لیجئے پہنچ گئے۔ ابھی پورا ایک گھنٹہ باقی تھا بس کے چلنے میں۔ یہ ایک اپنی طرح کی اکیلی بس ہے جو دلی سے میرے شہر کے لیے چلتی ہے۔ عید کی وجہ سے ایک گھنٹہ پہلے بھی بس تقریباً آدھی بھر چکی تھی۔ میں جیسے ہی بس میں داخل ہوا ایک بزرگ چلائے، دیکھ کے، دیکھ کے۔۔۔! اس پوٹلی پے نہ بیٹھیو!
میں نے کہا چاچا فکر نہ کریں، بس میں ابھی کافی گنجائش ہے میں وہاں بیٹھ رہا ہوں۔ لیکن چاچا نے میری بات ہی نہ سنی اور وہ تو بس پوٹلی کے پاس بیٹھے اسکو دیکھتے رہے۔ خدا جانے کیا تھا اس پوٹلی میں؟ خیر۔۔۔ میں ایک کھڑکی کی سیٹ پر جا بیٹھا۔
جیسے جیسے وقت قریب آ رہا تھا، لوگ تیزی سے آ رہے تھے۔ تبھی ایک عورت، جو تعداد میں ’’ایک‘‘ اور وزن اور وسعت کے اعتبار سے ’’دو یا سوا دو‘‘ کے برابر رہی ہوگی، میرے نزدیک تقریباً لڑھکتی ہوئی آ گری۔ اور اس سے ٹھیک پہلے کہ میں برملا نازل ہونے والے اس سانحہ سے خود کو متعارف کرا پاتا اس نے ہاتھ کے دو بڑے بڑے بیگوں میں سے لال والا میری گود میں پھینک دیا۔ میں عجیب طرح سے پھنس گیا، سچویشن میں بھی اور سیٹ میں بھی۔
ابھی ذہن ادھر سے فارغ بھی نہ ہوا تھا کہ چاچا نے ایک شور مچا دیا۔ دو نوجوان، ابھی بس میں چڑھے ہی تھے۔ پیچھے والے نے آگے چلنے والے کو کہا کہ ’’جمیل بیٹھ جا، بیٹھ جا اسی پوٹلی پہ بیٹھ جا۔ سیٹ نہ ملے گی اب۔‘‘
اس سے پہلے کہ جمیل کی وہاں تک رسائی ہوتی، چاچا آکر پوٹلی پر بچھ گئے۔ وہ تو موقع پر کنڈیکٹر آ گیا، ورنہ معاملہ نہ نبٹتا۔ خیر وہ دونوں پیچھے آکر کھڑے ہو گئے۔ اور چاچا گھورتے رہے۔
بس بھر گئی۔ لیکن ابھی کہاں؟
ابھی تو لوگ مسلسل مانند سیل رواں آئے جاتے تھے۔ بس بھری۔ پھر اور بھری۔ پھر ۔۔۔اور! اور حد یہ ہو گئی کہ ڈیڑھ افراد کی گنجائیش والی تقریباً ہر سیٹ پر تین تین لوگ بیٹھے۔ بھلا ہو اس موٹی عورت کا، کہ اس طرف کسی تیسرے نے آنے کی کوشش یا ہمت نہ کی۔ باقی کھڑے رہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے فاصلے سے چاچا کی آواز آ جاتی تھی۔ لیکن یہ خدا ہی کو معلوم تھا کہ وہ آواز کدھر سے آتی تھی۔
تبھی ان دو نوجوانوں میں سے وہ، جس کا نام جمیل نہیں تھا۔ اسنے پانی کی بوتل نکال کر پانی پینا شروع کیا تو برابر والی آنٹی ایک دم بپھر گئیں۔ ’’بھلا ایسی گرمی کے رمضان میں کچھ تو لحاظ کر۔‘‘ اور وہ بات، جو نوجوان نے جواب میں کہی، وہ میں نہ سن سکا۔ لیکن اسکے ٹھیک بعد آنٹی نے ان دونوں کو جن مغلظات سے نوازا ہیں۔۔۔!
الامان۔۔۔! الحفیظ۔۔۔!
بس تقریباً آدھا سفر طے کر چکی تھی۔ جب چاچا کو کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ ’’چاچا ذرا رمضان میں تو گالیوں سے پرہیز کریں۔‘‘ لیکن یہ آواز کہیں بھیڑ کے پیچھے والے محلے سے سنائی پڑتی تھی۔ جو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ادھر آ نکلی تھی۔
میں کونے میں سکڑا بیٹھا اس پورے نظارے کو دیکھ رہا تھا۔ نہیں نہیں۔۔۔ ’’دیکھنے‘‘ کا لفظ مناسب نہیں۔ صرف سن رہا تھا۔ نگاہوں کے تین طرف اتنی بھیڑ تھی کہ آوازوں کی سمت تک جاننا محال تھا۔ بس ایک کھڑکی تھی، جو بشکل سراغ ساکت تھی۔ کچھ کچھ آوازیں جو سن پا رہا تھا اسکے مطابق وہ ذرا بزرگ سی بنی سنوری آواز میری ہمسفر تھی، جسکی بہو بڑی نکمی ہے۔ اور اب وہ اس سے عاجز آ چکی ہے۔
ایک تجربے والی آواز غالباً پیچھے سے آ رہی تھی۔ فرماتے ہیں کہ ’’بھائی، ہم تو ایک بات جانتے ہیں، جو رشتہ دار، آپ سے کٹے، سالے پے خاک ڈالو۔‘‘
’’سئی بات ہے بھائی صاب‘‘ تصدیق کی آواز آئی۔
کسی اور انجانی آواز، جو کِنہی رفیکن آپا کی تھی۔ جنہوں نے پچھلے سال سونے کے بوندے بنوائے تھے۔ اور اپنے برابر والی کو بہت اصرار پر بھی اس سنار کا پتہ نہ بتایا۔
’’مودی سسرا کیا کرکے مانے گا۔‘‘
’’نماج پڑھ کرو بئی‘‘
’’آنٹی ذرا ٹھیک سے بیٹھو‘‘
’’ایے، انٹی کسے کی رائے ستیا ناسی‘‘
’’بھائی، اگلے چورایے پے روک کے چلیو‘‘
’’اویے، یہ بیگ کس کا ہے؟‘‘
ایسی ہی درجنوں آوازوں کے بیچ میرا سٹاپ آ گیا۔ اب اترنے کا عمل بھی کسی انقلابی جدوجہد سے کم نہ تھا۔ تبھی کنڈکٹر سیٹوں کے اوپر پیر رکھتا ہوا ظاہر ہوا، اور کہا کہ ’’بھائی شعیب ایسے ئی چڑھ کے آ جاؤ جلدی! روزے کا ٹیم ہو رائے۔‘‘
میں نے سیٹ پر پیر رکھا ابھی اوپر چڑھا ہی تھا کہ گاڑی ایک گڈھے میں پڑی اور جھٹکے سے لوگوں کا یہ ہجوم آگے کو جا گرا۔ میں دروازے تک کا فاصلہ بھی عبور نہ کر پایا تھا کہ چاچا کہ ایک درد مندانہ چیخ سن کر ایک خاموشی سی چھا گئی۔ پوٹلی کے اندر کا سامان پھوٹ چکا تھا۔ یہ راز نہ کھل سکا کہ تھا کیا اس میں؟ چاچا کا شور پہلے ماتم میں تبدیل ہوا اور پھر اس نے مغلظات کی شکل اختیار کر لی۔ وہ آخری فقرہ جو میں سن پایا،
’’چاچا اب تو گٹھری بھی آدھی ہو گئی۔ اب پھوٹے گی بھی نئی، اب بیٹھ جاؤں؟‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.