علامہ فی الفور
علامہ فی الفور ان لوگوں میں سے ہیں جو ہر کام جلدی سے کرتے ہیں۔ وہ تو دیر کرنےمیں بھی جلدی کرتے ہیں۔ انہوں نے معروف ہونے میں تو چند ماہ ہی لگائے، البتہ غیر معروف ہونے میں کئی سال لگائے ہیں۔ مولانا خواب زادہ علامہ فی الفور بڑی ’’جھنگ جو‘‘ شخصیت ہیں۔ لاہور آکر لاء کالج کے ہوسٹل میں رہے۔ یہاں لاء ہوسٹل سے مراد سسرال نہیں کہ وہاں بھی مدر ان لاء، فادر ان لاء، سسٹر ان لاء بلکہ ہر کوئی ان لاء ہی ہوتا ہے۔ وہاں سے نکل کر فیض الحسن صاحب سے ’’فیض‘‘ لیا۔ وہ پیدائشی طور پر بڑے سیاست دان ہیں۔ جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں چھوٹا ادیب، چھوٹا سیاست دان اور چھوٹا اداکار پیدا ہی نہیں ہوتا۔ البتہ وہ پیدائشی طور پر اس لیے بڑے ہیں کہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔
مولانا خواب زادہ علامہ فی الفور اس وقت سوتے ہیں جب اٹھنا ہو۔ جب کہ ہم جیسے تب اٹھتے ہیں جب سونا ہو۔ کسی نے ہم سے پوچھا، ’’سو سو کر تھک نہیں جاتے؟‘‘ تو ہم نےکہا، ’’جب تھک جاتے ہیں تو پھر سو جاتے ہیں۔‘‘ یہ پتہ کرنا کہ علامہ صاحب سوئے ہوئے ہیں یا نہیں، بڑا آسان ہے۔ آپ کو ان کے پاس بیٹھئے، پانچ منٹ ہو جائیں اور وہ نہ بولیں تو سمجھ لیں، وہ سوئے ہوئے ہیں۔ لوگ تو جاگتے میں کام کرتے ہیں، یہ سوئے ہوئے بھی فارغ نہیں ہوتے۔ خواب ملاحظہ فرما رہے ہوتے ہیں۔ خوابوں کا سلسلہ بھی عجیب ہوتا ہے۔ گوربا چوف نے ایک بار کسی کو بتایا کہ مجھے بڑی پریشانی ہے۔ رئیسہ گورباچوف روز سوتے میں یہ خواب دیکھتی ہے کہ اس کی کسی امریکی سے شادی ہو رہی ہے۔ تو سننے والے نے کہا، اس وقت تک پریشان ہونے کی ضرورت نہیں جب تک وہ یہ خواب جاگتے میں نہیں دیکھنے لگتیں۔ علامہ صاحب جاگتے میں خواب دیکھتے ہی نہیں، دکھاتے بھی ہیں۔ فرماتے ہیں ان کا نام بھی خواب میں رکھا گیا۔ یہی نہیں انہوں نے تو نام پیدا بھی خواب ہی سے کیا۔
اپنے ہر کام کو الہامی سمجھتے ہیں۔ کچھ کام تو واقعی لگتے بھی ہیں، یعنی ان کا تعلق انسانی عقل سے نہیں لگتا۔ علامہ صاحب دنیا کے واحد فرد ہیں جنہیں کوئی درازی عمر کی دعا بھی نہیں دے سکتا۔ کیونکہ بقول مولانا فی الفور بحوالہ خواب نمبر۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے میری عمر 63 سال مقرر کی جو حضور پاکﷺ نے بڑھاکر 66 برس کر دی، لیکن میں نے قبول نہ کی اور عرض کیا کہ 63 برس سے زیادہ زندہ رہنا نہیں چاہتا۔ کیونکہ اس طرح عمر کے سلسلے میں سنت نبوی کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوں گا۔ اور حضورﷺ نے مان کر 63 کر دی۔ ویسے مولانا صاحب نے اس عمر کی حفاظت کے لیے اتنے گارڈ رکھے ہیں کہ لگتا ہے وہ انہیں لوگوں سے نہیں بچا رہے، بلکہ لوگوں کو ان سے بچا رہے ہیں۔ ہمارے ایک صحافی دوست بتاتے ہیں کہ مولانا کی دعا بڑی جلدی قبول ہوتی ہے۔ میں ملنے گیا۔ مدعا بیان کیا تو انہوں نے کہا، ’’جاؤ، کھوئی ہوئی رقم مل جائے گی‘‘، اور ان کی آدھی دعا فوراً قبول ہوگئی کہ میں وہاں سے چلا آیا۔
مولانا صاحب تقریر کر رہے ہوں تو جنہیں اردو بھی نہیں آتی، سمجھ ان کو بھی آرہی ہوتی ہے۔ بلکہ وہ نہ بھی بول رہے ہوں تب بھی سننے والوں کو سمجھ آ رہی ہوتی ہے۔ دوران گفتگو ہم نے آج تک کسی کو ان سے اختلاف کرتے نہیں دیکھا، جس کی واحد وجہ یہ ہے کہ دوران گفتگو وہ کسی اور کو بولنے کا موقع نہیں دیتے۔ ویسے علامہ صاحب جس تیزی سے بولتے ہیں، اس تیزی سے تو ہم سن بھی نہیں سکتے۔ بہت لمبی تقریر کرتے ہیں۔ کیونکہ مختصر تقریر سننے کے لیے آج کل لوگوں کے پاس وقت ہی کہاں ہوتا ہے۔ ٹی وی کے مذہبی پروگراموں کی کاسٹ میں شامل رہے۔ ایسے مقرر کہ جو انہیں ایک بار سن لے، پھر انہیں مقرر نہیں کہتا۔ مکرر کہتا ہے۔ ایک بار ٹی وی پر ان کی تقریر نشر ہونا تھی۔ دو تین بار اس کا ٹیلپ چلا۔ اس پروگرام کے پروڈیوسر کو اس تقریر کی تعریف میں اتنے خط ملے کہ وہ پریشان ہوگیا۔ ہم نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا، ’’سوچتا ہوں عین وقت پر بوجوہ علامہ صاحب کی تقریر ٹیلی کاسٹ نہ کی جا سکی، تو اتنے خط آئے۔ اگر تقریر ٹیلی کاسٹ ہو جاتی تو پھر کتنے آتے؟‘‘
حضرت علی فرماتے ہیں، ’’انسان زبان کی اوٹ میں چھپ سکتا ہے۔‘‘ مگر علامہ صاحب نے زبان خود کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کی۔ میرے دوست ’’ف‘‘ کے بقول بندہ خواب زادہ ظاہر القادری صاحب کا انٹرویو کرنے جائے تو واپس آکر اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ تو ڈکٹیشن لے کر آیا ہے۔ وہ اکیلے چار آدمیوں جتنا کام کرتے ہیں۔ آپ ان کو کھانا کھاتے دیکھ لیں تو اس کا یقین بھی آجائے گا۔ کمزوری محسوس ہو تو گوشت کی کڑاہی منگا لیں گے اور ایک منٹ میں ختم ہو جائے گی، آپ سوچتے ہوں گے کمزوری، جی نہیں، کڑاہی۔
وہ دوسروں کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوتے، خود اپنے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے اقتدار پسند نہیں۔ ویسے ان کے طریقہ کار سے واقعی یہی لگتا ہے کہ وہ کبھی اقتدار حاصل کرنا نہیں چاہتے۔ البتہ ڈاکٹر اسرار احمد کہیں کہ مجھے اقتدار پسند نہیں تو بندہ سمجھتا ہے، اپنے بھائی اقتدار احمد کی بات کر رہے ہیں۔ جب کہ مولانا صاحب تو اسی کی خاطر سیاست برد ہوئے۔ پاکستانی عوامی تحریک کی بنیاد رکھی جس میں تحریک تو ہے مگر عوام نہیں۔ 1990ء کے ضمنی انتخابات میں ایک امیدوار عوامی تحریک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں تھا۔ کسی نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا، میرے حساب سے مجھے الیکشن جیتنے کے لیے نودس ووٹ اور چاہئیں۔ علامہ صاحب کہتے ہیں میرے پاس جو ہو وہ تقسیم کر دیتا ہوں۔ واقعی ان کے پاس جو ووٹ تھے انہوں نے وہ تقسیم کر دیے۔ ان کی تحریک کا نعرہ ہے، ’’جوانیاں لٹائیں گے، انقلاب لائیں گے۔‘‘ مگر کہتے یوں ہیں ’’جوانیاں لوٹائیں گے، انقلاب لائیں گے‘‘ جو اچھا بھلا کسی حکیم کا اشتہار لگتا ہے۔ علامہ صاحب پارٹی کے لیے یتیموں اور بیواؤں سے چندہ نہیں لیتے۔ اس لیے جو انہیں چندہ نہ دے، اسے بیوہ اور یتیم سمجھتے ہیں۔
سیلف میڈ ہیں، یہاں تک کہ علامہ اور پروفیسر بھی سیلف میڈ ہیں۔ ڈاکٹر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو علاج کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو خود قابل علاج ہوتے ہیں۔ مولانا خواب زادہ فی الفور صاحب کے والد صاحب انہیں علاج کرنے والا ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں، مگر موصوف کو میڈیکل کالج میں داخلہ نہ مل سکا۔
مولانا وہ مرد ہیں جنہوں نے زنانہ وار لکھا۔ وہ جتنی کتابوں کے خود کو مصنف بتاتے ہیں، صرف ان کی فہرست مرتب کی جائے تو ایک کتاب بن جائے۔ وہ دس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے لکھتے ہیں۔ کسی نے پوچھا، ’’آپ اتنا لکھنے کے بعد کیا محسوس کرتے ہیں؟‘‘ تو میرے دوست ’’ف‘‘ نے کہا، ’’اتنا لکھنے کے بعد تو بندہ محسوس کر ہی نہیں سکتا۔‘‘ فرماتے ہیں، مولانا مودودی کی جتنی تحریریں میں نے پڑھی ہیں، اتنی مولانا مودودی نے خود اپنی تحریریں نہ پڑھی ہوں گی۔ علامہ صاحب کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ مقام اپنی ذاتی کوششوں سے حاصل کیا، جیسے ہمارا دوست ’’ف‘‘ اپنی ذاتی کوششوں سے اس مقام پر ہے کہ وہ اپنے سات بھائیوں میں اکیلا سید ہے۔
علامہ صاحب خود اس فرقے سے ہیں جو فرقہ بندی کے خلاف ہے۔ انہوں نے زندگی میں ایک منٹ بھی ضائع نہیں کیا۔ اگر کیا ہے تو وہ اپنا نہ ہوگا۔ ہر کام ترتیب سے کرتے ہیں۔ وہ تو بے ترتیبی بھی ترتیب سے کرتے ہیں۔ اگر وہ کہیں کہ مجھے خوب صورت چہرہ دیکھے دیر ہوگئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہیں شیشہ دیکھے گھنٹہ ہو گیا ہے۔ ان کی شخصیت میں انفرادیت ہے یہی انفرادیت انہیں اجتماعیت نہیں لانے دیتی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.