غل خان
وہ چپ بھی ہوں تب بھی لگتا ہے کہ بول رہے ہیں۔ ایک بار بولیں تو کئی بار سنائی دیتے ہیں۔ لہجہ ایسا کہ کانفرنس کو بھی خانفرنس کہتے ہیں۔ پشتو سے اس قدر محبت کہ انگریزی تک پشتو میں بولتے ہیں۔ بولتے وقت کان، لفظ اور غصہ بہت کھاتے ہیں۔ اگر ان کی بات بہت طویل ہو جائے تو سمجھ لیں وہ اپنی بات کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں۔ انہیں اپنی ہر بات پر اس قدر یقین ہوتا ہے کہ خود کو ’’ولی‘‘ کہتے ہیں۔ بات کے اس قدر پکے کہ جو بات آج کہیں گے، بیالیس سال بعد بھی وہی کہیں گے۔ شاید اس لیے آج بھی وہی بات کر رہے ہیں جو بیالیس سال پہلے کیا کرتے تھے۔
وہ تو جو لطیفہ ایک بات بار سنادیں، پھر جب بھی لطیفہ سنائیں گے وہی سنائیں گے۔ ضیا کے مارشل لاء لگانے پر یہ لطیفہ سناتے کہ ایک شخص گدھے پر چوڑیوں کی گٹھری لیے جا رہا تھا، ایک سپاہی نے روکا اور ڈنڈا مارتے ہوئے پوچھا، اس میں کیا ہے۔ تو اس شخص نے کہا، اگر آپ نے ایک بار پھر یہ ڈنڈا مارا تو پھر اس میں کچھ نہیں ہے۔ وہ زبان سے سوچتے ہیں۔ اس لیے جب بول رہے ہوں تو سمجھ لیں سوچ رہے ہیں۔ غصے میں بول رہے ہوں تو یہی لگتا ہے کہ فائرنگ کر رہے ہیں۔ سنا ہے وہ غصے میں اپنے علاوہ کسی کی بات نہیں سنتے۔ یہ غلط ہے وہ غصے میں اپنی بھی نہیں سنتے۔
اس خاندان میں آنکھ کھولی، جس نے ابھی تک آنکھ نہیں کھولی۔ جیسے میرا دوست ’’ف‘‘ کہتا ہے، مجھ سے تمیز سے بات کرو۔ میرے سات بھائی ہیں اور ان میں سے ایک کشمیری بھی ہے۔ یہ کہتے ہیں، مجھ سے سیاست کی بات ہوش سے کرو۔ میرا باپ ’’گاندھی‘‘ بھی رہا ہے۔ پہلے نیشنل عوامی پارٹی کو بیگم نسیم ولی خان سمجھتے، آج کل نسیم ولی خان کو نیشنل عوامی پارٹی سمجھتے ہیں۔ ان کے والد کی اتنی بڑی ناک تھی کہ دھوپ میں انہیں چھتری کی ضرورت نہ پڑی۔ ناک منہ پر سایہ کیے رکھتی۔ غل خان کی بھی ایسی خوب ناک ہے کہ وہ ناک کی اوٹ میں چھپ سکتے ہیں۔ ان کی تو چھوٹی انگلی بھی بڑی ہے۔ دونوں باپ بیٹوں میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ یہ کہ باپ عمر میں بڑا تھا۔ ان کے کان دیکھ کر بندہ سوچتا کہ قدرت کتنی فیوچر سٹک ہے۔ اس نے اس وقت ایسے کان بنانے شروع کر دیے جب ابھی انسان کے دامن ذہن میں عینک بنانے کا خیال تک نہ آیا تھا۔
اس عمر میں ہیں جس میں وگ کے بال بھی سفید ہوجاتے ہیں۔ لیکن بال سفید ہوئے تو کیا ہوا، عینک تو سیاہ ہے۔ ہم تو یہی کہتے ہیں یا اللہ ایسی چشم بینا عطا فرما کہ دیکھنے کے لیے عینک کی ضرورت نہ پڑے۔ ان کی نظر گاندھی آشرم میں لاٹھی لگنے سے خراب ہوئی۔ تب سے پاکستان کو اسی خراب نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ کام جو دل لگا کر کرنے چاہئیں وہ کام بھی عینک لگا کر کرتے ہیں۔ نہرو جیکٹ پہنتے ہیں، جو اپنی حالت سے واقعی ہی نہرو کی لگتی ہے۔ طویل عرصہ قیوم خان اور آشوب چشم میں مبتلا رہے۔ تاہم اب بھی صحت کا پوچھو تو کہیں گے، Fit. Fighting ہوں۔ ویسے بھی جس پٹھان کا لڑنے کو دل نہ چاہے، یقین کرلیں وہ فٹ نہیں ہے۔ ڈاکٹروں کو اپنی آنکھیں دکھا دکھا کر یہ حالت ہوگئی ہے کہ اب تو جو بھی ملے، اسے آنکھیں دکھانے لگتے ہیں۔ یادداشت کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ یادداشتہ لگتی ہے۔ جب کہ نسیم ولی خان کا حافظہ تو اتنا کمزور ہے کہ ان کے اپنے بیٹے بھی تھے، سوتیلے بیٹے بھی مگر اب ان سے پوچھو کہ سوتیلا کون ہے تو کہیں گی میں بھول گئی ہوں۔
پاکستان بننے سے پہلے وہ کانگریس کے رکن تھے۔ پاکستان بننے کے بعد سے کانگریس ان کی رکن ہے۔ گاندھی جی سے بہت متاثر ہیں۔ گاندھی جی کو غریب رہنے کے لیے بہت خرچ کرنا پڑا۔ ایسے ہی انہیں چپ رہنے کے لیے بہت بولنا پڑتا ہے۔ اپنی پارٹی کو اپنی ذات سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کی پارٹی پر فقرہ کسو تو سمجھتے ہیں کہ ذاتیات پر اتر آئے ہیں۔ ان کی تو پارٹی میں کوئی دوسرا آ جائے تو اسے یوں دیکھتے ہیں جیسے گھر میں کوئی دوسرا آ گیا ہے۔ وہاں تو شیر بازمزاری بھی شیر ہوتا ہے۔ نہ باز، بس مزارعی ہوتا ہے۔ کسی کو معاف نہیں کرتے۔ انہوں نے تو کبھی خود کو معاف نہیں کیا۔ کبھی کبھی اپنی پارٹی کو سیر کرانے لاہور لاتے ہیں مگر وہ ان کے واپس چار سدہ پہنچنے سے پہلے چار سدہ پہنچ چکی ہوتی ہے۔
کہتے ہیں، میں تا حکم ثانی محب وطن ہوں۔ اپنی سیاسی اہلیت و اہلیہ کی وجہ سے پاکستان میں اہم مقام رکھتے ہیں اور یہ اہم مقام چارسدہ ہے۔ والد سے سیاست سے زیادہ باغبانی کا شوق ورثے میں ملا۔ وہ تو باغ باغ ہونا سے مراد وہ باغ ہونا لیتے ہیں۔ ولی باغ میں رہتے ہیں مگر یوں جیسے باغی باغ میں رہنے والے کو ہی کہتے ہیں۔ وہ کسی مہمان کے سامنے چائے کے ساتھ بسکٹ رکھ دیں تو مہمان کو یقین ہو جاتا ہے کہ یا تو یہ بسکٹ اصلی نہیں یا یہ اصلی ’’غل خان‘‘ نہیں۔ وہ سانپ پر لاٹھی نہیں مارتے، لاٹھی پر سانپ مارتے ہیں۔ تقریر میں ضرب الامثال یوں لگاتے ہیں جیسے امثال کو ضرب لگا رہے ہوں۔ کوئی بات سمجھ نہ آئے تو اس کے لیے نسیم اللغات نہیں بیگم نسیم کو دیکھتے ہیں۔ ان کی پارٹی کا نصف بہتر ان کی نصف بہتر ہے۔ گفتگو میں ’’جی‘‘ بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اگر وہ فقرے کے آخر میں جی لگائیں تو سمجھ لیں گھر سے باہر گفتگو کر رہے ہیں۔ گھر میں وہ فقرے سے پہلے جی لگاتے ہیں۔
وہ بیگم نسیم ولی خان کا مردانہ روپ ہیں، لیکن وہ بیگم صاحبہ سے بڑے سیاست دان ہیں۔ پندرہ سولہ سال بڑے ہیں۔ انگلینڈ جا کر جم کر لکھتے ہیں۔ جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہاں اتنی سردی پڑتی ہے کہ بندہ نہ لکھے، پھر بھی جم جاتا ہے۔ اپنے بھائی عبد الغنی خان کی طرح تخلیقی آدمی ہیں۔ وہ تو تاریخ بھی لکھ رہے ہوں تو لگتا ہے تخلیق کر رہے ہیں۔ البتہ ان کی آپ بیتی کم اور اپنے آپ بیتی زیادہ لگتی ہے۔ جیل میں تنہائی اور فرصت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے خدائی خدمت گار تحریک کے دو حصے مکمل کرلیے اور کہا جونہی پھر تنہائی اور فرصت میسر آئی، کتاب کا آخری حصہ مکمل کرلوں گا۔ اس اعلان کے بعد کسی حکومت نے انہیں جیل نہیں بھیجا۔ یاد رہے خدائی خدمت گار اتنی مذہبی پارٹی رہی کہ اس کے سربراہ کا انتخاب براہ راست خدا کے ہاتھ میں ہوتا۔ جس کو سربراہ کی کرسی سے اٹھاتا، خدا ہی اٹھاتا۔
لائبریری اچھی جگہ ہے بس وہاں کتابیں نہ ہوں۔ ویسے کتاب سے رشتہ تب شروع نہیں ہوتا جب آپ کتاب شروع کرتے ہیں بلکہ تب سے شروع ہوتا ہے جب آپ کتاب ختم کرتے ہیں۔ غل خان کتابوں کے پرانے رشتے دار ہیں۔ چپل اور چپل کباب پسند ہیں۔ بڑھاپے میں اتنے جوان ہیں، پتہ نہیں جوانی میں کتنے بوڑھے رہے ہوں گے۔ انہیں غصہ بہت آتا ہے۔ کبھی تو اس بات پر غصہ آجاتا ہے کہ مجھے فلاں بات پر غصہ کیوں نہیں آتا ہے۔ غصہ اتنا غضب ناک کہ وہ تو اپنے ہی غصے سے ڈر کر کانپنے لگتے ہیں۔ بقول پیر پگاڑہ، ایک تو ولی جو ہوتا ہے گرم ہے اور اوپر سے پٹھان یعنی بہت ہی گرم۔
قابل کو کابل کہتے ہیں۔ بھٹو انہیں اس لیے ناپسند نہیں کہ اس کی وجہ سے انہیں اندر جانا پڑا بلکہ اس وجہ سے کہ بیگم نسیم کو باہر آنا پڑا۔ تب سے بیگم نسیم ولی خان باہر ہیں اور خان صاحب اندر۔ کہتے ہیں بھٹو دور میں تقریر پر پابندی تھی۔ حالانکہ یہ درست نہیں، تقریر پر کب پابندی تھی۔ مقرر پر تھی۔ بھارت سے اس کی زبان میں بات کرتے ہیں جب کہ پاکستان سے پشتو میں بات کرتے ہیں۔ ایک بار حکومت نے انہیں بھارت میں پاکستان کا سفیر بھیجنا چاہا تو بھارت کی حکومت نے کہا، ’’آپ کسی پاکستانی کو بھیجیں۔‘‘
ارسطو نے کہا ہے انسان ایک سیاسی جانور ہے۔ پتہ نہیں یہ بات انہوں نے جانوروں سے ملنے کے بعد کہی یا سیاست دانوں سے۔ تاہم غل خان ایسے سیاست دان ہیں۔ ایک سیاست دان کو پتہ چلا کہ غل خان پان کھاتے ہیں نہ سگریٹ پیتے ہیں، شراب سے دلچسپی نہ شباب سے تو اس نے کہا، ’’آپ نے یہ کچھ کرنا ہی نہیں تو پھر سیاست کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ ترقی پسند نذریات کی وجہ سے چل رہے ہیں۔ قوم پرست ہیں۔ ہر وقت آپ وافغان کرتے رہتے ہیں۔ وہ بیگم نسیم ولی کے مزاجی خدا ہیں۔ ان کا مزاج پٹھان کی طرح ہے جو ہینگ لے کر آیا اور چلا چلا کر کہتا، اینگ لے لو۔ جو چپ کرکے گزر جاتا، اسے کچھ نہ کہتا۔ اگر کوئی کہہ دیتا کہ مجھے ہینگ نہیں چاہیے تو خان غصے میں آکر کہتا، خوتم اینگ کیوں نہیں لیتا۔ ہم تمہارے باپ کا نوکر ہے جو تمہاری واسطے اتنی دور سے اینگ لایا ہے۔
غل خان لوگوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھیں نہ رکھیں، جس رگ پر ہاتھ رکھیں وہ ضرور دکھنےلگتی ہے۔ وہ ان سیاست دانوں میں سے ہیں جن کے پاس ہر حل کے لیے ایک ہی مسئلہ ہوتا ہے۔ وہ ہے انا۔ سرحد میں پیدا ہی نہیں ہوئے، سیاست کے لحاظ سے بھی ہمیشہ سرحد پر ہی رہتے ہیں۔ پٹھانوں کا تو محبت کرنے کا انداز بھی اپنا ہوتا ہے۔ وہ تو کہتے ہیں، ’’خاناں وہ ہم کو اتنا اچھا لگتا ہے کہ دل چاہتا ہے اسے گولی مار دوں۔‘‘ سردی گرمی ہر موسم میں گرم۔ ایک زمانہ تھا وہ لطیفہ بھی سنا رہے ہوتے تو لگتا دھمکی دے رہے ہیں۔ مگر اب یہ حال ہے کہ دھمکی بھی دیں تو لگتا ہے لطیفہ سنا رہے ہیں۔ ہم انہیں ضدی تو نہیں کہتے مگر جسے ضدی کہنا ہو، اسے غل خان کہتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.