Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زندگی

MORE BYشاہد جمیل احمد

    کوڑے کے ڈھیر پر بائیں کروٹ کے بل دائیں بازو اور ٹانگ کو ایل کی شکل میں پھیلا کر بوڑھا ڈیوڈ اس طرح لیٹا تھا جیسے اس کے پہلو میں جُوس کے خالی ڈبے، بوتلیں، سٹرا، ٹن اور پھلوں کے چِھلکے نہیں بلکہ گورے پاؤں والی خود لیٹی ہو ۔پاؤں کے دودھیا پنجے سے پھوٹتی ملکی روشنی کے انعکاس و انعطاف کے بِیچ نینو سیکنڈ کے کئی لاکھویں حصے میں جب وقت انفنٹ ہو کر تازہ چرم کی طرح بان کی چار پائی پر پڑا سو کھتا تھا، اس خفیف وقفے کے بیچ جو برقی پردوں کے باہم متصل ہونے کے درمیان بھی ضرور ہوا کرتا ہے، اس کی نظر یکسر دنیا و مافیہا کے معدُوم و معلوم پر جا پڑی تھی۔ وہ دِن اور آج کا دن، آدھے لوگ اسے زندہ اور آدھے لوگ مردہ تصور کرتے تھے۔ جب وہ کوڑے کِرکٹ اور کباڑ خانوں میں سویا ہوتا تو مکھیاں اس کے منہ پر کالے رنگ کا بیضوی ڈھکنا بنا دیتیں جسے دیکھ کر آدھے لوگ اسے مُردہ تصور کرنے میں حق بجانب تھے جبکہ آدھے لوگ جنہوں نے اسے لنگڑی لات کے ساتھ کبھی منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرتے دیکھا تھا وہ بہرحال اُسے زندہ تصور کرنے پر مجبور تھے۔ اس نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعہ کے بعد ہمیشہ کیلئے سکول کی نوکری، گھر بار اور دوستوں کو تج دیا تھا اور اب دودھیا روشنی کی تلاش میں شہروں شہروں مارا مارا پھرتا تھا۔ شیر ولِٹ بھی اس کی تلاش کے کبھی نہ ختم ہونے والے سفر کا ایک پڑاؤ ہی تھی۔ وہ جس شخص کا پیچھا کرنا شروع کرتا، پہلے تو وہ شخص اُسے اپنی شس جہات میں موجود پاکر پریشان ہوتا مگرپھر بار بار اس کی مسکین اور روہانسی شکل دیکھ کر اس کا ہمدرد بن جاتا۔ بےضرر ایسا کہ اس نے آج تک کِسی عورت کی آنکھوں کو تو کیا اس کے جسم کے اوپری اور درمیانی حِصوں تک کو نہیں دیکھا تھا۔ اگر اس کی آنکھیں کبھی بغاوت پر آمادہ ہو بھی گئیں تو وہ زیادہ سے زیادہ کسی خوبصورت پاؤں پر جا کر رک جاتیں، پورا پاؤں بھی نہیں بلکہ اس کے چوتھائی حصے یعنی پنجہ یا پب تک، یا پھر اس سے بھی کم کسی پیر کے حلقۂ زنجیر سے مشابہہ انگوٹھے تک۔ معدوم نے اپنی لاج چھپانے کیلئے اسے نجوم و شہاب کے اتنے سکے دیئے کہ جنہیں وہ جہاں چاہتا رکھ کر بھول جاتا۔ لوگ اسے سیف زبان اور سیف نظر کہنے پر تلے ہوئے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے آپ کو لوگوں سے الگ تھلگ کر لیا تھا۔ آج وہ شیرولِٹ کا پیچھا کر رہا تھا۔ شیر ولِٹ عام شکل و صورت کی لڑکی تھی مگر اُس کیلئے شکل و صورت کی اہمیت ہی نہیں تھی، کسی خوبصورت پاؤں سے دودھیا روشنی کے پُھوٹنے کے امکان کی بات تھی، ایک ایسا امکان جو برق رفتاری سے سمٹتے پردوں کے بیچ وقفے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اسی موجود مگر ناپید کے تعاقب میں وہ ستاروں اور سیاروں کی ریزگاری نچھاور کرتا ایک سمت کو گھسٹتااور گرتا پڑتا چلا جا رہا تھا۔ لیبارٹری کے مین گیٹ پر پہنچ کر اس نے اپنے بلیک اینڈ وائٹ چیک والے پھٹے پرانے چکٹ کوٹ کی اندرونی جیب سے محدب عدسہ نکالا۔ یہ وہی عدسہ تھا جِسے اُس نے خانۂ عدم کی نامعلوم سمت والی دیوار سے اچک لیا تھا اور جس سے مشرقی و جنوبی ڈیوون (Devon) کے لوگ چالیس سے سو میل تک کے رقبے پر پھیلے شیطانی پاؤں کے نشانات پہچاننے پر مصر تھے۔ شیرولِٹ کے پاؤں کے ابھی نہ پڑنے والے نشان بتا رہے تھے کہ وہ لیبارٹری ہی میں آئےگی۔ اسے اب یہ مسئلہ درپیش تھا کہ وہ اندر کیسے جائے کیونکہ سکیورٹی گارڈ نے اسے جب زمین پر بیٹھ کر عدسے سے کچھ دیکھتے پایا تو اُسے دیوانہ جان کر ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگا۔ ایک دم اسے عدم کے فرش پر ڈھیر ہوا سیاہ مادہ یاد آ گیا۔ یہ ڈارک میٹر سیکورٹی گارڈ کی کائنات کا ستر سے اسی فیصد تھا مگر سیکورٹی گارڈ اس کو دیکھنے سے قاصر تھا، سیکورٹی گارڈ کی بےبسی کا سوچ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ عود کر آئی اور اس نے ہاتھ لمبا کرکے مادہ سیاہ کی ایک چٹکی بھری اور اپنے اُوپر چھڑک لی۔ اب وہ لٹک لٹک کر چلتا ہوا سیکورٹی گارڈ کے عقب سے لیبارٹری میں داخل ہو رہا تھا مگر سیکورٹی گارڈ کو اس کی کانوں کان خبر نہ تھی۔ وہ اسی حالت میں ڈاکٹر واٹسن کو گھورتا ہوا تھوڑ ی دور پڑے لیدر کے صوفے میں دھنس گیا۔

    نیو یارک، اکتوبر۲۰۰۷، پہلا ہفتہ، درجہ حرات ۷ ڈگری سینٹی گریڈ، آب و ہوا! وہی بوجھل اور نم جو ساحلی اور جنگلاتی علاقوں کی ہوا کرتی ہے۔ وہ یعنی جیمز ڈیوی واٹسن نیو یارک کے ایک گاؤں لورل ہالو کی کولڈ سپرنگ ہار برلیبارٹری کے ایک وسیع کمرے میں اپنے سامنے بچھی لکڑی کی میز پر پڑے عمدہ پلاسٹک اور ایلومینیم تار سے بنے اُس ماڈل کو اوپری اور ظاہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا جسے وہ ہمیشہ دل کی نگاہوں سے دیکھتا آیا تھا۔ یہ ایک غیر معمولی بات تھی اور اس کی وجہ شیرولِٹ کا صبح سویرے موصول ہونے والا فون تھا۔ شیرولٹ ہنٹ گروبے! دی ٹائمز میگزین کی رپورٹر۔ اخبار جوائن کرنے سے پہلے وہ مذکورہ بالا تعلیمی و تحقیقی ادارے کے کسی شعبے میں طالب علم رہ چکی تھی اور شاید اس انٹرویو کیلئے اس کا انتخاب ہی اس بنیاد پر ہوا تھا اور اخبار کے مدیر اور بورڈ کے دیگر تین ممبران نے اُس کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ دھوئیں کے مرغولوں کی طرح نیچے سے اوپر اٹھتی ہوئی دوہری کمانی (The Double Helix) کی اس ساخت میں اس کی جان تھی۔ پھر اسے روزی یاد آئی یعنی روز النڈ فرنکلن جِسے وہ بے تکلفی میں روزی کہا کرتا تھا اور پھر اس کا وہ خط جو پیارے واٹسن سے شروع ہوا تھا اور بہترین خواہشات کی متمنی پر ختم ہوا۔ یہ صرف خط نہیں تھا بلکہ ایک ایکسرے محسوس ہوتا تھا جس میں روزی اپنی آنکھوں سے مسکرا رہی تھی جبکہ وہ یعنی ڈاکٹر واٹسن اپنے لمبے قد کے نصف تک شرمندگی سے جھکا ہوا تھا۔ پھر ایک دم ایکسرے شیٹ میں ارتعاش پیدا ہوا اور جیسے ہی یہ کڑکڑاتی شیٹ سیدھی ہوئی ریمونڈ گو سلنگ بھی منظر میں داخل ہو گیا۔ شاید وہ روزی کی وجہ سے یہاں آیا تھا۔ روزی جِدھر بھی جاتی اس کے قدم خود بخود اس جانب اٹھنا شروع ہو جاتے۔ وہ اس کاپی ایچ ڈی سٹوڈنٹ بھی تھا اور اس کی عقیدت بھری محبت کا شکار بھی۔ اس نے محبت کی اِس راہ میں فقط سوچنا اور اپنے ریسرچ ورک میں مصروف رہنا سیکھا تھا۔ وہ خود بھی بہت حیران تھا کہ ان کی عمروں میں زیادہ فرق نہ ہونے کے باوجود اس نے کبھی روزی کے بارے میں عورت کے نقطہ نظر سے نہیں سوچا۔ اس کی ایک وجہ تو شاید یہ تھی کہ جب انسان کے پاس سوچنے کیلئے بڑے خیال اور کرنے کیلئے بڑے کام موجود ہوں تو اس کا میلان ہیچ اور اوسط کاموں کی طرف راغب نہیں ہوتا اور دوسری وجہ اُستاد اور طالب علم کا وہ فطری رشتہ کہ احترام جس کا جزو لاینفک ہے اور پھر وہ چالاک، اپنی خفت ملی عیار ہنسی کو اپنے ہونٹوں میں بھینچتا ہوا مورس و کنز۔ اگرچہ اس کی وفاداری کے سبب واٹسن اور کرِک نے اسے نوبل لوریٹس میں شامل تو کروا دیا تھا مگر وہ اس ایکسرے شیٹ میں داخل ہونے سے قاصر تھا۔ یہ چھوٹی سی شیٹ اس کیلئے اجنبی باگھ کی راجدھانی سے کم نہ تھی ۔ اسے یوں لگتا تھا کہ اگر اس نے اس راجدھانی میں قدم رنجا ہونے کی کوشش کی تو اجنبیت کی مہک کے بھبھوکے اسے اڑا کر دورپھینک دیں گے۔ وہ اپنے تئیں کنارے ہی کنارے پشیمان کھڑا اُن لمحات کو کوس رہا تھا جب اُس نے روزی کے گھر میں اُس کی دراز سے انکسارِ امواج کے ایکسرے حقائق برائے ڈی این اے (X-Ry Diffraction data of DNA) چُرا کر جوں کے توں واٹسن اور کرک کی خدمت میں پیش کر دیئے تھے۔ کتنی تکلیف ہوئی ہوگی بیچاری روزی کو کہ ایک جانب اووری میں چُھپی بیٹھی کینسر جیسی موذی بیماری کی صعوبت اور دوسری جانت خام آلات کے ذریعے مہینوں اور سالوں کی محنت سے حاصل کئے گئے حقائق (Data) کا زیاں۔ اب تو شاید وکنز کے عرق انفعال کے قطروں کی مہک واٹسن تک بھی پہنچ چکی تھی کہ اس نے بھی ایکسرے شیٹ کے منظر سے باہر نکلنے میں ہی عافیت محسوس کی۔

    واٹس کا خیال ایک بار پھر شیرولِٹ کے صبح سویرے موصول ہونے والے فون کی طرف لوٹ گیا۔ دوپہر ہونے کو آئی تھی اور اب وہ کِسی بھی وقت اس سے انٹرویو لینے پہنچ سکتی تھی۔ پھر اچانک اس کے دل میں فکر مند کر دینے والا یہ خیال پیدا ہوا کہ جانے وہ اُس سے کِس طرح کے سوالات پوچھے مگر جلد ہی اس نے یہ بھی دریافت کر لیا کہ وہ دراصل اس کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالات کی وجہ سے پریشان نہیں تھا بلکہ وہ تو اس جواب کی وجہ سے پریشان تھا جو وہ اپنی سٹیٹ منٹ کے طور پر اس کو ریکارڈ کروانے والا تھا۔ اب اس کی یاد میں اس کے ذہن کے سوفٹ بورڈ پر تھمب پِن سے لٹکی سابقہ سٹیٹ منٹس گھوم گئیں جن کی بنا پر اسے پہلے ہی بین الاقوامی طور پر کافی مخالفت کا سامنا تھا۔اس کے ذہن کے سوفٹ بورڈ کے دائیں اوپری کونے میں تھمب پِن سے جو سٹیٹ منٹ اٹکی ہوئی تھی وہ اُسے غور سے پڑھنے لگا۔ وہ کئی بار اپنے لیکچروں میں جینیاتی انتخاب (Genetic Screening) اور جینیاتی انجینئرنگ (Genetic Engineering) بارے دلائل دے چکا تھا اور اس کی دانست میں گھامڑپن (Stupidity) ایک بیماری تھی اور دس فیصد گھامڑ ترین لوگوں کا علاج(Cure) ضروری تھا۔ اس کا یہ بھی خیال تھا کہ خوبصورتی کو جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے پیدا کیا جا سکتا ہے جبکہ عُرف عام کا یہ کہنا تھا کہ اگر دنیا میں تمام لڑکیاں ہی خوبصورت ہو گئیں تو یہ دنیا اور فطرت کیلئے تباہ کن ہوگا جبکہ اس کے خیال میں ایسا ہونا دنیا اور فطرت کیلئے بہت اچھا تھا۔ اس کا یہ بیان جلی حروف میں شائع ہوا تھا کہ اگر ہم اس جین کا پتہ لگا لیں جو جنسیات سے متعلق ہے تو پھر ایک خاتون کو ہم جنس میلان والے بچے کی طرح موافق جنس میلان والے بچے کو بھی پیدا نہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیئے۔ اخبار والوں نے تو خیر حسب توفیق و عادت اس کے اس بیان کوتروڑ مروڑ کر پیش کیا تھا جس کی بنا پر علم الحیات کے ماہر رچرڈڈاؤ کنز کو اس کی تشریح بھی کرنی پڑی تھی تا ہم اس کا لب لباب یہی تھا۔ موٹاپے کے مسئلے پر اُس کا داغا گیا بیان بھی تو یہیں کہیں اُس کے ذہن کے سوفٹ بورڈ پر تھمب پِن سے جھول رہا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ آپ جب کبھی بھی موٹے لوگوں کا انٹرویو کرتے ہیں تو اچھا محسوس نہیں کرتے کیونکہ آپ یہ جانتے ہوتے ہیں کہ آپ اُنہیں محنتانے پر رکھنے والے نہیں۔ بورڈ پر انتہائی بائیں جانب۲۰۰۰ء کی اس کانفرنس کی رپورٹ بھی لگی ہوئی تھی جس میں اس نے جلد کی رنگت اور جنسیات کے باہمی تعلق کو بیان کرتے ہوئے اپنے اس مفروضے کا اظہار کیا کہ گہری رنگت کے لوگوں میں جنسی شہوت زیادہ ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے لاطینی عاشق تو سنے ہونگے مگر انگریز عاشق نہیں۔ بوڑھا ڈیوڈ اپنی ٹیڑھی میڑھی ٹانگیں صوفے پر سمیٹے واٹسن کے ذہنی و فکر ی تذبذب سے محظوظ ہو رہا تھا اور دفعتاً اس کا خیال عدم کی بےچھت سے بغیر زنجیر جھولتے ان جوابات کی طرف لوٹ گیا جو انسانی ذہن سے متعلق ان سوالات پر مبنی تھے ہنوز جن کا جواب مٹی گارے سے بنی دنیا کے تیز ترین دماغوں سے اوجھل تھے۔ جوابات تو عجیب تھے ہی، سوالات بھی بظاہر کم عجیب نہ تھے۔ مثلاً یہ کہ دماغی عمل میں معلومات کی کوڈنگ کیسے ہوتی ہے، یادداشتیں کیسے محفوظ اور پنہاں ہوتی ہیں، انسان کی حالت آرام میں دماغ کیا اور کیسے عمل کرتا ہے، دماغ مُستقبل کے بارے میں کیسے سوچتا ہے، جذبات کیا ہیں، ذہانت کیا ہے، دماغ میں وقت کا اظہار کیسے ہوتا ہے، دماغ کیوں سوتا اور خواب دیکھتا ہے،دماغ کے مختلف نظام ہائے کار آپس میں کس طرح منسلک ہوتے ہیں اور یہ کہ شُعور یت ہے کیا؟ جوابات والے چمچماتے مخطوطے پڑھتے پڑھتے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں اور اس نے اپنے آپ کو بجلی سے زیادہ رفتار کے ساتھ کائنات کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے محسوس کیا، وہ شاید گرتا ہی چلا جاتایا پھر برمودہ مثلث میں گر کر ہمیشہ کیلئے غائب ہو جاتا اگر اس کا ہاتھ سات سو پاؤنڈ کے رُکے ہوئے سیلنگ سٹون (Sailing Stone) میں نہ پڑ جاتا۔ واٹسن ابھی اپنے بیانات کی ادھیڑ بن میں اُلجھا تھا کہ اُسے دور سے لیبارٹری اٹنڈنٹ کی کسی خاتون سے خفیفت سی گفتگو سنائی دی اور ساتھ ہی ہیل کی ٹک ٹک، اس نے سوچا وہ آ گئی اورساتھ ہی نکٹائی درست کرتے ہوئے میز کی دوسری جانب کرسی پر جاکر بیٹھ گیا۔

    شیرولٹ کے ہونٹوں پر بکھری مسکراہٹ اور اس کی آنکھوں کی چمک اِس بات کی غماز تھی کہ وہ واقعی بہت خوش تھی۔ دنیا کی عظیم شخصیات کے انٹرویو کرنا اخبارات والوں کیلئے ہمیشہ سے کریز کا باعث رہے ہیں اور آج اُس کا یہ کریز پورا ہونے جا رہا تھا۔ اگرچہ اس نے اس انٹرویو کیلئے بہت تیاری کی تھی اور جینیاتی سائنس، مالیکیولر بیالوجی، زوالوجی، مقیاس الذہانت اور نسل اور ذہانت کے باہمی تعلق بارے حتی الوسع مطالعہ بھی کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے سوالات کی ایک لمبی مگر محتاط لِسٹ بھی تیار کی تھی اور سائنسی الفاظ و تراکیب کی شارٹ ہینڈ رائٹنگ کی پریکٹس بھی کی تھی۔ اس کی تمام تیاری مگر اس وقت دھری کی دھری رہ گئی جب واٹسن نے اسے کہا کہ وہ آج کے انٹرویو میں سوالات کے جوابات دینے کی بجائے اپنی Perception سے متعلق گفتگو کرے گا اور گفتگو کے آخر میں Concluding statement ریکارڈ کروائیگا۔ شیرولٹ کیلئے انٹرویو کا یہ انداز قدرے سہل تھا اور وہ گفتگو کو ٹیپ ریکارڈ رمیں ریکارڈ کرنے کے ساتھ شارٹ ہینڈ میں آسانی سے لکھ سکتی تھی۔ اس سے پہلے کہ واٹس اپنی گفتگو کا آغاز کرتا، ڈیوڈ کی نظر گھومتی گھماتی شیرولِٹ کے پیروں پر جا پڑی، جھنجھلاہٹ میں وہ زیر لب بڑبڑایا۔۔۔ دھت تیرے کی، شیرولِٹ نے نہ صرف یہ کہ بند جوتے پہنے ہوئے تھے بلکہ اس کے ٹخنوں پر سکن کلر کے موزے بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ڈیوڈ کی سعی سفر آغاز سے قبل ہی انجام تک پہنچ گئی تھی۔ وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا، اس نے اِسی میں عافیت محسوس کی کہ وہ اپنے کانوں پر بڑی سماعتی ریڈیو دور بین (Big Ear Radio Telescope) چڑھالے جس پر جیری آراہمن نے برج قوس کے قریبی ستاروں سےWOW کا سگنل سنا تھا۔ اسے TAOS HUM میں دلچسپی نہ رہی تھی جب سے وہ ان کے زمینی Low Pitch شور کی بجائے عدم کے لا محدود صحرا میں ان کی High Pitch دھڑ دھڑ سن چکا تھا ۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے اور صوفے پر کروٹ لے کر لیٹ گیا۔ اب واٹسن گویا ہوا، میرا فوکس آج نسل اور ذہانت کے موضوع پر ہوگا۔ ڈی این اے کے دوہری کمانی والے سٹرکچر کو وضع کرنے کے دوران مذکورہ موضوع میرے زیر مطالعہ رہا۔ اپنے اصل بیان تک پہنچنے کیلئے مجھے اس موضوع کے پس منظر، اس کی تاریخ اور متعلقات پر تفصیلی بات کرنا پڑےگی۔ اور ڈیئر شیرولٹ آپ کو اِن تمام تر تفصیلات کو سننے کی زحمت گوارا کرنا پڑےگی، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، آئی ایم سوری! شیرولٹ نے کہا، نوسر! Its OK، آپ اپنی بات جاری رکھیں، میں آپ کی ساری باتیں سننے کیلئے ہمہ تن گوش ہوں۔ ڈاکٹر نے کہا ویل! تو میں اپنی بات شروع کرتا ہوں۔ نسل اور ذہانت کے باہمی تعلق پر مباحث کا آغاز آج سے ٹھیک ایک سو سال پہلے اس وقت ہوا جب مقیاس الذہانت (Intelligence Quotient) عمل میں آیا۔ امریکہ میں مقیاس الذہانت کیلئے کئے گئے ٹیسٹوں سے یہ بات سامنے آئی کہ افریقی نسب کے لوگوں کا اوسط سکوریورپ نسب کے لوگوں سے بہت کم ہے۔ اسی طرح یہ کہ مشرقی ایشیاء کے لوگوں کی ذہانت کا لیول یورپ کے لوگوں سے بہت زیادہ ہے۔ نسلی ذہانت کا یہ فرق پوری طرح اپنے وثیقہ کے ساتھ محفوظ ہے مگر یہ بات الگ ہے کہ ریسرچرز اس کی وجوہات بارے متفق نہیں ہو سکے۔ اس ضمن میں یعنی اِن وجوہات سے متعلق اب تک چار قسم کے جائزے دنیا میں موجود ہیں۔ پہلا یہ کہ لوگوں کی ذہانت کے مابین فرق حقیقی ہے اور اس کی وجوہات ماحولیاتی اور وراثتی فرق کی پیدا کردہ ہیں۔ دوسرا یہ کہ قوموں اور نسلوں میں ان کی ذہانت اور قابلیت کے حوالے سے واضع فرق موجود ہے تا ہم اس کی وجوہات معاشرتی اور ماحولیاتی عناصر کی مرہون منت ہیں۔ تیسرا خیال یہ ہے کہ کسی نسل اور ذہانت کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے اور ذہانت معلوم کرنے کیلئے جو طریقہ ہائے کار وضع کئے گئے ہیں وہ از خود ناقص ہیں۔ چوتھا خیال یہ ہے کہ نسل اور عام ذہانت کے تصورات بذات خود ناقص ہیں اس لئے نسلی یا گروہی تقابل بذات خود بےمعنی ہے۔

    واٹسن اپنے دونوں ہاتھوں کی پوروں کو آپس میں ملاتے ہوئے بظاہر تو شیرولٹ کی طرف دیکھ رہا تھا مگر اس کا دماغ کسی گہری سوچ میں پڑا ہوا تھا کہ لیب اٹنڈنٹ نے ان کے سامنے بلیک کافی کے دو مگ اور کچھ سینڈ وچ لاکر رکھ دیے۔ کافی کا مگ دیکھتے ہی شیرولٹ نے کاپی پنسل ایک طرف رکھ دی اور ٹیپ ریکارڈر کا بٹن آف کر دیا۔ وقفے کے دوران ان کے درمیان ہلکی پھلکی غیررسمی گفتگو جاری رہی۔ شیرولٹ نے ڈاکٹر سے ان کی بیوی الزبتھ اور بیٹوں رُوفس اورڈنکن بارے معلوم کیا جبکہ ڈاکٹر نے اُس سے اُس کی صحافتی مصروفیات بارے معلومات حاصل کیں۔ ڈاکٹر نے ہاتھ کے اشارے سے اپنی گفتگو دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا اور بولا، امریکی ماہرین نفسیات کی تنظیم کا یہ کہنا ہے کہ اگرچہ مختلف نسلی گروہوں کے درمیان ان کی ذہانت کے حوالے سے واضع فرق موجود ہے لیکن اس کی وجوہات سے متعلق نہ تو کوئی ماحولیاتی توضیع موجود ہے اور نہ ہی کوئی ایسا تجرباتی و مشاہداتی مواد موجود ہے جِس کی بنیاد پر اِسے جینیاتی توضیع سے منسوب کیا جا سکے۔ یہاں مجھے اختلاف ہے کہ کیا اب جینیاتی توضیعات نفسیات دان کیا کریں گے۔ امریکی علم الانسان ( Anthropology) کے ماہرین کی تنظیم کا بھی یہ کہنا ہے کہ جانداروں کے علم حیاتیات کے مطابق واضع گروہوں میں مروجہ تقسیم کے مطابق ان کی ذہانت کے فرق کو صراحت کے ساتھ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ شیرولٹ نے نہایت ادب سے ڈاکٹر کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا کہ یوں لگتا ہے جیسے آپ کی بات کا مرکز و محور مقیاس الذہانت ہے۔ اس ضمن میں میں آپ کی توجہ مقیاس الذہانت کے مُوجد الفریڈ بائنٹ کے اس بیان کی طرف مبذول کروانا چاہوں گی جس میں انہوں نے اپنے مقیاس کے استعمال سے متعلق یہ بھی واضع کیا کہ ان ٹیسٹوں کو مادرزاد (Innate) ذہانت معلوم کرنے کیلئے استعمال نہ کیا جائے اور نہ ہی لوگوں کو لیبل کرنے کیلئے استعمال کیا جائے۔ ڈاکٹر اس کی بات سن کر سٹپٹا گیا۔ اسے شاید اندازہ نہیں تھا کہ وہ اُس کے انٹرویو کیلئے اس قدر تیاری کرکے آئی ہوگی۔ اس نے اُس کی سنجیدہ بات کو ہنسی میں ٹالنا چاہا، کہنے لگاہاں بھئی! وہ بھی تو ایک انسان ہی تھے اور انسانوں کی بے شمار ادیانی، اخلاقی، نفسیاتی اور معاشرتی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انسانوں کی ذہنی صلاحیتوں کے فرق کو سامراجی نظاموں، لوگوں کو غلام بنائے رکھنے اور سوشل ڈارونزم کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، پھر جنگ عظیم اول میں مشرقی و جنوبی یورپ کے لوگوں کی انگریزی زبانی سے متعلق مشکلات و مسائل کو مدنظرر کھے بغیر انہیں امریکہ کے جنمی (Native) لوگوں سے ہیچ قرار دے دیا گیا۔ مگر میرا مطلب اور مقصدیہ نہیں ہے، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جینیاتی طور پر یہ فرق موجود ہے اور جینیاتی طور پر اسے Cureکیا جا سکتا ہے۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ۱۹۲۰ء سے لے کر ۱۹۳۰ء کے عرصے میں مفکرین اور سائنسدانوں نے عمدہ نسلِ انسانی پیدا کرنے کے علم (Eugenic) کو نسل اور جینیات سے منسوب کرنے کو یکسر مسترد کر دیا اور بعد ازاں انہیں بنیادوں پر امریکی سپریم کورٹ نے متفرق پبلک سکولوں کے نظام کو ختم کرکے غریب افریقی طالبعلموں کیلئے ترجیحی تعلیمی پروگرام وضع کرنے کا کہا، یہ غالباً ۱۹۵۴ء کی بات ہے۔ سب کچھ درست جا رہا تھا، پھر بھائی آرتھر جینسن نے اپنے مضمون میں پھر اس بحث کو اجاگر کر دیا اور افریقی امریکن بچوں کی تعلیم سے متعلق اس نے کہا کہ ان کی بری پرفارمنس ان کے جین کی وجہ سے ہے نہ کہ ان کے گھریلو کم تعلیمی ماحول کی وجہ سے۔ اس کے اس بیان نے درسگاہی نظام میں پھر سے نئے تضاد کو جنم دیا۔ پھر اس کے بعد تو یہ سلسلہ چل نکلا۔ آپ کو مارک سِنڈر مین اور سٹینلے رتھمین کی کتاب The IQ Controversy تو یاد ہی ہوگی، زیادہ دور کی بات نہیں، ۱۹۸۸ء کی کتاب ہے بھئی جس میں چھ سو نفسیات دانوں، معاشرتی علوم کے ماہرین اور ماہرین تعلیم سے سروے کیا گیا اور ان میں سے پینتالیس فی صد نے اس رائے کا اظہار کیا کہ کالے گورے کی ذہنی صلاحیت کے فرق میں جینیاتی اور ماحولیاتی دونوں عناصر کارفرما ہیں۔ اسی طرح The g Factor, The Bell curveجیسی کتابوں نے بھی موروثیت کے نطقہ نظر کو پروموٹ کیا۔ اب ڈاکٹر نے ایک لمبی سانس لی، یوں لگتا تھا جیسے مسلسل بولنے کی وجہ سے اس کی سانس پھول گئی ہو۔ اس نے کچھ دیر کرسی پر بیٹھے بیٹھے سستانے کے انداز میں اپنے بازوؤں اورگردن کو ڈھیلا چھوڑ دیا اور جلد ہی شیرولٹ کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ہاں تو اس ساری گفتگو کے بعد میں اس بابت اپنا Point of view آپ کے سامنے رکھتا ہوں، آپ اس کو میرا بیان بھی کہہ سکتی ہیں! میں اندرونی طور پر افریقی امکان پر بہت رنجیدہ ہوں کیونکہ ہماری تمام معاشرتی پالیسیاں اِس بات پر بنیاد کرتی ہیں کہ ہم سب کی ذہانت ایک جیسی ہے جبکہ تمام مقیاس (Testing) کہتی ہے کہ نہیں ، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس Hot Potato کا حل انتہائی دشوار ہے۔ میری یہ امید اور خواہش ہے کہ ہر کوئی برابر ہے مگر یہ مشاہدہ اور تجربہ بھی کہ جو لوگ کالے ملازمین کے ساتھ ڈیل کرتے ہیں اُن کیلئے یہ درست نہیں۔ ڈاکٹر نے اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا تھا اور اب وہ قدرے مخمصے کے انداز میں اپنی کرسی پر ادھر ادھر پہلو بدل رہا تھا۔ ڈیوڈ بھی صوفے پر ایک دم جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور واٹسن کی طرف دیکھتے ہوئے گنگنانے کے انداز میں بولا، ماں پر پوت پِتا پر گھوڑا، بہتا نئیں تو تھوڑا تھوڑا۔ اس کے دماغ میں پھر سوالات کی ایک چین چل پڑی، کیا تھیوری آف ایوری تھنگ کا وجود ممکن ہے، سیاہ مادہ (Dark Matter) کیا ہے، کشش ثقل کی مزید بہتر تھیوری کیا ہو سکتی ہے، بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کے تناظر میں کولڈ فیوژن کی کامیابی کے امکانات کیا ہیں۔ اس نے اپنے سر کو زور سے جھٹکا اور ٹھنڈی آہ بھرتا اپنی نامعلوم منزل کے سفر پر روانہ ہوا۔ شیرولٹ ایک بار پھر پنسل کاپی ایک طرف رکھتے ہوئے اور ٹیپ ریکارڈر کا بٹن بند کرتے ہوئے یہ سوچ رہی تھی کہ ڈاکٹر اگر اپنے مشاہدے و تجربے کو معاشرتی ارتقاء کے تناظر میں بیان کرتا تو کتنا ہی اچھا ہوتا مگر شاید وہ یہ سہرا ڈارون کے سر نہیں باندھنا چاہتا تھا۔ یوں بھی ڈاکٹر کو ہر انسان کی طرح اپنے سر پر نئے نئے سہرے سجانے کا بہت شوق تھا۔ انسانی چہروں پر بندھے کئی سہروں کی سنہری اور سیمیں لڑیوں سے منعکس ہوتی روشنی نے ایک لمحے کو شیرولِٹ کی آنکھیں چندھیا دیں اور وہ واپس جانے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے