Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یونیورسٹی کے لڑکے

احمد جمال پاشا

یونیورسٹی کے لڑکے

احمد جمال پاشا

MORE BYاحمد جمال پاشا

    صاحب لڑکوں کی تو آج کل بھرمار ہے۔ جدھر دیکھیے لڑکے ہی لڑکے نظر آتے ہیں۔ گویا خدا کی قدرت کا جلوہ یہی لڑکے ہیں۔ گھراندر لڑکے، گھر باہر لڑکے، پاس پڑوس میں لڑکے، محلہ محلہ لڑکے، گاؤں اور شہروں میں لڑکے، صوبے اور ملک میں لڑکے، غرض یہ کہ دنیا بھر میں لڑکے ہی لڑکے، جہاں تک نظر کام کرےگی لڑکے ہی لڑکے دکھائی دیں گے اور جہاں نظر کام نہ کرے گی وہاں کا کیا کہنا کیونکہ وہاں تو لڑکے ہوں گے ہی۔

    یوں تو ان کی کاشت ہر موسم، ہر آب و ہوا اور ہر ملک میں کی جاتی ہے۔ لیکن آپ جانئے ہر ملک کی روایات الگ الگ ہوتی ہیں اور اسی میں شان ہے۔ ہمارے ملک کی شان چونکہ سب سے الگ ہے لہٰذا دنیا بھر میں لڑکوں کی کاشت کےاعتبار سے ہمارا ملک سب سے زرخیز واقع ہوا ہے۔ یہاں کے باشندوں نے بنجر مقامات پر بھی ان کی کاشت کرکے ملک کو زرخیز و مالامال کردیا ہے۔ اس کے بارے میں کچھ ماہرین کا خیال ہے ’’زیادہ غلّہ اگاؤ‘‘ کی تحریک کو جب سے ’’زیادہ لڑکے پڑھاؤ‘‘ میں سمویا گیا ہے تب سے یونیورسٹیاں لڑکوں سے کھچاکھچ بھرنے لگی ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم ’’حوالی طلبا‘‘ کی ہے جو اسی نام سے مشہور بھی ہے، خود ان طلبا کے بارے میں اب تک یہ طے نہیں کہ واقعی ان کا وجود ہے بھی یا صرف ’حوالے کی کتابوں‘ کی طرح حوالے ہی حوالے ہیں۔ ان طلبا کو یونیورسٹی کے ناخدا، لارڈ، منکر نکیر اور کراماً کاتبین بھی کہا جاسکتا ہے۔

    یونیورسٹی میں ہونے والے کھیل تماشے، مشاعرے، قوالی، پکے گانے، ہلے پھلکے پروگرام، جلسے، جلوس وغیرہ کے یہ سولہ آنے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان کے نام سے یونیورسٹی بھر واقف ہوتی ہے۔ آس پاس کے موچی ان کےنام لے کر اپنی دکانیں سڑکوں کے کنارے جماتے ہیں۔ بات بات میں ان کی تصاویر اور بیانات اخبارات ہینڈبلس ار لیف لیٹس میں اچھلتے نظر آتے ہیں۔ مگر یہ خود نظر نہیں آتے گوکہ ان کا ذکر ہوتا ہے۔ تمام انتظامی امورمیں ان کا خاص و عام ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ تخت رہے یا تختہ کے قائل ہوتے ہیں۔ مگر کچھ دشمنوں کا شک ہے کہ یہ لوگ فاترالعقل اور بوہیمین ہوتے ہیں جب کہ ہمارا شک ہے کہ بات کچھ اور ہے اور جو شاید خود ہم بھی نہیں جانتے ورنہ آپ سے کیا پردہ تھا۔

    ان طلبا کی پہچان یہ ہے کہ یہ آپ کو ہر وقت چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔ مگر ان کے چلنے کے راستے مقرر ہیں۔ اگر آپ کو ان کی تلاش آنکھ بند کرکے کرنا مقصود ہے تو ہماری رائے میں آپ کا من روم کے سامنے چلے جائیے۔ یہی ایک پرفضا مقام ہے جہاں یہ لوگ موقع پاتے ہی تبدیل آب وہ ہوا کی غرض سے پہنچ جاتے ہیں۔ ویسے یہ شام کو حضرت گنج میں ہوا خوری کرتے نظر آئیں گے جہاں یہ میل روز، ایروز، کوالٹی اور اسی طرح کے انگریزی ہوٹلوں میں نقرئی قہقہوں سے اپنے کھوکھلے قہقہے ملاتے ہوں گے۔ اگر آپ کو ان کی تمیز کرنا مقصود ہے تو آپ اپنی آنکھیں کھول کر ان کو بجائے تلاش کرنے کے ٹٹولئے یہ کہیں نہ کہیں زور زور سے کسی اہم مسئلے پر کسی نیم ریٹائرڈ قسم کے بزرگ سے بحث کرتے ہوں گے۔ ان کے پیچھے بہت سے عقیدت مندوں کا ہجوم ہوگا۔ خاص بات یہ ہوگی کہ سب انکا نام جانتے ہوں گے اور عام بات یہ ہوگی کہ یہ خود کسی کا نام نہ جانتے ہوں گے۔ یہ آپ کو کسی نہ کسی لیڈر یا پروفیسر وغیرہ کو کسی ہونےوالی میٹنگ کی صدارت کے لیے اکساتے ہوئے ملیں گے۔ ہر تقریب میں آپ بہ آسانی ان کو صدر کےدائیں بائیں پہلو میں دیکھ سکتے ہیں۔

    تمام مقابلے غالباً انہی طلباء کے لیے کروائے جاتے ہیں۔ امتحانات میں فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس شاید انہی نے جاری کروایا تھا۔ غرض یہ کہ وہ محفل محفل نہ ہوگی جہاں یہ پالا نہ مارلے جائیں۔ ہر لکھا پڑھی کے کام میں ان کا نام سب سے اوپر ہوگا یا سب سے نیچے مگر ہوگا ضرور۔ یہ تھوڑا سا فرق جو فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس میں پیدا ہوجاتا ہے، وہ ان طلبا کی ستم ظریفی نہیں بلکہ خیالات کا ٹکراؤ ہے کیونکہ کچھ طلبا کا خیال ہے کہ ٹاپ اوپر سے یعنی ٹاپ سے کیا جائے اور کچھ کا خیال ہے کہ ٹاپ نیچے سے یعنی باٹم سے کیا جائے۔ ان کا اعتقا اسی بات پر ہے کہ ناک ناک ہی ہوتی ہے خواہ اِدھر سے پکڑ لو یا ادھر سے۔ باقی جو کسر ٹاپ کرنے میں رہ جاتی ہے وہ یہ طلبا، ٹیپ ٹاپ سے پوری کرلیتے ہیں۔ ان کے ٹیپ ٹاپ کرنے کے بھی دو طریقے ہیں۔ کچھ طلبا کا خیال ہے کہ ’’اعلی خیالات سادہ زندگی۔‘‘ جب کہ بقیہ طلبا کا قول ہے کہ نہیں نہیں ’’اعلی زندگی اور سادہ خیالات‘‘ ہونا چاہیے۔ مگر پروفیسر اوٹ پٹانگ کا خیال ہے کہ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ خیالات اور زندگی میں کس کو اعلیٰ اور کس کو سادہ ہونا چاہیے۔

    طلباء کا دوسرا گروہ پہلے والے گروہ سے مختلف ہوتا ہے۔ یعنی زندگی اعلیٰ پسند کرتاہے۔ اس کاثبوت یہ ہے کہ آپ ان کے جوتوں میں جو شیشے سے زیادہ چمک دار ہوتے ہیں بہ آسانی اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ نہایت اعلیٰ قسم کے سوٹ پہنے ہوتے ہیں جو ٹاٹ، چمڑے یا کینویس وغیرہ کے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں کے بارے میں ہم آپ سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ آپ کو ان کے منہ پر کریم، پاؤڈر اور اسنو ملے گا مگر چہرہ نہیں ملے گا۔ مگر ہاں اگر آپ نہار منہ صبح سویرے ان کا منہ دیکھنا گوارا کریں تو ممکن ہے ان کے چہرے کا درشن ہوجائے۔

    ان طلبا کے بات چیت کے طریقے ان کے کھانے پینے کے طریقوں سے مختلف ہوتے ہیں مگر پھر بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات نہیں کریں گے بلکہ کھاجائیں گے۔ جب کسی مسئلہ پر بات چیت ہوگی تو ایسا ظاہر کریں گے کہ بس ان کے جانے کی دیر ہے۔ گئے نہیں کہ مسئلہ حل ہوا۔ حالانکہ ان سے مسئلہ حل ہونا ایک دوسرا مسئلہ ہوگا مگر چونکہ ان کو بات چیت کرنے اور خطاب کرنے کی لت ہوتی ہے اس وجہ سے ہمیشہ صرف بڑے بڑے مسائل کوہاتھ لگاتے ہیں اور بات کرنے میں برابر ہاتھ پیر ہلانے، گھونسا دکھانے، گردن بلانے، کندھے اچکانے اور منھ چڑھانے سے بھی نہیں چوکتے۔

    طلبا کی تیسری قسم وہ ہوتی ہے جن کو ہم ’’خیالی طلبا‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ ان کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ یہ یونیورسٹی پڑھنے کے لیے نہیں آتے بلکہ یونیورسٹی میں خیال کی رفتار سے آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہ طلبا ہمیشہ طوائف المکوکی میں مبتلا رہتے ہیں۔ ان کو درجوں سے سخت نفرت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ درجوں میں چلے جاتے ہیں مگر چونکہ دل کے بالکل صاف ہوتے ہیں اور اپنی صفائی میں فرق نہیں آنےدیتے ہیں۔ اس وجہ سے درجوں میں صرف سونے یا کسی کی تلاش کرنےکی غرض سے جانے کی تکلیف اٹھاتے ہیں اور جیسے صاف جاتے ہیں ویسے ہی لوٹ آتے ہیں۔ کسی پروفیسر سے جب یہ ٹکر لیتے ہیں جو عموماً ہو ہی جاتی ہے تو اس کو نہایت مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔ ویسے ہوتے بہت اڑیل ہیں اور آسانی سے نہیں جاتے۔ عموماً جس کلاس میں ایک مرتبہ بھرتی ہوتے ہیں نہایت وضع داری سے چار پانچ سال تک اسی کلاس کو نبھاتے ہیں۔ دراصل ان کے منہ اس کلاس کا خون لگ جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ اپنے بچوں کا انتظار کرتے ہوں کہ ان کو اپنے سامنے پڑھوانے کا موقع مل جائے۔ بہرحال ان کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

    ان طلباء کی نشست و برخاست یونیورسٹی کے کافی ہاؤس ’’اناپورنا‘‘، ’’کپورز‘‘ اور یونین ہال میں ہوتی ہے۔ ویسے یہ گھاس پھوس پر بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ وقت گزاری کے لیے موٹروں میں بیٹھتے ہیں۔ جس کے پاس موٹر نہیں ہوتی وہ کوئی نہ کوئی موٹر تلاش کرلیتا ہے۔ خواہ اس کے لیے انھیں ڈرائیور موٹر ہذا کی ڈانٹ پھٹکار سہنا پڑے یا اس کو سگریٹ پلانا پڑے۔ یہ طلبا کپڑوں کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کے کپڑوں کی تعریف کرنا چراغ کو سورج دکھلانا ہے۔ ان طلبا کا صدر مقام گرلس کامن روم کے آس پاس کاعلاقہ ہے جہاں یہ اس کثرت سے جمع ہوتے ہیں کہ رونق پیدا ہوجاتی ہے اور اس کو یہاں کی زبان میں چہل پہل یعنی چلنا پھرنا کہتے ہیں۔ یہ بات کرنےمیں ایک دوسرے پر کڑی نظر رکھتے ہیں اور لباس شناس ہوتے ہیں۔ ان میں کثرت ان طلبا کی ہوتی ہے جو سال بھر ایک ہی پتلون اور ایک ہی کوٹ کو استری سے رگڑ رگڑ کر اور ایک ہی ٹائی کو الٹ پلٹ کرلٹکاتے ہیں۔ یہ کسی بات سے نہیں چوکتے۔ ہر موقع سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مثلاً جاڑے کاموسم کیوں پسند کرتے ہیں؟ ان کو اس کاکیوں شدت سے انتظار رہتا ہے؟ صرف اس وجہ سے کہ جاڑے آتے ہی پھٹی ہوئی قمیص اور بنیانیں استعمال کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ جاڑوں میں کپڑے کم میلے ہوتے ہیں۔ پورا جاڑا ایک شیروانی میں گزارا جاسکتا ہے جس کے اگر سب بٹن لگا لیے جائیں تو قمیص کی بچت ہوتی ہے۔

    چوتھی قسم ہوتی ہے ان طلبا کی جو ’’سرپھرے‘‘ کہلاتے ہیں۔ آپ ان کو دیکھتے ہی بہ آسانی پہچان جائیں گے۔ ان کے دس کتابیں ادھر اور دس کتابیں ادھر بغل میں ہوں گی اور نہایت سنبھل سنبھل کر چلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ رہتے ہیں خیالات کی دنیا میں۔ بات اشاروں میں کرتے اور چلتے پرچھائیوں میں ہیں۔ یہ کتابیں پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ بانٹنے کے لیے لاتے ہیں تاکہ کچھ لوگ ان سےمتاثر ہوں۔ کچھ عبرت پکڑیں۔ ان کی موٹی موٹی کتابوں کے نام اور حوالے زبانی یاد ہوتے ہیں۔ جب یہ بات کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کسی لائبریری کا چپراسی بول رہا ہے۔ عام طور پر نادان لوگ دل ہی دل میں ان پر پیچ و تاب کھاتے ہیں اور منہ پر انھیں برداشت کیے رہتے ہیں۔ جب یہ آپ سے مجبوراً بات کرنے کے لیے رکیں گے تو یہ آپ کو سر سے پیر تک ایک گہری نظر سے اس طرح دیکھیں گے جیسے کہ یہ کسی شیرخوار بچے پر شفقت کر رہے ہوں۔ آپ ان کے سامنے کسی بہت قابل آدمی کا نام لے لیجیے، آپ کی مصیبت آجائے گی۔ فوراً بہت نفرت سے سنبھل سنبھل کر اور ٹھہر ٹھہر کر آنکھیں میچ میچ کر بھوں سکوڑ کر بولیں گے ’’ہونہہ‘‘ پھر اور آپ سے اس کی برائی شروع کردیں گے۔ ان کا دن رات کا یہ کام ہے کہ دنیا بھر میں جو چیزیں بھی ہو اس کی ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر برائی نکالیں گے۔ اگر مسکرانا چاہیں گے تو ہفتوں مسکرانے کے لیے زمین تیار کریں گے۔ جی کڑا کریں گے، اور آخر میں ناکام رہیں گے۔ ایسے لوگوں کی دنیا بھر تو شاگرد ہوتی ہے۔ اگر آپ ان کی تعریف نہ کریں گے تو بس غضب ہوجائے گا۔ ’’آپ جاہل ہیں۔ آپ کیا سمجھیں معاف کیجیے گا۔ آپ سے ملنے کے لیے تو مجھے اپنا معیار بہت گراکر بات کرنا پڑتی ہے۔ اگر کوئی دیکھے تو آپ کا کیا جائے گا میری مفت میں بدنامی ہوگی۔‘‘ اگر آپ ان کی تعریف کردیں تو یہ سمجھیں گے کہ بے وقوف بنارہا ہے۔ اگر آپ ادب کریں تو یہ آپ کو بازار پان لینے کے لیے بھیج دیں گے۔

    پانچویں قسم ہوتی ہے ان طلبا کی جو خانہ نشین کہلاتے ہیں۔ یہ بے چارے گھر سے گردن جھکاکر سیدھے یونیورسٹی پڑھنے آتے ہیں۔ یہ بہو بیٹیاں کیا جانیں کہ یونیورسٹی میں کیا ہوتا ہے۔ نہ اس کا غم کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، نہ انہیں اس کی فکر کہ پہلے قیامت آئے گی یا تیسری عالم گیر جنگ۔ درحقیقت یہ دردِ دل کو دردِ جہاں کا درجہ دینے کے سخت مخالف ہیں۔ یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں، پھر ٹھاٹھ سے لائبریری میں گھس جاتے ہیں اور وہاں سے نوکدم گھر کی طرف بھاگتے ہیں۔ ان کو اس بات کا خوف رہتا ہے کہ اگر دیر ہوگئی تو کہیں امی نہ ماریں یا اگر راستے میں کسی نےچھیڑ دیا تو کیا ہوگا۔ اپنی عزت اپنے ہاتھ ہوتی ہے۔ گھر میں گھستے ہی یہ پھر پڑھنا لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ دوسرے دن پھر اسی طرح سے آتے ہیں اور گھنٹہ ختم ہونے پر ایک کلاس سے دوسرے کلاس میں اس طرح بے تحاشا بھاگ کر گھستے ہیں گویا ان کو کوئی کلاس میں جانے سے روک رہا ہو۔ آپس میں جگہ کے لیے بھی لڑتے ہیں۔ یہ کتاب کے کیڑے جب کتابوں کی دنیا سے باہر آتے ہیں تو ان کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ امتحان میں ان کی زیادہ تعداد فیل ہوجاتی ہے کیونکہ آج کل جنرل پرچے زیادہ آتے ہیں جوان کے بس سے باہر ہوتے ہیں۔ جب یہ ہنستے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ رو رہے ہیں۔ روئیں گے تو معلوم ہوگا کہ ہنس رہے ہیں۔ بات کریں گے تو معلوم ہوگا کہ پھاڑ کھائیں گے۔ اگر آہستہ گفتگو کریں گے تو پتہ چلے گا کہ کچھ مانگ یا سونگھ رہے ہیں۔ عام طور پر یہ بہت تنگ نظر ہوتے ہیں اور سوائے پڑھائی لکھائی کے، میں بالکل صفر ہوتے ہیں، ہر چیز بہت حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ طے کرنا ذرا مشکل ہے کہ ان کی زندگی گھر سے شروع ہوتی ہے یا یونیورسٹی سے، ویسے اگر ان کو یونیورسٹی کی چلتی پھرتی میز کہا جائے تو غالباً بیجا نہ ہوگا۔

    چھٹی قسم ہوتی ہے ان طلبا کی جو خیر سے ’’کھلاڑی‘‘ ہوتےہیں اور اپنے کھیل کے لیے مشہور بھی۔ یہ چَوّا، پنجا اور سکسر سے کم بات نہیں کرتے۔ کرکٹ بھی اتنا ہی اچھا کھیلتے ہیں جتنی اچھی کومنٹری سنتے ہیں۔ یہ جتنے پھرتیلے ہوتے ہیں اسی قدر پڑھنے لکھنے میں صاف ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی مستقل ایک کھیل کا میدان ہوتی ہے، جس میں یہ برابر رن بناتے رہتے ہیں۔ یہ کبھی کبھی کلاسوں میں بھی چلے جاتےہیں مگر صرف میچ کا چیلنج دینے، کھلاڑی تلاش کرنے یا ٹورنامنٹ وغیرہ کے بارے میں طے کرنے۔ دن بھر نہایت شدت کے ساتھ شام کا انتظار کرتے ہیں۔ کھلاڑیوں کے اوپر تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ ٹیم بناکر کھیلتے ہیں۔ لیکن اگر ٹیم نہ ملے تو اکیلے کھیلنے سے بھی نہیں چوکتے۔ اخبار کا لاسٹ پیج (آخری صفحہ) بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ باقی اخبار اگر ان کا بس چلے تو بند کرواکے دم لیں ورنہ اس کو بھی آخری صفحہ بناکر چھوڑیں۔ جب یہ لوگ کھیل شروع کرتے ہیں تو اس وقت تک کھیلتے رہتے ہیں جب تک کہ کھیل ختم نہ ہو۔

    ساتویں قسم ہوتی ہے ان طلبا کی جن کے اوپر فلمی بھوت سوار رہتا ہے۔ یہ فلم زدہ کہلاتے ہیں اور فلمی مالی خولیا میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ باتیں کرنے میں تشبیہ اور استعارے کے ذریعہ ایکٹریس کے نام مقام ولدیت، سکونت وغیرہ سے کام نکالتے ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں کہ کلاس میں کیا پڑھایا جارہا ہے۔ مگر یہ آپ کو بتلا دیں گے کہ ان کے گھر میں کون کون کام کر رہا ہے اور آخر کیوں؟ یہ آپ کو بتا دیں گے کہ شان اس پَری وَش کی اور گلوب میں کیا بنیادی فرق ہے جو ہم آپ میں نہیں۔ یہ فلمی پرچے پڑھتے، فلمی معمے بھرتے اور دن دھاڑے ہالی ووڈ کے خواب دیکھا کرتے ہیں۔ فلمی گانے ان کو اس طرح یاد ہوتے ہیں جس طرح ہمیں آپ کو قومی ترانہ یاد ہو۔ یہ ڈایلاگس میں بات کرتے اور پرچھائیوں میں چلتے ہیں۔ غرض کہ ہر وقت یا تو آرٹ کی دنیا میں رہتے ہیں ورنہ بمبمئی بھاگ جاتے ہیں۔

    طلباء کی آٹھویں قسم ادیب کہلاتی ہے اور شاعری یا افسانہ نگاری کے مرض یا تنقید کے خبط میں مبتلا رہتی ہے۔ یہ آپس میں کچھ اس طرح ملتے ہی لڑنا شروع کردیتے ہیں کہ بس ایک دوسرے کو کھا ہی جائیں گے۔ مگر چونکہ ان کا غصہ سوڈے کا ابال ہوتا ہے، اس لیے فوراً ہی ایسا کھل مل کر باتیں کرنا شروع کردیتے ہیں کہ بیچ بچاؤ کا ارادہ کرنے والا دل ہی دل میں خدا کا شکر بجالائے کہ اچھا ہوا جو بیچ میں نہیں بولے ورنہ خواہ مخواہ شرمندگی اٹھانی پڑتی۔ یہ تو لڑبھڑ کر پھر ایک ہوگئے۔ ادیب قسم کے طلبا پر ہر وقت خوف طاری رہتا ہے کہ ادب پر جمود طاری ہے اور اس جمود کو خود اپنے اوپر اس طرح طاری کرلیتے ہیں جیسے کوئی کھوسٹ برھیا کسی جوانی کا صبر سمیٹ لے۔ ان کا ہاضمہ ہمیشہ بہت خراب رہتا ہے۔

    آج کل سارے ادیب تھک چکے ہیں۔ اب ان کے پاس کہنے کے کوئی بات نہیں رہ گئی ہے۔ ادب کو بچائیے۔ سخت خطرے میں ہے۔ تم لوگ لکھو تو میری ذمہ داری کچھ کم ہو۔ گویا ادب کے سارے چھپڑ کو آپ ہی کی ناچیز ہستی کا سہارا روکے ہوئے ہے۔ مگر یہ لوگ اب تبرک ہوتے جارہے ہیں۔ دیکھیے اس تبرک سے کب محرومی نصیب ہو۔ کچھ حقیر فقیر قسم کے بگڑے دل ادیب خطوط کے جواب میں مدیرانِ رسائل کومتاثر کرنے کے لیے اپنے نام کے بجائے اپنے فرضی سکریٹری کے دستخط کردیتےہیں۔ گویا خود اپنے ہی فرضی سکریٹری کی قائم مقامی کرتے ہیں اور خطوط میں ظاہر کرتے ہیں کہ وہ یا تو علیل ہیں یا باہر گئے ہوئے ہیں ورنہ بہت سخت مصروف ہیں۔ میں آپ کا پیغام ان تک پہچانے کی کوشش کروں گا۔ آپ ان کو پڑھ سکتے ہیں۔ ان سے بات نہیں کرسکتے۔ یہ ادب کی زبان میں ادیب کہلاتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں بالکل فری اسٹائل۔ انہیں ملک اور قوم کا معمار کہا جاتا ہے۔ جی ہاں جہاں ملک کا پیڑ اکھڑا یا کوئی دیوار گری یہ اپنی کنّی بسولی لے کر اس کی مرمت کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ ان کی کنّی ان کا قلم ہوتا ہے اور روشنائی کو گارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ رہ گئی اینٹ کی ۔ پتھریلے الفاظ اینٹوں کا کام دیتے ہیں۔ مثال کے۔ ۔ ۔ حفظِ ماتقدم، سلسلہ لامتناہی اور فلسفہ۔ ۔ ۔ سی طرح کے دوسرے پتھریلے الفاظ۔ ۔ ۔ شاندار تعمیر کرتے ہیں کہ تخریب کو پہچاننے میں آسانی ہوجاتی ہے۔

    یہ آپ کو گیارہ بجے رات کے بعد گروہ کی شکل میں سڑکوں پر پھرتے نظر آئیں گے۔ پہلے یہ آپ سے بغلگیر ہوکر آپ کی جیبوں کاجغرافیہ معلوم کریں گے۔ اس کے بعد آپ جب ان سے پوچھئے گا کہ کیوں جناب آپ نے فلسفہ طنز پر streptomycin’s کی لکھی ہوئی نئی کتاب پڑھی ہے؟ تو یہ آپ کو ناامید کرتے ہوئے جواب دیں گے ’’ویسے پڑھ تو ڈالی ہے مگر کتاب میں سوائے حوالوں کے اور کچھ نہیں۔‘‘ لیکن خدا کے لئے آپ ان سے جل کر یہ نہ کہہ دیجیے گا یہ کتاب ’’اودھ میڈیکل اسٹور‘‘ سے مل سکتی ہے۔

    اور وہ لڑکے جو لڑکے نہیں لڑکیاں ہوتے ہیں ان سے ملو۔ کہاں ملنا چاہتے ہو۔ یہ گھروں سے آکر کیلاش ہاسٹل میں رہنے لگتی ہیں جن کے بارے میں یہ ایک عام خیال ہے کہ یہ انہی کے لیے بنایا گیا ہے اور جہاں شاید آپ کو یاد ہوکہ کچھ لڑکوں نے رات کو ’’پشوپالن وبھاگ‘‘ کا بورڈ اس کے دفتر سے اکھاڑ کر جو اس سے ملا ہواہے ہوسٹل کے بھاٹک پرلگادیا تھا اور جس پر ایک آفت مچ گئی تھی اور یار لوگوں کے نام ہوگئے تھے اور تب ہی سے اس ہاسٹل کو ’’پشوپالن وبھاگ‘‘ کا لقب دے دیا گیا جہاں کہ یہ مخلوق پلتی بڑھتی ہے۔ یہ وہاں سے نکل کر کامن روم میں گھس جاتی ہے جس کے بارے میں یہ ایک عام خیال ہے کہ اس کے اندر ان کی نشست و برخاست رہتی ہے اور جس کی چک کی آدھی سے زیادہ تیلیاں ان لوگوں نے خلال کرکرکے ختم کردیں اور اس طرح تاک جھانک کی ایک نئی راہ پیدا کرلی۔ یہاں سے نکل کر آپ ان کو مختلف درجوں میں سب سے آگے بیٹھا ہوا پا سکتے ہیں۔ ان کو سب سے آگے کیوں بٹھلایا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں تجربہ کار پروفیسروں کا خیال ہے کہ کہیں یہ لوگ بھی نہ کلاسیز کٹ کرنے لگیں۔ اس وجہ سے ان کو درجہ میں سب سے آگے بٹھا کر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ کامن روم کے سامنے جو گھاس کے میدان ہیں ان میں ان کے جھنڈ کے جھنڈ اڑتے پھیلتے دکھائی پڑیں گے۔ اگر ان میں کوئی جوان کسی لڑکے سے بات چیت کرتی نظر آئے تو لوگ کہتے ہیں دیکھو اس کو کہتے ہیں ’’Flirt‘‘ یہ سب فلرٹ کرنے والی باتیں ہیں ورنہ یہ سب تو چلتا ہی رہتا ہے۔ یہاں چونکہ تعلیم ساتھ ساتھ دی جاتی ہے اس وجہ سے لڑکیاں لڑکوں سے الگ الگ رہتی ہیں اور اسی لیے مصلحت کا تقاضا ہے کہ یونیورسٹی کے ان لڑکوں کو جو لڑکیاں کہلاتے ہیں، فی الحال بحث سے الگ ہی رکھا جائے تاکہ پڑھنے والوں کا بھلا ہو اور پڑھانے والے بھی خیریت سے رہیں۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے