ایک آنے کی کسر
لائل پور میں ایک انجمن ترقی اردو قائم ہے۔ اس کے منتظمین ہر سال شاندار ادبی جلسہ کیا کرتے ہیں جن میں تقریریں بھی ہوتی ہیں، قراردادیں بھی منظور کی جاتی ہیں اور مشاعرہ بھی منعقد ہوتا ہے۔ اس سال حفیظ جالندھری، جگر مرادآبادی، ساغر نظامی، احسان دانش، اوج بدایونی اور احمق پھپھوندوی نے شرکت کی۔
اس نیاز مند کو بھی مدعو کیا گیا۔ انجمن کے سیکریٹری نے مجھے دس روپے کا منی آرڈر بھیج کر لکھا تھا کہ یہ کرایہ ہے۔ باقی ’’خدمت‘‘ لائل پور پہنچنے پر کی جائے گی۔
۲۴ فروری کی صبح کو میں اسٹیشن پر پہنچا لیکن خدا جانے مجھے دیر ہو گئی یا گاڑی کو کوئی جلدی کا کام آ پڑا تھا، وہ مجھے ساتھ لیے بغیر روانہ ہو گئی۔ اب دوسری گاڑی شام کو جاتی تھی، اس لیے میں نے سوچا کہ دفتر جاکر تھوڑا بہت دفتر کا کام بھی کر لوں اور دوپہر کے وقت لاری پر سوار ہو جاؤں گا۔ دفتر پہنچا، دفتر کا کام کیا، اس کے بعد جی میں آ یا کہ ایک عدد ’’لقلقہ‘‘ بھی ساتھ لیتا جاؤں، کیوں کہ مشاعروں میں لقلقہ کی نظموں کی فرمائش اکثر ہوا کرتی ہے۔ میں نے چپراسی کو رقعہ دے کر کہا کہ اردو اکیڈیمی سے ایک جلد ’’لقلقہ‘‘ لے آ ؤ۔ لیکن چپراسی لقلقہ لے کر اس وقت آیا جبکہ نہ لاری مل سکتی تھی نہ ٹرین۔ میں مجبوراً گھر پہنچا۔
اگلے دن گھر سے روانہ ہوتے وقت سوچا کہ فالتو پیسے ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت ہے۔ کرایہ اور چند آنے پان سگریٹ کے لیے کافی ہوں گے۔ چنانچہ یہی کیا اور ٹکٹ خرید کر ٹرین میں سوار ہوا۔ گاڑی میں دو لڑکے بیٹھے تھے۔ ٹرین کے ساتھ دو ٹی ٹی بھی تھے۔ جب بے ٹکٹ لڑکوں کو ان کی موجودگی کا علم ہوا تو وہ آپس میں سر گوشیاں کرنے لگے۔ میں نے ان کی باتیں سن لیں۔ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ جب ٹی ٹی آئے تو ہم کہہ دیں کہ ہم فلاں ٹکٹ کلکٹر کے رشتہ دار ہیں۔ مجھے ان کی حالت پر رحم آ رہا تھا اور میں دل میں خیال کر رہا تھا کہ ٹی ٹی ان کی بات نہیں مانیں گے اور بیچارے پکڑے جائیں گے۔
جڑانوالہ سٹیشن آنے ہی کو تھا کہ ایک ٹی ٹی ہمارے ڈبے میں آگیا۔ جب چیک کرتے کرتے ان لڑکوں کے پاس پہنچا تو انہوں نے وہی کہا جو سوچ رکھا تھا۔ ٹی ٹی نے ان کو چھوڑ دیا اور میرے پاس آیا۔ میں نے ٹکٹ دکھا دیا تو ٹی ٹی بولا کہ آپ نے بھنگ تو نہیں پی رکھی۔ میں نے حیرت سے پوچھا، وہ کیوں؟ ٹی ٹی بولا کی آپ کو شیخو پورہ سے ٹرین بدلنی چاہئے تھی۔ اتنے میں جڑانوالہ سٹیشن آگیا اور ٹی ٹی نے مجھ سے کہا کہ مہربانی کر کے نیچے اتریے تا کہ آپ سے کرایہ چارج کیا جائے۔ میں نے ان لڑکوں کی طرف دیکھا جو بے ٹکٹ ہونے کے باوجود چھوڑ دیے گئے تھے۔ اور اب مجھے اپنے آپ پر رحم آنے لگا کہ با ٹکٹ ہونے کے بوجود چور پکڑا گیا ہوں۔
پلیٹ فارم پر دوسرا ٹی ٹی بھی آ گیا اور دونوں نے میرے معاملہ پر غور کیا اور خدا کا شکر ہے کہ یہ غور ہمدردانہ تھا۔ مجھ سے کہا گیا کہ آپ اس ٹرین کے ذریعہ لائل پور جانا چاہتے ہیں تو آپ کو تین ساڑھے تین روپے اور دینے پڑیں گے کیوں کہ آپ شیخو پورہ سے جڑانوالہ تک بے ٹکٹ متصور ہوں گے یہ کرایہ بھی معہ جرمانے کے وصول کیا جائے گا اور آگے وایا شور کرٹ لائل پور کا کرایہ بھی لیا جائے گا۔ میں یہ سن کر چکرا گیا، کیوں کہ میرے پاس فالتو پیسے نہ تھے۔ میں نے عرض کیا کہ کوئی صورت میرے بچاؤ کی بھی ہو سکتی ہے؟ ایک ٹی ٹی نے ذرا سوچنے کے بعد کہا کہ آپ اسی سٹیشن پر اتر جایئے اور جڑانوالہ سے لائل پور تک لاری کے ذریعہ پہنچئے۔ یہ تجویز سن کر میری جان آئی اور میں ان ٹی ٹی صاحبان کا شکریہ ادا کر کے روانہ ہوا لیکن میں نے سوچا کہ اگر گیٹ کے راستے باہر گیا تو ممکن ہے ٹکٹ کلکٹر بھی شیخوپورہ سے جڑانوالہ تک بے ٹکٹ تصور کر کے کرایہ چارج کرے۔ میں پلیٹ فارم کے ایک طرف چل پڑا اور جنگلے کے اوپر سے باہر نکل گیا۔
موٹروں کے اڈہ پر پہنچ کر میں نے دریافت کیا کہ لائل پور تک کا کرایہ کس قدر ہے؟ جواب ملا چھ آنے۔ میں نے اپنی جیب کا معائنہ کیا تو پانچ آنے نکلے۔ میرارنگ فق ہو گیا کہ اب ایک آنہ کی کسر کہاں سے پوری کی جائے؟
ایک لاری تیار کھڑی تھی۔ میں نے سوچا کہ ڈرائیور سے اپنی مصیبت بیان کروں، شاید وہ پانچ آنے پر رضا مند ہو جائے۔ لیکن دل نہ مانا کیوں کہ یہ کام ڈرائیور کا نہ تھا بلکہ اس کا تھاجو سامنے بکنگ آفس میں ٹکٹ بیچ رہا تھا۔ میں اس طرف گیا۔ وہاں ٹکٹ خرید نے والوں کی بھیڑ تھی۔ میں کھڑا ہو کر انتظار کرنے لگا کہ بھیڑ چھٹے تو بکنگ منشی سے عرض حال کروں لیکن بھیڑ کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی گئی۔
میں مایوس ہو گیا اور بازار کی طرف روانہ ہوا تا کہ کسی دکاندار سے اپنا قصہ غم بیان کر کے ایک آنہ حاصل کروں۔ لیکن بازار تمام سنسان۔ جڑانوالہ میں مکمل ہڑتال تھی۔ میں نے خیال کیا آنکھیں بند کر کے اور ہاتھ پھیلا کر سڑک کے ایک طرف کھڑا ہو جاؤں۔ شاید کسی کو ’’سفید پوش اندھے‘‘ پر رحم آ جائے لیکن دل نے یہ بھی گوارہ نہ کیا۔
پھر موٹر کے اڈے پر پہنچا۔ اڈے کے متصل مٹی کے تیل کی ایک دکان تھی جس کے باہر تین چار کرسیاں پڑی تھیں اور دکان کے مالک ایک سکھ صاحب دھوپ میں اپنے کیس سکھا رہے تھے۔ دل نے چاہا کہ ایک آنہ ان سے مانگ لوں۔ میں سوال کی غرض سے ان کے قریب گیا لیکن حوصلہ نہ پڑا اور واپس آ گیا۔ اس کے بعد دفعتاً یہ خیال سوجھا کیوں نہ سردار صاحب سے اخبارات کے ایجنٹ کا پتہ دریافت کیا جائے۔ اخباروں کے ایجنٹ میرے نام سے واقف ہی ہوں گے اور ممکن ہے کہ وہ ’’شہباز‘‘ کا ایجنٹ بھی ہو، جس میں میں کام کرتا ہوں۔
یہ بات سوچ کر میں سردار صاحب کے پاس گیا۔ میں نے پوچھا کہ کیوں سردار صاحب یہاں اخبارات کا ایجنٹ کہاں رہتا ہے؟ میری یہ بات سن کر سردار صاحب دکان کے اندر گئے اور اندر سے ’’ٹریبیون‘‘ اخبار لاکر میرے ہاتھ میں دے دیا اور کہا لیجئے، اخبار پڑھنا ہے تو یہ حاضر ہے اور یہاں کسی ایجنٹ وغیرہ کی دکان نہیں۔ ایک دو ہار کر ہیں۔ وہی چل پھر کر اخبار بیچتے ہیں۔
میری یہ اسکیم بھی ناکام رہی اور میں اخبار لے کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ سردار صاحب سمجھ رہے تھے کہ میں اخبار پڑھنے کا بڑا شوقین ہوں اور اخبار کے مطالعہ میں غرق ہو گیا ہوں۔ لیکن میں دل میں ایک آنہ پیدا کرنے کی تجاویز سوچ رہا تھا۔ سردار صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہیں، کہاں جائیں گے اور کیا کام کرتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ لاہور سے آیا ہوں، لائل پور جاؤں گا اور اخبار نویس ہوں۔ ’’شہباز‘‘ کا جائینٹ ایڈیٹر ہوں۔ اتنے میں سردار صاحب نے ایک آدمی کو، جو ادھر سے گزر رہا تھا، آواز دی اور کہا کہ ادھر آؤ، یہ ایڈیٹر صاحب بیٹھے ہیں۔ ان سے ملاقات کرو۔ ان مہاشہ جی نے گاندھی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ ان سے ملاقات ہوئی، کہنے لگے کہ یہاں میں اخبار ات بیچتا ہوں۔ پھر انہوں نے نام پوچھا تو میں کہا کہ ’’حاجی لق لق۔‘‘ اس پر تو مہاشہ جی اچھل پڑے اور کہا کہ آپ کے درشن کہاں پایئے؟ وہ تو میری خیر خیریت پوچھ رہے اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایک آنہ کس طرح مانگوں؟
سڑک کے پار ایک دکان سے ایک اور سردار صاحب نکلے۔ مہاشہ جی نے ان کو بھی آواز دی اور کہا کہ آیئے آپ کو ایک مشہور ہستی کے درشن کرائیں۔ یہ سردار صاحب بھی آئے اور تعارف ہوا۔ سردار جی بولے کہ آپ کو مل کر بے حد خوشی ہوئی۔ میں یہاں یونائٹیڈ پریس کا نمائندہ ہوں۔ ایک عدد چھاپہ خانہ بھی رکھتا ہوں۔ میں نے بھی خوشی کا اظہار کیا۔
سردار امر سنگھ (یہ ان کا نام تھا) ہاتھ جوڑ کر بولے کہ کیا خدمت کروں۔ جی میں آئی کہہ دوں ایک آنہ عنایت کرو۔ لیکن پھر سوچا کہ ذرا صبر سے کام لو۔ سردار امر سنگھ یہ کہہ چل دیے کہ ابھی حاضر ہوتا ہوں۔ چند منٹ بعد سردار صاحب آئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک تھال تھا۔ جس میں حلوا پوری، اچار اور گوبھی کا پلاؤ تھا۔ میں نے سردار صاحب کا شکریہ ادا کر کے چیزیں کھانی شروع کر دیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ سوچتا جا رہا تھا کہ آنہ کس طرح مانگوں؟ لاری جا چکی تھی اور دوسری تیار تھی۔ سردار صاحب یہ کہہ لاری کی طرف چلے گئے کہ میں آپ کے لیے سیٹ رکھوالوں۔
سردار صاحب سیٹ رکوا آئے اور کہنے لگے کہ آپ نے ٹکٹ خرید لیا ہے؟ میں نے کہا کہ ابھی نہیں۔ آپ بولے کہ لایئے مجھے پیسے دیجئے، میں ٹکٹ لے آؤں۔ اب میرا رنگ اڑ گیا۔ بہر حال میں نے کوٹ کی اوپر والی جیب سے پانچ آنے نکال کر سردار صاحب کے ہاتھ میں دیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو پانچ آنے ہیں۔ لائل پور کے چھ آنے لگتے ہیں۔ یہاں میرے دماغ نے تھوڑا بہت کام کیا۔ میں نے حلوا پوری کی چکنا ہٹ سے بھرا ہوا ہاتھ دکھا کے کہا کہ کھانے سے فارغ ہو لوں۔ نوٹ اندر کی جیب میں ہیں اور چکنے ہاتھ نہیں لگنے چاہئیں۔
سردار صاحب بولے کہ پرواہ نہیں، ایک آنہ میں ڈال دیتا ہوں۔ سردار صاحب یہ کہہ کر بکنگ آفس کی طرف چلے گئے اور میری جان میں جان آئی۔ اس دن سے میں نے کان کو ہاتھ لگا لیا ہے کہ سفر میں فالتو پیسے ضرور پاس ہونے چاہئیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.