Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اے دلربا تیرے لیے

شوکت تھانوی

اے دلربا تیرے لیے

شوکت تھانوی

MORE BYشوکت تھانوی

    شاعر چلغوزے کھا رہا تھا۔۔۔

    سامنے کی چھت پر اس کی محبوبہ گنّا چوس رہی تھی۔۔۔

    اور دونوں کے درمیان ایک گہری اور تنگ گلی حائل تھی۔ وہ سنگ دل گلی جس کی گہرائیاں صرف روپے سے پاٹی جاسکتی تھیں۔ شاعر کے افکارِ عالیہ اس خلیج کو پر نہیں کرسکتے تھے اس لیے کہ دنیا ابھی اتنی فن شناس نہیں ہوئی ہے کہ وہ اس چلغوزے کھانے والے اور کان پر بجھی ہوئی بیڑی رکھنے والے فن کار کی منزلت کا اندازہ کر سکے۔

    وہ اپنی محبوبہ کی شان میں ہر روز ایک نئی نظم کہتا اور خود ہی اس کے ترنم میں ہچکولے کھاکر رہ جاتا۔ کاش اس کی محبوبہ کا ناشناس باپ عرائض نویس ہونے کے علاوہ تھوڑا بہت سخن فہم بھی ہوتا۔ اور اس بات پر فخر کرسکتا کہ اتنا بڑا فن کار خود اس کی دختر کو موضوغ شعر بنائے ہوئے ہے۔ مگر وہ سخت کور ذوق تھا، ناک پھنگی پر عینک لٹکائے ہوئے دن بھر کچہری کے احاطہ میں عرائض نویسی کرتے کرتے اس میں لطافت کی حس ہی باقی نہ رہی تھی۔

    مگر شاعر کو نہ آغاز کا کبھی پتہ چلا اور نہ انجام کی فکر نے کبھی ستایا۔ اس کو تو کچھ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا اس کا مقصدِ حیات صرف یہ ہے کہ اپنی محبوبہ کو دیکھے اور اپنے افکار کو اس کے تصور سے جگمگاتا چلا جائے۔ آج اس نے اپنی محبوبہ کو پہلی مرتبہ گنّا چوستے دیکھا۔ چلغوزے کھانے کی رفتار پہلے دھیمی پڑی پھر یکایک تیز ہوگئی اور آخر اس نے مٹھی بھر چلغوزے ایک طرف رکھ کر کان پر لگی ہوئی بیڑی سلگائی۔ اس وقت شعریت اس کے جذبات میں انگڑائی لے رہی تھی۔ اس کو محسوس ہوا کہ عرش سے اس کے لیے سامانِ نو آرہا ہے اور فلک کے دروازے اس پر کھل گئے ہیں اس نے جھوم کر قلم اٹھالیا۔ کچھ گنگنایا۔ کچھ سر دھنا اور یکایک ایک ڈھلا ہوا مصرعہ صفحۂ قرطاس پر آگیا۔

    ’’اف بنتِ نے شکرتری شکرّ فروشیاں‘‘

    وہ گنگناتا رہا جھومتا رہا۔ سردھنتا رہا۔ بیڑی پر بیڑی پیتا رہا۔ یہاں تک کہ دوسرا مصرعہ نازل ہوا۔ اور مکمل شعر صفحۂ قرطاس پر ذی روح نظر آنے لگا۔

    اف بنتِ نے شکر تری شکّر فروشیاں

    شیریں تری نگاہ ہے میٹھی تری زباں

    اور اس نے جلدی جلدی دو تین چلغوزے کھائے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی محبوبہ کا گنّا ختم ہونے سے پہلے نظم مکمل ہوجائے وہ ٹہل ٹہل کر اپنا شعر گنگنا رہا تھا۔ کبھی کسی لے میں کبھی کسی دھن میں کہ وہ یکایک آنکھ بند کرکے کھڑا ہوگیا۔ کچھ بڑبڑایا کچھ سرکو جھٹکا دیا۔ پھر کچھ گنگناتا ہوا دوڑا کاغذ کی طرف اور دوسرا شعر کاغذ پر بکھیردیا،

    ہر اک ادا میں رس ہے ہر اک بات میں مٹھاس

    کیوں تلخیوں کا پھر ہو گذر تیرے آس پاس

    اور اب سرپکڑ کر وہیں بیٹھ گیا۔ یہ علامت یا تو الہام کی تھی یا واقعی اس کا جی متلا رہا تھا۔ پنسل سےاس نے ایک بطخ کی تصویر بنائی جو کچھ خرگوش سے ملتی جلتی تھی اور یکایک پنسل رکھ کر اس نے پھر بیڑی کے دم لینا شروع کردیے۔ یہاں تک کہ اس کو پھر قلم اٹھانا پڑا۔ اور بیڑی کا ایک لمبا کش لے کر کاغذ پراس طرح دھواں چھوڑا کہ اسی پر دے میں تیسرا شعر بھی کاغذ پر منتقل ہوگیا جو دھواں چھٹنے کے بعد پڑھا جا سکا۔

    شہد و شکر سے بڑھ کے ترا ہر خیال ہے

    پھر بھی میں تلخ کام ہوں یہ بھی کمال ہے

    اس نے تینوں شعر جھوم جھوم کر سلسلہ وار اپنے خاص ترنم میں پڑھے اور تیسرے شعر کے بعد ہی اس نے ظلم اٹھاکر چوتھا شعر بغیر بیڑی پئے لکھ دیا،

    تیرے لیے مٹھاس زمانے کی اور رس

    مجھ تلخ کام کے لیے غم تیرا اور بس

    نظم اب مکمل تھی اور اس کی محبوبہ کا گنّا بھی ختم ہوچکا تھا۔ چنانچہ وہ اٹھی، اپنا دوپٹہ جھاڑا چپچپاتے ہوئے ہاتھ اپنے گھنیر سے بالوں پر پھیرے اور ایک ٹانگ سے اچکتی ہوئی کوٹھے سے نیچے اترگئی۔ شاعر نےایک آہ سرد بھری۔ اپنے اشعار پر نظر ڈالی اور آسمان کی طرف حسرت سے تکنے لگا کہ اسے چرخ ستمگار دیکھ لیا تونے کہ ان آبدار موتیوں کا مول کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ یہ لعل و جواہر یوں ہی انمول پڑے کنکر پتھر کی طرح بیکار رہیں گے۔ وہ سوچتا رہا۔ دیر تک سوچتا رہا۔ اس کا سلسلۂ خیال دور بہت دور بلکہ اس سے بھی دور تک جاپہنچا۔ اور جب وہ دولڑتی ہوئی چڑیوں کے اپنے سرپر گرنےکی وجہ سے چونکا تو اس کی دنیا ہی بدل چکی تھی۔ وہ طے کرچکا تھا کہ اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے کے لیے وہ روپیہ بھی جمع کروں گا۔ جو کبھی میرا موضوع نہیں رہا ہے۔ میں جنس ہنر بیچوں گا۔ میں قصیدے لکھوں گا۔ میں بڑے بڑے لوگوں کے مرنے کا انتظار کروں گا تاکہ ان کی وفات کے تاریخی قطعے نظم کروں۔ میں ہر صبح پیدایش و اموات کے میونسپلٹی والے منشیوں سے ملاکروں گا تاکہ معلوم ہوسکے آج بڑے آدمی کے یہاں ولادت ہوئی ہے تاکہ تہنیتی نظم لکھوں۔ اور اب میں مشاعرے میں جانے کی فیس لیا کروں گا۔

    شاید شاعر کی دعا قبول ہوگئی۔ اسی وقت کسی نے اس کا دروازہ کھٹکھٹایا اور شاعر بیڑی بجھا کر کان پر لگاتا ہوا نیچے اترآیا۔ آنے والے ایک مشاعرے کے منتظمین تھے جو اپنے مشاعرے کے لیے شاعروں کی بھرتی کرنے نکلے تھے۔ لمبے لمبے لفافے ان کے ہاتھ میں اور بکھرا ہوا تبسم ان کے چہروں پر۔ شاعر نےاپنے دروازے کے سامنے ہی گلی میں ان کا خیرمقدم کیا۔ ایک صاحب نے کارڈ پیش کرتے ہوئے بڑے انکسار سے فرمایا،

    ’’یہ مشاعرہ بڑی تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ پچھلے سال اس مشاعرے میں صرف مقامی شاعر آئے تھے مگر اس مرتبہ اطرافِ عالم سے مشاہیر شعرا تشریف لا رہے ہیں۔ چائے کا انتظام بھی پرتکلف ہوگا۔ پچھلے سال شعرا کو چائے میں شکر کی کمی کی شکایت رہ گئی تھی۔ لہٰذا اب کے ہم نے خاص کوٹا حاصل کرلیا ہے شکر کا اور سگریٹ بھی اب کے ہماری مجلس انتظامیہ نے طے کیا ہے کہ کم سے کم پاسنگ شو ضرور ہو۔‘‘

    دوسرے صاحب نے فرمایا۔ ’’طرحیں ایک درجن ہیں اور اس کا بھی آپ کو اختیار کہ جس طرح کا ہے قافیہ جس طرح میں رکھ لیں۔ پھر بھی اگر زحمت ہو تو غیر طرح ہی سہی۔‘‘

    تیسرے صاحب کیوں چپ رہتے وہ بھی بولے۔ ’’کوشش کی گئی ہے کہ اس مرتبہ سامعین سے شعرا کی تعداد بڑھنے نہ پائے۔ صرف ان ہی شاعروں کو پڑھنے کی اجازت دی جائے گی جو یا تو مدعو ہوں یا اپنے اپنے حلقہ کے پولیس اسٹیشن سے اس بات کی تصدیق کراکے لائیں کہ ان کا کلام مالِ مسروقہ نہیں ہے۔ اور وہ واقعی شاعر ہیں۔ مگر آپ کے لیے یہ قید نہیں۔ آپ تو ماشاء اللہ مانے ہوئے ہیں۔‘‘

    شاعرنے بہت غور سے سب کچھ سنا مگر وہ اب طے کرچکا تھا کہ بغیر فیس کے کسی مشاعرے میں نہ جائے گا۔ اس وقت اس کی نگاہوں میں اس کی محبوبہ کا تصور رقص کر رہا تھا۔ اس نے بڑی متانت سے کہا۔

    ’’آپ کی اس دعوت کا شکریہ مگر میں اپناایک اصول بناچکا ہوں کہ شاعر کے وقت کی بھی آخر کچھ نہ کچھ قیمت ہوتی ہے۔‘‘

    ان لوگوں نے کورس میں کہا۔ ’’قیمت؟‘‘

    شاعر نے کہا، ’’جی ہاں قیمت۔ اور میں طے کرچکا ہوں کہ بغیر کچھ لیے کسی مشاعرے میں نہ جاؤں گا۔

    ایک صاحب نے کہا۔ ’’مثلاً۔‘‘

    شاعر نے اب تک خود اپنا نرخنامہ مرتب نہ کیا تھا۔ نہ ڈسکاؤنٹ کے قواعد مرتب تھے۔ نہ کمیشن کے اصول مقرر، پھر بھی اس نے اس طرح کہا گویا سب کچھ طے ہے۔

    ’’دیکھیے اگر آپ آمدرفت کے لیے سواری کا خود انتظام فرمائیں تو صرف شرکتِ مشاعرہ کا ہدیہ میں دس روپیہ قبول کرلوں گا۔ بشرطیکہ مجھ سے صرف ایک ہی غزل یا نظم سنی جائے۔ اور اگر ایک سے زیادہ چیزیں مجھے سنانا پڑیں تو نئی نظم یا غزل پانچ روپیہ مزید۔‘‘

    ایک صاحب نے کچھ ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔ ’’مگر قبلہ جیسا کہ آپ کو اس کارڈ سے معلوم ہوگا یہ مشاعرہ تو یتیم خانے کی طرف سے ہو رہا ہے۔‘‘

    دوسرے صاحب بولے، ’’صرف کارڈوں کی چھپوائی کا بار اس قدر زیادہ ہےکہ آئندہ سے غالباً ہم لوگ سلیٹ پر دعوت نامہ لکھ کر گشت کرادیا کریں گے۔‘‘

    تیسرے صاحب نے کہا، ’’مشاعرے میں ٹکٹ ضرور رکھا ہے تاکہ یتیموں کی کچھ امداد ہوجائے مگر بے شمار لوگ بیرنگ بھی آجائیں گے۔‘‘

    شاعر نے اپنے اصول پر سختی سےقائم رہ کر کہا ’’درست ہے مگر اصول بھی کوئی چیز ہے۔‘‘

    ایک صاحب نے دوسرے صاحب سے کچھ سرگوشی کرنے کے بعد کہا۔ ’’اچھا قبلہ تھوڑی سی ترمیم فرماہی دیجیے اپنے اصول میں۔‘‘

    شاعر تو نامید ہوچکا تھا اس نے جلدی سے کہا۔ ’’ہاں ہاں فرمائیے۔‘‘

    وہی صاحب بولے۔ ’’ہدیہ دس کے بجائے پانچ رکھیے۔ البتہ اگر ایک سے زیادہ چیزیں آپ سے سنی گئیں تو فی غزل یا نظم دس روپے رکھ لیجیے۔‘‘

    شاعر نے کہا، ’’مگر اس میں تو آپ کا نقصان ہے۔‘‘

    وہ صاحب بولے۔ ’’جی نہیں ہم اپنے مشاعرے کا رنگ سمجھتے ہیں اس لیے ہم صرف یہی ترمیم بلکہ آپ کے اصول میں ذراسا ردوبدل چاہتے ہیں۔‘‘

    دوسرے صاحب بولے۔ ’’اور قبلہ اتنی رعایت اور دیجئے کہ سواری کا انتظام خود ہی فرمالیجیے۔‘‘

    شاعر ممکن تھا انکار کرجاتا کہ اس کی محبوبہ کا تصور پھر نگاہوں کے سامنے رقص کرنے لگا۔ لہٰذا وہ راضی ہوگیا۔ منتظمین نے پانچ روپے کا نوٹ شاعر کے ہاتھ پر رکھا اور شاعر سےرسید لکھواکر رخصت ہوگئے۔

    اب شاعر خوش تھا۔ اس نے اپنی شاعری کی پہلی کمائی کی تھی اور اب اس کا دل گواہی دے رہا تھا کہ اگر یہی رفتار ہے، تو اس کی محبوبہ اس سے بہت دنوں تک بچھڑی نہیں رہ سکتی۔ اس گہری اور تنگ گلی کومشاعروں کی یہ آمدنی پاٹ کر رکھ دے گی۔ اور وہ اپنی محبوبہ سے ایک ہی سطح پر مل سکے گا۔

    مشاعرے کے دن شاعر نے دن بھر کپڑے دھوئے اور جوتے کو ٹھیک کرایا۔ شام کو وہ اپنی بیاض لے کر چار میل کی چہل قدمی کرتا ہوا مشاعرہ گاہ تک اس حالت میں پہنچا کہ جوتے کی تمام مرمت کی قلعی کھل چکی تھی۔ مشاعرے کا پنڈال حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شاعر کو منتظمین نے شعرا کی صف میں پہنچا دیا۔ اور مشاعرہ شروع ہوگیا۔ تھوڑی ہی دیر میں شاعر کانام پکارا گیا اور وہ ایک خاص وقار سے اٹھ کر مائیکرو فون تک آیا۔ تمام پنڈال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ شاعر نے گلا صاف کرکے مائیکروفون میں منہ ڈالتے ہوئے کہا۔

    ’’حضرات میری نظم کا عنوان ہے۔ ’’ایک حسینہ کو گنّا چوستے دیکھ کر۔‘‘

    حاضرین نے قیامت خیز تالیاں بجائیں اور چند اوباش قسم کے لوگ ہنس بھی دیئے۔ ایک آواز آئی۔

    ’’کیا گنڈیری والے جمع کئے ہیں۔‘‘

    جناب صدر نے میز پر ہاتھ مار کر کہا۔

    ’’خاموش! حضرات خاموش!‘‘

    شاعر نے بڑے ہی لحن سے نظم شروع کی،

    اف بنتِ نے شکرتری شکر فروشیاں

    اور پنڈال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ شاعر نےاس طوفان کے تھمنے کا انتظار کرنےکے بعد کہا۔

    ’’حضرات میں آپ کے سامنے نہ کوئی تماشہ دکھارہا ہوں نہ کوئی لطیفہ عرض کررہا ہوں۔ پھر اس ہنسی کے معنی آخر کیا ہیں؟‘‘

    ایک آواز آئی۔ ’’اف بنتِ نے شکر۔‘‘

    پنڈال پھر قہقہوں سے گونج اٹھا۔ منتظمین میں سے ایک صاحب نے شاعر کے قریب آکر کہا،

    ’’آپ کوئی غزل شروع کردیجیے!‘‘

    شاعر نے کڑے تیوروں سے کہا۔ ’’جناب والا! میں غزل گو شاعر نہیں ہوں۔ اور اب تو میں کچھ بھی پڑھنا نہیں چاہتا۔‘‘

    منتظم صاحب بولے۔ ’’ویسے آپ کی مرضی مگر آپ تو منہ مانگا معاوضہ بھی لے چکے ہیں۔‘‘

    اور شاعر کی نگاہوں کے سامنے اس کی محبوبہ کا تصور پھر رقص کرنےلگا۔ اس نے حاضرین کے شور کی پرواہ کیے بغیر اپنی نظم بڑے جوش و خروش سے شروع کردی، تالیوں اور قہقہوں کی قیامت برپا تھی مگر شاعر نظم پڑھ رہا تھا۔ اس لیے کہ اب وہ پانچ کا نوٹ واپس نہ کرسکتا تھا۔ اس میں سے کچھ صرف ہوچکا تھا۔ اور باقی سے اس کو اس گہری اور تنگ گلی کی خلیج کو پاٹنا تھا جو اس کے اور اس کی محبوبہ کے درمیان حائل تھی۔

    جس وقت شاعر نظم پڑھ کر واپس آیا ہے، وہ پسینہ میں شرابور تھا۔ منتظمین اس کو دانت پیس پیس کر گھور رہے تھے۔ اور جناب صدر نے تو کئی مرتبہ نظم خوانی کے دوران یہ ارادہ کیا تھا کہ شاعر کے منہ پر پٹی باندھ کر پنڈال سے باہر نکال دیں۔

    مگر اب مشاعرہ کا ہنگامہ ختم ہوچکا تھا۔ نہایت سکون سے ایک صاحب کی غزل سنی جارہی تھی اور شاعر پانچ روپے کے بار سے ہلکا ہوکر جیب سے نکال نکال کر چلغوزے کھا رہا تھا۔ اس کی محبوبہ اس کے تصور میں گنّا چوس رہی تھی۔ اور اس کو محسوس ہو رہا تھا کہ درمیانی گلی کا خلاء تھوڑا بہت پر ہوچکا ہے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے