آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں۔۔۔!
یوں تو دنیا کو عہد حاضر میں سیکڑوں مسائل درپیش ہیں۔ گلوبل وارمنگ، مسئلہٴ پوپولیشن اور مسئلہٴ آب وہوا تو بہرحال فہرست میں ہیں ہی۔ ایٹمی اور مسائل جنگ وجدل بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن فی الوقت اس عظیم مسئلۂ دیگر سے رو بہ رو کرانا ہے ہمارا مقصود ہے جس کا تعلق چھوٹے شہروں میں بسنے والی عوام الناس ہے۔ دراصل ہماری مراد مسئلۂ اشتہار سے ہے۔
یقیناً آپ کو اس پر حیرانی ہوئی ہوگی۔ لیکن ہمیں یقین کامل ہے کہ ذرا توقف ہی سے سہی آپ کو اس رائے سے اتفاق کرنا پڑےگا۔ کہ اس وقت دنیا کو درپیش مسائیل میں سر فہرست مسئلۂ اشتہار آپکی خاص توجہ کا حامل ہے۔
ان اشتہاروں کی تین اقسام ہیں۔ پہلی قسم کے اشتہار عموماً شہروں سے باہری حصہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کھیتی کی زمینوں کو گھیرنے کی گرز سے بنائی گئی دیواروں پر رقم ہوتے ہیں۔ پوشیدا امراض کے ایسے نایاب جملے ان دیواروں پر رقم کئے جاتے ہیں کہ ہماری ناقص رائے میں ان فکروں پر غالب کا وہ مصرع صادق آتا ہے،
’’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں!‘‘
ابھی پرسوں ترسوں کی بات ہے۔ شہر کے ایک حاجی صاحب اپنے نو بیاہتا داماد کو اپنے کھیت دکھانے لے گئے۔ تو دور سڑک پر کھڑے کھڑے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ وہ جو سامنے ’’بانجھ پن‘‘ کی دیوار دکھتی ہے، اسکے پیچھے سے وہ، وہاں، اس کوٹھڑی تک کی ساری زمین ہماری ہے۔ حاجی صاحب کا اشارہ اس کوٹھڑی کی طرف تھا کہ جس پر مایوس نہ ہونے کی اپیل کی گئی تھی۔
یہ تو چلیں داماد کا معاملہ ٹھہرا لیکن ہماری اصل ہمدردی سے تو ان شرفاء کے ساتھ ہے کہ جن کے بچہ نے ابھی ابھی اسکول جانا شروع کیا ہے اور سفر میں راستے بھر میل کے پتھروں، ٹرکوں پر لکھے زریں اقوال اور دیواروں پر کمزوریوں کے حوالے سے گزارشنامہ پڑھتا ہے اور گھر کے بزرگوں سے انکی وضاحت چاہتا ہے۔ اور جو نسل نوع انسانی اس تفکر عامہ کی ضرب سے بچ نکلے تو انکا محاصرہ وہ دوسری قسم کے اشتہار کر لیتے ہیں جو عموماً شہر کے حاشیے پر آباد گھروں کی دیواروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اول تو اس دورۂ دل فغاراں میں کون کسی کا پتہ بتاتا ہے۔ یا گوگل کے پیش نظر یہ جملہ بھی مناسب ہوگا کہ ’’آج کل پتہ پوچھتا بھی کون ہے؟‘‘
لیکن اگر اتفاقاً کسی کا پتہ دریافت کرنے کا موقع آ بھی جائے تو جواب ملتا ہے کہ فلاں صاحب تو وہ پتنجلی والے مکان میں رہتے ہیں۔ یا یوں کہ وہ سامنے ویگن آر والی دیوار فلاں صاحب ہی کی ہے۔ شرما جی کی دکان کو الٹراٹیک نے رنگ چھوڑا ہے۔ اور وہ وکیل صاحب کی چھت پر لگے عمول ماچو کے ہورڈنگ سے کپڑے سُکھانے کا کام لیا جاتا ہے۔
تیسری اور سب سے بے زبان نسل جن اشتہاروں کے زیر اثر پلتی اور جوان ہوتی ہے وہ اشتہار دیواروں پر لگے پوسٹروں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ گھروں کی دیوار لگے تمام اشتہارات کے سبب وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ گھر کس رنگ کا ہے؟ البتہ ان دیواروں کا حال ییلو پیجیس کا سا نظر آتا ہے۔ جس پر ہر طرف سیکڑوں نمبر لکھے ہیں۔ لیجئے دروازے کے ٹھیک اوپر کوئی محنتی اور انعامدار۔۔۔نہیں! ایماندار!
نہ جانے کس انتخاب کے امیدوار مسکرا رہے ہیں۔ جو آپکی توجہ اور ووٹ کے مشتاق ہیں۔ کھڑکی کی دائیں سمت ڈاکٹر صاحب بنا تکلیف کے دانت اور داڑھ اکھاڑنے کی نیت رکھتے ہیں۔ ان پوسٹروں کا ایک کمال یہ ہے کہ اگلا پوسٹر لگانے سے پہلے معقول جگہ تلاش کرنا اور سبق اشتہار کو اکھاڑ پھینکنا خلاف شریعت عمل مانا جاتا ہیں۔ ادھر، اوپر پتنالے کے پاس طلا اوپر کسی تعلیمی ادارے کا اور سرکس کے پوسٹر چسپا ہیں۔
پتنالے سے گرنے والے پانی سے آدھا پوسٹر گل کر گر گیا اور دونوں اشتہارات کی مشترکہ عبارت یوں بنی، ’’ملک کی فلاح وبہبود کے لیے اپنے نونہالوں کو۔۔۔(دھل گیا) بنائے۔۔۔ تین ناک والا جوکر۔
اسی طرح چاروں طرف آدھے ادھورے دو، تین، اور کبھی کبھی تو چار چار اشتہاروں کی مشترکہ عبارتوں سے آپ بیک وقت استفادہ کر سکتے ہیں۔
مثلاً، ’’پیٹ قبض کے مریض اب پریشان نہ ہوں، شرکت کریں اس عظیم الشان مشاعرے میں۔‘‘
’’حکومت وقت کے تشدد کے خلاف چاندنی بائی کا رنگیلاچترہار (چار گانوں پر)‘‘
‘‘ارنیا کا آپریشن کے لیے تشریف لائیں اور نئے بیچ میں ایڈمیشن لینے والو کے لیے ایک لیپ ٹاپ فری!‘‘
’’اس عظیم الشان جلسے میں فلاں فلاں عالم کی موجودگی میں بانجھ پن کا شرطیہ علاج‘‘
دیواروں پر اشتہاروں کا عالم یہ ہے کہ ان پر قسم کھانے بھر کی گنجائش موجود نہیں۔ گو کہ دروازہ، چوکھٹ، پتنالوں کے پائپوں اور کھڑکیوں تک پہ ان پوسٹر والوں کا کارنامۂ دل فریب چسپا ہے۔ مگر اس واضح حرمزدگی پر کیا کہئے کہ ایک پوسٹر والا ایکزوسٹ فین والے روشن دان پر اس طرح سے چپکا کر گیا ہے کہ رہے نام مالک کا۔
ماہرین کو اندیشہ لاحق ہے کہ دنیا کا خاتمہ انسانوں کی کثیر تعداد یا پانی کے گھٹنے سے نہیں، بلکہ ان اشتہاروں کی کثرت سے ہوگا۔ جبکہ کچھ مفکرین کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ تیسری جنگ عظیم کی وجوہات میں اسکا بھی کچھ رول ہوگا۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا مولوی اس پر چپ ہے۔ فاضل وقت اس پر کچھ نہیں کہتا۔ وہ یہ سوچ کر پریشان ہے کہ اسکی روایتوں میں قرب قیامت کی یہ وجہ بھلا کیسے چھوٹ گئی؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.