Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عید ملنا

محمد یونس بٹ

عید ملنا

محمد یونس بٹ

MORE BYمحمد یونس بٹ

    مرزا صاحب ہمارے ہمسائے تھے، یعنی ان کے گھر میں جو درخت تھا اس کا سایہ ہمارے گھر میں بھی آتا تھا۔ اللہ نے انہیں سب کچھ وافر مقدار میں دے رکھا تھا۔ بچے اتنے تھے کہ بندہ ان کے گھر جاتا تو لگتا اسکول میں آگیا ہے۔ ان کے ہاں ایک پانی کا تالاب تھا جس میں سب بچے یوں نہاتے رہتے کہ وہ تالاب میں ۵۰۰ گیلن پانی بھرتے اور سات دن بعد ۵۵۰ گیلن نکالتے۔ وہ مجھے بھی اپنے بچوں کی طرح سمجھتے، یعنی جب انہیں مارتے تو ساتھ میں مجھے بھی پیٹ ڈالتے، انہیں بچوں کا آپس میں لڑنا جھگڑنا سخت ناپسند تھا۔ حالانکہ ان کی بیگم سمجھاتیں کہ مسلمان بچے ہیں، آپس میں نہیں لڑیں گے تو کیا غیروں سے لڑیں گے۔ ایک روز ہم لڑ رہے تھے، بلکہ یوں سمجھیں رونے کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ یوں بھی رونا بچوں کی لڑائی کا ٹریڈ مارک ہے۔ اتنے میں مرزا صاحب آگئے۔

    ’’کیں لڑ رہے ہو؟‘‘

    ہم چپ! کیونکہ لڑتے لڑتے ہمیں یہ بھول گیا تھا کہ کیوں لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیں خاموش دیکھا تو دھاڑے، ’’چلو گلے لگ کر صلح کرو۔‘‘ وہ اتنی زور سے دھاڑے کہ ہم ڈر کر ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ اس بار جب میں نے عید پر لوگوں کو گلے ملتے دیکھا تو یہی سمجھا کہ یہ سب لوگ بھی ہماری طرح صلح کر رہے ہیں۔

    عید کے دن گلے ملنا، عید ملنا کہلاتا ہے۔ پہلی بار اس دن انسان گلے ملا، جب خدا نے اسے ایک سے دو بنایا۔ یوں آج بھی گلے ملنے کا عمل دراصل انسان کے ایک نہ ہونے کا اعلان ہوتا ہے۔ یہ عمل ہمیں دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتا ہے کہ وہ گلے پڑ تو سکتے ہیں، گلے مل نہیں سکتے۔

    ہمارے ہاں عید ملنا، عید سے بہت پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ دکاندار گاہکوں سے، کلرک سائلوں سے اور ٹریفک پولیس والے گاڑی والوں کو روک روک کر ان سے عید ملتے ہیں۔ بازاروں میں عید سے پہلے اتنا رش ہوتا ہے کہ وہاں سے گزرنا بھی عیدملنا ہی لگتا ہے۔ کچھ نوجوان تو لبرٹی اور بانو بازار میں عید ملنے کی ریہرسل کرنے جاتے ہیں۔

    عید کے دن میں خوشبو لگا کر عید گاہ کا رخ کرتا ہوں۔ واپسی پر کپڑوں سے ہر قسم کی خوشبو آ رہی ہوتی ہے سوائے اس خوشبو کے جو لگاکر جاتا ہوں۔ عید مل مل کر وہی حال ہوجاتا ہے جو سومیٹر کی ریس جتنے کے بعد ہوتا ہے۔ اوپر سے گوجرانوالہ کی عید ملتی مٹی ایسی کہ جب واپس آکر گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں تو گھر والے گردن نکال کر پوچھتے ہیں،

    ’’جی! کس سے ملنا ہے؟‘‘

    سیاست دان تو عید یوں ملنے نکلتے ہیں، جیسے الیکشن کمپین پر نکلے ہوں۔ جیتنے سے پہلے عید تو وہ آگے بڑھ کر ملتے ہیں اور جیتنے کے بعد عید مل کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ پنجاب کے ایک سابق گورنر کا عید ملنے کا انداز نرالہ ہوتا تھا۔ ان کا حافظہ ہمارے ایک ادیب دوست جیسا تھا جو ایک ڈاکٹر سے اپنے مرض نسیان کاعلاج کروا رہے تھے، دو ماہ کے مسلسل علاج کے بعد ایک دن ڈاکٹر نے پوچھا،

    ’’اب تو نہیں بھولتےآپ؟‘‘

    ’’بالکل نہیں، مگر آپ کون ہیں اور یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘

    وہ سابق گورنر بھی عید پر معززین شہر سے عید ملنا شروع کرتے، ملتے ملتے درمیان تک پہنچتے تو بھول جاتے کہ کس طرف کے لوگوں سے مل لیا اور کس طرف کے لوگوں سے ابھی ملنا ہے۔ یوں وہ پھر نئے سرے سے عید ملنے لگتے۔ ایسے ہی ایک صاحب تیز دریا عبور کرنے کی کوشش میں تھے مگر عین دریا کے درمیان سے واپس پلٹ آئے۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے، دراصل جب میں دریا کے درمیان پہنچا تو بہت تھک گیا تھا سو واپس لوٹ آیا۔

    شاعر وہ طبقہ ہے جو خوشی غمی ہر دوموقعوں پر شعر سناتا ہے۔ کہتے ہیں کہ سکھ کرپان کے بغیر، بنگالی پان کے بغیر اور شاعر دیوان کے بغیر گھر سے نہیں نکلتا۔ اس لیے شاعر عید ملنے کے لیے بھی مشاعرے ہی کرتے ہیں۔ یوں مشاعروں کو لفظوں کا عید ملنا کہہ لیں اگرچہ وہ ہوتی تو لفظوں کی ہاتھا پائی ہے۔

    بچے پیار سے عید کو عیدی کہتے ہیں۔ اس لیے ان کو عیدی ملناان کا عید ملنا ہے۔ عورتیں بھی اکٹھی ہوکر عید ملتی ہیں، لیکن جہاں چار عورتیں اکٹھی ہوں وہاں وہ ایک دوسری سے نہیں، پانچویں سے خوب خوب ملتی ہیں۔ اور کوئی وہاں سے اٹھ کر اس لیے نہیں جاتی کہ جانے کے بعد وہاں بیٹھی رہنے والیاں اس سے ’’عید ملنا‘‘ نہ شروع کردیں۔

    عید کے روز امام مسجد سے عید ملنے کا یہ طریقہ ہے کہ اپنی مٹھی مولوی صاحب کی ہتھیلی پر یوں رکھیں کہ ان کے منہ سے جزاک اللہ کی آواز نکلے۔ چھوٹے شہروں میں نوجوانوں کی اکثریت سنیما گھروں میں بھی عید ملنے جاتی ہے۔ بکنگ کے سامنے وہ عید ملن ہوتی ہے کہ جو سفید سوٹ پہن کر آتا ہے وہ براؤن سوٹ بلکہ کبھی کبھی تو کالے سوٹ میں لوٹتا ہے، اکثر بنیان میں بھی واپس آتے ہیں۔ عید ملنا وہ ورزش ہے جس سے وزن بہت کم ہوتا ہے۔ میرا ایک دوست بتاتا ہے کہ بیرون ملک میں نے عید پر سو پونڈ کم کیے۔

    RECITATIONS

    نعمان شوق

    نعمان شوق,

    نعمان شوق

    Eid Milna نعمان شوق

    مأخذ :

    یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے