Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دھواں ہی دھواں

یوسف ناظم

دھواں ہی دھواں

یوسف ناظم

MORE BYیوسف ناظم

    جب سے سگریٹ کی ڈبیا پر اور اس کے اندر کی ہر سگریٹ کے سرے پر یہ لکھا جانے لگا کہ ’’سگریٹ صحت کے لیے مُضر ہے‘‘ اس وقت سے سگریٹ کی تجارت سب سے زیادہ منافع بخش تجارت ہوگئی ہے اور سگریٹ کی قیمت میں جتنا اضافہ ہوتا جارہا ہے سگریٹیں اتنی ہی زیادہ بکنے لگی ہیں۔ ہمارے جہاں مُضر صحت چیزیں تو ڈھونڈ ڈوھنڈ کر استعمال کی جاتی ہیں اور اگر کوئی چیز مضر نہیں ہوتی ہے تو اسے کوشش کرکے مُضر بنایا جاتا ہے۔

    سگریٹ کو ’یو‘ سرٹیفکٹ حاصل ہے۔ اس پر کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ یہ صرف بالغوں کے لیے ہے اس لیے ایسے بچے بھی جنھوں نے ابھی ابھی آٹھویں درجے میں قدم رکھا ہے، اگروہ غلطی سے زیر تعلیم ہیں، نہایت ہنرمندی کے ساتھ سگریٹ نوشی کا کام انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ نئی نسل واقعی بہت تیز ہے، کسی کام میں دیر نہیں کرتی۔ ان سے زیادہ عمر کے بچے جو اپنی عمر کے دوسرے دہے کی پہلی سیڑھی پر اپنا قدم رکھتے ہیں صرف سگریٹ نہیں پیتے، یہ کام تو وہ بہت پہلے کرچکے اور ان سے بڑی عمر کے بچے جن کی مَسیں بھیگنی شروع ہونے والی ہوتی ہیں کاروان کا ساتھ دینے کی خاطر'گرد، سے فیض حاصل کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس گرد کو بھی وہ گردِ کارواں سمجھتے ہیں اور اپنی رفتار میں تیزی پیدا کرتے ہیں تاکہ قافلے سے بہت زیادہ پیچھے نہ رہ جائیں۔

    سگریٹ کی تو اب کوئی حیثیت ہی نہیں رہی ہے۔ یہ بہت بچکانہ چیز ہے اس لیے اسے پرائمری ایجوکیشن کے نصاب میں ڈال دیا گیا ہے۔ اعلا تعلیم کے مضامین بالکل الگ ہیں۔ سگریٹ صحت کے لیے مُضر ہے اس جملے سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہمارے یہاں جس کسی کی بھی صحت خراب ہے اس کا سبب سگریٹ نوشی ہے، ایسا بالکل نہیں ہے۔ سب لوگ سگریٹ کہاں پیتے ہیں لیکن سگریٹ نہ پینے والے لوگوں کی صحت کی خرابی کے لیے بھی معقول انتظامات کیے گئے ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ زیادہ مضرت رساں چیزوں کی پیکنگ پر یہ نہیں لکھا جاتا کہ یہ چیز صحت کے لئے مُضر ہے۔ لوگوں کو خود بھی تو کچھ معلومات حاصل کرنی چاہئیں۔ انتظامیہ ہی کیوں چھپائی اور روشنائی پر روپیہ خرچ کرتا رہے۔ اتنے پیسوں میں تو اور بھی کئی مضر ِ صحت چیزیں تیار کی جاسکتی ہیں۔

    اخباروں اور رسالوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اشتہار اگر کسی چیز کے چھپتے ہیں تو وہ سگریٹ ہی کے چھپتے ہیں۔ ان اشتہاروں میں کچھ نوجوان لڑکے ہوتے ہیں، لڑکوں کے ساتھ ان کی گرل فرینڈ ہوتی ہیں جنھیں عام طورپر کزن کہا جاتا ہے۔ یہ لڑکیاں، اِن لڑکوں کے ساتھ رہتی ہیں، اس لیے ہیں کہ یہ لڑکے سگریٹ پیتے ہیں ور نہ ان میں اور کون سی خوبی ہوتی ہے کہ لڑکیاں ان کے پیچھے پیچھے پھریں۔ لڑکے بھی لڑکیوں کی اس کمزوری سے واقف ہوتے ہیں کیوںکہ آخر انھوں نے دنیا دیکھی ہے۔

    پچھلے کچھ سالوں سے جو سگریٹیں بن رہی ہیں ان کا قد پہلے کی سگریٹوں کے مقابلے میں ایک آدھ انچ زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پہلے کی سگریٹیں، کوتاہ قد ہونے کی وجہ سے صحت کے لئے اتنی مُضر نہیں ہوتی تھیں جتنی کہ انھیں ہونا چاہئے تھا۔ اب ہرسگریٹ سے زیادہ کش لیے جا سکتے ہیں، قیمت وصول کی جاتی ہے تو ظاہر ہے اس کا بدل بھی پورا دیا جانا چاہئے۔ یہ ایمانداری کا تقاضا ہے۔ ان سگریٹوں کو کنگ سائز کہا جاتا ہے۔ یہ عنوان ہمیں پسند آیا۔ ہم نے ایسے کنگوں کی تصویریں بھی دیکھی ہیں جو پستہ قد تھے، لیکن پھر بھی کنگ تھے کیوںکہ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے، اِن کا پستہ قد ہونا رعایا کو کبھی بُرا نہیں لگا۔ اُن کا کنگ ہونا کافی تھا۔ ویسے کنگ کا مفہوم عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ قد وقامت کے لحاظ سے بھی اونچے درجے کی چیز ہوگا، کنگ کا یہ لفظ ریفریجریٹر بنانے والی کمپنیوں نے بھی اپنا لیا ہے اور ان کے یہاں سب سے بلند وبالا ریفریجریٹر کنگ سائز ریفریجریٹر ہوتا ہے۔ اس میں کئی دن کا باسی کھانا رکھا رہتا ہے۔

    ویسے دیکھا جائے تو دنیا میں اب کنگ رہ ہی کتنے گئے ہیں۔ گنتی کے ایک یا دو لیکن ان کی وہ شان نہیں ہے جو پہلے زمانے کے بادشاہوں کی ہوا کرتی تھی۔ اب بادشاہوں کو قانون قاعدے کا پابند ہونا پڑتا ہے۔ اگر شاہی خاندان کا کوئی فرد غیرشاہی حرکت کرتا ہے تو اس شخص کو تختِ شاہی پر قدم نہیں رکھنے دیا جاتا۔ ہونا بھی یہی چاہیے قاعدہ بنا ہے تو اس کی پابندی کرو ورنہ قاعدے بناؤ ہی مت۔ بہت سے لوگ تو بس قاعدے ہی بناتے رہتے ہیں اور جہاں ان کی پابندی کا سوال آیا، اس کے لیے خوبصورت طاق بنے ہوتے ہیں، پابندی ان ہی طاقوں میں عاق شدہ حالت میں رکھی جاتی ہے۔ پابندی صرف مُضر صحت چیزوں کے استعمال کے لیے وقف ہے۔

    سگریٹ پینے کا محاورہ یا ترکیب بھی لغوی اعتبار سے غلط ہے۔ سگریٹ کوئی مشروب تو ہے نہیں کہ گلاس میں اسے ڈالا اور پی گئے۔ سگریٹ کا تو دُھواں پیا جاتا ہے اور وہ بھی پورا نہیں۔ اس کا ایک کش لینے کے بعد جتنا دھواں داخلِ دفتر ہونے سے بچ جائے وہ ناک یا مُنہ کے ذریعہ عوام الناس کی خدمت میں پیش کردیا جاتا ہے۔ ٹرین کے وہ ڈبّے جن پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہاں سگریٹ نوشی منع ہے، اسی دھوئیں سے بھرے رہتے ہیں۔ مسافروں سے تو بھرے ہوتے ہی ہیں۔ ڈبے میں اتنے مسافر ہوتے ہیں کہ ان کے بیچ میں سے دھواں تک گزر نہیں سکتا۔ اس دھویں کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جن مسافروں کو کھانسی نہیں ہوتی وہ بھی کھانسی میں حصّہ لے سکتے ہیں۔ ایک ٹکٹ میں سفر بھی اور کھانسی بھی۔ اسی لیے کہاگیا ہے کہ سیر کر دُنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں۔

    سگریٹ کے اس دھویں کو جو سگریٹ نوش شخص اپنے جسم میں داخل کرتا ہے ڈاکٹر ’نکوٹین‘ کا نام دیتے ہیں۔ شکر ہے کہ یہ نام بڑا نہیں ہے ورنہ علم طب میں عام طورپر دس بارہ اور پندرہ حرفی الفاظ کا طریقہ رائج ہے۔ ان الفاظ کو سن کر مریض خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ نکوٹین کی بجائے اگر کوئی طول طویل لفظ تجویز کیا جاتا تو شاید سگریٹ نوش شخص تھوڑا بہت پریشان ہوتا۔ یہ نکوٹین بہرحال بہت قیمتی اور پوشیدہ چیز ہوتی ہے۔ اسے اکسرے کی مدد سے تلاش کیا جاتا ہے۔

    ہندوستان میں بھی سگریٹ بنتے ہیں اور شکل وصورت میں بالکل ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے کہ باہر کے ملکوں کے بنے ہوئے سگریٹ ہوتے ہیں۔ ان سب کا نمونہ ایک ہی ہوتا ہے لیکن ہندوستان کے محبِّ وطن لوگ عام طورپر وہ سگریٹ پیتے ہیں جو باہر سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی اتنے ہی مُضر ہوتے ہیں جتنے کہ مصنوعاتِ ملکی لیکن باہر کے ملکوں کے سگریٹ خریدنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ صحت کی خرابی میں بیرونی ہاتھ کا دخل معلوم ہوتا ہے۔ ان سگریٹوں کی قیمت بھی ذرا زیادہ ہوتی ہے لیکن کوئی حرج نہیں۔ غریب مُلکوں کے لوگوں کو ہمیشہ قیمتی چیزیں ہی خریدنی چاہئیں۔

    نکوٹین یوں تو اچھی چیز ہے لیکن اس کی خرابی یہ ہے کہ اس کے جمع ہونے میں کافی وقت لگتا ہے۔ کئی سال تک سگریٹیں پینی پڑتی ہیں۔ ۴۰ سگریٹوں کی حد تو ٹھیک ہے لیکن اگر آدمی ۴۰ سگریٹ یومیہ کے اسکور سے آگے بڑھ جائے تو اسے سگریٹ پینا نہیں سگریٹ پھونکنا کہا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک قسم کا اعزاز ہے۔ اگر آپ اِسے اعزاز نہیں کہنا چاہتے تو امتیاز کہہ لیجیے۔ یہ لفظ بھی بُرا نہیں ہے۔

    سگریٹ پھونکنے والے کا درجہ سگریٹ پینے والے شخص کے مقابلے میں بلند ہوتا ہے۔ جس کسی شخص کے سیدھے ہاتھ کی انگلیاں پیلی ہوجائیں (یہ بھی ہاتھ پیلے کرنا ہوا لیکن اس کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو کنواری لڑکیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کا ہوتا ہے۔) اور گال اندر کی طرف چلے جائیں جسے آسان لفظوں میں پچک جانا کہتے ہیں تو سمجھنا چاہیے کہ یہ شخص برسوں سے روزانہ ہاف سنچری بناتا ہے۔ اسے سگریٹ پینے کی اتنی مشق ہوتی ہے کہ یہ سگریٹ کے دھوئیں کے حلقے بنا سکتے ہیں، اتنے بڑے حلقے کہ ہوائی قلعے معلوم ہونے لگتے ہیں۔ یہی حلقے ان کی آنکھوں کے گرد بھی پڑے ہوتے ہیں اور اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ آنکھیں گہنا جاتی ہیں۔ ڈاکٹر اسے سگریٹ ترک کرنے کا مشورہ اس لئے نہیں دیتے کہ اگر اُس نے سگریٹ پینا واقعی ترک کردیا تو اُس کی وفات کی ذمہ داری ڈاکٹر کے سر ہوگی۔

    کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ روزانہ پچاس سگریٹیں پینے والے اشخاص انفرادی طورپر اتنا ہی دھواں خارج کرتے ہیں جتنا کہ ایک ریلوے انجن سے خارج ہوسکتا ہے۔ (یاد رہے کوئلے سے جلنے اور چلنے والا انجن۔)

    جو سگریٹ بہت زیادہ ضخیم ہو اُسے سگریٹ نہیں سگار کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ورقی سموسے کی طرح ہوتا ہے لیکن اس کا حُلیہ ذرا الگ ہوتا ہے۔ اسے دیا سلائی دکھائی جائے تو یہ سموسہ آہستہ آہستہ فرائی ہونے لگتا ہے۔ سگار کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کا رنگ کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ اس پر کسی قسم کی تحریر طبع نہیں ہوسکتی۔ اس کی دوسری خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کا دھواں زیادہ تلخ اور گاڑھا ہوتا ہے۔

    سگریٹ کا دھواں تو ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ سگار کے دھوئیں میں ہوا تحلیل ہو جاتی ہے۔ مشہور یہ ہے کہ سگار پینے سے آدمی کے جسم میں نکوٹین نام کی کوئی چیز داخل نہیں ہوتی کیونکہ سگار کی تیاری میں اسٹیشنری استعمال نہیں کی جاتی۔ سگار پر بھی اگر کاغذ خرچ کیا جانے لگا تو اخبارات اور رسائل کو شاید ہی کاغذ کا کوٹا جاری کیاجاسکے۔ آج کل سارے کام کوٹے کے حساب سے چلتے ہیں۔ سگار کی تیسری خوبی یہ ہوتی ہے کہ ایک سگار کو ۲۳ مرتبہ جلانا پڑتا ہے۔ اس میں ایندھن زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ سگار پینے والے لوگ اپنے لائٹر کے لیے اتنا ہی پٹرول استعمال کرتے ہیں جتنا ۲۵ کلومیٹر سفر کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ سگار قدرے متمول لوگوں کی غذا ہے۔ دولتمند ملکوں کی امداد پر زندگی گزارنے والے لوگوں کو سگار ہی پینا چاہیے، قرض بڑھتا ہے۔

    دھواں پینے کا ایک ذریعہ اور ہے اور وہ ہے پائپ، پائپ اپنی کاری گری کے اعتبار سے بہت خوبصورت فرنیچر ہوتا ہے، مینی فرنیچر۔ اس کے ایک سرے پر ایک چھوٹی سی اوکھلی بنی ہوتی ہے جسے ایک خاص قسم کے ریشے دار تمباکو سے پُر کیا جاتا ہے۔ اسے بڑے پیار سے تھپکنا بھی پڑتا ہے۔ یہ اوکھلی جس ڈنڈی سے جڑی ہوتی ہے اس میں دھویں کی رفت کے لیے ایک راستہ بنا ہوتا ہے۔ سُرنگ نما راستہ، اسے آپ یک رُخی راستہ کہہ سکتے ہیں۔ اس ڈنڈی کے رسیدی کنارے یعنی ریسیونگ اینڈ پرکاری گر کو اپنا کمال دکھانا پڑتا ہے کیونکہ اسی کنارے کے توسط سے پائپ بردار شخص اپنا دھوئیں کا راشن حاصل کرتا ہے۔ کچھ لوگ ہونٹوں کی مدد سے اور کچھ لوگ دانتوں کی مدد سے پائپ پیتے ہیں (ہونٹ اور دانت دونوں اپنے ہونے چاہئیں۔)

    سگریٹ کی ڈبیا پر سب کا حق ہوتا ہے۔ یہ غریب کی بھابی ہوتی ہے۔ سگار بھی دوسرے کو پیش کیا جاسکتا ہے لیکن چوکہ یہ ذراوزنی ہوتا ہے اس لیے کم لوگ ہی اِسے قبول کرتے ہیں اور پائپ کے کسی دوسرے کو دینے دلانے اور چلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے اس مضر صحت اشیا میں پائپ ہی سب سے عمدہ شے ہے۔ بس اس کا نام ہمیں پسند نہیں۔ کسی پائپ لائن کی طرف ذہن منتقل ہوجاتا ہے۔

    پائپ کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ بُجھا ہوا پائپ بھی محفل میں اتنا ہی نمایاں اور لائقِ دید ہوتا ہے، جتنا کہ شعلہ پوش پائپ۔

    اگر کسی شخص کا پائپ کھو جائے تو اس کا باضابطہ ماتم کرنا پڑتا ہے۔ پائپ مردوں کا زیور ہوتا ہے اور زیور اگر کھو جائے تو آہ وزاری لازمی ہے۔ اپنے پرس اور پائپ کی حفاظت میں لوگ جی جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔ پائپ کھو جائے تو ان کے سینے سے دھواں اُٹھتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے