گھوڑے کی سواری
باتوں باتوں میں سواریوں کا ذکر چھڑ گیا۔ میرا دوست سید علی گھوڑے کی سواری کا بہت شوقین تھا اور اس نے اعلی درجے کا کمیت گھوڑا رکھ چھوڑا تھا، جس پر وہ صبح شام تفریحی سواری کرتا تھا۔ وہ بولا کہ سواریوں میں سواری گھوڑے کی سواری باقی سب فضول۔ ریل تو دور دراز کے سفر کے لیے موزوں ہے بلکہ موزوں تھی۔ آج کل جنگی ضروریات کے باعث ٹرینوں میں کمی کر دی گئی ہے۔ اس لیے ہر گاڑی میں اتنی بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے کہ آدمی پر آدمی چڑھا ہوا ہوتا ہے اور جب مسافر منزل مقصود پر گاڑی سے اترتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی سے ہاتھا پائی کر کے آیا ہے۔
لاری کی سواری کا بھی یہی حال ہے۔ اس کے خطرات اس قدر واضح ہیں کہ شاعر لوگ اب محفل جاناں کو لاری سے تشبیہ دینے لگ گئے ہیں۔ مثلاً،
موت کا ڈر، دل میں دھڑکن لب پہ آہ
تیری محفل میں ہیں یا لاری میں ہم
اور موٹر سائیکل تو بالکل شیطان کا چرخہ ہے۔ میں جب کسی کوموٹر سائیکل پر سوار دیکھتا ہوں تو دل دھڑکنے لگتا ہے۔ سوار بڑے فخر کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھا یہ شعر گنگناتا ہے،
موٹر لگی ہوئی ہے مرے سائیکل کے ساتھ
پھٹ پھٹ پھٹا پھٹا کیے جا رہا ہوں میں
لیکن دل میں یہ خیال کر رہا ہوں کہ یہ شخص گھر سے خود کشی کا ارادہ کر کے نکلا ہے۔
اور معمولی سائیکل تو ایک لعنت ہے۔ اس کے جی میں آئے تو آپ کو میلوں لیے جائے اور بگڑ بیٹھے تو آپ کو کندھے پر اٹھا کر بیمار سائیکلوں کے شفا خانے تک پہنچایئے۔
اور پھر یہ ساری سواریاں خاص سڑک اور معین راستے کی محتاج ہیں۔ گھوڑے ان چیزوں سے بے نیاز ہیں۔ فرض کیجئے کہ آپ موٹر سائیکل یا بائیسکل پر جا رہے ہیں اور آپ کا کوئی دشمن بھی اسی قسم کی سواری پر آپ کا تعاقب کر رہا ہے تو آپ یقیناً خطرے میں ہیں۔ کہیں نہ کہیں وہ آپ کو جالے گا۔ لیکن اگر آپ گھوڑے سوار ہیں اور آپ کا دشمن کسی پہیہ دار سواری پر آپ کا پیچھا کر رہا ہے تو آپ گھوڑے کی باگ موڑیے اور سڑک چھوڑ کر کھیتوں کی طرف ہو جایئے۔ کیا مجال کہ دشمن کی موٹر یا موٹر سائیکل یا بائیسکل آپ کی گرد کو چھو سکے۔ اور پھر گھڑ سوار کا وقار کو تو دیکھیئے۔ گھوڑے پر سوار آدمی ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے شہزادہ۔ مختصر یہ کہ گھوڑا ایک بادشاہی سواری ہے بادشاہی۔
سید علی کی باتیں سن کر میرے دل میں بڑا اشتیاق پیدا ہو گیا کہ میں بھی گھوڑے کی سواری سیکھوں۔ میں پہلی جنگ کے سلسلہ میں ایک فوجی موٹر کمپنی کا بابو تھا۔ میں نے موٹر کمپنی میں رہ کر موٹر ڈرائیوری نہ سیکھی اور جس طرح ملاح کا حقہ کبھی تازہ نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ یہی خیال کرتا رہتا ہے کہ دریا میں تو ہوں ہی۔ جب چاہوں گا حقے کا پانی بدل لوں گا۔ اس طرح میں بھی خیال کرتا رہا کہ جب چاہوں گا، موٹر ڈرائیوری سیکھ لوں گا۔ حتی کہ میں ایک رسالے میں تبدیل ہو گیا۔ یہاں اعلی سے اعلی گھوڑے میسر تھے۔ لیکن میں وہاں بھی ملاح ہی بنا رہا اور گھوڑے کی سواری نہ سیکھ سکا۔ سید علی کی باتیں سننے کے بعد میں اپنے آپ کو مطعون کرنے لگا کہ موٹر ڈرائیوری نہیں تو نہ سہی، گھوڑے کی سواری تو سیکھ لی ہوتی۔
جب میں نے اپنی اس محرومی کا ذکر سید علی سے کیا تو اس نے کہا کہ موٹر ڈرائیوری سیکھ کے کیا کرتے؟ یہی فائدہ ہوتا نا کہ اگر خدا کبھی آپ کو موٹر کار دے دیتا تو ڈرائیور نہ رکھنا پڑتا۔ لیکن میں تو پہلے عرض کر چکا ہوں کہ یہ سب چیزیں گھوڑے کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔ موٹر کار شاندار اور تیز رفتار سواری ہی سہی لیکن اگر سڑک پر کہیں اجاڑ بیا بان میں موٹر بگڑ جائے یا پٹرول ختم ہو جائے تو لاوارثوں کی طرح سڑک پر ہی ڈیرے ڈالنے پڑیں گے تا آنکہ کہیں سے مدد پہنچ جائے۔ گھوڑے کو دیکھو، نہ اس کا کوئی پرزہ خراب ہو نہ تیل ختم ہو اور پنکچر ہو جانے کا تو ذکر ہی کیا ہے۔
اب باتوں سے میرا اشتیاق اور بھی بڑھا اور میں نے دل میں عہد کر لیا کہ گھوڑے کی سواری ضرور سیکھوں گا اور وہ بھی سید علی کے گھوڑے پر، سید علی کے سائیس سے اور سید علی سے پوشیدہ طور پر۔ مجھے معلوم تھا سید علی ایک ہفتے کے لیے اپنے سسرال جا رہا ہے۔ میں نے اپنا پروگرام بنا لیا۔
جس دن سید علی روانہ ہو گیا، اسی دن میں اس کے سائیس کے پاس گیا۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھے چار پانچ دن میں گھوڑے کی سواری سکھا دو۔ تمھیں پانچ روپے دوں گا۔ لیکن سید علی کو اس بات کا پتہ نہ چلے۔ سائیس مان گیا۔
سید علی سے اس بات کو چھپانے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ سید علی کی واپسی پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اونہہ آگیا ہے بڑا گھڑ سوار، کیا ہم گھوڑے پر چڑھنا جانتے نہیں؟ ہم نے یونہی کسر نفسی کی تھی کہ ہمیں گھوڑے پر چڑھنا نہیں آتا۔ آؤ، اگر ہمت ہے تو مقابلہ کر لو۔
پانچ روپیہ کا نام سن کر سائیس کی باچھیں کھل گئیں اور اس نے کہا کہ کل تیسرے پہر اصطبل میں تشریف لائیے۔ وہاں آپ کو سواری سکھائی جائے گی۔ میں نے کہا کہ تعلیم کے دوران میں اصطبل کا دروازہ بند رہنا چاہیے تا کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ کوئی دیکھے گا تو کیا کہے گا کہ اس شخص کو ابھی تک گھوڑے پر چڑھنا نہیں آیا۔
رات چارپائی پر لیٹے لیٹے میں شیخ چلی کی طرح ہوائی قلعے تعمیر کرنے لگا۔ سواری سیکھ چکنے کے بعد ایک گھوڑا خریدوں گا اور اس پر سوار ہو کر کوچہ و بازار میں پھروں گا تا کہ لوگ میری شہسواری کے قائل ہو جائیں۔ میلے پر جاؤں گا تو گھوڑے پر سوار ہو کر تا کہ گرد و نواح کے دیہات کے لوگ بھی دیکھ لیں کہ میں گھوڑے کا سوار ہوں۔ پھر سسرال جاؤں گا تو گھوڑے پر سوار ہو کر۔ بار بار اپنے سالے سے پوچھوں گا کہ بھئی گھوڑے کو دانہ ڈالا؟ گھاس کو ذرا صاف کر لینا۔ میرا گھوڑا بہت نفاست پسند ہے اور دیکھو زین کہیں دھوپ میں نہ پڑی رہے، اس کا پالش خراب ہو جائے گا وغیرہ۔
خیال کر رہا تھا کہ خیالات کا یہ سلسلہ ٹوٹے تو سو جاؤں لیکن نیند کہاں؟ جس طرح عید کے انتظار میں نیند نہیں آتی، اسی طرح اصطبل کے انتظار میں میری نیند بھی حرام ہو گئی۔ بہر حال آدھی رات کے بعد جا کر کہیں آنکھ لگی اور میں عجیب عجیب خواب دیکھنے لگا۔ الف لیلہ میں پڑھا تھا کہ ایک شہزادہ آوارہ گردی کی حالت میں ایک شہر کے قریب پہنچا۔ شہر کے باہر اسے گھوڑوں، بیلوں، گدھوں اور دیگر مویشیوں کا ایک بھاری گلہ ملا جو اس کو شہر میں داخل ہونے سے رو کنے لگا کیوں کہ یہ جادو کا شہر تھا۔ اور وہاں جو اجنبی جاتا تھا، شہر کی شہزادی اس سے ایک آدھ دن رنگ رلیاں منا کر اسے جادو کے زور سے حیوان بنا دیتی اور شہر سے باہر نکال دیتی تھی۔ یہ سب حیوان اسی طرح عالم وجود میں آئے ہوئے تھے۔
میں نے خواب میں دیکھا کہ میں گھر سے نکل کر اصطبل کی طرف جا رہا ہوں۔ راستے میں مجھے بیس تیس گھوڑے ملے جو مجھے اصطبل کی طرف بڑھنے سے روکنے لگے۔ میں ان کے خوف سے پیچھے کی طرف بھاگا۔ گھوڑوں نے میرا تعاقب کیا تا کہ مجھے گھر تک پہنچا کے چھوڑیں۔ دروازے پر پہنچ کر میرا پاؤں چوکھٹ میں اٹکا اور میں دھڑام سے گر گیا۔ گرنے کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی۔ لاحول والا قوۃ الا باللہ۔ اس کے بعد ہزار کوشش کی لیکن نیند نہ آئی، حتی کہ صبح ہو گئی۔
دن گزر نا محال ہو گیا۔ تصور میں اصطبل، سائیس اور گھوڑا گھوم رہے تھے۔ آخر خدا خدا کر کے وقت مقررہ آپہنچا اور میں گھر سے نکلا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ سامنے سے سائیس گھبرا یا ہوا آ رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ سائیس نے کہا کہ حضور گھوڑا آج عجیب عجیب حرکتیں کر رہا ہے۔ میں آپ کے لیے اس پر زین ڈالنے لگا تھا کہ وہ مجھے کاٹنے کو دوڑا۔ ہزار کوشش کی لیکن اس نے مجھے پاس نہیں پھٹکنے دیا۔ گھوڑا بہت سیانا حیوان ہے۔ وہ شاید سمجھ گیا ہے کہ مالک کی غیر حاضری میں زین کسنے کی کوشش کیوں ہو رہی ہے۔ یہ بہت خطرناک معاملہ ہے۔ اس لیے میری تجویز یہ ہے کہ آپ سواری سیکھنے کا ارادہ ترک کر دیجیے۔
میرا اشتیاق حد سے بڑھا ہو تھا، اس لیے میں نے سائیس سے کہا کہ خدا کے لیے کوئی چارہ کرو۔ سائیس بولا کہ میں کیا چارہ کر سکتا ہوں؟ گھوڑا مانتا ہی نہیں۔ میں نے کہا کہ کسی نہ کسی طرح مناؤ۔ یہ لو اپنے پانچ روپے اور یہ لو آٹھ آنے کی مٹھائی لا کر گھوڑے کو کھلاؤ۔ سائیس نے کہا، مٹھائی؟ واہ حضور! آپ بھی کتنے بھولے ہیں۔ اجی گھوڑے کبھی مٹھائی بھی کھاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اور کیا کھاتے ہیں؟ سائیس نے جواب دیا کہ کیلے، سنگترے، سیب، انگور، ناشپاتی وغیرہ۔ میں نے پانچ روپے کا ایک اور نوٹ نکال کر دیا اور کہا کہ جاؤ اس کو پھل کھلا کر راضی کرو۔ سائیس نے نوٹ تھام کر کہا کہ اب یہ معاملہ کل پر رکھئے۔
رات پھر قیامت کی رات آئی۔ میں سوچنے لگا کہ اگر گھوڑا پھل کھا کر بھی نہ مانا تو کیا ہو گا؟ سواری سیکھے بغیر گزارہ نہیں بلکہ زندگی نہیں۔ گھوڑے کو دفعتاً کیا ہو گیا؟ کیا وہ سمجھ گیا ہے کہ میں سواری کے معاملہ میں اس کے مالک کو چیلنج کر نے والا ہوں؟
دوسرے دن سہ پہر کے بعد اصطبل میں پہنچا۔ سائیس گھوڑے پر زین ڈال رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر بولا کہ حضور پھل کھا کر گھوڑا خوش ہو گیا ہے۔ اب بے تکلف چلے آیئے۔ وہ کان تک نہیں ہلائے گا۔ میں قریب گیا اور سائیس بولا کہ اسی رکاب میں پاؤں رکھ کر سوار ہو جایئے۔ میں نے کہا یہ نہیں ہوسکے گا۔ کوئی سیڑھی لاؤ۔ سائیس نے بہتیرا سمجھایا، چڑھنے کی ترکیب بتائی لیکن میں نے سیڑھی پر اصرار کیا۔ چنانچہ سائیس سیڑھی لے آیا اور سیڑھی گھوڑے کے ساتھ لگا دی۔ میں سیڑھی پر چڑھنے لگا۔ میرا بایاں پاؤں سیڑھی کے سب سے اوپر والے ڈنڈے پر تھااور دائیں ٹانگ گھوڑے پر کہ گھوڑا اچھل پڑا۔ میں ایک لمحے تک ہوا میں معلق رہ کر سیڑھی سمیت زمین پر دھڑام سے گرا اور میری ٹانگ کو ایسی ضرب آئی کہ سائیس نے مجھے اپنے کندھوں پر اٹھا کر گھر پہنچا یا۔ میں ایک مہینہ تک بستر پر پڑا رہا اور اس عرصے میں سید علی میری خبر لینے آیا۔ پوچھنے لگا کہ چوٹ کیسے آئی؟ میں نے جواب دیا کہ سیڑھی سے گر گیا تھا۔
اس دن سے لے کر آج تک میرے دل میں کبھی خیال نہیں ہوا کہ گھوڑے کی سواری سیکھیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.