وکیل
ہندوستان میں جیسی اچھی پیداوار وکیلوں کی ہو رہی ہے اگر اتنا ہی غلہ پیدا ہوتا تو کوئی بھی فاقے نہ کرتا۔ مگر مصیبت تو یہ ہے کہ غلہ پیدا ہوتا ہے کم اور وکیلوں کی فصل ہوتی ہے اچھی۔ نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ وہی سب غلہ کھا جاتے ہیں اور باقی سب کے لیے فاقے چھوڑ دیتے ہیں۔ اب آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ بھوکے ہندوستانی سوائے آپس میں لڑنے اور ایک دوسرے سے روٹی چھیننے کے اور کرہی کیا سکتے ہیں۔ اسی چھینا جھپٹی اور لڑائی دنگے میں مقدمے تیار ہوتے ہیں اور ان مقدموں میں پھر ضرورت پڑتی ہے ان ہی وکیلوں کی جو ہر سال کھیتوں کے بجائے کالجوں میں غلہ کی جگہ پیدا ہوتے ہیں۔
ضرورت اس کی تھی کہ مقدموں کی تعداد کے حساب سے وکیل ہوا کرتے مگر وکیلوں کی تو اور کثرت ہے کہ اگر ایک ایک مقدمہ میں ایک ایک ہزار وکیل لگادیئے جائیں تو بھی وکیلوں کی ایک بہت بڑی جماعت ایسی باقی رہ جائے گی جو مقدمے نہ ملنے کی شکایت کرتی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوکری نہ ملنے کی وجہ سے بہت سے گریجویٹ گھبرا کر وکیل تو بن جاتے ہیں مگر وکیل بننے کے بعد جب مقدمے بھی نہیں ملتے تو پھر گھبرا کر نوکری کرنے لگتے ہیں۔
اگر غور کیجیے تو اس وقت وکیلوں کی بہت سی قسمیں آپ کو ملیں گی۔ ایک قسم تو ان وکیلوں کی ہے جن کی وکالت چل رہی ہے۔ ایک قسم وہ ہے کہ وکیل صاحب خود چل رہے ہیں مگر وکالت نہیں چلتی۔ ایک تیسری قسم ان وکیلوں کی ہے جو نہ خودچلتے ہیں نہ وکالت چلتی ہے بلکہ دونوں سائن بورڈ بنے ہوئے دروازے پر لٹکے رہتے ہیں۔ اور چوتھی قسم ان وکیلوں کی ہے جو ہیں تووکیل ضرور مگر وکالت سے گھبرا کر کسی اسکول میں ماسٹری کر رہے ہیں یا کسی دفتر میں کلرکی فرما رہے ہیں یا کسی رئیس کے یہاں نوکر ہیں یا اپنی سسرال میں رہتے ہیں یا فقیری لے چکے ہیں یا محض شاعر بن گئے ہیں یا کوئی اخبار نکال کر ایڈیٹر ہوگئے ہیں یا کسی فلم کمپنی میں ایکٹر ہیں یا ریلوے میں ٹکٹ کلکٹر ہیں۔ یا ابھی تک گھر میں بیٹھے ہوئے یہ غور کر رہے ہیں کہ آٹا پیسنے کی چکی لگانا مناسب ہوگا یا شادی ایجنسی کھولنے میں زیادہ فائدہ ہے۔ بہرحال وکالت کا ان کے دماغ میں کوئی خیال نہیں ہوتا اور نہ بھول کر بھی وہ کبھی اپنے وکیل ہونے کے متعلق غور کرتے ہیں۔
قصہ در اصل یہ ہے کہ وکالت آخر کہاں تک چلے اور کس کس کی چلے۔ یقین جانیے کہ اگر ہندوستان بھر کے لوگ ایک دوسرے سے سرپھٹول میں مصروف ہو جائیں اور ہندوستان کی تمام آبادی کو سوائے اس کے اور کوئی کام نہ رہ جائے کہ وہ بس فوجداری کیا کرے تو ان وکیلوں کی شاید پوری پڑے۔ مگر قصہ تو یہ ہے کہ ہر سال ہندوستان کی آبادی جتنی نہیں بڑھتی اتنے وکیل بڑھ جاتے ہیں اور اگر یہی رفتار ہے تو وہ دن قریب ہے جب ہرمؤکل خود وکیل بھی ہوا کرے گااور وکیل مؤکل بھی ہوگا۔ یعنی اس ملک میں سوائے وکیلوں کے اور کوئی نظر ہی نہ آئے گا۔ مالک وکیل، نوکر وکیل، میاں وکیل، بیوی وکیل، باپ وکیل، تاجر وکیل، گاہک وکیل، مجرم وکیل، منصف وکیل، ملزم وکیل، گواہ وکیل، جیوری وکیل۔ مختصر یہ کہ ادھر وکیل اُدھر وکیل، اتر وکیل، دکھن وکیل، پورب وکیل، پچھم وکیل گویا کہ وکیلوں کا ایک سیلاب ہوگا جس میں ہندوستان بہ جائے گا اور تاریخوں میں ہندوستان کا صرف اسی قدر ذکر باقی رہ جائے گا کہ یہ ایشیا کا ایک ملک تھا کہ جس میں وکیل پیدا ہوتے تھے اور آخر ان ہی وکیلوں کی کثرت نے اس ملک کو ڈبو دیا۔ اب بھی بحرہند میں اکثر وکیلوں کے گون اور وکالت نامے تیرتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور غوطہ خوروں نے مقدمات کی مسلیں بھی برآمد کی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ وکیلوں کی اس دن دونی رات چوگنی ترقی کے بعد وکیل بے چارے آخر کریں گے کیا۔ آج ہی یہ حال ہے کہ مقدموں کے لیے وکیل تو جس تعداد میں جس سائز جس ڈزائن کے کہیے ڈھیر کردیے جائیں۔ مگر وکیلوں کو آنکھ میں لگانے کے لیے دوا کے طور پر بھی مقدمے نہیں ملتے اور خدا جانے وہ بے چارے کیوں کر وکیل بن کر زندہ رہتے اور اپنی ظاہری شان کو قائم رکھتے ہیں۔ مگر یقین جانیے کہ جو زمانہ کل آرہا ہے وہ آج سے بھی زیادہ ان وکیلوں کے لیے سخت ہے۔ اس لیے کہ ہندوستان روز بروز مہذب ہورہا ہے اور سمجھدار ہندوستانی لڑائی جھگڑا چھوڑتے جاتے ہیں مگر وکیل ہیں کہ ابلتے ہی آتے ہیں۔ جو وکیل پہلے سے بنے ہوئے ہیں ان کاتو حال یہ ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ پھر بھلا اس نئی درآمد کی کھپت کہاں ہوسکتی ہے۔ یہ مذاق نہیں ہے بلکہ وکیلوں کو واقعی اپنے متعلق ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہے کہ وہ کیا کریں گے۔ اگر ہمارایہ خیال غلط بھی ہے کہ ہندوستان مہذب ہورہا ہے اور لڑائی جھگڑے کو لوگ چھوڑ رہے ہیں جس کے بعد مقدمے تیار نہ ہوسکیں گے تو بھی ذرا غور تو کیجئے کہ ہر سال وکیلوں کی جو فوج ہندوستان بھر کی یونیورسٹیوں سے نکلتی ہے اس کے لیے نئے نئے مقدمے کہاں سے لائے جائیں گےاور اگر اسی حساب سے ہندوستان میں جرائم کی رفتار بڑھتی گئی اور مقدموں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا تو اس کے دوہی نتیجے ہوسکتے ہیں کہ یا تو ہندوستان ایک بہت بڑا جیل خانہ بن کر رہ جائے ورنہ سری نگر سے راس کماری تک اور کراچی سے ڈبروگڈھ تک لمبی چوڑی کچہری ہوجائے گا۔ لیکن اس کے بعد بھی تو وکیلوں کو اپنے لیے کوئی اور راستہ ڈھونڈھنا پڑے گا۔ پھر آخر وہ ہندوستان کو جیل خانہ یا کمرہ عدالت بنا دینے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ آخر اپنے لیے ابھی سے کوئی راستہ کیوں نہیں ڈھونڈھتے۔ جنگلات کا محکمہ ہے اس میں جگہ ڈھونڈھتے رہیں۔ دنیا کے سمندروں میں بہت سے غیر آباد جزیرے ہیں۔ ان کو ڈھونڈھیں اور آباد کریں۔ ہمالیہ کی مہم میں اب تک سب کو ناکامی ہوئی ہے۔ یہ لوگ بھی کوشش کریں شاید کامیابی انہیں کی قسمت میں لکھی ہو۔ ہندوستان کے جنگلوں میں خوفناک درندے مارے مارے پھرتے ہیں اگر ان کو سدھالیا جائے تو وہ سرکسوں میں کام آسکتے ہیں اور سرکس والے اچھے دام دے کر خرید سکتے ہیں، لہٰذا ان درندوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ کریں۔
شیر کو سلام کرنا سکھائیں۔ بھالو کو حقہ پینے کی تعلیم دیں، بندروں کو ڈانس کرائیں اوراسی طرح ان جنگلی جانوروں کو سرکس کے قابل بنائیں۔ یہ بہت فائدے کا کام ہے اور اس کام میں سب ہی لگ سکتے ہیں، بشرطیکہ ذرا محنت کریں۔ دنیا کے سمندروںمیں آئے دن جہاز ڈوبتے رہتے ہیں۔ ایسے ایسے خزانے ہوتے ہیں جو اگر کسی کو مل جائے تو وہ مالدار ہوجائے، لہٰذا غوطہ خوری سیکھیں اور اس دولت کو حاصل کریں جو مچھلیوں اور کچھوؤں کے لیے بیکار ہے مگر انسان کے کام آسکتی ہے اور انسان کو مالا مال کرسکتی ہے۔
اسی ہندوستان میں خدا جانے زمین کے اندر کیسے کیسے خزانے ہیں۔ کہیں سونے کی کان ہے تو کہیں مٹی کے تیل کا چشمہ ہے۔ کہیں کوئلہ ہے تو کہیں لوہے کی کان ہے۔ اگر ویران جنگلوں میں ذرا دل لگاکر کھدائی شروع کردی جائے تو اگلے زمانہ کے بادشاہوں سے لے کر چھوٹے چھوٹے رجواڑوں تک کے خزانے الگ مل سکتے ہیں اوریہ کانیں الگ دریافت کی جاسکتی ہیں۔ دوسرے ملک کے لوگ نئی ایجادیں کرتے رہتے ہیں کہ کہیں کسی درخت کے ریشوں سے کپڑا بنا لیا تو کہیں دوتین درختوں کو ملاکر کوئی کھانے کی چیز پیدا کرلی۔ آخر اس قسم کی ایجادوں کی طرف یہ لوگ کیوں نہ متوجہ ہوں۔ کیا تعجب ہے کہ ان ہی کے دماغ میں کوئی ایسی ترکیب آجائے جس سے کپڑے کو کھایا اور روئی کو پہنایا جاسکے یاریت کو اناج کی طرح پیٹ بھرنے کے کام میں لایا جاسکے یا آٹے کی بھوسی سے سوٹ کا کپڑا تیار ہوسکے۔
بہرحال دماغ لڑانے کی ضرورت ہے اور جب دماغ لڑجائے تو ہاتھ پیر چلانے کی بھی ضرورت ہوگی۔ اس لیے کہ اب خالی بیٹھنے اوروکالت سے کوئی امید رکھنے سے کام نہیں چل سکتا۔ خدانہ کرے کہ وکیلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی طرح مقدمے بھی بڑھتے جائیں۔ ابھی تو خیر منشی جی ایک آدھ مؤکل کہیں نہ کہیں سے پکڑ ہی لاتے ہیں۔ اور وکیل صاحب اونے پونے اس کا مقدمہ اس لیے لڑادیتے ہیں کہ پیٹ میں آنتیں ایک دوسرے سے لڑتی ہیں اور گھر میں بیوی ناک میں دم رکھتی ہیں۔ آخر ان سب کو کسی طرح سمجھایا جا ئے یا نہیں۔ لیکن اب تو وہ وقت بھی آ رہا ہے جب منشی جی خود بھی وکیل ہوں گے، اور گھروالی بھی وکیل ہوں گی۔ پھر وکیل صاحب آسانی سے یہ نہ سمجھا سکیں گے کہ مقدمہ کیوں نہیں ملتا اور وکالت کیوں نہیں چلتی۔
صاحب لاکھ باتوں کی ایک بات تو یہ ہے کہ دنیا کی ہوا ہی کچھ وکالت کے خلاف چل رہی ہے۔ ایک طرف وکیل بڑھتے جاتے ہیں اور وکیل عام طور پر اچھی خاصی عمر پاتے ہیں۔ دوسری طرف ہندوستان کے مؤکل قسم کے باشندے مقدموں کاشوق چھوڑرہے ہیں۔ اگلے زمانہ میں تویہ ہوتا تھا کہ کسی نے کسی کو دیکھ کر اگر زمین پر تھوک بھی دیا تو لیجیے ایک لاجواب چلتا پھرتا مقدمہ تیار ہوگیا جو مہینوں چلا کرتا تھا اور دونوں طرف کے وکیلوں کو خوب خوب فیسیں ملتی تھیں۔ لیکن اب تو یہ حال ہے کہ کسی کو سرراہ مار بھی دیجئے اورپھر صرف یہ کہہ دیجئے کہ معاف کیجئے گاغلطی ہوئی، بس وہیں پرہاتھ مل جاتے ہیں اور قصہ کچہری یا معنی تھانہ تک نہیں پہونچتا یا اچھی خاصی فوجداری کو لوگ بیچ بچاؤ کرکے ختم کرادیتے ہیں۔ یہ دراصل وکیلوں کی حق تلفی ہے اور وکیلوں کو چاہئے کہ اس کے لیے قانون بنوائیں کہ اس طرح کا نجی بیچ بچاؤ جرم قرار دے دیا جائے ورنہ تمام معاملات یوں ہی طے ہونے لگیں گے اور یہ وکیل بے چارے کہیں کے بھی نہ رہیں گے بلکہ اگر وکیل صاحبان ہماری رائے مانیں تو ہم ان کو مشورہ دیں گے کہ وہ اپنے ان معاملات میں بھی حق پیدا کریں۔ جن کا تعلق اب تک قانون یا عدالت سے نہیں ہے، اس لئے کہ مقدمہ بازی تو بہت جلد کم ہو ہی جائے گی اور وکیلوں کا کام اب دوسری صورتوں ہی سے چل سکتاہے، جن میں سے چند ہم بتائے دیتے ہیں۔
وکیلوں کو چاہیے کہ وہ اس بات پر زور دیں کہ چونکہ شادی بیاہ بالکل قانونی چیز ہے لہٰذا ہر شادی کے موقع پر ایک قاضی کے علاوہ لڑکی والوں اور لڑکے والوں کی طرف سے ایک ایک سند یافتہ وکیل بھی ہوا کرے تاکہ وہ شادی کی قانونی صورتوں کو باقاعدہ بنا سکیں اور کوئی قانونی خامی باقی نہ رہے۔ اسی طرح بچہ کی پیدائش کے وقت دائی کو چاہئے کہ وہ وکیل کے سامنے اپنا بیان دے اور اسی بیان کی روشنی میں بچہ کی وراثت طے پائے۔ طلاق اور عاق کے قصوں میں بھی وکیلوں کی موجودگی ضرور بنائی جائے۔ مختصر یہ کہ اسی قسم کی چیزیں ہیں جن میں آئندہ وکیل اپنی وکالت کوکام میں لاسکیں گے اور ان چیزوں کے لیے اگر ابھی سے کوشش نہ کی گئی تو کچھ بھی نہ ہوسکے گا ور پھر وکیلوں کی جو حالت ہوگی وہ نہایت افسوس ناک ہوگی مگر ہم کو امید ہے کہ وکیل صاحبان یہ نوبت نہ آنے دیں گے بلکہ اپنے اور اپنی آئندہ نسل کے لیے یہ انتظام کرلیں گے کہ مقدموں کے علاوہ بھی قدم قدم پر ان کی ضرورت محسوس ہو۔ زمین وکیل صاحب بکوائیں گے۔ ریل کا ٹکٹ وکیل صاحب کے سامنے خریدا جائے گا۔ اسکول میں بچہ کا داخلہ وکیل صاحب کے ذریعہ ہوا کرے گا، پارسل وغیرہ ایک وکیل صاحب کے سامنے روانہ ہوں گے اور دوسرے وکیل صاحب کے سامنے کھولے جائیں گے۔
میاں بیوی وکیلوں کو بٹھا کر آپس میں لڑا کریں گے۔ باپ وکیل صاحب کی موجودگی میں بچے کو سزا دے گا۔ ڈاکٹر وکیل صاحب کی موجودگی میں نسخہ لکھیں گے اور مریض وکیل صاحب کے سامنے نسخہ استعمال کرے گا۔ مرنے والا وکیل صاحب سے مشورہ لے کر مرے گا اور مرنے والے کے عزیز وکیل صاحب کی رائے سے کفن کا انتظام کریں گے۔ شاعر وکیل صاحب سے پوچھ پوچھ کر شعر کہا کریں گے اور ایڈیٹر اپنا ہر پرچہ وکیل صاحب کو دکھا کر شائع کریں گے۔ مقرر پہلے وکیل صاحب کو تقریر سنائے گا اور جلسہ میں جانے والے پہلے وکیل صاحب سے رائے لے لیں گے۔ مختصر یہ کہ ان تمام باتوں میں اگر وکیلوں نے اپنی ضرورت پیدا کرلی تو خیر۔ نہیں تو ہم بتائے دیتے ہیں کہ آج نہیں تو کل وکیل صاحبان یہ غور کریں گے کہ ہم کیا کریں اور ہمارا کام کیا ہے۔ یہ جتنی چیزیں ہم نے بتائیں ہیں ان میں وکیل صاحبان اپنی ضرورت آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ بظاہر یہ معمولی معمولی باتیں ہیں مگر بڑھتے بڑھتے یہی بات کا بتنگڑ بن کر عدالتوں اور ہائی کورٹوں سے گذر کر پوری نسل تک پہونچ سکتی ہیں، لہٰذا وکیلوں کی ان میں یقیناً ضرور ت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وکیل اپنی ضرورتیں خود نہ پیدا کریں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.