ٹکٹ بیسیوں قسم کے ہوتے ہیں اور ہر شخص کو اپنی روز مرہ زندگی میں کسی نہ کسی ٹکٹ سے ضرور واسطہ پڑتا ہے۔ ان ٹکٹوں کی شکل صورت، قد و قامت اور جسامت یہ ساری چیزیں الگ الگ نمونے کی ہوتی ہیں۔ ان میں بس ایک ہی چیز مشترک ہوتی ہے وہ یہ کہ یہ سب کے سب بہت گراں ہوتے ہیں اور کسی بھی دن ان کی قیمت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے یہاں صرف محبوب کی کمر نہیں ہوا کرتی تھی۔ اب عوام کی بھی کمر نہیں ہوتی۔ یہ ٹوٹ چکی ہے۔
بس کے ٹکٹ، بس کے ٹکٹ ہوا میں اڑنے والے ٹکٹ ہوتے ہیں۔ تتلی کے پروں کی طرح مہین لیکن حسین نہیں، چھوٹے چھوٹے مستطیل شکل کے یہ ٹکٹ چھپتے تو کاغذ ہی پر ہیں لیکن اس نمونے کا کاغذ صرف محکمۂ ٹرانسپورٹ کے قبضے سے برآمد ہوسکتا ہے۔ یہ کاغذ خصوصی طورپر صرف اسی محکمے کے لئے ایجاد کیا گیا ہے، اسے کسی دوسرے مصرف میں نہیں لایا جاسکتا۔ اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کی بسوں سے سفر کرنے والے مسافروں کو یکمشت کئی پرزے پکڑادیے جاتے ہیں، جو علیحدہ علیحدہ قیمتوں کے ہوتے ہیں اور کوئی بھی مسافر ان کی رقم ٹھیک سے جوڑ نہیں سکتا۔
کافی سفر اسی جمع تفریق میں کٹ جاتا ہے۔ ٹھیک ہے بس میں دوسرا کوئی کام ہوتا بھی نہیں ہے اور بس کنڈکٹر ٹکٹ فروخت کرنے کے فوراً بعد روشنی گل کردیتا ہے (تاکہ کوئی مسافر ٹکٹوں کی رقم نہ جوڑلے) بی ای ایس ٹی کی بسوں کے ٹکٹ پر کافی لٹریچر چھپا ہوتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ بس کے مسافر ادب عالیہ پڑھتے نہیں ہیں پڑھنا چاہئیے۔ ادب عالیہ پڑھنے سے مستقبل روشن ہوتا ہے لیکن مسافر اس ٹکٹ کے مطالعے سے اس لئے بھی محفوظ رہتے ہیں کہ یہ ان کے کھانے کا وقت ہوتا ہے یعنی دھکے کھانے کا۔ بس کی راہداری میں آدمی اور کیا کھاسکتا ہے۔ نشستوں پر بیٹھے ہوئے مسافر بھی یہ ٹکٹ نہیں پڑھتے۔
ہر اسٹاپ پر ان کے ہم سفر کا تبادلہ عمل میں آتا ہے اور نئے ہم سفر کو دیکھنے اس کے لباس کا جائزہ لینے اور اگر ہم نشیں کسی وجہ سے جنس مخالف سے تعلق رکھنے والا (والی) ہو تو اسے خطرے میں ڈالنے یا حفاظت خود اختیاری کے سلسلے میں اتنا وقت صرف ہوجاتا ہے کہ ٹکٹ پر کے مطبوعہ ادب سے وہ مستفید نہیں ہوسکتا۔ اس محرومی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسافروں کو یہ پتا نہیں چلتا کہ انہوں نے ٹکٹ کی قیمت کے علاوہ ایک اور ٹیکس بھی ادا کیا ہے جو پیدل چلنے والوں یا اپنی سواری میں سفر کرنے والے شہریوں سے وصول نہیں کیا جاتا ہے۔
بس کا ٹکٹ خریدنے پر کچھ دنوں سے ٹکٹ کے ساتھ ایک اور پُرزہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جانے لگا ہے۔ اسے کوپن کہتے ہیں، اس کی طباعت کے لئے بھی محکمہ مذکورہ ہی نادر و نایاب کاغذ استعمال کرتا ہے جسے کاغذ کہتے ہوئے بعض لوگ شرم محسوس کرتے ہیں۔ یہ کوپن ٹکٹ کے مقابلے میں زیادہ نرم و نازک ہوتے ہیں اور اگر آپ انہیں چھوئیں تو محسوس تک نہیں ہوتا کہ آپ نے کوئی چیز چھوئی ہے۔ یہ اتنا نحیف اور ہلکا پھلکا شاید اس لئے ہو جاتا ہے کہ یہ ایک دن میں سو پچاس ہاتھوں کے لمس کا بار اٹھا تا ہے۔ اسے سونگھئے، بشرطیکہ آپ میں اس کی ہمت ہو تو ہر کوپن سے ایک علیحدہ مہک آتی ہے۔ کسی سے ناس کی کسی سے دھنیے کی۔ کسی سے ساس کی کسی سے بنیے کی۔ اس کوپنوں پر ان کی تاریخ وفات بھی درج ہوتی ہے جو ہرگز ہرگز نہیں پڑھی جاسکتی۔
بس کنڈکٹر البتہ دور ہی سے متوفی کوپنوں کو پہچان لیتا ہے اور اس ڈیڈ باڈی کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ بہت سے کوپن تو صرف اس لئے مرجاتے ہیں کہ آپ کو بس میں چڑھنے کا فن نہیں آتا۔ بس میں چڑھنے کے لئے جو لوگ بس اسٹاپ پر کھڑے رہنا پسند کرتے ہیں ان کی قسمت میں بس کا سفر نہیں ہوتا۔ بسوں نے کب سے بس اسٹاپ سے اپنے تعلقات منقطع کرلئے ہیں۔ انھیں اب صرف وہی ہاتھ روک سکتا ہے جو کسی سیاسی جماعت کا نشان انتخاب ہو۔ باقی کے سارے ہاتھ تو صرف پھیلانے کے کام کے رہ گئے ہیں۔
بس کے ٹکٹ ایک ایسے کھلے ٹکٹ دان میں رکھ جاتے ہیں جو جست کے بنے ہوتے ہیں اور وقت پڑنے پر اسلحہ کا کام دیتے ہیں۔ مسافر بس کنڈکٹر کے مزاج اور اس ہتھیار کی ماہیت سے واقف ہونے کی بنا پر اپنی حد میں رہتے ہیں۔ مسافروں اور بس کنڈکٹروں کوآج تک آنکھ سے آنکھ ملاکر بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ مسافروں کی نظریں ہمیشہ جھکی رہتی ہیں۔ بس کنڈکٹروں کے انتخاب کے وقت ان کی آنکھوں پر خاص توجہ کی جاتی ہے۔ جس امیدوار کا چہرہ کرخت اور آنکھیں خشمگیں ہوتی ہیں ان کا انتخاب یقینی ہوتا ہے۔ دوسروں کو ٹریننگ دینی پڑتی ہے۔ (ویسے جمال ہم نشین بھی کافی ہوتا ہے)
ریل کا ٹکٹ، ریل کا ٹکٹ بھی اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ ہماری ریلیں۔ ہمیں چونکہ مخطوطات اور نوادرات سے بھی شغف ہے اس لئے ہم نے بساط بھر کوشش کی کہ ریل کے ٹکٹ کا کوئی قدیم نسخہ کہیں سے دستیاب ہو جائے لیکن اس میں ناکامی ہوئی۔ ایک میوزیم کے کافی سینئر عہدیدار نے البتہ ہمیں سمجھایا کہ ریل کے ٹکٹ کے قدیم نمونوں کی تلاش کرنے میں وقت ضائع نہ کیا جائے کیونکہ اس کا تازہ ترین ٹکٹ بھی دیکھنے میں کم سے کم پچاس سال پرانا تو نظر آتا ہی ہے۔ ہم نے تازہ ترین اڈیشن کا ایک ریلوے ٹکٹ اور ایک ۱۲، ۱۵ سال کے پرانے کا تقابلی مطالبہ کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں تصنیفات بجنسہ ایک ہیں۔
ریل کا ٹکٹ جیسا کہ آپ نے بھی دیکھا ہوگا کاغذ کا نہیں ہوا کرتا۔ یہ دفتی (جسے مقوا بھی کہتے ہیں) کے ڈھائی انچ ضرب سوا انچ کے ٹکڑے پر شائع کیا جاتا ہے۔ اس ٹکٹ کا لمس ڈبل روٹی کے اوپری حصے کی یاد دلاتا ہے، جیساکہ آپ نے محسوس کیا ہوگا ڈبل روٹی کا بالائی حصہ عجیب وغریب خصوصیات کا حامل ہوتا ہے یہ نہ نرم ہوتا ہے نہ سخت۔ ریل کے ٹکٹ کی بھی یہی کیفیت ہے۔ اس کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ پھٹتا نہیں ہے۔ یہ اس پُرغرور سر کی طرح ہوتا ہے جو جھک تو سکتا ہے کٹ نہیں سکتا۔
آپ کے ہاتھ کے پسینے کی نمی اسے بودا تو کرسکتی ہے لیکن اس سے زیادہ اس کا کچھ نہیں بگاڑسکتی۔ ہاں آپ اسے کچھ دیر پانی میں بھگا کر رکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ ٹکٹ تو کئی پرت کا تھا۔ ایک ٹکٹ میں ۴، ۵ پرتیں تو ہوتی ہی ہیں۔ یہ ٹکٹ بنیادی طورپر زردی مائل رنگ کا ہوتا ہے لیکن یہ اس کے رنگ کا صحیح نام نہیں ہے۔ اس کے رنگ کو ٹھیک طورپر الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ٹکٹ کو دیکھ کر آپ معلوم کرسکیں گے کہ یہ کیسا رنگ ہے۔ نازک طبع خواتین کی نظر اس ٹکٹ پر نہیں پڑی چاہیے۔ ان کی طبیعت بگڑ سکتی ہے (سفر میں بیمار ہونا مناسب نہیں ہے) اس ٹکٹ پر اور بہت سے مندرجات کے علاوہ اس کی قیمت درج ہوتی ہے لیکن یہ منسوخ شدہ قیمت ہوتی ہے۔ اس کی اصلی قیمت بکنگ کلرک اسی وقت لکھتا ہے جب آپ پیسے پیشگی ادا کریں۔
جس زمانے میں ہندوستان میں ریزگاری ہوا کرتی تھی اس وقت بھی باقی کی ریزگاری واپس نہیں کی جاتی تھی اور اب تو اس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا (محکمہ ریلوے میں ایسی معمولی باتوں کا برا نہیں مانا جاتا) اگر آپ محکمہ ریلوے کی مزید مالی مدد کرنا چاہیں تو اپنی نشست اور برتھ ریزرو کروا کے سفر کرنے سے یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔ (مدد کا لفظ ہم نے اس لئے استعمال کیا کہ جب سے محکمہ وجود میں آیا ہے نقصان میں چل رہا ہے) ریزرویشن کی صورت میں مسافروں کو ریل کے ٹکٹ کے علاوہ ایک ضمیمہ ٹکٹ دیا جاتا ہے جس پر بکنگ کلرک (جو اہل قلم ہوتا ہے) اپنا آٹو گراف قلم بند کرتا ہے۔ اس آٹوگراف میں جو کچھ لکھا ہوتا ہے اسے آپ نہیں پڑھ سکتے۔ سفر پر روانہ ہوتے وقت جب کئی لوگوں کی مدد حاصل کرنے کے بعد آپ ایک برتھ پر اپنا بستر کھول دیتے اور جوتے اتار دیتے ہیں (اور آپ کے موزوں سے نکلنے والی مہک پورے ڈبے میں پھیل جاتی ہے) تو کچھ ہی دیر میں غیب سے ایک اور مسافر اسی برتھ کا ریزرویشن کارڈ ہاتھ میں تھامے نمودار ہوتا ہے اور آپ کو حیرت سے دیکھتا ہے کہ آپ کس کرے کی مخلوق ہیں۔ آپ دونوں میں محبت کی گفتگو چھڑجاتی ہے۔ یہ رقت آمیز گفتگو اور وقت آمیز سفر دونوں ایک ساتھ ایک ہی رفتار سے جاری رہتے ہیں اور کمپارٹمنٹ کے کئی مسافر اپنی اپنی عینکیں اور ضرورت ہو تو ٹارچ لے کر ان ٹکٹوں پر لکھے ہوئے رشحاتِ قلم پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جیساکہ اس ملک میں قاعدے سے ہر شخص کی رائے ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ جب حالات ایک خطرناک موڑ اختیار کرلیتے اور آپ دونوں فرط محبت میں ایک دوسرے کے بہت قریب آجاتے ہیں (جسے شاید دست و گریباں ہونا بھی کہا جاتا ہے) تو کہیں سے ایک وردی پوش شخص برآمد ہوتا ہے۔ لوگ دورویہ کھڑے ہوکر اس کا استقبال کرتے ہیں۔ اس شخص کے ہاتھوں میں کافی اسٹیشنری ہوتی ہے۔ ایک چارٹ بھی ہوتا ہے۔ اس شخص کو ریلوے کی مخفف زبان میں ٹی ٹی آئی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
اس شخص کے اختیارات بہت وسیع ہوتے ہیں۔ یہ شخص بھی بکنگ کلکرک کا آٹو گراف پڑھنے کی سکت نہیں رکھتا اور اپنے پاس کے کاغذات اور دستاویزات کی مدد سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ آپ کا اور آپ کے ہم جلیس کا نام اور پتہ پوچھتا ہے۔ (اندھیرا زیادہ ہو تو جنس بھی دریافت کرتا ہے۔ دریافت کرنے سے مراد یہ ہے کہ صرف زبانی زبان سے استفسار کرتا ہے) اور اس کے بعد آپ کو (یاد رہے آپ بستر بچھا اور جوتے اتار چکے ہیں) اپنا بستر اٹھانے کا مشورہ دیتا ہے (مشورے کے لفظ پر نہ جائیے۔ اصل میں حکم دیتا ہے۔) ریزرویشن میں اس قسم کے واقعات ہر ٹرین میں دو یا تین ہوتے ہیں۔ اس لئے ان مسافروں کو عام مسافروں سے الگ رکھا جاتا ہے۔ (ریلوے کمپارٹمنٹ بھی اسپتال کے وارڈ سے کچھ کم نہیں ہوتے) کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ریزرویشن کا کمپارٹمنٹ واقعی ریزرویشن کمپارٹمنٹ دکھائی دیتا ہے۔
فرسٹ کلاس کے مسافروں کو الگ الگ رنگ کا ٹکٹ دیا جاتا ہے جو کئی رنگوں کی آمیزش سے تیار کیا جاتا ہے، اس کی نقل مشکل ہے۔ محکمہ فینانس کو اپنی کرنسی کے لئے اپنی ہی نادر اور مشکل رنگ استعمال کرنا چاہئے۔ ٹکٹ چیکر ٹکٹ دیکھنے کے بعد ان پر کچھ لکیریں کھینچتا ہے۔ ان لکیروں سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس محکمے کا ہرکام کتنا پیچیدہ ہوتا ہے۔
ہوائی جہاز کا ٹکٹ، بعض اوقات اچھے خاصے شریف آدمی کو بھی ہوائی جہاز سے سفر کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے اور اب تو ناوابستہ ملکوں کے ایک دوسرے سے وابستہ اور بغل گیر ہونے کے واقعات اتنے عام ہوگئے ہیں کہ ایسے لوگ بھی جنھوں نے سوائے پیدل چلنے کے اور کچھ کیا نہیں تھا، ہوائی جہاز سے سفر کرنے لگے ہیں۔ یہ لوگ سربراہان ملک کے عملے کے لوگ ہوتے ہیں۔ عملے کے لوگوں کے اعمال غیرملکوں میں دیکھنے چاہئیں۔ کچھ لوگ تو اتنی عجلت میں ہوتے ہیں کہ ہوائی جہاز کے اڑنے سے پہلے ہی اڑنے لگتے ہیں اور ہوائی جہاز میں بیٹھنے کے بعد کوئی سیفٹی بیلٹ انھیں اچھلنے سے روک نہیں سکتی۔
ہوائی جہازوں میں بھی اب فرسٹ کلاس ہونے لگے ہیں۔ اس کلاس میں سفر کرنے والے معززین کو نسبتاً زیادہ مراعات دی جاتی ہیں مثلاً گلاس وغیرہ (اس گلاس کا شاعرانہ نام جام یا ساغر ہوتا ہے) ہوائی جہاز کا ٹکٹ نہایت خوبصورت، خوش نما اور دیدہ زیب ہوتا ہے۔ اسے تو کسی اکاڈمی سے طباعت کے انعام کا مستحق قرار دیا جانا چاہئے۔ (لیکن ہمارے یہاں انگریزی اکاڈمیاں ہیں نہیں۔)
ہوائی جہاز کا ٹکٹ تین اوراق پر مشتمل ہوتا ہے یعنی چھ صفحات ہوئے (اچھی خاصی مثنوی ہوئی) اس کا سرورق سہ رنگی ہوتا ہے اور یہ بے حد چکنے کاغذ پر جسے شاید گلیز پیپر کہتے ہیں پر چھاپا جاتا ہے۔ کاش ہمارے رسائل بھی ایسے ہی خوش نما ٹائٹل پیج کے ساتھ شائع ہوسکتے (لیکن رسائل اتنے اوپر کیسے اڑ سکتے ہیں) ٹکٹ کی یہ کتاب بہت اونچے داموں میں فروخت ہوتی ہے اور جیسے جیسے سروس ناقص ہوتی جارہی ہے ٹکٹ کے دام میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک زمانہ تھا (یہ بہت پہلے کی بات ہے) جب ہوائی جہاز وقت پر اڑا اور اترا کرتے تھے۔ جب ہوائی سروس کے ارباب مقتدر کو معلوم ہوا کہ ملک میں کوئی بھی کام وقت پرنہیں ہورہا ہے تو پلین بھی دیر سے اڑنے لگے اور بعض وقت تو دور درشن کے اردو پروگراموں کی طرح منسوخ بھی ہونے لگے۔
جب کوئی ہوائی جہاز اڑتا نہیں ہے تو اس کے مسافروں کو ایک اور ٹکٹ دیا جاتا ہے۔ یہ ایئر پورٹ کے ریستوران میں داخلے اور مفت کھانے کا ٹکٹ ہوتا ہے۔ اس ٹکٹ کی خوبی یہ ہے کہ ریستوران میں ملتا کچھ نہیں ہے۔ ریستوران کا منیجر اس ٹکٹ کو دیکھ کر ہنستا ہے۔ یہ ٹکٹ در اصل تفریح طبع کے لیے ہوتا ہے۔
ہوائی جہاز کے ٹکٹ پر جتنا ’’مواد‘‘ چھپا ہوتا ہے اتنا تو تحقیقی مقالوں میں بھی نہیں ہوتا۔ مائکرو منی لباس کی طرح مائکرو منی طباعت بھی ایجاد ہوئی ہے جس کا سہرا ایئرلائنس کے سر ہے۔ آپ ہوائی جہاز کا ایک ٹکٹ خریدیں تو سفر کرتے وقت کئی ٹکٹ سائڈ ڈش کا طرح چلے آتے ہیں۔ سامان کا ٹکٹ، سیٹ کا ٹکٹ، ہاتھ میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا ایک ایک الگ ٹکٹ، یہ سب ٹکٹ بلا قیمت فراہم کئے جاتے ہیں۔ کافی اسٹیشنری جمع ہوجاتی ہے۔ ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدنے سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کی جامہ تلاشی یقینی ہو جاتی ہے۔ عادی مجرموں کی تلاشی کا انتظام حکومت کے خرچ پر کیا جاتا ہے لیکن ہوائی مسافروں کو اس کا خرچ خود برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ریل اور بس کے مسافر اس اعزاز کے مستحق نہیں ہوتے۔ یہ تلاش ایک علحیدہ کمرے میں ہوتی ہے۔ کچھ آلات و ظروف بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ پولیس کانسٹبل بڑی محبت سے آپ کے جسم پر ہاتھ پھیرتا ہے (اتنی محبت سے تو آپ کے والدین نے بھی آپ کو نہیں تھپکا تھا) اور اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ آپ کے جسم کا کوئی شعبہ چھوٹ نہ جائے۔ مسافروں کے بریف کیس اور خواتین کے منی پرس کا بھی ایکسرے کیا جاتا ہے۔ کاش ہمارے دواخانوں میں بھی مریضوں کے ایکسرے کا اتنا اچھا انتظام ہوتا۔ اس مفت ایکسرے کے علاوہ پیپر منٹ، سونف اور کان میں رکھنے کے لئے روئی کے پھائے بھی مفت فراہم کئے جاتے ہیں (خانخاناں کا دربار لگا ہوا ہے) مسافر خوشی خوشی اس کشتی سے یہ چیزیں اٹھاتے ہیں جو ایک ایئر ہوسٹس ان کی خدمت میں پیش کرتی ہی لیکن ان کی نظریں چیزوں پر نہیں ہوتیں (پتہ نہیں ہوائی جہازوں میں ایئر ہوسٹ کیوں نہیں ہوا کرتے) کبھی کبھی مسافروں کو اشیائے خوردنی سے بھی نوازا جاتا ہے۔
کھانے کا اگر وقت نہ ہو تو لنچ بھی پیش کیا جاتا ہے۔ (باسی چیزوں کو ٹھکانے لگانا بھی ضروری ہے) یہ دعوت بھی بلا قیمت ہوتی ہے۔ خود ٹکٹ کے اب اتنے دام ہوگئے ہیں کہ ہوائی سروس والوں کو کسی اور چیز کی قیمت وصول کرنے میں تکلف ہونے لگا ہے اس ٹکٹ میں ان چیزوں کے علاوہ ایک مظاہرہ بھی پیش کیا جاتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ حادثے کی صورت میں (اگر ہوش سلامت رہیں تو) کیا نہیں اور کیا کرنا چاہئے۔ حادثے کا ذکر کرتے ہوئے ایئرہوسٹیں حسب معمول اپنی مسکراہٹ کو جاری رکھتی ہے (مسافروں کی توجہ بٹ جاتی ہے) ہوائی مسافروں کے لئے اخبارات بھی فراہم کئے جاتے ہیں لیکن انہیں مجبور نہیں کیا جاتا کہ وہ اخبار پڑھیں۔ اگر آپ بیرون ملک جارہے ہیں تو اس خوشی میں ہوائی سروس کی طرف سے آپ کی خدمت میں ایک اٹیچی کیس بھی حاضر کیا جاتا ہے اور ٹکٹ ایک خوبصورت لفافے میں اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے سرکاری دفاتر میں عہدیداروں کے تبادلے یا ملازمت سے سبکدوش ہونے کے موقع پر سپاس نامہ پیش کیا جاتا ہے۔ ہوائی جہاز کا سفر معمولی بات نہیں۔ صرف امام ضامن نہیں باندھا جاتا۔ ہوائی جہاز کا ٹکٹ ایک مرتبہ دیکھنا ضرور چاہئے۔ اگر لوگ پرانے ٹکٹ لے کر ایئرپورٹ چلے جاتے ہیں۔ داخلے کا ٹکٹ خریدنا نہیں پڑتا۔ سیدھی سیدھی چھہ روپئے کی بچ۔ چائے کا خرچ نکل آیا۔
ہال ٹکٹ، زندگی کے سفر میں ضروری نہیں ہے کہ آپ ہمیشہ کوئی سواری ہی استعمال کریں یہ بغیر سواری ہی کے طے کیا جاتا ہے۔ اگر آپ سیاست یا اس قسم کے کسی بیوپار میں حصہ نہیں لینا چاہت تو آپ کو تعلیم حاصل کرنی ہوگی اور ہر سال ایک ہال ٹکٹ حاصل کرنا ہوگا۔ اس کی بھی قیمت ادا کرنی ہوتی ہے کیونکہ تعلیم کے نام پر جو رقم طالب علموں اور جو عطیے ان کے والدین سے حاصل کئے جاتے ہیں ان میں ہال ٹکٹ کے دام شامل نہیں ہوتے۔ تعلیم تو صرف کپڑا ہے۔ لباس کی سلائی الگ سے ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہ ٹکٹ اس ہال میں داخلے کا پروانہ ہوتا ہے جہاں آپ کی علمی قابلیت سے زیادہ آپ کی ہنر مندی کا امتحان ہوتا ہے۔ ہال ٹکٹ پر آپ کا نشان شناخت بھی درج ہوتا ہے۔ (یہ ہمیشہ اس سم کا لکھوانا چاہئے کہ نگران کار کو اسے تلاش کرنے میں یا تو دقت ہو یا رقت) اس پر آپ کی تصویر بھی ہوتی ہے۔ کوئی حرج نہیں۔ آپ کے ہال ٹکٹ پر کوئی دوسرا شخص بھی (جسے امتحانات دینے کا تجربہ ہوتا ہے) ہال میں داخل ہو سکتا ہے۔ تا ہم اگر آپ امتحان میں فیل بھی ہوجائیں تو ضروری نہیں کہ آپ ’’بے کار‘‘ ہیں۔ تعلیم پاکر لوگ اہل کار تو بن سکتے ہیں لیکن صاحب کار نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تعلیم حاصل نہیں کرنی چاہئے۔ ضرور کرنی چاہئے لیکن جو کچھ پڑھا ہے اسے فوراً بھول جانا چاہئے۔ تعلیم آرائش ک چیز ہے آسائش کی نہیں۔
ڈاک کے ٹکٹ، ڈاک کے ٹکٹ پر آپ کا خط سفر کرتا ہے۔ جس خط پر ٹکٹ لگائے جائیں اس کا منزل منقود پر پہنچنا ضروری ہوتا ہے لیکن جس پر ٹکٹ نہ لگائے جائیں وہ خط بہر حال مکتوب الیہ کو پہنچایا جاتا چہے۔ اس کارنامے پر ڈاک خانے کو دہری رقم ملتی ہے۔ ڈاک کے ٹکٹ کی پشت پر ایک قسم کی چکناہٹ ہوتی ہے جسے لوگ غلطی سے گوند سمجھتے ہیں۔ قطب نما کو کوئی شخص قطب سمجھنا شروع کردے تو اس میں محکمۂ ڈاک کا کوئی قصور نہیں۔
لاٹری کا ٹکٹ، حساب لگانے پر معلوم ہوا کہ ہندوستان میں اب ہر ہفتے دس بیس ہزار آدمی ضرور امیر ہو جاتے ہیں اور اسی امیری میں نام پیدا کرتے ہیں۔ یہ سب لاٹری کے طفیل ہو رہا ہے۔ لاٹری تجارت ہے یا سوشل سروس۔ یہ بات ابھی طے نہیں ہئی ہے لیکن یہ بات ضرور طے ہوچکی ہے کہ لاٹری کا کاروبار صرف حکومت کا حق ہے۔ اس وقت حکومت کے اسی محکمے کی کار کردگی سب سے اعلا درجے کی ہے۔ اے ون۔ اب عوام جو کچھ نہیں خرید سکتے لاٹری کا ٹکٹ ضرور خریدتے ہیں۔ ایک صاحب کے پاس تو ہم نے ان ٹکٹوں کا ایک ضخیم البم دیکھا ہے جو ان کی شادی کی تصویروں کے البم کی طرح نہایت حفاظت سے رکھا ہے جب بھی یہ صاحب ان البموں کو دیکھتے ہیں ان کے آنسو نکل پڑتے ہیں۔ انہوں نے بہر حال ابھی ہمت نہیں ہاری ہے اور لاٹری دکے ٹکٹ کے البم میں ہر ہفتہ تازہ کلام جمع ہوتا رہتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.