گڑ گڑ گڑ آلمون۔ گڑ گڑ گڑ تالمون
آج کئی دن کے بعد اپنے شہر آیا تو سوچا تراویح کی نماز اسی مسجد میں پڑھی جائے جس میں میرے زیادہ تر دوست پڑھتے ہیں۔ مسجد کے باہر دور دور تک صرف بائکوں اور کاروں کا اس طرح ہجوم تھا کہ لگا کہ جیسے مایاوتی کی ریلی میں آیا ہوں، اور ہیلی کاپٹر بس اترنے ہی والا ہے۔ اندر کا نظارہ بھی کچھ کم انقلابی نہیں تھا۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی جس اونچی ٹوپی والے نوجوان پر نظر پڑی اسکو دیکھ کر حیران ہونا لازمی تھا۔ ویسے مجھے حیرانی اسکی ٹوپی کی وجہ سے نہ تھی، بلکہ حیران تو مجھے اس بات نے کر دیا تھا کہ یہ راز بھی آج ہی کھلا تھا کہ وہ نوجوان مسلمان ہے۔ لوگ اپنی بگلوں میں دبائے ہوئے جا نمازیں لائے تھے۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ آگے لائنیں بھر جانے کے بعد خالی جگہ میں صف بنانے کو لائے ہو نگے۔ لیکن مزیدار بات یہ تھی کہ ان جا نمازوں کو بڑے سلیقے سے ہر ایک لائن میں بچھے لمبے فرشوں پر بچھایا گیا تھا۔ کچھ لوگ پنکھے اور کولر کی ہوا کے مطابق معقول جگہ دیکھ کر 8 بجے ہی اپنی جانماز بچھا کر جگہ ریزرو کر گئے تھے۔ لہٰذا جب عشاء کی جماعت کا وقت ہوا تو جتنے لوگ اپنے ریزرو کئے ہوئے پلاٹ تک پہنچ سکے، وہ تو ٹھیک! اور جو ابھی باہر کھڑے سگریٹ پینے کی وجہ سے وقت پر نہ پہنچ سکے انکی جا نمازیں خالی ہی رہیں۔ جماعت کی بیشتر صفوں میں بیچ بیچ میں 2-2, 3-3 جا نمازوں کی جگہ خالی ہی رہی۔ حالانکہ پہلے پہل مجھے خود کا پڑھا ہوا یاد آیا کہ صفوں کی خالی جگہ میں شیطان ہوتا ہے۔ لیکن پھر یہ ’’این ٹینشنل ٹائپ‘‘ خیال جلد ہی چلا بھی گیا۔ شیطان بھلا وہاں کیسے آ سکتا ہے۔ وہ تو پہلے رمضان کو ہی قید جو ہو چکا ہے۔
نماز کے بعد سب نے اپنی اپنی گدی دار جا نمازیں پکڑ لیں۔ اور اس سلیقے سے دور دور ہوکر بیٹھے کہ مجال ہے کہ کوئی دونوں کے بیچ سے گزرے اور دونوں میں سے کسی کو چھو جائے۔ کچھ لوگ ساتھ لائے تھیلے سے فروٹی نکالتے، اور لوگوں کی نظر بد سے بچا کر گٹک جاتے۔ حالانکہ مینجمنٹ کمیٹی نے شربت کا بھی انتظام کیا لیکن اسکا بندوبست ایک چڑچڑے بزرگ کے ہاتھ میں تھا۔ انکی نماز سے بھی زیادہ توجہ اس بات پر موقوف تھی کوئی بچہ دودو بار شربت نہ مار لے جائے۔ سب سے پیچھے کی طرف 4-5 نوجوان ’’دور ہنگامۂ گلزار سے یکسو بیٹھے‘‘ تھے۔ موبائل میں کچھ مل گیا تھا شاید۔ کلف کے کرتے پجامہ والے ایک خان صاحب کو آگے کی صفوں میں جگہ نہ مل سکی تھی، اسلئے پیچھے ہی سیڑھیوں کے پاس جانماز بچھانی پڑی۔ فرش کچھ اکھڑا ہوا تھا وہاں سے۔ خاں صاحب کے نورانی چہرے پر کئی مرتبہ قبض کے سے اثرات نمایا ہوئے۔ جھنجھلاہٹ جان پڑتی تھی۔ کچھ بھی نہیں بدلا، ایک سال بعد تشریف لائے ہیں تب بھی مسجد کی وحی حالت ہے۔ اس پر ذرا ناراضگی تو فطری بات ہے۔
میں نے سوچا کہ مجھے ان سب سے کیا مطلب؟ مجھے تو تراویح پڑھنی ہیں، قرآن سننا ہے، اس پر کانسینٹریٹ کیا جائے۔ اب جو امام صاحب شروع ہوئے ہیں تو جو کچھ سن پایا وہ یہ ہے،
’’گڑ گڑ گڑ آلامون گڑ گڑ گڑ تالامون‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.