سگریٹ No شی
صاحب! میں تو اخبار اس لیے پڑھتا تھا کہ دنیا کے بارے میں میری معلومات اپ ٹوڈیٹ رہیں۔ آج کا اخبار پڑھ کر پتہ چلا کہ میری تو اپنے بارے میں معلومات اپ ٹوڈیٹ نہیں ہیں۔ یہاں ڈیٹ سے مراد وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ امریکی ڈاکٹروں نے تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ میں تو روزانہ کئی سگریٹ پھونک جاتا ہوں۔ یہی نہیں انہوں نے تو ہماری خواتین کو بھی نہیں بخشا۔ ان کے حساب سے ہماری بیشتر خواتین سگریٹ نوش ہیں۔
ہوا یوں کہ امریکی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے ایک خاتون کے معائنے کے بعد کہا کہ اسے سگریٹ نوشی کی وجہ سے پھیپھڑوں کا کینسر ہوگیا ہے۔ مگر اس خاتون نے بتایا کہ میں نے تو کبھی سگریٹ نہیں پی۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ خاتون ٹھیک کہہ رہی تھی۔ مگر غلط ڈاکٹروں نے بھی نہیں کہا تھا، کیوں کہ اس عورت کا خاوند سگریٹ پیتا تھا اور جب کوئی آپ کے سامنے سگریٹ کی ایک ڈبی پیتا ہے تو در اصل اس میں سے دو سگریٹ آپ بھی بذریعہ سانس پی جاتے ہیں۔ یوں ہماری ہر وہ عورت جس کا خاوند، بھائی یا باپ سگریٹ پیتا ہے، وہ سگریٹ نو ش ہے۔ ایک ایسی ہی محترمہ نے خاوند کو کہا، ’’سگریٹ پینا چھوڑ دو یا مجھے۔‘‘ خاوند سوچ میں پڑگیا تو بیوی نے پوچھا، ’’اب سوچنے کیا لگے ہو؟‘‘ تو خاوند بولا، ’’سوچ رہا ہوں اب کھانا کون پکایا کرے گا؟‘‘
میں نے سگریٹ کے بارے میں ایک کالم لکھا تھا۔ ایک خط آیا کہ آپ کا کالم پڑھ کر ہمیں سگریٹ No شی اتنی بری لگی کہ ہم نے توبہ کرلی کہ آئندہ کبھی آپ کے کالم نہیں پڑھیں گے۔ ظاہر ہے بندہ وہی کام کر سکتا ہے جو اس کے لیے آسان ہو۔ جیسے مارک ٹوئن نے کہا تھا کہ میرے لیے سگریٹ پینا نہ پینے کی نسبت آسان ہے کیونکہ سگریٹ سے جان چھڑانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ کہتا ہے، ’’مجھے تو ایک بار پرانی چھتری سے جان چھڑانا تھا، کوڑے کے ڈرم میں پھینکی تو صفائی کرنے والا پہچان کر واپس کر گیا۔ سڑک پر پھینکی تو محلے دار پہچان کر دے گئے، کئی طریقے آزمائے۔ آخر کار ایک دوست کو ادھار دے دی۔ اس کے بعد میں نے اس چھتری کی شکل نہیں دیکھی۔‘‘
ویسے ٹی وی پر سگریٹ کے اشتہار دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم سگریٹ پئے بغیر زندہ کیسے ہیں؟ ایک اشتہار میں ایک شخص مخصوص برانڈ کا سگریٹ پی کر شکار کو نکلتا اور شیر کو مار کر لوٹتا۔ ففٹی ففٹی پروگرام میں اس کی پیروڈی کی گئی کہ ایک دن وہ اسی طرح سگریٹ پی کر شیر کے شکار کو نکلتا ہے مگر واپس آتا ہے تو زخمی اور بدحال ہوتا ہے۔ ایک شخص پوچھتا ہے، ’’آج تم شیر کو نہیں مار سکے کیا وجہ ہوئی؟‘‘ تو وہ کہتا ہے، ’’آج شیر نے بھی اسی برانڈ کا سگریٹ پی رکھا تھا۔‘‘ ویسے سگریٹ پینا کوئی کام نہیں ہے کیونکہ یہ کام ہوتا تو بڑے بڑے افسروں اور سربراہوں نے سگریٹ پینے کے لیے الگ ملازم رکھے ہوتے۔
حال ہی میں بین الاقوامی مشاورتی فرم پیٹ ماورک نے روس جانے والوں کے لیے جو ہدایات نامہ مرتب کیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ روس میں دعوت کے دوران ریستوران میں گول میز منتخب کریں کیونکہ روسیوں کے ہاں کونے بدقسمی کی علامت ہوتے ہیں اور آخر میں بہترین سروس پر بیرے کوٹپ میں سگریٹ دیں۔ اگرچہ یسی ٹپ تو اس بیرے کو دینی چاہیے جو اچھی سروس نہ کرے۔ لیکن ایلین بینٹ نے کہہ رکھا ہے کہ روس میں رہنے کا صرف ایک ہی فائدہ ہے کہ یہ ان جگہوں میں سے ایک ہے، جہاں سگریٹ کینسر نہیں کرتا کیونکہ کے جی بی کا حکم نہیں۔ اس وقت تک روس میں کے جی بی کے حکم کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ اس لحاظ سے تو کے جی بی پر پابندی کے بعد روس میں کینسر کا خطرہ بڑھ گیا ہوگا، مگر پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ کہتے ہیں، ”Cancer Cures Smoking”
سگریٹ کے شروع میں سگ آتا ہے سو اسے کسی ریٹ پر بھی منہ نہیں لگانا چاہیے۔ سگریٹ پینے والوں سے پوچھا جائے کہ میں صحت مند ہوں، یہ کون سا فعل ہے؟ حال، ماضی یا مستقبل؟ تو جواب ہوگا فعل ماضی۔ مشہور اداکار گریگری پیکر اپنی سوانح عمری میں لکھتا ہے کہ میرے ڈاکٹر نے مجھے نصیحت کی کہ آپ کی صحت کے لیے یہی بہتر ہے کہ فوراً سگریٹ نوشی چھوڑ دیں۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں آج سے سگریٹ نوشی ترک کر رہا ہوں تو وہ بولا، ’’چونکہ اب تم سگریٹ نوشی چھوڑ ہی رہے ہو تو یہ سونے کا لائٹر مجھے گفٹ کر دو۔‘‘
کہتے ہیں پہلے آدمی سگریٹ کو پیتا ہے، پھر سگریٹ سگریٹ کو پیتا ہے اورآخر میں سگریٹ آدمی کو پیتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ اتنے لوگ سگریٹ سے نہیں مرتے جتنے سگریٹ پر مرتے ہیں۔ انگریزی میں اسے سموکنگ کہتے ہیں لوگوں کو شاید سموکنگ پسند ہی اس لیے ہے کہ اس میں کنگ آتا ہے لیکن اس دور میں کنگ کہیں کے نہیں رہے۔ سو لگتا ہے عنقریب دھواں دینے والی گاڑیوں کی طرح دھواں دینے والے افراد کابھی چوراہوں میں چالان ہوا کرے گا۔
اس تازہ تحقیق سے پہلے ہم سگریٹ پینے کے لیے دوسروں کے محتاج ہوتے تھے۔ اب سگریٹ پینا ترک کرنے کے لیے بھی دوسروں کے محتاج ہوگئے ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے کہا، ’’میرے بچے کو اخبار منہ میں ڈالنے کی بڑی بری عادت تھی مگر اب نہیں رہی۔‘‘ پوچھا، ’’تم نے یہ عادت کیسے چھڑوائی؟‘‘ بولا ’’میں نے اخبار لینا بند کر دیا۔‘‘ سو سگریٹ پینے کی عادت بھی ایسے ہی چھڑوائی جا سکتی ہے۔ لیکن لوگ سگریٹ نوشی کو عادت ہی نہیں مانتے۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے، ’’سگریٹ پینے سے عادت نہیں پڑتی کیونکہ میں گزشتہ بیس سالوں سے سگریٹ پی رہا ہوں، مجھے تو عادت نہیں پڑی۔‘‘ میں نے کہا، ’’پھر تم سگریٹ چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔‘‘ بولے، ’’سبھی کہتے ہیں سگریٹ نہ پینا سودمند ہے اور میں سود کے بہت خلاف ہوں۔‘‘ لیکن آج صبح اس نے حیران کردیا۔
’’میں نے آوارہ پھرنا چھوڑدیا۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ہاں اور میں نے جوا کھیلنا بھی بند کردیا۔‘‘
’’واقعی؟‘‘
’’ہاں اور میں نے سگریٹ نوشی بھی ترک کردی۔‘‘
’’ویری گڈ! تم نے سب بری عادتیں چھوڑ دیں۔‘‘
’’بس ایک ابھی تک نہیں چھوڑ سکا۔‘‘
’’کون سی؟‘‘
’’جھوٹ بولنا۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.