ادیبوں کی قسمیں
ہندوستان اور پاکستان کی اگر رائے شماری کی جائے تو نوے فیصدی ادیب نکلے گا باقی دس فیصدی پڑھا لکھا، لیکن اگر شعرا حضرات کے سلسلے میں گنتی گنی جائے تو پتہ چلے گا کہ پورا آوے کا آوا ہی ٹیڑھا ہے۔ اب ذرا یہ بھی سوچئے کہ رائے شماری کرنے والے عملے کا کیا حشر ہوگا، آدھا عملہ تو یقیناً شعراء کے کلام پرسردھن دھن کر جان دے چکا ہوگا کیوں کہ یہ زیادتی ہوگی کہ شاعر کے پاس کوئی جائے اور اس کے کلام سے محروم رہے۔ اس سلسلہ میں شاعرکو ہمیشہ مجبور اور معصوم سمجھنا چاہیے۔ بقیہ بہرے اور مجذوب ہوجائیں گے۔ اگر کسی کی زندگی نے وفا کی تویقیناً وہ شاعربچ نکلے گا۔ اس طوائف الملوکی اورافراتفری کے عالم میں پھر سوائے اس کے کوئی چارہ نہ رہے گا کہ محکمۂ آثارِ قدیمہ عملہ کے دفتر کو اپنی نگرانی میں لے لے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
یہ حشرات الارض کی طرح پھیلے ہوئے ادیب، انواع واقسام کے رنگ برنگے ہوتے ہیں، ذرا ان کی کنیچل تو اتارکر دیکھئے، دن میں تارے نظر آنے لگیں گے۔
کانفرنسوں والے ادیبوں کو لے لیجئے۔ یہ آپ کو ہر کانفرنس میں تقریر کرتے زہرہ جبینوں کے جھرمٹ میں آٹو گراف دیتے، دعوتیں کھاتے اور سفر خرچ وصول کرتے نظر آئیں گے۔ بلا ان کے کوئی کانفرنس کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ادھر کانفرنس ختم ہوئی اور یہ غائب۔ قسم لے لیجئے جو کبھی ان کو پڑھتے لکھتے کسی نے پایا ہو۔ شعر وادب سے ان کو دور کا علاقہ بھی نہ ہوگا۔ اگر یہ کسی مقام پر پائے جائیں تو سمجھ جائیے کہ یہ کسی کانفرنس کی آمد آمد کا پیش خیمہ ہی، کانفرنسوں میں شرکت کرنا اور اخبارات میں وقتاً فوقتاً بیانات دینا ان کا مقصدِ حیات ہے۔ غرض یہ ادب کے ہر موڑ پر آپ کو جھنڈی دکھاتے ہوئے مل جائیں گے۔ ان سے آپ کو کانفرنس تا کانفرنس ہی نیاز حاصل ہوسکتا ہے۔ کسی کانفرنس والے ادیب نے جب آٹو گراف بک پر دستخط کئے تو ان سے درخواست کی گئی کہ آپ اس پر لکھ بھی دیجئے۔ ان حضرت نے جواب دیا، ’’لکھتا نہیں ہوں!‘‘
کانفرنس کے بعد شاعروں کی شامت آتی ہے۔ وہیں جاکر یہ انکشاف ہو گا کہ بڑا بڑا شاعرپڑا ہوا ہے، جس کا کبھی نام بھی نہ سنا تھا مگر شاعر ہے اور ایسا کہ مشاعرہ لوٹ شاعر ہوگا۔ اس سے بحث نہیں کہ مصرعہ دب رہا ہے بحر سے خارج ہے، رکن گرگیا یا غزل کی غزل بحر زخار میں غوطہ زن ہے۔ کہی بھی ہے یا کسی سے کہلوا کر لائے ہیں۔ اگر ان کے شعر پر اعتراض کرو اس کے معنی پوچھ لو، یا ان کی شاعری کی وجہ تسمیہ، ان کو سانپ سونگھ جائے۔ محفل درہم وبرہم ہو جائے، مشاعرہ اکھڑ جائے، اور آپ کو بجائے گھر واپس جانے کے اسپتال کا رخ کرنا پڑے۔
ان ادیبوں کا کوئی ذکر نہیں جو کانفرنس اور مشاعرے منعقد کرواتے ہیں۔ ان کا کام آنے والے مہمانوں سے سفر خرچ کے سلسلہ میں مول تو ل کرنا۔ خط و کتابت، بھاگ دوڑ، لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کرنا، اشتہارات لگانا۔ پان سگرٹ پیش کرنے کے علاوہ استادوں کی چلمیں بھرنا۔ والینٹر، سکریٹری، انا ؤ نسر وغیرہ بننا۔ شراب وشعرکی تنظیم کرنا، اس موقع پر دنیابھر کے فتنے اور کارٹون جمع کرکے آخر میں ان کے ساتھ اپنی تصاویر کھینچوا لینا۔ اگر ادیب زیادہ منتظم ثابت ہوا تو ایک آدھ سوٹ یا شیروانی بنوا لی۔ بنیے یا سگرٹ والے کا قرضہ اتار دیا۔ نہ حساب دیانہ حساب مانگا۔ شکریہ سب سے گھاٹے میں ادا کیا۔ مقامی ادیبوں نے آنے والے ادیبوں سے درخواست کی، ’’لکھتے وقت ان کا بھی خیال رکھئے گا۔ یہ ابھرتے ہوئے ہیں۔‘‘ ڈوبنے والے کو کسی کے ابھرنے پر بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ مگر ان کا خیال تب ہی کیا جاتا ہے جب کہ دوبارہ اس قسم کا خیال چھیڑا جائے اور یہ بھی ان کا خیال رکھیں۔
ان سے معقول تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو دن رات کسی کافی ہاؤس یا شراب خانے میں بیٹھے رہتے ہیں۔ گپ لڑاتے، ادب اور آرٹ کا بخیہ ادھیڑتے یعنی، ٹیبل ٹاک کرتے اور اپنے کو ادیب کہتے ہیں۔ نہ انہوں نے لکھنے پڑھنے کی جانب بھی توجہ کی نہ اس کے ارادے رکھتے ہیں۔ مگر ان کے بغل میں ایک موٹی سی کتاب یا ڈائری ضرور دبی ہوگی۔ بہت ممکن ہے کہ یہ آپ سے کافی بھی پی لیں یا اپنے کھانے کا بل بھی آپ ہی سے ادا کرادیں مگر اس کے باوجود یہ اپنی حرکات وسکنات، چال ڈھال، پوشاک، خوراک، بات چیت سے سرتا پا ادیب دکھائی دیں گے۔ ان کے چاروں طرف ایک انٹلیکچول ماحول ہوگا۔ مارکس، نیوٹن، آئنسٹائین، رسل، ایلیٹ، میر، غالبؔ، شکسپیئر کا نام سنتے سنتے آپ کے کان پک جائیں گے۔ سوشالوجی اور اکنامک کی لمبی لمبی بحثیں آپ کو اپنے میں الجھالیں گی۔ آپ ان کو ادیب سمجھیں گے ان سے ادب پر بات کر یں گے مگرآپ کی یہ مجال نہ ہوگی کہ آپ ان سے دریافت بھی کرسکیں کہ حضورآپ اور ادب؟
ان ہی کے بڑے بھائی، ڈرائینگ روم کے ادیب کہلاتے ہیں۔ یہ پورے ادب کو اسی نظرسے دیکھتے ہیں، گویا اپنے ماتحتو ںکو جھڑک رہے ہوں۔ کوئی ان کی نظر میں سماتا ہی نہیں۔ ان کی ذاتی لائبریری شہر اور یونیورسٹی کی بڑی سے بڑی لائبریریوں کا مقابلہ کرتی ہے۔ جس میں نوے فی صدی کتابوں کے کاغذ کٹے ہوئے نہیں ہوتے اور بقیہ دس فی صدی کو دیمک چاٹ جاتی ہے، باقی کتابیں یہ بڑے ذوق وشوق اور جی جان سے پڑھتے ہیں۔ اگر یہ کوئی غزل، افسانہ یا مقالہ تخلیق کرنے میں کبھی کبھارکامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو ان کو فکر ہوتی ہے کہ اب یہ سنایا کس کو جائے۔ کم سے کم پڑھا لکھا تو ہو، جس کے لیے یہ منتظر رہتے ہیں کہ متصل اضلاع میں بھی اگر کوئی راجہ مہاراجہ، غیر ملکی سفیر یا کوئی بہت بڑا افسر گرے تو یہ اس کے اعزاز میں باقاعدہ گارڈن پارٹی دیتے ہیں۔ جب بدقت تمام دوچار پڑھے لکھوں کو جمع کرنے میں یہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کی خدمت میں اپنی تخلیق پیش کرتے ہیں، پھرجس پر ہفتوں بحث مباحثے ہوتے ہیں۔ غرض اچھی خاصی ادبی فضا پیدا ہوجاتی ہے ایک صاحب نے مقالہ لکھا جب عرصے تک کوئی معقول پڑھا لکھاادیب نہیں مل سکا تو مجبوراً اس کو سنانے وہ اپنے کسی دوست کے پاس ہوائی جہاز سے جرمنی چلے گئے۔ بس ان کی دنیا ڈرائنگ روم تک محدود ہے۔ یہ ادبی عجائب خانے کے شوکیس کے مہمان ہیں۔ اس کے باہر نہ یہ ادب پر بات کریں گے اور نہ سنیں گے اگر بھولے بھٹکے یہ کس مشاعرے یا کانفرنس کی صدارت کے لیے آمادہ ہوجائیں اور اپنی تخلیق سے پبلک کو فیض یاب کریں، ا س وقت جتنی زیادہ بوران کی چیز ہوگی اتنی زیادہ واہ واہ ہوگی۔ ان کے ملازم، ماتحت اور کلرک اگر اس موقع پر تعریف نہ کریں، تو دوسرے دن ان سے جواب طلب کرلیا جائے یا تخفیف میں آجائیں۔
ان کے چھوٹے بھائی ادب برائے طاق کے قائل ہیں اور ادبی روایات کی ڈور کا سرا علم سینہ سے ملاتے ہیں۔ اول تو آپ کو ہوا ہی نہیں لگنے دیں گے کہ ہم بھی کچھ جانتے ہیں لیکن اگرآپ کو گھانس ڈالی بھی اورآپ نے چرنے کے خیال سے منہ مارا بھی، تو بدقت تمام وہ مل تو لیں گے آ پ سے مگر اس انداز سے گویا اپنی طبیعت پر جبر کرنے کے علاوہ آپ پر احسان عظیم بھی فرمارہے ہیں۔ اس کوبلاسنجیدگی طاری کرلیں گے کہ آپ کو محسوس ہوکہ داروغہ پولیس بلا ضمانتی وارنٹ کے آپ کے سر پر موجود ہے۔ سب سے پہلے تو وہ یہ انکشاف کریں گے کہ آج تک نہ کچھ لکھا گیاہے نہ آئندہ امید ہے اور جو کچھ نظر آرہا ہے وہ خس وخاشاک ہے۔ پھر اگر مناسب سمجھیں گے تو اپنے ذکر خیر کے ساتھ کہ وہ ہماری تخلیقات ہیں آزار بند میں بندھی ہوئی کنجی آپ کو دکھاتے ہوئے کہیں گے، وہ صندوق میں سب کچھ محفوظ ہے اور زیادہ اہم تشریحات سینے میں محفوظ ہیں۔
خاکسار کی نظرسے ایسے ادیب بھی گزرے ہیں جو مع لا ؤلشکر کے صفیں ترتیب دیتے ہوئے خود علم کا پھریرا بلند کیے قلب میں موجود، منزلوں پر منزلیں مارتے چلے جارہے ہیں۔ اردو کے نام پر فدااور اپنے خیال میں ادب کے واحد مشکل کشا اور محافظ، کسی جانب سے اگر ذرا بھی سرکشی کا خطرہ ہوا، فوراً کنوتیاں کھڑی ہوگئیں۔ کوچ کا حکم دے دیا گیا کہ جا ؤ فنا ہو جا ؤ، مٹ جا ؤ اورمٹادو۔ مگر بہادرو تم ادب سے ہو اور ادب تم سے ہے۔ یاد رکھو اگر تم پسپا ہوگئے تو تاریخ ادب کے صفحے پر تمہارا نشان بھی نہ ملے گا۔ غنیم کی یہ مجال کہ ہم پر جملہ پھینکے ان ملک ادب کے شہر یاروں اوردیسی راجا نوابوں کی نقل وحرکت کا پتہ رسائل میں چھپنے والے خطوط مضامین اور اداریو ں سے ہوتا ہے، جن کی پہچان یہ ہے کہ مخالفت یا موافقت کرنے والے کا نام عموماً فرضی ہوتا ہے اور اس پروہ زنگاری کے پیچھے حقیقت میں معترض یا معترف خود بہ نفس نفیس موجود ہوتے ہیں، ادھر کسی بات نے طبع نازک پر گرانی کی اور جنگ مغلوبہ شروع ہوگئی۔ یہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کو اپنا آئیڈیل بناتے ہیں۔ بھینس کی ان کے ہوتے ضرورت نہیں پڑتی اور لاٹھی چارج فریق مخالف کی جانب سے ہوتا ہی ہے۔ اس سے ان کا مقصد بھی حل ہوجاتا ہے کہ لوگ جان جائیں کہ؛
ہم بھی ہیں پانچویں سواروں میں۔
اگر اکیلے بڑھے توکسی طرف سے شہ نہ پڑجائے اس لیے شاگردوں کاپورالشکر ساتھ رکھتے ہیں چونکہ اپنارنگ نکالنا جان جوکھم کا کام ہوتا ہے، اس لیے اساتذہ کے رنگ میں طبع آزمائی کی جاتی ہے۔ بعدمیں حریف تو ارد کا الزام لگا تا ہے اورآخر میں ثابت یہ ہوتا ہے کہ وہ توارد نہیں سرقہ تھا۔ غلط بات کو صحیح اور صحیح کو غلط ثابت کرنے پر سارا زور قلم صرف کردیا جاتا ہے۔ جب اس پر سنوائی نہیں ہوتی تو اپنی شان میں قصیدے فرضی ناموں سے بھیج کر ناک میں دم کردیاجاتا ہے کہ، تعریف نہیں کروگے تو جا ؤگے کہاں۔
ادیبوں کی ایک قسم اور ہوتی ہے ان کو ادب کا کنٹرولر بھی کہا جاسکتا ہے اورگارڈ بھی جو کبھی سرح جھنڈی دکھاکر روک دے اور کبھی ہری جھنڈی دکھاکر چلتا کردے۔ یہ ادب کے بابا لوگ ہوتے ہیں۔ اگر ان کی تیوری پر بل آجائے تو کفر کا فتویٰ دے دیں اور خوش ہوجائیں تو دن پھر جائیں، یہ رسالے نکالتے اور دیباچے لکھتے ہیں۔ زیادہ موڈ میں آگئے تو ایک آدھ تعارف بھی لکھ ڈالا۔ چلئے اللہ اللہ خیر صلّا، ان سے منحرف ہونا آسان نہیں ہوتا۔ بس جویہ چاہیں گے وہی ہوگا ادب کے میدان میں ان کی پوزیشن ٹریفک کانسٹبل کی سی ہوتی ہے، کبھی خوش نما موٹر گذر جانے دیا اور کبھی لاش گاڑ ی بھی روک دی۔ ان کا کام سرپرستی اور نگرانی تک محدود ہوتا ہے۔ بس یہ دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ بچے کھیل رہے ہیں، یا کبھی مسکرا کر منع کردیا ہے۔ بے بی دھول میں مت کھیلو کپڑے خراب ہوجائیں گے۔ مگر خواہش یہی رہے گی کہ یہ تازہ واروان بساط بگڑنہ جائیں۔ اگر ان سے اصلاح نہ لو یا ان کا شاگرد اپنے کو تسلیم نہ کرو تو ان کی خودی کو بڑی ٹھیس لگتی ہے کہ یہ نئی پودبڑی خود سرمعلوم ہوتی ہے ضرور کچھ نہ کچھ گل کھلاکررہے گی۔ آپ انہیں استادمان لیجئے یہ آپ کو ادیب تسلیم کرلیں گے، جہاں آپ نے ان سے زیادہ تین پانچ کی اور بنایا انہوں نے مرغا یا بینچ پر کھڑا کردیا۔ اگر بھول چوک میں ان سے کوئی ہوائی سر ہوجائے تو یکایک سارے ادب کی مشینری حرکت میں آجاتی ہے۔ کوئی بھی تذکرہ بلا اس شاہکارکے ذکر خیر کے تشنہ تصور کیا جاتاہے۔
ابھی حال میں ادیبوں کی ایک اور قسم بھی دریافت کی گئی ہے ان کو ادیب تو نہیں مگر ادیبوں کا حاشیہ بردار (سخن فہم) ضرور کہا جاسکتا ہے جس سے بھی ان کی لڑائی دوستی یاخط وکتات ہو، سمجھ لیجئے کہ وہ ادیب ہے مگر یہ خود قسم کھانے کو بھی ادیب نہیں ہوتے۔ یہ قلمی دوستی کے شائق ہوتے ہیں۔ کتابیں اوررسالے خریدیں گے، ادبی رسائل کی بزم مکالمات میں جمع ہوں گے۔ ایڈیٹر کو بھیّا بناکر پوچھیں گے، آپ شادی کب تک کررہے ہیں؟ اپنی تصویر کب تک چھاپ رہے ہیں؟ یا فلاں فلاں صاحب کی تخلیقات پسند آئیں۔ ان کے سوال اور خطوط ان کے ادیب ہونے کی دلیل ہوتے ہیں۔ ابھی تک کسی ایسے ادیب کا مجموعہ نظر سے نہیں گزرا مگر چند پرائیویٹ البم ضرور دیکھنے کا گناہ گار ہوں جن میں تصویروں کے بجائے سوال جواب اورخط چسپاں تھے۔ شوق بُرا نہیں! یہ کتابوں پر تبصرے بھی کرتے ہیں، مگر مناسب حد تک کتاب اور مصنف کا نام، پڑھی یا نہیں پڑھی۔ ہاں نہیں سے آگے نہیں بڑھتے۔
انہی کے ایک اور بھائی بنددریافت کئے گئے ہیں جس کو ہم آپ ’ڈاکیہ‘ کہتے ہیں۔ چٹھی رساں، ادب کے لیے خوفناک حد تک ضرر رساں ہونے کے باوجود بہت بڑا ادیب اور نقادہوتاہے۔ یہ روز مرہ کی ڈاک پر بڑی سخت تنقید کرتاہے۔۔۔ میں بہت سا ادب نذرِآتش ہوجاتا ہے اور سوائے چائے کے کچھ برآمد نہیں ہوتا جس کو ردی سمجھتا ہے بنیے کے ہاتھ بیچ ڈالتا ہے۔ اس طرح فضول چیز کو بھی نفع بخش بنادیتا ہے۔ اس کو ہمارے ادب کی اصطلاح میں گلی تنقید کہتے ہیں۔ اس کے مطالعے کے ذوق وشوق اور لگن کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ شاید ہی کوئی رسالہ یا کتاب ایسی ہو جس کو یہ اپنے مطالعے کے لیے نہ رکھ لے۔ جن پر مغزاداریوں میں اس کا ذکر خیر ہوتاہے ان کو بھی یہ اپنے مطالعے کے لیے محفوظ کرلیتا ہے۔ اس میں ادبی سوجھ بوجھ کے ساتھ گہرائی بھی ہوتی ہے جس کی وجہ سے بجائے اظہار کرنے کے خاموشی کے ساتھ اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔
نہ جانے آپ نے برخود غلط ادیب، اور ’مہمل گو شاعر‘ دیکھے اور سنے ہیں یا نہیں، لکھنے پڑھنے سے باپ مارے کا بیر، مگر اکڑے ہوئے اس طرح گویا آپ ہی بابائے ادب، ہیں۔ کسی کو خاطر میں نہیں لارہے ہیں، بس تنے جارہے ہیں۔ کسی کو گھورا کسی کو ٹوکا، کسی کو نظر انداز کردیا، کسی کو جھڑک دیا۔ تنقید کا معیار، ٹیبل ٹاک کے وقت اتنا بلندہوگا کہ کیڑے بھی بنیں گے تو کم از کم افلاطون یا اس کے استاد کو اپنے کو ادب کا قطب مینار بتائیں گے، کوئی معیار پر پورا اترے گا ہی نہیں لیکن ان کے کلام کی خامیاں اگر صلاح کی غرض سے بھی آپ انھیں سمجھانا چاہیں گے بس اکڑ جائیں گے۔ ہنگامہ برپا کردیں گے۔ ساری مخالفت کی بنا پر یہ ہوگی کہ جب ہم کام نہیں کرتے تو انہوں نے کوئی کام کیا ہی کیوں، اگرآپ ان کے آدمی ہیں تواس چیز کو صحیفۂ آسمانی قرار دیں گے ورنہ اسی چیز میں شاید ہی کوئی ایسی خامی ہو جس کو یہ اس وقت نہ سمجھادیں۔ ان کے یہاں تنقید کے پیمانے ذاتی تعلقات کی مدد سے تیار کئے جاتے ہیں۔ متشاعر کا مستقل اصرار اسی پر ہوتاہے کہ فی الحال اسے شاعر تسلیم کرلیا جائے۔ شعر بامعنی ہویا بے معنی مگر داد میں بخل سے کام نہ لیا جائے۔
گمنام ادیب عموماً قصبات سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیہات کی تازہ اور کھلی ہوئی فضا میں بنجراوسرزمین پر ادب کی کاشت کرتے ہیں۔ ادب ان کے گھر کی کھیتی ہوتی ہی ہے۔ تخلص میں مقامیت کو دخل ہوتاہے، اگر بانگڑ مئوکا ہے تو بانگڑ مئوئی، بلیا کا ہے توبلیا ٹک کہلانے پر اصرار کرے گا۔ ان کی تخلیقات قوالیاں، کجری، پکے پکے گانے، سہرے اور ان کے کلام بلاغت نظام کے گلدستے ہوتے ہیں جو آپ کو بازار سے ایک آنہ میں بکفایت مل سکتے ہیں۔ بیڑی اوردانت کے منجن کے با قاعدہ جلوس، میلے اور عرس کے موقعوں پر یہ آپ مفت بھی سن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف، مفید رسالے بھی یہ برابر شائع کرتے رہتے ہیں مثلاً ایسی جنتریاں جو نہ صرف آپ کی قسمت بتادیں، تندرستی اور جڑی بوٹیوں کے راز، سیکڑوں خفیہ چٹکلے، روزگار اور دولت پیدا کرنے کے لیے بے شمار طریقے، آپ کیا کمائیں۔ غرض آپ چاہیں تو ان کی مدد سے بہ آسانی ہر فن مولا ہوسکتے ہیں۔ چاہیں تو ان کی مدد سے صحیح معمہ بھر کر یا ڈربی کی لاٹری خرید کر لاکھو ں کے مالک بہ آسانی بن سکتے ہیں۔ ان میں جو ترقی کرجاتے ہیں پھروہ صرف کتابیں لکھتے ہیں۔ بس دھڑا دھڑ چلی آرہی ہے کتاب پر کتاب، جاسوسی، رومانی، تاریخی، سنسنی خیز اور بے ہوش کر دینے والی۔ آپ کی راتوں کی نیند اور بھوک غائب ہوجائے گی۔ پڑھنے کے بعد شاید آپ خود بھی غائب ہوجائیں۔ اس میں ادب وغیرہ کا زیادہ چکر نہیں ہوتا۔ اگر تاریخی ہے تو اس میں سوائے تاریخ کے سب کچھ مل جائےگا۔ اورناول ہے توبس ناول نہ ہوگی اور ہر چیز ہوسکتی ہے۔ چونکہ بچوں کے لیے لکھنا سب سے مشکل سمجھا جاتاہے، اس لئے سمجھ سے کام لے کر یہ سب کے سب بہ آسانی بچوں کے ادیب بن جاتے ہیں۔ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کرنا پڑتا کہ انسان لکھتے وقت بچہ بن جائے پھر ہرقسم کی نادانی اور حماقت کرسکتا ہے۔
ادب کو گھر کی لونڈی سمجھنے والے ادیبوں کی کبھی کمی نہیں تھی۔ پہلے عربی فارسی زدہ سمجھتے تھے کہ جب چاہیں گے اور جو چاہیں گے لکھ دیں گے، پتھر کی لکیر ہوجائے گا۔ اس کے بعد انگریزی داں حضرات نے بھی اس سے یہ سوتاپا برتنا چاہا مگر یہ حضرات نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ اگر کبھی یہ کسی کو خاطر میں لائے تو اس وجہ سے کہ اپنا عزیز نکل آیا تو مروت بھی آگئی۔ ان حضرات کی لگام کسنے کے لیے کچھ ایسے ثقہ حضرات میدان میں عمل میں نمودار ہوئے جنھوں نے آتے ہی ثابت کر دیا کہ یہ تاریخ وفات غلط ہے اور اس نام کا کوئی شخص تھا ہی نہیں۔ ان حضرات سے جان بچانے کے لئے کسی نے مذہب کی آڑ لی اور کوئی بالکل سامنے آگیا۔ کسی نے چھکّا مارا اور ایک ہی تصنیف پر اتنی واہ واہ ہوگئی کہ ڈر کے مارے پھر دکھائی بھی نہیں دیئے کہ اگر اب کی چوک گئے تو رہی سہی ساکھ بھی جائےگی اور کچھ اچھا خاصہ لکھتے لکھتے خاصہ بور لکھنے لگے۔
مگر افسوس تو ان ادیبوں پر ہے جو لکھ سکتے ہیں مگر نہیں لکھتے۔ نہ لکھنے کا علاج ہی کیا؟
مگر سب سے دلچسپ ادیب وہ ہوتے ہیں کہ اچھے خاصے افسانے لکھ سکتے ہیں کہ بے شمار بور ڈرامہ پر ڈرامہ لکھے چلے جارہے ہیں یاشاعر اچھا خاشہ مگر بن بیٹھانا ولسٹ، ایک سے ایک نامعقول قسم کی ناولیں بک اسٹال سے برآمد ہوتی چلی آرہی ہیں۔
آخری قسم ادیبوں کی وہ ہوتی ہے جو اپنے ماتحتوں سے لکھو لکھوا کر بہت جلد ادب میں قطب کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ یہ ادیب کم اور گلیر بوائے زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ کاؤ بوائے کی طرح ادب میں آتے ہیں اور بہت جلد ٹیڈی بوائے کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.