Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گدھا گری

محمد یونس بٹ

گدھا گری

محمد یونس بٹ

MORE BYمحمد یونس بٹ

    گداگری میں تو روس، جس کی جمع کبھی رؤساء ہوتی تھی، آج کل پہلے نمبر پر ہے مگر حیرانی یہ ہوئی کہ اب امریکہ بھی گدھا گری پراتر آیا ہے۔ حال ہی میں ایک فرم نے اعلان کیا ہےکہ امریکہ کو گدھے برآمد کیے جائیں گے۔ امریکہ گدھوں کے معاملے میں ہمیشہ سے تیسری دنیا کے ممالک کا محتاج رہا ہے۔ اور یوں دوسرے ممالک کے گدھوں پر ہی گزارہ کرتا آیا ہے۔ بس فرق یہ ہے پہلے اسے دوسرے ممالک کی سیاست کے لیے گدھے چاہئے ہوتے تھے اب اسے اپنے ملک کی سیاست کے لیے چاہئیں۔

    امریکہ کی تین مشہور پارٹیاں ہیں، ری پبلکن پارٹی، ڈیموکریٹ پارٹی اور کاک ٹیل پارٹی۔ پہلی دو کے انتخابی نشان بالترتیب گدھا اور ہاتھی ہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں کس کی حکومت ہوگی اس کا فیصلہ ان دو جانوروں کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال ہمارے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے، اس بہانے ہم اپنے سارے گدھے باہر بھیج سکتے ہیں۔ ویسے آج تک ہماری کسی فرم نے اتنی چیزیں برآمد نہ کی ہوں گی جتنی محکمہ پولیس نے کی ہیں۔ سو گدھے بھی انہیں سے برآمد کرانے چاہئیں اور غلام حیدر دائیں صاحب کی زیر نگرانی کام ہوتا کہ گدھے ’’میرٹ‘‘ پر باہر بھیجے جا سکیں۔

    گدھے دو قسم کے ہوتے ہیں، دو ٹانگوں والے اور چار ٹانگوں والے۔ اگرچہ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کون سے گدھے برآمد کرنے ہیں۔ پھر بھی جہاں چار ٹانگوں والا ایک بھیجنا ہے، وہاں دو ٹانگوں والے دو بھیج کر گزارا ہو سکتا ہے۔ جیسے ایک شیخ نے کہا میں چالیس سال کی عورت سے ہی شادی کروں گا۔ کچھ دنوں بعد ملا تو اس کے ساتھ بڑی کم عمر بیوی تھی۔ پوچھا تو کہنے لگا، ’’چالیس سال کی ایک نہ ملی تو میں نے بیس بیس سال کی دو کر لیں۔‘‘ گدھے اور انسان میں یہ فرق ہے کہ گدھا سگریٹ نہیں پیتا اور جھوٹ نہیں بول سکتا۔ ایک بچے سے استانی نے پوچھا کہ گدھے اور ٹب میں کیا فرق ہے؟ تو اس نے کہا کہ گدھے میں نہایا نہیں جا سکتا۔ آج تک ہمارے ہاں گدھے سے کوئی خاص کام نہیں لیا گیا، صرف دوسروں کو گالی دینے کے کام ہی آتا ہے۔ شادی پر بھی ہم گھوڑوں پر بیٹھتے ہیں۔ گدھے پر اس لیے نہیں بیٹھتے کہ لڑکی والوں کو دولہا پہچاننے میں دشواری نہ ہو۔ ہمارے ایک مشہور صحافی احمد بشیر صاحب کے گھر میں تصویر ہے جس میں موصوف گدھے پر بیٹھے ہوئے ہیں، ان کی بچیاں ہر آنے والے کو بتاتی رہتی ہیں کہ انکل ان میں جو اوپر بیٹھے ہیں وہ ہمارے ابو ہیں۔

    گدھوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ بیس سال بعد بھی بولیں پھر بھی ڈھینچوں ڈھینچوں ہی کریں گے اور یہ وہ دنیا کی ہر زبان میں کرسکتے ہیں۔ اس لیے امریکہ جا کر انہیں زبان کا مسئلہ بھی پیدا نہ ہوگا۔ پھر گدھوں کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ بغیر پاسپورٹ کے امریکہ جا سکتے ہیں۔ جب سے یہ خبر آئی ہے، کسی کو گدھا کہہ دو تو وہ سمجھتا ہے امریکہ جانے کی دعا دے رہا ہوں۔ یوں ہماری سیاست کی وجہ سے پہلے جو مقام ’’گھوڑوں‘‘ کو حاصل تھا اب گدھے بھی ان سے پیچھے نہیں رہے۔

    امریکہ میں کوئی چیز اتنی مستقل نہیں جتنی تبدیلی۔ آپ تو وہاں صرف یہ پوچھیں کہ وقت کیا ہوا ہے؟ تو ڈیمو کریٹ اور جواب دیں گے اور ری پبلیکن پارٹی کا بندہ مختلف جواب دے گا۔ ارکان اسمبلی سے پوچھیں تو ۴۳۵ سے زیادہ جواب ملیں گے۔ کسی ماہر فن سے پوچھ لیا تو وہ ۵۰۰ صفحوں کی رپورٹ تیار کردے گا، ڈاکٹر سے پوچھو گے تو نسخہ ہاتھ میں تھما دے گا اور اگر کسی وکیل سے پوچھ لیا تو سو ڈالر کا بل بھی پیش کردے گا۔ شاید اس لیے سٹیونسن نے کہا تھا کہ اگر ری پبلیکن پارٹی والے ہمارے بارے میں جھوٹ بولنا بند کردیں تو ہم بھی ان کے بارے میں سچ بولنا چھوڑ دیں گے۔

    بہرحال یہ واضح ہے کہ امریکیوں کو موٹی کتابیں، پتلی عورتیں اور غیر ملکی گدھے بہت پسند ہیں۔ یوں اگر ہمارے گدھے وہاں جیت گئے تو یہ ہر گدھے کی جیت ہوگی۔ یوں بھائی چارہ بڑھے گا۔ پہلی بار سمجھ آئی کہ بھائی کے ساتھ ’’چارہ‘‘ کا لفظ کیوں لگایا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی ڈر ہے کہ اگر ہمارے گدھے ہار گئے تو انہوں نے دھاندلی کا شور مچا کر امریکہ سر پر اٹھا لینا ہے۔ اگر ان کے سر سے سینگ غائب نہ ہوتے تو سینگوں پراٹھا لیتے اور اسی طرح سڑکوں پر نکل آتے۔ بہرحال ہمیں اس کار خر کو کار خیر سمجھ کر اس میں حصہ لینا چاہیے۔ یہاں کار خر سے مراد خر کی کار یعنی گدھا گاڑی نہیں ہے۔ کسی نے پوچھا کہ گدھا گاڑی اور عام گاڑی میں کیا فرق ہے؟ تو جواب ملا ’’گدھا گاڑی میں گدھا ہمیشہ گاڑی کے باہر ہوتا ہے۔‘‘ کہتے ہیں گدھا مکے سے بھی ہو آئے پھر بھی گدھا ہی رہتا ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ایک تو یہ گدھے واپس پاکستان آئیں گے ہی نہیں کیونکہ یہاں گدھوں کا نہیں گھوڑوں کا دور دورہ ہے اگر وہ واپس آگئے تو پھر وہ یقیناً نرے گدھے ہی ہوں گے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے