Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب کے ساتھ اعراف میں

حزب اللہ

غالب کے ساتھ اعراف میں

حزب اللہ

MORE BYحزب اللہ

     

    الف، آداب عرض کرتا ہوں قبلہ! 

    غالب، جیتے رہو، جیتے رہو۔۔۔ عالم خاکی سے آرہے شاید۔۔۔ کیسے آنا ہوا۔ 

    الف، بس شوق زیارت کھینچ لایا! فرمائیے اس عالم لاہوت میں کیسے بسر ہو رہی ہے۔ 

    غالب، اجی یہاں دھرا کیا ہے! 

    الف، اچھا تو پھر وہی کچھ سنائیے جو آپ پر عالم خاکی میں بیتی۔ 

    غالب، ارے میاں۔۔۔! کیوں بھرے زخم کریدتے ہو۔۔۔ اچھا ہوا قید حیات و بند غم سے رہائی پائی۔ دکھ ہے تو یہ کہ فرشتوں کے لکھے پر ناحق پکڑا گیا ہوں۔ دم تحریر کوئی آدمی تو تھا نہیں کہ برے بھلے پر نگاہ رکھتا۔۔۔ بہرکیف ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہا ہوں۔ 

    الف، بہرحال کچھ تو کہیے کہ اس خاکداں میں دن کیسے کٹے۔ 

    غالب، سننا چاہتے ہو۔۔۔؟ اچھا تو کان دھرو۔۔۔ مگر بیچ میں بولنا مت۔ 

    الف، ارشاد۔۔۔ 

    غالب، عالم دو ہیں، ایک عالم ارواح اور ایک عالم آب و گل۔ قاعدہ یہ ہے کہ عالم آب و گل کے مجرم عالم ارواح میں سزا پاتے ہیں لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالم ارواح کے گنہگار کودنیا میں بھیج کر سزا دیتے ہیں۔ چنانچہ میں آٹھویں رجب ۱۲۱۲ھ مطابق ۱۷۹۷ء میں روبکاری کے واسطے عالم آب و گل میں بھیجا گیا۔ 

    میں قوم کا ترک سلجوقی ہوں۔ دادامیرا ماوراء النہر سے شاہ عالم کے وقت میں ہندوستان آیا۔۔۔ باپ میرا عبداللہ بیگ خاں بہادر لکھنؤ جاکر آصف الدولہ کا نوکر ہوا، پھر حیدرآباد میں نواب نظام علی خاں کا ملازم ہوا۔ وہ نوکری ایک خانہ جنگی کے بکھیڑے میں جاتی رہی۔۔۔ الور کا قصدکیا۔۔۔ مہاراجہ بختیار سنگھ کی رفاقت میں مارا گیا۔۔۔ میرا چچا حقیقی مرہٹوں کی طرف سے اکبر آباد کاصوبہ دار تھا۔ اس نے مجھے پالا۔ میرا حقیقی بھائی بس ایک تھا، وہ تیس برس دیوانہ رہ کر مرگیا۔ 

    میں نے ایام دبستاں نشینی میں شرح ماتہ عامل تک پڑھا، بعد اس کے لہولعب اور آگے بڑھ کر فسق و فجور اور عیش و عشرت میں منہمک ہوگیا۔ فارسی زبان سے لگاؤ اور شعر و سخن کا ذق فطری و طبعی تھا۔ ناگاہ ایک شخص کہ ساسان پنجم کی نسل میں مع ہذا منطق و فلسفہ میں مولوی فضل حق مرحوم کانظیر اور مومن موحد و صوفی صافی تھا، میرے شہر میں وارد ہوا۔۔۔ استاد بے مبالغہ جاما سپ عہد و بزر جمہر عصر تھا۔ 

    میرا قد درازی میں انگشت نما ہے۔ جب میں جیتا تھا تو میرا رنگ چمپئی تھا اور دیدہ ور لوگ اس کی ستائش کیا کرتے تھے۔ اب جب کبھی مجھ کو وہ اپنارنگ یاد آتا ہے تو چھاتی پر سانپ سا لوٹ جاتا ہے، جب داڑھی مونچھ میں بال سفید آگئے، تیسرے دن چیونٹی کے انڈے گالوں پر نظر آنے لگے۔ اس سے بڑھ کر یہ ہوا کہ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ ناچار مسی بھی چھوڑدی اور داڑھی بھی، مگر یہ بھی یاد رکھیے کہ اس شہر میں ایک وردی عام ہے۔ ملا، حافظ، بساطی نیچہ بند، دھوبی، سقے، بھٹیارہ، جولاہا، کنجڑا منہ پر داڑھی رکھتا ہے سر پر بال۔ فقیر نے جس دن داڑھی رکھی اسی دن سرمنڈایا۔ 

    مغل بچے غضب ہوتے ہیں جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔ میں بھی مغل بچہ ہوں۔ عمر بھر میں ایک بڑی ستم پیشہ ڈومنی کو میں نے بھی مار رکھا تھا۔ میں جب بہشت کا تصور کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اگر مغفرت ہوگی اور ایک حور اور قصر ملے گا۔ اسی میں اقامت جاودانی اور اسی ایک نیک بخت کے ساتھ زندگانی ہوگی تو اس تصور سے جی گھبراتا ہے، کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ وہ حور اجیرن ہوجائے گی۔ طبیعت کیوں نہ گھبرائے گی وہ زمردیں کاخ اور طوبی کی ایک شاخ چشم بددور وہی ایک حور۔۔۔ 

    تیرہ برس حوالات میں رہا، ۷رجب ۱۲۲۸ھ کومیرے واسطے حکم دوام حبس صادر ہوا۔ ایک بیڑی میرے پاؤں میں ڈال دی اور دلی شہر کو زنداں مقرر کیا۔۔۔ مگر نظم و نثر کو مشقت ٹھہرایا۔ برسوں کے بعد اس جیل خانے سے بھاگا۔ تین برس بلاد شرقیہ میں پھرتا رہا۔ پایان کار مجھے کلکتے سے پکڑلائے اور پھر اسی مجلس میں بٹھادیا۔ جب دیکھاکہ قیدی گریزپا ہے دوہتھکڑیاں اور بڑھادیں۔ نہ جزا نہ سزا، نہ نفریں نہ آفریں، نہ عدل نہ ظلم، نہ لطف نہ قہر، ایک زمانے میں دن کو روٹی رات کو شراب ملتی تھی۔ پھر صرف روٹی ملے جاتی تھی شراب نہیں۔ کپڑا ایام تنعم کا بنا ہوا تھا۔ اس کی کچھ فکر نہیں کی، ناداری کے زمانے میں جس قدر اوڑھنا بچھونا گھر میں تھا سب بیچ بیچ کر کھالیا گویا اور لوگ روٹی کھاتے تھے اور میں کپڑا کھاتا تھا۔ بے رزق جینے کا ڈھب مجھ کو اسی لیے آگیا ہے۔ رمضان کا مہینہ روزہ کھا کھاکر کاٹا کرتا تھا۔ آئندہ خدا رازق ہے کچھ اور کھانے کو نہ ملتا تو غم تو تھا۔ بس ایک چیز کھانے کو ہو چاے غم ہی ہو تو کیا غم ہے۔ 

    ایک بار میں بیمار ہوگیا تھا۔ بیمار کیا ہوا توقع زیست کی نہ رہی۔ قولنج اور پھر کیا شدید کہ پانچ پہر مرغ بسمل کی طرح تڑپاکیا۔ آخر عصارۂ ریوند اور ارنڈی کا تیل پیا۔ اس وقت تو پچ گیا مگر قصہ قطع نہ ہوا۔ دس دن میں دوبار آدھی آدھی غذا کھائی، گویا دس دن میں ایک بار غذا تناول فرمائی۔ گلاب اور املی کا پنا اور آلوبخارے کا افشردہ اس پر مدار رہا۔ 

    ایک برس تک عوارض فساد خون میں مبتلا رہا۔ بدن پھوڑوں کی کثرت سے سروچراغاں ہوگیا۔ طاقت نے جواب دے دیا۔ دن رات لیٹا رہتا تھا۔۔۔ سر سے پاؤں تک بارہ پھوڑے، ہر پھوڑے پر ایک زخم، ہر زخم پر ایک غار۔ ہر روز بلامبالغہ بارہ تیرہ پھائے اور پاؤ بھر مرہم درکار۔۔۔ اورشب و روز بے تاب۔۔۔ اگر کبھی آنکھ لگ گئی دوگھڑی غافل رہاہوں گا کہ ایک آدھ پھوڑے میں ٹیس اٹھی۔ جاگ اٹھا تڑپا کیا پھر سوگیا پھر ہوشیار ہوگیا۔۔۔ ۱۲۷۷ھ میں میرانہ مرنا صرف میری تکذیب کے واسطے تھا، مگران تین برس میں ہر روزمرگ نوکا مزا چکھتا تھا۔۔۔ کتاب سے نفرت، شعر سے نفرت، جسم سے نفرت، روح سے نفرت۔۔۔ جتنا خون بدن میں تھا بے مبالغہ آدھا اس میں سے پیپ بن کر نکل گیا۔ سن کہاں تھی جو پھر تولیدصالح ہوتی۔ بہرحال زندہ تھا۔ میاں ۱۲۷۷ھ کی بات غلط نہ تھی مگر میں نے وبائے عام میں مرنا اپنے لائق نہ سمجھا۔ واقعی اس میں میری کسر شان تھی۔ 

    سترہ بہترہ (اردو میں ترجمہ پیر خزف) میری تہتر برس کی عمر ہوئی پس میں اخرف ہوا۔ حافظہ گویا کبھی تھا ہی نہیں، سا معہ باطل بہت دن سے تھا۔ رفتہ رفتہ وہ بھی حافظہ کے مانند معدوم ہوگیا۔ پھر یہ حال تھا کہ جو دوست آتے رسمی پرسشِ مزاج سے بڑھ کر جوبات ہوتی وہ کاغذ پر لکھ دیتے۔ غذا مفقود تھی صبح کو قند اور شیرہ بادام مقشر۔ دوپہر کو گوشت کا پانی، سر شام تلے ہوئے چار کباب، سوتے وقت پانچ روپے بھر شراب، اسی قدر گلاب۔۔۔ اخرف ہوں، پوچ ہوں، عاصی ہوں، فاسق ہوں، روسیاہ ہوں۔ یہ شعر میری تقی میر کامیرے حسب حال ہے۔ 

    مشہور ہیں عالم میں مگر ہوں بھی کہیں ہم
    القصہ نہ درپے ہو ہمارے کہ نہیں ہم

    میں انتہائے عمر ناپائیدار کو پہنچ کر آفتاب لب بام اور ہجوم امراض جسمانی اور آلام روحانی سے زندہ درگور تھا۔ کچھ یاد خدا بھی چاہیے تھی۔ نظم و نثر کی قلمروکا انتظام ایزد دانا و توانا کی عنایت و اعانت سے خوب ہوچکا، اگر اس نے چاہا تو قیامت تک میرا نام و نشان باقی اور قائم رہے گا۔ 

    غالب بقول حضرت حافظ زفیض عشق
    ثبت است برجریدۂ عالم دوام ما
    (ٹھنڈی سانس)

    اور یہ تھا میرا مرنا جینا۔ 

     

    الف، حق مغفرت کرے۔ 

    غالب، کچھ اور بھی پوچھنا چاہتے ہو؟

    الف، اجازت ہو تو۔۔۔ 

    غالب، اچھا تو پوچھ لو۔۔۔ مگر جلدی کرنا۔۔۔ کیونکہ ابھی تک یک جان بے نوائے اسد کو ہزاروں آفتیں جھیلنی ہیں۔۔۔ میں دشت غم میں آہوئے صیاد دیدہ ہوں۔ 

    الف، ہاں تو یہ بتائیے اگر زحمت نہ ہو کہ یہ قید وید کا کیا قصہ تھا۔ 

    غالب، کوتوال دشمن تھا اور مجسٹریٹ ناواقف فتنہ گھات میں تھا اور ستارہ گردش میں باوجود یکہ مجسٹریٹ کوتوال کاحاکم ہے، میرے باب میں وہ کوتوال کا محکوم بن گیا اور میری قید کا حکم صادر کردیا۔ سیشن جج باوجود یکہ میرا دوست تھا۔ اس نے بھی اغماض اور تغافل اختیار کیا۔ صدر میں اپیل کیا گیا مگر کسی نے نہ سنا اور وہی حکم بحال رہا۔ پھر معلوم نہیں کیا باعث ہوا کہ جب آدھی میعاد گزر گئی تو مجسٹریٹ کو رحم آیا اور صدر میں میری رپورٹ اور وہاں سے حکم رہائی کاآگیا۔ اور حکام صدر نے ایسی رپورٹ بھیجنے پر اس کی بہت تعریف کی۔۔۔ سنا تھاکہ رحم دل حاکموں نے مجسٹریٹ کو بہت نفرین کی تھی۔ اور میری خاکساری اور آزادہ روی سے اس کو مطلع کیا تھا، یہاں تک کہ اس نے میری رہائی کی رپورٹ بھیج دی، اگرچہ میں ہر کام کو خدا کی طرف سے سمجھتا ہوں اور خدا سے لڑا نہیں جاسکتا۔ 

    الف، (ٹھنڈی آہ بھر کر) ہونہہ کیسے دکھ کی بات ہے۔۔۔ آپ ایسا شاعر اور قید خانہ کی ذلت! 

    غالب، بھلا دکھ کیسے نہ ہوتا، سرکار انگریزی میں بڑا پایہ رکھتا تھا رئیس زادوں میں گناجاتا تھا۔ پورا خلعت پاتا تھا، پھر بدنام ہوگیا اور ایک بڑادھبہ لگ گیا۔ کسی ریاست میں دخل کر نہیں سکتاتھا۔ مگر ہاں! استاد یا پیر مداح بن کر رسم وارہ پیدا کرتا۔۔۔ میری یہ آرزو تھی کہ دنیا میں نہ رہوں۔ روم ہے، مصر ہے، ایران ہے، بغداد ہے۔ یہ بھی جانے دو کعبہ آزادوں کی جائے پناہ ہے اور آستانۂ رحمتہ اللعالمین دلدادوں کی تکیہ گاہ ہے۔۔۔ یہ ہے جو کچھ کہ مجھ پر گزرا ہے۔۔۔ اور یہ ہے جس کا میں آزرو مند ہوں، 

    رازدانا غم رسوائی جاوید بلاست 
    بہر آزار غم از قید فرنگم نہ بود

    جو راعداء دو ازدل بہ رہائی لیکن 
    طعن احباب کم از زخم خدنگم نہ بود

    الف، آپ نے غدر کے متعلق کچھ نہ کہا۔۔۔ ہنگامہ تو ایسا نہ تھا کہ آپ اسے بھول گئے ہوں! 

    غالب، غدر کی باتیں کیا پوچھتے ہو، لو سنو! مئی ۱۸۵۷ء میں ملک نے یہ فتنہ اٹھایا۔ اامئی کو پہر دن چڑھے وہ باغی فوج میرٹھ سے دلی آئی تھی۔ یا خود قہر الٰہی کا پے درپے نزول ہوا تھا۔ بقدر خصوصیت دلی ممتاز تھی ورنہ سرتا سر قلمروہند فتنہ و بلا کا دروازہ باز تھا (لیکن دلی کب تک محفوظ رہتی) پھر جو احکام دلی میں صادر ہوئے وہ احکام قضا و قدر تھے، ان کا مرافعہ کہیں نہیں، اب یوں سمجھ لو کہ نہ ہم کبھی کہیں کے رئیس تھے نہ جاہ و حشم رکھتے تھے نہ پنشن رکھتے تھے۔ 

    الف، غدر میں آپ کا بھی کچھ لٹا؟

    غالب، غدرمیں میرا گھر نہیں لٹا مگر میرا کلام میرے پاس کب تھا کہ نہ لٹا۔ بھائی ضیاء الدین احمد صاحب اور ناظر حسین مرزا صاحب ہندی و فارسی نظم و نثر کے مسودات مجھ سے لے کر اپنے پاس جمع کرلیا کرتے تھے سو ان دونوں گھروں پر جھاڑو پھر گئی۔ نہ کتاب رہی نہ اسباب رہا، پھر میں اپنا کلام کہاں سے لاتا۔ اس ہنگامے میں کچھ گورے میرے مکان میں بھی گھس آئے تھے۔ مگر انہوں نے اپنی نیک خوئی سے گھر کے اسباب کو بالکل نہیں چھیڑا۔ مگر مجھے اور میرے دونوں بچوں کو اور دو تین نوکروں کو مع چند ہمسایوں کے کرنل براؤن کے روبرو جو میرے مکان کے قریب حاجی قطب الدین سوداگر کے گھر میں مقیم تھے، لے گئے۔ کرنل براؤن نے بہت نرمی اور انسانیت سے سارا حال پوچھا اور رخصت کردیا۔ 

    ۱۸۵۸ء میں امن ہوا۔۔۔ حکم ہوا کہ ایام غدر میں تم باغیوں سے اخلاص رکھتے تھے اب گورنمنٹ سے کیوں ملنا چاہتے ہو۔۔۔ دوسرے دن میں نے انگریزی خط ان کے نام لکھواکر ان کو بھیجا۔ مضمون یہ کہ باغیوں سے میرا اخلاص مظنۂ محض ہے۔۔۔ تحقیقات فرمائی جائے تاکہ میری صفائی اور بے گناہی ثابت ہو۔۔۔ فروری ۱۸۶۰ء میں پنجاب کے ملک سے جواب آیا کہ لارڈ صاحب فرماتے ہیں ہم تحقیقات نہ کریں گے بس یہ مقدمہ طے ہوا اور بار اور خلعت موقوف، پنشن مسدود۔۔۔ وجہ لامعلوم۔۔۔ دوشنبہ ۲مارچ ۱۸۶۳ء کو سواد شہر مخیم خیام گورنری ہوا۔ آخر روز میں اپنے شفیق قدیم جناب مولوی اظہار حسین خاں بہادر کے پاس گیا۔ اثنائے گفتگو میں فرمایا کہ تمہارا دربار اور خلعت بدستور بحال اور برقرار ہے۔ 

    کارساز مابفکر کار ما 
    فکر مادر کارما آزار ما

    شنبہ ۳مارچ کو ۱۲بجے نواب لفٹنٹ گورنر بہادر نے مجھ کو بلایا۔ خلعت عطا کیا اور فرمایا کہ لارڈ صاحب بہادر کے یہاں کا دربار اور خلعت بھی بحال ہے۔ 

    الف، الحمدللہ! لیکن غدر کے بعد دہلی کا کیا نقشہ تھا؟

    غالب، بھائی کیا پوچھتے ہو۔۔۔ دلی کی ہستی منحصر کئی ہنگاموں پر ہے۔ قلعہ، چاندنی چوک، ہر روز مجمع جامع مسجد کا، ہر ہفتے سیر جمناپل کی، ہر سال میلہ پھول والوں کا۔۔۔ یہ پانچوں باتیں نہیں رہیں تھیں پھر کہو دلی کہاں۔۔۔ ایک دن میں سوار ہوکر کنوؤں کا حال دریافت کرنے گیا تھا مسجد جامع سے راج گھاٹ دروازے تک بلامبالغہ ایک صحرا لق و دق تھا۔ اینٹوں کے ڈھیر جو پڑے تھے وہ اگر اٹھ جاتے تو ہوکا مکان ہوجاتا۔ یاد کرو مرزا گوہر کے باغیچے ے اس جانب کو کئی بانس نشیب تھا، پھر وہ باغیچہ صحن کے برابر ہوگیا یہاں تک کہ راج گھاٹ کا دروازہ بند ہوگیا فصیل کے کنگورے کھلے ہوئے تھے باقی سب اٹ گیا۔۔۔ پنجابی کٹرہ۔۔۔ دھوبی واڑہ، رام جی گنج، سعادت خاں کاکٹرہ، جرنیل کی بی بی کی حویلی، رام جی داس گودام والے کے مکانات، صاحب رام کا باغ و حویلی ان میں سے کسی کا پتہ نہیں ملتا۔ زنہار کبھی یہ گمان نہ کیجیے گا کہ دہلی کی عملداری میرٹھ اور آگرہ اور بلاد شرقیہ کی مثل ہے۔ یہ پنجاب احاطہ میں شامل ہے نہ قانون نہ آئین۔ جس حاکم کی جو رائے میں آئے وہ ویسا کرے۔ 

    ۷نومبر ۱۴جمادی الاول، سال حال جمعہ کے دن ابوالظفر سراج الدین بہادر شاہ قید فرنگ و قید جسم سے رہا ہوگئے۔۔۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔۔۔ پھر کہو دلی کہاں۔۔۔ قصہ مختصر شہر صحرا ہوگیا اور اب جو کنویں جاتے رہے اور پانی گوہر نایاب ہوگیا تو یہ صحرا صحرائے کربلا ہوجائے گا۔ اللہ اللہ دلی والے وہاں کی زبان کو اچھا کہتے تھے۔ واہ رے حسن اعتقاد بندۂ خدا، اردو بازار نہ رہا اردو کہاں؟ دلی کہاں؟ واللہ شہر نہیں کیمپ رہ گیا تھا چھاؤنی تھی، نہ قلعہ نہ شہر نہ بازار نہ نہر۔۔۔ 

    الف، عدالتی کاروائیاں اس زمانہ میں کیسی رہیں؟

    غالب، کہہ تو دیا نہ قانون نہ آئین، جس حاکم کی جو رائے میں آئے وہ ویسا کرے۔ سنو حافظ ممو بے گناہ ثابت ہوئے۔ رہائی پائی۔ حاکم کے سامنے حاضر ہوا کرتے تھے۔ املاک اپنی مانگتے تھے۔ قبض و تصرف ان کا ثابت ہوچکا تھا صرف حکم کی دیر تھی۔ ایک دن جو حاضر ہوئے مسل پیش ہوئی حاکم نے پوچھا، ’’حافظ محمد بخش کون؟‘‘ عرض کیا کہ ’’میں!‘‘ پھر پوچھا کہ ’’حافظ ممو کون؟‘‘ عرض کیا، ’’میں۔۔۔ اصل نام محمد بخش ہے، ممو کرکے مشہور ہوں۔۔۔‘‘ فرمایا، ’’یہ کچھ بات نہیں حافظ محمد بخش بھی تم، حافظ ممو بھی تم، سارا جہان بھی تم، جو دنیا میں ہے وہ بھی تم، ہم مکان کس کو دیں۔۔۔‘‘ مسل داخل دفتر ہوئی۔ میاں ممو اپنے گھر چلے آئے۔۔۔ پھر کہو دلی کہاں۔۔۔ دلی کہاں۔۔۔ دکھ درد کی برسات تھی۔ 

    برسات کا نام آگیا۔۔۔ لو پہلے تو مجملاً سنو ایک غدر کالوں کا، ایک ہنگامہ گوروں کا۔ ایک فتنہ انہدام مکانات کا، ایک آفت وبا کی۔ ایک مصیبت کال کی، پھر برسات جمیع حالات کی جامع ہے، اکیسواں دن تھا آفتاب اس طرح گاہ گاہ نظر آجاتا تھا جس طرح بجلی چمک جاتی ہے۔ رات کو کبھی کبھی تارے اگر دکھائی دیتے تو لوگ جگنو سمجھ لیتے۔ اندھیری راتوں میں چوروں کی بن آئی، کوئی دن نہیں ہوتا کہ دوچار جگہ کسی چوری کا حال نہ سناجاتا۔ مبالغہ نہ سمجھنا ہزارہا مکان گر گئے، سیکڑوں آدمی جابجا دب کر مرگئے، گلی گلی ندی بہہ رہی تھی، قصہ مختصر وہ اَن کال تھا کہ مینہ نہ برسا، اناج نہ پیدا ہوا۔ یہ پن کال تھا کہ پانی ایسا برسا کہ بوئے دانے بہہ گئے، جنہوں نے نہیں بویا تھا وہ بونے سے رہ گئے سن لیا دلی کا حال۔۔۔؟ 

    الف، اچھا جانے دیجیے ان باتوں کو، جب دلی والے نہ رہے تو دلی کہاں رہتی سن کر کلیجہ کٹتا ہے۔۔۔ ہاں یہ تو فرمائیے کہ آپ کے مذہبی عقائد کیا تھے کیونکہ اس کے متعلق لوگوں میں گوناگوں چہ می گوئیاں ہو رہی ہیں۔ آپ کو عالم آب و گل کے کچھ لوگ مشرک کہتے ہیں۔ 

    غالب، میرا کیا بگڑا۔۔۔ مشرک وہ ہیں جو وجود کو واجب و ممکن میں مشترک جانتے ہیں۔ مشرک وہ ہیں جو مسلمہ کو نبوت میں خاتم المرسلین کا شریک گردانتے ہیں، مشرک وہ ہیں جو نومسلموں کو ابولائمہ کا ہمسر مانتے ہیں۔ دوزخ ان لوگوں کے واسطے ہے۔۔۔ میں موحد خالص اور مومن کامل ہوں۔ زبان سے لاالہ الا اللہ کہتا ہوں اور دل میں لاموجود الااللہ لامؤثرفی وجود اللہ سمجھے ہوئے ہوں۔ انبیاء سب واجب التعظیم اور اپنے وقت میں سب مفترض الاطاعت تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوئی۔ یہ خاتم المرسلین اور رحمۃ اللعالمین ہیں۔ مقطع نبوت کا مطلع، امامت نہ اجماعی بلکہ من اللہ ہے اور امام من اللہ علی علی السلام ہیں ثم حسن ثم حسین اسی طرح تامہدی علیہ السلام۔ بریں زیستم ہم بریں بگزرم۔ 

    ہاں اتنی بات اور ہے کہ ابائت اور زندقہ کو مردود، شراب کو حرام اور اپنے کو عاصی سمجھتا ہوں۔ اگر مجھ کو دوزخ میں ڈالیں گے تو مجھ کو جلانا مقصود نہ ہوگا بلکہ دوزخ کا ایندھن ہوں گا۔ اور دوزخ کی آنچ کو تیز کروں گا تاکہ مشرکین اور منکرین نبوت مصطفوی اور امامت مرتضوی اس میں جلیں۔ مجھ میں کوئی بات مسلمانی کی نہیں ہے پھر میں نہیں جانتا کہ مسلمانوں کی ذلت پر مجھ کو کیوں اس قدر رنج اور تاسف ہوتا ہے۔۔۔ صوفی صافی ہوں اور حضرات صوفیہ حفظ مراتب ملحوظ رکھتے ہیں۔ گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی۔ شاہ محمد اعظم خلیفہ تھے مولانا فخر الدین صاحب کے اور میں مرید ہوں اس خاندان کا۔ 

    بندہ پرور! میں تو بنی آدم کو، مسلمان ہو یا ہندو یا نصرانی، عزیز رکھتا ہوں۔ اور اپنا بھائی گنتا ہوں، دوسرا مانے یا نہ مانے۔ باقی رہی عزیزداری جس کو اہل دنیا قرابت کہتے ہیں، اس کو قوم اور ذات اور مذہب اور طریق شرط ہے اور اس کے مراتب و مدارج ہیں۔۔۔ میاں کس قصے میں پھنسا ہے۔۔۔ خدا کے بعد نبی اور نبی کے بعد امام یہی ہے مذہب حق اور السلام و الاکرام۔ علی علی کیا کر اور فارغ البال رہا کر۔ غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست۔ 

    الف، خوب۔۔۔!  سنتے ہیں کہ آپ مئے ناب کے بڑے رسیا تھے۔ 

    غالب، آسودہ باد خاطر غالب۔۔۔ کیا ذکر چھیڑا واللہ۔ اک تیر میرے سینے پر مارا کہ ہائے ہائے۔ جب دو جرعے پی لیے فوراً رگ وپے میں دوڑ گئی۔ دل توانا، دماغ روشن ہوگیا۔ چار بوتل شراب تین شیشے گلاب کے توشہ خانے میں موجود ہیں، لیکن اپنا تو یہ خیال ہے کہ، 

    مے سے غرص نشاط ہے کس روسیاہ کو
    اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے 

    الف، واہ واہ۔۔۔ مزہ آگیا۔۔۔ خیر۔۔۔ اور یہ آم وام کی بات کیا تھی، آپ کی دوباتیں توآم سے چپک کر رہ گئیں کہ میٹھا ہو او ربہت ہو۔ 

    غالب، 
    مجھ سے پوچھو تمہیں خبر کیا ہے 
    آم کے آگے نیشکر کیا ہے 

    نہ گل اس میں نہ شاخ و برگ نہ بار 
    جب خزاں آئے تب ہو اس کی بہار

    اور دوڑائیے قیاس کہاں 
    جان شیریں میں یہ مٹھاس کہاں

    نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر 
    کہ دواخانۂ ازل میں مگر

    آتش گل پہ قند کا ہے قوام 
    شیرہ کے تار کا ہے ریشہ نام

    صاحب شاخ و برگ و بار ہے آم 
    ناز پروردۂ بہار ہے آم

    ایک دن میں پلنگ پر لیٹا ہوں کہ ناگاہ چراغ دودمان علم ویقین سید نصیرالدین آیا تو ایک کوڑا ہاتھ میں اور ایک آدمی ساتھ اس کے، سر پر ٹوکرا دھرا، اس پر گھاس ہری بچھی۔ میں نے کہا اہا سلطان العلماء مولانا سرفراز حسین دہلوی دوبارہ رسد۔۔۔ بارے معلوم ہوا کہ وہ نہیں ہیں۔ یہ کچھ اور ہے، فیض خاص نہیں لطف عام ہے، یعنی شراب نہیں آم ہے۔ خیر یہ عطیہ بھی بے خلل ہے بلکہ نعم البدل ہے، ایک ایک کو سربمہر گلاس سمجھا۔ لکور سے بھرا مگر واہ کیسی حکمت سے بھرا ہوا ہے کہ ۶۵گلاس میں سے ایک قطرہ نہیں گرا ہے۔ اچھااب چلتاہوں۔ دیر ہوگئی کہیں غیرحاضری نہ لکھ دیں اور بھگوڑوں میں شامل نہ کردیں۔ آخر فرشتے ہیں انہوں نے پہلے کیا کیا کہ اب خیر کی توقع کروں۔ 

    الف، بس ایک آخری سوال۔۔۔ 

    غالب، کہو کہو۔۔۔ جلدی سے کہہ ڈالو۔۔۔! 

    الف، آپ نے اپنی شاعری اور تصنیف کے متعلق کچھ ارشاد نہیں فرمایا۔ 

    غالب، ہونہہ۔۔۔ اچھا یہ بھی سن لو۔۔۔ خاکسار نے ابتدائے سن تمیز میں اردو زبان میں سخن سرائی کی تھی پھر اوسط عمر میں بادشاہ دہلی کانوکر ہوکر چند روز اسی روش پر خامہ فرسائی کی۔۔۔ نظم و نثر کا عاشق و مائل ہوں۔ ہندوستان میں رہتا تھا مگر تیغ اصفہانی کا گھائل تھا۔ جہاں تک زور چل سکا فارسی زبان میں بہت بکا۔ ایک اردو کا دیوان ہزار بارہ سو بیت کا، ایک فارسی کا دیوان دس ہزار کئی سو بیت کا، تین رسالے نثر کے، یہ پانچ نسخے مرتب ہوگئے پھر سوچا اب اور کیا کہوں گا۔ مدح کاصلہ نہ ملا۔ غزل کی داد نہ پائی۔ ہرزہ گوئی میں ساری عمر گنوائی۔ گیارہویں مئی ۱۸۵۷ء سے ۳۱جولائی ۱۸۵۷ء تک کی روداد نثر میں بہ عبارت فارسی نا آمیختہ بہ عربی لکھی اور وہ ۱۵سطر کے مسطر سے چار جز کی کتاب آگرہ کے مطبع مفید خلایق میں چھپی۔ دستنبو اس کانام رکھا اور اس میں صرف اپنی سرگزشت اور اپنے مشاہدے کے بیان سے کام رکھا۔ زبان فارسی میں خطوں کالکھنا پہلے ہی متروک کردیا تھا۔ پیرانہ سالی اور ضعف کے صدموں سے محنت پر وہی اور جگر کاوی کی قوت مجھ میں نہ رہی۔ حرارت غریزی کا زوال تھا اور یہ حالت، 

    مضمحل ہوگئے قویٰ غالب 
    اب عناصر میں اعتدال کہاں

    (ایک آواز دور سے سنائی دیتی ہے )

    آواز، مرزا اسد اللہ خاں دہلوی حاضر ہووے۔ 

    غالب، اچھا خدا حافظ۔۔۔ عالم آب و گل کے رہنے والوں کو سلام پہنچا دینا۔ 

    الف، ضرور ضرور۔۔۔ انشاء اللہ۔۔۔ مگر زحمت ہوئی آپ کو۔ 

    آواز، مرزا اسد اللہ خاں غالب حاضر ہووئے۔ 

    غالب، حاضر۔۔۔ حاضر (چلتے چلتے ) خدا حافظ۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔ 

    اب کہاں وہ لوگ۔۔۔ چاٹ گئی یہ زمین۔۔۔ 

    مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
    تونے وہ گنج ہاے گراں مایہ کیا کیے 

                                      

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے