چارپائی اور کلچر
ایک فرانسیسی مفکر کہتا ہےکہ موسیقی میں مجھے جو بات پسند ہے وہ دراصل وہ حسین خواتین ہیں جو اپنی ننھی ننھی ہتھیلیوں پر ٹھوڑیاں رکھ کر اسے سنتی ہیں۔ یہ قول میں نے اپنی بریّت میں اس لیے نقل نہیں کیاکہ میں جو قوالی سے بیزار ہوں تو اس کی اصل وجہ وہ بزرگ ہیں جو محفل سماع کو رونق بخشتے ہیں اور نہ میرا یہ دعویٰ کہ میں نے پیانو اور پلنگ کےدرمیان کوئی ثقافتی رشتہ دریافت کر لیا ہے۔ حالانکہ میں جانتا ہوں کہ پہلی باربان کی کھّی چارپائی کی چرچراہٹ اور ادوان کا تناؤ دیکھ کربعض نووارد سیاح اسے سارنگی کے قبیل کا ایشیائی ساز سمجھتے ہیں۔ کہنا یہ تھا کہ میرےنزدیک چارپائی کی دلکشی کا سبب وہ خوش باش لوگ ہیں جو اس پر اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہیں۔ اس کے مطالعہ سے شخصی اور قومی مزاج کے پرکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس لیےکہ کسی شخص کی شائستگی وشرافت کا اندازہ آپ صر ف سے لگا سکتے ہیں کہ وہ فرصت کےلمحات میں کیا کرتا ہے اور رات کو کس قِسم کے خواب دیکھتا ہے۔
چارپائی ایک ایسی خودکفیل تہذیب کی آخری نشانی ہےجو نئے تقاضوں اور ضرورتوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے نت نئی چیزیں ایجاد کرنےکی قائل نہ تھی۔ بلکہ ایسےنازک مواقع پر پرانی میں نئی خوبیاں دریافت کرکے مسکرا دیتی تھی۔ اس عہدکی رنگارنگ مجلسی زندگی کا تصور چارپائی کےبغیر ممکن نہیں۔ اس کا خیال آتے ہی ذہن کےافق پر پہت سے سہانے منظر ابھر آتے ہیں۔ اجلی اجلی ٹھنڈی چادریں، خس کے پنکھی، کچی مٹی کی سن سن کرتی کوری صراحیاں، چھڑکاؤ سے بھیگی زمین کی سوندھی سوندھی لپٹ اور آم کے لدے پھندے درخت جن میں آموں کے بجائے لڑکے لٹکے رہتےہیں اور ان کی چھاؤں میں جوان جسم کی طرح کسی کسائی ایک چارپائی جس پر دن بھر شطرنج کی بساط یارمی کی پھڑجمی اور جو شام کو دسترخوان بچھاکر کھانے کی میز بنا لی گئی۔
ذرا غور سے دیکھئے تو یہ وہی چارپائی ہےجس کی سیڑھی بناکر سگھڑ بیویاں مکڑی کے جالے اور چلنلے لڑکے چڑیوں کے گھونسلے اتارتے ہیں۔ اسی چارپائی کو وقت ضرورت پٹیوں سے بانس باندھ کر اسٹیریچر بنا لیتے ہیں اور بجوگ پڑ جائے تو انھیں بانسوں سےایک دوسرے کو اسٹیریچر کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مریض جب گھاٹ سے لگ جائے تو تیماردار مؤخرالذِکر کے وسط میں بڑا سا سوراخ کرکے اول الذِکر کی مشکل آسان کر دیتےہیں اور جب ساون میں اودی اودی گھٹائیں اٹھتی ہیں توادوان کھول کر لڑکیاں دروازے کی چوکھٹ اور والدین چارپائیوں میں جھولتے ہیں۔ اسی پر بیٹھ کر مولوی صاحب قمچی کے ذریعہ اخلاقیات کے بنیادی اصول ذہن نشین کراتے ہیں۔ اسی پر نومولود بچے غاؤں غاؤں کرتی، چندھیائی ہوئی آنکھیں کھول کر اپنے والدین کو دیکھتےہیں اور روتے ہیں اور اسی پر دیکھتے ہی دیکھتے اپنے پیاروں کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔
اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ بعض حضرات اس مضمون کو چارپائی کا پرچہ ترکیب استعمال سمجھ لیں گے تو اس ضمن میں کچھ اور تفصیلات پیش کرتا۔ لیکن جیسا کہ پہلےاشارہ کر چکا ہوں، یہ مضمون اس تہذیبی علاقت کا قصیدہ نہیں، مرثیہ ہے۔ تاہم بہ نظراحتیاط اتنی وضاحت ضروری ہےکہ،
ہم اس نعمت کے منکر ہیں نہ عادی
نام کی مناسبت سے پائے اگر چار ہوں تو مناسب ہے ورنہ اس سےکم ہوں، تب بھی خلق خدا کے کام بند نہیں ہوتے۔ اسی طرح پایوں کےحجم اور شکل کی بھی تخصیص نہیں۔ انھیں سامنے رکھ کر آپ غبی سے غبی لڑکے کو اقلیدس کی تمام شکلیں سمجھا سکتے ہیں اوراس مہم کو سر کرنے کے بعد آپ کو احساس ہوگا کہ ابھی کچھ شکلیں ایسی رہ گئی ہیں جن کا صرف اقلیدس بلکہ تجریدی مصوری میں بھی کوئی ذکر نہیں۔ دیہات میں ایسے پائےبہت عام ہیں جو آدھے پٹیوں سے نیچے اور آدھے اوپر نکلے ہوتے ہیں۔ ایسی چارپائی کا الٹا سیدھا دریافت کرنےکی آسان ترکیب یہ ہےکہ جس طرف بان صاف ہووہ ہمیشہ ”اُلٹا“ ہوگا۔ راقم الحروف نے ایسےان گھڑپائے دیکھےہین جن کی ساخت میں بڑھئی نے محض یہ اصول مدنظر رکھا ہوگا کہ بسولہ چلائے بغیر پیڑ کو اپنی قدرتی حالت میں جوں کاتوں پٹیوں سے وصل کر دیا جائے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہماری نظر سے خراد کے بنے ایسے سڈول پائے بھی گزرے ہیں جنھیں چوڑی دار پاجامہ پہنانے کو جی چاہتا ہی۔ اس قسم کے پایوں سےنٹو مرحوم کو جو والہانہ عشق رہا ہوگا اس کا اظہار انھوں نے اپنے ایک دوست سے ایک میم کی حسین ٹانگیں دیکھ کر اپنے مخصوص انداز میں کیا۔ کہنےلگے،
”اگر مجھے ایسی چار ٹانگیں مل جائیں تو انھیں کٹواکر اپنے پلنگ کے پائے بنوا لوں۔“
غور کیجئے تو مباحثے اور مناظرے کے لیے چارپائی سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ اس کی بناوٹ ہی ایسی ہےکہ فریقین آمنے سامنے نہیں بلکہ عموماً اپنے حریف کی پیٹھ کا سہارا لےکر آرام سے بیٹھتے ہیں اور بحث وتکرار کے لیے اس سے بہتر طرزنشست ممکن نہیں، کیونکہ دیکھا گیا ہےکہ فریقین کو ایک دوسرے کی صورت نظر نہ آئے تو کبھی آپے سے باہر نہیں ہوتے۔ اسی بنا پر میرا عرصے سے یہ خیال ہے کہ اگر بین الاقوامی مذکرات گول میز پرنہ ہوئے ہوتے تو لاکھوں جانیں تلف ہونے سےبچ جاتیں۔ آپ نے خود دیکھا ہوگا کہ لدی پھندی چارپائیوں پر لوگ پیٹ بھرکے اپنوں کے غیبت کرتے ہیں مگر دل برے نہیں ہوتے۔ اس لیےکہ سبھی جانتےہیں کہ غیبت اسی کی ہوتی ہے جسے اپنا سمجھتے ہیں اور کچھ یوں بھی ہے کہ ہمارےہاں غیبت سےمقصود قطع محبت ہے نہ گزارش احوال واقعہ بلکہ محفل میں لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
لوگ گھنٹوں چارپائی پر کسمساتے رہتے ہیں مگر کوئی اٹھنے کا نام نہیں لیتا۔ اس لیےکہ ہر شخص اپنی جگہ بخوبی جانتا ہے کہ اگر وہ چلا گیا تو فوراً اس کی غیبت شروع ہو جائےگی۔ چنانچہ پچھلے پہر تک مرد ایک دوسرے کی گردن میں ہاتھ ڈالے بحث کرتے ہیں اور عورتیں گال سےگال بھڑائےکچر کچر لڑتی رہتی ہیں۔ فرق اتنا ہےکہ مرد پہلےبحث کرتے ہیں، پھر لڑتے ہیں۔ عورتیں پہلےلڑتی ہیں اور بعدمیں بحث کرتی ہیں۔ مجھےثانی الذکر طریقہ زیادہ معقول نظر آتا ہے، اس لیے کہ اس میں آئندہ سمجھوتے اور میل ملاپ کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
رہایہ سوال کہ ایک چارپائی پر بیک وقت کتنے آدمی بیٹھ سکتے ہیں تو گزارش ہےکہ چارپائی کی موجودگی میں ہم نےکسی کو کھڑا نہیں دیکھا۔ لیکن اس نوع کے نظریاتی مسائل میں اعدادوشمار پر بےجا زور دینےسے بعض اوقات عجیب وغریب نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ آپ نےضرور سنا ہوگا کہ جس وقت مسلمانوں نے اندلس فتح کیا تو وہاں کےبڑے گرجا میں چوٹی کےمسیحی علما و فقہا اس مسئلہ پر کمال سنجیدگی سےبحث کر رہے تھے کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتےہیں۔
ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ تنگ سےتنگ چارپائی پر بھی لوگ ایک دوسرے کی طرف پاؤں کیے اکی شکل میں سوتے رہتے ہیں۔ چنچل ناری کا چیتے جیسا اجیت بدن ہو یا کسی عمر رسیدہ کی کمان جیسی خمیدہ کمر۔ یہ اپنےآپ کو ہر قالب کے مطابق ڈھال لیتی ہے اور نہ صرف یہ کہ اس میں بڑی وسعت ہے بلکہ اتنی لچک بھی ہےکہ آپ جس آسن چاہیں بیٹھ اور لیٹ جائیں۔ بڑی بات یہ ہےکہ بیٹھنے اور لیٹنے کی درمیانی صورتیں ہمارے ہاں صدیوں سے رائج ہیں ان کے لیے یہ خاص طور پر موزوں ہے۔ یورپین فرنیچر سے مجھے کوئی چڑ نہیں، لیکن اس کو کیا کیجئے کہ ایشیائی مزاج نیم درازی کےجن زاویوں اور آسائشوں کا عادی ہو چکا ہے، وہ اس میں میسر نہیں آتیں۔ مثال کے طور پر صوفے پر ہم اکڑوں نہیں بیٹھ سکتے۔ کوچ پر دسترخوان نہیں بچھا سکتے۔ اسٹول پر قیلولہ نہیں کر سکتے اور کرسی پر، بقول اخلاق احمد، اردو نہیں بیٹھ سکتے۔
ایشیا نے دنیا کو دو نعمتوں سے روشناس کیا۔ چائے اور چارپائی! اور ان میں یہ خاصیت مشترک ہےکہ دونوں سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔ اگر گرمی میں لوگ کھری چارپائی پر سوار رہتے ہیں تو برسات میں یہ لوگوں پر سوار رہتی ہے اور کھلے میں سونے کے رسیا اسے اندھیری راتوں میں برآمدے سےصحن اور صحن سے برآمدے میں سر پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ پھر مہاوٹ میں سردی اور بان سے بچاؤ کے لیے لحاف اور تو شک نکالتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ سردی روئی سے جاتی ہے یا دوئی سی۔ لیکن اگر یہ اسباب ناپید ہوں اور سردی زیادہ اور لحاف پتلا ہو تو غریب غربا محض منٹو کے افسانے پڑھ کر سو رہتے ہیں۔
عربی میں اونٹ کے اتنے نام ہیں کہ دوراندیش مولوی اپنے ہونہار شاگردوں کو پاس ہونے کا یہ گر بتاتے ہیں کہ اگر کسی مشکل یا کڈھب لفظ کے معنی معلوم نہ ہوں تو سمجھ لو کہ اس سے اونٹ مراد ہے۔ اسی طرح اردو میں چارپائی کی جتنی قسمیں ہیں اس کی مثال اور کسی ترقی یافتہ زبان میں شاید ہی مل سکیں،
کھاٹ، کھٹا، کھٹیا، کھٹولہ، اڑن کھٹولہ، کھٹولی، کھٹ، چھپرکھٹ، کھرا، کھری، جِھلگا، پلنگ، پلنگڑی، ماچ، ماچی، ماچا، چارپائی، نواری، مسہری، منجی۔
یہ نامکمل سی فہرست صرف اردوکی وسعت ہی نہیں بلکہ چارپائی کی ہمہ گیری پردال ہے اور ہمارے تمّدن میں اس کا مقام ومرتبہ متعین کرتی ہے۔
لیکن چارپائی کی سب سے خطرناک قسم وہ ہے جس کے بچے کھچے اور ٹوٹے ادھڑے بانوں میں اللہ کے برگزیدہ بندے محض اپنی قوت ایمان کے زور سے اٹکے رہتے ہیں۔ اس قسم کے جھلنگے کو بچےبطور جھولا اور بڑے بوڑھے آلہ تزکیہ نفس کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ اونچے گھرانوں میں اب ایسی چارپائیوں کو غریب رشتےداروں کی طرح کونوں کھدروں میں آڑے وقت کے لیے چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ خود مجھےمرزا عبدالودود بیگ کے ہاں ایک رات ایسی ہی چارپائی پر گزارنے کا اتفاق ہوا جس پر لیٹتے ہی اچھا بھلا آدمی نون غنہ (ں) بن جاتا ہے۔
اس میں داخل ہوکر میں ابھی اپنےاعمال کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ یکایک اندھیرا ہو گیا، جس کی وجہ غالباً یہ ہوگی ایک دوسرا ملازم اوپر ایک دری اور بچھا گیا۔ اس خوف سے کہ دوسری منزل پر کوئی اور سواری نہ آ جائے، میں نے سر سے دری پھینک کر اُٹھنے کی کوشش کی تو گھٹنے بڑھ کے پیشانی کی بلائیں لینے لگی۔ کھڑبڑ سن کر مرزا خود آئے اور چیخ کر پوچھنے لگے بھائی آپ ہیں کہاں؟میں نےمختصراً اپنےمحل وقوع سے آگاہ کیا تو انھوں نے ہاتھ پکڑ کر مجھے کھینچا۔ انھیں کافی زور لگانا پڑا اس اس لیےکہ میرا سر اور پاؤں بانوں میں بری طرح الجھے ہوئے تھے اور بان سر سے زیادہ مضبوط ثابت ہوئی۔ بمشکل تمام انھوں نے مجھے کھڑا کیا۔
اور میرے ساتھ ہی، مجھ سے کچھ پہلی، چارپائی بھی کھڑی ہو گئی!
کہنے لگی، ”کیا بات ہے؟ آپ کچھ بےقرار سے ہیں۔ معدے کا فعل درست نہیں معلوم ہوتا۔“
میرے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ دوڑ کر اپنا تیارکردہ چورن لے آئے اور اپنے اور اپنے ہاتھ سے میرے منہ میں ڈالا۔ پھنکی منہ میں بھرکر شکریہ کے دو چار لفظ ہی کہنے پایا ہوں گا کہ معاً نظر ان کے مظلوم منہ پر پڑ گئی جو حیرت سے کھلا ہوا تھا۔ میں بہت نادم ہوا۔ لیکن قبل اس کے کہ کچھ اور کہوں انھوں نے اپنا ہاتھ میرے منہ پر رکھ دیا۔ پھر مجھے آرام کرنے کی تلقین کرکے منہ دھونے چلے گئے۔
میں یہ چارپائی اوڑھے لیٹا تھا کہ ان کی منجھلی بچی آ نکلی۔ تتلاکر پوچھنے لگی،
”چچا جان! اکڑوں کیوں بیٹھے ہیں؟“
بعدازاں سب بچے مل کر اندھا بھینسا کھیلنے لگے۔ بالاخران کی امی کو مداخلت کرنا پڑی۔
”کم بختو! اب تو چپ ہو جاؤ! کیا گھر کو بھی اسکول سمجھ رکھا ہے؟“
چند منٹ بعد کسی شیرخوار کے دہاڑنےکی آواز آئی مگر جلد ہی یہ چیخیں مرزا کی لوریوں میں دب گئیں جن میں ڈانٹ ڈانٹ کر نیند کو آنے کی دعوت دے رہے تھے۔ چند لمحوں بعد مرزا اپنےنقش فریادی کو سینہ سے چمٹائے میرے پاس آئے اور انتہائی لجاجت آمیز لہجےمیں بولے،
”معاف کیجئے! آپ کو تکلیف تو ہوگی۔ مگر منو میاں آپ کی چارپائی کے لیے ضد کر رہےہیں۔ انھیں دوسری چارپائی پر نیند نہیں آتی۔ آپ میری چارپائی پر سو جائیے، میں اپنی فولڈنگ چارپائی پر پڑ رہوں گا۔“
میں نے بخوشی منو میاں کا حق منومیاں کو سونپ دیا اور جب اس میں جھولتے جھولتے ان کی آنکھ لگ گئی تو ان کے والد بزرگوار کو زبان تالو سے لگی۔
اب سنئے مجھ پر کیا گزری۔ مرزا خود تو فولڈنگ چارپائی پر چلے گئے مگر جس چارپائی پر مجھ خاص منتقل کیا گیا۔ اس کا نقشہ یہ تھا کہ مجھے اپنے ہاتھ اور ٹانگیں احتیاط سے تہ کرکے بالترتیب سینہ اور پیٹ پر رکھنی پڑیں۔ اس شب تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے یوں دو چشمی ھ بنا، یونانی پروقراط کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس کے پاس دو چارپائیاں تھیں۔ ایک لمبی اور دوسری چھوٹی۔ ٹھنگنے مہمان کو وہ لمبی چارپائی پر سلاتا اور کھینچ تان کر اس کا جسم چارپائی کے برابر کر دیتا۔ اس کے برعکس لمبے آدمی کو وہ چھوٹی چارپائی دیتا اور جسم کے زائد حصوں کو کانٹ چھانٹ کر ابدی نیند سلا دیتا۔
اس کے حدوداربعہ کے متعلق اتنا عرض کر دینا کافی ہوگا کہ انگڑائی لینے کے لیے مجھے تین چار مرتبہ نیچے کودنا پڑا۔ کودنےکی ضرورت یوں پیش آئی کہ اس کی اونچائی ”درمیانہ“ تھی۔ یہاں درمیانہ سے ہماری مراد وہ پست بلندی یا موزوں سطح مرتفع ہی، جس کو دیکھ کریہ خیال پیدا ہو کہ،
نہ تو زمیں کے لیے ہےنہ آسماں کےلیے
گوکہ ظاہر بین نگاہ کو یہ متوازی الاضلاغ نظر آتی تھی مگر مرز انے مجھے پہلےہی آگاہ کر دیا تھا کہ بارش سے پیشتر یہ مستطیل تھی۔ البتہ بارش میں بھیگنے کے سبب جو کان آ گئی تھی، اس سے مجھے کوئی جسمانی تکلیف نہیں ہوئی۔ اس لیےکہ مرزا نے ازراہ تکلف ایک پائے کے نیچےڈکشنری اور دوسرے کے نیچے میرا نیا جوتا رکھ کر سطح درست کر دی تھی۔ میرا خیال ہےکہ تہذیب کے جس نازک دور میں غیور مرد چارپائی پر دم توڑنے کی بجائےجنگ میں دشمن کے ہاتھوں بےگوروکفن مرنا پسند کرتےتھے، اسی قسم کی مردم آزار چارپائیوں کا رواج ہوگا۔ لیکن اب جب دشمن سیانے اور چارپائیاں زیادہ آرام دہ ہو گئے ہیں، مرنے کے اور بھی معقول اور باعزت طریقےدریافت ہو گئے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے ہاں ایک اوسط درجہ کے آدمی کی دو تہائی زندگی چارپائی پر گزرتی ہے اور بقیہ اس کی آرزو میں! بالخصوص عورتوں کی زندگی اسی محور کے گرد گھومتی ہے جو بساطِ محفل بھی ہے اور مونسِ تنہائی بھی۔ اس کے سہارے وہ تمام مصائب انگیز کر لیتی ہیں۔ خیر مصائب تو مرد بھی جیسے تیسے برداشت کر لیتے ہیں مگر عورتیں اس لحاظ سے قابل ستائش ہیں کہ انھیں مصائب کے علاوہ مردوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ مئی جون کی جھلسا دینے والی دوپہر میں کنواریاں بالیاں چارپائی کے نیچے ہنڈیا کلہیا پکاتی ہیں اور اوپر بڑی بوڑھیاں بیتے ہوئے دونوں کو یاد کر کے ایک دوسرےکا لہو گرماتی رہتی ہیں (قاعدہ ہےکہ جیسے جیسے حافظہ کمزور ہوتا جاتا ہے، ماضی اور بھی سہانا معلوم ہوتا ہے!) اسی پر بوڑھی ساس تسبیح کے دانوں پر صبح و شام اپنے پوتوں اور نواسوں کو گنتی رہتی ہے اور گڑگڑا گڑگڑاکر دعا مانگتی ہےکہ خدا اس کا سایہ بہو کے سر پر رہتی دنیا تک قائم رکھے۔ خیر سے بہری بھی ہے۔ اس لیے بہو اگرسانس لینے کے لیےبھی منہ کھولے تو گمان ہوتا ہے کہ مجھے کوس رہی ہوگی۔ قدیم داستانوں کی روٹھی رانی اسی پر اپنے جوڑے کا تکیہ بنائے اٹواٹی کھٹواٹی لےکر پڑتی تھی اور آج بھی سہاگنیں اسی کی اوٹ میں ادوان میں سےہاتھ نکال کرپانچ انگلی کی کلائی میں تین انگلی کی چوڑیاں پہنتی اور گشتی نجومیوں کو ہاتھ دکھا کر اپنےبچوں اور سوکنوں کی تعداد پوچھتی ہیں۔ لیکن جن بھاگوانوں کی گود بھری ہو، ان کے بھرے پرے گھر میں آپ کو چارپائی پر پوتڑے اور سویاں ساتھ ساتھ سوکھتی نظر آئیں گی۔ گھٹنیوں چلتے بچے اسی کی پٹی پکڑکر میوں میوں چلنا سیکھتے ہیں اور رات برات پائینتی سے مدمچوں کا کام لیتے ہیں۔ لیکن جب ذرا سمجھ آ جاتی ہےتو اسی چارپائی پر صاف ستھرے تکیوں سےلڑتے ہیں۔ نامور پہلوانوں کے بچپن کی چھان بین کی جائے تو پتہ چلےگا کہ انھوں نے قینچی اور دھوبی پاٹ جیسے خطرناک داؤاسی محفوظ اکھاڑے میں سیکھے۔
جس زمانے میں وزن کرنےکی مشین ایجاد نہیں ہوئی تھی تو شائستہ عورتیں چوڑیوں کےتنگ ہونے اور مرد چارپائی کے بان کے دباؤ سےدوسرے کے وزن کا تخمینہ کرتےتھے۔ اس زمانےمیں چارپائی صرف میزان جسم ہی نہیں بلکہ معیار اعمال بھی تھی۔ نتیجہ یہ کہ جنازے کو کندھا دینے والے چارپائی کے وزن کی بنا پر مرحوم کے جنتی یا اس کے برعکس ہونےکا اعلان کرتے تھے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہمارےہاں دبلے آدمی کی دنیا اور موٹےکی عقبےعام طور خراب ہوتی ہے۔
برصغیر میں چند علاقے ایسے بھی ہیں جہاں اگر چارپائی کو آسمان کی طرف پائینتی کرکےکھڑاکر دیا جائے تو ہمسائے تعزیت کو آنے لگتے ہیں۔ سوگ کی یہ علامت بہت پرانی ہے گوکہ دیگر علاقوں میں یہ عمودی (١) نہیں، افقی (-) ہوتی ہے۔ اب بھی گنجان محلوں میں عورتوں اسی عام فہم استعارے کا سہارا لے کر کو ستی سنائی دیں گی۔ ”الٰہی! تن تن کوڑھ ٹپکے۔ مچمچاتی ہوئی کھاٹ نکلے!“ دوسرا بھرپور جملہ بددعاہی نہیں بلکہ وقت ضرورت نہایت جامع ومانع سوانح عمری کا کام بھی دے سکتا ہے کیونکہ اس میں مرحومہ کی عمر، نامرادی، وزن اورڈیل ڈول کےمتعلق نہایت بلیغ اشارے ملتے ہیں۔ نیز اس بات کی سند ملتی ہےکہ راہی ملک عدم نے وہی کم خرچ بالانشین وسیلہ نقل وحمل اختیار کیا جس کی جانب میر اشارہ کر چکےہیں،
تیری گلی سدا اےکشندہ عالم
ہزاروں آتی ہوئی چارپائیاں دیکھیں
قدرت نے اپنی رحمت سےصفائی کا کچھ ایسا انتظام رکھا ہےکہ ہر ایک چارپائی کو سال میں کم ازکم دومرتبہ کھولتے پانی سےدھارنےکی ضرورت پیش آتی ہی۔ جونفاست پسند حضرات جان لینےکا یہ طریقہ جائز نہیں سمجھتے وہ چارپائی کو الٹا کرکے چلچلاتی دھوپ میں ڈال دیتے ہیں۔ پھر دن بھر گھر والے کھٹمل اور محلے والے عبرت پکڑتےہیں۔ اہل نظر چارپائی کو چولوں میں رہنے والی مخلوق کی جسامت اور رنگت پر ہی سونے والوں کی صحت اور حسب نسب کا قیاس کرتے ہیں (واضح رہےکہ یورپ میں گھوڑوں اور کتوں کے سوا، کوئی کسی کا حسب نسب نہیں پوچھتا) الٹی چارپائی کو قرنطینہ کی علامت جان کر راہ گیر راستہ بدل دیں دیں تو تعجب نہیں۔ حدیہ کہ فقیربھی ایسے گھروں کے سامنے صدا لگانا بند کر دیتے ہیں۔
چارپائی سے پراسرار آوازیں نکلتی ہیں، ان کا مرکز دریافت کرنا اتنا ہی دشوار ہے جتنا کہ برسات کی اندھیری رات میں کھوج لگانا کہ مینڈک کے ٹرانے کی آواز کدھر سے آئی یا کہ یہ تشخیص کرنا کہ آدھی رات کو بلبلاتے ہوئے شیرخوار بچے کے درد کہاں اٹھ رہا ہے۔ چرچراتی ہوئی چارپائی کو میں نہ گل نغمہ سمجھتا ہوں، نہ پردہ ساز اور نہ اپنی شکست کی آواز! درحقیقت یہ آواز چارپائی کااعلان صحت ہے کیونکہ اس کے ٹوٹتے ہی یہ بند ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ایک خودکار الام کی حیثیت سے یہ شب بیداری اور سحرخیزی میں مدد دیتی ہے۔ بعض چارپائیاں اس قدرچغل خور ہوتی ہیں کہ ذرا کروٹ بدلیں تو دوسری چارپائی والا کلمہ پڑھتا ہوا ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھتا ہے۔ اگر پاؤں بھی سکیڑیں تو کتے اتنے زور سے بھونکتے ہیں کہ چوکیدار تک جاگ اٹھتے ہیں۔ اس یہ فائدہ ضرور ہوتا ہےکہ لوگ رات بھر نہ صرف ایک دوسرے کی جان ومال بلکہ چال چلن کی بھی چوکیداری کرتے رہتےہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ ہی بتائیے کہ رات کو آنکھ کھلتے ہی نظر سب سے پہلے پاس والی چارپائی پر کیوں جاتی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.