پیش لفظ، شادی کر لینا ایک نہایت ہی ادنیٰ بلکہ حقیر کام ہے جسے دنیا کا ہر شخص خواہ، وہ کتنا ہی گیا گزرا کیوں نہ ہو بآسانی انجام دے سکتا ہے۔ شادی کرنا چونکہ ایک مذہبی اور شرعی فعل ہے اس لئے شادی کے لئے علمی قابلیت، ذہنی استعداد، وجاہت، صورت شکل وغیرہ کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ یہ قیود صرف اہلکاری، جمعداری وغیرہ کے لئے ہیں، شادی ہرقید سے آزاد اور ہر شرط سے پاک ہے۔
شادی کے لئے دنیا میں پیدا ہونا اور پیدا ہوکر جوان ہو جانا بہت کافی ہے۔ بعض صورتوں میں شادی کے لئے جوان ہونے کی شرط بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ کمسنوں کے علاوہ ضعیف و معمر لوگ بھی شادی کرسکتے ہیں اور کرتے آئے ہیں۔ نتیجتاً شادی کرنے اور کرکے پچھتانے کا عام رواج ہے جو آدام تا ایندم چلا آرہا ہے۔ شادی ہرکس و ناکس کرتا ہے کیونکہ شامتِ اعمال جزومقد رہے اور انسانی زندگی آفات وبلیات سے عبارت ہے۔ انسان خطا ونسیان کا پتلا ہے اور قدرت نے اسے صرف اس لئے پیداکیا ہے کہ وہ زندگی اور پھر زندگی میں ازدواجی زندگی کا مزہ چکھ لے اور کہے کہ،
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
ازدواجی زندگی میں جو لوگ اپنی عمر عزیز کا بڑا حصہ ضائع کرچکے ہیں، انھوں نے اپنے پیچھے آنکھ بند کر کے چلے آنے والوں کے لئے چند اصول لکھ چھوڑے ہیں، انھیں اصولوں کا نام گرہست شاستر ہے۔
اردو زبان میں اب تک کئی گرہست شاستریں لکھی جاچکی ہیں جن کے کئی کئی ایڈیشن چھپنے کے اشتہارات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کے مصنفین کی ازدواجی زندگی خواہ کتنی ہی گئی گزری کیوں نہ ہو معاشی حیثیت سے وہ ضرور بے فکروں میں شمار ہونے لگے ہوں گے اور تھوڑا بہت انکم ٹیکس بھی ادا کرتے ہوں گے لیکن یہ شاستریں اب پرانی ہوچکیں۔ شوہروں اور بیویوں کے طرز فکر اور طرز معاشرت میں معاشی و سیاسی انقلابات نے بڑی تبدیلیاں پیدا کردیں اور اس وقت مارکٹ میں کوئی ایسی گرہست شاستر موجود نہیں جو نو گرفتار شوہروں کے لئے مشعل راہ ہو اور ان کی نجی ضروریات کو پورا کر سکے۔ اسی قومی و ملی ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے زیر نظر مقالہ، نذر ناظرین کیا جارہاہے۔ اہل نظر اس مقالہ کو یقینا کام کی چیز پائیں گے۔ فاعتبرو یا اولی الابصار۔
گرہست شاستر (پہلا حصہ)
(کم عقل شوہر کے لئے)
بنیادی اصول، کسی نے کہا ہے، ’’عورت کا پریم مثل ربر کے ہے جتنا عورت سے پریم کرو وہ اتنا ہی زیادہ بڑھتا پھلتا ہے۔‘‘ اس لئے نوگرفتار شوہروں کو اولین مشورہ یہی دیا جاتا ہے کہ وہ اس پریم کے بارے میں پوری پوری احتیاط برتیں تاکہ یہ ربر زیادہ پھیلنے نہ پائے۔ اکثر گرہست شاستروں میں ہنری ونسنٹ کا مقولہ عموماً نقل کیا گیاہے۔ موصوف کا کہناہے، ’’ایک عالی دماغ عورت کی صحبت ہر مرد کی زندگی کے لئے اچھی چیز ہے۔‘‘
ہماری رائے میں گرہست شاستریں لکھنے والے شوقین، اس مقولہ کو گرہست شاستروں کے لئے چن کر ہنری ونسنٹ کے ساتھ سخت نانصافی کرتے ہیں۔ اس مقولہ کو تو ان کتابوں کی زینت بننا چاہیے جو شادی کی مخالفت میں لکھی جائیں۔ عورت کے ساتھ دماغ اور مزید برآں عالی دماغ کی شرط عائد کرکے ہنری ونسنٹ نے اپنے آپ کو دنیا کا بہترین طنز نگار ثابت کردیا ہے۔
شیخ سعدی کا قول ہے، ’’اس گھر میں خوشی اور خوشحالی ہارنہیں پاسکتی جس سے عورت کے چیخنے چلانے کی آواز باہر آیا کرتی ہو۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ جو چیخے چلائے نہیں اس کے عورت ہونے میں شبہ ہے لیکن اس حقیقت کوجان لینے کے بعد بھی شوہروں کو ہمت اور استقلال سے کام لینا چاہیے اور ازدواجی زندگی میں مبتلا ہونے کے بعد اس امر کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے کہ عورت خواہ خود گھر کے باہر ڈولی یا ڈولے میں چلی جائے لیکن اس کی چیخ، پکار گھر کے باہر نہ جانے پائے۔ غالبؔ نے اس کی بڑی کوشش کی لیکن ان کوششوں کاکوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہوسکا، پس مرحوم نے طے کیا کہ،
ر ہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
موجودہ پرابلم بھرپور دور میں تبدیل مکان کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لئے ہمارے نوجوان شوہروں یا شوہر نما مردوں کو پوری تندہی کے ساتھ عورتوں کے حلق سے ان کی چیخ وپکار مدھم سروں میں نکلوانے کی کوشش کرنی چاہئے بلکہ زیادہ بہتر ہوگا کہ شادی کے بعد وہ ایسے مکان میں رہائش اختیار کریں جو ساؤنڈ پروف ہو یا گھر میں ریڈیو کابھی ہونا ضروری ہے تاکہ نازک موقعوں پر ریڈیو کی آوازکو پردہ کے طورپر استعمال کیاجاسکے۔ متوسط درجہ کے لوگ گرام فون استعمال کرسکتے ہیں۔ ایسے حضرات جو شادی کرنے کی نوبت پر ہوں اپنے مطالبات کی فہرست میں ریڈیو یا گرام فون کا ضرور اضافہ کرلیں۔
زیور اور لباس، یہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ عورتیں، علاوہ اور شوقوں کے لباس اور زیور کی بڑی دلدادہ ہوتی ہیں۔ اس قسم کی بیویوں کے میاؤں کی توجہ ان دو اشتہارات کی طرف مبذول کی جاتی ہے جن میں ریشمی کپڑا ایک روپے گز اور سونا دو روپے تولہ کا مژدۂ جانفزا سنایا گیا ہے۔ کپڑے کی دکان دہلی میں اور سونے کی دکان امرتسر میں ہے۔ ضرورت مند اصحاب نوٹ کرلیں۔ بنظر سہولت ہر دو اشتہارات کی نقلیں بطور ضمیمہ مقالہ کے آخر میں دی جائیں گی۔ لیکن جو حضرات، مقابلہ نگاروں کوان دو فرمس کا کمیشن ایجنٹ سمجھیں گے وہ اپنااس بدگمانی کا خمیازہ بروز حشر خود بھگتیں گے۔
تعریف کس کی کرنی چاہئے، بیویوں کو خوش رکھنے کے لئے پرانی گرہست شاستروں میں یہ ترکیب لکھی گئی ہے کہ شوہر موقعہ بہ موقعہ اپنی بیویوں کی صورت شکل کی تعریف کیا کریں۔ ہوسکتا ہے کہ اب تک یہ نسخہ کارگر ثابت ہوا ہو لیکن نئی قسم کی زوجا ئیں ایسے معمولی ٹوٹکوں سے قابو میں آنے والی چیز باقی نہیں رہیں۔ ان کی ذہنیت یکسر بدل چکی ہیں اور غالباً انھیں کسی نامعلوم ذریعہ سے یہ پتہ چل چکاہے کہ ان کی صورت شکل کی تعریف کرکے مردوں کی عاقبت کافی خراب ہوچکی ہے۔ موجودہ زمانہ میں جن عورتوں کو فلم دیکھنے کا شوق ہے اور یہ شوق سبھی کو ہے، اُن کے سامنے خود ان کی اپنی تعریف کرنے کے مقابلہ میں ان کی پسندیدہ ایکٹرسوں کی تعریف کرنا زیادہ سودمند مانا گیاہے۔ نئے خیالات کی بیویاں اپنے شوہروں کی اس بلندیٔ نظر اور پاکیزگی ذوق کے اظہار پر بڑی خوش ہواکرتی ہیں لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ بیویوں کے سامنے سوائے ایکٹرس کے اور کسی عورت کی تعریف نہ کی جائے ورنہ بجز نقصان اور کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ اب یہ بات عورتیں ہی جانیں کہ اس تضاد خیالی میں ان کی کیا مصلحت ہے۔
ایکٹنگ سیکھنی چاہیے، پچھلے چند برسوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ جو شوہر اداکاری کے فن سے بے بہرہ ہیں وہ ازدواجی زندگی کے محاذ پر ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ اس لئے شوہروں کو تھوڑی بہت ایکٹنگ ضرور سیکھنی چاہیے تا کہ گھر میں مختلف اوقات میں موقعہ محل کی مناسبت سے محبت، خفگی اور رنج و غم کے اظہار میں مدد ملے اور بیوی کو بخوبی متاثر کیا جاسکے۔ میاں بیوی کے اعصابی جنگ اور سرد لڑائی میں فتح اسی کی ہوتی ہے جو حسب موقعہ بہتر ایکٹنگ کرسکے۔
زمانہ اب وہ نہیں جو پہلے تھا، لیکن پہلے بھی حق کو کب فتح نصیب ہوئی ہے۔
پڑوسن کا معاملہ، شوہروں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہر شخص کی ازدواجی زندگی پر کسی نہ کسی پڑوسن کا بلاواسطہ یا بالواسطہ ضرور اثر پڑتا ہے، بیویاں اگر اپنا راز کسی سے کہتی ہیں تو پڑوسن سے۔ میکے کے ’’خفیہ پولیس در آغوش‘‘ لوگوں کے بعد اگر بیویوں کا کوئی مونس و غمخوار ہوتا ہے تو پڑوسن۔ ان کے دکھ درد کا کوئی ساتھی ہے تو پڑوسن۔ غرض یہ کہ ان کے ہر مرض کی دوا پڑوسن ہے۔ کسی نوبت پر ممکن ہے آپ کو یہ شبہ ہونے لگے کہ یہ پڑوسن ہے یا زندہ طلسمات کی بڑے سائز کی شیشی۔ آپ جب بھی گھر میں داخل ہوں گے تو یا تو پڑوسن آپ کی بیوی کے گھٹنوں سے لگی بیٹھی پان چھالیہ سے شوق فرمارہی ہوگی یا خود بیوی پڑوسن کے ہاں غائب ہوںگی۔
یاد رکھئے پڑوسن سرخ خطرہ ہے اور اس کی جناتی موجودگی میں آپ کے اقتدار اور آپ کے دستار فضیلت کی خیر نہیں۔ پس اگر آپ اس خطرے کی بو سونگھ چکے ہیں تو عملی قدم اٹھانے میں دیر نہ کیجئے۔ پڑوسن سے چھٹکارہ پانے کی ایک اور صرف ایک ترکیب ہے، پڑوسن کی کبھی برائی مت کیجئے بلکہ بیوی کے سامنے اس کی تعریفیں شروع کردیجئے۔ دوسرے ہی دن انشاء اللہ آپ کے گھر کا دروازہ پڑوسن پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے گا بلکہ ممکن ہے آپ کے سامنے مکان بدلنے ہی مطالبہ پیش ہوجائے۔
میاں بیوی کی ان بن، میاں بیوی کی ان بن مشہور ہے اور یہ ہوتی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ مثال کے طورپر اگر انور اور اس کی بیوی میں ٹھن جائے تو کئی دنوں تک ٹھنی رہے گی حتیّٰ کہ اس واقعہ جانکاہ کی اطلاع انور کے دوست اکبر کو پہنچے گی۔ اکبر کاجذبۂ دوستی فوراً جوش مارے گا اور وہ انور کے گھر پہنچ کر کسی نہ کسی ترکیب سے دونوں مسخروں میں صلح کرا دے گا اور جب دونوں میں صلح ہو جائے تو چپکے سے انور کے کان میں کہےگا کہ دو دن سے ہمارے گھر میں بھی یہی حال ہے اور میں نے بھی قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک وہ کھانا خود پیش نہ کریں گی میں کچھ نہ کھاؤںگا۔ یہ سن کر انور کو بڑا دکھ ہوگا اور وہ فوراً اپنی بیوی کو اکبر کے ہاں بھیجے گا تاکہ معاملہ کی یکسوئی ہوجائے۔ یہ بالکل سلامتی کونسل کا سا معاملہ ہے۔ سلامتی کونسل میں بھی ساری دنیا کے مدبرین اور سیاس جمع ہوتے ہیں اور وہ اپنے ملک کے سوا باقی تمام ممالک کے نظم ونسق کے بارے میں نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی تجاویز پیش کرتے اور دنیا والوں سے خراج تحسین حاصل کرتے ہیں۔
یہ احمقانہ سلسلہ برسوں سے قائم ہے لیکن بات میاں بیوی کی ان بن کی تھی۔ شادی کے بعد ابتدائی دنوں میں ان بن مطلق نہیں ہوتی کیونکہ یہ فرصت کا مشغلہ ہے۔ اعداد وشمار سے ثابت ہوتا ہے کہ عام طور سے یعنی ۹۰ فیصد سے زیادہ واقعات میں میاں بیوی شادی کے تیسرے سال کے آغاز سے اپنے زندہ رہنے کا ثبوت دیتے ہیں۔ پہلے پل یہ ان بن حرکات و سکنات اور اشاروں کنایوں کی حد تک رہتی ہے اور رفتہ رفتہ ترقی کرکے تیز وتند گفتگو اور طعن و تشنیع کا درجہ اختیار کرتی ہے۔ سپاہی اور پہلوان پیشہ خاندانوں میں یہ ان بن بابو راؤ پہلوان اور مس ناڈیا کے شاندار اور سنسنی خیز فلمی کارناموں کا روپ دھارتی ہے اور بعض سفید پوش لیکن گرم مزاج لوگوں میں یہی ان بن سپرد سشن ہوجایا کرتی ہے۔ اس لئے بزرگوں نے ان بن سے نمٹنے کے اُپائے لکھ دیئے ہیں جن میں سب سے زیادہ مضحکہ خیز اُپائے یہ ہے کہ ان بن ہونے ہی نہ پائے۔
ہم اپنے مقالہ میں ایسی مہمل تجویز لکھ کر ناظرین کا دل نہیں دکھانا چاہتے۔ اس میں شک نہیں کہ عام طور پر میاں بیوی قسم کے لوگوں کو یہ کوشش کرنی چاہئے ان بن نہ ہونے پائے اور اس کی ہمارے نزدیک صرف ایک ترکیب ہے کہ انسان خود کو واٹر پروف بنالے۔
ہم بذات خود ایسے لوگوں سے ملے ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو واٹر پروف بنا لیا ہے اور ہم نے محسوس کیا ہے کہ ایسے لوگ حساس اور رقیق اللقب لوگوں کے مقابلہ میں بدرجہ خوش رہتے ہیں۔ ان کے گھر سے نہ تو بیوی کی آواز باہر نکلتی ہے اور نہ ہی باورچی خانہ کا دھواں لیکن اس کے باوجود ان بن ہونے کے امکانات بالکل ختم نہیں ہوجاتے کیونکہ دنیا کا کوئی گھر خواہ وہ سلامتی کونسل کے پریسڈینٹ کا ہو یا جنرل سکریٹری کا ان بن سے محفوظ نہیں اور اگر کسی گھر میں ایسا نہیں ہوتا تو اسے گھر نہیں ہوٹل سمجھنا چاہیے۔ اس لئے ہم ان بن کو ازدواجی زندگی کا جزو لا ینفک بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں طرہ امتیاز سمجھتے ہیں۔ اس خیال کے تحت ذیل میں ایک عمل درج کیا جاتا ہے جو ان بن کے وقوع پذیر ہونے کے بعد شوہروں کو شروع کرنا چاہئے۔ اس عمل کے نتائج یقینا مفید برآمد ہوں گے، عمل یہ ہے۔
عمل مصالحت، لڑائی کا دن بخیر و خوبی گذرجائے اور رات جب اپنی زلفیں بکھیردے تو شوہر اپنے بستر پر لیٹنے کے بعد پہلے اول کلمہ طیبہ پڑھے اور پھر نہایت خضوع وخشوع کے ساتھ تاریخ عالم کے کسی بڑے ہیرو مثلاً نپولین بوناپارٹ، سکندر اعظم، امیر تیمور، راجہ پورس وغیرہ میں سے اپنی پسند اور یاد کے مطابق کسی ایک کا دھیان کرے اور دل ہی دل میں اس ہیرو کی تعریف کرے کہ واہ کیا جلیل القدر اور عظیم المرتبت آدمی تھا جس نے بڑی سے بڑی آفت کی پرواہ نہ کی اور ایک ہم ہیں کہ صرف ایک ادنیٰ بیوی سے ان بن ہو جانے پر زندگی سے بیزار ہوگئے ہیں۔ تُف ہے ہماری کم ہمتی پر، دیر تک انھیں شرمناک خیالات میں گُم رہے اور سوجائے۔ سوتے میں اگر معدہ کی گڑبڑنے مدد کی تو ضرور عبرت آموز خواب دکھائی دیں گے۔ صبح تڑکے ہی اٹھ بیٹھے اور حوائج ضروری سے فارغ ہونے سے پہلے قبلہ رو کھڑے ہوکر اپنے آپ پر نفریں بھیجے۔
اس عمل کے لئے پانچ منٹ کا وقت کافی ہے۔ جب دل کی بھڑاس نکل جائے تو حوائج ضروری سے فارغ ہو، شوہر خود کو نہایت ہلکا پھلکا محسوس کرے گا۔ بعد ازاں شیو کرے۔ صاف ستھرے کپڑے پہنے، بالوں میں تیل اور آنکھوں میں سرمہ لگائے اور اس دوران میں کوئی تازہ فلمی دھن گنگناتا رہے۔ اس عمل سے شوہر کو اپنے روئیں روئیں میں خوشی کا جذبہ سرایت کرتا محسوس ہوگا۔ جب اطمینانِ کلی ہوجائے کہ وقت آپہنچا تو بیوی کی سمت مسکراکر دیکھے بلکہ ہوسکے تو بتیسی نکالئے۔ یقین واثق ہے کہ بیوی اس نمائش دندانی کا ترکی بہ ترکی جواب دے گی یعنی پہلے وہ شرمائے گی۔ اب آپ کو فوری عملی اقدام کرنا چاہئے۔ عمل پورا ہوگیا جسے ناظرین نسخہ کیمیاء سمجھیں اور عند الضرورت بلا تکلیف استعمال کریں۔
راز کی بات، جہاں ہم نے اتنی بیش قیمت اور انوکھی باتیں بیان کردی ہیں، وہیں ہم ایک راز کی بات ناظرین کو بتادینا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ وہ راز کی بات یہ ہے کہ بیویوں میں خواہ اور کوئی خوبی ہو یا نہ ہو ایک خوبی ضرور ہوتی ہے کہ وہ اپنے شوہروں کو شوہر کے دوستوں کے مقابلہ میں ہمیشہ بھولا بھالا اور معصوم سمجھتی ہیں اور شوہر کی ساری برائیوں کے لئے شوہر کو نہیں شوہر کے دوستوں کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں اور اس عقیدہ پر وہ اپنا ایمان رکھتی ہیں۔ بس یہی ایک بات عورتوں کو سارے قصور معاف کروا دیتی ہے اور ہم مردوں کو اللہ میاں کی مصلحت کا قائل ہوجانا پڑتا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو اتنا سمجھدار بنایا۔ آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ حامد جو آپ کا نہایت ہی قدیم دوست ہے آپ کی بیوی کی نظروں میں اتنا ہی برا ہے جتنے آپ حامد کی بیوی کی نظروں میں برے ہیں لیکن لطف یہ ہے کہ آپ دونوں اپنی اپنی بیویوں کی نظروں میں نہایت سیدھے سادے انسان ہیں۔
بس اس کی کوشش کیجئے کہ بیوی کی یہ غلط فہمی ہمیشہ قائم رہے۔ اگر آپ نے اپنے گھر میں اپنے دوستوں کی پارسائی جتانی چاہی تو آپ جیسا نااہل اور نادان شخص کوئی اور نہ ہوگا لیکن دنیا میں ایسے بھی بدقسمت بستے ہیں جن کی بیویاں الٹی سمجھ رکھتی ہیں اور جو اپنے شوہروں سے کہتی ہیں کہ تم تو تباہ ہوہی چکے اپنے دوستوں کو بھی تباہ کررہے ہو، اس قسم کی دہشت پسند بیویوں سے نمٹنا ذرا مشکل ہے۔ ہم اگر قنوطی ہوتے تو ایسے لوگوں کو صبر وشکر کرنے کا مشورہ دے کر علیحدہ ہوجاتے لیکن یہ بات ہمارے منصب کے شایان شان نہ ہوگی، اس لئے ہم اپنے مقالہ میں ایسے کم نصیب شوہروں کے لئے بھی یہ نسخہ تجویز کرتے ہیں کہ اس قسم کے بیویاں رکھنے والے شوہروں کو بالکل ہی ناامید نہ ہونا چاہئے بلکہ ان کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ وہ ایسے دوست تلاش کریں جو خود ان سے بھی دوچار ہاتھ آگے ہوں۔ جب بیوی پر اپنے شوہر کے نئے دوستوں کا حال کھلے گاتو توقع کی جاسکتی ہے کہ اس کے خیالات میں خاطر خواہ تبدیلی ہوگی کیونکہ عورتوں میں موازنہ کرنے کی صلاحیت ضرور موجود ہوتی ہے اور یہی صلاحیت شوہروں کے حق میں فال نیک ہے۔
دس نکاتی پروگرام، مقالہ ختم کرنے سے پہلے ہم اپنے ناظرین کے لئے ایک دس نکاتی پروگرام پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے ہیں جو شوہر مندرجہ ذیل پروگرام پر عمل کریں گے انھیں کبھی کوئی کشٹ نہ ہوگا۔
(۱) اگرتم ملازم پیشہ ہو تو کبھی بیوی کو نہ بتاؤ کہ تمہاری تنخواہ کیا ہے۔ (۲) گھر میں خاموش رہنے کی عادت ڈالو۔ شادی کے پہلے ہی دن پر یہ ظاہر کرو کہ تم کم سخن ہو، باتیں جتنی کم ہوںگی اتنا ہی سکون ہوگا۔ (۳)جب بیوی کو کہیں ساتھ لے جانا ہو تو اسے کم سے کم چھ گھنٹوں کی مہلت دو۔ (۴) بیوی کی طرف ہمیشہ مسکرا کر دیکھو لیکن اس طرح نہیں کہ اسے شبہ ہوجائے کہ تم اسے احمق سمجھ کر مسکرایا کرتے ہو بلکہ کچھ اس طرح جس سے وہ سمجھے کہ تم خدا کی قدرت کا تماشہ دیکھ کر مسرور ہوتے ہو۔ بہرحال گھر میں ہمیشہ تمہاری باچھیں کھلی رہیں۔ (۵)بیوی سے جب بھی بات کرو تو دھیمی آواز سے گویا قبر کے اندر سے بات کررہے ہو اس کی باضابطہ مشق کرنی چاہئے۔ (۶) بیوی کو بھی خط لکھو تو اپنے خط میں دوچار اشعار ضرور لکھو مثلاً؛
کبھی بھیجا نہ تم نے ایک پرچہ
ہمارے دل کو پرچایا تو ہوتا
یا یہ کہ
تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں
ہم نے تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا
(اگر زندگی نے وفا کی اور غم ایام نے فرصت دی تو شوہروں کے لئے نمونے کے اشعار علیحدہ چھپوائے جائیں گے لیکن یہ کوئی حتمی وعدہ نہیں ہے اس لئے شوقین حضرات اپنے مطلب کے اشعار خود تلاش کرلیں۔) (۷) اپنی بیوی میں دنیا کی خوبیاں مت ڈھونڈو۔ اگر بیوی میں حسن اتفاق سے ایک آدھ بات بھی کام کی نظر آجائے تو اسے غنیمت سمجھ کر اپنی خوش قسمتی پر ناز کرو اور سجدۂ شکر بجالاؤ۔ (۸)اس لمحہ سے ڈرو جب بیوی رونے پر آجاتی ہے کیونکہ بیویوں کو شبنم کی طرح رونا نہیں آتا۔ (۹) شادی کرنے کے بعد اپنی زندگی کا ضرور بیمہ کروالو۔ کیونکہ شادی کے بعد زندگی کا بھروسہ ہی کیا ہے۔ (۱۰) اور آخری نکتہ یہ ہے کہ صبر کرنا سیکھو۔ آدمی جتنا صبر کرے گا اتنا ہی زیادہ مسرور ہوگا۔ حصہ اول ختم ہوا۔ حصہ دوم میں بیویوں کے لئے گرہست شاستر کے اصول و ضوابط بیان کئے جائیں گے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.