوک نکالتی ہے، تو اس وقت کتنی شوخ اور بےباک دکھائی دیتی ہے، آج وہ خوش تھا، اگر اس کے بس کی بات ہوتی تو وہ کٹی کو ملکہ بنا دیتا، لیکن وہ خود قلاش تھا، وہ صرف محنت کرکے اپنا پیٹ پال سکتا تھا، یہی سوچتے سوچتے دو گھنٹے گزر گئے، لیکن اس دوران میں سریندرپکچر نہ دیکھ سکا، اس کی نگاہیں کٹی کی طرف تھیں، اس کے ہاتھ کٹی کی طرف بار بار جاتے وہ کٹی کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتا اور دبانے لگتا، کبھی کٹی کے بالوں کو چھیڑنے لگتا، کبھی وہ کٹی کے کانوں کو پیار سے کھینچتا اور اسی نوک جھونک میں فلم ختم ہو گئی۔
وہ کار میں بیٹھ کر ایک ہوٹل میں چلے گئے، گوپال کچھ رنجیدہ خاطر نظر آتا تھا، ایسا دکھائی دیتا تھا کہ ملٹی کا رویہ اس کے ساتھ اچھا نہیں رہا، کار میں بیٹھ کر گوپال نے سریندر کو بتایا کہ لمٹی نے اسے ہاتھ تک نہیں لگانے دیا، ایک بار گوپال نے لمٹی کو چومنے کی کوشش کی لیکن لمٹی نے گوپال کی اس حرکت پر بہت برا بھلا کہا، سمجھ میں کچھ نہیں آتا، یہ لڑکیاں کس قسم کی ہیں اور کیا چاہتی ہیں، کم بخت ہاتھ تک تو لگانے نہیں دیتیں اور سریندر نے دھیرے سے کہا، ’’میاں صبر کرو۔‘‘
اور پھر چاروں نے ہوٹل میں چائے پی اور ٹوسٹ کھائے، کٹی نے نہایت پیار سے سریندر کو ٹوسٹ کھلائے وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکراتی رہی، کبھی کبھی اپنی چھوٹی سی پتلی زبان لبوں سے نکال کر سریندر کو چڑاتی کبھی چائے کا پیالہ چھین کر اسے چائے پلانے لگتی اور کبھی کبھی یوں ہی ہنسنے لگتی، لمٹی اکثر خاموش رہتی، وہ کم باتیں کرتیں، دراصل لمٹی پر کٹی کی شخصیت کا بہت اثر تھا لمٹی کو معلوم تھا کہ وہ کٹی سے زیادہ حسین نہیں ہے، زیادہ چالاک نہیں ہے، اگر لوگ لمٹی کو گوارا کرتے تھے تو وہ محض کٹی کی وجہ سےلیکن گوپال لمٹی کو پاکر بھی خوش تھا، لمٹی اس کی طرف دیکھ کر مسکراتی، ہنستی، لیکن اس ہنسی خوشی میں ایک طنز تھا۔
جیسے وہ گوپال کو پسند نہیں کرتی، جیسے وہ گوپال کو بد صورت سمجھتی اور یہ بات گوپال کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ زندگی میں بہت سی ایسی باتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں جو انسان برداشت کرنا نہیں چاہتا لیکن وقت کی ضرورت ان باتوں کو سہنے ہر مجبور کر دیتی ہے۔ چائے پینے کے بعد وہ سب کار میں بیٹھ گئے، آج ہوٹل کا بل ضرورت سے زیادہ تھا، سریندر کی رہی سہی پونجی ہوٹل کی نذر ہو گئی اور اس کی جیب بلکل خالی ہو گئی، اس خیال کے آتے ہی وہ کچھ اداس دا ہو گیا۔ کٹی نے اس کے منہ پر ہلکی سی چپت لگائی اور کہنے لگی، ’’تم کچھ اداس نظر آتے ہو۔‘‘
’’نہیں تو۔۔۔ ‘‘
’’اب کدھر کا ارادہ ہے؟ ‘‘
’’تم کہاں جانا چاہتی ہو؟ ‘‘
’’ہم تو گھر جانا چاہتے ہیں، ڈیڈی اور ماما انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘
’’ڈیڈی اور ماما۔‘‘ سریندر نے یہ دو الفاظ پھر دہرائے، ڈیڈی اور ماما، یہ دونوں کے عجیب ڈیڈی اور ماما ہیں ان کی لڑکیاں سر بازار غیروں کے ساتھ پھرتی ہیں، گلچھرے اڑاتی ہیں، سیر کرتی ہیں، لیکن ان کی ماں ان سے کچھ نہیں کہتی، یہ عجیب قسم کے لوگ ہیں، خیر اسے ان باتوں سے کیا تعلق؟ اتنے میں گوپال اس کے قریب آیا اور کہنے لگا، ’’کٹی روپے مانگتی ہے۔‘‘
’’روپے کیسے؟‘‘
’’وہ مانگ رہی ہے۔‘‘
’’لیکن کس بات کے؟‘‘
’’مجھے کیا معلوم۔۔۔‘‘
’’میرے پاس تو ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں، جتنے روپے تھے ہوٹل والے کو دے دیے۔۔۔‘‘
’’اور جو میرے پاس تھے سنیما میں خرچ ہو گئے، کم بخت عجیب لڑکی ہے، مجھے تو لمٹی نے ہاتھ تک لگانے نہیں دیا اور اس چکر میں تقریباً ستر، اسی روپے خرچ ہو گئے، مجھے تو کچھ ایسی ویسی لڑکیاں دکھائی دیتی ہیں۔‘‘
کٹی پھر قریب آئی اور مسکراکر گوپال سے روپے مانگنے لگی۔
’’روپے نہیں ہیں۔۔۔‘‘سریندر نے جواب دیا۔
’’کیوں نہیں ہیں۔‘‘ کٹی نے غصّے میں آکر کہا۔
’’اس وقت روپے نہیں ہیں، نہیں ہیں، کل ضرور دیں گے۔‘‘
’’مجھے آج ہی ضرورت ہے، اس وقت اگر خالی ہاتھ واپس جاؤں گی تو ڈیڈی کیا کہے گا ماما کیا کہےگی۔‘‘
’’اگر جیب میں روپے نہ ہوں تو کہاں سے لاکر دوں۔‘‘
’’تو پھر تم ہمیں یہاں لائے کیوں تھے؟‘‘
’’تم اپنی مرضی سے آئی تھیں، ہم زبردستی پکڑ کر نہیں لائے تھے۔‘‘
’’زبردستی۔۔۔‘‘ کٹی نے شرر بار نگاہوں سے سریندر کی طرف دیکھا اس کے چہرے کے نقوش خلط ملط ہو گئے تھے، اس کےخوبصورت ہونٹ بالکل سکڑ گئے، چہرے کی ملائمیت جاتی رہی، آنکھوں کی شوخی، شرارت بالکل فارس روڈ کی رنڈی دکھائی دیتی تھی۔
’’اگر روپے نہیں دوگے تو میں شور مچاؤں گی، میں ان لوگوں کو بتاؤں گی، کہ ان لوگوں نے ہمارے ساتھ برا کام کیا اور اب یہ لوگ ہمیں روپے نہیں دیتے۔‘‘
’’روپے نہیں ہیں۔۔۔‘‘ سریندر نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
’’کس بات کے روپے؟ آخر کوئی وجہ بھی ہو۔‘‘
’’تم نے آج کا دن ضائع کیا، ہمیں کیا معلوم تھا کہ تم غنڈے ہو۔‘‘ کٹی نے چمک کر کہا۔
غنڈے کا لفظ سنتے ہی سریندر کا ہونٹ دانتوں کے نیچے آکر کٹ گیا، یکایک سریندر کے دماغ میں خیال آیا، اگر اس لڑکی نے ایک لفظ اور نکالا تو وہ اس کو جان سے مار دےگا، حرافہ کہیں کی۔۔۔ اس لڑکی میں کتنا زہر ہے، ناگن کی طرح ڈنک مارتی ہے۔ سریندر کی آنکھوں میں خون اتر آیا، کٹی موقع کی نزاکت کو بھانپ گئی اور گالیاں بکتی ہوئی آگے نکل گئی۔
کٹی کے چلے جانے کے بعد سریندر کو احساس ہوا کہ ہرے بھرے کھیت میں آگ لگ گئی۔ نیا نیا محل آن واحد میں گر پڑا لیکن سریندر کا خون کھول رہا تھا، وہ کچھ سوچنا چاہتا تھا لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا وہ کٹی کے روپے کا جواز چاہتا تھا، کٹی نے اس طرح کیوں’’BEHAVE۔۔۔ ‘‘کیا وہ کٹی کی شخصیت سے بالکل بےخبر تھا وہ کبھی خیال بھی نہ کر سکتا تھا کہ لڑکی اتنی بے غیرت ہو سکتی ہے، گلاب کی کلی میں اتنا زہر ہو سکتا ہے، وہ اب تک صرف اس کٹی کو جانتا تھا، جو ہنستی تھی مسکراتی تھی، خوبصورت تھی، جس کے ریشمی بال تھے، جس کا جسم متناسب تھا جس کی آنکھوں میں شرارت تھی جس کی چال میں شباب تھا، جس کی آواز میں شہد جیسی مٹھاس تھی، لیکن آج کی کٹی بالکل مختلف تھی۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک فارس روڈ کی رنڈی ہے، اس کی باتوں میں زہر تھا، بچھو کا ڈنک تھا، آنکھوں سے وحشت ٹپکتی تھی، اس کے لب اکڑ گئے تھے، چہرے پر کرختگی کے آثار تھے اس شہد میں کتنی کڑواہٹ تھی، اس حسن میں کتنی گندگی تھی اس آواز میں کتنی تلخی تھی، اس جسم میں کتنی بو تھی، یہ سب کچھ کیوں ہوا، وہ کیوں آن واحد میں بدل گئی اور اس سے پہلے جو کچھ کٹی نے کہا تھا، ایک سلیقہ تھا، ایک ترتیب تھی، ایک تسلسل تھا۔ اتنے میں کار گھر کے قریب رکی۔
’’بہت ہی چالاک تھیں یہ لڑکیاں۔‘‘ گوپال نے شکست خوردہ آواز میں کہا۔
’’مجھے تو اس قسم کے سلوک کی ہرگز توقع نہ تھی۔‘‘ سریندر نے سر نیچا کرکے کہا۔
’’بھائی سچ بات تو یہ ہے کہ میں تو ان سے ملنے سے رہا، ایک تو روپے ضائع کروں ا ور پھر گالیاں کھاؤں، آج سے میں ان کے ساتھ گھومنے نہیں جاؤں گا، اچھا خدا حافظ۔‘‘ سریندر نے ہیٹ اٹھایا اور چل دیا۔
سریندر رات بھر سو نہ سکا، اسے رہ رہ کر اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ دوبارہ ان سےکبھی نہ ملے، واقعی ان لڑکیوں سے کبھی نہیں ملنا چاہیے، ان لڑکیوں نے اس کی بےعزتی کی ہے۔ اس کے منہ پر تھوکا ہے، اسے الو بنانے کی کوشش کی ہے، بلکہ الو بنایا ہے، اسے ان لڑکیوں سے کبھی نہیں ملنا چاہیے، لیکن دل کے دوسرے کونے سے ایک اور ہی آواز آ رہی تھی ایک اور وہی تصویر ابھر رہی تھی، اس کے نقوش سریندر کے دل کی سطح پر بہت گہرے پڑ گئے تھے، وہ نقش تھے کٹی کے، اس خوبصورت لڑکی کے جواس کی طرف دیکھ کر مسکراتی تھی، جس نے اس کے گالوں کو ہلکی سی چپت لگائی تھی، جس نے سنیما ہال میں بیٹھ کر کہا تھا۔
آئی لویو۔۔۔ جو اکثر چھوٹی سی پتلی سی زبان دانتوں کے درمیان سے نکال کر اسے چڑاتی تھی، یہ تصویر رہ رہ کر اسے یاد دلاتی تھی سریندر جذ باتی تھا، گوپال سے زیادہ ذہین اور حساس تھا، شاید اسے عورت کے قرب کی زیادہ ضرورت تھی، شاید اسے کٹی سے عشق ہو گیا تھا، عشق۔۔۔ وہ ہنسنے لگا، جی ہاں، کتنا فرسودہ لفظ ہے، اب تو بالکل بےجان ہوکر رہ گیا ہے اس مشینی دور میں عشق کرنا مذاق اڑانا ہے۔
نہیں بھائی عشق نہیں تھا، بلکہ وہ لڑکی کا جسم چاہتا تھا، عجیب سی بات ہے، نہایت صاف سی بات ہے، جی ہاں سریندر کو کٹی سے عشق ہو گیا تھا، وہ چاہتا تھا کہ وہ کٹی کے قریب رہے، اس سے باتیں کرے، اس سے مذاق کرتی رہے اور کہتی رہے آئی لو یو۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔ نہیں وہ کٹی کو نہیں جانے دےگا وہ اسے اوجھل نہیں ہونے دےگا۔ کٹی اس کی روح ہے۔۔۔ اس کی خوشی ہے وہ کٹی کو پکڑ سکتا ہے، اسےاپنے پاس رکھ سکتا ہے، لیکن کس طرح۔۔۔ اس نے سوچنا چاہا۔۔۔ اور بار بار یہی جواب ملا، کہ، وہ قلاش ہے، غریب ہے، وہ ہر روز بیس یا تیس روپے کٹی پر خرچ نہیں کر سکتا، لیکن وہ کٹی کو چاہتا ہے، وہ روپے ضرور حاصل کرےگا، وہ لوگوں سے مانگےگا، دوستوں کے آگے ہاتھ پھیلائےگا، وہ رات دن کام کرےگا، وہ ہر مالدار آدمی کے آگے ناک رگڑےگا اور اگر کہیں سے روپے نہ کما سکا تو وہ چوری کرےگا، ڈاکہ ڈالےگا۔۔۔ لیکن کٹی کو ہاتھ سے نہیں جانے دےگا، نہیں جانے دےگا۔
جب صبح اٹھا تو دل کا غبار کچھ ہلکا پڑ گیا تھا، عشق کی جگہ کچھ خودداری نے لے لی تھی اور اس کے دل میں یہ خیال آ رہا تھا کہ اسے دوبارہ کٹی سے نہیں ملنا چاہیے اور وہ مل بھی نہیں سکتا اس کے پاس روپے نہیں ہیں وہ چوری نہیں کرےگا لیکن وہ دوستوں سے روپے ضرور مانگےگا، وہ زیادہ کام کر سکتا ہے اور اس طرح وہ کافی روپے کما سکےگا، لیکن اب کٹی اس سے بات نہیں کرےگی، بھلا وہ کیوں اس سے ملےگی، وہ اس سے بالکل ناراض ہو گئی ہے، یہ سوچتے سوچتے وہ خدا داد سرکل کی طرف روانہ ہو گیا۔
اس دن وہ خداداد سرکل میں نہ آئیں، وہ ہر روز اس سرکل کے قریب جاتا، لیکن مایوس واپس لوٹتا۔ کمرے میں بیٹھ کر اپنے آپ کو کوسنے لگتا اور خاص کر اس ماحول کو جس میں وہ رہتا تھا۔ کاش اس کے پاس روپے ہوتے۔۔۔ یا کوئی ایسا کام کر سکتا جس سے اس کے جیب میں سو سو کے نوٹ ہوتے، وہ نوٹ لے کر کٹی کے پاس جاتا اور اس کے منہ پر مارتا اور کہتا، ’’یہ لو نوٹ اگر تمھیں ان سے محبت ہے تو یہ لو۔۔۔ ایک نہیں دس نوٹ، دس نہیں سو سو نوٹ، ان کو لے جاؤ اور اپنے ڈیڈی اور ممی کو دو اور اس کے بعد کبھی مجھ سے نہ ملنا۔‘‘ یہ سوچتے سوچتے اسے اپنے آپ پر غصہ آ جاتا، اس سسٹم پر غصہ آ جاتا، اس زندگی پر غصہ آ جاتا، ان نامراد لڑکیوں پر غصہ آجاتا اور اس طرح وہ اپنی زندگی میں زہر بھرتا رہا، آخر اور کر بھی کیا سکتا تھا، کبھی کبھی اپنے آپ کو گالی بھی دینے لگتا۔
ارے کم بخت تو کٹی کو دس روپے نہ دے سکا، شاید اس کے ڈیڈی ماما کو ضرورت ہو، اگر وہ کسی دوست سے مانگ کر اسے روپے دے دیتا تو کٹی اس سے کبھی ناراض نہ ہوتی، خیر کوئی بات نہیں وہ صرف اسے منائےگا اور اسے روپے دےگا اور بہت سے روپے دےگا۔
ایک دن کٹی اسے خداداد سرکل میں مل گئی۔
کٹی نے اس کی طرف دیکھا۔
سریندر نے کٹی کو دیکھا۔
کٹی مسکرا پڑی اور اس نے اپنی زبان دو ٹوٹے ہوئے دانتوں کے درمیان سے نکالی اور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’ہیلو۔۔۔‘‘
’’ہیلو۔۔۔‘‘
کٹی، لمٹی اور وہ ایک ہوٹل میں چلے گئے، اس دوران میں وہ گزری ہوئی باتیں بھول گئے، اب زندگی پھر خوشگوار ہو رہی تھی، اب پھر اس زندگی میں آگ تھی، لبوں پر مسکراہٹ تھی، وہ تینوں پھر گرم چائے پی رہے تھے اور زنگی خوشگوار ہو رہی تھی، ملٹی نے گوپال کے متعلق پوچھا اور سریندر نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ کئی دنوں سے گوپال سے نہیں ملا۔ سریندر نے ہو ٹل کا بل ادا کیا۔۔ اور لمٹی نے اس سے پکچر دکھانے کے لئے کہا اور وہ مان گیا۔
پکچر شروع ہو گئی۔ کٹی اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، وہ کٹی جس کی تلاش میں نیند حرام ہو چکی تھی، جس کی یاد میں وہ اکثر رو چکا تھا، جس کو پانے کے لئے وہ چوری تک کرنے کو تیار تھا، جس کو حاصل کرنے کے لئے وہ دوستوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو تیار تھا، جس کے لئے وہ مالدار آدمیوں کے سامنے اپنا دامن تک بیچنے کے لئے تیار تھا۔ وہ آج اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی، کٹی نے فراق پہنا ہوا تھا، کٹی اسی طرح ہنس رہی تھی، کھیل رہی تھی مسکرا رہی تھی، اس کے ہاتھ کو دبا رہی تھی، اس کا گرم سانس اس کے گالوں، لمس ہو رہا تھا، وہ خوش تھا، ایک عرصے کے بعد کٹی اسے مل گئی تھی، وہ کٹی کو پا لےگا، وہ کٹی سے شادی کر لے گا، وہ کٹی کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا، کٹی صرف اس کی ہے، صرف اس کی ہے، وہ کٹی سے شادی کر لےگا، وہ کٹی کو بہت روپے دےگا وہ دن رات محنت کرےگا، کٹی خوبصورت ہے بہت ہی خوبصورت ہے، کٹی جوان ہے، بہت ہی جوان ہے، وہ کٹی کو راہِ راست پر لے آئےگا۔
اگر کٹی میں کچھ خامیاں ہیں تو وہ انہیں دور کرنے میں کٹی کی مدد کرےگا، کٹی کو آج تک کوئی اچھا انسان نہیں ملا، اسے شریفوں کی محفل میں بیٹھنے کا موقع نہیں ملا، اس لئے اس کی شخصیت دو حصوں میں بٹ گئی ہے، اسی لئے اس کی تصویر کے دو رخ ہیں۔ اگر ایک رخ اچھا ہے تو دوسرا بہت ہی برا ہے اگر ایک سے پیار ہے تو دوسرے سے نفرت، وہ اچھے رُخ کو ابھارےگا، وہ کٹی کی زندگی کو بہتر بنائےگا، وہ کٹی کو بتائےگا کہ تمھاری ایک اچھی شخصیت بھی ہے، اس شخصیت سے کٹی بیگانہ ہے، اسے شخصیت کا کچھ علم نہیں، خیر اسے اس وقت کچھ نہیں سوچنا چاہیے، آہستہ آہستہ کٹی کا ہاتھ اس کے سینے کی طرف بڑھ رہا تھا۔
وہ کیا چاہتی ہے۔
کٹی کا ہاتھ سریندر کے کوٹ کی اندرونی جیب میں چلا گیا۔
کٹی نے اس کا بٹوہ نکال لیا۔
وہ خاموش رہا۔
کٹی نے بٹوہ میں سے روپے نکال لئے۔
اور وہ خاموش ہو گیا۔
کٹی نے سب نوٹ اپنی جیب میں رکھ لیے۔
وہ بالکل خاموش ہو گیا۔
کٹی نے چینج بھی اپنی جیب میں رکھ لیا، وہ خاموش بیٹھا رہا۔
کٹی نے خالی بٹوہ اس کی جیب میں رکھ دیا۔
اور وہ خاموش بیٹھا رہا، اس نے کچھ نہیں کہا، پکچر ختم ہو گئی اور وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
کٹی نے اجازت مانگی اور اس نے سر ہلا دیا اور وہ دونوں اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئیں۔
اس کے بٹوے میں تین روپے اور کچھ آنے تھے، وہ سب کٹی نے نکال لئے، اس کے پاس بس کے لئے کرایہ بھی نہ تھا اور وہ سڑک پر پیدل چلتا رہا، اس کے قریب سے لوگ گزر رہے تھے۔ لیکن اسے کسی کی موجودگی کا احساس نہ تھا، وہ صرف آج کے حادثہ پر غور کر رہا تھا، وہ سوچ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، وہ سوچ رہا تھا کہ اچھی بھلی لڑکیاں آن واحد میں کس طرح طوائف کا روپ دھارن کر لیتی ہیں، وہ سوچ رہا تھا کہ اور لوگ چلے جا رہے تھے، آگے بڑھ رہے تھےپیچھے ہٹ رہے تھے، وہ سوچ رہا تھا لیکن زندگی افسردہ اور بےکیف ہوتی جا رہی تھی، وہ سوچ رہا تھا اور کٹی دور جا چکی تھی اور سوچ رہا تھا اور یکایک اسے محسوس ہوا کہ وہ کٹی اس سے اسے محبت تھی مر چکی ہے، صرف ایک طوائف اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے اپنے جسم کی قیمت مانگ رہی ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ آگے بڑھتا گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.