افیونی کی جنت
میر صاحب نے اپنے دونوں گھٹنوں کے اندر سے سر نکالتے ہوئے کہا، ’’بھائی سچ تو یہ ہے کہ غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دوچار بیٹھے ہیں۔ چند روزہ زندگی خدا اسی طرح کاٹ دے، پھر مرنے کے بعد تو خدا جانے ہم افیونیوں کا کیا حشر ہوگا۔‘‘
مرزا صاحب نے جو اپنی پیالی کے اندر گویا خود ہی حل ہو جانے کے قریب تھے خفیف سا ابھرتے ہوئے کہا، ’’مرنے کے بعد حشر کیا ہوگا۔ اماں جنت میں ہم افیونی نہ جائیں گے تو اور کون جائے گا۔ ہم نہ کسی کے اچھے میں نہ بُرے میں، نہ ہم کو چوری سے مطلب نہ کسی اور برے کام سے۔ بس ایک گوشہ میں بیٹھے ہو ئے اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ ہم کو تو سچ پوچھئے گناہ کرنے کی مہلت ہی نہیں ملتی اور یہی سب سے بڑا ثواب ہے کہ انسان گناہ نہ کرے۔ پھر بھلا جنت ہمارے لیے نہیں تو کیا ان لوگوں کے لیے ہے جو پینک کو تو برُا کہتے ہیں مگر دنیا بھر کی روسیاہیوں کو نہیں دیکھتے۔‘‘
خاں صاحب نے طلسم ہوشربا کی جلد کے اندر سے نکلتے ہوئے فرمایا، ’’سچ کہتے ہو بھائی مرزا ہم تو واقعی جنتی ہیں۔ سولہ آنہ جنتی اور جو ہم کو جنتی نہ سمجھے اس پر اسی کالی گولی کی مار پڑے۔‘‘
مرزا صاحب نے اپنی نیم وا آنکھوں سے خاں صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا، ’’اماں آج اس افیون اور ہم افیونیوں پر ہنسنے والے ہنس لیں، ہم کو بُرا کہنے والے خوب جی کھول کر بُرا کہہ لیں مگر جب جنت میں دیکھیں گے تو۔۔۔‘‘
میر صاحب نے چونکتے ہوئے کہا، ’’بھائی بات تو جب ہے کہ ہم افیونیوں کو جنت میں بھی یہی صحبت ملے اور یہی محفلیں گرم رہیں۔ اللہ ہی جانے کہ وہاں افیون بھی ملے گی یا نہیں۔‘‘
میر صاحب نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ کہا، ’’یہ بھی آپ نے ایک ہی کہی کہ وہاں بھی افیون ملے گی یا نہیں۔ بھائی یہ تو سمجھو کہ وہاں سوائے افیون کے اور ہوگا کیا۔ میں تم کو اپنا ہی ایک قصہ سناتا ہوں کہ میں نے کیوں کر ذرا اسی دھوکے میں جنت کی سیر کی اور کل حالات معلوم کرلیے۔ ہوا یہ کہ اب سے دور میرا انتقال ہوگیا۔‘‘
خاں صاحب نے تعجب سے پوچھا، ’’ایں کیا کہا انتقال ہوگیا؟ کیا تمہارا انتقال ہوچکا ہے؟‘‘
میر صاحب نے کہا، ’’ہاں ہاں بھائی انتقال ہوگیاتھا سنو تو سہی۔ بات یہ ہوئی کہ اوّل تو وقت کچھ ایسا آپڑا تھا کہ دو دن تک پینے کو نہ ملی۔ ایک غیرت دار افیونی کے لیے یہی موت ہے۔ دوسرے ایک عجیب دھوکا یہ ہوا کہ میرے ہی محلہ میں میرا ایک ہم نام قلعی گر رہتا تھا اس کو ہوا سرسام مگر نام کے دھوکے سے روح میری قبض کرلی گئی اور فرشتے مجھ کو لے کر سیدھے جنت میں پہونچے۔ بس کچھ نہ پوچھئے کہ میں نے وہاں کیا دیکھا۔ سب سے پہلے تو جنت کے دروازے ہی پر میرا پرانا دوست منجھو جس کا تین برس ہوئے انتقال ہوچکاہے ملا اور مجھ کو دیکھ کر تعجب سے پوچھا، ’’ارے بھائی میر صاحب تم کہاں؟‘‘
میں نے اس کو اپنے انتقال پُر ملال کی خبر وحشت اثر سنائی۔ اس کو بھی سخت صدمہ ہوا اور مجھ کو صبر کی تلقین کرنے لگا کہ مشیت ایزدی یہی تھی۔ اب رونے سے کیا ہوتا ہے، خدا تم کو نعم البدل دے گا وغیرہ۔ مگر پھر وہ پینک سے خود ہی چونکا اور اس نے کہا کہ اماں میر صاحب بھلا یہ افسوس کرنے یا رونے کا کیا مقام ہے؟ اچھا ہوا کہ تم مرگئے۔ خدا ہر افیونی کو مرنا نصیب کرے اور سب مرکر یہاں آجائیں۔ اب تو اس کی اس بد دعا پر مجھ کو بھی تعجب ہوا کہ آخر کہہ کیا رہا ہے۔ مگر اس نے میرے تعجب پر مسکرا کر کہا، میر صاحب کچھ کو خبر بھی ہے کہ تم جنت میں ہو۔ اس جنت میں جس کو دیکھ کر تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی۔ چلو تم کو ذرا جنت کی سیر کراؤں۔
اس کے اس کہنے پر میں داروغۂ جنت کے دفتر تک گیا بلکہ سیدھا اس کے ساتھ ہوگیا اور اس کے پیچھے پیچھے جنت میں داخل ہوگیا۔ میں تم سے کیا بتاؤں کہ میں نے وہاں کیا دیکھا۔ اماں دیکھتا ہوں کہ نہایت کشادہ سڑکوں پر دو رویہ افیون کے نہایت عالیشان محلات کھڑے ہوئے ہیں اور سڑکوں کے دونوں طرف پوستے کے درخت قطار درقطار لگے ہوئے ہیں۔ جن سڑکوں پر ہم لوگ چل رہے تھے وہ سنگ مرمر کی معلوم ہوتی تھیں مگر سفید رنگ کی باریک ریت اور سفید چمکدارڈھیلے بھی جابجا پڑے ہوئے تھے۔ میرے دوست منجھو مرحوم نے کہا کہ اس سڑک کو بھی سمجھئے کہ کس چیز کی ہے۔ میں نے ابھی کوئی جواب بھی نہ دیاتھا کہ اس نے مٹھی بھر دھول اٹھاکر میرے منھ میں ڈال دی۔ بس سمجھ لو کہ منھ سے لے کر معدہ تک شیرینی کی لہر دوڑ گئی۔ اماں ایسی میٹھی شکر تو میں نے کبھی کھائی ہی نہیں تھی۔ میں تعجب سے آنکھیں پھاڑ کر منھ کھول دیاتو منجھو مرحوم نے ایک ڈھیلا میرے منھ میں دے دیا۔ یہ دراصل مصری کا ڈلا تھا۔ بھائی ایسی مصری اس دنیا میں سوروپیہ تولہ بھی ڈھونڈھو تو نہ ملے۔ مطر میں پسی ہوئی، برف سے زیادہ ٹھنڈی، روئی سے زیادہ ہلکی اورایسی مفرح کہ میں کیا کہوں۔ بہرحال میں مزے لے لے کر مصری کھاہی رہا تھا کہ منجھو مرحوم نے مسکرا کر پوچھا، کہو کچھ شغل ہوگا؟ میں تو چاردن کا ترسا ہوا تھا ہی، نہایت اشتیاق کے ساتھ کہا کہ ’’نیکی اور پوچھ پوچھ۔‘‘
منجھو مرحوم نے وہیں پر ٹھہر کر کہا، ’’تو پھر تکلیف کس بات کا ہے۔ آخر یہ سب کس کے لیے ہے۔ جس عمارت سے چاہو اور جتنی چاہو افیون نوچ لو اور اگر گھلی گھلائی چاہتے ہو تو وہ دیکھو سامنے حوض ہے جس میں تم غوطہ تک لگا سکتے ہو۔‘‘
افیون کی یہ کثرت دیکھ کر مجھ کو ایک قسم کا اطمینان سا ہوگیا اور میں نے اسی کو مناسب سمجھا کہ پہلے ذرا یہاں کی سیر ہوجائے اس کے بعد اطمینان سے بیٹھ کر شغل ہوگا۔ چنانچہ منجھو مرحوم کے ہمراہ چلتے چلتے میں ایک باغ میں پہونچا جہاں گنڈیریوں کے نہایت شاداب درخت قطاروں میں لگے ہوئے تھے۔ یہ گنے کے درخت نہ تھے بلکہ چھلی ہوئی اور کٹی ہوئی گنڈیریوں کے درخت تھے، بس یہ سمجھ لو کہ ان کودیکھتے ہی منہ میں پانی بھر آیا۔ منجھو مرحوم نے فوراً ایک گنڈیری توڑ کر جو مجھ کو کھلائی تو آنکھیں کھل گئیں۔ اے سبحان اللہ کیا تعریف کی جائےاس گنڈیری کی۔ معلوم یہ ہوا کہ برفی کی لوزات میں انگور کا رس کسی نے معطر اور ٹھنڈا کرکے بھر دیا ہے یا پورا خطۂ کشمیر، دنیا بھر کی شیر ینیوں میں لپٹ کر اور تمام دنیا کی خوشبوؤں میں بسنے کے بعد سمٹ کر گنڈیری بن گیا ہے۔ میں ابھی گنڈیری کالطف ہی لے رہا تھا کہ منجھو مرحوم نے مجھ سے کہا،
’’میر صاحب، وہ دیکھو سامنے چا ئے کی نہر بہتی ہے۔‘‘
میں نے حیرت سے کہا، ’’چا ئے کی نہر۔‘‘ تو منجھو نے مجھ کو نہر کے طرف چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا،
’’جی ہاں! یہ چائے کی نہر ہے۔ اس میں نہایت اعلیٰ درجہ کی کشمیری چائے ہر وقت موج درموج بہتی ہے۔ اس نہر پر تین چار نہایت خوب صورت پل بھی بنائے گئے ہیں۔ ایک پل حلوہ سوہن کا ہے جو اس قدر خوش ذائقہ حلوہ سوہن کا بنا ہوا ہے کہ دہلی کا حلوہ سوہن آپ بھول جائیں گے۔ دوسرا پل رامدا نے کی لیّا کا ہے جس کو نہایت نزاکت سے بنایا گیا ہے۔ تیسرا پل قلاقند کا ہے۔ ذرا اس پل کا ایک ٹکڑا کھا کر دیکھو کس قدر مزیدار ہے۔ چوتھا پنچ میل مٹھائی کا ہے۔ ان پلوں پر جا کر تم اس نہر کی سیر کر سکتے ہو۔‘‘ میں آئینہ حیرت بنا ہوا منجھو مرحوم کے پیچھے پیچھے نہر تک پہنچ گیا اور حلوہ سوہن کے پل کے اوپر جاکر نہر کی سیر کرنے لگا۔ اس نہر میں واقعی نہایت لاجواب قسم کی کشمیری چائے کا دھارا بہہ رہا تھا۔ جس میں برابر کی بالائی پڑی ہوئی تھی اور خوشبوسے باپ دادا تک کی روحوں کے دماغ معطر ہوئے جاتے تھے۔ پھر اس نہر کا منظرعجیب وغریب تھا۔ کہیں تو سنبوسوں کی خوب صورت کشتیاں رواں تھیں، کہیں شیر مالوں کے بجرے لنگر نداز تھے اور پھر لطف یہ کہ اس نہر کا ہر بھنور ایک باقر خانی تیار کرتاتھا اور ہر حباب سے ایک بتاشہ بنتا تھا۔ میں دیر تک اس منظر میں گم رہا۔ آخر منجھو مرحوم نے مجھ سے کہا کہ
’’چلو بھی بہت کچھ دیکھنا ہے۔ ریوڑیوں کی بارہ دری، گزک کا قلعہ، فیرینی کا کنواں، شربت کا آبشار، گاجر کے حلوہ کی دلدل، گڑکا پہاڑ وغیرہ۔‘‘
میں ان میں سے ہر چیز کا نام سن کر سخت حیران ہوا اور نہایت خاموشی کے ساتھ منجھو مرحوم کے ساتھ چل دیا۔ سب سے پہلے منجھو مرحوم نے مجھ کو ریوڑیوں کی بارہ دری دکھائی۔ اس بارہ دری کی ادنیٰ تعریف یہ ہے کہ دیکھو تو دیکھتے رہ جاؤاور کھاؤ تو ڈکارتک لینے کا ہوش باقی نہ رہے۔ چھوٹی اور بڑی خوشبو دار ریو ڑیوں سے اس بارہ دری کو کچھ اس طرح بنایا گیا تھا کہ ریوڑیوں پر جوہرات کا شبہ ہوتا تھا اور معلوم یہ ہوتا تھا کہ پچہ کاری کے فن کو اس عمارت پر ختم کر دیا گیا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ اس عمارت کے ستون آپ کھائیے، مگر وہاں کوئی کمی نہ ہوتی تھی اور جو ریوڑی جس جگہ سے آپ کھائیں اس کی جگہ ویسی ہی دوسری ریوڑی موجود۔ اگر یہ صنعت نہ رکھی گئی ہوتی تو اس بارہ دری کو لوگ کب کے ہضم کرچکے ہوتے۔ ریوڑیوں کی بارہ دری کے بعد گزک کا قلعہ بھی دیکھا۔
اماں یہ آگرہ اور دہلی کے قلعے اس کے سامنے بچوں کا کھیل معلوم ہوتے ہیں۔ اس قدر عظیم الشان قلعہ کہ جیسے پہاڑ کا پہاڑ کھڑا ہوا ہے اور کیا مجال کہ گزک کے علاوہ اس میں کوئی اور چیز لگی ہو۔ میں نے اس قلعہ میں بھی ایک اینٹ نکال کر کھائی اور آج تک اس کا مزہ بھولا نہیں ہوں۔ حدیہ ہے کہ میں آگرہ وغیرہ کی گزک کو بھی اب نہیں چھوتا۔ جس کو سب بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ گزک کا قلعہ دیکھنے کے بعد فیرینی کے کنویں پر گیا۔ اس کو کنواں کیوں کہا جائے یہ سمجھو کہ اچھی خاصی باؤلی ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس کنویں میں نہایت نفیس قسم کی خوشبو دار فیرینی بھری ہوئی ہے۔ جس پر چاندی کے ورق نہایت سلیقہ سے لگے ہوئے ہیں اور جس طرح عام طور پر کنوؤں میں کائی جم جاتی ہے۔ اسی طرح اس کنویں میں بھی کائی جمی ہوئی تھی۔ مگر وہ کائی پستے اور بادام کی ہوائیوں کی تھی۔ منجھو مرحوم نے اس کنویں سے ایک سونے کا ڈول کھینچا اور اب جو میں اس فیرینی کو چکھتا ہوں تو روح تازہ ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ شکر میں لپیٹ کر چوپاٹی کھاگئے۔ بھائی ایسی کھیر تو میں نے کبھی خواب میں نہ دیکھی تھی۔ حد یہ ہے کہ اب تک زبان میٹھی ہے۔ خیر صاحب اس کنوئیں سے چل کر شربت کا آبشار دیکھا۔ پھر گاجر کے حلوہ کی دلدل دیکھی اورآخر میں گڑکا پہاڑ دیکھا۔ مگر سچ پوچھو تو اس وقت حقہ کی کمی نہایت بری طرح محسوس ہورہی تھی۔ چنانچہ جیسے ہی میں نے منجھو مرحوم سے حقہ کا ذکر کیا، اس نے فوراً ہی اپنے جیب سے ایک طلائی نے نکال کر کہا، ’’لو پیو۔‘‘
میں نے کہا، ’’آخر کیا پیوں؟ نہ حقہ نہ چلم، تم بھی بڑے مسخرے ہو۔‘‘
تو منجھو مرحوم نے نہایت متانت سے کہا، ’’بھائی یہ حقہ ہی ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ جنت ہے، یہاں آگ نہیں آسکتی۔ لہٰذا اس کی چلم تو ہے دوزخ میں اور نے آپ کے ہاتھ میں، دوزخ کے فرشتے برابر چلم بھرتے رہتے ہیں۔ ذرا تم پی کر تو دیکھو۔‘‘
اب جو میں اس نے کا ایک کش لیتا ہوں تو آپ سے کیا کہوں کہ میرا کیا حال ہوا۔ ایسا خمیرہ تو میں نے کبھی پینا کیا معنی کبھی گلستاں بوستاں میں بھی نہ دیکھا تھا۔ معلوم یہ ہوا کہ جیسے اس کی خوشبو میرے جسم کے ہر حصہ میں دوڑ گئی۔ میں دیر تک حقہ پیتا رہا۔ آخر مجھ کو خیال آیا اور میں نے منجھو مرحوم سے کہا کہ ’’ایسا حقہ مجھ کو کہاں سے مل سکتا ہے؟‘‘
منجھو نے کہا کہ’’یہ سب چیزیں جنت کے داروغہ سے مل سکتی ہیں۔‘‘ اب تو مجھ کو بھی جنت کے داروغہ سے ملنے کا خیال پیدا ہوا او رمیں سیدھا ان کے دفتر کی طرف روانہ ہوا۔ راستہ میں ایک عالیشان افیون کی عمارت دکھا کر منجھو مرحوم نے کہا،
’’یہ جنت کا کتب خانہ ہے۔ اس میں طلسم ہو شربا، الف لیلیٰ، قصہ گل بکاؤلی، قصہ طوطا مینا اور تمام ان کتابوں کا عجیب وغریب ذخیرہ ہے جو افیونیوں کے ذوق کی سمجھی جاتی ہیں، خصوصاً طلسم ہوشربا کی باقی دوسو پچاس جلدیں جو دنیامیں نایاب ہیں، کتب خانہ میں محفوظ ہیں۔ مگر مجھ کو تو اس وقت داروغۂ جنت سے ملنے کی جلدی تھی۔ لہٰذا کتب خانہ کی عمارت کو باہر ہی سے دیکھتا ہوا داروغۂ جنت کے دفتر پہونچ گیا۔ منجھو مرحوم کو باہر ہی چھوڑ کر میں خود دفتر میں گیاتو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں بظاہر تو کوئی نہیں ہے مگر میرے پہونچتے ہی ایک آواز آئی کہ’’آپ کا نام؟‘‘ میں نے ڈرتے ہوئے کہا،
’’میر ؔجعفر ہے اس غلام کا نام۔‘‘ پھر آواز آئی۔ ’’باپ کا نام؟‘‘ میں نے حافظہ پر زور دیا مگر کچھ یاد نہ آیا تو گھبرا کر کہہ دیا، ’’غلام کو یاد نہیں۔‘‘
پھر آواز آئی’’پیشہ؟‘‘
میں نے کہا، ’’صرف افیونی ہے یہ ناچیز۔‘‘
اس مرتبہ آواز ذرا تیز آئی کہ ’’کیا تم میر جعفر قلعی گرابن میر باقر ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے گھبرا کر کہا، ’’ہرگز نہیں، وہ تو میرا ہم محلہ ایک غیر افیونی ہے۔‘‘ اس کے جواب میں مجھ کو یہ خبر سنائی گئی کہ میری روح غلطی سے قبض کرلی گئی ہے۔ دراصل موت آئی تھی اس قلعی گر کی لہٰذا اب جو میں وہاں سے پھینکا جاتا ہوں تو اپنی چارپائی پر پڑا ہواتھا اور سب کہہ رہے تھے کہ ’’میر صاحب مرے نہیں بلکہ پینک میں ہیں۔‘‘
خاں صاحب نے ایک ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا، ’’اپنی اپنی تقدیر ہے بھائی۔ تم کو جیتے جی جنت مل گئی۔‘‘
مرزا صاحب نے کہا، ’’خیر بھئی معلوم یہ ہوا کہ جنت بھی ہے کام کی چیز۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.