میرے شہر کے مسلمانوں میں ان دنوں اجتماع کا زور ہے۔ ایک تبلیغی اجتماع، جسکی تیاری پچھلے تقریباً تین ماہ سے چل رہی ہے۔ اور اب جبکہ اس سہ روزا اجتمے میں کیول دو روز باقی رہ گئے ہیں، تقریباً دس ہزار سے زیادہ نوجوان رات دن اجتماع گاہ میں کدال بکف ہیں۔ بانسوں اور کناتوں کے اس کار خیر کو بریانیوں کی خوشبو نے کار دل فریباں بنا دیا ہے۔
پرسوں دلی جانے کے لیے شہر کے باہر بس کا انتظار کر رہا تھا۔ تبھی ایک گاڑی نزدیک آکر رکی۔ ڈرائیور نے کہا دلی جا ئینگے؟ بیٹھ جائیں۔ ’’اولا‘‘ وغیرہ کے لیے روزانہ دلی آنے والی یہ گاڑیاں اکثر کچھ سواریاں لے آتی ہیں۔ میں آگے کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پیچھے تین اور نوجوان سوار ہوئے۔ گاڑی کے شیشے پر سامنے کی طرف کئی طرح کے تعویذ اور عربی میں سائنس کے ’’نیومیرکل‘‘ جیسے دکھنے والے نقشے ٹنگے تھے۔ اور ایک تسبیح جھول رہی تھی۔ گانا بج رہا تھا، جسمیں ہیرو اپنی محبوبہ کو منانے کی کوشش کر رہا تھا۔
ابھی شہر کی آبادی سے نکلے ہی تھے کہ تا حد نظر اجتماع کی قناتیں نظر آنے لگیں۔ پیچھے سے ایک دل سوز آواز آئی،
’’بھائی صاب جنت بنٹ ریئے‘‘
’’ٹھیک کے ریئو بھائی! سارے جنتی ہیں۔‘‘ دوسرے نے تصدیق کی۔
میں نے حیرانی سے گھوم کر دیکھا تو ڈرائیور میری طرف مخاطب ہوا۔
’’بھائی صاب استمع کی بات کر رئیں۔ ایسا استما ع دیکھا نہ ہوگا کسی نے۔‘‘
’’ہاں بھائی، مودی تو مودی، امریکہ بھی پریسان ہے، کے ہو کیا را یہ بلنسیر (بلندشہر) میں۔‘‘
چھوتھا (جو اب تک خاموش تھا) بولا کہ ’’بھائی بڑی بات ہم کیتے نائیں، پر حج سے بڑا ثواب اے اس استمع کا‘‘
میں نے ایک بار اور حیرانی سے پیچھے دیکھا۔ تو اسنے مجھ سے تصدیق کرانی چاہی، ’’کیوں بھائی صاب، نائے حج سے بڑا ثواب؟‘‘
میں بھلا کیا کہتا؟ لیکن مجھ سے پہلے ہی ڈرائیور بولا، ’’بالکل سئی کیریئو بھائی‘‘
میوزک سسٹم سے گانے کی آواز ذرا تیز ہو چلی تھی،
’’او رادھا تیری چونری، او رادھا تیرا چھلا۔۔۔‘‘
تبھی پیچھے سے ایک اور آواز آئی، ’’بھائی یہ تو ہماری قسمت کی بات ہے کے یہ خدمت کا موقع ہمیں ملا ہے۔ پوری دنیا دیکھے گی۔ جیسے پیلے ہم جاتے ہے کئیں کو، تو ہمیں یوں بتانا پڑکرییا کہ ہم دلی کے پاس سے آئیں ہیں۔ اب تو امریکہ میں بھی بس یوں کینا پڑےگا کہ بلنسیر سے آئیں ہیں۔ ساری دنیا جانے گی بلنسیر کا نام۔” پچھلی سیٹ سے کورس میں آواز آئی، ’’انسااللہ!‘‘
بیک گراؤنڈ میوزک میں رادھا کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا تھا۔۔۔
’’چھیڑے ہے ہمکا دَیّاں بَیری کنَییّا۔۔۔اینڈ ایوری بڈی کریزی آن رادھا‘‘
دربان بہشت رضوان سے یہ امت ابھی محو سلام و کلام ہی تھی کہ چوتھا خاموش مردے مومن یوں گویا ہوا، ’’بھائی صاب، ساری بات ٹھیک ہے، پر یہ سالے خاں صاب بگاڑنگے نظام‘‘ باقی امت اس چوتھے کی طرف متوجہ ہوئی تو وضاحت فرمائی، پچھلی بار فلاں گاؤں کے فلاں محمد خان کے بیٹے فلاں محمد خان نے سیبوں کی دو پیٹی غائب کردیں۔ میرٹھ کے کسی نیتا کے یاں سے آئے تھے بنٹنے کو۔ اور فلاں خان صاب، جو فلاں خان صاب کے پوتے ہیں، انہوں نے کیلوں کی گیل کا پتہ نہ دیا۔
اسی گفتگو کے دوران گانا بدل گیا تھا۔ اور اب کوئی شیخ صاحب اپنی کارگزاری بیان فرما رہے تھے،
’’چار بوتل ووڈ کا، کام میرا روز کا‘‘
ایک صاحب نے اطلاعاً عرض کیا، ’’بھائی، تم نے’’ہجرت جی‘‘ کا کمرہ نہ دیکھا، سننے میں آرا اے کہ بالکل محل سا بنا دیا اے۔ دو گاؤں تو اکیلے ’’ہجرت جی‘‘ کی خدمت میں ہیں۔” اتنا کہہ کر اسنے بہ اندازہ دیگر میری طرف دیکھا۔ ظاہر ہے، میری کفریا خاموشی انہیں ناگوار گزر رہی تھی۔
تبھی دوسرے نے پیچھے سے تصدیق کی کے ’’سئی کیریئو بھائی، ہمارے ’’ہجرت جی‘‘ اس ٹیم دنیا کے سب سے بڑے آدمی ہیں۔ وہ جو کے دیں، ووئی ہو جائے دنیا میں۔‘‘
بیک گراؤنڈ سے مسلسل آواز آ رہی تھی۔۔۔
‘‘I Wanna Hangover Tonight”
جب ڈرائیور سے بالکل برداشت نہ ہوا، تو وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔ بولا ، ’’بھائی صاب، ایسا لگ را ہے کہ جیسے تمہیں استمع کی بات پسند نہ رئیں ییں۔‘‘
میں نے عرض کیا کہ ’’نہیں دوست، ایسی بات نہیں! میں تو بس یہ سوچ رہا تھا کہ جب ہجرت جی کے لیے اتنا بڑا محل ہے تو صحابۂ کرام ( رضی۰) کہیں جاتے ہو ں گے تو کتنے بڑے محل بنتے ہو ں گے؟‘‘
اور اسکے بعد۔۔۔!
الامان۔۔۔! الحفیظ۔۔۔!
اگلے دو منٹ ذرا زہریلی خاموشی رہی، اور ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔ اور گرا کر کہا، ’’نیچے اتر!‘‘
’’ایں‘‘
’’ابے ایں کیا کر راہے؟ نیچے اتر‘‘
’’ہمارے ’’ہجرت جی‘‘ کو برا کیئے گا۔‘‘
’’یہ تو مجھے شروع سے ئی منافق لگ را تھا‘‘ پیچھے سے آواز آئی۔
ڈرائیور نے ایک بار اور ڈانٹ کر کہا تو میں اتر گیا۔ اترتے وقت گانا بج رہا تھا،
تیرے واسطے میرا عشق صوفیانہ۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.